سوال و جواب » عاق والدین
تلاش کریں:
۱
سوال: عاق یا عقوق والدین سے کیا مراد ہے؟
جواب: عقوق والدین شریعت اسلامی میں عظیم گناہوں میں سے ہے ۔ عقوق والدین مراد اولاد کا اپنے والدین سے کسی بھی طرح کی بد سلوکی کرنا کہ جو ان کے حق میں احسان فراموشی شمار ہو یا انہیں اذیت دینا ہے۔ جبکہ ایسے امور میں ان کی مخالفت کرنا بھی جائز نہیں کہ جن میں اولاد پر انکی شفقت کی وجہ سے انہیں اذیت ہوتی ۔
sistani.org/26734
۲
سوال: کن باتوں یا اعمال کی وجہ سے انسان اپنی اولاد کو عاق کر سکتا ہے؟
جواب: عقوق والدین سے مراد والدین کی نا فرمانی اور انکی ایذاء رسائی ہے اور جو شخص اس حرام کا مرتکب ہو ا اس پر عاق کا مفھوم صدق آئے گا اور اسے چاہئے کے استغفار کرے اور والدین کو راضی رکھے ۔ اس مفھوم میں والدین کے عاق کرنے یا نہ کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے۔
sistani.org/26735
۳
سوال: اگر کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو عاق کردے اور یوں کہے کے میں نے تمھیں عاق کیا تو اس پر کیا اثر مرتب ہوگا ؟ کیا ایسی اولاد والدین کی میراث پائے گی؟
جواب: عاق کرنا کوئی شرعی عقد یا ایقاع نہیں ہے نہ اسکا کوئی شرعی صیغہ ہے کہ جس کی وجہ سے اثر مرتب کیا جائے بلکہ یہ والدین کے افعال میں سے ہے ہی نہیں ۔بلکہ جو شخص والدین کو اذیت دے ،ان سے بد سلوکی کرے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے اور عاق ہوگا لہذا اسے چاہئے کے استغفار کرے اور والدین سے اچھے سلوک کے ساتھ ان کو راضی رکھے ۔
sistani.org/26736
۴
سوال: آیا کوئی شخص اپنے وارثوں میں سے کسی ایک کو محروم کر سکتا ہے ؟ یا اگر باپ اپنے نافرمان بیٹے کو اپنی زندگی میں عاق کرے اور کہے کےمیں نے تمہیں عاق کیا ۔اور یہ بات لوگوں کے سامنے طے کردے کے اسے میراث نہ دی جائے تو کیا حکم ہے؟
جواب: انسان اپنی زندگی میں اپنے اموال میں تصرف کا حق رکھتا ہے اور مرنے کے بعد اسکا مال حسبِ احکام وارثوں کی ملکیت ہوگا ۔اور اگر اس نے وصیت کی ہو تو یہ صرف ایک تہائی حصے میں نافذ ہوگی ۔پس اگر اس نے کسی بیٹے کو وراثت دینے سے منع کیا ہو تو در حقیقت یہ اسکی وصیت ہوگی کہ اسکے مال سے ثلث نکال کر بقیہ وارثوں کو دے دیاجائے۔ البتہ اس ایک تہائی کے علاوہ بقیہ مال میں وہ نافرمان بیٹا بھی وراثت پائے گا۔عقوق والدین عظیم گناہ ہے البتہ عاق کرنا ،یا نہ کرنا والدین کا فعل نہیں، لہذا انکے اختیار میں ہے نہ ہی اسکا وراثت پر کوئی اثر ہے۔
sistani.org/26737
۵
سوال: کیا موانع ارث میں سے عقوق والدین بھی ہے ؟
جواب: نہیں ،عقوق والدین وراثت سے مانع نہیں۔
sistani.org/26738
۶
سوال: کیا ماں یا دادا ،دادی یا دیگر رشتہ دار بھی کسی صورت میں کسی کو عاق کر سکتے ہیں ؟
جواب: عقوق والدین، یعنی اولاد کا ماں باپ سے بد سلوکی اور انکو اذیت دینا ہے جو حرام ہے ۔اور عاق کرنا یا نہ کرنا والدین یا کسی اور رشتہ دار کا فعل نہیں۔
sistani.org/26739
۷
سوال: اگر ایک شخص جانتا ہو کہ اس کے بیرون ملک سفر کرنے پراسکے والد دل سے راضی نہیں ہیں مگر ان کی عدم رضایت کو انکی زبان سے نہ سنا ہو۔تو کیوں کہ وہ اس سفر میں اپنی مصلحت دیکھتا ہو تو آیا اسکے لئے جائز ہے کہ وہ سفر کرے؟
جواب: اگر والد کے ساتھ احسان کا تقاضہ یہ ہو کہ بیٹے کو باپ کے پاس ہونا چاہئے یا یہ کہ اس کے سفر پر چلے جانے کے سبب انہیں ان کی شفقت کی وجہ سے اذیت ہوتی ہو تو اس پر لازم ہے کے سفر نہ کرے سوائے یہ کہ اگر سفر نہ کرنے سے اسے ضرر ہوتا ہو تو اس صورت میں ترک سفر لازم نہیں۔
