فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
غصب کے احکام ←
→ نکاح کے احکام
طلاق کے احکام
مسئلہ (۲۵۱۶)جومرداپنی بیوی کوطلاق دے اس کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہولیکن اگردس سال کابچہ بیوی کوطلاق دے تواس کے بارے میں احتیاط کی رعایت کریں اوراسی طرح ضروری ہے کہ مرداپنے اختیار سے طلاق دے اوراگراسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پرمجبور کیاجائے توطلاق باطل ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شخص طلاق کی نیت رکھتاہولہٰذااگروہ مثلاً مذاق یا مدہوشی میں طلاق کاصیغہ کہے توطلاق صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۱۷)ضروری ہے کہ عورت طلاق کے وقت حیض یانفاس سے پاک ہواور اس کے شوہرنے اس پاکی کے دوران اس سے ہم بستری نہ کی ہواوران دوشرطوں کی تفصیل آئندہ مسائل میں بیان کی جائے گی۔
مسئلہ (۲۵۱۸)عورت کوحیض یانفاس کی حالت میں تین صورتوں میں طلاق دیناصحیح ہے:
۱:) شوہر نے نکاح کے بعداس سے ہم بستری نہ کی ہو۔
۲:)معلوم ہوکہ وہ حاملہ ہے اوراگریہ بات معلوم نہ ہواورشوہراسے حیض کی حالت میں طلاق دے دے اوربعدمیں شوہرکوپتاچلے کہ وہ حاملہ تھی تووہ طلاق باطل ہے اگرچہ بہترہےکہ احتیاط کی رعایت ہو خواہ دوبارہ طلاق کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو۔
۳:)مردکےلئے عورت کے غائب ہونے یا کسی اورسبب سےچاہے وہ عورت کے اپنی حالت کے چھپانے کی شکل میں ہو ممکن نہ ہو کہ وہ جان پائے کہ عورت حیض و نفاس سے پاک ہے یا نہیں لیکن اس صورت میں (احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ مردانتظارکرے تاکہ بیوی سے جداہونےکے بعدکم از کم ایک مہینہ گزرجائے اس کے بعداسے طلاق دے۔
مسئلہ (۲۵۱۹)اگرکوئی شخص عورت کوحیض سے پاک سمجھے اوراسے طلاق دے دے اوربعدمیں پتاچلے کہ وہ حیض کی حالت میں تھی تواس کی طلاق باطل ہےسوائے مذکورہ صورت میں اوراگر شوہر اسے حیض کی حالت میں سمجھے اورطلاق دے دے اوربعد میں معلوم ہوکہ پاک تھی تواس کی طلاق صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۰)جس شخص کوعلم ہوکہ اس کی بیوی حیض یانفاس کی حالت میں ہے اگر وہ بیوی سے جداہو جائے مثلا سفر اختیار کرے اور اسے طلاق دیناچاہتاہوتواسے چاہئے کہ اتنی مدت انتظارکرے جس میں اسے یقین یااطمینان ہوجائے کہ وہ عورت حیض یانفاس سے پاک ہوگئی ہے اورجب وہ یہ جان لے کہ عورت پاک ہے اسے طلاق دے اور اگر اسے شک ہوتب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اس صورت میں غائب کی طلاق کے بارے میں مسئلہ (۲۵۱۸) میں جوشرائط بیان ہوئی ہیں ان کاخیال رکھے۔
مسئلہ (۲۵۲۱)جوشخص اپنی بیوی سے جداہواگروہ اسے طلاق دیناچاہے تواگر وہ معلوم کرسکتاہوکہ اس کی بیوی حیض یانفاس کی حالت میں ہے یانہیں تواگرچہ عورت کی حیض کی عادت یاان دوسری نشانیوں کوجو شرع میں معین ہیں دیکھتے ہوئے اسے طلاق دے اوربعد میں معلوم ہوکہ وہ حیض یانفاس کی حالت میں تھی تواس کی طلاق صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۲)اگر کوئی شخص اپنی بیوی سےجماع کرے چاہے وہ پاک حالت میں ہو یا حیض کی حالت میں ہو اور اُسے طلاق دینا چاہے تو ضروری ہےکہ انتظار کرے تاکہ اس کو دوبارہ حیض آجائے اور پاک ہوجائے لیکن وہ زوجہ جس کی عمر کے نو سال پورے نہیں ہوئےہیں جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ حاملہ ہے تو اگر اسے جماع کے بعد طلاق دیں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور یہی حکم یائسہ عورت کےلئے بھی ہے(یائسہ کےبارے میں ( ۲۴۶۶) میں گزر چکا ہے۔)
مسئلہ (۲۵۲۳)اگرکوئی شخص ایسی عورت سے ہم بستری کرے جوحیض یانفاس سے پاک ہواوراسی پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے دے اوربعدمیں معلوم ہو کہ وہ طلاق دینے کے وقت حاملہ تھی تووہ طلاق باطل ہےلیکن احتیاط کی رعایت بہتر ہے اگر چہ یہ طلاق تجدید کی صورت میں ہو۔
مسئلہ (۲۵۲۴)اگرکوئی شخص ایسی عورت سے ہم بستری کرے جو حیض یانفاس سے پاک ہوپھروہ اس سے جدا ہوجائے مثلاً سفر اختیار کرے لہٰذا اگروہ چاہے کہ سفر کے دوران اسے طلاق دے اور اس کی پاکی یاناپاکی کے بارے میں نہ جان سکتاہو توضروری ہے کہ اتنی مدت انتظار کرے کہ عورت کواس پاکی کے بعد حیض آئے اوروہ دوبارہ پاک ہو جائے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ مدت ایک مہینے سے کم نہ ہو۔اور اگر بیان کی گئ رعایت کے مطابق طلاق دے اور پھر پتا چلے کہ طلاق اس کی پہلی والی پاکی کے عالم میں ہوگئی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۵)اگرکوئی مرداپنی عورت کوطلاق دیناچاہتاہوجسے فطری طورپر یاکسی بیماری کی وجہ سےیا دودھ پلانے یا دوا کھانے یا کسی اور وجہ سے حیض نہ آتاہواوراس عمرکی دوسری عورتوں کوحیض آتاہوتوضروری ہے کہ جب اس نے عورت سے جماع کیاہو اس وقت سے تین مہینے تک اس سے جماع نہ کرے اوربعدمیں اسے طلاق دے ۔
مسئلہ (۲۵۲۶)ضروری ہے کہ طلاق کاصیغہ صحیح عربی میں لفظ ’’طَالِقٌ‘‘ کے ساتھ پڑھا جائے اوردو عادل مرداسے سنیں ۔اگرشوہر خودطلاق کاصیغہ پڑھناچاہے اور مثال کے طورپر اس کی بیوی کانام عاطفہ ہوتوضروری ہے کہ کہے: ’’زَوْجَتِیْ عَاطِفَۃُ طَالِقٌ‘‘ یعنی میری بیوی عاطفہ آزاد ہے اوراگروہ کسی دوسرے شخص کووکیل کرے توضروری ہے کہ وکیل کہے : ’’زَوْجَۃُ مُوَکِّلِیْ عَاطِفَۃُ طَالِقٌ‘‘اوراگرعورت معین ہوتواس کانام لینالازم نہیں ہے اوراگر حاضر ہو تو’’ ھٰذِہٖ طَالِقٌ ‘‘کہنا کافی ہے اور اس کی طرف اشارہ کرے یا’’ اَنْتِ طَالِقٌ ‘‘کہے اور اسے مخاطب قرار دے اور اگرمرد عربی میں طلاق کاصیغہ نہ پڑھ سکتاہواوروکیل بھی نہ بناسکے تووہ جس زبان میں چاہے ہراس لفظ کے ذریعے طلاق دے سکتاہے جو عربی لفظ کے ہم معنی ہو۔
مسئلہ (۲۵۲۷)عقد متعہ میں طلاق نہیں ہےاوراس کاآزاد ہونااس بات پر منحصر ہے کہ یاتومتعہ کی مدت ختم ہو جائے یامرد اسے مدت بخش دے اوروہ اس طرح کہ اس سے کہے : ’’میں نے مدت تجھے بخش دی‘‘ اورکسی کواس پرگواہ قراردینااوراس عورت کاحیض یانفاس سے پاک ہونالازم نہیں ۔
طلاق کی عدت
مسئلہ (۲۵۲۸)جس لڑکی کی عمر (پورے) نوسال نہ ہوئی ہواوراس طرح جوعورت یائسہ ہوچکی ہواس کی کوئی عدت نہیں ہوتی۔یعنی اگرچہ شوہرنے اس سے مجامعت کی ہو، طلاق کے بعد وہ فوراً دوسراشوہر کرسکتی ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۹)جس عورت کی عمر(پورے) نوسال ہوچکی ہواورجوعورت یائسہ نہ ہو، اس کاشوہراس سے مجامعت کرے تواگروہ اسے طلاق دے توضروری ہے کہ وہ عورت طلاق کے بعد عدت رکھے اور عورت کی عدت یہ ہے کہ جب اس کاشوہر اسے پاکی کی حالت میں طلاق دے تواگر اُس کے دو حیض کی مدت تین مہینہ سے کم ہواس کے بعدوہ اتنی مدت انتظارکرے کہ دودفعہ حیض سے پاک ہوجائے اورجونہی اسے تیسری دفعہ حیض آئے تواس کی عدت ختم ہوجاتی ہے اور وہ دوسرانکاح کرسکتی ہے۔لیکن اگرشوہر عورت سے مجامعت کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دے تواس کے لئے کوئی عدت نہیں یعنی وہ طلاق کے فوراً بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن اگرشوہر کی منی اس کی شرم گاہ میں داخل ہوئی ہوتواس صورت میں ضروری ہے کہ وہ عورت عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۳۰)جس عورت کوحیض نہ آتاہولیکن اس کاسن ان عورتوں جیساہو جنہیں حیض آتاہویا حیض آتا ہو لیکن دو حیض کی درمیانی مدت تین مہینہ یا اس سے زیادہ ہوتواگر اس کاشوہر مجامعت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تو ضروری ہے کہ طلاق کے بعد تین قمری مہینے کی عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۳۱)جس عورت کی عدت تین مہینے ہواگراسے چاند کے مہینہ کی پہلی تاریخ کو طلاق دی جائے تو ضروری ہے کہ مکمل تین مہینے تک اوراگراسے مہینے کے دوران (کسی اور تاریخ کو) طلاق دی جائے توضروری ہے کہ اس مہینے کے باقی دنوں میں اس کے بعد آنے والے دو مہینے اور چوتھے مہینے کے اتنے دن جتنے دن پہلے مہینے سے کم ہو عدت رکھے تاکہ تین مہینے مکمل ہوجائیں مثلاً اگراسے مہینے کی بیسویں تاریخ کوغروب کے وقت طلاق دی جائے اوریہ مہینہ تیس دن کاہوتواس کی عدت کا اختتام چوتھے مہینہ کے بیسویں دن کے غروب پر ہوگا اور اگر( ۲۹) دن کامہینہ ہوتو احتیاط واجب یہ ہے کہ چوتھے مہینے کے اکیس دن عدت رکھے تاکہ پہلے مہینے کے جتنے دن عدت رکھی ہے انہیں ملاکردنوں کی تعدادتیس ہوجائے۔
