مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » مناسک حج

حج کی وصیت ← → وجوب حج

شرائط وجو ب حج

۱۔بلوغت: نابالغ پر حج واجب نہیں ہے چاہے وہ قریب بلوغ بھی کیوں نہ ہو لہذا اگر بچہ حج کرے تو یہ حج ،حج الاسلام کی کفایت نہ کرے گا اگر چہ اظہر یہ ہے کہ اسکا حج صحیح ہے۔
(۴) جب ایک بچہ گھر سے حج کرنے کے لیے نکلے اور میقات پر احرام باندھنے سے پہلے بالغ ہو جائے اور مستطیع بھی ہو جائے چاہے استطاعت اسی جگہ حاصل ہوئی ہو تو بلا اشکال اس کا حج ،حج الاسلام شمار ہوگا اسی طرح اگر احرام باندھے سے پہلے مزدلفہ وقوف سے پہلے بالغ ہو جائے تو اپنے حج کو تمام کرے اور اقوی یہ ہے کہ یہ حج بھی حج الاسلام شمار ہوگا۔
(۵) اگر کوئی اپنے آپ کو نابالغ سجھتے ہوئے مستحب حج کرے اور حج کے بعد یا حج کے درمیان پتہ چلے کہ وہ بالغ ہے تو یہ حج ،حج الاسلام شمار ہوگا لہذا اسی کو کافی سمجھے ۔
(۶) ممیز بچے پر حج کرنا مستحب ہے لیکن بعید نہیں کہ اس کا حج صحیح ہونے میں اس کے ولی کی اجازت شرط ہو جیسا کہ فقہاء کے درمیان مشہور ہے۔
(۷) بالغ شخص کے حج کے صحیح ہونے میں والدین کی اجازت مطلقا ضروری نہیں ہے لیکن اگر اس کے مستحب حج پر جانے سے ماں پاب میں سے کسی ایک کو اذیت ہو مثلا اگر وہ راستے میں پیش آنے والے خطرات سے ڈرتے ہوں اور اس بناپر انہیں اذیت ہو تو اس شخص پر حج کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔
(۸) غیر ممیز بچہ یا بچی کے ولی کے لئے مستحب ہے کہ وہ ان کو حج کرائے اس طرح کہ ان کو احرام باندھے، ان کو تلبیہ کہلوائے اور اگر وہ سیکھنے کے قابل ہوں تو انہیں سکھائے (یعنی جو بھی انہیں کہنے کو کہے وہ کہہ سکیں) اور اگر سکھانے کے قابل نہ ہوں تو خود ان کی جانب سے تلبیہ کہے اور احرام والے شخص کا، جن چیزوں سے بچنا واجب ہے بچے کے ولی کے لیے جائز ہے کہ اگر وہ فخ کے راستے سے جارہا ہو تو مقام فخ تک بچے کے سلے ہوئے کپڑے یا جو ان کے حکم میں آئے انہیں اتارنے میں تاخیر کرے ، افعال حج میں سے جنہیں یہ بچہ یا بچی انجام دے سکتے ہوں اس کو انجام دینے کو کہے اور جو انجام نہ دے سکتے ہوں ان کو خود ولی اس کی نیابت میں انجام دے، ان کو طواف کرائے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرائے، عرفات اور مشعر میں وقوف کرائے، اگر بچہ یا بچی رمی (کنکر مارنے) کرنے پر قادر ہو تو اسے رمی کرنے کو کہے اور قادر نہ ہو تو اس کی طرف سے خود رمی کرے نماز طواف پڑھے، سر مونڈھے اور دیگر اعمال کا بھی حکم یہی ہے۔
(۹) غیر ممیز بچے کا ولی بچے کو احرام پہنا سکتا ہے چاہے خود احرام پہنے ہوئے بھی ہو۔
(۱۰) اظھر یہ ہے کہ غیر ممیز بچے کا ولی، جس کے لیے بچے کو حج کرانا مستحب ہے، وہ شخص ہے جس کے پاس بچے کی دیکھ بھال اور سرپرستی کا اختیار ہو، چاہے وہ ما ں باپ ہوں یا کو ئی اور اس کی تفصیل "کتاب النکاح" میں بیان ہوئی ہے ۔
(۱۱) بچے کے حج کے اخراجات اگر عام اخراجات سے زیادہ ہوں تو زائد مقدار ولی کے ذمے ہوگی لیکن اگر بچے کی حفاظت کی خاطر یا مصلحتا ساتھ جانا ضروری ہو اور حج کے اخراجات، سفر کے اخراجات کی نسبت زیادہ ہوں تو بچے کے مال سے صرف سفر کے اخراجات لیے جا سکتے ہیں ،حج کرانے کے اخراجات نہیں ۔
(۱۲) غیر ممیز بچے کی قربانی کا خرچہ ولی کے ذمہ ہے اسی طرح بچے کے شکار کا کفارہ بھی ولی کے ذمہ ہے لیکن وہ کفارات جو موجبات کفارہ کو عمدا انجام دینے کی وجہ سے ہوتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ بچے کے انجام دینے کی وجہ سے نہیں ہوتے چاہے بچہ ممیز کیوں نہ ہو لہذا ان کفارات کی ادائیگی نہ ولی کے ذمہ ہے اور نہ ہی بچہ کے مال سے نکالنا واجب ہے۔

۲
۔ عقل: دیوانے شخص پر حج واجب نہیں ہے لیکن جسے دیوانگی کے دورے پڑتے ہوں اور اس کے ٹھیک ہونے کا زمانہ اتنا ہو کہ حج سے متعلق ابتدائی امور اور افعال حج انجام دے سکتا ہو مزید یہ کہ مستطیع بھی ہو تو اس پر حج واجب ہے چاہے باقی اوقات میں دیوانہ رہے اسی طرح دیوانگی ایام حج میں ہوتی ہے تو واجب ہے کہ صحت کی حالت میں نائب مقرر کرے ۔

۳
۔ آزادی:

۴
۔استطاعت: اس میں چند چیزیں معتبر ہیں:
(الف) وقت وسیع ہو یعنی مقدس مقامات (مکہ) پر جانے اور واجب اعمال انجام دینے کے لئے وقت کافی ہو لہذا اگر مال یا باقی شرائط ایسے وقت میں حاصل ہوں کہ مکہ جانے اور واجب اعمال بجا لانے کے لئے وقت کافی نہ ہو یا وقت تو وسیع ہو لیکن اتنی زحمتیں ہوں جو عام طور پر برداشت نہیں کی جاتیں ہوں تو حج واجب نہیں ہوگا اس صورت میں مال کو اگلے سال تک سنبھالنے کے واجب ہونے سے متعلق حکم مسئلہ ۳۹ میں دیکھیں۔ (ب) جسمانی صحت اور توانائی رکھتا ہو لہذا اگر بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے مقامات مقدسہ (مکہ) جانے کی قدرت نہ رکھتا ہو یا سفر کر سکتا ہو مگر وہاں مثلا شدید گرمی کی وجہ اتنی مدت ٹھر نہ سکتا ہو کہ اعمال حج انجام دے سکے یا وہاں ٹھرنا اس کے لئے شدید زحمت اور تکلیف کا سبب بنتا ہو تو اس پر خود حج پر جانا واجب نہیں لیکن مسئلہ ۶۳ میں مذکورہ تفصیل کے مطابق نائب بنانا واجب ہو جائے گا۔
