فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
نکاح کے احکام ←
→ حج کے اَحکام
مُعَامَلات
مسئلہ (۲۰۵۹)ایک تاجر کے لئے مناسب ہے کہ خریدوفروخت کے سلسلے میں جن مسائل کاعموماً سامناکرناپڑتاہے ان کے احکام سیکھ لے بلکہ اگرمسائل نہ سیکھنے کی وجہ سے کسی واجب حکم کی مخالفت کرنے کااندیشہ ہوتومسائل سیکھنالازم وضروری ہے۔ حضرت امام جعفرصادق علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت ہے کہ ’’جو شخص خریدوفروخت کرنا چاہتاہواس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے احکام سیکھے اوراگران احکام کوسیکھنے سے پہلے خریدوفروخت کرے گاتوباطل یامشتبہ معاملہ کرنے کی وجہ سے ہلاکت میں پڑے گا۔‘‘
مسئلہ (۲۰۶۰)اگرکوئی مسئلے سے ناواقفیت کی بناپریہ نہ جانتاہوکہ اس نے جومعاملہ کیاہے وہ صحیح ہے یاباطل توجومال اس نے حاصل کیاہواسے استعمال نہیں کرسکتااور وہ مال جسے دیاہے اس میں بھی تصرف نہیں کرسکتا بلکہ ضروری ہےکہ مسئلہ سیکھے یا احتیاط کرے اگر چہ مصالحت کے ذریعہ ہی کیو ں نہ ہو اور اگر اسے علم ہوجائے کہ دوسرافریق اس مال کواستعمال کرنے پرراضی ہے تواس صورت میں وہ استعمال کرسکتاہے اگرچہ معاملہ باطل ہو۔
مسئلہ (۲۰۶۱)جس شخص کے پاس مال نہ ہواورکچھ اخراجات اس پرواجب ہوں ، مثلاًبیوی بچوں کاخرچ، توضروری ہے کہ کاروبارکرے اور مستحب کاموں کے لئے مثلاً اہل وعیال کی خوشحالی اور فقیروں کی مددکرنے کے لئے کاروبارکرنامستحب ہے۔
خریدوفروخت کے مستحبات
خریدوفروخت میں چندچیزیں مستحب شمارکی گئی ہیں :
(اول:) فقراوراس جیسی کیفیت کے سواجنس کی قیمت میں خریداروں کے درمیان فرق نہ کرے۔
(دوم:) تجارت کرتے وقت پہلے شہادتین پڑھے اور معاملہ کے وقت تکبیر کہے۔
(سوم:) جوچیزبیچ رہاہووہ کچھ زیادہ دے اورجوچیزخریدرہاہووہ کچھ کم لے۔
(چہارم:) اگرکوئی شخص سوداکرنے کے بعدپشیمان ہوکراس چیزکوواپس کرنا چاہے توواپس لے لے۔
مکروہ معاملات
مسئلہ (۲۰۶۲)وہ خاص معاملات جنہیں مکروہ شمارکیاگیاہے،یہ ہیں :
۱:) جائداد کابیچنابجزاس کے کہ اس رقم سے دوسری جائداد خریدی جائے۔
:۲)گوشت فروشی کاپیشہ اختیارکرنا۔
۳:)کفن فروشی کاپیشہ اختیارکرنا۔
۴:)پست لوگوں سے معاملہ کرنا۔
۵:)صبح کی اذان سے سورج نکلنے کے وقت تک معاملہ کرنا۔
۶:)گیہوں ،جواوران جیسی دوسری اجناس کی خریدوفروخت کواپناپیشہ قراردینا۔
۷:)اگر کوئی جنس خریدرہاہوتواس کے سودے میں دخل اندازی کرکے خریدار بننے کااظہارکرنا۔
حرام معاملات
مسئلہ (۲۰۶۳)بہت سے معاملات حرام ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں :
۱:) نشہ آورمشروبات،غیرشکاری کتے اورسورکی خریدوفروخت حرام ہے اوراسی طرح (احتیاط واجب کی بناپر)نجس مردار کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔ان کے علاوہ دوسری نجاسات کی خریدو فروخت اس صورت میں جائزہے جب کہ عین نجس سے حلال فائدہ حاصل کرنامقصود ہو مثلاً گوبراورپاخانے سے کھادبنائیں ( اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ ان کی خریدوفروخت سے بھی پرہیزکیاجائے)۔
۲:) غصبی مال کی خریدوفروخت اگر اس میں تصرف لازم آئے جیسے کوئی چیز لینا اور دینا۔
۳:) ان پیسوں سے لین دین کرنا جن کا اعتبار ختم ہوچکا ہو یا نقلی ہوں اس شرط کے ساتھ کہ دوسرا فریق متوجہ نہ ہو لیکن اگر متوجہ ہوتو معاملہ جائز ہے۔
۴:) حرام وسائل کے ذریعہ معاملہ کرنا یعنی ایسی چیزیں جنھیں اس طرح بنایا گیا ہو کہ عام طورپر حرام کام میں استعمال ہوتی ہوں اور ان کی اہمیت حرام استعمال کی وجہ سے ہو جیسے بت صلیب، جوئے اور حرام لھو ولعب کے وسائل۔
۵:) ایسا معاملہ جس میں دھوکا دھڑی ہو، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو شخص مسلمانوں کےساتھ معاملہ میں دھوکہ دھڑی سے کام لے وہ ہم میں سے نہیں ہے خداوندعالم اس کی روزی کی برکت اٹھا لیتا ہے اور اس کے ذریعۂ معاش کو بند کردیتا ہے اور اس کو خود اس کے حوالے کردیتا ہے۔‘‘ دھوکا دھڑی کے مختلف مقامات ہیں ۔
(۱) اچھی جنس کو خراب یا کسی دوسری چیز سے ملانا جیسے دودھ میں پانی ملانا۔
(۲) حقیقت اور واقع کے خلاف کسی جنس کو اچھا بنا کر پیش کرنا جیسے باسی سبزی پر پانی ڈال کر تازہ بنا کر پیش کرنا۔
(۳) ایک جنس کو دوسری شکل میں ظاہر کرنا جیسے سونے کو خریدار کی اطلاع کے بغیر کسی دوسری شکل میں ڈھال دینا۔
(۴) جنس کے عیب کو چھپانا جب کہ خریدار بیچنے والے پر اعتماد رکھتا ہو کہ وہ اس سے نہیں چھپائے گا۔
مسئلہ (۲۰۶۴)جوپاک چیزنجس ہوگئی ہواوراسے پانی سے دھوکرپاک کرناممکن ہو تو اسے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے قالین اور برتن اوراگراسے دھوناممکن نہ ہوتب بھی یہی حکم ہے لیکن اگراس کاحلال فائدہ عرف عام میں اس کے پاک ہونے پرمنحصر نہ ہومثلاً بعض اقسام کے تیل بلکہ اگراس کاحلال فائدہ پاک ہونے پر موقوف ہواوراس کامناسب حد تک حلال فائدہ بھی ہوتب بھی اس کابیچناجائزہے۔