مسئلہ (۲۵۳۲)اگرحاملہ عورت کوطلاق دی جائے تواس کی عدت وضع حمل یااسقاط حمل تک ہے لہٰذا مثال کے طورپر اگرطلاق کے ایک گھنٹے بعدبچہ پیداہوجائے توعورت کی عدت ختم ہوجائے گی۔لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب وہ بچہ صاحبۂ عدت کےشرعی شوہر کا بیٹاہولہٰذا اگرعورت زناسے حاملہ ہوئی ہواور شوہراسے طلاق دے تواس کی عدت بچے کے پیداہونے سے ختم نہیں ہوتی۔
مسئلہ (۲۵۳۳)جس عورت نے عمر کے نوسال مکمل کرلئے ہوں اورجو عورت یائسہ نہ ہواگروہ متعہ کرے تو اگر اس کاشوہر اس سے مجامعت کرے اوراس عورت کی مدت تمام ہو جائے یا شوہراسے مدت بخش دے توضروری ہے کہ وہ عدت رکھے۔پس اگراسے حیض آئے توضروری ہے کہ وہ دو حیض کے برابر عدت رکھے اور نکاح نہ کرے اور ایک بار حیض کا آنا (احتیاط واجب کی بنا پر) کافی نہیں ہے اور اگرحیض نہ آئے توپینتالیس دن نکاح کرنے سے اجتناب کرے اور حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت بچے کی پیدائش یااسقاط ہونے تک ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو مدت وضع حمل یا پینتالیس دن سے زیادہ ہو اتنی مدت کے لئے عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۳۴)طلاق کی عدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب صیغہ کاپڑھنا ختم ہو جاتاہے خواہ عورت کو پتاچلے یانہ چلے کہ اسے طلاق دی گئی ہے پس اگراسے عدت (کے برابر مدت) گزرنے کے بعدپتاچلے کہ طلاق ہوگئی ہے توضروری نہیں کہ وہ دوبارہ عدت رکھے۔
وفات کی عدت
مسئلہ (۲۵۳۵)اگرکوئی عورت بیوہ ہو جائے اگر وہ حاملہ نہ ہوتوضروری ہے کہ قمری چارمہینے اور دس دن عدت رکھے یعنی نکاح کرنے سے پرہیز کرے خواہ صغیرہ(۹؍سال سے کم ہو) یا یائسہ ہو یا متعہ کیا ہو یا کافر ہو یا طلاق رجعی کی عدت میں ہو یا شوہر نے اس سے مجامعت نہ کی ہو یہا ں تک کہ اگر شوہر بچہ یا دیوانہ رہاہو اوراگرحاملہ ہو تو ضروری ہے کہ وضع حمل تک عدت رکھے لیکن اگرچارمہینے اوردس دن گزرنے سے پہلے بچہ پیداہوجائے توضروری ہے کہ شوہر کی موت کے بعدچارمہینے دس دن تک صبر کرے اوراس عدت کووفات کی عدت کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۵۳۶)جو عورت وفات کی عدت میں ہواس کے لئے زینت والا لباس پہننا،سرمہ لگانااوراسی طرح دوسرے ایسے کام جوزینت میں شمارہوتے ہوں حرام ہیں لیکن گھر سے باہر نکلنا حرام نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۳۷)اگرعورت کویقین ہوجائے کہ اس کاشوہرمرچکاہے اورعدت وفات تمام ہونے کے بعد وہ دوسرانکاح کرے اورپھراسے معلوم ہوکہ اس کے شوہر کی موت بعد میں واقع ہوئی ہے اور دوسرا عقد پہلے شوہر کی زندگی میں ہوا تھا یا اس کی واقعی عدت وفات تھی توضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے علیٰحدگی اختیار کرے اور( احتیاط واجب کی بناپر)دو عدت رکھےاس صورت میں جب کہ وہ دوسرے شوہر سے حاملہ ہووضع حمل تک دوسرے شوہر کے لئے وطی شبہ کی عدت رکھے(جو طلاق کی عدت کی طرح ہے)اور اس کے بعد پہلے شوہر کے لئے عدت وفات رکھے اوراگرحاملہ نہ ہوتو اگر پہلے شوہر کی موت سے پہلے دوسرے شوہر نے مجامعت کیا ہو تو پہلے عدۂ وفات رکھے اوراس کے بعد وطی شبہ کی عدت رکھے اور اگر مجامعت موت سے پہلے ہوئی تو اس کی عدت مقدم ہے۔
مسئلہ (۲۵۳۸)جس عورت کاشوہرلاپتا ہویالاپتا ہونے کے حکم میں ہواس کی عدت وفات شوہر کی موت کی اطلاع ملنے کے وقت سے شروع ہوتی ہے نا کہ شوہر کی موت کے وقت سے، لیکن اس حکم کااس عورت کے لئے ہوناجونابالغ یاپاگل ہو اشکال ہے اور احتیاط کی رعایت کرناواجب ہے۔
مسئلہ (۲۵۳۹)اگرعورت کہے کہ میری عدت ختم ہوگئی ہے تواس کی بات قابل قبول ہے مگریہ کہ وہ غلط بیان مشہورہوتواس صورت میں ( احتیاط واجب کی بناپر) اس کی بات قابل قبول نہیں ہے۔مثلاً وہ کہے کہ: مجھے ایک مہینے میں تین دفعہ خون آتاہے تواس بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی مگریہ کہ اس کی رشتے دار عورتیں اس بات کی تصدیق کریں کہ اس کی حیض کی عادت ایسی ہی تھی۔
طلاق بائن اورطلاق رجعی
مسئلہ (۲۵۴۰)طلاق بائن وہ طلاق ہے کہ جس کے بعدمرداپنی عورت کی طرف رجوع کرنے کاحق نہیں رکھتایعنی یہ کہ بغیرنکاح کے دوبارہ اسے اپنی بیوی نہیں بناسکتا اور اس طلاق کی چھ قسمیں ہیں :
۱:) اس عورت کو دی گئی طلاق جس کی عمرابھی نوسال نہ ہوئی ہو۔
۲:)اس عورت کودی گئی طلاق جویائسہ ہو۔
۳:)اس عورت کودی گئی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعداس سے جماع نہ کیاہو۔
۴:)تیسرا طلاق جس کی وضاحت( ۲۵۴۵) میں آئےگی۔
۵:)خلع اورمبارات کی طلاق کہ جن کے احکام آئندہ بیان ہوں گے۔
۶:)حاکم شرع کااس عورت کوطلاق دیناجس کاشوہرنہ اس کے اخراجات دینے پر تیار ہو اورنہ اسے طلاق دینے پر تیار ہو۔
ان(مذکورہ) طلاقوں کے علاوہ جوطلاقیں ہیں وہ رجعی ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ جب تک عورت عدت میں ہوشوہر اس سے رجوع کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۵۴۱)جس شخص نے اپنی عورت کورجعی طلاق دی ہواس کے لئے اس عورت کواس گھر سے نکال دیناجس میں وہ طلاق دینے کے وقت مقیم تھی حرام ہے۔ البتہ بعض موقعوں پرجن میں سے ایک یہ ہے کہ عورت زناکرے تواسے گھر سے نکال دینے میں کوئی اشکال نہیں ۔اوریہ بھی حرام ہے کہ عورت غیرضروری کاموں کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر اس گھرسے باہرجائے اور مرد پر بھی عدت کے دوران زندگی کے اخراجات دینا واجب ہے۔
رجوع کرنے کے احکام
مسئلہ (۲۵۴۲)رجعی طلاق میں مرددوطریقوں سے اپنی عورت کی طرف رجوع کر سکتا ہے:
۱:) ایسی باتیں کرے جن سے یہ معنی نکلے کہ اس نے اسے دوبارہ اپنی بیوی بنالیاہے۔
۲:)کوئی کام کرے اوراس کام سے رجوع کاقصد کرے اور جماع کرنے سے رجوع ثابت ہوجاتاہے خواہ اس کاقصدرجوع کرنے کانہ بھی ہو۔ لیکن شہوت کے ساتھ ساتھ ہاتھ لگانے اوربوسہ لینے میں اشکال ہے اور( احتیاط واجب کی بناء پر) اگر رجوع نہ کرناچاہتا ہوتو ضروری ہےکہ دوبارہ طلاق دے۔
مسئلہ (۲۵۴۳)رجوع کرنے میں مرد کے لئے لازم نہیں کہ کسی کوگواہ بنائے یااپنی بیوی کو(رجوع کے متعلق) اطلاع دے بلکہ اگربغیر اس کے کہ کسی کوپتاچلے وہ خود ہی رجوع کرلے تواس کارجوع کرناصحیح ہے لیکن اگر عدت ختم ہوجانے کے بعد مرد کہے کہ میں نے عدت کے دوران ہی رجوع کرلیاتھا اور عورت تصدیق نہ کرےتولازم ہے کہ مرد اس بات کوثابت کرے۔
مسئلہ (۲۵۴۴)جس مرد نے عورت کورجعی طلاق دی ہواگروہ اس سے کچھ مال لے لے اوراس سے مصالحت کرلے کہ اب تجھ سے رجوع نہ کروں گاتواگرچہ یہ مصالحت درست ہے اورمردپرواجب ہے کہ رجوع نہ کرے لیکن اس سے مرد کے رجوع کاحق ختم نہیں ہوتااوراگروہ رجوع کرے تو وہ دوبارہ اس کی بیوی بن جائے گی۔
مسئلہ (۲۵۴۵)اگرکوئی شخص اپنی بیوی کودودفعہ طلاق دے کراس کی طرف رجوع کرلے یا اسے دو دفعہ طلاق دے اور ہر طلاق کے بعداس سے نکاح کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع کرے اوردوسری طلاق کے بعد نکاح کرے توتیسری طلاق کے بعدوہ اس مرد پرحرام ہوجائے گی۔لیکن اگرعورت تیسری طلاق کے بعدکسی دوسرے مرد سے نکاح کرے تووہ پانچ شرطوں کے ساتھ پہلے مردپرحلال ہوگی یعنی وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکے گا:
۱:) دوسرے شوہرکانکاح دائمی ہو۔پس اگر اس عورت سے متعہ کرلے تواس مرد کے اس سے علیٰحدگی کے بعدپہلا شوہر اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔
