فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
(۱۵) انشورنس (بیمہ)کامعاہدہ ←
→ (۱۳) تنزیل برات
(۱۴) بینک میں نوکری کرنا
بینک کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں :
(۱)بینک کا حرام کام:جیسے وہ کام جو سودی معاملات سے تعلق رکھتاہے جیسے سودی معاملات کے دستورکو جاری کرنے کی ذمہ داری لینا، دستاویز آمادہ کرنا اور ان پر گواہ معین کرنا اور فائدہ اٹھانے والے سود کی اضافی رقم لینا وغیرہ ہے۔ اسی طرح ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا جو سودی کاروبار سے تعلق رکھتی ہیں یا شراب کی تجارت کرتی ہیں جیسے ان کے حصص(شیئرز) بیچنا اوران کے توسعہ کے لئے تعاون کرنا حرام کاموں میں شمار ہوتا ہے یہ سارے کام حرام ہیں اور بینک کے اس شعبہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے اور اجرت لینے کاحق دار نہیں ہوگا۔
(۲) بینک کےجائز کام: جو مذکورہ کام کے علاوہ ہیں اور ان میں کام کرنااور اس کی اجرت لینا جائز ہے۔
مسئلہ (۲۸۲۵)اگر سودی معاملات میں سود کی اضافی رقم دینے والا مسلمان نہ ہو، (خواہ بینک غیر ملکی یا کوئی اورہو) ،اس صورت میں جیسا کہ گذرچکا ہے مسلمان کے لئے زائد رقم لیناجائز ہے اور نتیجۃً ایسے شعبوں میں نوکری کرناجو سودی معاملات سے متعلق ہوں ، جائز ہے چاہےبینک ہو یا دوسرے ادارے۔
مسئلہ (۲۸۲۶)اسلامی ممالک میں سرکاری یا مشترک بینکوں میں جو سرمایہ ہوتا ہے وہ مجھول المالک کا سرمایہ ہے جس میں حاکم شرعی سے اجازت لئے بغیر استعمال کرناجائز نہیں ہے اس بناء پر اس کے بینکو ں میں کام کرنا او رکھاتہ داروں کو پیسہ دینا اور لینا جوحاکم شرع سے رجوع کئے بغیراستعمال کررہاہو حاکم شرع(مرجع) کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے لیکن اگر حاکم شرع اس طرح کے بینکوں میں کام کرنے کو مذکورہ مقامات میں اجازت دے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۲۷)جعالہ،اجارہ، حوالہ اور جائز معاملات کی صحت کےلئے سرکاری بینکوں میں جو اسلامی ممالک میں رائج ہیں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت ہے اور اس کی اجازت کےبغیر یہ معاملات صحیح نہیں ہیں اور اسی طرح وہ شرعی معاملات جو سرکاری اورمشترک اسلامی ملکوں کے بینکوں میں رائج ہیں حکومت کے حصص(شیئرز) کے تعلق سے ، معاملات کی صحت حاکم شرع(مرجع تقلید) کی اجازت پر موقوف ہے۔
(۱۵) انشورنس (بیمہ)کامعاہدہ ←
→ (۱۳) تنزیل برات
(۱)بینک کا حرام کام:جیسے وہ کام جو سودی معاملات سے تعلق رکھتاہے جیسے سودی معاملات کے دستورکو جاری کرنے کی ذمہ داری لینا، دستاویز آمادہ کرنا اور ان پر گواہ معین کرنا اور فائدہ اٹھانے والے سود کی اضافی رقم لینا وغیرہ ہے۔ اسی طرح ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا جو سودی کاروبار سے تعلق رکھتی ہیں یا شراب کی تجارت کرتی ہیں جیسے ان کے حصص(شیئرز) بیچنا اوران کے توسعہ کے لئے تعاون کرنا حرام کاموں میں شمار ہوتا ہے یہ سارے کام حرام ہیں اور بینک کے اس شعبہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے اور اجرت لینے کاحق دار نہیں ہوگا۔
(۲) بینک کےجائز کام: جو مذکورہ کام کے علاوہ ہیں اور ان میں کام کرنااور اس کی اجرت لینا جائز ہے۔
مسئلہ (۲۸۲۵)اگر سودی معاملات میں سود کی اضافی رقم دینے والا مسلمان نہ ہو، (خواہ بینک غیر ملکی یا کوئی اورہو) ،اس صورت میں جیسا کہ گذرچکا ہے مسلمان کے لئے زائد رقم لیناجائز ہے اور نتیجۃً ایسے شعبوں میں نوکری کرناجو سودی معاملات سے متعلق ہوں ، جائز ہے چاہےبینک ہو یا دوسرے ادارے۔
مسئلہ (۲۸۲۶)اسلامی ممالک میں سرکاری یا مشترک بینکوں میں جو سرمایہ ہوتا ہے وہ مجھول المالک کا سرمایہ ہے جس میں حاکم شرعی سے اجازت لئے بغیر استعمال کرناجائز نہیں ہے اس بناء پر اس کے بینکو ں میں کام کرنا او رکھاتہ داروں کو پیسہ دینا اور لینا جوحاکم شرع سے رجوع کئے بغیراستعمال کررہاہو حاکم شرع(مرجع) کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے لیکن اگر حاکم شرع اس طرح کے بینکوں میں کام کرنے کو مذکورہ مقامات میں اجازت دے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۲۷)جعالہ،اجارہ، حوالہ اور جائز معاملات کی صحت کےلئے سرکاری بینکوں میں جو اسلامی ممالک میں رائج ہیں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت ہے اور اس کی اجازت کےبغیر یہ معاملات صحیح نہیں ہیں اور اسی طرح وہ شرعی معاملات جو سرکاری اورمشترک اسلامی ملکوں کے بینکوں میں رائج ہیں حکومت کے حصص(شیئرز) کے تعلق سے ، معاملات کی صحت حاکم شرع(مرجع تقلید) کی اجازت پر موقوف ہے۔