فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
(۲) بینک گارنٹی ←
→ چند فِقہی اصطلاحات
ملحقات توضیح المسائل ـ بینک کے معاملات ـ (۱) قرض لینا
(۱)قرض لینا
اسلامی ملکوں میں بینک تین طرح کے ہوتے ہیں :
(۱)پرائیویٹ بینک:جس میں بینک کا سرمایہ ایک یا متعدد سرمایہ گزاروں کے ذریعہ قرار پاتا ہے۔
(۲)سرکاری بینک: جس کا سرمایہ سرکاری مال سے ہوتا ہے۔
(۳) مشترکہ بینک: جس کا سرمایہ سرکار اورعوام کے مال سے قرار پاتا ہے۔
مسئلہ (۲۷۹۷)پرائیویٹ بینکوں سے اس شرط پر قرض لینا کہ قرض لی گئی رقم سے زیادہ ادا کیا جائے گا ، سود اورحرام ہے اور اگر کوئی شخص اس طرح سے قرض لے تو قرض لینا صحیح ہے اور شرط باطل ہے اور اضافی رقم کا شرط کے مطابق لینا اور ادا کرنا حرام ہے۔
سود سے بچنے کےلئے مختلف راستے بیان کئے گئے ہیں جیسے:
(۱) قرض لینے والا کسی مال کو بینک یا اس کے وکیل سے مال کی واقعی قیمت سے ۱۰ یا ۲۰ فی صد زیادہ مہنگی رقم سے خریدے یا کسی مال کو اس کی واقعی قیمت سے کم پربینک کو بیچے اور معاہدہ کے ضمن میں یہ شرط کرے کہ بینک اس رقم کو جو دونوں کے درمیان طے پائی ہے خاص مدت کے لئے قرض دے گا۔ اس صورت میں کہاجاتا ہےکہ بینک سے قرض لینا جائز ہے اور سود نہیں ہے لیکن یہ مسئلہ اشکال سے خالی نہیں ہے اوراحتیاط واجب کی بناء پر اس سے پرہیز کریں ۔ یہی حکم ہبہ اجارہ اور صلح کے سلسلے میں شرط کے ساتھ قرض دینے میں جاری ہے اوریہی حکم ہے اگر کوئی شخص محابات(یعنی کم قیمت میں بیچنا یا زیادہ قیمت میں خریدنا) معاملہ میں شرط کرلے کہ قرض اداکرنے میں اسےمہلت دے گا۔
(۲)قرض کو خرید وفروخت سے بدل دیں جیسے بینک کسی مخصوص رقم کو مثلاً ہزار روپیہ کو بارہ سو روپیہ میں ادھار کی شکل میں دو مہینہ کے لئے بیچ دے اگر چہ حقیقت میں یہ صورت سودی قرض کی نہیں ہے لیکن معاملہ کی صحت میں اشکال ہے ۔ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ بینک کسی رقم مثلاً ایک ہزار روپیہ کو کسی دوسری کرنسی جیسے دینار کی صورت میں ادھار بیچ دے اور اس کی قیمت کو کرنسی کی قیمت مثلاً بارہ سو روپیہ کے مطابق قرار دے اور ادا کرتے وقت جائز ہےکہ کرنسی کے بجائے روپیہ ادا کرے کہ اس صورت میں قرض کی ادائگی کی جنس بدل جائے گی اور فریقین کی رضایت کے ساتھ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۳) بینک کسی مال کو ایک رقم مثلاً بارہ سو روپیہ میں ادھار کی صورت میں کسی خریدار کوبیچ دےاورپھر اس کو نقد کی صورت میں کم رقم مثلاً ہزار روپیہ میں خریدلے۔ معاملہ کی یہ صورت بھی اس شکل میں کہ پہلے معاملہ میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ بینک مال کو دوبارہ نقد کی شکل میں اس کی ادھار قیمت سے کم میں خریدلے گا یا معاملہ سے پہلے شرط کرے اور معاہدہ کو اسی شرط پر قرار دے مثلاً معاہدہ کے ضمن میں یہ کہا جائے کہ گزشتہ شرط کی بنیاد پراسے قرار دیا جارہاہے تو صحیح نہیں ہے لیکن اگر ایسی کوئی شرط درمیان میں نہ ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے یہ بات یادرہے کہ یہ راستے(اگر صحیح بھی ہوں ) بینک کے معاملات میں کسی بنیادی مقصد کو ثابت نہیں کرتے اور وہ یہ ہےکہ اگر قرض دار اپنی قسط مقرر وقت پر ادا نہ کرسکے توبینک اضافی رقم تاخیر کے عنوان سےمطالبہ کرسکتاہے کیونکہ قرض کی ادائگی میں تاخیر کےعنوان سے سود لینا ربا اور حرام ہے اگرچہ اسے معاہدہ کے ساتھ شر ط کی صورت میں ہی کیوں نہ قرار دیا جائے۔