۲:)دوسراشوہرجماع کرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ جماع فرج(آگے کی شرم گاہ) میں کرے دُبر (پیچھے کی شرم گاہ )میں نہ ہو۔
۳:)دوسراشوہراسے طلاق دے یامرجائے۔
۴:)دوسرے شوہر کی طلاق کی عدت یاوفات کی عدت ختم ہوجائے۔
۵:)احتیاط واجب کی بناپردوسراشوہرجماع کرتے وقت بالغ ہو۔
طلاق خلع
مسئلہ (۲۵۴۶)اس عورت کی طلاق کوجواپنے شوہر کی طرف مائل نہ ہواور اس سے نفرت کرتی ہواپنامہریاکوئی اورمال بخش دے تاکہ وہ اسے طلاق دے دے’’ طلاق خلع‘‘ کہتے ہیں اورطلاق خلع میں معتبرہے کہ عورت اپنے شوہر سے اس قدر شدید نفرت کرتی ہو کہ اسے وظیفۂ زوجیت ادانہ کرنے کی دھمکی دے۔
مسئلہ (۲۵۴۷)جب شوہر خودطلاق خلع کاصیغہ پڑھناچاہے تواگراس کی بیوی کا نام عاطفہ ہوتوعوض لینے کے بعدکہے:’’زَوْجَتِیْ عَاطِفَۃُ خَالَعْتُھَاعَلیٰ مَابَذَلَتْ‘‘ اور احتیاط مستحب کی بناپر ’’فھِیَ طَالِقٌ‘‘ بھی کہے یعنی میں نے اپنی بیوی عاطفہ کواس مال کے عوض جو اس نے مجھے دیاہے طلاق خلع دے رہاہوں اوروہ آزادہے اوراگرعورت معین ہوتوطلاق خلع نیز طلاق مبارات میں اس کانام لینالازم نہیں ۔
مسئلہ (۲۵۴۸)اگرکوئی عورت کسی شخص کووکیل مقررکرے تاکہ وہ اس کامہر اس کے شوہر کو بخش دے اورشوہر بھی اسی شخص کووکیل مقررکرے تاکہ وہ اس کی بیوی کوطلاق دے دے تواگرمثال کے طورپرشوہرکانام محمداوربیوی کانام عاطفہ ہوتووکیل صیغہ ٔ طلاق یوں پڑھے:’’عَنْ مُوَکِّلَتِیْ عَاطِفَۃَ بَذَلْتُ مَہْرَھَالِمُوَکِّلِیْ مُحَمَّدٍ لِیَخْلَعَھَاعَلَیْہِ‘‘ اور اس کے بعد بلا فاصلہ کہے: ’’زَوْجَۃُ مُوَکِّلِیْ خَالَعْتُھَاعَلیٰ مَابَذَلَتْ فَھِیَ طَالقٌ‘‘اور اگرعورت کسی کووکیل مقررکرے کہ اس کے شوہر کومہرکے علاوہ کوئی اور چیز بخش دے تاکہ اس کاشوہر اسے طلاق دے دے توضروری ہے کہ وکیل لفظ ’’مَہْرَھَا‘‘ کے بجائے اس چیز کانام لے مثلاًاگرعورت نے سوروپے دیئے ہوں توضروری ہے کہ کہے: ’’بَذَلَتْ مِاَۃَ رُوْبِیَۃ‘‘۔
طلاق مبارات
مسئلہ (۲۵۴۹)اگرمیاں بیوی دونوں ایک دوسرے کونہ چاہتے ہوں اورایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں اورعورت مردکوکچھ مال دے تاکہ وہ اسے طلاق دے دے تواسے’’ طلاق مبارات‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۵۵۰)اگرشوہر مبارات کاصیغہ پڑھناچاہے تواگرمثلاً عورت کانام عاطفہ ہو توضروری ہے کہ کہے: ’’بَارَاْتُ زَوْجَتِیْ عَاطِفَۃَ عَلیٰ مَابَذَلَتْ‘‘اور( احتیاط لازم کی بنا پر) ’’فَھِیَ طَالِقٌ‘‘ بھی کہے یعنی میں اور میری بیوی عاطفہ اس ’عطا‘ کے مقابل میں جواس نے کی ہے ایک دوسرے سے جداہوگئے ہیں پس وہ آزاد ہے اور اگروہ شخص کسی کووکیل مقرر کرے توضروری ہے کہ وکیل کہے: ’’عَنْ قِبَلِ مُوَکِّلِیْ بَارَاْتُ زَوْجَتَہٗ عَاطِفَۃَ عَلیٰ مَابَذَلَتْ فَھِیَ طَالِقٌ‘‘ اوردونوں صورتوں میں کلمۂ ’’عَلیٰ مَابَذَلَتْ‘‘ کے بجائے اگر ’’بِمَابَذَلَتْ‘‘ کہے توکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۵۱)خلع اورمبارات کی طلاق کاصیغہ اگرممکن ہوتوصحیح عربی میں پڑھا جانا چاہئے اوراگرممکن نہ ہوتواس کاحکم طلاق کے حکم جیساہے جس کابیان مسئلہ (۲۵۲۶) میں گزرچکاہے۔لیکن اگرعورت مبارات کی طلاق کے لئے شوہر کواپنامال بخش دے۔ مثلاً اردو میں کہے کہ: ’’میں نے طلاق لینے کے لئے فلاں مال تمہیں بخش دیا‘‘توکوئی اشکال نہیں ۔
مسئلہ (۲۵۵۲)اگرکوئی عورت طلاق خلع یاطلاق مبارات کی عدت کے دوران اپنی بخشش سے پھرجائے توشوہر اس کی طرف رجوع کرسکتاہے اوردوبارہ نکاح کئے بغیر اسے اپنی بیوی بناسکتاہے۔
مسئلہ (۲۵۵۳)جومال شوہر طلاق مبارات دینے کے لئے لے(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ وہ عورت کے مہر سے زیادہ نہ ہولیکن طلاق خلع کے سلسلے میں لیاجانے والامال اگرمہرسے زیادہ بھی ہوتوکوئی اشکال نہیں ۔
طلاق کے مختلف احکام
مسئلہ (۲۵۵۴)اگرکوئی آدمی کسی نامحرم عورت سے اس گمان میں جماع کرے کہ وہ اس کی بیوی ہے توخواہ عورت کوعلم ہوکہ وہ شخص اس کاشوہر نہیں ہے یاگمان کرے کہ اس کاشوہر ہے ضروری ہے کہ عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۵۵)اگرکوئی آدمی کسی عورت سے یہ جانتے ہوئے زناکرے کہ وہ اس کی بیوی نہیں ہے تواگر عورت کوعلم ہوکہ وہ آدمی اس کاشوہر نہیں ہے اس کے لئے عدت رکھنا ضروری نہیں ۔ لیکن اگراسے شوہر ہونے کاگمان ہوتواحتیاط لازم یہ ہے کہ وہ عورت عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۵۶)اگرکوئی آدمی کسی عورت کوورغلائے کہ وہ اپنے شوہرسے متعلق ازدواجی ذمے داریاں پوری نہ کرے تاکہ اس طرح شوہر اسے طلاق دینے پرمجبور ہو جائے اوروہ خوداس عورت کے ساتھ شادی کرسکے توطلاق اورنکاح صحیح ہیں لیکن دونوں نے بہت بڑاگناہ کیاہے۔
مسئلہ (۲۵۵۷)اگرعورت نکاح کے سلسلے میں شوہر سے شرط کرے کہ اگراس کاشوہر مخصوص شرائط میں طولانی سفراختیار کرے یا مثلاًچھ مہینے اسے خرچ نہ دے یا طولانی مدت تک زندان میں رہے وغیرہ توطلاق کااختیار عورت کوحاصل ہوگاتو یہ شرط باطل ہے۔لیکن اگروہ یوں شرط کرے کہ ابھی سے شوہر کی طرف سے وکیل ہے کہ اگر وہ مخصوص شرائط میں یا بغیرقید وشرط اپنے کو طلاق دے گی توشرط صحیح ہے اور اسے بعدمیں اس وکالت سے معزول نہیں کرسکتا ہے اور اگر عورت نے خود کو طلاق دے کر جدا کرلیا تو طلاق صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۵۵۸)جس عورت کاشوہرلاپتا ہوجائے اگروہ دوسراشوہرکرناچاہے تو ضروری ہے کہ مجتہدعادل کے پاس جائے اور’’ منھاج الصالحین‘‘ میں بیان کئے گئے مخصوص شرائط کے مطابق اسے طلاق دے سکتی ہے۔
مسئلہ (۲۵۵۹)دیوانے کے باپ دادااس کی بیوی کوطلاق دے سکتے ہیں اگر اس کی بھلائی میں ہو۔
مسئلہ (۲۵۶۰)اگرباپ یادادا اپنے (نابالغ) لڑکے (یاپوتے) کاکسی عورت سے متعہ کردیں اورمتعہ کی مدت میں اس لڑکے کے مکلف ہونے کی کچھ مدت بھی شامل ہو مثلا ً اپنے چودہ سالہ لڑکے کاکسی عورت سے دو سال کے لئے متعہ کردیں تواگراس میں لڑکے کی بھلائی ہوتووہ (یعنی باپ یادادا) اس عورت کی مدت بخش سکتے ہیں لیکن لڑکے کی دائمی بیوی کوطلاق نہیں دے سکتے۔
مسئلہ (۲۵۶۱)اگرکوئی شخص دوآدمیوں کوشرع کی مقررکردہ علامت کی روسے عادل سمجھے اوراپنی بیوی کوان کے سامنے طلاق دے دے توکوئی اورشخص جس کے نزدیک ان دوآدمیوں کی عدالت مشکوک ہو اور وہ یہ احتمال دے کہ طلاق دینے والے شخص کے نزدیک ان دو کی عدالت ثابت تھی تو اس عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد اس کے ساتھ خود نکاح کرسکتاہے یااسے کسی دوسرے کے نکاح میں دے سکتاہےلیکن اگر عادل ہونے پر یقین ہوتو اس عورت سے عقد نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۵۶۲)جس عورت کو طلاق رجعی دیا گیا ہے وہ اس وقت تک شرعی بیوی کے حکم میں ہے جب تک کہ اس کا عدہ مکمل نہیں ہوجاتا پس ضروری ہےکہ ہر طرح کی لذت جو شوہر کاحق ہے اس سےمنع نہ کرے اور جائز ہے بلکہ مستحب ہےکہ اس کے لئےاپنے آپ کو زینت سے آراستہ کرے اور اس کی اجازت کےبغیر باہر نکلنا جائز نہیں ہے اور اگر نافرمانی نہیں کرتی تو اس کا خرچہ شوہر پر واجب ہے اور اس کا فطرہ اور کفن کا خرچ بھی شوہر کے ذمہ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کے مرنے کی صورت میں ایک دوسرے کی میراث پائیں گے اور مرد اس کے عدت کے دوران اس کی بہن سے عقد نہیں کرسکتا۔
غصب کے احکام
’’غصب‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص کسی کے مال پریاحق پر ظلم (اوردھونس یا دھاندلی) کے ذریعے قابض ہوجائے اوریہ وہ چیز ہے جو عقل، قرآن اور حدیث کی رو سےحرام ہے۔جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے ’’جوشخص کسی دوسرے کی ایک بالشت زمین غصب کرے قیامت کے دن اس زمین کو اس کے سات طبقوں سمیت طوق کی طرح اس کی گردن میں ڈال دیاجائے گا‘‘۔
مسئلہ (۲۵۶۳)اگرکوئی شخص لوگوں کو مسجد یامدرسے یاپل یادوسری ایسی جگہوں سے جو رفاہ عامہ کے لئے بنائی گئی ہوں استفادہ نہ کرنے دے تواس نے ان کاحق غصب کیا ہے۔ اسی طرح اگرکوئی شخص مسجد میں اپنے بیٹھنے کے لئے جگہ مختص کرے اوردوسرا کوئی شخص اسے اس جگہ سے نکال دے اور اسے اس جگہ سے استفادہ نہ کرنے دے تووہ گناہ گارہے۔
