مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » مناسک حج

حج تمتع کی قربانی کا مصرف ← → منی اور اس کے واجبات

منی میں قربانی

قربانی کرنا حج تمتع کے واجبات میں سے پانچواں واجب ہے اس میں قصد قربت اور خلوص معتبر ہے قربانی یوم عید سے پہلے نہ کرے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو چنانچہ خائف شخص کیلئے شب عید قربانی کرنا جائز ہے احتیاط کی بناء پر قربانی رمی کی بعد کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے قربانی رمی سے پہلے کرے تو اس کی قربانی صحیح ہوگی اور دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ واجب ہے کہ قربانی منی میں ہو تاہم اگر حاجیوں کے زیادہ ہونے اور جگہ کم ہونے کی وجہ سے منی میں قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو بعید نہیں ہے کہ وادی محسر میں قربانی کرنا جائز ہو اگر چہ احوط یہ ہے کہ ایام تشریق (۱۱،۱۲، ۱۳ ذی الحجہ) کے آخر تک منی میں قربانی نہ کر سکنے کا جب تک یقین نہ ہو اس وقت تک وادی محسر میں قربابی نہ کی جائے ۔

۳۸۲
۔ احتیاط یہ ہے کہ قربانی عید قربان کے دن ہو اگر چہ اقوی یہ ہے کہ قربانی کو ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہ رات حتی کہ ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہ رات حتی کہ ایام تشریق کی درمیانی راتوں میں بھی قربانی نہ کی جائے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو ۔

۳۸۳
۔ اگر مستقل طور پر قربانی کرنے پر قادر ہو تو ایک قربانی ایک شخص سے کفایت کرے گی اور اگر اکیلا شخص قربانی پر قادر نہ ہو تو اس کا حکم مسئلہ ۳۹۶ میں آئے گا ۔