مسئلہ (۲۰۶۵)اگرکوئی شخص نجس چیز بیچناچاہے توضروری ہے کہ وہ اس کی نجاست کے بارے میں خریدار کوبتادے اوراگراسے نہ بتائے تووہ ایک حکم واجب کی مخالفت کا مرتکب ہوگامثلاًنجس پانی کووضویاغسل میں استعمال کرے گااوراس کے ساتھ اپنی واجب نمازپڑھے گایااس نجس چیزکوکھانے یاپینے میں استعمال کرے گاالبتہ اگریہ جانتاہوکہ اسے بتانے سے کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ لاپروا شخص ہے اورنجس پاک کاخیال نہیں رکھتاتو اسے بتاناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۲۰۶۶)اگرچہ کھانے والی اورنہ کھانے والی نجس دواؤں کی خریدوفروخت جائز ہے لیکن ان کی نجاست کے متعلق خریدارکواس صورت میں بتادیناضروری ہے جس کا ذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۰۶۷)جوتیل غیراسلامی ممالک سے درآمدکئے جاتے ہیں اگران کے نجس ہونے کے بارے میں علم نہ ہوتوان کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں اورجوچربی کسی حیوان کے مرجانے کے بعدحاصل کی جاتی ہے تیل، چربی، جلاٹین اگراسے کافرسے لیں یاغیراسلامی ممالک سے منگائیں تواس صورت میں جب کہ اس کے بارے میں احتمال ہوکہ ایسے حیوان کی ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیاگیاہے تواگر چہ وہ پاک ہے اوراس کی خریدو فروخت جائزہے لیکن اس کاکھاناحرام ہے اوربیچنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی کیفیت سے خریدار کوآگاہ کرے کیوں کہ خریدارکوآگاہ نہ کرنے کی صورت میں وہ کسی واجب حکم کی مخالفت یا حرام کامرتکب ہوگاجیسے کہ مسئلہ ( ۲۰۶۵) میں گزرچکاہے۔
مسئلہ (۲۰۶۸)اگرلومڑی یااس جیسے جانوروں کوغیرشرعی طریقے سے ذبح کیاجائے یا وہ خودمرجائیں توان کی کھال کی خریدوفروخت (احتیاط کی بناپر)جائزنہیں ہے اور اگر مشکوک ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۶۹)جوچمڑاغیراسلامی ممالک سے درآمدکیاجائے یاکافر سے لیا جائے اگراس کے بارے میں احتمال ہوکہ ایک ایسے جانورکاہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیاہے تواس کی خرید وفروخت جائزہے اوراسی طرح اس میں نمازبھی صحیح ہوگی۔
مسئلہ (۲۰۷۰)جوتیل اورچربی حیوان کے مرنے کے بعدحاصل کی جائے یا وہ چمڑا جومسلمان سے لیاجائے اورانسان کوعلم ہوکہ اس مسلمان نے یہ چیزکافرسے لی ہے لیکن یہ تحقیق نہیں کی کہ یہ ایسے حیوان کی ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیاگیاہے یانہیں اگرچہ اس پرطہارت کاحکم لگتاہے اوراس کی خریدوفروخت جائزہے لیکن اس تیل یاچربی کا کھاناجائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۷۱)شراب اور حمام سیال نشہ آورمشروبات کالین دین حرام اور باطل ہے۔
مسئلہ (۲۰۷۲)غصبی مال کابیچناباطل ہےمگر یہ کہ اس کا مالک اجازت دے دے اوربیچنے والے نے جورقم خریدارسے لی ہو اسے واپس کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۲۰۷۳)اگرخریدارسنجیدگی سے سوداکرنے کاارادہ رکھتاہولیکن اس کی نیت یہ ہوکہ جوچیزخریدرہاہے اس کی قیمت نہیں دے گاتواس کایہ سوچناسودے کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے اورضروری ہے کہ خریداراس سودےکا پیسہ بیچنے والے کودے۔
مسئلہ (۲۰۷۴)اگرخریدارچاہے کہ جومال اس نے ادھار خریداہے اس کی قیمت بعدمیں حرام مال سے دے گاتب بھی معاملہ صحیح ہے البتہ ضروری ہے کہ جتنی قیمت اس کے ذمہ ہوحلال مال سے دے تاکہ اس کاادھارچکتاہوجائے۔
مسئلہ (۲۰۷۵)حرام آلات لہو ولعب کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔لیکن (حلال اورحرام میں استعمال ہونے والے) مشترکہ آلات مثلاً ریڈیواورٹیپ ریکارڈ ویڈیوکی خرید وفروخت میں کوئی حرج نہیں اور ان کااس شخص کےلئے اپنے پاس رکھنا جائز ہے جو اس بات سے مطمئن ہے کہ خوداور اس کے گھر والے حرام میں استعمال نہیں کریں گے۔
مسئلہ (۲۰۷۶)اگرکوئی چیز جس سے جائزفائدہ اٹھایاجاسکتاہواس نیت سے بیچی جائے کہ اسے حرام مصرف میں لایاجائے مثلاً انگوراس نیت سے بیچاجائے کہ اس سے شراب تیارکی جائےخواہ اسے معاملہ کے ضمن میں اسی کام کےلئے قرار دیا ہویا معاملہ سے پہلے اور معاملہ کو ایسے معاہدہ کی بنیاد پر انجام دے تواس کاسوداحرام ہے۔لیکن اگرکوئی شخص انگور اس مقصد سے نہ بیچے اورفقط یہ جانتاہوکہ خریدار انگورسے شراب تیارکرے گاتو سودے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۰۷۷)جاندار کامجسمہ بنانا(احتیاط کی بناپر) حرام ہے لیکن ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں ہے لیکن جاندار کی نقاشی جائزہے۔
مسئلہ (۲۰۷۸)کسی ایسی چیزکاخریدناحرام ہے جوجوئے یاچوری یاباطل سودے سے حاصل کی گئی ہو اگر اس میں تصرف لازم آرہا ہے تو حرام ہےاور اگرکوئی ایسی چیزخریدلے اور بیچنے والے سے لے لے توضروری ہے کہ اس کے اصلی مالک کو لوٹا دے۔