مسئلہ (۲۵۶۴)اگرگروی رکھوانے والااورگروی رکھنے والایہ طے کریں کہ جوچیز گروی رکھی جارہی ہو وہ گروی رکھنے والے یاکسی تیسرے شخص کے پاس رکھی جائے تو گروی رکھوانے والااس کاقرض اداکرنے سے پہلے اس چیز کوواپس نہیں لے سکتااور اگر وہ چیز واپس لی ہوتوضروری ہے کہ فوراً لوٹادے۔
مسئلہ (۲۵۶۵)جومال کسی کے پاس گروی رکھاگیاہواگرکوئی اورشخص اسے غصب کرلے تومال کامالک اورگروی رکھنے والادونوں غاصب سے غصب کی ہوئی چیز کا مطالبہ کر سکتے ہیں اوراگروہ چیز غاصب سے واپس لے لیں تووہ گروی ہی رہے گی ۔
مسئلہ (۲۵۶۶)اگرانسان کوئی چیزغصب کرے توضروری ہے کہ اس کے مالک کو لوٹا دے اوراگروہ چیز ضائع ہوجائے اوراس کی کوئی قیمت ہوتوضروری ہے کہ اس کا عوض جیسا کہ مسئلہ ( ۲۵۷۶)،(۲۵۷۷) میں بیان کیاجائے گا اس کے مطابق اس کو دے دے۔
مسئلہ (۲۵۶۷)جوچیز غصب کی گئی ہواگراس سے کوئی نفع ہومثلاً غصب کی ہوئی بھیڑ کابچہ پیداہوتووہ اس کے مالک کامال ہے نیزمثال کے طورپراگرکسی نے کوئی مکان غصب کرلیاہوتوخواہ غاصب اس مکان میں نہ رہے ضروری ہے کہ اس کاکرایہ مالک کو دے۔
مسئلہ (۲۵۶۸)اگرکوئی شخص بچے یادیوانے سے کوئی چیزجواس بچے یادیوانے کا مال ہوغصب کرے توضروری ہے کہ وہ چیز اس کے سرپرست کودے دے اوراگر وہ چیز تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے دے۔
مسئلہ (۲۵۶۹)اگردوآدمی مل کر کسی چیز کوغصب کریں چنانچہ وہ دونوں اس چیز پر تسلط رکھتے ہوں تو ان میں سے ہرایک اس پوری چیزکاضامن ہے اگرچہ ان میں سے ہر ایک جداگانہ طورپراسے غصب نہ کرسکتاہو۔
مسئلہ (۲۵۷۰)اگرکوئی شخص غصب کی ہوئی چیزکوکسی دوسری چیزسے ملادے مثلاً جوگیہوں غصب کی ہو اسے جو سے ملادے تواگران کاجداکرناممکن ہوتوخواہ اس میں زحمت ہی کیوں نہ ہوضروری ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرے اورغصب کی ہوئی چیز اس کے مالک کوواپس کردے۔
مسئلہ (۲۵۷۱)اگرکوئی شخص طلائی چیز مثلاً سونے کی بالیوں کوغصب کرے اوراس کے بعد اسے پگھلادے توپگھلانے سے پہلے اورپگھلانے کے بعد کی قیمت میں جو فرق ہو ضروری ہے کہ وہ مالک کوادا کرے چنانچہ اگرقیمت میں جوفرق پڑاہو وہ نہ دینا چاہے اور کہے کہ میں اسے پہلے کی طرح بنادوں گاتومالک مجبورنہیں کہ اس کی بات قبول کرے اور مالک بھی اسے مجبورنہیں کرسکتاکہ وہ اسے پہلے کی طرح بنادے۔
مسئلہ (۲۵۷۲)جس شخص نے کوئی چیز غصب کی ہواگروہ اس میں ایسی تبدیلی کرے کہ اس چیز کی حالت پہلے سے بہترہوجائے مثلاًجوسوناغصب کیاہواس کے بُندے بنا دے تواگرمال کامالک اسے کہے کہ مجھے مال اسی حالت میں یعنی بُندے کی شکل میں دوتوضروری ہے کہ اسے دے دے اورجوزحمت اس نے اٹھائی ہویعنی بُندے بنانے پرجومحنت کی ہو اس کی مزدوری نہیں لے سکتااوراسی طرح وہ یہ حق نہیں رکھتا کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس چیزکواس کی پہلی حالت میں لے آئے۔ لیکن اگراس کی اجازت کے بغیر اس چیز کوپہلے جیساکردے یااورکسی شکل میں تبدیل کرے تومعلوم نہیں ہے کہ دونوں صورتوں میں قیمت کاجوفرق ہے اس کاضامن ہے ۔
مسئلہ (۲۵۷۳)جس شخص نے کوئی چیز غصب کی ہواگروہ اس میں ایسی تبدیلی کرے کہ اس چیز کی حالت پہلے سے بہترہوجائے اورصاحب مال اسے اس چیزکی پہلی حالت میں واپس کرنے کوکہے تو اگر اس درخواست میں اس کا کوئی مقصد ہواس کے لئے واجب ہے کہ اسے اس کی پہلی حالت میں لے آئے اوراگرتبدیلی کرنے کی وجہ سے اس چیز کی قیمت پہلی حالت سے کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا فرق مالک کودے۔لہٰذا اگرکوئی شخص غصب کئے ہوئے سونے کا ہار بنالے اوراس سونے کامالک کہے کہ تمہارے لئے لازم ہے کہ اسے پہلی شکل میں لے آؤ تو اگرپگھلانے کے بعدسونے کی قیمت اس سے کم ہوجائے، جتنی ہاربنانے سے پہلی تھی تو غاصب کے لئے ضروری ہے کہ قیمتوں میں جتنافرق ہو اس کے مالک کودے۔
مسئلہ (۲۵۷۴)اگرکوئی شخص اس زمین میں جواس نے غصب کی ہوکھیتی باڑی کرے یا درخت لگائے تو زراعت،درخت اوران کاپھل خوداس کامال ہے اورزمین کا مالک اس بات پرراضی نہ ہوکہ زراعت اور درخت اس زمین میں رہیں توجس نے وہ زمین غصب کی ہو ضروری ہے کہ خواہ ایساکرنااس کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہووہ فوراً اپنی زراعت یا درختوں کوزمین سے اکھاڑلے نیز ضروری ہے کہ جتنی مدت زراعت اور درخت اس زمین میں رہے ہوں اتنی مدت کاکرایہ زمین کے مالک کودے اورجوخرابیاں زمین میں پیدا ہوئی ہوں انہیں درست کرے مثلاً جہاں درختوں کواکھاڑنے سے زمین میں گڑھے پڑ گئے ہوں اس جگہ کوہموار کرے اوراگران خرابیوں کی وجہ سے زمین کی قیمت پہلے سے کم ہو جائے توضروری ہے کہ قیمت میں جوفرق پڑے وہ بھی اداکرے اوروہ زمین کے مالک کواس بات پر مجبور نہیں کرسکتاکہ زمین اس کے ہاتھ بیچ دے یاکرائے پردے دے نیز زمین کامالک بھی اسے مجبورنہیں سکتاکہ درخت یازراعت اس کے ہاتھ بیچ دے۔
مسئلہ (۲۵۷۵)اگرزمین کامالک اس بات پرراضی ہوجائے کہ زراعت اور درخت اس کی زمین میں رہیں توجس شخص نے زمین غصب کی ہواس کے لئے لازم نہیں کہ زراعت اوردرختوں کواکھاڑے لیکن ضروری ہے کہ جب زمین غصب کی ہواس وقت سے لے کرمالک کے راضی ہونے تک کی مدت کازمین کاکرایہ دے۔
مسئلہ (۲۵۷۶)جوچیزکسی نے غصب کی ہواگروہ تلف ہوجائے اور اگر وہ قیمی ہو جیسےگائے اور بھیڑ تو ضروری ہےکہ اس کی قیمت دے (اور قیمی اس چیز کو کہتے ہیں جو ذاتی خصوصیات کی بناپر اس کےجیسی چیزیں لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے میں مؤثر ہیں وہ فراوان نہ ہو )چنانچہ بازار کی قیمت مطالبہ اور سپلائی کے لحاظ سے مختلف ہوگئی ہو توضروری ہے کہ وہ قیمت دے جوتلف ہونے کے وقت تھی۔
مسئلہ (۲۵۷۷)جوچیزکسی نے غصب کی ہواگروہ تلف ہوجائےاگر وہ مثلی ہو جیسے گیہوں اور جو تو ضروری ہے کہ (غاصب نے) جوچیزغصب کی ہواسی جیسی چیز مالک کودے۔ (اور مثلی اس چیز کو کہتے ہو جو اس کے جیسی چیزیں ذاتی خصوصیات کی بناء پر اس کے جیسی چیزیں لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہیں وہ فراوان ہیں ۔)لیکن جو چیز دے ضروری ہے کہ اس کی قسم اپنی خصوصیات میں اس غصب کی ہوئی چیز کی قسم کے مانند ہو جو تلف ہوگئی ہے،مثلاً اگربڑھیاقسم کاچاول غصب کیاتھاتوگھٹیاقسم کانہیں دے سکتا۔
مسئلہ (۲۵۷۸)اگرایک شخص قیمی چیز غصب کرے اوروہ تلف ہوجائے اگر جتنی مدت وہ غصب کرنے والے کے پاس رہی اس درمیان کوئی ایسی صفت پیدا ہوجائے جس سے اس کی قیمت بڑھ جائے مثلاًفربہ ہو گئی ہو اور تلف ہوگئی ہواگر یہ فربہ ہونا غاصب کی بہتر دیکھ بھال کرنے کی بناء پر نہ ہو تو ضروری ہےکہ اس وقت کی قیمت ادا کرے جس وقت وہ فربہ تھی لیکن اگر اس کی بہتر دیکھ بھال کی بنا ء پر فربہ ہوئی ہوتو ضروری نہیں ہےکہ بڑھی ہوئی قیمت ادا کرے۔
مسئلہ (۲۵۷۹)جوچیزکسی نے غصب کی ہواگرکوئی اورشخص وہی چیز اس سے غصب کرے اورپھروہ تلف ہوجائے تومال کامالک ان دونوں میں سے ہرایک سے اس کا عوض لے سکتاہے یاان دونوں میں سے ہرایک سے اس کے عوض کی کچھ مقدار کامطالبہ کرسکتا ہے۔لہٰذااگرمال کامالک اس کاعوض پہلے غاصب سے لے لے توپہلے غاصب نے جو کچھ دیاہووہ دوسرے غاصب سے لے سکتاہے۔لیکن اگرمال کامالک اس کاعوض دوسرے غاصب سے لے لے تواس نے جوکچھ دیاہے اس کامطالبہ دوسراغاصب پہلے غاصب سے نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۵۸۰)جس چیزکوبیچاجائے اگراس میں معاملے کی شرطوں میں سے کوئی ایک موجودنہ ہو(مثلاًجس چیز کی خریدوفروخت وزن کرکے کرنی ضروری ہواگراس کا معاملہ بغیر وزن کئے کیاجائے تومعاملہ باطل ہے) اوراگربیچنے والااورخریدارمعاملے سے قطع نظر اس بات پررضامندہوں کہ ایک دوسرے کے مال میں تصرف کریں توکوئی اشکال نہیں ہے۔ ورنہ جوچیزانہوں نے ایک دوسرے سے لی ہو وہ غصبی مال کے مانند ہے اور ان کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی چیزیں واپس کردیں اوراگردونوں میں سے جس کے بھی ہاتھوں دوسرے کامال تلف ہوجائے توخواہ اسے معلوم ہویانہ ہوکہ معاملہ باطل تھاضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