(ج) راستہ خالی ہو یعنی راستہ کھلا اور پر امن ہو لہذا راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ یا جان و مال و عزت کا خطرہ نہ ہو جس کی وجہ سے میقات یا دوسرے مقدس مقامات تک پہنچنا، نا ممکن ہو ورنہ حج واجب نہیں ہوگا یہ جانے کا حکم ہے جبکہ واپسی کا مفصل حکم آگے آئے گا۔ واپسی کے خرچے کی تفصیل مسئلہ (۲۲) کی طرح، احرام باندھنے کے بعد، بیماری، دشمنی یا کسی اور وجہ سے مکلف کا مقدس مقامات کی زیارت کو نہ جا سکنے سے متعلق مخصوص احکام کا ذکر، انشاء اللہ مصدود و محصور کی بحث میں ہوگا۔
(۱۳) اگر حج کے لئے دو راستے ہوں دور والا پر امن اور نزدیک والا پر خطر ہو تو اس صورت میں حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ پر امن راستے سے حج پر جانا واجب ہو گا چاہے وہ راستہ دور والا ہی ہو لیکن اگر دور والے راستے سے جانے کی وجہ سے کئی شہروں سے گزرنا پڑے اور عام تاثر یہ نہ ہو کہ راستہ کھلا اور پر امن ہے تو اس پر حج واجب نہیں ہوگا۔
(۱۴) اگر کسی کے پاس اپنے شہر میں مال ہو جو حج پر جانے کی وجہ سے ضائع ہو جاے گا اور اس مال کا ضائع ہونا اس شخص کے لئے بہت زیادہ ضرر اور نقصان کا باعث بنے تو حج پر جانا واجب نہیں ہے۔
اگر حج کو انجام دینا حج سے زیادہ اہم واجب یا حج کے مساوی واجب کے چھوٹنے کا سبب بنے (مثلا ڈوبتے ہوئے یا جلتے ہوئے شخص کو بچانا واجب ہے) تو حج کو چھوڑ کر زیادہ اہم واجب کام انجام دے اور اگر حج کی وجہ سے حج کے مساوی واجب کام چھوٹ رہا ہو تو مکلف کو اختیار ہے چاہے حج کرے یا دوسرے واجب کو انجام دے بعینہ یہی حکم ہے کہ جب حج کو انجام دینا ایسے حرام کام کو انجام دینے پر موقوف ہو کہ جس سے بچنا حج سے زیادہ اہم یا حج کے مساوی ہو۔
(۱۵) اگر کوئی شخص حج کی وجہ سے کوئی اہم کام چھوٹ جانے یا ایسا حرام کام کہ جس سے بچنا حج سے اہم ہو انجام دے کر حج کرے تو گویا کہ یہ شخص اہم واجب کو چھوڑنے اور حرام کام کو سرانجام دینے سے گنہگار ہوگا مگر ظاہر ہے کہ اس کا حج ،حج الاسلام شمار ہو
گا بشرطیکہ باقی تمام شرائط موجود ہوں ۔یہ حکم ان دو شخص میں فرق نہیں رکھتا کہ جس شخص پر حج پہلے سے واجب ہو یا جس کی استطاعت کا پہلا سال ہو ۔
(۱۶) اگر راستے میں کوئی دشمن موجود ہو کہ جسے ہٹانا پیسے دینے پر موقوف ہو تو اگر پیسے دینے کی وجہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے تو دشمن کو پیسے دینا واجب نہیں ہے اور اس سے حج ساقط ہو جائے گا۔ ورنہ پیسے دینا واجب ہوگا لیکن دشمن کو راضی کرنے اور راستہ کھولنے کے لیے پیسے دینا واجب نہیں ہے۔
(۱۷) اگر سفر حج مثلا صرف بحری راستے پر منحصر ہوجائے اور عقلاء کے نزدیک اس سفر میں غرق یا مرض لاحق ہونے یا اسی طرح کا کوئی اور مسئلہ یا پریشانی و خوف لاحق ہو جانے کا احتمال ہو کہ جسے برداشت کرنا مشکل ہو اور علاج بھی ممکن نہ ہو تو وجوب حج ساقط ہوجائیگا۔ لیکن اگر اس کے باوجود حج کیا جائے تو اظہر یہ ہے کہ حج صحیح ہوگا۔
(د) نفقہ (اخراجات) جسے زاد و راحلہ بھی کہا جاتا ہے، رکھتا ہو۔ زاد سے مراد ہر وہ چیز جس کی سفر میں ضرورت ہو مثلا کھانے پینے یا دوسری ضروریات سفر کی چیزیں، اور راحلہ سے مراد سواری ہے۔ زاد و راحلہ کے لیے لازم ہے کہ وہ انسان کی حیثیت کے مطابق ہوں۔ یہ ضروری نہیں کہ خود راحلہ رکھتا ہو بلکہ کافی کہ اتنی مقدار میں مال (چاہے نقد رقم ہو یا کسی اور صورت میں) رکھتا ہو جس سے زاد و راحلہ مہیا کر سکے ۔
(۱۸) سواری کی شرط اس وقت ہے جب اس کی ضرورت ہو لیکن اگر کوئی شخص بغیر زحمت و مشقت پیدل چل سکتا ہے اور پیدل چلنا اس کی شان کے خلاف بھی نہ ہو تو پھر سواری کی شرط نہیں ۔
(۱۹) ضروریات سفر اور سواری کا معیار وہ ہے جو فعلا موجود ہو لہذا کسی پر استطاعت اس جگہ حاصل ہونے میں ہے جہاں انسان مقیم ہے نہ کہ اسکے آبائی شہر میں، لہذا اگر مکلف تجارت یا کسی اور وجہ سے کسی دوسرے شہر جائے اور وہاں ضروریات سفر اور سواری یا اتنی نقدی مہیا ہو کہ حج کر سکے تو حج واجب ہو جائے گا اگر چہ وہ اپنے شہر میں ہوتا تو مستطیع نہ ہوتا۔
(۲۱) مکلف کی اگر کوئی جائداد ہو جسے صحیح قیمت پر خریدنے والا نہ مل رہا ہو اور حج کرنا اس کو بیچنے پر موقوف ہو تو بیچنا واجب ہے چاہے کم قیمت پر بیچنا پڑے لیکن اگر کم قیمت پر بیچنا زیادہ نقصان کا باعث ہو تو واجب نہیں ہے۔ اگر حج کے اخراجات استطاعت والے سال کی نسبت آئندہ سال زیادہ ہوں مثلا اس سال سواری کا کرایہ زیادہ ہو تو حج کو آئندہ سال تک ملتوی کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ مسائل میں بیاں ہو چکا ہے کہ حج کو استطاعت کی سال میں ادا کرنا واجب ہے ۔