مسئلہ (۲۰۷۹)اگرکوئی شخص ایساگھی بیچے جس میں چربی کی ملاوٹ ہواوراسے معین کردے مثلاًکہے کہ: میں ’’یہ ایک من گھی بیچ رہاہوں ‘‘ تواس صورت میں جب اس میں چربی کی مقداراتنی زیادہ ہوکہ اسے گھی نہ کہاجائے تومعاملہ باطل ہے اوراگرچربی کی مقدار اتنی کم ہوکہ اسے چربی ملاہواگھی کہاجائے تومعاملہ صحیح ہے لیکن خریدنے والے کومال عیب دارہونے کی بناپرحق حاصل ہے کہ وہ معاملہ ختم کرسکتاہے اوراپناپیسہ واپس لے سکتا ہے اوراگرچربی گھی سے جداہوتوچربی کی جتنی مقدارکی ملاوٹ ہے اس کامعاملہ باطل ہے اورچربی کی جوقیمت بیچنے والے نے لی ہے وہ خریدار کی ہے اور چربی، بیچنے والے کا مال ہے اورگاہک اس میں جوخالص گھی ہے اس کامعاملہ بھی کرسکتاہے۔لیکن اگرمعین نہ کرے بلکہ صرف ایک من گھی بتاکربیچے لیکن دیتے وقت چربی ملاہواگھی دے توگاہک وہ گھی واپس کرکے خالص گھی کامطالبہ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۰۸۰)جس جنس کوناپ تول کربیچاجاتاہے اگرکوئی بیچنے والااسی جنس کے بدلے میں بڑھاکربیچے مثلاً ایک من گیہوں کی قیمت ڈیڑھ من گیہوں وصول کرے تویہ سوداورحرام ہے بلکہ اگردوجنسوں میں سے ایک بے عیب اوردوسری عیب دارہویاایک جنس بڑھیااوردوسری گھٹیاہویاان کی قیمتوں میں فرق ہوتواگربیچنے والاجو مقدار دے رہا ہواس سے زیادہ لے تب بھی سوداورحرام ہے۔لہٰذااگروہ ثابت تانبادے کراس سے زیادہ مقدارمیں ٹوٹاہواتانبالے یاثابت قسم کا پیتل دے کراس سے زیادہ مقدارمیں ٹوٹا ہواپیتل لےیا صدری (نامی) چاول دے کر گردہ (نامی) چاول لے، یا گڑھا ہوا سونا دے کراس سے زیادہ مقدارمیں بغیرگڑھاہواسونالے تویہ بھی سوداورحرام ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۱)بیچنے والاجوچیززائدلے اگروہ اس جنس سے مختلف ہوجووہ بیچ رہا ہے مثلاًایک من گیہوں کوایک من گیہوں اورکچھ نقدرقم کے عوض بیچے تب بھی یہ سود اور حرام ہے بلکہ اگروہ کوئی چیززائدنہ لے لیکن یہ شرط لگائے کہ خریداراس کے لئے کوئی کام کرے گاتویہ بھی سوداورحرام ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۲)جوشخص کوئی چیزکم مقدارمیں دے رہاہواگروہ اس کے ساتھ کوئی اور چیزشامل کردے مثلاًایک من گیہوں اورایک رومال کوڈیڑھ من گیہوں کے عوض بیچے تو اس میں کوئی حرج نہیں اس صورت میں جب کہ اس کی نیت یہ ہوکہ رومال اس زیادہ گیہوں کے مقابلے میں ہے اورمعاملہ بھی نقد ہواوراسی طرح اگردونوں طرف سے کوئی چیزبڑھادی جائے مثلاًایک شخص ایک من گیہوں اورایک رومال کوڈیڑھ من گیہوں اور ایک رومال کے عوض بیچے تواس کے لئے بھی یہی حکم ہے لہٰذااگران کی نیت یہ ہوکہ ایک کا رومال آدھامن گیہوں دوسرے کے رومال کے مقابلے میں ہے تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۳)اگرکوئی شخص ایسی چیزبیچے جومیٹراورگزکے حساب سے بیچی جاتی ہے (مثلاًکپڑا)یاایسی چیزبیچے جوگن کربیچی جاتی ہے مثلاً اخروٹ اورانڈے اور زیادہ لے مثلاً دس انڈے دے اورگیارہ لے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن اگرایساہوکہ معاملے میں دونوں چیزیں ایک ہی جنس سے ہوں اور مدت معین ہوتواس صورت میں معاملے کے صحیح ہونے میں اشکال ہے مثلاً دس اخروٹ نقددے اوربارہ اخروٹ ایک مہینے کے بعدلے اور کرنسی نوٹوں کافروخت کرنابھی اسی زمرے میں آتاہے مثلاًتومان کونوٹوں کی کسی دوسری جنس کے بدلے میں مثلاً دینار یاڈالرکے بدلے میں نقدیامعین مدت کے لئے بیچے تواس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگراپنی ہی جنس کے بدلے میں بیچناچاہے اور بہت زیادہ لے تومعاملہ معین مدت کے لئے نہیں ہوناچاہئے مثلاًسوتومان نقددے اور ایک سودس تومان چھ مہینے کے بعدلے تواس معاملے کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۴)اگرکسی جنس کواکثرشہروں میں ناپ تول کربیچاجاتاہواوربعض شہروں میں اس کالین دین گن کرہوتاہوتواس جنس کو اس شہر کی نسبت جہاں گن کر لین دین ہوتاہے دوسرے شہرمیں زیادہ قیمت پربیچناجائزہے۔
مسئلہ (۲۰۸۵)ان چیزوں میں جوتول کریاناپ کربیچی جاتی ہیں اگربیچی جانے والی چیزاوراس کے بدلے میں لی جانے والی چیزایک جنس سے نہ ہوں اورلین دین بھی نقدہو توزیادہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگرلین دین معین مدت کے لئے ہوتواس میں اشکال ہے۔لہٰذااگرکوئی شخص ایک من چاول کودومن گیہوں کے بدلے میں ایک مہینے کی مدت تک بیچے تواس لین دین کاصحیح ہونااشکال سے خالی نہیں ۔