مسئلہ (۲۷۹۸)سرکاری بینکوں سے قرض لینا ، سود دینے کی شرط پر جائز نہیں ہے چونکہ یہ سود ہے اور اس میں کسی رھن کو رکھنے یا نہ رکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی شخص اس شرط کےساتھ سرکاری بینک سے قرض لے تو قرض اورشرط دونوں باطل ہیں ۔اس لئے کہ بینک اپنے مال کا مالک نہیں ہے کہ قرض دینے والے کی ملکیت میں قرار دے۔ اس مشکل سے نجات کےلئے قرض لینے والا حاکم شرع ( مرجع تقلید) کی اجازت سے مطلوبہ رقم کو اس اعتبار سے قرض لےکہ بینک کاسرمایہ مجھول المالک ہے اور اس میں تصرف کااختیار حاکم شرع کو ہے۔ اوریہ اجازت ہم نے تمام مومنین کو دے دیا ہے اور اتناکافی ہےکہ کوئی شخص بینک سے پیسہ لے لے او رلیتے وقت اپنے دل میں کہےکہ اس رقم کوحاکم شرع کی طرف سے اپنے آپ کو قرض دیا۔ اوراس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ یہ جانتا ہو کہ بےشک قانون کے مطابق اصل رقم کو سود کے ساتھ ادا کرنے کا پابند ہے۔
مسئلہ (۲۷۹۹)پرائیویٹ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا( درواقع ان کو قرض دینے کے جیسا ہے) اگر سود کی شرط نہ کریں تو جائز ہے اگرچہ یہ جانتا ہو کہ اسے سود ملے گا، شرط نہ قرار دئے جانے سےمراد یہ ہےکہ قلبی طور پر یہ بنیاد قرار نہ دی ہو کہ اگر بینک نہ دے تو سود کا مطالبہ کرے گا کیونکہ ممکن ہے کہ یہ بنیاد نہ قرار دے لیکن شرط رکھے اور ممکن ہے یہ بنیاد نہ رکھتا ہو لیکن شرط نہ رکھے بلکہ شرط نہ کرنے سے مراد یہ ہےکہ اکاؤنٹ کھولنے کو بینک سےمعاہدہ کرتے وقت سود کی ادائگی کی شرط قرار نہ دے۔
مسئلہ (۲۸۰۰)پرائیویٹ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا (انھیں قرض دینےکے معنی میں ) سود لینے کی شرط پر جائز نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اکاؤنٹ کھولنا صحیح ہوگا اور شرط باطل ہے اور اگر بینک سود دے تو وہ اس کا مالک نہیں ہوگا لیکن اگر اس بات سےمطمئن ہو کہ بینک کےمالک شرعی مالکیت کے نہ ہونے کے علم کےباوجود اس شخص کے مال (سود) میں تصرف پر راضی ہیں تو اس کا تصرف اشکال نہیں رکھتا اور عام طور سےایسا ہی ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۱)سرکاری بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا( انہیں قرض دینےکے معنی میں ) سود لینے کی شرط پر جائز نہیں ہے اور وہ سود ربا ہے بلکہ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے سے اگرچہ سود لینے کی قیمت کے بغیر ہو پھر بھی شرعی طورپر مال کے ضائع کرنےکے برابر ہے اس لئےکہ جو چیز بینکوں سے بعد میں واپس لی جاتی ہے وہ بینک کامال نہیں ہوتی بلکہ مجھول المالک کا مال ہے اس بناء پر انسان جو اپنی درآمد اور فائدوں کو سرکاری بینکوں میں خمس ادا کئے بغیر رکھتا ہے تو یہ محل اشکال ہے اس لئے کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے اس مال میں تصرف کا حق رکھتا ہے لیکن ضائع کرنے کا حق نہیں ہے اور اگر اسے ضائع کردے تو مستحقین خمس کی رقم کا ضامن ہوگا۔