مسئلہ (۲۵۸۱)جب ایک شخص کوئی مال کسی بیچنے والے سے اس مقصد سے لے کہ اسے دیکھے یاکچھ مدت اپنے پاس رکھے تاکہ اگرپسندآئے توخریدلے تواگروہ مال تلف ہو جائے تومشہور قول کی بناپرضروری ہے کہ اس کاعوض اس کے مالک کودے۔
غصب کے احکام ←
→ نکاح کے احکام
مسئلہ (۲۵۱۷)ضروری ہے کہ عورت طلاق کے وقت حیض یانفاس سے پاک ہواور اس کے شوہرنے اس پاکی کے دوران اس سے ہم بستری نہ کی ہواوران دوشرطوں کی تفصیل آئندہ مسائل میں بیان کی جائے گی۔
مسئلہ (۲۵۱۸)عورت کوحیض یانفاس کی حالت میں تین صورتوں میں طلاق دیناصحیح ہے:
۱:) شوہر نے نکاح کے بعداس سے ہم بستری نہ کی ہو۔
۲:)معلوم ہوکہ وہ حاملہ ہے اوراگریہ بات معلوم نہ ہواورشوہراسے حیض کی حالت میں طلاق دے دے اوربعدمیں شوہرکوپتاچلے کہ وہ حاملہ تھی تووہ طلاق باطل ہے اگرچہ بہترہےکہ احتیاط کی رعایت ہو خواہ دوبارہ طلاق کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو۔
۳:)مردکےلئے عورت کے غائب ہونے یا کسی اورسبب سےچاہے وہ عورت کے اپنی حالت کے چھپانے کی شکل میں ہو ممکن نہ ہو کہ وہ جان پائے کہ عورت حیض و نفاس سے پاک ہے یا نہیں لیکن اس صورت میں (احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ مردانتظارکرے تاکہ بیوی سے جداہونےکے بعدکم از کم ایک مہینہ گزرجائے اس کے بعداسے طلاق دے۔
مسئلہ (۲۵۱۹)اگرکوئی شخص عورت کوحیض سے پاک سمجھے اوراسے طلاق دے دے اوربعدمیں پتاچلے کہ وہ حیض کی حالت میں تھی تواس کی طلاق باطل ہےسوائے مذکورہ صورت میں اوراگر شوہر اسے حیض کی حالت میں سمجھے اورطلاق دے دے اوربعد میں معلوم ہوکہ پاک تھی تواس کی طلاق صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۰)جس شخص کوعلم ہوکہ اس کی بیوی حیض یانفاس کی حالت میں ہے اگر وہ بیوی سے جداہو جائے مثلا سفر اختیار کرے اور اسے طلاق دیناچاہتاہوتواسے چاہئے کہ اتنی مدت انتظارکرے جس میں اسے یقین یااطمینان ہوجائے کہ وہ عورت حیض یانفاس سے پاک ہوگئی ہے اورجب وہ یہ جان لے کہ عورت پاک ہے اسے طلاق دے اور اگر اسے شک ہوتب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اس صورت میں غائب کی طلاق کے بارے میں مسئلہ (۲۵۱۸) میں جوشرائط بیان ہوئی ہیں ان کاخیال رکھے۔
مسئلہ (۲۵۲۱)جوشخص اپنی بیوی سے جداہواگروہ اسے طلاق دیناچاہے تواگر وہ معلوم کرسکتاہوکہ اس کی بیوی حیض یانفاس کی حالت میں ہے یانہیں تواگرچہ عورت کی حیض کی عادت یاان دوسری نشانیوں کوجو شرع میں معین ہیں دیکھتے ہوئے اسے طلاق دے اوربعد میں معلوم ہوکہ وہ حیض یانفاس کی حالت میں تھی تواس کی طلاق صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۲)اگر کوئی شخص اپنی بیوی سےجماع کرے چاہے وہ پاک حالت میں ہو یا حیض کی حالت میں ہو اور اُسے طلاق دینا چاہے تو ضروری ہےکہ انتظار کرے تاکہ اس کو دوبارہ حیض آجائے اور پاک ہوجائے لیکن وہ زوجہ جس کی عمر کے نو سال پورے نہیں ہوئےہیں جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ حاملہ ہے تو اگر اسے جماع کے بعد طلاق دیں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور یہی حکم یائسہ عورت کےلئے بھی ہے(یائسہ کےبارے میں ( ۲۴۶۶) میں گزر چکا ہے۔)
مسئلہ (۲۵۲۳)اگرکوئی شخص ایسی عورت سے ہم بستری کرے جوحیض یانفاس سے پاک ہواوراسی پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے دے اوربعدمیں معلوم ہو کہ وہ طلاق دینے کے وقت حاملہ تھی تووہ طلاق باطل ہےلیکن احتیاط کی رعایت بہتر ہے اگر چہ یہ طلاق تجدید کی صورت میں ہو۔
مسئلہ (۲۵۲۴)اگرکوئی شخص ایسی عورت سے ہم بستری کرے جو حیض یانفاس سے پاک ہوپھروہ اس سے جدا ہوجائے مثلاً سفر اختیار کرے لہٰذا اگروہ چاہے کہ سفر کے دوران اسے طلاق دے اور اس کی پاکی یاناپاکی کے بارے میں نہ جان سکتاہو توضروری ہے کہ اتنی مدت انتظار کرے کہ عورت کواس پاکی کے بعد حیض آئے اوروہ دوبارہ پاک ہو جائے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ مدت ایک مہینے سے کم نہ ہو۔اور اگر بیان کی گئ رعایت کے مطابق طلاق دے اور پھر پتا چلے کہ طلاق اس کی پہلی والی پاکی کے عالم میں ہوگئی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۵)اگرکوئی مرداپنی عورت کوطلاق دیناچاہتاہوجسے فطری طورپر یاکسی بیماری کی وجہ سےیا دودھ پلانے یا دوا کھانے یا کسی اور وجہ سے حیض نہ آتاہواوراس عمرکی دوسری عورتوں کوحیض آتاہوتوضروری ہے کہ جب اس نے عورت سے جماع کیاہو اس وقت سے تین مہینے تک اس سے جماع نہ کرے اوربعدمیں اسے طلاق دے ۔
مسئلہ (۲۵۲۶)ضروری ہے کہ طلاق کاصیغہ صحیح عربی میں لفظ ’’طَالِقٌ‘‘ کے ساتھ پڑھا جائے اوردو عادل مرداسے سنیں ۔اگرشوہر خودطلاق کاصیغہ پڑھناچاہے اور مثال کے طورپر اس کی بیوی کانام عاطفہ ہوتوضروری ہے کہ کہے: ’’زَوْجَتِیْ عَاطِفَۃُ طَالِقٌ‘‘ یعنی میری بیوی عاطفہ آزاد ہے اوراگروہ کسی دوسرے شخص کووکیل کرے توضروری ہے کہ وکیل کہے : ’’زَوْجَۃُ مُوَکِّلِیْ عَاطِفَۃُ طَالِقٌ‘‘اوراگرعورت معین ہوتواس کانام لینالازم نہیں ہے اوراگر حاضر ہو تو’’ ھٰذِہٖ طَالِقٌ ‘‘کہنا کافی ہے اور اس کی طرف اشارہ کرے یا’’ اَنْتِ طَالِقٌ ‘‘کہے اور اسے مخاطب قرار دے اور اگرمرد عربی میں طلاق کاصیغہ نہ پڑھ سکتاہواوروکیل بھی نہ بناسکے تووہ جس زبان میں چاہے ہراس لفظ کے ذریعے طلاق دے سکتاہے جو عربی لفظ کے ہم معنی ہو۔
مسئلہ (۲۵۲۷)عقد متعہ میں طلاق نہیں ہےاوراس کاآزاد ہونااس بات پر منحصر ہے کہ یاتومتعہ کی مدت ختم ہو جائے یامرد اسے مدت بخش دے اوروہ اس طرح کہ اس سے کہے : ’’میں نے مدت تجھے بخش دی‘‘ اورکسی کواس پرگواہ قراردینااوراس عورت کاحیض یانفاس سے پاک ہونالازم نہیں ۔
طلاق کی عدت
مسئلہ (۲۵۲۸)جس لڑکی کی عمر (پورے) نوسال نہ ہوئی ہواوراس طرح جوعورت یائسہ ہوچکی ہواس کی کوئی عدت نہیں ہوتی۔یعنی اگرچہ شوہرنے اس سے مجامعت کی ہو، طلاق کے بعد وہ فوراً دوسراشوہر کرسکتی ہے۔
مسئلہ (۲۵۲۹)جس عورت کی عمر(پورے) نوسال ہوچکی ہواورجوعورت یائسہ نہ ہو، اس کاشوہراس سے مجامعت کرے تواگروہ اسے طلاق دے توضروری ہے کہ وہ عورت طلاق کے بعد عدت رکھے اور عورت کی عدت یہ ہے کہ جب اس کاشوہر اسے پاکی کی حالت میں طلاق دے تواگر اُس کے دو حیض کی مدت تین مہینہ سے کم ہواس کے بعدوہ اتنی مدت انتظارکرے کہ دودفعہ حیض سے پاک ہوجائے اورجونہی اسے تیسری دفعہ حیض آئے تواس کی عدت ختم ہوجاتی ہے اور وہ دوسرانکاح کرسکتی ہے۔لیکن اگرشوہر عورت سے مجامعت کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دے تواس کے لئے کوئی عدت نہیں یعنی وہ طلاق کے فوراً بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن اگرشوہر کی منی اس کی شرم گاہ میں داخل ہوئی ہوتواس صورت میں ضروری ہے کہ وہ عورت عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۳۰)جس عورت کوحیض نہ آتاہولیکن اس کاسن ان عورتوں جیساہو جنہیں حیض آتاہویا حیض آتا ہو لیکن دو حیض کی درمیانی مدت تین مہینہ یا اس سے زیادہ ہوتواگر اس کاشوہر مجامعت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تو ضروری ہے کہ طلاق کے بعد تین قمری مہینے کی عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۳۱)جس عورت کی عدت تین مہینے ہواگراسے چاند کے مہینہ کی پہلی تاریخ کو طلاق دی جائے تو ضروری ہے کہ مکمل تین مہینے تک اوراگراسے مہینے کے دوران (کسی اور تاریخ کو) طلاق دی جائے توضروری ہے کہ اس مہینے کے باقی دنوں میں اس کے بعد آنے والے دو مہینے اور چوتھے مہینے کے اتنے دن جتنے دن پہلے مہینے سے کم ہو عدت رکھے تاکہ تین مہینے مکمل ہوجائیں مثلاً اگراسے مہینے کی بیسویں تاریخ کوغروب کے وقت طلاق دی جائے اوریہ مہینہ تیس دن کاہوتواس کی عدت کا اختتام چوتھے مہینہ کے بیسویں دن کے غروب پر ہوگا اور اگر( ۲۹) دن کامہینہ ہوتو احتیاط واجب یہ ہے کہ چوتھے مہینے کے اکیس دن عدت رکھے تاکہ پہلے مہینے کے جتنے دن عدت رکھی ہے انہیں ملاکردنوں کی تعدادتیس ہوجائے۔