(۲۲) حج کے واجب ہونے میں واپسی کا خرچ اس وقت شرط ہے جب حاجی وطن واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ لیکن اگر ارادہ نہ ہو اور کسی دوسرے شہر میں رہنے کا ارادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس شہر میں واپسی کا خرچہ رکھتا ہو چنانچہ وطن واپسی کا خرج رکھنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح جس شہر میں جانا چاہتا ہے اگر اس کا خرچ اپنے شہر سے زیادہ ہو تو اس شہر کا خرچ رکھنا ضروری نہیں بلکہ اپنے وطن واپس لوٹنے کا خرچ حج کے واجب ہونے کے لیے کافی ہے۔ سوائے اس کے کہ (دوسرے) شہر میں رہنے پر مجبور ہو (تو اس دوسرے شہر تک پہنچنے کا خرچ شرط قرار پائے گا)۔
(ہ) رجوع بہ کفایہ یعنی حج سے واپس آکر اپنے اور اپنے اہل و عیال کے خرچ کا انتظام اس طرح کر سکتا ہو کہ مبادا وہ دوسروں کی مدد کے محتاج نہ ہو جائیں یا زحمت و مشقت میں نہ پڑ جائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مکلف کو حج پر جانے کی وجہ سے اپنے یا اپنے اہل وعیال کے فقر و تنگدستی میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو چنانچہ اس شخص پر حج واجب نہیں ہے جو صرف ایام حج میں کما سکتا ہو اور اگر وہ حج پر چلا جائے تو کسب معاش نہیں کر پائے گا جس کی وجہ سے پورا سال یا بعض ایام میں زندگی کے اخراجات کو پورا نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح اس شخص پر بھی حج واجب نہیں ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو حج کی اخراجات کے لیے تو کافی ہو لیکن وہی مال اسکے اور اس کے عیال کے گزارے کا ذریعہ ہو اور وہ اپنی شان کے مطابق کسی اور ذرائع سے مال نہ کما سکتا ہو اس مسئلہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حج کے لیے ضروریات زندگی کی چیزیں بیچنا واجب نہیں ہے اور نہ ہی جو کیفیت اور کمیت (مقدار) کے لحاظ سے اس کی حیثیت کے مطابق ہوں لہذا اگر رہائشی گھر، عمدہ لباس اور گھر کا اثاثہ حیثیت کے مطابق ہوں اور اسی طرح کسب معاش میں کام آنے والے آلات کاریگری یا کتابیں جو اہل علم کے لیے لازمی ہوں تو ان کو بیچنا واجب نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہو اور حج کی خاطر ان کے استعمال سے زحمت و مشقت کا سامنا ہو تو ان چیزوں کی وجہ سے مکلف مستطیع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر مذکورہ چیزیں ضرورت سے اتنی زیادہ ہوں جو حج کے خرچ کے لیے کافی ہوں یا اگر کافی نہ بھی ہوں لیکن دوسرا مال موجود ہو جس کو ملا کر حج کا خرچ پورا کیا جا سکتا ہو تو یہ شخص مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہوگا چاہے ضرورت سے زیادہ چیزوں کو بیچ کر حج کے اخراجات پورے کرنا پڑیں۔ بلکہ اگر کوئی بڑا گھر رکھتا ہو جسے بیچ کر اس سے کم قیمت پر ایسا گھر مل سکتا ہو جسمیں وہ اور اسکے اہل و عیال بغیر زحمت اور تکلیف کے زندگی گزار سکتے ہوں اور زائد رقم حج پر جانے اور آنے اور اہل و عیال کے خرچے کے لیے کافی ہو یا اگر کافی نہ ہو لیکن کچھ مال ملا کر کافی ہو تو بڑے گھر کو بیچ کر حج پر جانا واجب ہوگا۔
(۲۳) اگر ضرورت کی ایسی چیز جسے بیچ کر حج پر جانا واجب نہ ہو تو جب ضرورت کچھ عرصے بعد ختم ہو جائے تو حج واجب ہوجائیگا۔ چاہے اسے بیچ کر جانا پڑے۔ مثلا عورت کے پاس زینت کے لیے زیور ہوں جن کی اسے ضرورت ہو اور بعد میں بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے ضرورت نہ رہے تو اس صورت میں حج واجب ہے چاہے اسے زیورات بیچ کر جانا پڑے ۔
(۲۴) اگر کسی کا ذاتی مکان ہو اور اسے رہنے کے لی ایسی جگہ مل جائے جسمیں بغیر تکلیف یا کسی حرج کے زندگی گزار سکتا ہو مثلا وقف والی جگہ ہو جسمیں وہ رہ سکتا ہو اور اس کے ہاتھ سے نکل جان کا خوف نہ ہو تو جب گھر کی قیمت حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو یا اگر کافی نہ اور دوسرا مال موجود ہو جسے ملا کر اخراجات حج پورے کیے جا سکتے ہوں، تو حج کرنا واجب ہے چاہے اپنے گھر کو بیچنا پڑے، کتب علمی اور دوسری ضرورت کی چیزیں بھی اسی حکم میں ہیں۔
(۲۵) اگر کوئی سفر حج کا پورا خرچہ رکھتا ہو اور گھر، شادی کی ضرورت یا دوسرے وسائل زندگی کی ضرورت یا کوئی اور ضرورت ہو تو اگر حج پر مال خرچ کرنا تکلیف کا سبب بنے تو حج واجب نہیں گا، ورنہ واجب ہو گا۔
(۲۶) اگر انسان کا اپنا مال کسی کے ذمہ قرض ہو اور تمام اخراجات حج یا بعض اخراجات حج کے لیے اس مال کی ضرورت تو درج ذیل صورتوں میں اس پر حج واجب ہوگا:
(الف) قرض کی مدت تمام ہو چکی ہو اور مقروض قرض دینے پر آمادہ ہو ۔