sistani.org/26740
۸
سوال: میاں بیوی کے اختلافات کے سبب اگر ماں اپنے بیٹے کو حکم دے کے وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا اس پر ماں کی اطاعت واجب ہے ؟ اور اگر ماں یہ کہے کہ( اگر تم نے طلاق نہ دی تو تم عاق ہو )؟
جواب: اس امر میں انکی اطاعت واجب نہیں ہے اور اس قول(عاق) کا کوئی اثر نہیں۔البتہ بیٹے کے لئے اپنے قول یا فعل میں ماں کی بے ادبی و بے احترامی سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
sistani.org/26741
۹
سوال: بعض اوقات روزمرہ کے امور میں بیٹا یا بیٹی ماں باپ سے مناقشہ کرتے ہیں اور کبھی یہ نقاش شدید ہوجاتا ہے کہ جس سے والدین تنگ بھی ہوتے ہیں ، کیا اولاد کے لئے والدین سے اس طرح کا نقاش کرنا جائز ہے؟اور اسکی کیا حد ہے کہ اولاد کو اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے؟
جواب: اولاد کے لئے والدین سے ایسے امور میں نقاش کرنا جائز ہے کہ جن میں وہ سمجھتے ہوں کے والدین کی رائے درست نہیں۔ لیکن ضروری ہے کے ان سے نقاش کرتے وقت آرام سےبات کی جائے اور آداب کا خیال رکھا جائے اور انکی طرف غضب یا سختی سے نہ دیکہیں اور سخت کلمات تو دور کی بات ، اپنی آواز بھی انکی آواز سے بلند نہ کریں۔
sistani.org/26742
۱۰
سوال: بعض والدین کو اگر انکی اولاد امر بالمعروف یا نھی عن المنکر کریں تو وہ ناراض ہوتے ہیں تو کیا اس صورت میں یہ عقوق والدین شمار ہوگا اور اس طرح انکی ناراضگی کے خوف کے با وجود ، امربالمعروف و نھی عن المنکر کرنا انکی اطاعت کے خلاف شمار ہوگا حالآنکہ اولاد اس کام میں تاثیر حاصل ہونے کا احتمال رکھتے ہوں اور کسی ضرر کا خوف بھی نہ ہو۔
جواب: اگرامربالمعروف ونھی عن المنکر حسب شرائط واجب ہو، تو معصیت خالق میں اطاعت مخلوق واجب نہیں۔
sistani.org/26743
۱۱
سوال: آیا کس حد تک والدین کی اطاعت کرنا واجب ہے یا اسکی کیا حدود ہیں؟
جواب: اولاد پر والدین کے حوالے سے دو چیزیں واجب ہیں:
اول- یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ احسان سے پیش آیا جائے،اگر وہ محتاج ہوں تو ان پر مال خرچ کرنا اور انکی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا اور انکی روزمرہ کی متعارف خواھشات کو پورا کرنا بلکہ اس میں جیسا فطری معمول ہو اسکے مطابق عمل کیا جائے اور ہر وہ طلب پوری کی جائے جس کو پورا نہ کرنا ان کی احسان فراموشی شمار ہو، اور یہ کام وسعت و تنگی میں والدین کی حالتِ ضعف و قوت کے لحاظ سےمختلف ہوسکتا ہے۔
دوم-انکے ساتھ اچھائی سے پیش آنا ، قول یا فعل سے ہرگز ان سے سوء ادب نہ کرنا ،چاہے وہ اولاد کے حق میں ظالم ہی کیوں نہ ہوں اور روایت میں یوں وارد ہوا ہے (( اگرچہ وہ تمہیں ماریں پیٹیں، تب بھی انہیں جھڑکنا نہیں اور کہنا :اللہ آپ کی مغفرت فرمائے))
اولاد کے یہ افعال وہ ہیں جو براہ راست والدین کی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں، البتہ اولاد کے کچھ ذاتی افعال بھی والدین کی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں وہ یہ ہیں جیسے
۱ والدین کی شفقت کے سبب اگر وہ اولاد کے کسی ذاتی فعل سے وہ اذیت میں آتے ہوں تو بھی حرام ہے چاہے وہ اس کام سے اولاد کو منع کرتے ہوں یا خاموش رہیں ۔
۲ اولاد کی نا پسندیدہ عادات کے سبب ، مثلا بیٹا اپنے بچوں کیلئے دنیوی یا اخروی خیر خواہی نہ رکہتا ہو اور اس بات کی وجہ سے والدین نا خوش ہوں تو اس طرح کی ناراضگی کا کوئی حکم نہیں اور بیٹے پر والدین کی اس طرح کی پسند و نا پسند کو پورا کرنا واجب نہیں۔اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی شخصی پسند و ناپسند اور ایسےاحکام میں اطاعت، بذات خود واجب نہیں ہیں مگر انہیں اذیت نہیں پہنچانی چاہئے۔