البتہ یہ اس صورت میں ہےکہ حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اکاؤنٹ کھولا گیا ہو لیکن اگر حاکم شرعی کسی شخص کو اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دے اور بینک کے نظام کو بھی اجازت دے کہ بینک میں موجود سرمایہ کے ذریعہ اس اکاؤنٹ کی رقم کو ادا کرے تو اس طرح کا اکاؤنٹ کھولنے میں کوئی شرعی اشکال نہیں ہے جس طرح جائز ہےکہ اکاؤنٹ کھولنے والا بغیر شرط کے ملنے والے سود کو لے لے اور اس کی آدھی رقم اپنے ذاتی امورمیں استعمال کرے اور اس رقم کا دوسرا حصہ فقیر اور مستحق افراد کو صدقہ کے عنوان سےدے دےاور تمام مومنین کو ہماری طرف سے اکاؤنٹ کھولنے سود لینے اور مذکور طریقہ سےاس کے استعمال کرنے میں اجازت ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۲)اکاؤنٹ کھولنے میں ( ان مصادیق میں جن کا بیان گذر چکا) فکس اکاؤنٹ (یعنی جس کی مدت معین ہے اور بینک کے لئے ضروری نہیں ہےکہ ہمیشہ اکاؤنٹ کھولنے والے کےاختیار میں قرار دے) اور کرنٹ اکاؤنٹ (یعنی جس میں بینک کے لئے ضروری ہوتا ہےکہ اکاؤنٹ کھولنے والے کے اختیار میں قرار دے) ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۳)مشترکہ بینک (ان مقامات میں جن کا بیان گذر گیا ہے) سرکاری بینکوں کے حکم میں ہے اور اس میں موجود سرمایہ مجھول المالک کےسرمایہ کا حکم رکھتا ہے جس میں حاکم شرع کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۴)جو باتیں غیر سرکاری اور سرکاری بینک میں اکاؤنٹ کھولنے اور ان سے قرض لینے کے بارے میں بتائی گئی ہیں ان کا تعلق اسلامی حکومتوں کے بینک سے ہے لیکن ان بینکوں میں سود لینےکےلئے اکاؤنٹ کھولنا جن کاسرمایہ غیر مسلمانوں سے متعلق ہے خواہ یہ بینک پرائیویٹ ، سرکاری، یامشترکہ ہوں جائز ہے کیونکہ ان سے سود لینا جائز ہے لیکن ان سے سود ادا کرنے کی شرط پر قرض لینا حرام ہے اور اس سے نجات کےلئے مال کو قرض کی نیت کے بغیر بینک سےلے لے اور اس میں تصرف کرنے کےلئے حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اگر چہ جانتا ہو کہ اس سے اصل سرمایہ اور سود کو لے لیا جائے گا۔
(۲) بینک گارنٹی ←
→ چند فِقہی اصطلاحات
اسلامی ملکوں میں بینک تین طرح کے ہوتے ہیں :
(۱)پرائیویٹ بینک:جس میں بینک کا سرمایہ ایک یا متعدد سرمایہ گزاروں کے ذریعہ قرار پاتا ہے۔
(۲)سرکاری بینک: جس کا سرمایہ سرکاری مال سے ہوتا ہے۔
(۳) مشترکہ بینک: جس کا سرمایہ سرکار اورعوام کے مال سے قرار پاتا ہے۔
مسئلہ (۲۷۹۷)پرائیویٹ بینکوں سے اس شرط پر قرض لینا کہ قرض لی گئی رقم سے زیادہ ادا کیا جائے گا ، سود اورحرام ہے اور اگر کوئی شخص اس طرح سے قرض لے تو قرض لینا صحیح ہے اور شرط باطل ہے اور اضافی رقم کا شرط کے مطابق لینا اور ادا کرنا حرام ہے۔
سود سے بچنے کےلئے مختلف راستے بیان کئے گئے ہیں جیسے:
(۱) قرض لینے والا کسی مال کو بینک یا اس کے وکیل سے مال کی واقعی قیمت سے ۱۰ یا ۲۰ فی صد زیادہ مہنگی رقم سے خریدے یا کسی مال کو اس کی واقعی قیمت سے کم پربینک کو بیچے اور معاہدہ کے ضمن میں یہ شرط کرے کہ بینک اس رقم کو جو دونوں کے درمیان طے پائی ہے خاص مدت کے لئے قرض دے گا۔ اس صورت میں کہاجاتا ہےکہ بینک سے قرض لینا جائز ہے اور سود نہیں ہے لیکن یہ مسئلہ اشکال سے خالی نہیں ہے اوراحتیاط واجب کی بناء پر اس سے پرہیز کریں ۔ یہی حکم ہبہ اجارہ اور صلح کے سلسلے میں شرط کے ساتھ قرض دینے میں جاری ہے اوریہی حکم ہے اگر کوئی شخص محابات(یعنی کم قیمت میں بیچنا یا زیادہ قیمت میں خریدنا) معاملہ میں شرط کرلے کہ قرض اداکرنے میں اسےمہلت دے گا۔
