فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
(۹) بینک کے انعامات ←
→ (۷) قرض کے بونڈ کا بیچنا
(۸) ملکی اور غیر ملکی حوالے(ڈرافٹ)
مسئلہ (۲۸۱۶)فقہی اصطلاح میں حوالہ: حوالہ دینے والے کے ذمہ سے قرض کا نکل کر حوالہ پانے والے کے ذمہ میں منتقل ہونا ہے لیکن یہا ں پر ہم اس سے وسیع معنی میں استعمال کریں گے۔ بینکوں کے ذریعہ حوالوں کی مندرجہ ذیل مثالیں ہیں :
(۱) بینک اپنے خریدار کےلئے حوالے صادر کرنے کے بدلے ایک رقم ملک کے اندر یا باہر خریدار کےاکاؤنٹ میں قبول کرتا ہے اگر اس کا بینک میں اکاؤنٹ ہو اوربینک اس کےبدلے ایک مخصوص اجرت لیتا ہے ظاہراً اس اجرت کالینا جائز ہے کیونکہ بینک کو حق ہےکہ اپنے خریدار کو قرض دوسرے مخصوص بینک میں ادا نہ کرے، اس بناء پر بینک کےلئے اپنے حق سے دست بردار ہونے اور دوسری جگہ قرض اداکرنے کےبدلے مخصوص اجرت لینا جائز ہے ۔
(۲)بینک ایک ایسا حوالہ کسی شخص کےلئے صادر کرتا ہے جس کے مطابق وہ شخص معین رقم دوسرے بینک سے( اندرون یا بیرون ملک میں ) جہاں خریدار کا اکاؤنٹ نہ ہو، قرض کےعنوان سے لکھتا ہے او ر بینک بھی اس کام کےلئے اجرت حاصل کرتا ہے۔
ظاہراً بینک کےلئے اس حوالے کے صادر کرنے کےبدلے اجرت لیناجائز ہے اس لئے کہ صورت حال اگر ایسی ہو کہ پہلا بینک دوسرے بینک کو قرض دینےکے تعلق سےوکیل بنائے اس شخص کےسرمایہ کےتعلق سے جو پہلا بینک دوسرے کےپاس رکھتا ہے اور اس کے بدلے اپنے کام کی اجرت لیتاہے اور یہ کام خود کو قرض دینے کے بدلے اجرت لینےکے معنی میں نہیں ہےجس سے حرام ہوجائے، بلکہ دوسرے کو قرض دینے کےلئے وکیل بنانے کے عوض مخصوص رقم لینے کے معنی میں ہے۔ اس لئے قرض دینے اور اس کے متعلق انجام دینےکےبدلے میں اجرت اداکرنانہیں ہے بلکہ قرض کےلئے وکیل بنانے کے عنوان سےہے اور اس لحاظ سےاس میں کوئی اشکال نہیں ہے اب اگر حوالے کی مذکورہ رقم بیرون ملک کی کرنسی ہوتویہ بینک کےلئے ایک اور حق فراہم کرتا ہے وہ اس طرح کہ مقروض حوالے کی کرنسی ادا کرنے کا پابند ہےجس کو ادا کرنا ضروری ہے۔اس لئے اگر بینک اپنے اس حق سے دست بردار ہوجائے اور مقروض کی ملکی کرنسی میں قرض کی ادائگی کو قبول کرے تو اس کے لئے جائز ہے کہ اپنی ان خدمات کےلئے خاص رقم دریافت کرے اور اسی طرح وہ قرض کی رقم کو دونوں ملکی کرنسی کےتعلق سے جو اضافی رقم ہوتی ہے اس کو ملکی کرنسی میں تبدیل کردے۔
(۳)ایک شخص معین رقم مثلاً نجف اشرف کےبینک کے سپرد کرتا ہے اوراس کے بدلے ایک حوالہ اسی رقم یا اس کے متبادل رقم کے مطابق کربلامیں موجود دوسرے بینک کےلئے حاصل کرتا ہے یابیرونی ملک جیسے لبنان کےلئےحاصل کرتا ہے اور بینک اپنی ان خدمات کے بدلے میں اجرت لیتا ہے اس کی دو صورت ہوسکتی ہے:
(پہلی:) ایک شخص ملک میں رائج کرنسی کی ایک خاص رقم کو غیر ملکی کرنسی سے جو اس کی رقم کےمتبادل ہے، بیچ دیتاہے اور بینک کی خدمات اور حوالے لینے کےلئے اجرت بھی ادا کردیتا ہے اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے اس کے جیسا مسئلہ گذر چکاہے۔