sistani.org/26744
اول- یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ احسان سے پیش آیا جائے،اگر وہ محتاج ہوں تو ان پر مال خرچ کرنا اور انکی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا اور انکی روزمرہ کی متعارف خواھشات کو پورا کرنا بلکہ اس میں جیسا فطری معمول ہو اسکے مطابق عمل کیا جائے اور ہر وہ طلب پوری کی جائے جس کو پورا نہ کرنا ان کی احسان فراموشی شمار ہو، اور یہ کام وسعت و تنگی میں والدین کی حالتِ ضعف و قوت کے لحاظ سےمختلف ہوسکتا ہے۔
دوم-انکے ساتھ اچھائی سے پیش آنا ، قول یا فعل سے ہرگز ان سے سوء ادب نہ کرنا ،چاہے وہ اولاد کے حق میں ظالم ہی کیوں نہ ہوں اور روایت میں یوں وارد ہوا ہے (( اگرچہ وہ تمہیں ماریں پیٹیں، تب بھی انہیں جھڑکنا نہیں اور کہنا :اللہ آپ کی مغفرت فرمائے))
اولاد کے یہ افعال وہ ہیں جو براہ راست والدین کی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں، البتہ اولاد کے کچھ ذاتی افعال بھی والدین کی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں وہ یہ ہیں جیسے
۱ والدین کی شفقت کے سبب اگر وہ اولاد کے کسی ذاتی فعل سے وہ اذیت میں آتے ہوں تو بھی حرام ہے چاہے وہ اس کام سے اولاد کو منع کرتے ہوں یا خاموش رہیں ۔
۲ اولاد کی نا پسندیدہ عادات کے سبب ، مثلا بیٹا اپنے بچوں کیلئے دنیوی یا اخروی خیر خواہی نہ رکہتا ہو اور اس بات کی وجہ سے والدین نا خوش ہوں تو اس طرح کی ناراضگی کا کوئی حکم نہیں اور بیٹے پر والدین کی اس طرح کی پسند و نا پسند کو پورا کرنا واجب نہیں۔اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی شخصی پسند و ناپسند اور ایسےاحکام میں اطاعت، بذات خود واجب نہیں ہیں مگر انہیں اذیت نہیں پہنچانی چاہئے۔
۱۲
سوال: ہم مرجع العالی سید محترم سے متمنی ہیں کے عقوق والدین کے موضوع پر بچوں کے لئے نصیحت فرمائیں۔
جواب: قطع رحم کی سب سے بری صورت عقوق والدین ہے کے جن کے بارے میں اللہ عزّ و جلّ نے ان کے ساتھ نیکی اوراحسان کی وصیت کی ہے۔ اور اپنی کتاب کریم میں فرمایا: وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيماً* اور امام علیہ سلام نے فرمایا کے ادنی عقوق (اف )ہے ، اگراللہ عز و جل اس سے کم کوئی چیز جانتا تو اس سے بھی منع کردیتا۔
اور امام ابو جعفر علیہ سلام فرماتے ہیں کہ میرے والد(علیہ سلام) نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے ساتھ اسکا لڑکا باپ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے لدھا ہوا چل رہا تھا تو اس سے میرے والد (ع) نے ناراضگی کے سبب مرتے دم تک کبھی بات نہیں کی۔ اور امام جعفر صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ (جس نے اپنے والدین کی طرف غضب ناک نگاہ کی اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کرتے ہوں،تو اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرے گا۔ اور اسکے علاوہ بھی عقوق والدین کے بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اس کے بر عکس