مسئلہ (۲۵۳۲)اگرحاملہ عورت کوطلاق دی جائے تواس کی عدت وضع حمل یااسقاط حمل تک ہے لہٰذا مثال کے طورپر اگرطلاق کے ایک گھنٹے بعدبچہ پیداہوجائے توعورت کی عدت ختم ہوجائے گی۔لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب وہ بچہ صاحبۂ عدت کےشرعی شوہر کا بیٹاہولہٰذا اگرعورت زناسے حاملہ ہوئی ہواور شوہراسے طلاق دے تواس کی عدت بچے کے پیداہونے سے ختم نہیں ہوتی۔
مسئلہ (۲۵۳۳)جس عورت نے عمر کے نوسال مکمل کرلئے ہوں اورجو عورت یائسہ نہ ہواگروہ متعہ کرے تو اگر اس کاشوہر اس سے مجامعت کرے اوراس عورت کی مدت تمام ہو جائے یا شوہراسے مدت بخش دے توضروری ہے کہ وہ عدت رکھے۔پس اگراسے حیض آئے توضروری ہے کہ وہ دو حیض کے برابر عدت رکھے اور نکاح نہ کرے اور ایک بار حیض کا آنا (احتیاط واجب کی بنا پر) کافی نہیں ہے اور اگرحیض نہ آئے توپینتالیس دن نکاح کرنے سے اجتناب کرے اور حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت بچے کی پیدائش یااسقاط ہونے تک ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو مدت وضع حمل یا پینتالیس دن سے زیادہ ہو اتنی مدت کے لئے عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۳۴)طلاق کی عدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب صیغہ کاپڑھنا ختم ہو جاتاہے خواہ عورت کو پتاچلے یانہ چلے کہ اسے طلاق دی گئی ہے پس اگراسے عدت (کے برابر مدت) گزرنے کے بعدپتاچلے کہ طلاق ہوگئی ہے توضروری نہیں کہ وہ دوبارہ عدت رکھے۔
وفات کی عدت
مسئلہ (۲۵۳۵)اگرکوئی عورت بیوہ ہو جائے اگر وہ حاملہ نہ ہوتوضروری ہے کہ قمری چارمہینے اور دس دن عدت رکھے یعنی نکاح کرنے سے پرہیز کرے خواہ صغیرہ(۹؍سال سے کم ہو) یا یائسہ ہو یا متعہ کیا ہو یا کافر ہو یا طلاق رجعی کی عدت میں ہو یا شوہر نے اس سے مجامعت نہ کی ہو یہا ں تک کہ اگر شوہر بچہ یا دیوانہ رہاہو اوراگرحاملہ ہو تو ضروری ہے کہ وضع حمل تک عدت رکھے لیکن اگرچارمہینے اوردس دن گزرنے سے پہلے بچہ پیداہوجائے توضروری ہے کہ شوہر کی موت کے بعدچارمہینے دس دن تک صبر کرے اوراس عدت کووفات کی عدت کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۵۳۶)جو عورت وفات کی عدت میں ہواس کے لئے زینت والا لباس پہننا،سرمہ لگانااوراسی طرح دوسرے ایسے کام جوزینت میں شمارہوتے ہوں حرام ہیں لیکن گھر سے باہر نکلنا حرام نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۳۷)اگرعورت کویقین ہوجائے کہ اس کاشوہرمرچکاہے اورعدت وفات تمام ہونے کے بعد وہ دوسرانکاح کرے اورپھراسے معلوم ہوکہ اس کے شوہر کی موت بعد میں واقع ہوئی ہے اور دوسرا عقد پہلے شوہر کی زندگی میں ہوا تھا یا اس کی واقعی عدت وفات تھی توضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے علیٰحدگی اختیار کرے اور( احتیاط واجب کی بناپر)دو عدت رکھےاس صورت میں جب کہ وہ دوسرے شوہر سے حاملہ ہووضع حمل تک دوسرے شوہر کے لئے وطی شبہ کی عدت رکھے(جو طلاق کی عدت کی طرح ہے)اور اس کے بعد پہلے شوہر کے لئے عدت وفات رکھے اوراگرحاملہ نہ ہوتو اگر پہلے شوہر کی موت سے پہلے دوسرے شوہر نے مجامعت کیا ہو تو پہلے عدۂ وفات رکھے اوراس کے بعد وطی شبہ کی عدت رکھے اور اگر مجامعت موت سے پہلے ہوئی تو اس کی عدت مقدم ہے۔
مسئلہ (۲۵۳۸)جس عورت کاشوہرلاپتا ہویالاپتا ہونے کے حکم میں ہواس کی عدت وفات شوہر کی موت کی اطلاع ملنے کے وقت سے شروع ہوتی ہے نا کہ شوہر کی موت کے وقت سے، لیکن اس حکم کااس عورت کے لئے ہوناجونابالغ یاپاگل ہو اشکال ہے اور احتیاط کی رعایت کرناواجب ہے۔
مسئلہ (۲۵۳۹)اگرعورت کہے کہ میری عدت ختم ہوگئی ہے تواس کی بات قابل قبول ہے مگریہ کہ وہ غلط بیان مشہورہوتواس صورت میں ( احتیاط واجب کی بناپر) اس کی بات قابل قبول نہیں ہے۔مثلاً وہ کہے کہ: مجھے ایک مہینے میں تین دفعہ خون آتاہے تواس بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی مگریہ کہ اس کی رشتے دار عورتیں اس بات کی تصدیق کریں کہ اس کی حیض کی عادت ایسی ہی تھی۔
طلاق بائن اورطلاق رجعی
مسئلہ (۲۵۴۰)طلاق بائن وہ طلاق ہے کہ جس کے بعدمرداپنی عورت کی طرف رجوع کرنے کاحق نہیں رکھتایعنی یہ کہ بغیرنکاح کے دوبارہ اسے اپنی بیوی نہیں بناسکتا اور اس طلاق کی چھ قسمیں ہیں :
۱:) اس عورت کو دی گئی طلاق جس کی عمرابھی نوسال نہ ہوئی ہو۔
۲:)اس عورت کودی گئی طلاق جویائسہ ہو۔
۳:)اس عورت کودی گئی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعداس سے جماع نہ کیاہو۔
۴:)تیسرا طلاق جس کی وضاحت( ۲۵۴۵) میں آئےگی۔
۵:)خلع اورمبارات کی طلاق کہ جن کے احکام آئندہ بیان ہوں گے۔
۶:)حاکم شرع کااس عورت کوطلاق دیناجس کاشوہرنہ اس کے اخراجات دینے پر تیار ہو اورنہ اسے طلاق دینے پر تیار ہو۔
ان(مذکورہ) طلاقوں کے علاوہ جوطلاقیں ہیں وہ رجعی ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ جب تک عورت عدت میں ہوشوہر اس سے رجوع کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۵۴۱)جس شخص نے اپنی عورت کورجعی طلاق دی ہواس کے لئے اس عورت کواس گھر سے نکال دیناجس میں وہ طلاق دینے کے وقت مقیم تھی حرام ہے۔ البتہ بعض موقعوں پرجن میں سے ایک یہ ہے کہ عورت زناکرے تواسے گھر سے نکال دینے میں کوئی اشکال نہیں ۔اوریہ بھی حرام ہے کہ عورت غیرضروری کاموں کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر اس گھرسے باہرجائے اور مرد پر بھی عدت کے دوران زندگی کے اخراجات دینا واجب ہے۔
رجوع کرنے کے احکام
مسئلہ (۲۵۴۲)رجعی طلاق میں مرددوطریقوں سے اپنی عورت کی طرف رجوع کر سکتا ہے:
۱:) ایسی باتیں کرے جن سے یہ معنی نکلے کہ اس نے اسے دوبارہ اپنی بیوی بنالیاہے۔
۲:)کوئی کام کرے اوراس کام سے رجوع کاقصد کرے اور جماع کرنے سے رجوع ثابت ہوجاتاہے خواہ اس کاقصدرجوع کرنے کانہ بھی ہو۔ لیکن شہوت کے ساتھ ساتھ ہاتھ لگانے اوربوسہ لینے میں اشکال ہے اور( احتیاط واجب کی بناء پر) اگر رجوع نہ کرناچاہتا ہوتو ضروری ہےکہ دوبارہ طلاق دے۔
مسئلہ (۲۵۴۳)رجوع کرنے میں مرد کے لئے لازم نہیں کہ کسی کوگواہ بنائے یااپنی بیوی کو(رجوع کے متعلق) اطلاع دے بلکہ اگربغیر اس کے کہ کسی کوپتاچلے وہ خود ہی رجوع کرلے تواس کارجوع کرناصحیح ہے لیکن اگر عدت ختم ہوجانے کے بعد مرد کہے کہ میں نے عدت کے دوران ہی رجوع کرلیاتھا اور عورت تصدیق نہ کرےتولازم ہے کہ مرد اس بات کوثابت کرے۔
مسئلہ (۲۵۴۴)جس مرد نے عورت کورجعی طلاق دی ہواگروہ اس سے کچھ مال لے لے اوراس سے مصالحت کرلے کہ اب تجھ سے رجوع نہ کروں گاتواگرچہ یہ مصالحت درست ہے اورمردپرواجب ہے کہ رجوع نہ کرے لیکن اس سے مرد کے رجوع کاحق ختم نہیں ہوتااوراگروہ رجوع کرے تو وہ دوبارہ اس کی بیوی بن جائے گی۔
مسئلہ (۲۵۴۵)اگرکوئی شخص اپنی بیوی کودودفعہ طلاق دے کراس کی طرف رجوع کرلے یا اسے دو دفعہ طلاق دے اور ہر طلاق کے بعداس سے نکاح کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع کرے اوردوسری طلاق کے بعد نکاح کرے توتیسری طلاق کے بعدوہ اس مرد پرحرام ہوجائے گی۔لیکن اگرعورت تیسری طلاق کے بعدکسی دوسرے مرد سے نکاح کرے تووہ پانچ شرطوں کے ساتھ پہلے مردپرحلال ہوگی یعنی وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکے گا:
۱:) دوسرے شوہرکانکاح دائمی ہو۔پس اگر اس عورت سے متعہ کرلے تواس مرد کے اس سے علیٰحدگی کے بعدپہلا شوہر اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔
۲:)دوسراشوہرجماع کرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ جماع فرج(آگے کی شرم گاہ) میں کرے دُبر (پیچھے کی شرم گاہ )میں نہ ہو۔
۳:)دوسراشوہراسے طلاق دے یامرجائے۔
۴:)دوسرے شوہر کی طلاق کی عدت یاوفات کی عدت ختم ہوجائے۔
۵:)احتیاط واجب کی بناپردوسراشوہرجماع کرتے وقت بالغ ہو۔
طلاق خلع