(دوسری:) ایک شخص معین رقم بینک کو قرض دےکر شرط رکھتا ہے بیرون یا اندرون ملک میں کسی دوسرے بینک کےلئے حوالہ لینےکے بدلے اجرت اداکرے گا اس صورت میں جو اشکال ہے وہ یہ ہےکہ حوالہ دینا ایک محترم کام ہے اور مالیت رکھتا ہے ، قرض دینے والے کی طرف سے، قرض دریافت کرنے والے کےلئے ہے انجام دینے کی شرط لگانا ،اس قسم کی شرطوں میں سےہے جس کی مالیت اور قیمت ہے اور شرعاً حرام ہے لیکن چونکہ روایتوں سےپتا چلتاہے کہ قرض دینےوالا ۔ قرض لینے والے سے یہ شرط کرسکتا ہے کہ اس کے قرض کی رقم دوسری جگہ ادا کرے لہٰذا حوالہ دینے کی بھی شرط کرسکتا ہے اور اگر یہ شرط بغیر عوض اور مفت رکھنا جائز ہوتو معین اجرت ادا کرنے کے بدلے، یقیناً جائز ہے۔
(۴)ایک شخص مثلاً نجف اشرف کےبینک سےایک رقم لیتا ہے او راس کے مقابلہ میں ایک حوالہ بینک کو دیتاہے تاکہ اس رقم کی متبادل رقم کوبیرون ملک یا اندرو ن ملک کے کسی بینک سے لے لے اور بینک اس حوالے کی خدمات کےبدلے اجرت لیتاہے اس فرض کی دوصورت ہے:
(پہلی:) بینک شخص کو ایک خاص رقم جو ملک میں رائج ہے بیرون ملک کی کرنسی کے متبادل اپنی اجرت ملا کر بیچ دیتا ہے اور خریدا ربھی بینک کو قیمت دریافت کرنے کےلئے دوسرے بینک کا حوالہ دیتا ہے یہ صورت جائز ہے۔
(دوسری:) بینک ایک مخصوص رقم کسی شخص کو قرض دیتا ہے اور قرض کو دوسرے کے ذمہ منتقلی کی ذمہ داری لینے کے بدلے اور دوسری جگہ رقم حاصل کرنے کے عوض ایک مخصوص اجرت لینے کی شرط رکھتا ہے یہ صورت ربا کی ہے اس لئے کہ کسی چیز کا اس طرح شرط کرنا گویا رقم کی مقدار پر شرط لگانا ہے اگر چہ یہ خدمات حوالہ دینے کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔
البتہ اگر یہ معاہدہ پہلے سے بغیر کسی شرط کےہوا ہوتو وہ اس طرح کہ ایک شخص پہلے بینک سے مخصوص رقم قرض لے اور اس کے بعد اپنے قرض کی ادائگی کےلئے جس بینک سے قرض لیا ہے اس لئے دوسرے بینک کا حوالہ دے اور بینک اس حوالے کے بدلے میں اجرت دینےکی درخواست کرے، اس صورت میں اجرت ادا کرنا جائز ہے کیونکہ بینک کو اس بات کا حق ہےکہ قرض کو دوسرے بینک میں منتقل کرنے اور قرض لینے والے کی شرط قبول کرنے سےانکار کرے اس لئے اس حق سے دستبردار ہونے کے عوض مخصوص رقم کا مطالبہ کرنے کاحق رکھتا ہے یہ صورت اس رقم کے عنوان میں نہیں آتی جہاں مقروض سے دیر سے قرض ادا کرنے کے بدلے رقم لی جاتی ہے تاکہ ربا ہوجائے بلکہ بینک اس رقم کو دوسرے کے ذمہ قرض منتقل کرنے اور اسے دوسری جگہ حاصل کرنے کے بدلےمیں لیتا ہے اس لئے کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۱۷)کبھی ایک حوالے کے ضمن میں دوحوالے ہوتے ہیں ، جیسے مقروض ، قرض دینے والے کو ایک چیک اس کے نام بینک کے حوالے کرتا ہے او ر بینک چیک میں مندرج رقم کو قرض دینے والے کے شہر کی کسی برانچ یا دوسرے بینک سے رجوع کرنے کو کہتا ہے تاکہ قرض دینے والا مذکورہ مبلغ وہاں سےلے لے۔ حقیقت میں اس صورت میں د و حوالے پائےجاتے ہیں :
(پہلا:) مقروض ،قرض دینے والے کوبینک کا حوالہ دیتا ہے اور اس طرح بینک قرض دینے والے کا مقروض ہوجاتاہے۔