(ب) قرض کی مدت پوری ہو چکی ہو اور مقروض رقم دینے میں ٹال مٹول کر رہا ہو یا قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اسے ادائیگی پر مجبور کرنا ممکن ہو چاہے حکومتی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا پڑے۔
(ج) مقروض انکار کر رہا ہو ار قرض ثابت کرکے وصول کرنا ممکن ہو یا ثابت کرنا ممکن نہ ہو مگر اسکا بدل وصول کرنا ممکن ہو ۔
(د) مقروض قرض کو قبل از وقت ادا کر دے لیکن اگر یہ ادائیگی مقروض کے اس مفروضے پر موقوف ہو کہ قرض کا جلدی ادا کرنا خود مقروض کے مفاد میں ہے ۔جیسا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں قرض خواہ پر حج واجب نہیں ہوگا۔
درج ذیل صورتوں میں اگر قرض کی مقدار کو اس سے کمتر قیمت پر فروخت کرنا ممکن ہو اور یہ کمی قرضدار کے لیے بڑے نقصان کا سسب بھی نہ ہو اور اس کے فروخت سے حاصل ہونے والی رقم حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو جاہے کچھ اور مقدار کو ملانے سے ہی کیوں نہ ہو تو اس پر حج واجب ہے لیکن اگر یہ صورتیں موجود نہ ہوں تو اس پر حج واجب نہیں ۔
(الف) ایسا قرض جس کی مدت پوری ہوئی ہو لیکن مقروض اس کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھتا ہو ۔
(ب) ایسا قرض جس کی مدت پوری ہو چکی ہو مگر قرض دار ادا نہیں کر رہا اور وصولی کے لیے مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا یا ایسا کرنا قرض خواہ کے لیے مشقت اور تکلیف کا باعث ہو ۔
(ج) ایسا قرض جس کی مدت پوری ہو چکی ہو اور مقروض اس قرض کا انکار کر دے اور اسے پورا وصول کرنا یا اس کا عوض حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو یا قرضخواہ کے لیے مشقت آور تکلیف کا سبب بنے ۔
(د) قرض کی مدت پوری نہ ہو اور اس کی ادائیگی کو مقررہ میعاد تک موخر کرنا مقروض کے فایدے میں ہو اور وہ اسے میعاد سے پہلے ادا بھی نہ کر سکتا ہو۔
(۲۷) پیشہ ور افراد مثلا لوہار، معمار، بڑھئی وغیرہ جن کی آمدنی اپنے اور اپنے گھر والوں کے خرچے کے لیے کافی ہو تو ان پر حج واجب ہو جائیگا ۔
(۲۸) جو شخض وجوہات شرعیہ مثلا خمس اور زکوة وغیرہ پر زندگی بسر کرتا ہو اور عام طور پر اس کے اخراجات بغیر مشقت کے پورا ہونا یقینی ہوں تو اگر اس کو اتنی مقدار میں مال مل جائے جو اس کے حج کے اخراجات اور سفر اور اس کے دوران گھر والوں کے خرچے کے لے کافی ہو تب بعید نہیں کہ اس پر حج واجب ہو جائیگا اور اسی طرح اس شخص پر جس کی پوری زندگی کے اخراجات کا کفیل و ذمہ دار کوئی اور شخص ہو یا اس شخص پر، جو اپنے پاس موجود مال سے حج کرے تو حج سے پہلے اور بعد کی زندگی میں کوئی فرق پیدا نہیں ہو تو حج واجب ہو جائیگا۔
(۲۹) اگر کوئی شخص اتنی مقدار مال کا مالک بنے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو مگر اسکی ملکیت متزلزل ہو تو اگر یہ شخص اتنی قدرت رکھتا ہے کہ جس سے مال ملا ہے اسکا حق فسخ ختم کردے چاہے اس مال میں منتقل کرنے والے تصرف کی وجہ سے یا ایسے تصرف کی وجہ سے جو مال میں تبدیلی پیدا کردے تو ظاہر ہے کہ یہ استطاعت ثابت ہو جائے گی مثلا ہبہ اور بخشش میں جو واپس ہونے کے قابل ہوں تو ایسا ہی حکم ہے۔ لیکن اگر حق فسخ ختم نہ کر سکتا ہو تو استطاعت مشروط ہوگی کہ وہ شخص جسے مال ملا ہے فسخ نہ کرے۔ لہذا اگر اعمال حج تمام ہونے سے پہلے یا بعد میں مال دینے والے نے فسخ کردیا تو پتہ چلے گا کہ شروع سے ہی استطاعت نہیں تھی تو ظاہر یہ ہے کہ اس قسم کلی متزلزل ملکیت کی صورت میں حج کے لیے نکلنا واجب نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کو اطمینان ہو نہ کہ احتمال کہ فسخ نہیں کرے گا ۔
(۳۰) مستطیع کے لیے یہ واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی مال سے حج کرے لہذا اگر مال خرچ کیے بغیر یا دوسرے کے مال سے خواہ غصب شدہ ہو حج کرے تو کافی ہے۔ لیکن اگر طواف یا نماز طواف میں ستر پوشی کرنے والا کپڑا غصبی ہو تو احوط یہ کہ اس پر اکتفا نہ کرے اگر قربانی کی رقم غصبی ہو تو حج نہیں ہوگا۔ لیکن اگر قربانی ادھار خریدے اور پھر اسکی رقم غصبی مال سے ادا کرے تو اس صورت میں حج صحیح ہوگا۔
(۳۱) کسب وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو حج کے لیے مستطیع بنانا واجب نہیں ہے لہذا اگر کوئی کسی کو مال ہبہ کرتا ہے جو سفر حج کے لیے کافی ہو تو مال کا قبول کرنا واجب نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی کسی کو خدمت کے لیے اجیر بنانا چاہے اور وہ اس اجرت سے مستطیع ہو جائے تو چاہے خدمت کرنا اس کی شان کے خلاف بھی نہ ہو پھر بھی قبول کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر کوئی سفر حج کے لیے اجیر ہو اور اس کی اجرت سے وہ مستطیع ہو جائے تو اس پر حج واجب ہوگا۔
