سوال و جواب » حج ۔ طواف
تلاش کریں:
۱
سوال: اگر دوران طواف کوئی رو بقبلہ یا پشت بقبلہ ہوجائے اس طرح سے کہ اسکا شانہ دیوار کعبہ سے متوازی نہ رہے اور اس حالت میں کچھ آگے بڑھ گیا ہو کہ واپس آنا ممکن نہ رہے تو اب وہ کیا کرے؟ پورا طواف دوبارہ کرے گا یا صرف اس چکر کو دھرائے گا؟
جواب: اس صورت میں حاجی کو چاہیئے کہ بغیر نیت طواف کہ حجر اسود تک جائے اور وہاں سے نیت طواف کہ ساتھ اس چکر کو دھرائے۔
sistani.org/26596
۲
سوال: کیا کعبہ معظمہ کے گرد بنائے گئے دو منزلہ پل پر حالت اختیار یا حالت اضطرار میں طواف کرنا درست ہے؟اور اس صورت میں نماز طواف کا حکم کیا ہوگا؟
جواب: جہاں تک پل کی پہلی منزل کا تعلقق ہے تو اس پر حالت اختیار میں بھی طواف کیا جا سکتا ہے،البتہ احتیاط واجب یہ ہے کہ طواف واجب اور اسکی نماز کے درمیان موالات(تسلسل بلا فاصلہ) کا خیال رکھا جائے۔ لہذا اگر پل کے اوپر ہی مقام ابراہیمؑ کے پیچہے قریب ہی نماز پڑھنا ممکن ہو جس سے طواف و نماز میں زیادہ فاصلہ نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔
اور دوسری منزل کے بارے میں اگر مکلف کو یقین ہو کے وہ دیوار کعبۃ شریفۃ سے کم بلندی پر ہے چاہے ایک بالشت ہی سہی تو اس پر بھی حالت اختیار میں طواف جائز ہوگا،مگر یہ کہ مکلف کہ لیے یہ ممکن نہ ہو کہ وہ واجب طواف اور اسکی نماز کے درمیان موالات کو باقی رکھ سکے کیونکہ طواف کہ بعدنماز طواف کے لیے دوسری منزل سے مسجد کہ صحن تک آنے میں کافی فاصلہ آجائے گا جو کہ دس منٹ کے معمولی فاصلہ کی طرح نہیں ہوگا لہذا اس صورت میں پل کہ اوپر سے کیا گیا طواف کافی نہیں ہوگا۔
یہ حکم حالت اختیار میں ہے، اور وہ شخص جس کو پل کی اوپر والی منزل پر ہی طواف کرنے پر مجبور کیا جائے(جیسا کہ مریض کہ جو ویل چیئر پر ہوتے ہیں) تو ان کے لیے ایسا طواف جائز ہوگا اور حالت اضطرار میں طواف واجب اور اسکی نماز میں فاصلہ بھی ضرر نہیں رکھتا۔
لیکن اگر مکلف، پل کی اوپر والی منزل کے دیوار کعبہ سے کمتر بلند ہونے (چاہے ایک بالشت ہی سہی) کا یقین نہ رکھتا ہو تو پھر اس پر سے طواف کرنا مجزی و کافی نہ ہوگا، لہذا اگر وہ ان لوگوں میں سے ہو کہ جنہیں ویل چیئر والوں کی طرح اوپر والی منزل سے ہی طواف کرنے پر مجبور کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اوپر والی منزل سے طواف کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو صحن مسجد، یا پہلی منزل سے طواف کرنے کے لیے نائب بھی بنائے۔
sistani.org/25556
اور دوسری منزل کے بارے میں اگر مکلف کو یقین ہو کے وہ دیوار کعبۃ شریفۃ سے کم بلندی پر ہے چاہے ایک بالشت ہی سہی تو اس پر بھی حالت اختیار میں طواف جائز ہوگا،مگر یہ کہ مکلف کہ لیے یہ ممکن نہ ہو کہ وہ واجب طواف اور اسکی نماز کے درمیان موالات کو باقی رکھ سکے کیونکہ طواف کہ بعدنماز طواف کے لیے دوسری منزل سے مسجد کہ صحن تک آنے میں کافی فاصلہ آجائے گا جو کہ دس منٹ کے معمولی فاصلہ کی طرح نہیں ہوگا لہذا اس صورت میں پل کہ اوپر سے کیا گیا طواف کافی نہیں ہوگا۔
یہ حکم حالت اختیار میں ہے، اور وہ شخص جس کو پل کی اوپر والی منزل پر ہی طواف کرنے پر مجبور کیا جائے(جیسا کہ مریض کہ جو ویل چیئر پر ہوتے ہیں) تو ان کے لیے ایسا طواف جائز ہوگا اور حالت اضطرار میں طواف واجب اور اسکی نماز میں فاصلہ بھی ضرر نہیں رکھتا۔
لیکن اگر مکلف، پل کی اوپر والی منزل کے دیوار کعبہ سے کمتر بلند ہونے (چاہے ایک بالشت ہی سہی) کا یقین نہ رکھتا ہو تو پھر اس پر سے طواف کرنا مجزی و کافی نہ ہوگا، لہذا اگر وہ ان لوگوں میں سے ہو کہ جنہیں ویل چیئر والوں کی طرح اوپر والی منزل سے ہی طواف کرنے پر مجبور کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اوپر والی منزل سے طواف کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو صحن مسجد، یا پہلی منزل سے طواف کرنے کے لیے نائب بھی بنائے۔