(۲)قرض کو خرید وفروخت سے بدل دیں جیسے بینک کسی مخصوص رقم کو مثلاً ہزار روپیہ کو بارہ سو روپیہ میں ادھار کی شکل میں دو مہینہ کے لئے بیچ دے اگر چہ حقیقت میں یہ صورت سودی قرض کی نہیں ہے لیکن معاملہ کی صحت میں اشکال ہے ۔ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ بینک کسی رقم مثلاً ایک ہزار روپیہ کو کسی دوسری کرنسی جیسے دینار کی صورت میں ادھار بیچ دے اور اس کی قیمت کو کرنسی کی قیمت مثلاً بارہ سو روپیہ کے مطابق قرار دے اور ادا کرتے وقت جائز ہےکہ کرنسی کے بجائے روپیہ ادا کرے کہ اس صورت میں قرض کی ادائگی کی جنس بدل جائے گی اور فریقین کی رضایت کے ساتھ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۳) بینک کسی مال کو ایک رقم مثلاً بارہ سو روپیہ میں ادھار کی صورت میں کسی خریدار کوبیچ دےاورپھر اس کو نقد کی صورت میں کم رقم مثلاً ہزار روپیہ میں خریدلے۔ معاملہ کی یہ صورت بھی اس شکل میں کہ پہلے معاملہ میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ بینک مال کو دوبارہ نقد کی شکل میں اس کی ادھار قیمت سے کم میں خریدلے گا یا معاملہ سے پہلے شرط کرے اور معاہدہ کو اسی شرط پر قرار دے مثلاً معاہدہ کے ضمن میں یہ کہا جائے کہ گزشتہ شرط کی بنیاد پراسے قرار دیا جارہاہے تو صحیح نہیں ہے لیکن اگر ایسی کوئی شرط درمیان میں نہ ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے یہ بات یادرہے کہ یہ راستے(اگر صحیح بھی ہوں ) بینک کے معاملات میں کسی بنیادی مقصد کو ثابت نہیں کرتے اور وہ یہ ہےکہ اگر قرض دار اپنی قسط مقرر وقت پر ادا نہ کرسکے توبینک اضافی رقم تاخیر کے عنوان سےمطالبہ کرسکتاہے کیونکہ قرض کی ادائگی میں تاخیر کےعنوان سے سود لینا ربا اور حرام ہے اگرچہ اسے معاہدہ کے ساتھ شر ط کی صورت میں ہی کیوں نہ قرار دیا جائے۔
مسئلہ (۲۷۹۸)سرکاری بینکوں سے قرض لینا ، سود دینے کی شرط پر جائز نہیں ہے چونکہ یہ سود ہے اور اس میں کسی رھن کو رکھنے یا نہ رکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی شخص اس شرط کےساتھ سرکاری بینک سے قرض لے تو قرض اورشرط دونوں باطل ہیں ۔اس لئے کہ بینک اپنے مال کا مالک نہیں ہے کہ قرض دینے والے کی ملکیت میں قرار دے۔ اس مشکل سے نجات کےلئے قرض لینے والا حاکم شرع ( مرجع تقلید) کی اجازت سے مطلوبہ رقم کو اس اعتبار سے قرض لےکہ بینک کاسرمایہ مجھول المالک ہے اور اس میں تصرف کااختیار حاکم شرع کو ہے۔ اوریہ اجازت ہم نے تمام مومنین کو دے دیا ہے اور اتناکافی ہےکہ کوئی شخص بینک سے پیسہ لے لے او رلیتے وقت اپنے دل میں کہےکہ اس رقم کوحاکم شرع کی طرف سے اپنے آپ کو قرض دیا۔ اوراس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ یہ جانتا ہو کہ بےشک قانون کے مطابق اصل رقم کو سود کے ساتھ ادا کرنے کا پابند ہے۔
مسئلہ (۲۷۹۹)پرائیویٹ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا( درواقع ان کو قرض دینے کے جیسا ہے) اگر سود کی شرط نہ کریں تو جائز ہے اگرچہ یہ جانتا ہو کہ اسے سود ملے گا، شرط نہ قرار دئے جانے سےمراد یہ ہےکہ قلبی طور پر یہ بنیاد قرار نہ دی ہو کہ اگر بینک نہ دے تو سود کا مطالبہ کرے گا کیونکہ ممکن ہے کہ یہ بنیاد نہ قرار دے لیکن شرط رکھے اور ممکن ہے یہ بنیاد نہ رکھتا ہو لیکن شرط نہ رکھے بلکہ شرط نہ کرنے سے مراد یہ ہےکہ اکاؤنٹ کھولنے کو بینک سےمعاہدہ کرتے وقت سود کی ادائگی کی شرط قرار نہ دے۔
