فتووں کی کتابیں » مناسک حج
تلاش کریں:
مستحبات احرام ←
→ مصدود کے احکام
محصور کے احکام
(۴۴۵) محصور وہ شخص ہے کہ جو احرام باندھنے کے بعد اعمال حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے مرض یا کسی اور وجہ سے مقدس مقامات تک پہنچ نہ سکے ۔
(۴۴۶) اگر کوئی شخص عمرہ مفردہ یا عمرہ تمتع میں محصور ہو جائے اور احرام کھولنا چاہیے تو اس کا فریضہ ہے کہ قربانی یا اس کی قیمت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھیجے اور ان سے وعدہ لے کہ قربانی کو وقت معین میں مکہ میں انجام دیں گے اور پھر جب وقت معین آ جائے تو یہ شخص جہاں کہیں پر ہے یا تقصیر کرے اور احرام کھول دے۔ لیکن اگر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے قربانی یا اس کی قیمت بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ جہاں ہو وہیں پر قربانی کرے اور احرام کھول دے ۔ اگر حج میں محصور ہو جائے تو اس کا حکم وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے مگر قربانی کو منیٰ میں عید کے دن کرنے کو کہے۔
مذکورہ موارد میں محصور پر بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی اور بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج یا عمرہ میں طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی انجام نہ دے۔
(۴۴۷) اگر کوئی عمرہ کے احرام کے بعد بیمار ہو جائے اور قربانی کو مکہ بھجوا دے اور پھر اس قدر تندرست ہو جائے کہ خود سفر کرنا اور قربانی سے پہلے مکہ میں پہنچنا ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ خود مکہ میں پہنچے اور اگر اس کا فریضہ عمرہ مفردہ ہو تو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے اعمال کو مکمل کر سکتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ ظاہر یہ ہے کہ ا س کا حج افراد میں تبدیل ہو جائے گا۔ دونوں صورتوں میں اگر قربانی نہ بھیجے اور صبر کرے یہاں تک کہ اس کی بیماری کم ہو جائے اور یہ خود سفر کرنے پر قادر ہو جائے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۴۴۸) اگر حج کے احکام کے بعد حاجی بیمار ہو جائے اور قربانی بھیجنے کے بعد بیماری کم ہو جائے اور گمان ہو کہ حج ہو جائے گا تو اعمال حج میں شامل ہونا واجب ہے چنانچہ اگر دنوں وقوف یا صرف وقوف مشعر حاصل ہو تو جیسا کہ بیان ہوا اس کا حج ہو گیا لہذا اعمال حج اور قربانی انجام دے۔ لیکن اگر کوئی بھی وقوف حاصل نہ کر سکے تاہم اس کے پہنچنے سے پہلے اس جانب سے قربانی ادا نہ کی گئی ہو تو اس کا حج عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جائے گا اور اگر اس کی جانب سے قربانی ادا کر دی گئی ہو تو یہ تقصیر یا حلق انجام دے اور بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں اس پر حلال ہو جائیں گی۔ بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج اور عمرہ میں طواف اور سعی بجا نہ لائے لہذا اگر انہیں انجام دے گا تو عورت بھی حلال ہو جائے گی۔
(۴۴۹) اگر حاجی بیماری یا کسی اور وجہ سے طواف و سعی کے لیے نہیں پہنچ سکتا ہو تو اس کے لیے نائب بنانا جائز ہے ۔ اور نائب کے طواف کے بعد نماز طواف خود انجام دے ۔ اگر منیٰ میں جاکر وہاں کے اعمال انجام دینے سے محصور ہو تو رمی اور ذبح کے لیے نائب بنائے اور حلق یا تقصیر انجام دے ممکن ہو تو اپنے بال منیٰ بھیجے ۔ اس کے بعد باقی تمام اعمال انجام دے اور اس کا حج پورا ہو جائے گا۔
(۴۵۰) اگر کوئی محصور ہو جائے اور اپنی قربانی بھجوا دے اور اس سے پہلے کہ قربانی اپنی جگہ پہنچے اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کیلیے سر مونڈھنا جائز ہے ۔ لہذا اگر سر مونڈھے تو واجب ہے کہ جس جگہ ہو وہیں ایک بکری ذبح کرے یا تین دن روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو دو مد ہر مد تقریبا ۷۵۰ گرام کھانا دے ۔
(۲۵۱) حج یا عمرہ میں محصور ہونے والا اگر قربانی بھجواکر احرام کھول دے تو اس کا حج یا عمرہ ساقط نہیں ہوگا لہذا حج اسلام انجام دینے والا اگر محصور ہو جائے اور قربانی بھیج کر احرام کھول دے تو اس پر واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو یا حج اس کے ذمہ ثابت ہو چکا ہو تو اگلے سال حج اسلام بجا لائے۔
(۴۵۲) اگر محصور کے پاس قربانی یا اس کے پیسے نہ ہوں تو وہ اس کے بدلے دس روزے رکھے۔