مسئلہ (۲۵۴۶)اس عورت کی طلاق کوجواپنے شوہر کی طرف مائل نہ ہواور اس سے نفرت کرتی ہواپنامہریاکوئی اورمال بخش دے تاکہ وہ اسے طلاق دے دے’’ طلاق خلع‘‘ کہتے ہیں اورطلاق خلع میں معتبرہے کہ عورت اپنے شوہر سے اس قدر شدید نفرت کرتی ہو کہ اسے وظیفۂ زوجیت ادانہ کرنے کی دھمکی دے۔
مسئلہ (۲۵۴۷)جب شوہر خودطلاق خلع کاصیغہ پڑھناچاہے تواگراس کی بیوی کا نام عاطفہ ہوتوعوض لینے کے بعدکہے:’’زَوْجَتِیْ عَاطِفَۃُ خَالَعْتُھَاعَلیٰ مَابَذَلَتْ‘‘ اور احتیاط مستحب کی بناپر ’’فھِیَ طَالِقٌ‘‘ بھی کہے یعنی میں نے اپنی بیوی عاطفہ کواس مال کے عوض جو اس نے مجھے دیاہے طلاق خلع دے رہاہوں اوروہ آزادہے اوراگرعورت معین ہوتوطلاق خلع نیز طلاق مبارات میں اس کانام لینالازم نہیں ۔
مسئلہ (۲۵۴۸)اگرکوئی عورت کسی شخص کووکیل مقررکرے تاکہ وہ اس کامہر اس کے شوہر کو بخش دے اورشوہر بھی اسی شخص کووکیل مقررکرے تاکہ وہ اس کی بیوی کوطلاق دے دے تواگرمثال کے طورپرشوہرکانام محمداوربیوی کانام عاطفہ ہوتووکیل صیغہ ٔ طلاق یوں پڑھے:’’عَنْ مُوَکِّلَتِیْ عَاطِفَۃَ بَذَلْتُ مَہْرَھَالِمُوَکِّلِیْ مُحَمَّدٍ لِیَخْلَعَھَاعَلَیْہِ‘‘ اور اس کے بعد بلا فاصلہ کہے: ’’زَوْجَۃُ مُوَکِّلِیْ خَالَعْتُھَاعَلیٰ مَابَذَلَتْ فَھِیَ طَالقٌ‘‘اور اگرعورت کسی کووکیل مقررکرے کہ اس کے شوہر کومہرکے علاوہ کوئی اور چیز بخش دے تاکہ اس کاشوہر اسے طلاق دے دے توضروری ہے کہ وکیل لفظ ’’مَہْرَھَا‘‘ کے بجائے اس چیز کانام لے مثلاًاگرعورت نے سوروپے دیئے ہوں توضروری ہے کہ کہے: ’’بَذَلَتْ مِاَۃَ رُوْبِیَۃ‘‘۔
طلاق مبارات
مسئلہ (۲۵۴۹)اگرمیاں بیوی دونوں ایک دوسرے کونہ چاہتے ہوں اورایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں اورعورت مردکوکچھ مال دے تاکہ وہ اسے طلاق دے دے تواسے’’ طلاق مبارات‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۵۵۰)اگرشوہر مبارات کاصیغہ پڑھناچاہے تواگرمثلاً عورت کانام عاطفہ ہو توضروری ہے کہ کہے: ’’بَارَاْتُ زَوْجَتِیْ عَاطِفَۃَ عَلیٰ مَابَذَلَتْ‘‘اور( احتیاط لازم کی بنا پر) ’’فَھِیَ طَالِقٌ‘‘ بھی کہے یعنی میں اور میری بیوی عاطفہ اس ’عطا‘ کے مقابل میں جواس نے کی ہے ایک دوسرے سے جداہوگئے ہیں پس وہ آزاد ہے اور اگروہ شخص کسی کووکیل مقرر کرے توضروری ہے کہ وکیل کہے: ’’عَنْ قِبَلِ مُوَکِّلِیْ بَارَاْتُ زَوْجَتَہٗ عَاطِفَۃَ عَلیٰ مَابَذَلَتْ فَھِیَ طَالِقٌ‘‘ اوردونوں صورتوں میں کلمۂ ’’عَلیٰ مَابَذَلَتْ‘‘ کے بجائے اگر ’’بِمَابَذَلَتْ‘‘ کہے توکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۵۵۱)خلع اورمبارات کی طلاق کاصیغہ اگرممکن ہوتوصحیح عربی میں پڑھا جانا چاہئے اوراگرممکن نہ ہوتواس کاحکم طلاق کے حکم جیساہے جس کابیان مسئلہ (۲۵۲۶) میں گزرچکاہے۔لیکن اگرعورت مبارات کی طلاق کے لئے شوہر کواپنامال بخش دے۔ مثلاً اردو میں کہے کہ: ’’میں نے طلاق لینے کے لئے فلاں مال تمہیں بخش دیا‘‘توکوئی اشکال نہیں ۔
مسئلہ (۲۵۵۲)اگرکوئی عورت طلاق خلع یاطلاق مبارات کی عدت کے دوران اپنی بخشش سے پھرجائے توشوہر اس کی طرف رجوع کرسکتاہے اوردوبارہ نکاح کئے بغیر اسے اپنی بیوی بناسکتاہے۔
مسئلہ (۲۵۵۳)جومال شوہر طلاق مبارات دینے کے لئے لے(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ وہ عورت کے مہر سے زیادہ نہ ہولیکن طلاق خلع کے سلسلے میں لیاجانے والامال اگرمہرسے زیادہ بھی ہوتوکوئی اشکال نہیں ۔
طلاق کے مختلف احکام
مسئلہ (۲۵۵۴)اگرکوئی آدمی کسی نامحرم عورت سے اس گمان میں جماع کرے کہ وہ اس کی بیوی ہے توخواہ عورت کوعلم ہوکہ وہ شخص اس کاشوہر نہیں ہے یاگمان کرے کہ اس کاشوہر ہے ضروری ہے کہ عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۵۵)اگرکوئی آدمی کسی عورت سے یہ جانتے ہوئے زناکرے کہ وہ اس کی بیوی نہیں ہے تواگر عورت کوعلم ہوکہ وہ آدمی اس کاشوہر نہیں ہے اس کے لئے عدت رکھنا ضروری نہیں ۔ لیکن اگراسے شوہر ہونے کاگمان ہوتواحتیاط لازم یہ ہے کہ وہ عورت عدت رکھے۔
مسئلہ (۲۵۵۶)اگرکوئی آدمی کسی عورت کوورغلائے کہ وہ اپنے شوہرسے متعلق ازدواجی ذمے داریاں پوری نہ کرے تاکہ اس طرح شوہر اسے طلاق دینے پرمجبور ہو جائے اوروہ خوداس عورت کے ساتھ شادی کرسکے توطلاق اورنکاح صحیح ہیں لیکن دونوں نے بہت بڑاگناہ کیاہے۔
مسئلہ (۲۵۵۷)اگرعورت نکاح کے سلسلے میں شوہر سے شرط کرے کہ اگراس کاشوہر مخصوص شرائط میں طولانی سفراختیار کرے یا مثلاًچھ مہینے اسے خرچ نہ دے یا طولانی مدت تک زندان میں رہے وغیرہ توطلاق کااختیار عورت کوحاصل ہوگاتو یہ شرط باطل ہے۔لیکن اگروہ یوں شرط کرے کہ ابھی سے شوہر کی طرف سے وکیل ہے کہ اگر وہ مخصوص شرائط میں یا بغیرقید وشرط اپنے کو طلاق دے گی توشرط صحیح ہے اور اسے بعدمیں اس وکالت سے معزول نہیں کرسکتا ہے اور اگر عورت نے خود کو طلاق دے کر جدا کرلیا تو طلاق صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۵۵۸)جس عورت کاشوہرلاپتا ہوجائے اگروہ دوسراشوہرکرناچاہے تو ضروری ہے کہ مجتہدعادل کے پاس جائے اور’’ منھاج الصالحین‘‘ میں بیان کئے گئے مخصوص شرائط کے مطابق اسے طلاق دے سکتی ہے۔
مسئلہ (۲۵۵۹)دیوانے کے باپ دادااس کی بیوی کوطلاق دے سکتے ہیں اگر اس کی بھلائی میں ہو۔
مسئلہ (۲۵۶۰)اگرباپ یادادا اپنے (نابالغ) لڑکے (یاپوتے) کاکسی عورت سے متعہ کردیں اورمتعہ کی مدت میں اس لڑکے کے مکلف ہونے کی کچھ مدت بھی شامل ہو مثلا ً اپنے چودہ سالہ لڑکے کاکسی عورت سے دو سال کے لئے متعہ کردیں تواگراس میں لڑکے کی بھلائی ہوتووہ (یعنی باپ یادادا) اس عورت کی مدت بخش سکتے ہیں لیکن لڑکے کی دائمی بیوی کوطلاق نہیں دے سکتے۔
مسئلہ (۲۵۶۱)اگرکوئی شخص دوآدمیوں کوشرع کی مقررکردہ علامت کی روسے عادل سمجھے اوراپنی بیوی کوان کے سامنے طلاق دے دے توکوئی اورشخص جس کے نزدیک ان دوآدمیوں کی عدالت مشکوک ہو اور وہ یہ احتمال دے کہ طلاق دینے والے شخص کے نزدیک ان دو کی عدالت ثابت تھی تو اس عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد اس کے ساتھ خود نکاح کرسکتاہے یااسے کسی دوسرے کے نکاح میں دے سکتاہےلیکن اگر عادل ہونے پر یقین ہوتو اس عورت سے عقد نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۵۶۲)جس عورت کو طلاق رجعی دیا گیا ہے وہ اس وقت تک شرعی بیوی کے حکم میں ہے جب تک کہ اس کا عدہ مکمل نہیں ہوجاتا پس ضروری ہےکہ ہر طرح کی لذت جو شوہر کاحق ہے اس سےمنع نہ کرے اور جائز ہے بلکہ مستحب ہےکہ اس کے لئےاپنے آپ کو زینت سے آراستہ کرے اور اس کی اجازت کےبغیر باہر نکلنا جائز نہیں ہے اور اگر نافرمانی نہیں کرتی تو اس کا خرچہ شوہر پر واجب ہے اور اس کا فطرہ اور کفن کا خرچ بھی شوہر کے ذمہ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کے مرنے کی صورت میں ایک دوسرے کی میراث پائیں گے اور مرد اس کے عدت کے دوران اس کی بہن سے عقد نہیں کرسکتا۔
غصب کے احکام
’’غصب‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص کسی کے مال پریاحق پر ظلم (اوردھونس یا دھاندلی) کے ذریعے قابض ہوجائے اوریہ وہ چیز ہے جو عقل، قرآن اور حدیث کی رو سےحرام ہے۔جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے ’’جوشخص کسی دوسرے کی ایک بالشت زمین غصب کرے قیامت کے دن اس زمین کو اس کے سات طبقوں سمیت طوق کی طرح اس کی گردن میں ڈال دیاجائے گا‘‘۔
مسئلہ (۲۵۶۳)اگرکوئی شخص لوگوں کو مسجد یامدرسے یاپل یادوسری ایسی جگہوں سے جو رفاہ عامہ کے لئے بنائی گئی ہوں استفادہ نہ کرنے دے تواس نے ان کاحق غصب کیا ہے۔ اسی طرح اگرکوئی شخص مسجد میں اپنے بیٹھنے کے لئے جگہ مختص کرے اوردوسرا کوئی شخص اسے اس جگہ سے نکال دے اور اسے اس جگہ سے استفادہ نہ کرنے دے تووہ گناہ گارہے۔
مسئلہ (۲۵۶۴)اگرگروی رکھوانے والااورگروی رکھنے والایہ طے کریں کہ جوچیز گروی رکھی جارہی ہو وہ گروی رکھنے والے یاکسی تیسرے شخص کے پاس رکھی جائے تو گروی رکھوانے والااس کاقرض اداکرنے سے پہلے اس چیز کوواپس نہیں لے سکتااور اگر وہ چیز واپس لی ہوتوضروری ہے کہ فوراً لوٹادے۔