مسئلہ (۲۰۸۶)اگرایک شخص پکے میووں کاسوداکچے میووں سے کرے توزیادہ لےکر معاملہ کرناجائز نہیں ہے اور اگر دونوں نقدی ہوں تو مساوی طورپر معاملہ کرنا مکروہ ہے اور اگر ادھار ہوتو اس میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۷)سودکے اعتبار سے گیہوں اور جوایک جنس شمار ہوتے ہیں لہٰذامثال کے طورپراگرکوئی شخص ایک من گیہوں دے اوراس کے بدلے میں ایک من پانچ سیرجو لے تویہ سود اورحرام ہے اور مثال کے طورپراگردس من جواس شرط پرخریدے کہ گیہوں کی فصل اٹھانے کے وقت دس من گیہوں بدلے میں دے گاتوچونکہ جواس نے نقد لئے ہیں اورگیہوں کچھ مدت کے بعددے رہاہے لہٰذایہ اسی طرح ہے۔جیسے اضافہ لیاہواس لئے حرام ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۸)باپ بیٹااورمیاں بیوی ایک دوسرے سے سودلے سکتے ہیں اوراسی طرح مسلمان ایک ایسے کافرسے جواسلام کی پناہ میں نہ ہوسودلے سکتاہے لیکن ایسے کافر سے جواسلام کی پناہ میں ہے سودکالین دین حرام ہے البتہ معاملے طے کرلینے کے بعداگر سوددینااس کی شریعت میں جائزہوتواس سے سودلے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۰۸۹)ڈاڑھی منڈوانا اور اس کی اجرت لینا (احتیاط واجب کی بناء پر) جائز نہیں ہے سوائے مجبوری کی حالت میں یا اس کا ترک کرنا کسی نقصان یا حرج کا سبب قرار پانے جس کو عام طورپربرداشت کرنا مشکل ہو اگر چہ مذاق اڑانے اور توہین کے لحاظ سے ہو۔
مسئلہ (۲۰۹۰)غناء حرام ہے اور اس سے مراد وہ باطل کلام ہے جو گانے کے انداز میں ہو اور لہو و لعب کی نشستوں سے مناسبت رکھتا ہو اور اسی طرح جائز نہیں ہے کہ اس انداز سے قرآن،دعا اور اس کے جیسی چیزیں پڑھی جائیں اور( احتیاط واجب کی بناء پر) جو باتیں بیان کی گئی ان کے علاوہ بھی اس طرح سے نہ گائیں اور اسی طرح غناء کا سننا بھی حرام ہے اور اس کی اجرت لینا بھی حرام ہے اور وہ اس اجرت کا مالک نہیں بن سکتا اور اسی طرح سے اس کو سیکھنا اور سکھانا بھی جائز نہیں ہے اور موسیقی یعنی مخصوص وسائل کوبجانا بھی اس طرح سے ہو کہ لہو ولعب کی نشستوں سے مناسبت رکھتی ہو تو حرام ہے اور اس کے علاوہ حرام نہیں ہے اور حرام موسیقی بجانے کی اجرت لینا بھی حرام ہے اور اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس کا سیکھنا اور سکھانا حرام ہے۔
بیچنے والے اورخریدارکی شرائط
مسئلہ (۲۰۹۱)بیچنے والے اورخریدارکے لئے چھ چیزیں شرط ہیں :
۱:) بالغ ہوں ۔
۲:) عاقل ہوں ۔
۳:) سفیہ نہ ہوں یعنی اپنامال احمقانہ کاموں میں خرچ نہ کرتے ہوں ۔
۴:) خریدوفروخت کاارادہ رکھتے ہوں ۔پس اگرکوئی مذاق میں کہے کہ میں نے اپنامال بیچاتومعاملہ باطل ہوگا۔
۵:) کسی نے انہیں خریدوفروخت پرمجبورنہ کیاہو۔
۶:) جوجنس اوراس کے بدلے میں جوچیزایک دوسرے کودے رہے ہوں اس کے مالک ہوں اور ان کے بارے میں احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
مسئلہ (۲۰۹۲)کسی نابالغ بچے کے ساتھ سوداکرناجوآزادانہ طورپرسوداکررہاہو باطل ہے لیکن ان کم قیمت چیزوں میں جن کی خریدوفروخت نابالغ مگر سمجھ داربچے کے ساتھ لین دین کا رواج ہو(صحیح ہے) اوراگرسودااس کے سرپرست کے ساتھ ہواورنابالغ مگرسمجھ داربچہ لین دین کاصیغہ جاری کرے توسوداصحیح ہے بلکہ اگرجنس یارقم کسی دوسرے آدمی کا مال ہواوربچہ بحیثیت وکیل اس مال کے مالک کی طرف سے وہ مال بیچے یااس رقم سے کوئی چیزخریدے توظاہریہ ہے کہ سوداصحیح ہے اگرچہ وہ سمجھ داربچہ آزادانہ طورپراس مال یارقم میں (حق) تصرف رکھتاہواوراسی طرح اگربچہ اس کام میں وسیلہ ہوکہ رقم بیچنے والے کو دے اورجنس خریدار تک پہنچائے یاجنس خریدار کو دے اوررقم بیچنے والے کوپہنچائے تواگرچہ بچہ سمجھ دار نہ ہو سوداصحیح ہے کیونکہ دراصل دوبالغ افراد نے آپس میں سوداکیاہے۔
مسئلہ (۲۰۹۳)اگرکوئی شخص اس صورت میں کہ ایک نابالغ بچے سے سوداکرنا صحیح نہ ہواس سے کوئی چیزخریدے یااس کے ہاتھ کوئی چیزبیچے توضروری ہے کہ جوجنس یارقم اس بچے سے لے اگروہ خودبچے کامال ہوتواس کے سرپرست کواوراگرکسی اورکامال ہوتواس کے مالک کودےدے یااس کے مالک کی رضامندی حاصل کرے اوراگرسوداکرنے والا شخص اس جنس یارقم کے مالک کونہ جانتاہواوراس کاپتا چلانے کاکوئی ذریعہ بھی نہ ہو تو اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ جوچیزاس نے بچے سے لی ہووہ اس چیزکے مالک کی طرف سے بعنوان ردّ مظالم کسی فقیرکودے دے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کام میں حاکم شرع سے اجازت لے۔
مسئلہ (۲۰۹۴)اگرکوئی شخص ایک سمجھ داربچے سے اس صورت میں سوداکرے جب کہ اس کے ساتھ سوداکرناصحیح نہ ہواوراس نے جوجنس یارقم بچے کودی ہووہ تلف ہوجائے تو ظاہریہ ہے کہ وہ شخص بچے سے اس کے بالغ ہونے کے بعدیااس کے سرپرست سے مطالبہ کرسکتاہے اوراگربچہ سمجھ دار نہ ہویاممیز ہو اوراس نے خود اپنے مال کو تلف نہ کیا بلکہ اس کے پاس رہتے ہوئے تلف ہوگیا ہو اگر چہ بے توجہی یا حفاظت میں کوتاہی کی وجہ سے ہو ‘ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۹۵)اگرخریداریابیچنے والے کوسوداکرنے پرمجبورکیاجائے اورسوداہو جانے کے بعدوہ راضی ہوجائے اورمثال کے طورپرکہے کہ میں راضی ہوں توسودا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ معاملے کا صیغہ دوبارہ پڑھاجائے۔
مسئلہ (۲۰۹۶)اگرانسان کسی کامال اس کی اجازت کے بغیربیچ دے اورمال کا مالک اس کے بیچنے پرراضی نہ ہواوراجازت نہ دے توسوداباطل ہے۔