(۳۲) اگر کوئی نیابتی حج کے لیے اجیر بنے اور اجرت کی وجہ سے خود بھی مستطیع ہو جائے تو اگر حج نیابتی کو اسی سال انجام دینے کے شرط ہو تو پہلے حج نیابتی انجام دے اور اگلے سال تک اسکی استطاعت باقی رہے تو اس پر حج واجب ہوگا ورنہ نہیں ۔ اگر حج نیابتی اسی سال انجام دینے کی شرط نہ ہو تو پہلے اپنا حج انجام دے۔ سوائے اس صورت کے کہ اطمینان ہو کہ آئندہ سال وہ اپنا حج انجام دے سکے گا (تو اپنا حج پہلے بجا لانا واجب ہے)۔
(۳۳) اگر کوئی شخص اتنی مقدار قرض لے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے چاہے بعد میں قرض ادا کرنے پر قادر ہو۔ لیکن اگر قرض ادا کرنے کی مہلت اتنی زیادہ ہو کہ عقلا اس لمبی مدت کی وجہ سے قرض کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے ہوں تو حج واجب ہو جائے گا۔
(۳۴) اگر کسی کے پاس اتنا مال ہو جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور اس مال کے برابر قرض بھی ہو یا قرض ادا کرنے پر وہ مال حج کے اخراجات کے لیے کافی نہ رہے تو اظہر یہ ہے کہ اس پر حج واجب نہیں ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ قرض کا وقت پورا ہو چکا ہو یا ابھی مدت پوری نہ ہوئی ہو سوائے اس کے کہ قرض ادا کرنے کی مہلت زیادہ ہو مثلا ۵۰ سال کہ عقلا اسے قابل اعتبار نہیں سمجھتے ہوں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ قرض پہلے ہو اور مال بعد میں حاصل ہو یا مال پہلے ہو اور قرض بعد میں حاصل ہو مگر یہ کہ مقروض ہونے میں اس سے کوتاہی نہ ہوئی ہو ۔
(۳۵) اگر کسی شخص پر خمس یا زکوة واجب ہو اور اسکے پاس اتنی مقدار میں مال ہے کہ اگر خمس یا زکات ادا کردے تو حج کے ا خراجات کے لیے کافی نہ رہے تو اس پر خمس یا زکوات ادا کرنا واجب ہوگا۔ اور حج واجب نہیں ہوگا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ خمس و زکات اسی مال پر واجب ہو یا اس سے پہلے پر واجب تھا اور مال اب ملا ہو۔
(۳۶) اگر کسی پرحج واجب ہو اور اس خمس و زکات یا اور کوئی واجب حق ہو تو ضروری ہے کہ اسے ادا کرے چونکہ سفر حج کی وجہ سے انکی ادائیگی میں تاخیر نہیں کر سکتا۔ اگر طواف یا نماز طواف میں ساتر یا قربانی کی قمیت میں پر خمس واجب ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو غصبی مال کا حکم ہے جو مسئلہ نمبر۳۰ میں بیان ہو چکا ہے ۔
(۳۷) اگر کسی کے پاس کوئی مال موجود ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ یہ مال حج کے اخراجات کے لیے کافی ہے یا نہیں تو احیتاط واجب کی بنا پر تحقیق کرنا واجب ہے ۔
(۳۸) اگر کسی کے پاس اس کی دسترس سے باہر اتنا مال ہو جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو یا دوسرا مال ملاکر جو اس کے پاس موجود ہو اگر اس مال میں تصرف کرنے یا کسی کو وکیل بنا کر بیچنے پر قادر نہ ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے ورنہ واجب ہے ۔
(۳۹) اگر کوئی سفر حج کا خرچہ رکھتا ہو اور حج کے زمانے میں حج پر جانے پر قادر ہو تو اس پر حج واجب ہوجائیگا۔ اگر یہ اس مال میں اتنا تصرف کرے جس کی وجہ سے اس کی استطاعت ختم ہو جائے اور یہ کہ اس کا جبران و تدارک بھی نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے واضح ہو جو کہ حج کے زمانے من حج پر جانے پر قادر تھا تو اظہر یہ ہی کہ حج اس کے ذمہ ثابت ہوجائیگا لیکن اگر اسکے لیے واضح نہ ہو کہ زمانہ حج میں حج پر جانے پر قادر تھا تو اظہر یہ ہے کہ حج اسکے ذمہ ثابت نہیں ہوگا۔
پہلی صورت میں جب مال میں سے اتنا خرچ کر دے جس کی وجہ سے استطاعت ختم ہو جائے جیسے مال کو کم قیمت پر بیچ دے یا ہدیہ کر دے تو یہ تصرف صحیح ہو گا لیکن اگر زحمت و مشقت سے بھی حج پر جانے پر قادر نہ ہو تو گنہگار ہوگا۔
(۴۰) ظاہر یہ ہے اخراجات سفر اور سواری کا اس کی اپنی ملکیت میں ہونا شرط نہیں ہے لہذا اگر اسکے پاس ایسا مال ہو جسے خرچ کرنے کی اسے اجازت ہو اور یہ مال حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور دوسری شرائط بھی موجود ہوں تو حج واجب ہو جائے گا لیکن حج پر جانا اس وقت واجب ہوگا جب مال کو استعمال کرنے کی اجازت شرعا واپس نہ لے لی جا سکتی ہو یا اطمینان ہو کہ اجازت واپس نہیں لیگا۔
(۴۱) جس طرح حج کے ہونے میں اخراجات سفر اور جاتے وقت سواری کا ہونا شرط ہے اسی طرح اعمال حج کے پورا ہونے تک ان کا باقی رہنا بھی شرط ہیں لہذا اگر حج پر جانے سے پہلے یا سفر کے دوران مال ضائع ہو جائے تو حج واجب نہیں ہوگا اور مال کے ضائع ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص شروع سے ہی مستطیع نہیں تھا۔ اسی طرح اگر کوئی مجبورا کوئی قرضہ اس کے ذمہ آجائے مثلا غلطی سے کسی کا مال تلف ہوجائے اور یہ اس مال کا ضامن ہو۔ چنانچہ اسے یہ مال دینا پڑے تو اس پر حج واجب نہیں ہوگا لیکن اگر جان بوجھ کر کسی کا مال تلف کردے تو حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ حج اس کے ذمے باقی رہے گا۔ لہذا اس پر حج واجب ہوگا چاہے اسے زحمت و مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے اور اگر اعمال حج انجام دینے کے بعد یا دوران میں واپسی کا خرچہ تلف ہوجائے تو اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ شخص شروع سے ہی مستطیع نہیں تھا بلکہ اس کا یہ حج کافی ہوگا اور بعد میں اس پرحج واجب نہیں ہوگا۔