مسئلہ (۲۵۶۵)جومال کسی کے پاس گروی رکھاگیاہواگرکوئی اورشخص اسے غصب کرلے تومال کامالک اورگروی رکھنے والادونوں غاصب سے غصب کی ہوئی چیز کا مطالبہ کر سکتے ہیں اوراگروہ چیز غاصب سے واپس لے لیں تووہ گروی ہی رہے گی ۔
مسئلہ (۲۵۶۶)اگرانسان کوئی چیزغصب کرے توضروری ہے کہ اس کے مالک کو لوٹا دے اوراگروہ چیز ضائع ہوجائے اوراس کی کوئی قیمت ہوتوضروری ہے کہ اس کا عوض جیسا کہ مسئلہ ( ۲۵۷۶)،(۲۵۷۷) میں بیان کیاجائے گا اس کے مطابق اس کو دے دے۔
مسئلہ (۲۵۶۷)جوچیز غصب کی گئی ہواگراس سے کوئی نفع ہومثلاً غصب کی ہوئی بھیڑ کابچہ پیداہوتووہ اس کے مالک کامال ہے نیزمثال کے طورپراگرکسی نے کوئی مکان غصب کرلیاہوتوخواہ غاصب اس مکان میں نہ رہے ضروری ہے کہ اس کاکرایہ مالک کو دے۔
مسئلہ (۲۵۶۸)اگرکوئی شخص بچے یادیوانے سے کوئی چیزجواس بچے یادیوانے کا مال ہوغصب کرے توضروری ہے کہ وہ چیز اس کے سرپرست کودے دے اوراگر وہ چیز تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے دے۔
مسئلہ (۲۵۶۹)اگردوآدمی مل کر کسی چیز کوغصب کریں چنانچہ وہ دونوں اس چیز پر تسلط رکھتے ہوں تو ان میں سے ہرایک اس پوری چیزکاضامن ہے اگرچہ ان میں سے ہر ایک جداگانہ طورپراسے غصب نہ کرسکتاہو۔
مسئلہ (۲۵۷۰)اگرکوئی شخص غصب کی ہوئی چیزکوکسی دوسری چیزسے ملادے مثلاً جوگیہوں غصب کی ہو اسے جو سے ملادے تواگران کاجداکرناممکن ہوتوخواہ اس میں زحمت ہی کیوں نہ ہوضروری ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرے اورغصب کی ہوئی چیز اس کے مالک کوواپس کردے۔
مسئلہ (۲۵۷۱)اگرکوئی شخص طلائی چیز مثلاً سونے کی بالیوں کوغصب کرے اوراس کے بعد اسے پگھلادے توپگھلانے سے پہلے اورپگھلانے کے بعد کی قیمت میں جو فرق ہو ضروری ہے کہ وہ مالک کوادا کرے چنانچہ اگرقیمت میں جوفرق پڑاہو وہ نہ دینا چاہے اور کہے کہ میں اسے پہلے کی طرح بنادوں گاتومالک مجبورنہیں کہ اس کی بات قبول کرے اور مالک بھی اسے مجبورنہیں کرسکتاکہ وہ اسے پہلے کی طرح بنادے۔
مسئلہ (۲۵۷۲)جس شخص نے کوئی چیز غصب کی ہواگروہ اس میں ایسی تبدیلی کرے کہ اس چیز کی حالت پہلے سے بہترہوجائے مثلاًجوسوناغصب کیاہواس کے بُندے بنا دے تواگرمال کامالک اسے کہے کہ مجھے مال اسی حالت میں یعنی بُندے کی شکل میں دوتوضروری ہے کہ اسے دے دے اورجوزحمت اس نے اٹھائی ہویعنی بُندے بنانے پرجومحنت کی ہو اس کی مزدوری نہیں لے سکتااوراسی طرح وہ یہ حق نہیں رکھتا کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس چیزکواس کی پہلی حالت میں لے آئے۔ لیکن اگراس کی اجازت کے بغیر اس چیز کوپہلے جیساکردے یااورکسی شکل میں تبدیل کرے تومعلوم نہیں ہے کہ دونوں صورتوں میں قیمت کاجوفرق ہے اس کاضامن ہے ۔
مسئلہ (۲۵۷۳)جس شخص نے کوئی چیز غصب کی ہواگروہ اس میں ایسی تبدیلی کرے کہ اس چیز کی حالت پہلے سے بہترہوجائے اورصاحب مال اسے اس چیزکی پہلی حالت میں واپس کرنے کوکہے تو اگر اس درخواست میں اس کا کوئی مقصد ہواس کے لئے واجب ہے کہ اسے اس کی پہلی حالت میں لے آئے اوراگرتبدیلی کرنے کی وجہ سے اس چیز کی قیمت پہلی حالت سے کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا فرق مالک کودے۔لہٰذا اگرکوئی شخص غصب کئے ہوئے سونے کا ہار بنالے اوراس سونے کامالک کہے کہ تمہارے لئے لازم ہے کہ اسے پہلی شکل میں لے آؤ تو اگرپگھلانے کے بعدسونے کی قیمت اس سے کم ہوجائے، جتنی ہاربنانے سے پہلی تھی تو غاصب کے لئے ضروری ہے کہ قیمتوں میں جتنافرق ہو اس کے مالک کودے۔
مسئلہ (۲۵۷۴)اگرکوئی شخص اس زمین میں جواس نے غصب کی ہوکھیتی باڑی کرے یا درخت لگائے تو زراعت،درخت اوران کاپھل خوداس کامال ہے اورزمین کا مالک اس بات پرراضی نہ ہوکہ زراعت اور درخت اس زمین میں رہیں توجس نے وہ زمین غصب کی ہو ضروری ہے کہ خواہ ایساکرنااس کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہووہ فوراً اپنی زراعت یا درختوں کوزمین سے اکھاڑلے نیز ضروری ہے کہ جتنی مدت زراعت اور درخت اس زمین میں رہے ہوں اتنی مدت کاکرایہ زمین کے مالک کودے اورجوخرابیاں زمین میں پیدا ہوئی ہوں انہیں درست کرے مثلاً جہاں درختوں کواکھاڑنے سے زمین میں گڑھے پڑ گئے ہوں اس جگہ کوہموار کرے اوراگران خرابیوں کی وجہ سے زمین کی قیمت پہلے سے کم ہو جائے توضروری ہے کہ قیمت میں جوفرق پڑے وہ بھی اداکرے اوروہ زمین کے مالک کواس بات پر مجبور نہیں کرسکتاکہ زمین اس کے ہاتھ بیچ دے یاکرائے پردے دے نیز زمین کامالک بھی اسے مجبورنہیں سکتاکہ درخت یازراعت اس کے ہاتھ بیچ دے۔
مسئلہ (۲۵۷۵)اگرزمین کامالک اس بات پرراضی ہوجائے کہ زراعت اور درخت اس کی زمین میں رہیں توجس شخص نے زمین غصب کی ہواس کے لئے لازم نہیں کہ زراعت اوردرختوں کواکھاڑے لیکن ضروری ہے کہ جب زمین غصب کی ہواس وقت سے لے کرمالک کے راضی ہونے تک کی مدت کازمین کاکرایہ دے۔
مسئلہ (۲۵۷۶)جوچیزکسی نے غصب کی ہواگروہ تلف ہوجائے اور اگر وہ قیمی ہو جیسےگائے اور بھیڑ تو ضروری ہےکہ اس کی قیمت دے (اور قیمی اس چیز کو کہتے ہیں جو ذاتی خصوصیات کی بناپر اس کےجیسی چیزیں لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے میں مؤثر ہیں وہ فراوان نہ ہو )چنانچہ بازار کی قیمت مطالبہ اور سپلائی کے لحاظ سے مختلف ہوگئی ہو توضروری ہے کہ وہ قیمت دے جوتلف ہونے کے وقت تھی۔
مسئلہ (۲۵۷۷)جوچیزکسی نے غصب کی ہواگروہ تلف ہوجائےاگر وہ مثلی ہو جیسے گیہوں اور جو تو ضروری ہے کہ (غاصب نے) جوچیزغصب کی ہواسی جیسی چیز مالک کودے۔ (اور مثلی اس چیز کو کہتے ہو جو اس کے جیسی چیزیں ذاتی خصوصیات کی بناء پر اس کے جیسی چیزیں لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہیں وہ فراوان ہیں ۔)لیکن جو چیز دے ضروری ہے کہ اس کی قسم اپنی خصوصیات میں اس غصب کی ہوئی چیز کی قسم کے مانند ہو جو تلف ہوگئی ہے،مثلاً اگربڑھیاقسم کاچاول غصب کیاتھاتوگھٹیاقسم کانہیں دے سکتا۔
مسئلہ (۲۵۷۸)اگرایک شخص قیمی چیز غصب کرے اوروہ تلف ہوجائے اگر جتنی مدت وہ غصب کرنے والے کے پاس رہی اس درمیان کوئی ایسی صفت پیدا ہوجائے جس سے اس کی قیمت بڑھ جائے مثلاًفربہ ہو گئی ہو اور تلف ہوگئی ہواگر یہ فربہ ہونا غاصب کی بہتر دیکھ بھال کرنے کی بناء پر نہ ہو تو ضروری ہےکہ اس وقت کی قیمت ادا کرے جس وقت وہ فربہ تھی لیکن اگر اس کی بہتر دیکھ بھال کی بنا ء پر فربہ ہوئی ہوتو ضروری نہیں ہےکہ بڑھی ہوئی قیمت ادا کرے۔
مسئلہ (۲۵۷۹)جوچیزکسی نے غصب کی ہواگرکوئی اورشخص وہی چیز اس سے غصب کرے اورپھروہ تلف ہوجائے تومال کامالک ان دونوں میں سے ہرایک سے اس کا عوض لے سکتاہے یاان دونوں میں سے ہرایک سے اس کے عوض کی کچھ مقدار کامطالبہ کرسکتا ہے۔لہٰذااگرمال کامالک اس کاعوض پہلے غاصب سے لے لے توپہلے غاصب نے جو کچھ دیاہووہ دوسرے غاصب سے لے سکتاہے۔لیکن اگرمال کامالک اس کاعوض دوسرے غاصب سے لے لے تواس نے جوکچھ دیاہے اس کامطالبہ دوسراغاصب پہلے غاصب سے نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۵۸۰)جس چیزکوبیچاجائے اگراس میں معاملے کی شرطوں میں سے کوئی ایک موجودنہ ہو(مثلاًجس چیز کی خریدوفروخت وزن کرکے کرنی ضروری ہواگراس کا معاملہ بغیر وزن کئے کیاجائے تومعاملہ باطل ہے) اوراگربیچنے والااورخریدارمعاملے سے قطع نظر اس بات پررضامندہوں کہ ایک دوسرے کے مال میں تصرف کریں توکوئی اشکال نہیں ہے۔ ورنہ جوچیزانہوں نے ایک دوسرے سے لی ہو وہ غصبی مال کے مانند ہے اور ان کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی چیزیں واپس کردیں اوراگردونوں میں سے جس کے بھی ہاتھوں دوسرے کامال تلف ہوجائے توخواہ اسے معلوم ہویانہ ہوکہ معاملہ باطل تھاضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
مسئلہ (۲۵۸۱)جب ایک شخص کوئی مال کسی بیچنے والے سے اس مقصد سے لے کہ اسے دیکھے یاکچھ مدت اپنے پاس رکھے تاکہ اگرپسندآئے توخریدلے تواگروہ مال تلف ہو جائے تومشہور قول کی بناپرضروری ہے کہ اس کاعوض اس کے مالک کودے۔