فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
(۳) سرمایہ کی حفاظت ←
→ ملحقات توضیح المسائل ـ بینک کے معاملات ـ (۱) قرض لینا
(۲) بینک گارنٹی
یہ اسناد دو طرح کے ہوتے ہیں :
(۱) درآمد کےلئے اسناد(Import Licence)!جو شخص بیرون ملک سے کسی مال کو منگوانا چاہتا ہے وہ بینک سے رجوع کرتا ہے اور ایسے اسنا د کےلئے اکاؤنٹ کھولنے کا خواہش مند ہوتا ہے نتیجہ میں بینک اس بات کاپابند ہوجاتا ہے کہ بیرون ملک سےآنے والے مال کی سند کو اس اکاؤنٹ کھولنے والے کو دے اور اس کی رقم کو مال بھیجنے والے کے اکاؤنٹ میں ڈال دے۔
مال بھیجنے والے کے ساتھ معاملہ مکمل ہوجانے کےبعد جو خط وکتابت کے ذریعہ یااپنے ملک میں موجود اس کے نمائندہ کی طرف رجوع کرکے اور مال کی کمیت اور کیفیت کو معین کرنے والی فہرست حاصل کرکے اور اس مال کی کچھ قیمت بینک میں ڈالنے کے بعد آخرمیں ان اسناد کو اپنے قبضہ میں لےکر اس مال کی قیمت کو بیچنے والےکے پاس بھیج دے۔
(۲)برآمدات کےلئے اسناد(Export Licence): اس سند اور گذشتہ سند میں نام کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے مال کو بیرون ملک بھیجنے کا خواہش مند ہوتاہے اور غیر ملکی خریدار اس سے رابطہ کرنے کےلئے بینک گارنٹی حاصل کرتے ہیں جس کی بنیاد پر بینک مال کی سند کو باہری خریدار کے حوالے کرتاہے اور اس کی قیمت کو مذکورہ بالا تمام مرحلوں کو طے کرنے کےبعد مال بھیجنے والے کے حوالے کرتاہے۔
نتیجہ میں یہ دونوں اسناد کے درمیان حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہےاور یہ اسناد (خواہ درآمد کےلئے یا برآمد کےلئے ہو) سےمراد یہ ہےکہ بینک خریدار کے قرض کو ادا کرنےکا پابند ہوتا ہے یعنی خریدے گئے مال کی قیمت اور اس کے اسناد کو خریدنے والے کےحوالے کرنا۔
البتہ ایک اور قسم کی سند بھی ہوتی ہے وہ یہ ہےکہ مال بھیجنے والاایک ایسی فہرست کے ہمراہ جس میں مال کی کیفیت و کمیت کابیان ہوتاہے جب کہ ابھی مال کےلینے والے کےساتھ کوئی معاملہ نہیں ہوا ہے اس ملک میں کسی بینک یا اس کی شاخ میں بھیجتا ہے اور بینک بھی ترتیب کےمطابق اس فہرست کو متوقع خریدار کے لئے بھیج دیتا ہے اور اگر وہ شخص فہرست میں مندرج مال خریدنے کا خواہش مند ہوتو بینک سےگارنٹی حاصل کرتا ہے اور بینک بھی اس مال کے اسناد کو اسےدینے اور اس کی قیمت وصولنے کےلئے اقدام کرتا ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۵)مذکورہ تمام قسم کی گارنٹی کا بینک سے حاصل کرنا اوران مراحل کو طے کرنے کےلئے بینک کی طرف سے اقدام کرناجائز ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۶)بینک اس طرح کی گارنٹی حاصل کرنے والے سےدو طرح کا فائدہ لیتا ہے:
(۱) بینک کا اپنی خدمات کےمقابل فائدہ لینا جیسے قرض ادا کرنے کا پابند ہونا، مال بھیجنے والے کے ساتھ رابطہ قائم کرنا اور ان سےاس کے اسناد کالینا اور خریدار وغیرہ کے حوالے کرنا، اس طرح کا فائدہ لیناجائز ہے کیونکہ یہ جعالہ کے معاملات میں شامل ہے یعنی: بینک سے گارنٹی لینے والا ان خدمتوں کے مقابل ایک خاص رقم کو معین کرتا ہے اور اسی طرح اسے( اس صورت میں کہ اس کے صحیح ہونے کےشرائط پائے جارہے ہوں ) تو اسے اجارہ کے معاملہ میں بھی شامل کرسکتے ہیں ۔
(۲)بینک مال کی قیمت کو اپنے سرمایہ سےادا کرتا ہے نا کہ خریدار کےسرمایہ سے دیتا ہے اور اس کے مقابل خریدار کی جانب سے ایک معین مدت تک مطالبہ نہ کرنے کی صورت میں تمام دی گئی رقم سے فی صد کے مطابق فائدہ حاصل کرتا ہے۔