(۴۲) اگر کسی کے پاس حج کا خرچہ تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ حج کے لیے کافی ہے یا اس سے غافل تھا یا وجوب حج کو نہیں جانتا تھا یا وجوب حج سے غافل تھا پھر مال کے ضائع ہونے اور استطاعت کے ختم ہونے کے بعد اس کو پتہ چلا یا یاد آیا تو اگر اپنے نہ جاننے اور غفلت میں معذور تھا یعنی اس میں اس کی کوتاہی نہیں تھی تو حج اس کے ذمہ ثابت نہیں ہو گا ورنہ ظاہر یہ ہے کہ اگر باقی تمام شرائط پائی جاتی تھیں تو اس پر حج ثابت اور واجب ہو جائے گا ۔
(۴۳) جس طرح اخراجات اور سواری کے موجود ہونے سے استطاعت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اگر کوئی اخراجات سفر اور سواری یا اس کی قیمت بخشش کرے تو اس سے بھی استطاعت پیدا ہو جائے گی اگر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دینے والا ایک شخص ہو یا کئی شخص ہوں لہذا اگر کوئی یہ پیشکش کرے کہ وہ حج کے لیے اخراجات سفر سواری اور گھر والوں کا خرجہ فراہم کرنا اور اس کے قول پر اطمینان ہو تو حج واجب ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی مال دے تا کہ اسے حج میں خرچ کیا جائے اور وہ مال حج پرآنے ا ور جانے اور گھر والوں کے خرچے کے لیے کافی ہو تو حج واجب ہو جائے گا ۔چاہے جو مال دیا جا رہا ہے اس کا مالک بنا دے یا صرف اس کو استعمال کرنے کی اجازت دے۔ لیکن متزلزل ملکیت (یعنی جو شرعا واپس لی جا سکتی ہو) استعمال کرنے کی اجازت کا حکم مسئلہ نمبر ۲۹ اور ۳۰ میں بیان ہو چکا ہے۔ اگر حج کے اخراجات کی ایک مقدار موجود ہو اور باقی مقدار کوئی بخش دے تو حج واجب ہو جائے لیکن اگر صرف جانے کے اخراجات دے اور واپسی کے اخراجات نہ ہوں تو مسئلہ نمبر ۲۲ میں موجود تفصیل کے مطابق حج واجب نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر اہل و عیال کا خرچہ نہ دیا جائے تو اس پر حج واجب نہیں ہوگا سوائے اسکے کہ انکا خرچہ خود رکھتا ہو یا حج پر نہ جانے کے باوجود ان کے اخراجات برداشت نہ کرسکتا ہو یا بغیر اخراجات کے گھر والوں کو چھوڑنے کی وجہ سے حرج و مشقت میں نہ پڑتا ہو اور گھر والوں کا نفقہ اس پر واجب نہ ہو ۔
(۴۴) اگر مرنے والا کسی دوسرے کے لئے مال کی وصیّت کرے تا کہ وہ اس سے حج انجام دے اور مال اس کے حج اور اہل و عیال کے اخراجات کے لئے کافی ہو تو مسئلہ ۴۳ میں موجود تفصیل کے مطابق وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد حج اس پر واجب ہو جائے گا اسی طرح اگر مال کو حج کے لئے وقف یا نذر کیا جائے یا وصیت کی جائے اور واقف کا متولّی یا نذر کرنے والا یا وصی یہ مال کسی کو بخش دے تو اس پر حج واجب ہو جائے گا۔
(۴۵) رجوع بہ کفایت جس کے معنی شرط پنجم میں بیان ہو چکے ہیں، بخشش سے پیدا ہونے والی استطاعت میں شرط نہیں ہے لیکن اگر اس کی آمدنی صرف ایام حج میں ہو اور وہ اس آمدنی سے پورے سال کے اخراجات کو پورا کرتا ہو اور اگر وہ حج کرنے جائے تو پورا یا کچھ ایام کے اخراجات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ اس کو اس وقت کا خرچ بھی دے دیا جائے اگر کسی کے پاس کچھ مال پہلے سے موجود ہو جو حج کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہو اور باقی مقدار کوئی اسے بخشش دے تو اظہر یہ ہے کہ حج کے واجب ہونے میں رجوع بہ کفایت معتبر ہوگا۔
(۴۶) اگر ایک شحص کسی کو مال دیدے کہ وہ اس سے حج انجام دے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے لیکن اگر مال دینے والا حج کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے یا مال دے اور حج کا ذکر نہ کرے تو ان دونوں صورتوں میں مال کو قبول کرنا واجب نہیں ہے۔
(۴۷) بخشش سے پیدا ہونے والی استطاعت میں قرض مانع نہیں ہوتا (یعنی قرض کے باوجود انسان بخشش کی وجہ سے مستطیع ہو سکتا ہے) لیکن اگر حج پر جانے سے قرض وقت پر ادا نہ کیا جا سکتا ہو تو چاہے قرض کی مدت تمام ہو چکی ہو یا ابھی باقی ہو حج پر جانا واجب نہیں ہے۔
(۴۸) اگر مال کچھ افراد کو دیا جائے کہ ان میں سے کوئی ایک حج کر لے تو جو پہلے قبول کر لے صرف اس پر حج واجب ہوگا دوسرے افراد پر واجب نہیں ہوگا اور اگر کوئی بھی قبول نہ کرے اگر چہ قدرت رکھتے ہوں تو ظاہر یہ ہے کہ حج کسی پر بھی واجب نہیں ہوگا۔