۳۸۴
۔ واجب ہے کہ قربانی کا جانور اونٹ، گائے یا بکری وغیرہ ہو اونٹ کافی ہوگا جب وہ پانچ سال مکمل کرکے چھٹے سال داخل ہو چکا ہو ،گائے اور بکری بنا بر احوط اس وقت کافی ہوں گے جب دو سال مکمل کرکے تیسرے سال میں داخل ہو چکے ہوں اور دنبہ اس وقت کافی ہوگا جب سات مہینے پورے کرکے آٹھویں مہینے میں داخل ہو جائے۔ اگر قربانی کرنے کے بعد پتہ چلے کہ جانور مقررہ عمر سے چھوٹا تھا تو کافی نہیں ہوگی اور قربانی دوبارہ کرنی پڑے گی قربانی کے جانور کا سالم الاعضاء ہونا معتبر ہے چنانچہ کانا، لنگڑا، کان کٹا یا اندر سے سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو کافی نہیں ہے اپاہج، خصی جانور بھی کافی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ غیر خصی جانور نہ مل رہا ہو، معتبر ہے کہ جانور عرفا کمزور نہ ہو اور احوط اولی یہ ہے کہ مریض یا ایسا جانور نہ ہو جس کے بیضتین (انڈے) کی رگیں یا خود بیضتین دبائے ہوئے ہو، اتنا بوڑھا بھی نہ ہو کہ اس کا بھیجا نہ ہو لیکن اگر اس کے کان چیرے ہوئے یا سوراخ والے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر چہ احوط یہ ہے کہ یہ بھی سالم ہو ۔ احوط اولی یہ ہے کہ قربانی کا جانور پیدائشی طور پر سینگ دار ہو اور بغیر دم والا نہ ہو ۔
(۳۸۵) اگر کوئی قربانی کا جانور صحیح و سالم سمجھ کر خریدے اور قمیت دینے کے بعد عیب دار ثابت ہو تو ظاہر ہے کہ اس جانور کو کافی سمجھنا جائز ہے ۔
(۳۸۶) اگر قربانی کے دنوں (عید کا دن اور ایام تشریق) میں شرائط والا کوئی جانور (مثلا اونٹ گائے و بکری وغیرہ) نہ ملے تو احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی جانور مل رہا ہو اسے ذبح کرے اور قربانی کی بدلے روزے بھی رکھے یہی حکم اس وقت بھی ہے جب اس کے پاس فاقد الشرائط جانور (جسمیں پور شرائط نہ پائیں جائیں) کے پیسے ہوں۔ اگر باقی ماہ ذی الحجہ میں شرائط والا جانور ممکن ہو تو احوط یہ ہے کہ دو چیزوں (فاقد الشرائط جانور کی قربانی کے بدلے روزے) کے ساتھ اس کو ملائے ۔
(۳۸۷) اگر جانور کو موٹا سمجھ کر خریدا جائے اور بعد میں وہ کمزور نکلے تو یہی جانور کافی ہے خواہ قربانی سے پہلے پتہ چلے یا بعد میں لیکن اگر خود اس کے پاس مثلا دنبہ ہو اور اس گمان سے یہ موٹا ہے ذبح کرے مگر بعد میں پتہ چلے کہ وہ کمزور تھا تو احوط یہ ہے یہ قربانی کافی نہیں ہوگی ۔
(۳۸۸) اگر جانور ذبح کرنے کے بعد شک ہو کہ جانور شرائط والا تھا یا نہیں تو اس کے شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر ذبح کے بعد شک ہو کہ قربانی منی میں کی ہے یا کسی اور جگہ تو اس جگہ تو اس کا بھی یہی حکم ہے لیکن اگر خود ذبح کرنے میں شک ہو کہ ذبح کیا بھی تھا کہ نہیں تو اگر موقع گذرنے کے بعد حلق یا تقصیر کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر موقع گذرنے سے پہلے ہی شک ہو تو قربانی کرنی ہوگی۔ اگر جانور کے کمزور ہونے کے بارے میں شک ہو اور قصد قربت کے ساتھ اس امید پر کہ جانور ذبح کیا جائے کہ کمزور نہیں ہے اور ذبح کرنے کے بعد پتہ چلے کہ واقعی کمزور نہیں تھا تو یہ قربانی کافی ہوگی ۔
(۳۸۹) اگر کوئی حج تمتع کی قربانی کے لیے صحیح جانور خریدے اور خریدنے کی بعد مریض یا عیب دار ہو جائے یا کوئی عضو ٹوٹ جائے تو اس جانور کا کافی ہونا مشکل ہے بلکہ اس پر اکتفا کرنا صحیح نہیں ہے احوط یہ ہے کہ جانور کو بھی ذبح کرے اور اگر اسے بیچ دے تو اس کی قیمت کو صدقہ کردے ۔
(۳۹۰) اگر قربانی کے لیے خریدا گیا جانور گم ہو جائے اور نہ ملے نیز اور پتہ نہ چلے کہ کسی نے اس کی جانب سے قربانی کی ہے تو واجب ہے کہ دوسرا جانور خریدے اور دوسرا جانور ذبح کرنے سے پہلے، پہلا جانور مل جائے تو پہلے جانور کو ذبح کیا جائے اور دوسرے میں اختیار ہے چاہے ذبح کرے یا نہ کرے اور وہ اس کے دوسرے اموال کی طرح ہے، تاہم احوط اولی یہ ہے کہ اسے بھی ذبح کرے۔ اگر پہلا جانور دوسرے کو ذبح کرنے کے بعد ملے تو احوط یہ ہے پہلے والے جانور کو بھی ذبح کرے ۔
(۳۹۱) اگر کسی کو دبنہ ملے اور وہ جانتا ہو کہ یہ قربانی کے لیے ہے اگر اس کے مالک سے گم ہو گیا ہے تو اس کے لیے جایز ہے کہ اس کے مالک کی جانب سے اسے ذبح کردے اگر اس جانور کے مالک کو اس قربانی کا علم ہو جائے تو وہ اس کو کافی سمجھ سکتا ہے۔ جس کو جانور ملا ہو اس کے لیے احوط یہ ہے کہ وہ اسے ذبح کرنے سے پہلے بارھویں ذی الحجہ کی عصر تک اعلان کرے ۔
(۳۹۲) وہ شخص جسے قربانی کے ایام میں جانور نہ ملے جبکہ اس کی قیمت موجود ہو تو احوط یہ ہے کہ قربانی کے بدلے میں روزے بھی رکھے اور اگر ممکن ہو تو ماہ ذی الحجہ میں قربانی بھی کرے، چاہے اس کے لیے کسی قابل اطمینان شخص کو پیسے دینے پڑیں کہ وہ آخر ذی الحجہ جانور خرید کر اس کی جانب سے قربانی کر دے اور اگر ذی الحجہ تمام ہو جائے اور جانور نہ ملے تو اگلے سال اس کی جانب سے قربانی کرے۔ تاہم بعید نہیں ہے کہ کہ صرف روسروں پر اکتفا کرنا جائز ہو اور ایام تشریق گذرنے کے بعد قربانی ساقط ہو جائے ۔
(۳۹۳) اگر کوئی شخص قربانی کا جانور حاصل نہ کر سکتا ہو اور نہ ہی اس کی قیمت رکھتا ہو تو قربانی کی بدلے میں دس روزے رکھے ان میں سے تین ذی الحجہ میں بنابر احوط ۷،۸،۹ کو رکھے اور اس سے پہلے نہ رکھے اور باقی سات روزے اپنے وطن واپس جانے کے بعد رکھے۔ مکہ میں یا راستے میں رکھنا کافی نہیں اگر مکہ سے واپس نہ جائے مکہ میں ہی قیام کرے تو پھر اسے چاہیے کہ اتنا صبر کرے کہ اس کے ساتھی اپنے شہر پہنچ جائیں یا ماہ ذی الحجہ تمام ہو جائے پھر یہ روزے رکھے پہلے تین روزے پے در پے رکھنا معتبر ہے جبکہ باقی سات میں معتبر نہیں ہے اگر چہ احوط ہے کہ اسی طرح پہلے تین روزوں میں یہ بھی معتبر ہے کہ عمرہ تمتع کا احرام باندھے کے بعد رکھے، چنانچہ اگر احرام سے پہلے روزے رکھے تو کافی نہیں ہوں گے ۔
(۳۹۴) وہ مکلف جس پر دوران حج تین دن روزے رکھنا واجب ہو اگر تینوں روزہ عید سے پہلے نہ رکھ سکے تو بنا بر احتیاط ۸ اور ۹ اور ایک دن منی سے واپس آ کر روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا افضل یہ ہے کہ وہ ان روزوں کو ایام تشریق ختم ہونے کے بعد شروع کرے اگر چہ اس کیلئے جائز ہے کہ اگر وہ تیرھویں ذی الحجہ سے پہلے منی سے واپس آ جائے تو تیرھویں ذی الحجہ سے شروع کرے بلکہ اظہر یہ ہے کہ اگر منی سے تیرھویں ذی الحجہ کو بھی آئے تب بھی شروع کر سکتا ہے ۔
احوط اولی یہ ہے کہ ایام تشریق کے بعد فورا روزے رکھے اور بغیر عذر کے تاخیر نہ کرے اگر منی سے واپس آنے کے بعد روزے نہ رکھ سکتا ہو تو راستے میں یا اپنے وطن پہچ کر روزے رکھ لے احوط اولی یہ ہے کہ ان تین روزوں اور سات روزوں، جو اس نے وطن واپس آ کر رکھنا ہے، کو جمع نہ کرے اگر محرم کا چاند نظر آنے تک یہ تین روزے نہ رکھ سکے تو پھر روزہ ساقط ہو جائیں گے اور آئندہ سال قربانی کرنا معین ہو جائے گا۔