مسئلہ (۲۰۹۷)بچے کاباپ اوردادانیزباپ کاوصی اورداداکاوصی بچے کامال فروخت کرسکتے ہیں اوراگر صورت حال کاتقاضاہوتومجتہدعادل بھی دیوانے شخص یایتیم بچے کامال یاایسے شخص کامال جوغائب ہوفروخت کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۰۹۸)اگرکوئی شخص کسی کامال غصب کرکے بیچ ڈالے اورمال کے بک جانے کے بعداس کامالک سودے کی اجازت دے دے توسوداصحیح ہے اورجوچیزغصب کرنے والے نے خریدارکودی ہواوراس چیزسے جو منافع سودے کے وقت سے حاصل ہو وہ خریدار کی ملکیت ہے اورجوچیزخریدارنے دی ہواوراس چیزسے جومنافع سودے کے وقت سے حاصل ہووہ اس شخص کی ملکیت ہے جس کامال غصب کیاگیاہو۔
مسئلہ (۲۰۹۹)اگرکوئی شخص کسی کامال غصب کرکے بیچ دے اوراس کاارادہ یہ ہو کہ اس مال کی قیمت خوداس کی ملکیت ہوگی اوراگرمال کامالک سودے کی اجازت دےدے توسوداصحیح ہے لیکن مال کی قیمت مالک کی ملکیت ہوگی نہ کہ غاصب کی۔
جنس اوراس کے عوض کی شرائط
مسئلہ (۲۱۰۰)جوچیزبیچی جائے اورجوچیزاس کے بدلے میں لی جائے اس کی پانچ شرطیں ہیں :
(اول:) ناپ، تول یاگنتی وغیرہ کی شکل میں اس کی مقدار معلوم ہو۔
(دوم:) بیچنے والاان چیزوں کوتحویل میں دینے کااہل ہو۔اگراہل نہ ہوتوسودا صحیح نہیں ہے لیکن اگروہ اس کوکسی دوسری چیزکے ساتھ ملاکربیچے جسے وہ تحویل میں دے سکتاہوتواس صورت میں لین دین صحیح ہے البتہ ظاہریہ ہے کہ اگرخریدار اس چیزکوجو خریدی ہواپنے قبضے میں لے سکتاہواگرچہ بیچنے والااسے اس کی تحویل میں دینے کااہل نہ ہوتوبھی لین دین صحیح ہے مثلاًجوگھوڑابھاگ گیاہواگراسے بیچے اورخریدنے والااس گھوڑے کو ڈھونڈسکتاہوتواس سودے میں کوئی حرج نہیں اوروہ صحیح ہوگااوراس صورت میں کسی بات کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔
(سوم:) وہ خصوصیات جوجنس اورعوض میں موجودہوں اورجن کی وجہ سے سودے میں لوگوں کی دلچسپی میں فرق پڑتاہو،بتادی جائیں ۔
(چہارم:) کسی دوسرے کاحق اس مال سے اس طرح وابستہ نہ ہوکہ مال مالک کی ملکیتسے خارج ہونے سے دوسرے کاحق ضائع ہوجائے۔
(پنجم:) بیچنے والاخوداس جنس کوبیچے نہ کہ اس کی منفعت کو۔پس مثال کے طور پر اگرمکان کی ایک سال کی منفعت بیچی جائے توصحیح نہیں ہے لیکن اگرخریدار نقد کے بجائے اپنی ملکیت کامنافع دے مثلاً کسی سے قالین یادری وغیرہ خریدے اوراس کے عوض میں اپنےمکان کےایک سال کامنافع اسے دےدے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ ان سب کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
مسئلہ (۲۱۰۱)جس جنس کاسوداکسی شہرمیں تول کریاناپ کرکیاجاتاہواس شہرمیں ضروری ہے اس جنس کوتول کریاناپ کرہی خریدے لیکن جس شہرمیں اس جنس کاسودااسے دیکھ کرکیاجاتاہواس شہرمیں وہ اسے دیکھ کرخریدسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۰۲)جس چیزکی خریدوفروخت تول کرکی جاتی ہواس کاسوداناپ کربھی کیاجاسکتاہے مثال کے طورپراگرایک شخص دس من گیہوں بیچناچاہے تووہ ایک ایسا پیمانہ جس میں ایک من گیہوں سماتا ہودس مرتبہ بھرکردے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۰۳)اگرمعاملہ (چوتھی شرط کے علاوہ) جوشرائط بیان کئے گئے ہیں ان میں سے کوئی ایک شرط نہ ہونے کی بناپرباطل ہولیکن بیچنے والااور خریدارایک دوسرے کے مال میں تصرف کرنے پرراضی ہوں توان کے تصرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۰۴)جوچیزوقف کی جاچکی ہواس کاسودا باطل ہے لیکن اگروہ اس قدر خراب ہوجائے کہ جس فائدے کے لئے وقف کی گئی ہے وہ حاصل نہ کیاجاسکے یاوہ چیز خراب ہونے والی ہومثلاً مسجدکی چٹائی اس طرح پھٹ جائے کہ اس پرنمازنہ پڑھی جاسکے توجوشخص متولی ہے یاجسے متولی جیسے اختیارات حاصل ہوں وہ اسے بیچ دے توکوئی حرج نہیں اور(احتیاط مستحب کی بناپر)جہاں تک ممکن ہواس کی قیمت اسی مسجد کے کسی ایسے کام پر خرچ کی جائے جووقف کرنے والے کے مقصدسے قریب ترہو۔
مسئلہ (۲۱۰۵)جب ان لوگوں کے مابین جن کے لئے مال وقف کیاگیاہوایسا اختلاف پیداہوجائے کہ اندیشہ ہوکہ اگروقف شدہ مال فروخت نہ کیاگیاتومال یاکسی کی جان تلف ہوجائے گی تواس کے بیچنے میں اشکال ہے۔ ہاں اگروقف کرنے والایہ شرط لگائے کہ وقف کے بیچ دینے میں کوئی مصلحت ہوتو بیچ دیاجائے تواس صورت میں اسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۰۶)جوجائدادکسی دوسرے کوکرائے پردی گئی ہواس کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جتنی مدت کے لئے اسے کرائے پردی گئی ہو وہ کرایہ دار کا مال ہے اوراگر خریدار کویہ علم نہ ہوکہ وہ جائداد کرائے پردی جا چکی ہے یااس گمان کے تحت کہ کرائے کی مدت تھوڑی ہے اس جائداد کو خریدلے تو جب اسے حقیقت حال کاعلم ہو،وہ سوداتوڑسکتاہے۔
خریدوفروخت کاصیغہ