(۴۹) جس شخص کو مال دیا جا رہا ہے اس پر حج اس صورت میں واجب ہوگا کہ اتنی مقدار میں مال دیا جائے کہ اس کے مستطیع ہونے کی صورت میں جو حج کا پہلا فریضہ بنتا ہو اسے انجام دے سکے ورنہ واجب نہیں ہوگا مثلا اگر کسی کا فریضہ حج تمتع ہو اور اسے حج افراد یا قران کے لئے مال دیا جائے یا اسی طرح کی کوئی بھی صورت ہو تو اس پر قبول کرنا واجب نہیں ہے اسی طرح جو شخص حج اسلام انجام دے چکا ہو اس پر بھی قبول کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر کسی کے ذمہ حج اسلام باقی اور وہ تنگدست ہو چکا ہو اور اس کو مال دیا جائے تو اگر قبول کیے بغیر حج انجام نہ دے سکتا ہو تو قبول کرنا واجب ہے اسی طرح وہ شخص جس پر نذر وغیرہ کی وجہ سے حج واجب ہو اور مال کو قبول کیے بغیر حج انجام دینے پر قادر نہ ہو تو اس پر بھی قبول کرنا واجب ہے۔
(۵۰) اگر کسی کو حج کے لئے مال دیا جائے اور وہ مال سفر کے دوران ضائع ہو جائے تو وجوب حج ساقط ہو جائے گا لیکن اگر سفر کو اپنے مال سے جاری رکھنے پر قادر ہو یعنی اس جگہ سے حج کی استطاعت رکھتا ہو تو حج واجب ہو جائے گا اور یہ حج حج الاسلام شمار ہوگا مگر وجوب کے لئے شرط ہے کہ واپسی پر اپنے اور اپنے گھر والوں کے اخراجات کو پورا کرسکے۔
(۵۱) اگر ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میرے نام پر قرض لے کر اپنا حج انجام دو اور بعد میں قرض کو ادا کر دینا تو دوسرے شخص پر قرض لینا واجب نہیں ہے لیکن اگر پہلا شخص قرض لے کر دے تو پھر اس پر واجب ہو جائے گا ۔
(۵۲) ظاہر یہ ہے کہ قربانی کی قیمت مال بخشنے والے کے ذمہ ہے لہذا مال بخشنے والا قربانی کی قیمت کے علاوہ باقی اخراجات حج دے تو مال لینے والے پر حج واجب ہونےمیں اشکال ہے سوایے اس کے کہ قربانی کو اپنے مال سے خریدنے پر قادر ہو اور قربانی پر خرچ کرنی سے اسے تکلیف و تنگدستی کا سامنا نہ ہو تو حج واجب ہو جائے ورنہ قبول کرنا واجب نہیں ہے۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ کفارات مال لینے والے پر واجب ہیں ۔
(۵۳) حج بدل (وہ حج جو کسی کے مال دینے کی وجہ سے واجب ہو جائے) حج الاسلام کے لیے کافی ہے لہذا بعد میں اگر مستطیع ہو بھی جائے تو دوسری مرتبہ حج واجب نہیں ہوگا۔
(۵۴) مال بخشنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا مال واپس لے لے چاہے دینے والے نے احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو لیکن اگر احرام باندھنے کے بعد واپس لے تو اظہر یہ ہے کہ اگر مال لینے والے کے لیے تکلیف و تنگدستی کا باعث نہ ہو تو چاہے مستطیع نہ بھی ہو تو حج کو پورا کرے اور حج مکمل کرنے اور واپس آنے کے تمام اخراجات مال بخشنے والے ذمہ ہونگے لیکن اگر مال بخشنے والا راستے میں مال واپس لے تو صرف واپسی کا خرچ مال بخشنے والے کے ذمہ ہوگا۔
(۵۵) اگر کسی کو زکات فی سبیل اللہ کے حصہ سے دی جائے وہ اسے حج پر خرچ کرے اور اسمیں مصلحت عامہ بھی ہو اور احوط کی بنا پر حاکم شرع اجازت بھی دے دے تو اس پر حج واجب ہو جائے گا اور اگر سہم سادات سے یا زکات کے سہم فقراء سے کسی کو مال دیا جائے اور شرط رکھی جائے کہ اسے حج پر خرچ کرے گا تو یہ شرط صحیح نہیں ہے اور اس سے استطاعت بذلی حاصل نہیں ہوتی۔
(۵۶) اگر کوئی بخشش شدہ مال سے حج کرے اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ مال تو غصبی تھا تو یہ حج حج اسلام شمار نہیں ہو گا اور مال بخشنے والے سے اپنے مال کا مطالبہ کرے لہذا اگر مال دینے والا مال لینے والے سے اپنا مال حاصل کر لیتا ہے تو اگر مال لینے والے کو اس مال کے غصبی ہونے کا علم پہلے سے نہ ہو تو وہ بخشش کرنے والے سے مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے بصورت دیگر مطالبے کا حق نہیں رکھتا۔
(۵۷) اگر کوئی مستطیع نہ ہو مگر پھر بھی مستحب حج اپنے لیے یا کسی اور کے لیے اجرت پر یا بغیر اجرت کے انجام دے تو اسکا یہ حج حج الاسلام شمار نہ ہوگا لہذا اس کے بعدجب بھی مستطیع ہو حج انجام دینا واجب ہے ۔
(۵۸) اگر کسی کو یقین ہو کہ میں مستطیع نہیں ہوں اور مستحب کے عنوان سے حج کرے مگر نیت یہ ہو کہ اس وقت جو میری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں پھر بعد میں معلوم ہو کہ میں مستطیع تھا تو وہ حج حج الاسلام کے لیے کافی ہے اور دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہے۔
(۵۹) اگر زوجہ مستطیع ہو تو حج کرنے کے لیے شوہر کی اجازت ضروری نہیں اور نہ ہی شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ حج الاسلام کے لیے یا کسی اور واجب کے لیے لیکن اگر حج کا وقت وسیع ہو تو بیوی کو پہلے قافلے سے روک سکتا ہے۔ طالق رجعی والی عورت جب تک عدت میں ہے بیوی کا حکم ہے ۔
(۶۰) جب عورت مستطیع ہو جائے اور اس کی جان کو خطرہ نہ ہو تو محرم کا ساتھ ہونا شرط نہیں ہے اگر جان کا خطرہ ہو تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا شخص ساتھ ہو جس کی وجہ سے اس کی جان محفوظ ہو چاہے اس شخص کو اجرت دینا پڑے اور البتہ اجرت دینے پر قادر ہو ورنہ اس پر حج واجب نہیں ہے ۔