۳۹۵
۔ جس کیلئے قربانی کرنا ممکن نہ ہو اور نہ ہی اس کے پاس قربانی کیلئے پیسے موجود ہوں اور حج میں تین روزے رکھے اور قیام قربانی گذرنے سے پہلے قربانی کرنے پر قادر ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قربانی کرے ۔

۳۹۶
۔ اگر اکیلے قربانی کرنے پر قادر نہ ہو لیکن کسی کے ساتھ مل کر قربانی کر سکتا ہو تو احوط یہ ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر قربانی بھی کرے اور مذکورہ ترتیب کے مطابق روزہ بھی رکھے ۔

۳۹۷
۔ اگر جانور ذبح کرنے کیلئے کسی کو نائب بنایا جائے اور شک ہو کہ نائب نے اس کی جانب سے قربانی کی ہے یا نہیں تو یہی سمجھا جائے کہ قربانی نہیں کی اور اگر نائب خبر دے کہ قربانی کر دی ہے لیکن اطمینان نہ آئے تو اکتفا کرنا مشکل ہے ۔

۳۹۸
۔ جو شرائط قربانی کے جانور میں معتبر ہیں وہ کفارے کے جانور میں معتبر ہوں گے ۔

۳۹۹
۔ ذبح یا نحر جو واجب ہے چاہے حج کی قربانی ہو یا کفارہ اس میں خود ذبح یا نحر کرنا واجب نہیں ہے بلکہ اختیاری حالت میں بھی کسی دوسرے کو نائب بنانا جائز ہے تاہم ضروری ہے کہ ذبح کی نیت نائب کرے اور قربانی کرنے والے پر نیت کرنا شرط نہیں ہے اگر چہ احوط ہے کہ وہ بھی نیت کرے نائب کیلئے مسلمان ہونا ضروری ہے ۔
حج تمتع کی قربانی کا مصرف ← → منی اور اس کے واجبات
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français