(بر الوالدین) کہ جو تقرب الٰہی کا بہترین طریقہ ہے اور اس بارے میں اللہ عز و جل نے کتاب کریم میں فرمایا (واخفض لهما جناح الذلِّ من الرحمة وقل ربّ ارحمهما كما ربياني صغيرا) اور ان دونوں کے لئے اپنے شانوں کو نرمی کے ساتھ جھکائے رکھو اور کہو کہ اے رب ان دونوں پر ویسے ہی رحمت فرما کہ جیسے انہیوں نے مجھے کم سنی میں پالا پوسہ ۔ ابراھیم ابن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے اباعبد اللہ (ع) سے کہا کے میرے والد بہت سن رسیدہ اور کمزور ہوچکے ہیں اور جب انہیں کوئی حاجت ہوتی ہے تو ہم انہیں اٹھا کر لئے پھرتے ہیں، تو امام ؑ نے فرمایا کہ اگر اس سےبڑھ کر اور بھی کچھ کر سکو تو کرنا اور انہیں اپنے ہاتھ سے لقمے بنا کر کھلانا ،بے شک کل یہی تمھارے لئے نجات کا سبب ہوگا۔ اور احادیث شریفہ میں باپ سے پہلے ماں سے صلہ رحم کرنے کی تاکید وار ہوئی ہے ، جیسا کہ امام صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ ایک شخص جناب النبی محمد صلی اللہ علی و الہ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ص میں کس کے ساتھ نیکی اور اچھائی کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ : اس نے کہا کے پھر کس کے ساتھ ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، اس نے کہا پھر کس کے ساتھ؟ آپ ص نے پھر فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، ،کہا پھر کس کے ساتھ؟ حضور نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ۔
sistani.org/26745
اور امام ابو جعفر علیہ سلام فرماتے ہیں کہ میرے والد(علیہ سلام) نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے ساتھ اسکا لڑکا باپ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے لدھا ہوا چل رہا تھا تو اس سے میرے والد (ع) نے ناراضگی کے سبب مرتے دم تک کبھی بات نہیں کی۔ اور امام جعفر صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ (جس نے اپنے والدین کی طرف غضب ناک نگاہ کی اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کرتے ہوں،تو اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرے گا۔ اور اسکے علاوہ بھی عقوق والدین کے بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اس کے بر عکس
(بر الوالدین) کہ جو تقرب الٰہی کا بہترین طریقہ ہے اور اس بارے میں اللہ عز و جل نے کتاب کریم میں فرمایا (واخفض لهما جناح الذلِّ من الرحمة وقل ربّ ارحمهما كما ربياني صغيرا) اور ان دونوں کے لئے اپنے شانوں کو نرمی کے ساتھ جھکائے رکھو اور کہو کہ اے رب ان دونوں پر ویسے ہی رحمت فرما کہ جیسے انہیوں نے مجھے کم سنی میں پالا پوسہ ۔ ابراھیم ابن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے اباعبد اللہ (ع) سے کہا کے میرے والد بہت سن رسیدہ اور کمزور ہوچکے ہیں اور جب انہیں کوئی حاجت ہوتی ہے تو ہم انہیں اٹھا کر لئے پھرتے ہیں، تو امام ؑ نے فرمایا کہ اگر اس سےبڑھ کر اور بھی کچھ کر سکو تو کرنا اور انہیں اپنے ہاتھ سے لقمے بنا کر کھلانا ،بے شک کل یہی تمھارے لئے نجات کا سبب ہوگا۔ اور احادیث شریفہ میں باپ سے پہلے ماں سے صلہ رحم کرنے کی تاکید وار ہوئی ہے ، جیسا کہ امام صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ ایک شخص جناب النبی محمد صلی اللہ علی و الہ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ص میں کس کے ساتھ نیکی اور اچھائی کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ : اس نے کہا کے پھر کس کے ساتھ ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، اس نے کہا پھر کس کے ساتھ؟ آپ ص نے پھر فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، ،کہا پھر کس کے ساتھ؟ حضور نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ۔