مسئلہ (۲۱۰۷)ضروری نہیں کہ خریدوفروخت کاصیغہ عربی زبان میں جاری کیا جائے مثلاًاگربیچنے والا فارسی (یااردو) میں کہے کہ میں نے یہ مال اتنی رقم پربیچا اورخریدار کہے کہ میں نے قبول کیاتوسوداصحیح ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ خریداراوربیچنے والاقصد انشاء (معاملے کا) دلی ارادہ رکھتے ہوں یعنی یہ دوجملے کہنے سے ان کی مراد خریدوفروخت ہو۔
مسئلہ (۲۱۰۸)اگرسوداکرتے وقت صیغہ نہ پڑھاجائے لیکن بیچنے والااس مال کے مقابلے میں جووہ خریدار سے لے اپنامال اس کی ملکیت میں دے دے تو سودا صحیح ہے اور دونوں اشخاص متعلقہ چیزوں کے مالک ہوجاتے ہیں ۔
پھلوں کی خریدوفروخت
مسئلہ (۲۱۰۹)جن پھلوں کے پھول گرچکے ہوں اوران میں دانے پڑچکے ہوں اگر ان کے آفت (مثلاً بیماریوں اورکیڑوں کے حملوں ) سے محفوظ ہونے یانہ ہونے کے بارے میں اس طرح علم ہوکہ اس درخت کی پیداوارکااندازہ لگاسکیں تواس کے توڑنے سے پہلے اس کابیچناصحیح ہے بلکہ اگرمعلوم نہ بھی ہوکہ آفت سے محفوظ ہے یانہیں تب بھی اگر دوسال یااس سے زیادہ عرصے کی پیداواریاپھلوں کی صرف اتنی مقدارجواس وقت لگی ہو بیچی جائے( بشرطیکہ اس کی کسی حدتک مالیت ہو)تومعاملہ صحیح ہے۔ اسی طرح اگر زمین کی پیداواریاکسی دوسری چیزکواس کے ساتھ بیچاجائے تومعاملہ صحیح ہے لیکن اس صورت میں احتیاط لازم یہ ہے کہ دوسری چیز(جوضمناًبیچ رہاہووہ)ایسی ہوکہ اگربیج ثمرآورنہ ہوسکیں توخریدار کے سرمائے کوڈوبنے سے بچالے۔
مسئلہ (۲۱۱۰)جس درخت پرپھل لگاہو،دانا بننے اورپھول گرنے سے پہلے اس کا بیچناجائزہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اورچیزبھی بیچے جیساکہ اس سے پہلے والے مسئلے میں بیان کیاگیاہے یا ایک سال سے زیادہ مدت کاپھل بیچے۔
مسئلہ (۲۱۱۱)درخت پرلگی ہوئی وہ کھجوریں جو پکی ہوں یا کچی ہوں ان کوبیچنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کے عوض میں خواہ اسی درخت کی کھجوریں ہوں یاکسی اور درخت کی،کھجوریں نہ دی جائیں لیکن اگر پکی رطب کو یا کچی کھجور سے بیچا جائے تو اشکال نہیں ہے البتہ اگرایک شخص کاکھجورکادرخت کسی دوسرے شخص کے گھرمیں ہوتواگراس درخت کی کھجوروں کاتخمینہ لگا لیاجائے اوردرخت کامالک انہیں گھرکے مالک کوبیچ دے اور کھجوروں کواس کاعوض نہ قراردیاجائے تو کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۱۲)کھیرے،بینگن،سبزیاں اوران جیسی(دوسری)چیزیں ساگ وغیرہ جو سال میں کئی دفعہ توڑی جاتی ہوں اگر وہ اگ آئی ہوں اوریہ طے کرلیاجائے کہ خریدارانہیں سال میں کتنی دفعہ توڑے گاتوانہیں بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگراگی نہ ہوں توانہیں بیچنے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۳)اگردانہ آنے کے بعدگندم کے خوشے کوگندم سے جوخوداس سے حاصل ہوتی ہے یاکسی دوسرے خوشے کے عوض بیچ دیاجائے توسوداصحیح نہیں ہے۔
نقداورادھارکے احکام
مسئلہ (۲۱۱۴)اگرکسی جنس کونقدبیچاجائے توسوداطے پاجانے کے بعدخریدار اور بیچنے والاایک دوسرے سے جنس اوررقم کامطالبہ کرسکتے ہیں اوراسے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں ۔منقولہ چیزوں مثلاًقالین اورلباس کوقبضے میں دینے اورغیرمنقولہ چیزوں مثلاً گھر اورزمین کوقبضے میں دینے سے مرادیہ ہے کہ ان چیزوں سے دست بردار ہوجائے اور انہیں فریق ثانی کی تحویل میں اس طرح دےدے کہ جب وہ چاہے اس میں تصرف کر سکے اورواضح رہے کہ مختلف چیزوں میں تصرف مختلف طریقے سے ہوتاہے۔
مسئلہ (۲۱۱۵)ادھار کے معاملے میں ضروری ہے کہ مدت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو۔ لہٰذااگرایک شخص کوئی چیزاس وعدے پربیچے کہ وہ اس کی قیمت فصل اٹھنے پرلے گاتو چونکہ اس کی مدت ٹھیک ٹھیک معین نہیں ہوئی اس لئے سوداباطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۶)اگرکوئی شخص اپنامال ادھار بیچے توجومدت طے ہوئی ہواس کی میعاد پوری ہونے سے پہلے وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگرخریدار مر جائے اوراس کااپناکوئی مال ہوتوبیچنے والاطے شدہ میعادپوری ہونے سے پہلے ہی جورقم لینی ہواس کامطالبہ مرنے والے کے ورثاء سے کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۱۷)اگرکوئی شخص ایک چیزادھاربیچے توطے شدہ مدت گزرنے کے بعد وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ کرسکتاہے لیکن اگرخریدارادائیگی نہ کرسکتاہوتو ضروری ہے کہ بیچنے والااسے مہلت دے یاسوداختم کردے اوراگروہ چیزجوبیچی ہے موجودہوتو اسے واپس لے لے۔
مسئلہ (۲۱۱۸)اگرکوئی شخص ایک ایسے فرد کوجسے کسی چیزکی قیمت معلوم نہ ہواس کی کچھ مقدار ادھاردے اور اس کی قیمت اسے نہ بتائے توسوداباطل ہے۔لیکن اگرایسے شخص کو جسے جنس کی نقدقیمت معلوم ہوادھار پرمہنگے داموں پربیچے مثلاًکہے کہ: جوجنس میں تمہیں ادھار دے رہاہوں اس کی قیمت سے جس پرمیں نقدبیچتاہوں ایک پیسہ فی روپیہ زیادہ لوں گااورخریدار اس شرط کوقبول کرلے توایسے سودے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۹)اگرایک شخص نے کوئی جنس ادھار فروخت کی ہواوراس کی قیمت کی ادائیگی کے لئے مدت مقررکی گئی ہوتواگرمثال کے طورپرآدھی مدت گزرنے کے بعد (فروخت کرنے والا) واجب الادا رقم میں کٹوتی کردے اورباقی ماندہ رقم نقدلے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