یہ کہا گیا ہے کہ اس طرح کا فائدہ حاصل کرنا جعالہ کے معاملہ کی بنیاد پر جائز سمجھا جاتا ہے وہ اس طرح کہ گارنٹی حاصل کرنے والا ان خدمتوں کے مقابل ایک خاص رقم کو معین کرتا ہے اور ممکن ہےکہ اجارہ کے معاملہ کےمطابق صحیح ہو اگر اجارہ کے صحیح ہونے کی شرطیں پائی جاتی ہوں لیکن واضح ہےکہ گارنٹی حاصل کرنے والابینک سے صرف اصل قرض کی ادائگی کا ضامن ہے لہٰذا بینک کی طرف سے قرض کی ادائگی کی مہلت کے مقابل لیاگیا فائدہ ربا اور حرام ہے۔
البتہ اگرگارنٹی حاصل کرنے والا بینک کی طرف سے قرض کی ادائگی کے مقابل میں صرف قرض اور مدت والے اس کے فائدہ (مثلاً دو مہینہ) کومخصوص رقم قرار دے تو یہ معاملہ جعالہ میں شامل ہوجائے گا اور اس صورت میں یہ معاملہ صحیح ہے۔
اسی طرح اس معاملہ کو سودسے نجات دلانے اور فائدہ کو صحیح قرار دینے کےلئے اس معاملہ کو خرید و فروخت کے معاملہ میں شامل کرسکتا ہے بینک مال کی قیمت کو غیر ملکی کرنسی کے ذریعہ مال بھیجنے والے کو ادا کرتا ہے اس لئے غیر ملکی کرنسی کی کچھ مقدار کو خریدار کے ذمہ میں ملک میں رائج کرنسی میں بیچ سکتا ہے جس سے اضافی ملنے والی رقم اور فائدہ پرنظر ہوتی ہے اور چونکہ مال اور اس کی قیمت دونوں دو الگ قسم کے ہیں اس لئے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
گذشتہ تمام مسائل کا بیان ان مقامات سے متعلق ہے کہ جہاں پرائیویٹ بینکوں میں اکاؤنٹ ہو لیکن اگر سرکاری یا مشترکہ بینک ہوں کہ جہاں گارنٹی حاصل کرنے والوں کے قرض کو مجھول المالک سرمایہ سے ادا ئگی کی جاتی ہے تو یہاں شرعی طورپر انسان بینک کا قرض دار نہیں کہاجائے گا لہٰذا سود کےساتھ اصل قرض کی ادائگی کا پابند ہوناحرام اور ربا میں شمار نہیں ہوگا۔
(۳) سرمایہ کی حفاظت ←
→ ملحقات توضیح المسائل ـ بینک کے معاملات ـ (۱) قرض لینا
(۱) درآمد کےلئے اسناد(Import Licence)!جو شخص بیرون ملک سے کسی مال کو منگوانا چاہتا ہے وہ بینک سے رجوع کرتا ہے اور ایسے اسنا د کےلئے اکاؤنٹ کھولنے کا خواہش مند ہوتا ہے نتیجہ میں بینک اس بات کاپابند ہوجاتا ہے کہ بیرون ملک سےآنے والے مال کی سند کو اس اکاؤنٹ کھولنے والے کو دے اور اس کی رقم کو مال بھیجنے والے کے اکاؤنٹ میں ڈال دے۔
مال بھیجنے والے کے ساتھ معاملہ مکمل ہوجانے کےبعد جو خط وکتابت کے ذریعہ یااپنے ملک میں موجود اس کے نمائندہ کی طرف رجوع کرکے اور مال کی کمیت اور کیفیت کو معین کرنے والی فہرست حاصل کرکے اور اس مال کی کچھ قیمت بینک میں ڈالنے کے بعد آخرمیں ان اسناد کو اپنے قبضہ میں لےکر اس مال کی قیمت کو بیچنے والےکے پاس بھیج دے۔
(۲)برآمدات کےلئے اسناد(Export Licence): اس سند اور گذشتہ سند میں نام کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے مال کو بیرون ملک بھیجنے کا خواہش مند ہوتاہے اور غیر ملکی خریدار اس سے رابطہ کرنے کےلئے بینک گارنٹی حاصل کرتے ہیں جس کی بنیاد پر بینک مال کی سند کو باہری خریدار کے حوالے کرتاہے اور اس کی قیمت کو مذکورہ بالا تمام مرحلوں کو طے کرنے کےبعد مال بھیجنے والے کے حوالے کرتاہے۔
نتیجہ میں یہ دونوں اسناد کے درمیان حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہےاور یہ اسناد (خواہ درآمد کےلئے یا برآمد کےلئے ہو) سےمراد یہ ہےکہ بینک خریدار کے قرض کو ادا کرنےکا پابند ہوتا ہے یعنی خریدے گئے مال کی قیمت اور اس کے اسناد کو خریدنے والے کےحوالے کرنا۔