(۴۵۳) اگر محرم کے لیے حج یا عمرہ کے اعمال کی ادائیگی کے لیے مقدس مقامات تک خود جانا محصور و مصدود ہونے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو تو اگر عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھنا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ جس جگہ ہو وہیں قربانی کرے اور بنا پر احتیاط اس کے ساتھ حلق یا تقصیر انجام دے کر احرام کھول دے ۔ اسی طرح جب عمرہ تمتع کا احرام ہو اور حج کو حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو تو یہی حکم ہے ورنہ ظاہر یہ ہے کہ اس کا فریضہ حج افراد میں تبدیل ہو جائے گا۔ اگر طواف و سعی کے مقام تک پہنچنا یا منی کے اعمال بجا لانے کیلیے منی جانا ممکن نہ ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو مسئلہ ۴۴۹ میں بیان ہو چکا ہے ۔
(۴۵۴) فقہاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حج یا عمرہ کرنے والا جب قربانی ساتھ نہ لائے اور اس نے خدا سے شرط کی ہو کہ اگر اعمال حج مکمل کرنے سے معذور ہو گیا تو احرام کھول دونگا اور پھر کوئی عذر پیش آ جائے مثلا بیماری دشمنی یا کسی اور وجہ سے کعبہ یا وقوف کی جگہوں پر نہ پہچ سکے تو اس شرط کے نتیجہ میں عذر پیش آنے پر، احرام کھول سکتا ہے اور تمام چیزیں اس پر حلال ہو جائیں گی اور احرام کھولنے کے لیے قربانی دینا اور حلق و تقصیر کرنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی محصور ہو جائے تو بیوی کے حلال ہونے کے لیے طواف و سعی واجب نہیں ہیں یہ قول اگر چہ وجہ سے خالی نہیں ہے مگر احتیاط واجب یہ ہے کہ جب محصور یا مصدود ہو جائے تو جو احکام احرام کھولنے کے لیے بتائے گئے ہیں ان کی رعایت کرے اور شرط کے نتیجہ محل ہونے پر مذکورہ آثار مرتب نہ کرے ۔
یہاں تک واجبات حج کو بیان کیا گیا اب ہم حج کے آداب بیان کریں گے۔ فقہاء نے حج کے لیے بہت زیادہ آداب ذکر کئے ہیں جن کی گنجایش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے لہذا ہم چند آداب بیان کرنے پر اکتفا کریں گے:
یہ جان لینا چاہیے کہ مذکورہ آداب میں سے بعض کا مستحب ہونا قاعدہ تسامح فی ادلتہ السنن پر مبنی ہے چنانچہ ضروری ہے کہ انہیں رجاء مطلوبیت کی نیت سے انجام دیا جائے نہ کہ کسی اور نیت سے، یہ شارع مقدس سے وارد ہوئے ہیں یہی حکم مکروہات میں بھی ہے جو آگے بیان کئے جائیں گئے ۔
مستحبات احرام ←
→ مصدود کے احکام
(۴۴۶) اگر کوئی شخص عمرہ مفردہ یا عمرہ تمتع میں محصور ہو جائے اور احرام کھولنا چاہیے تو اس کا فریضہ ہے کہ قربانی یا اس کی قیمت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھیجے اور ان سے وعدہ لے کہ قربانی کو وقت معین میں مکہ میں انجام دیں گے اور پھر جب وقت معین آ جائے تو یہ شخص جہاں کہیں پر ہے یا تقصیر کرے اور احرام کھول دے۔ لیکن اگر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے قربانی یا اس کی قیمت بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ جہاں ہو وہیں پر قربانی کرے اور احرام کھول دے ۔ اگر حج میں محصور ہو جائے تو اس کا حکم وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے مگر قربانی کو منیٰ میں عید کے دن کرنے کو کہے۔
مذکورہ موارد میں محصور پر بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی اور بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج یا عمرہ میں طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی انجام نہ دے۔
(۴۴۷) اگر کوئی عمرہ کے احرام کے بعد بیمار ہو جائے اور قربانی کو مکہ بھجوا دے اور پھر اس قدر تندرست ہو جائے کہ خود سفر کرنا اور قربانی سے پہلے مکہ میں پہنچنا ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ خود مکہ میں پہنچے اور اگر اس کا فریضہ عمرہ مفردہ ہو تو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے اعمال کو مکمل کر سکتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ ظاہر یہ ہے کہ ا س کا حج افراد میں تبدیل ہو جائے گا۔ دونوں صورتوں میں اگر قربانی نہ بھیجے اور صبر کرے یہاں تک کہ اس کی بیماری کم ہو جائے اور یہ خود سفر کرنے پر قادر ہو جائے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۴۴۸) اگر حج کے احکام کے بعد حاجی بیمار ہو جائے اور قربانی بھیجنے کے بعد بیماری کم ہو جائے اور گمان ہو کہ حج ہو جائے گا تو اعمال حج میں شامل ہونا واجب ہے چنانچہ اگر دنوں وقوف یا صرف وقوف مشعر حاصل ہو تو جیسا کہ بیان ہوا اس کا حج ہو گیا لہذا اعمال حج اور قربانی انجام دے۔ لیکن اگر کوئی بھی وقوف حاصل نہ کر سکے تاہم اس کے پہنچنے سے پہلے اس جانب سے قربانی ادا نہ کی گئی ہو تو اس کا حج عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جائے گا اور اگر اس کی جانب سے قربانی ادا کر دی گئی ہو تو یہ تقصیر یا حلق انجام دے اور بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں اس پر حلال ہو جائیں گی۔ بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج اور عمرہ میں طواف اور سعی بجا نہ لائے لہذا اگر انہیں انجام دے گا تو عورت بھی حلال ہو جائے گی۔
(۴۴۹) اگر حاجی بیماری یا کسی اور وجہ سے طواف و سعی کے لیے نہیں پہنچ سکتا ہو تو اس کے لیے نائب بنانا جائز ہے ۔ اور نائب کے طواف کے بعد نماز طواف خود انجام دے ۔ اگر منیٰ میں جاکر وہاں کے اعمال انجام دینے سے محصور ہو تو رمی اور ذبح کے لیے نائب بنائے اور حلق یا تقصیر انجام دے ممکن ہو تو اپنے بال منیٰ بھیجے ۔ اس کے بعد باقی تمام اعمال انجام دے اور اس کا حج پورا ہو جائے گا۔
(۴۵۰) اگر کوئی محصور ہو جائے اور اپنی قربانی بھجوا دے اور اس سے پہلے کہ قربانی اپنی جگہ پہنچے اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کیلیے سر مونڈھنا جائز ہے ۔ لہذا اگر سر مونڈھے تو واجب ہے کہ جس جگہ ہو وہیں ایک بکری ذبح کرے یا تین دن روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو دو مد ہر مد تقریبا ۷۵۰ گرام کھانا دے ۔
(۲۵۱) حج یا عمرہ میں محصور ہونے والا اگر قربانی بھجواکر احرام کھول دے تو اس کا حج یا عمرہ ساقط نہیں ہوگا لہذا حج اسلام انجام دینے والا اگر محصور ہو جائے اور قربانی بھیج کر احرام کھول دے تو اس پر واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو یا حج اس کے ذمہ ثابت ہو چکا ہو تو اگلے سال حج اسلام بجا لائے۔
(۴۵۲) اگر محصور کے پاس قربانی یا اس کے پیسے نہ ہوں تو وہ اس کے بدلے دس روزے رکھے۔
(۴۵۳) اگر محرم کے لیے حج یا عمرہ کے اعمال کی ادائیگی کے لیے مقدس مقامات تک خود جانا محصور و مصدود ہونے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو تو اگر عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھنا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ جس جگہ ہو وہیں قربانی کرے اور بنا پر احتیاط اس کے ساتھ حلق یا تقصیر انجام دے کر احرام کھول دے ۔ اسی طرح جب عمرہ تمتع کا احرام ہو اور حج کو حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو تو یہی حکم ہے ورنہ ظاہر یہ ہے کہ اس کا فریضہ حج افراد میں تبدیل ہو جائے گا۔ اگر طواف و سعی کے مقام تک پہنچنا یا منی کے اعمال بجا لانے کیلیے منی جانا ممکن نہ ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو مسئلہ ۴۴۹ میں بیان ہو چکا ہے ۔
(۴۵۴) فقہاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حج یا عمرہ کرنے والا جب قربانی ساتھ نہ لائے اور اس نے خدا سے شرط کی ہو کہ اگر اعمال حج مکمل کرنے سے معذور ہو گیا تو احرام کھول دونگا اور پھر کوئی عذر پیش آ جائے مثلا بیماری دشمنی یا کسی اور وجہ سے کعبہ یا وقوف کی جگہوں پر نہ پہچ سکے تو اس شرط کے نتیجہ میں عذر پیش آنے پر، احرام کھول سکتا ہے اور تمام چیزیں اس پر حلال ہو جائیں گی اور احرام کھولنے کے لیے قربانی دینا اور حلق و تقصیر کرنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی محصور ہو جائے تو بیوی کے حلال ہونے کے لیے طواف و سعی واجب نہیں ہیں یہ قول اگر چہ وجہ سے خالی نہیں ہے مگر احتیاط واجب یہ ہے کہ جب محصور یا مصدود ہو جائے تو جو احکام احرام کھولنے کے لیے بتائے گئے ہیں ان کی رعایت کرے اور شرط کے نتیجہ محل ہونے پر مذکورہ آثار مرتب نہ کرے ۔
یہاں تک واجبات حج کو بیان کیا گیا اب ہم حج کے آداب بیان کریں گے۔ فقہاء نے حج کے لیے بہت زیادہ آداب ذکر کئے ہیں جن کی گنجایش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے لہذا ہم چند آداب بیان کرنے پر اکتفا کریں گے:
یہ جان لینا چاہیے کہ مذکورہ آداب میں سے بعض کا مستحب ہونا قاعدہ تسامح فی ادلتہ السنن پر مبنی ہے چنانچہ ضروری ہے کہ انہیں رجاء مطلوبیت کی نیت سے انجام دیا جائے نہ کہ کسی اور نیت سے، یہ شارع مقدس سے وارد ہوئے ہیں یہی حکم مکروہات میں بھی ہے جو آگے بیان کئے جائیں گئے ۔