(۶۱) اگر کوئی شخص نذر کرے مثلا ہر سال عرفہ کے دن کربلا میں حضرت امام حسین کی زیارت کرے گا اور بعد میں مستطیع ہو جائے تو اس پر حج واجب ہو جائے گا اور نذر ختم ہوجائے گی اور یہی حکم ہر اس نذر کا ہے جو حج سے متصادم ہو رہی ہو ۔
(۶۲) اگر مستطیع شخص خود حج کرنے پر قادر ہو تو اسے خود حج کرنا ہوگا لہذا اگر کوئی دوسرا شخص اجرت پر یا بغیر اجرت کے اس کی طرف سے حج کرے تو کافی نہیں ہے ۔
(۶۳) اگر کسی پر حج واجب ہو جائے مگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے خود انجام دینے پر قادر نہ ہو یا تکلیف کا باعث ہو اور آئندہ بغیر تکلیف کے حج ادا کرنے کی امید بھی نہ ہو تو حج کے لیے کسی کو نائب بنانا واجب ہے اسی طرح جو شخص ضرورت مند ہو مگر اعمال حج خود انجام دینے پر قادر نہ ہو یا خود انجام دینا حرج و تکلیف کا سبب ہو تو وہ شخص بھی کسی کو نائب بنائے جس طرح حج کو فورا انجام دینا واجب ہے اسی طرح نائب بنانا بھی واجب فوری ہے ۔
(۶۴) اگر مستطیع شخص (کسی عذر کی وجہ سے) خود حج انجام دینے پر قادر نہ ہو اور نائب اس کی جانب سے حج کرے اور وہ مستطیع شخص مر جائے جب کہ اس کا عذر باقی ہو تو نائب کا حج کافی ہوگا۔ اگر چہ حج اسکے ذمہ مستقر ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن اگر مرنے سے پہلے عذر ختم ہو جائے تو احوط یہ ہے کہ اگر خود حج کرسکتا ہے ہو تو خود کرے ۔ اگر نائب کے احرام باندھنے کے بعد اسکا عذر ختم ہو جائے تو خود اس پر حج کرنا واجب ہے ۔ اگر چہ احوط یہ ہے کہ نائب بھی اعمال حج پورے کرے ۔
(۶۵) اگر کوئی خود حج انجام نہ دے سکتا ہو اور نائب بنانے پر بھی قادر نہ ہو تو حج ساقط ہو جائیگا۔ لیکن اگر حج اس کی ذمہ واجب ہو چکا تھا تو اس کے مرنے کے بعد حج کی قضا کرانا واجب ہے۔ ورنہ قضاء واجب نہیں ہے۔ اگر نائب بنایا ممکن تھا لیکن نائب نہ بنائے اور مر جائے تو اس کی طرف سے قضاء کرانا واجب ہے۔
(۶۶) اگر نائب بنانا واجب ہو اور نائب نہ بنائے لیکن شخص بلا معاوضہ اس کی جانب سے حج انجام دے تو یہ حج کافی نہیں ہوگا اور احتیاط کی بناپر نائب بنانا واجب رہے گا۔
(۶۷) اگر نائب بنانے کی بابت واضح ہو کہ میقات سے نائب بنانا کافی ہے اور اپنے شہر سے نائب بنانا ضروری نہیں ہے۔
(۶۸) جس شخص کے ذمہ حج واجب ہو اور وہ حج کےاحرام کے بعد حرم میں مر جائے تو یہ حج الاسلام سے کفایت کریگا چاہے اس کا حج تمتع ہو، قران ہو یا افراد اور اگر عمرہ تمتع کے درمیان مرجائے تب بھی حج کے لیے کافی ہے اور اس کی قضا واجب نہیں ہے اور اگر اس سے پہلے مرجائے تو قضا کرانا واجب ہے چاہے احرام کے بعد حرم میں داخل ہونے سے پہلے مرے یا حرم میں داخل ہونے کے بعد بغیر احرام کے اور ظاہر یہ کہ حکم حج الاسلام کے لیے مخصوص ہے اور وہ حج جو نذر یا افساد (کسی کے حج کے باطل ہونے) کی وجہ سے واجب ہوئے ہوں ان پر یہ حکم جاری نہیں ہوگا بلکہ عمرہ مفردہ میں بھی یہ حکم جاری نہیں ہوتا۔ اس بناپر ان میں سے کسی ایک پر بھی کافی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر کوئی احرام کے بعد مرجائے اور حج اس کے ذمہ گذشتہ سالوں سے واجب نہ تو وہ حرم میں داخل ہونے کے بعد مر جائے تو اس کا حج، حج الاسلام شمار ہوگا لیکن اگر حرم میں داخل ہونے سے پہلے مر جائے تو ظاہر یہ ہے کہ اس کی طرف سے قضا واجب نہیں ہے ۔
(۶۹) مستطیع کافر پر حج واجب ہے لیکن جب تک کافر ہے اس کا حج صحیح نہیں ہوگا اگر استطاعت ختم ہونے کے بعد مسلمان ہو تو حج اس پر واجب نہیں ہے ۔
(۷۰) مرتد (جو اسلام سے پھر جائے) پر حج واجب ہے لیکن اگر ارتداد کی حالت میں حج کرے تو یہ حج صحیح نہیں ہے لیکن توبہ کرنے کے بعد حج کرے تو صحیح ہے اور اقوی یہ ہے کہ مندرجہ بالا حکم مرتد فطری کے لیے بھی ہے ۔
(۷۱) اگر کوئی غیر شیعہ مسلمان حج کرے اور بعد میں شیعہ ہو جائے تو دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہے لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اپنے مذہب کے مطابق صحیح حج کیا ہو۔ اسی طرح اگر اسے نے مذہب شیعہ کے مطابق حج ادا کیا ہو اور قصد قربت حاصل ہوگئی ہو تو حج صحیح ہوگا ۔
(۷۲) جب کسی پر حج واجب ہو اور وہ اسے انجام دینے میں سستی اور تاخیر سے کام لے یہاں تک کہ اس کی استطاعت ختم ہو جائے تو جس طرح سے بھی ممکن ہو حج کو ادا کرنا واجب ہے چاہے مشقت و زحمت برداشت کرنا پڑے ۔اگر حج سے پہلے مر جاےْ تو واجب ہے کہ اس کے ترکہ سے حج کی قضا کریں اور اگر کوئی اس کی قضا مرنے کے بعد بغیر اجرت کے اس کی طرف سے حج انجام دے تو بھی صحیح ہوگا۔
حج کی وصیت ← → وجوب حج
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français