(دوسرا:) بینک قرض دینے والے کو اپنی کسی برانچ یا کسی دوسرے بینک سے مذکورہ رقم حاصل کرنے کو کہتا ہے اس مقام پر پہلے حوالے کی صورت میں بینک کا کردار حوالہ قبول کرنا ہے اور دوسرے حوالے کی صورت میں بینک کا کردار حوالہ صادر کرنا ہے ۔ دونوں حوالے شرعاً صحیح ہیں لیکن اگر بینک اپنی کسی برانچ کا حوالہ دے اور یہ حوالہ خود اسی بینک کا ہوجائے تو فقہی اصطلاح میں اس کو حوالہ نہیں کہتے ہیں کیونکہ اس میں قرض کے منتقلی کی صورت پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ حقیقت میں بینک نے اپنے وکیل سے طلب کیا ہے کہ ایک شخص کی مطلوبہ رقم کو جس جگہ وہ چاہے ادا کردے۔
ہر صورت میں بینک کےلئے جائزہےکہ مذکورہ بالا امور کو انجام دینے کےبدلے یہاں تک کہ اس حوالے کو قبول کرنے کے بدلے جس کا بینک میں اکاؤنٹ ہے اجرت کامطالبہ کرے۔اس لئے یہ حوالہ ان حوالے کی قسموں میں سے ہے جو مقروض کےلئے ہےجس کو بینک قبول نہ کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس صورت میں اگر قبول کرتا ہے تو ان خدمات کے بدلے اجرت لینا جائز ہے ۔
مسئلہ (۲۸۱۸)جو باتیں حوالے کی قسموں اور اس کے فقہی احکام میں گذرچکی ہیں وہی باتیں افراد کو حوالہ دینے میں بھی جاری ہیں ، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص ایک خاص رقم کسی شخص کو ادا کرسکتا ہے اور اس سے کسی دوسرے شہرکےلئے ایک حوالہ لے لے اور اس کے بدلے اجرت طلب کرے یا ایک خاص رقم کسی سے لے لے اور اس کو کسی دوسرے شخص کے حوالے کردے اور اس کام کےلئے اجرت حاصل کرلے۔
مسئلہ (۲۸۱۹)جو باتیں گذر چکی ہیں ان میں اس بات میں کوئی فرق نہیں ہے کہ حوالہ مقروض شخص پر ہو یا کسی اور کے ذمہ میں ہو، پہلی صورت کی مثال اس کی طرح ہے جس کی طرف حوالہ دیا گیا ہے اس کے پاس مال کا حساب رکھتا ہو اور دوسرا اس کے برعکس ہو۔
(۹) بینک کے انعامات ←
→ (۷) قرض کے بونڈ کا بیچنا
(۱) بینک اپنے خریدار کےلئے حوالے صادر کرنے کے بدلے ایک رقم ملک کے اندر یا باہر خریدار کےاکاؤنٹ میں قبول کرتا ہے اگر اس کا بینک میں اکاؤنٹ ہو اوربینک اس کےبدلے ایک مخصوص اجرت لیتا ہے ظاہراً اس اجرت کالینا جائز ہے کیونکہ بینک کو حق ہےکہ اپنے خریدار کو قرض دوسرے مخصوص بینک میں ادا نہ کرے، اس بناء پر بینک کےلئے اپنے حق سے دست بردار ہونے اور دوسری جگہ قرض اداکرنے کےبدلے مخصوص اجرت لینا جائز ہے ۔
(۲)بینک ایک ایسا حوالہ کسی شخص کےلئے صادر کرتا ہے جس کے مطابق وہ شخص معین رقم دوسرے بینک سے( اندرون یا بیرون ملک میں ) جہاں خریدار کا اکاؤنٹ نہ ہو، قرض کےعنوان سے لکھتا ہے او ر بینک بھی اس کام کےلئے اجرت حاصل کرتا ہے۔
ظاہراً بینک کےلئے اس حوالے کے صادر کرنے کےبدلے اجرت لیناجائز ہے اس لئے کہ صورت حال اگر ایسی ہو کہ پہلا بینک دوسرے بینک کو قرض دینےکے تعلق سےوکیل بنائے اس شخص کےسرمایہ کےتعلق سے جو پہلا بینک دوسرے کےپاس رکھتا ہے اور اس کے بدلے اپنے کام کی اجرت لیتاہے اور یہ کام خود کو قرض دینے کے بدلے اجرت لینےکے معنی میں نہیں ہےجس سے حرام ہوجائے، بلکہ دوسرے کو قرض دینے کےلئے وکیل بنانے کے عوض مخصوص رقم لینے کے معنی میں ہے۔ اس لئے قرض دینے اور اس کے متعلق انجام دینےکےبدلے میں اجرت اداکرنانہیں ہے بلکہ قرض کےلئے وکیل بنانے کے عنوان سےہے اور اس لحاظ سےاس میں کوئی اشکال نہیں ہے اب اگر حوالے کی مذکورہ رقم بیرون ملک کی کرنسی ہوتویہ بینک کےلئے ایک اور حق فراہم کرتا ہے وہ اس طرح کہ مقروض حوالے کی کرنسی ادا کرنے کا پابند ہےجس کو ادا کرنا ضروری ہے۔اس لئے اگر بینک اپنے اس حق سے دست بردار ہوجائے اور مقروض کی ملکی کرنسی میں قرض کی ادائگی کو قبول کرے تو اس کے لئے جائز ہے کہ اپنی ان خدمات کےلئے خاص رقم دریافت کرے اور اسی طرح وہ قرض کی رقم کو دونوں ملکی کرنسی کےتعلق سے جو اضافی رقم ہوتی ہے اس کو ملکی کرنسی میں تبدیل کردے۔
(۳)ایک شخص معین رقم مثلاً نجف اشرف کےبینک کے سپرد کرتا ہے اوراس کے بدلے ایک حوالہ اسی رقم یا اس کے متبادل رقم کے مطابق کربلامیں موجود دوسرے بینک کےلئے حاصل کرتا ہے یابیرونی ملک جیسے لبنان کےلئےحاصل کرتا ہے اور بینک اپنی ان خدمات کے بدلے میں اجرت لیتا ہے اس کی دو صورت ہوسکتی ہے:
(پہلی:) ایک شخص ملک میں رائج کرنسی کی ایک خاص رقم کو غیر ملکی کرنسی سے جو اس کی رقم کےمتبادل ہے، بیچ دیتاہے اور بینک کی خدمات اور حوالے لینے کےلئے اجرت بھی ادا کردیتا ہے اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے اس کے جیسا مسئلہ گذر چکاہے۔
(دوسری:) ایک شخص معین رقم بینک کو قرض دےکر شرط رکھتا ہے بیرون یا اندرون ملک میں کسی دوسرے بینک کےلئے حوالہ لینےکے بدلے اجرت اداکرے گا اس صورت میں جو اشکال ہے وہ یہ ہےکہ حوالہ دینا ایک محترم کام ہے اور مالیت رکھتا ہے ، قرض دینے والے کی طرف سے، قرض دریافت کرنے والے کےلئے ہے انجام دینے کی شرط لگانا ،اس قسم کی شرطوں میں سےہے جس کی مالیت اور قیمت ہے اور شرعاً حرام ہے لیکن چونکہ روایتوں سےپتا چلتاہے کہ قرض دینےوالا ۔ قرض لینے والے سے یہ شرط کرسکتا ہے کہ اس کے قرض کی رقم دوسری جگہ ادا کرے لہٰذا حوالہ دینے کی بھی شرط کرسکتا ہے اور اگر یہ شرط بغیر عوض اور مفت رکھنا جائز ہوتو معین اجرت ادا کرنے کے بدلے، یقیناً جائز ہے۔
(۴)ایک شخص مثلاً نجف اشرف کےبینک سےایک رقم لیتا ہے او راس کے مقابلہ میں ایک حوالہ بینک کو دیتاہے تاکہ اس رقم کی متبادل رقم کوبیرون ملک یا اندرو ن ملک کے کسی بینک سے لے لے اور بینک اس حوالے کی خدمات کےبدلے اجرت لیتاہے اس فرض کی دوصورت ہے:
(پہلی:) بینک شخص کو ایک خاص رقم جو ملک میں رائج ہے بیرون ملک کی کرنسی کے متبادل اپنی اجرت ملا کر بیچ دیتا ہے اور خریدا ربھی بینک کو قیمت دریافت کرنے کےلئے دوسرے بینک کا حوالہ دیتا ہے یہ صورت جائز ہے۔
(دوسری:) بینک ایک مخصوص رقم کسی شخص کو قرض دیتا ہے اور قرض کو دوسرے کے ذمہ منتقلی کی ذمہ داری لینے کے بدلے اور دوسری جگہ رقم حاصل کرنے کے عوض ایک مخصوص اجرت لینے کی شرط رکھتا ہے یہ صورت ربا کی ہے اس لئے کہ کسی چیز کا اس طرح شرط کرنا گویا رقم کی مقدار پر شرط لگانا ہے اگر چہ یہ خدمات حوالہ دینے کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔
البتہ اگر یہ معاہدہ پہلے سے بغیر کسی شرط کےہوا ہوتو وہ اس طرح کہ ایک شخص پہلے بینک سے مخصوص رقم قرض لے اور اس کے بعد اپنے قرض کی ادائگی کےلئے جس بینک سے قرض لیا ہے اس لئے دوسرے بینک کا حوالہ دے اور بینک اس حوالے کے بدلے میں اجرت دینےکی درخواست کرے، اس صورت میں اجرت ادا کرنا جائز ہے کیونکہ بینک کو اس بات کا حق ہےکہ قرض کو دوسرے بینک میں منتقل کرنے اور قرض لینے والے کی شرط قبول کرنے سےانکار کرے اس لئے اس حق سے دستبردار ہونے کے عوض مخصوص رقم کا مطالبہ کرنے کاحق رکھتا ہے یہ صورت اس رقم کے عنوان میں نہیں آتی جہاں مقروض سے دیر سے قرض ادا کرنے کے بدلے رقم لی جاتی ہے تاکہ ربا ہوجائے بلکہ بینک اس رقم کو دوسرے کے ذمہ قرض منتقل کرنے اور اسے دوسری جگہ حاصل کرنے کے بدلےمیں لیتا ہے اس لئے کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۱۷)کبھی ایک حوالے کے ضمن میں دوحوالے ہوتے ہیں ، جیسے مقروض ، قرض دینے والے کو ایک چیک اس کے نام بینک کے حوالے کرتا ہے او ر بینک چیک میں مندرج رقم کو قرض دینے والے کے شہر کی کسی برانچ یا دوسرے بینک سے رجوع کرنے کو کہتا ہے تاکہ قرض دینے والا مذکورہ مبلغ وہاں سےلے لے۔ حقیقت میں اس صورت میں د و حوالے پائےجاتے ہیں :
(پہلا:) مقروض ،قرض دینے والے کوبینک کا حوالہ دیتا ہے اور اس طرح بینک قرض دینے والے کا مقروض ہوجاتاہے۔
(دوسرا:) بینک قرض دینے والے کو اپنی کسی برانچ یا کسی دوسرے بینک سے مذکورہ رقم حاصل کرنے کو کہتا ہے اس مقام پر پہلے حوالے کی صورت میں بینک کا کردار حوالہ قبول کرنا ہے اور دوسرے حوالے کی صورت میں بینک کا کردار حوالہ صادر کرنا ہے ۔ دونوں حوالے شرعاً صحیح ہیں لیکن اگر بینک اپنی کسی برانچ کا حوالہ دے اور یہ حوالہ خود اسی بینک کا ہوجائے تو فقہی اصطلاح میں اس کو حوالہ نہیں کہتے ہیں کیونکہ اس میں قرض کے منتقلی کی صورت پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ حقیقت میں بینک نے اپنے وکیل سے طلب کیا ہے کہ ایک شخص کی مطلوبہ رقم کو جس جگہ وہ چاہے ادا کردے۔
ہر صورت میں بینک کےلئے جائزہےکہ مذکورہ بالا امور کو انجام دینے کےبدلے یہاں تک کہ اس حوالے کو قبول کرنے کے بدلے جس کا بینک میں اکاؤنٹ ہے اجرت کامطالبہ کرے۔اس لئے یہ حوالہ ان حوالے کی قسموں میں سے ہے جو مقروض کےلئے ہےجس کو بینک قبول نہ کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس صورت میں اگر قبول کرتا ہے تو ان خدمات کے بدلے اجرت لینا جائز ہے ۔
مسئلہ (۲۸۱۸)جو باتیں حوالے کی قسموں اور اس کے فقہی احکام میں گذرچکی ہیں وہی باتیں افراد کو حوالہ دینے میں بھی جاری ہیں ، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص ایک خاص رقم کسی شخص کو ادا کرسکتا ہے اور اس سے کسی دوسرے شہرکےلئے ایک حوالہ لے لے اور اس کے بدلے اجرت طلب کرے یا ایک خاص رقم کسی سے لے لے اور اس کو کسی دوسرے شخص کے حوالے کردے اور اس کام کےلئے اجرت حاصل کرلے۔
مسئلہ (۲۸۱۹)جو باتیں گذر چکی ہیں ان میں اس بات میں کوئی فرق نہیں ہے کہ حوالہ مقروض شخص پر ہو یا کسی اور کے ذمہ میں ہو، پہلی صورت کی مثال اس کی طرح ہے جس کی طرف حوالہ دیا گیا ہے اس کے پاس مال کا حساب رکھتا ہو اور دوسرا اس کے برعکس ہو۔