مسئلہ (۲۸۰۰)پرائیویٹ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا (انھیں قرض دینےکے معنی میں ) سود لینے کی شرط پر جائز نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اکاؤنٹ کھولنا صحیح ہوگا اور شرط باطل ہے اور اگر بینک سود دے تو وہ اس کا مالک نہیں ہوگا لیکن اگر اس بات سےمطمئن ہو کہ بینک کےمالک شرعی مالکیت کے نہ ہونے کے علم کےباوجود اس شخص کے مال (سود) میں تصرف پر راضی ہیں تو اس کا تصرف اشکال نہیں رکھتا اور عام طور سےایسا ہی ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۱)سرکاری بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا( انہیں قرض دینےکے معنی میں ) سود لینے کی شرط پر جائز نہیں ہے اور وہ سود ربا ہے بلکہ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے سے اگرچہ سود لینے کی قیمت کے بغیر ہو پھر بھی شرعی طورپر مال کے ضائع کرنےکے برابر ہے اس لئےکہ جو چیز بینکوں سے بعد میں واپس لی جاتی ہے وہ بینک کامال نہیں ہوتی بلکہ مجھول المالک کا مال ہے اس بناء پر انسان جو اپنی درآمد اور فائدوں کو سرکاری بینکوں میں خمس ادا کئے بغیر رکھتا ہے تو یہ محل اشکال ہے اس لئے کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے اس مال میں تصرف کا حق رکھتا ہے لیکن ضائع کرنے کا حق نہیں ہے اور اگر اسے ضائع کردے تو مستحقین خمس کی رقم کا ضامن ہوگا۔البتہ یہ اس صورت میں ہےکہ حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اکاؤنٹ کھولا گیا ہو لیکن اگر حاکم شرعی کسی شخص کو اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دے اور بینک کے نظام کو بھی اجازت دے کہ بینک میں موجود سرمایہ کے ذریعہ اس اکاؤنٹ کی رقم کو ادا کرے تو اس طرح کا اکاؤنٹ کھولنے میں کوئی شرعی اشکال نہیں ہے جس طرح جائز ہےکہ اکاؤنٹ کھولنے والا بغیر شرط کے ملنے والے سود کو لے لے اور اس کی آدھی رقم اپنے ذاتی امورمیں استعمال کرے اور اس رقم کا دوسرا حصہ فقیر اور مستحق افراد کو صدقہ کے عنوان سےدے دےاور تمام مومنین کو ہماری طرف سے اکاؤنٹ کھولنے سود لینے اور مذکور طریقہ سےاس کے استعمال کرنے میں اجازت ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۲)اکاؤنٹ کھولنے میں ( ان مصادیق میں جن کا بیان گذر چکا) فکس اکاؤنٹ (یعنی جس کی مدت معین ہے اور بینک کے لئے ضروری نہیں ہےکہ ہمیشہ اکاؤنٹ کھولنے والے کےاختیار میں قرار دے) اور کرنٹ اکاؤنٹ (یعنی جس میں بینک کے لئے ضروری ہوتا ہےکہ اکاؤنٹ کھولنے والے کے اختیار میں قرار دے) ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۳)مشترکہ بینک (ان مقامات میں جن کا بیان گذر گیا ہے) سرکاری بینکوں کے حکم میں ہے اور اس میں موجود سرمایہ مجھول المالک کےسرمایہ کا حکم رکھتا ہے جس میں حاکم شرع کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۸۰۴)جو باتیں غیر سرکاری اور سرکاری بینک میں اکاؤنٹ کھولنے اور ان سے قرض لینے کے بارے میں بتائی گئی ہیں ان کا تعلق اسلامی حکومتوں کے بینک سے ہے لیکن ان بینکوں میں سود لینےکےلئے اکاؤنٹ کھولنا جن کاسرمایہ غیر مسلمانوں سے متعلق ہے خواہ یہ بینک پرائیویٹ ، سرکاری، یامشترکہ ہوں جائز ہے کیونکہ ان سے سود لینا جائز ہے لیکن ان سے سود ادا کرنے کی شرط پر قرض لینا حرام ہے اور اس سے نجات کےلئے مال کو قرض کی نیت کے بغیر بینک سےلے لے اور اس میں تصرف کرنے کےلئے حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اگر چہ جانتا ہو کہ اس سے اصل سرمایہ اور سود کو لے لیا جائے گا۔