البتہ ایک اور قسم کی سند بھی ہوتی ہے وہ یہ ہےکہ مال بھیجنے والاایک ایسی فہرست کے ہمراہ جس میں مال کی کیفیت و کمیت کابیان ہوتاہے جب کہ ابھی مال کےلینے والے کےساتھ کوئی معاملہ نہیں ہوا ہے اس ملک میں کسی بینک یا اس کی شاخ میں بھیجتا ہے اور بینک بھی ترتیب کےمطابق اس فہرست کو متوقع خریدار کے لئے بھیج دیتا ہے اور اگر وہ شخص فہرست میں مندرج مال خریدنے کا خواہش مند ہوتو بینک سےگارنٹی حاصل کرتا ہے اور بینک بھی اس مال کے اسناد کو اسےدینے اور اس کی قیمت وصولنے کےلئے اقدام کرتا ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۵)مذکورہ تمام قسم کی گارنٹی کا بینک سے حاصل کرنا اوران مراحل کو طے کرنے کےلئے بینک کی طرف سے اقدام کرناجائز ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۶)بینک اس طرح کی گارنٹی حاصل کرنے والے سےدو طرح کا فائدہ لیتا ہے:
(۱) بینک کا اپنی خدمات کےمقابل فائدہ لینا جیسے قرض ادا کرنے کا پابند ہونا، مال بھیجنے والے کے ساتھ رابطہ قائم کرنا اور ان سےاس کے اسناد کالینا اور خریدار وغیرہ کے حوالے کرنا، اس طرح کا فائدہ لیناجائز ہے کیونکہ یہ جعالہ کے معاملات میں شامل ہے یعنی: بینک سے گارنٹی لینے والا ان خدمتوں کے مقابل ایک خاص رقم کو معین کرتا ہے اور اسی طرح اسے( اس صورت میں کہ اس کے صحیح ہونے کےشرائط پائے جارہے ہوں ) تو اسے اجارہ کے معاملہ میں بھی شامل کرسکتے ہیں ۔
(۲)بینک مال کی قیمت کو اپنے سرمایہ سےادا کرتا ہے نا کہ خریدار کےسرمایہ سے دیتا ہے اور اس کے مقابل خریدار کی جانب سے ایک معین مدت تک مطالبہ نہ کرنے کی صورت میں تمام دی گئی رقم سے فی صد کے مطابق فائدہ حاصل کرتا ہے۔
یہ کہا گیا ہے کہ اس طرح کا فائدہ حاصل کرنا جعالہ کے معاملہ کی بنیاد پر جائز سمجھا جاتا ہے وہ اس طرح کہ گارنٹی حاصل کرنے والا ان خدمتوں کے مقابل ایک خاص رقم کو معین کرتا ہے اور ممکن ہےکہ اجارہ کے معاملہ کےمطابق صحیح ہو اگر اجارہ کے صحیح ہونے کی شرطیں پائی جاتی ہوں لیکن واضح ہےکہ گارنٹی حاصل کرنے والابینک سے صرف اصل قرض کی ادائگی کا ضامن ہے لہٰذا بینک کی طرف سے قرض کی ادائگی کی مہلت کے مقابل لیاگیا فائدہ ربا اور حرام ہے۔
البتہ اگرگارنٹی حاصل کرنے والا بینک کی طرف سے قرض کی ادائگی کے مقابل میں صرف قرض اور مدت والے اس کے فائدہ (مثلاً دو مہینہ) کومخصوص رقم قرار دے تو یہ معاملہ جعالہ میں شامل ہوجائے گا اور اس صورت میں یہ معاملہ صحیح ہے۔
اسی طرح اس معاملہ کو سودسے نجات دلانے اور فائدہ کو صحیح قرار دینے کےلئے اس معاملہ کو خرید و فروخت کے معاملہ میں شامل کرسکتا ہے بینک مال کی قیمت کو غیر ملکی کرنسی کے ذریعہ مال بھیجنے والے کو ادا کرتا ہے اس لئے غیر ملکی کرنسی کی کچھ مقدار کو خریدار کے ذمہ میں ملک میں رائج کرنسی میں بیچ سکتا ہے جس سے اضافی ملنے والی رقم اور فائدہ پرنظر ہوتی ہے اور چونکہ مال اور اس کی قیمت دونوں دو الگ قسم کے ہیں اس لئے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
گذشتہ تمام مسائل کا بیان ان مقامات سے متعلق ہے کہ جہاں پرائیویٹ بینکوں میں اکاؤنٹ ہو لیکن اگر سرکاری یا مشترکہ بینک ہوں کہ جہاں گارنٹی حاصل کرنے والوں کے قرض کو مجھول المالک سرمایہ سے ادا ئگی کی جاتی ہے تو یہاں شرعی طورپر انسان بینک کا قرض دار نہیں کہاجائے گا لہٰذا سود کےساتھ اصل قرض کی ادائگی کا پابند ہوناحرام اور ربا میں شمار نہیں ہوگا۔