معاملہ ٔ سلف اور اس کی شرائط
مسئلہ (۲۱۲۰)معاملہ ٔ سلف (پیشگی سودا) سے مرادیہ ہے کہ کوئی شخص نقدرقم لے کر پورامال جووہ مقررہ مدت کے بعدتحویل میں دے گا،بیچ دے لہٰذااگرخریدارکہے کہ میں یہ رقم دے رہاہوں تاکہ مثلاً چھ مہینے بعدفلاں چیزلے لوں اوربیچنے والاکہے کہ میں نے قبول کیایابیچنے والارقم لے لے اورکہے کہ میں نے فلاں چیزبیچی اوراس کا قبضہ چھ مہینے بعد دوں گاتوسوداصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۲۱)اگرکوئی شخص سونے یاچاندی کے سکے بطورسلف بیچے اوراس کے عوض چاندی یاسونے کے سکے لے توسوداباطل ہے لیکن اگرکوئی ایسی چیز یاسکے جوسونے یاچاندی کے نہ ہوں بیچے اوران کے عوض کوئی دوسری چیزیاسونے یاچاندی کے سکے لے توسودا(اس تفصیل کے مطابق) صحیح ہے جوآئندہ مسئلے کی ساتویں شرط میں بتائی جائے گی اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جومال بیچے اس کے عوض رقم لے، کوئی دوسرامال نہ لے۔
مسئلہ (۲۱۲۲)معاملہ ٔ سلف میں سات شرطیں ہیں :
۱:) ان خصوصیات کوجن کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت میں فرق پڑتاہو معین کردیا جائے۔لیکن زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسی قدرکافی ہے کہ لوگ کہیں کہ اس کی خصوصیات معلوم ہوگئی ہیں ۔
۲:) اس سے پہلے کہ خریدار اوربیچنے والاایک دوسرے سے جداہوجائیں خریدار پوری قیمت بیچنے والے کودے یااگربیچنے والاخریدار کااتنی ہی رقم کا مقروض ہو اور خریدار کو اس سے جو کچھ لیناہو اسے مال کی قیمت میں حساب کرلے اور بیچنے والااس بات کو قبول کرے اوراگرخریدار اس مال کی قیمت کی کچھ مقدار بیچنے والے کو دےدے تو اگر چہ اس مقدار کی نسبت سے سوداصحیح ہے۔ لیکن بیچنے والا سودا فسخ کرسکتاہے۔
۳:) مدت کوٹھیک معین کیاجائے۔ مثلاًاگربیچنے والاکہے کہ فصل کاقبضہ کٹائی پر دوں گا توچونکہ اس سے مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین نہیں ہوتااس لئے سوداباطل ہے۔
۴:) جنس کاقبضہ دینےکے لئے ایساوقت معین کیاجائے جس میں بیچنے والاجنس کاقبضہ دے سکے خواہ وہ جنس کمیاب ہویافراوان ہو۔
۵:) جنس کاقبضہ دینے کی جگہ کا تعین( احتیاط واجب کی بناپر)مکمل طور پر کیا جائے ۔ لیکن اگر طرفین کی باتوں سے جگہ کا پتاچل جائے تواس کانام لیناضروری نہیں ۔
۶:) اس جنس کاتول یاناپ یا عدد معین کیاجائے اور جس چیزکاسوداعموماً دیکھ کرکیاجاتا ہے اگر اسے بطورسلف بیچاجائے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مثال کے طورپراخروٹ اور انڈوں کی بعض قسموں میں تعداد کافرق ضروری ہے کہ اتناہوکہ لوگ اسے اہمیت نہ دیں ۔
۷:) جس چیزکوبطورسلف بیچاجائے اگروہ ایسی ہوں جنہیں تول کریاناپ کربیچا جاتا ہےتو اس کا عوض اسی جنس سے نہ ہوبلکہ احتیاط لازم کی بناپردوسری جنس میں سے بھی ایسی چیزنہ ہوجسے تول کریاناپ کربیچاجاتاہے اوراگروہ چیزجسے بیچاجارہاہے ان چیزوں میں سے ہوجنہیں گن کربیچاجاتاہو تو(احتیاط واجب کی بناپر)جائزنہیں ہے کہ اس کاعوض خود اسی کی جنس سے زیادہ مقدارمیں مقررکرے۔
معاملہ ٔ سلف کے احکام
مسئلہ (۲۱۲۳)جوجنس کسی نے بطورسلف خریدی ہواسے وہ مدت ختم ہونے سے پہلے بیچنے والے کے سوا کسی اور کے ہاتھ نہیں بیچ سکتااورمدت ختم ہونے کے بعداگرچہ خریدارنے اس کاقبضہ نہ بھی لیاہواسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ۔البتہ پھلوں کے علاوہ جن غلوں مثلاً گیہوں اورجووغیرہ کوتول کریاناپ کرفروخت کیاجاتاہے انہیں اپنے قبضے میں لینے سے پہلے ان کا دوسرےخریدار کوبیچناجائزنہیں ہے ماسوااس کے کہ جس قیمت پراس نے خریدی ہوں اسی قیمت پریااس سے کم قیمت پربیچے۔
مسئلہ (۲۱۲۴)سلف کے لین دین میں اگربیچنے والامدت ختم ہونے پراس چیزکا قبضہ دے جس کاسوداہواہے توخریدارکےلئے قبول کرنا ضروری ہے اور اگر بہتر دے دیا ہوتو قبول کرنا ضروری ہے البتہ منظور شدہ شرط سے بہتر چیز کی نفی کرنا بہتر ہے ۔
مسئلہ (۲۱۲۵)اگربیچنے والاجوجنس دے وہ اس جنس سے گھٹیاہوجس کاسوداہوا ہے تو خریدار اسے قبول کرنے سے انکار کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۲۶)اگربیچنے والااس جنس کے بجائے جس کاسوداہواہے کوئی دوسری جنس دے اورخریدار اسے لینے پرراضی ہوجائے تواشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۲۷)جوچیزبطورسلف بیچی گئی ہواگروہ خریدار کے حوالے کرنے کے لئے طے شدہ وقت پردستیاب نہ ہوسکے توخریدارکواختیارہے کہ انتظار کرے تاکہ بیچنے والا اسے مہیاکردے یاسودافسخ کردے اور جوچیز بیچنے والے کودی ہواسے واپس لے لے اور (احتیاط واجب کی بناپر)وہ چیزبیچنے والے کوزیادہ قیمت پرنہیں بیچ سکتا۔
مسئلہ (۲۱۲۸)اگرایک شخص کوئی چیز بیچے اورمعاہدہ کرے کہ کچھ مدت بعد وہ چیز خریدار کے حوالے کردے گااور اس کی قیمت بھی کچھ مدت بعدلے گاتوایساسوداباطل ہے۔
سونے چاندی کوسونے چاندی کے عوض بیچنا
مسئلہ (۲۱۲۹)اگرسونے کوسونے سے یاچاندی کوچاندی سے بیچاجائے توچاہے وہ سکہ دارہوں یانہ ہوں اگران میں سے ایک کاوزن دوسرے وزن سے زیادہ ہوتوایساسودا حرام اور باطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۰)اگرسونے کوچاندی سے یاچاندی کوسونے سے نقد بیچاجائے تو سودا صحیح ہے اور ضروری نہیں کہ دونوں کاوزن برابرہو۔لیکن اگرمعاملے میں مدت معین ہوتو باطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۱)اگرسونے یاچاندی کوسونے یاچاندی کے عوض بیچاجائے توضروری ہے کہ بیچنے والااور خریدار ایک دوسرے سے جداہونے سے پہلے جنس اور اس کا عوض ایک دوسرے کے حوالے کردیں اور اگرجس چیزکے بارے میں معاملہ طے ہواہے اس کی کچھ مقدار بھی ایک دوسرے کے حوالے نہ کی جائے تومعاملہ باطل ہے اگر کچھ حصہ بھی دےدیا جائے تو اس کی مقدار کے بقدر معاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۲)اگربیچنے والے یاخریدار میں سے کوئی ایک طے شدہ مال پوراپورا دوسرے کے حوالے کردے لیکن دوسرا (مال کی صرف) کچھ مقدارحوالے کرے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جداہوجائیں تو اگرچہ اتنی مقدار کے متعلق معاملہ صحیح ہے لیکن جس کو پورامال نہ ملاہووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۳۳)اگرچاندی کی کان کی مٹی کوخالص چاندی سے اور سونے کی کان کی سونے کی مٹی کوخالص سونے سے بیچاجائے توسوداباطل ہے۔( مگریہ کہ جب جانتے ہوں کہ مثلاً چاندی کی مٹی کی مقدار خالص چاندی کی مقدار کے برابر ہے) لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکاہے چاندی کی مٹی کوسونے کے عوض اورسونے کی مٹی کوچاندی کے عوض بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ۔
معاملہ فسخ کئے جانے کی صورتیں
مسئلہ (۲۱۳۴)معاملہ فسخ کرنے کے حق کو ’’خیار‘‘ کہتے ہیں اورخریدار اوربیچنے والا گیارہ صورتوں میں معاملہ فسخ کرسکتے ہیں :
۱:) جس نشست میں معاملہ ہواہے وہ برخاست نہ ہوئی ہواگرچہ سوداہوچکاہواسے ’’خیارمجلس‘‘ کہتے ہیں ۔
۲:) خریدوفروخت کے معاملے میں خریداریابیچنے والانیزدوسرے معاملات میں طرفین میں سے کوئی ایک مغبون ہوجائے،اسے ’’خیارغبن‘‘ کہتے ہیں (مغبون سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ فراڈکیاگیاہو)خیارکی اس قسم کا منشاعرف عام میں شرط ارتکازی ہوتاہے یعنی ہر معاملے میں فریقین کے ذہن میں یہ شرط موجود ہوتی ہے جو مال حاصل کررہاہے اس کی قیمت مال سے بہت زیادہ کم نہیں جووہ اداکررہاہے اور اگر اس کی قیمت کم ہوتووہ معاملے کوختم کرنے کاحق رکھتاہے لیکن عرف خاص کی چند صورتوں میں ارتکازی شرط دوسری طرح ہومثلاً یہ شرط ہوکہ اگرجومال لیاہووہ بلحاظ قیمت اس مال سے کم ہوجواس نے دیاہے تودونوں (مال) کے درمیان جوکمی بیشی ہوگی اس کا مطالبہ کر سکتاہے اوراگرممکن نہ ہوسکے تومعاملے کوختم کردے اورضروری ہے کہ اس قسم کی صورتوں میں عرف خاص کاخیال رکھاجائے۔
۳:) سوداکرتے وقت یہ طے کیاجائے کہ مقررہ مدت تک فریقین کویاکسی ایک فریق کو سودافسخ کرنے کااختیارہوگا۔اسے ’’خیارشرط‘‘ کہتے ہیں ۔
۴:) فریقین میں سے ایک فریق اپنے مال کواس کی اصلیت سے بہتربتاکرپیش کرے جس کی وجہ سے دوسرافریق اس میں دلچسپی لے یااس کی دلچسپی اس میں بڑھ جائے اسے ’’خیارتدلیس‘‘ کہتے ہیں ۔
۵:) فریقین میں سے ایک فریق دوسرے کے ساتھ شرط کرے کہ وہ فلاں کام انجام دے گااور اس شرط پرعمل نہ ہویاشرط کے بجائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کوایک مخصوص قسم کامعین مال دے گااورجومال دیاجائے اس میں وہ خصوصیت نہ ہو،اس صورت میں شرط لگانے والا فریق معاملے کوفسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیارتخلف شرط‘‘ کہتے ہیں ۔
۶:) دی جانے والی جنس یااس کے عوض میں کوئی عیب ہو۔اسے ’’خیار عیب‘‘ کہتے ہیں ۔
۷:) یہ پتاچلے کہ فریقین نے جس جنس کاسوداکیاہے اس کی کچھ مقدارکسی اورشخص کا مال ہے۔اس صورت میں اگراس مقدارکامالک سودے پرراضی نہ ہوتوخریدنے والا سودا فسخ کرسکتاہے یااگر اتنی مقدار کی ادائیگی کرچکاہوتواسے واپس لے سکتاہے۔اسے ’’خیار شرکت‘‘ کہتے ہیں ۔
۸:) جس معین جنس کودوسرے فریق نے نہ دیکھاہواگراس جنس کامالک اسے اس کی خصوصیات بتائے اوربعدمیں معلوم ہوکہ جوخصوصیات اس نے بتائی تھیں وہ اس میں نہیں ہیں یادوسرے فریق نے پہلے اس جنس کودیکھاتھااوراس کاخیال تھاکہ وہ خصوصیات اب بھی اس میں باقی ہیں لیکن دیکھنے کے بعدمعلوم ہوکہ وہ خصوصیات اب اس میں باقی نہیں ہیں تواس صورت میں دوسرا فریق معاملہ فسخ کرسکتاہے۔ اسے ’’خیار رؤیت‘‘ کہتے ہیں ۔
۹:) خریدارنے جوجنس خریدی ہواگراس کی قیمت تین دن تک نہ دے اور بیچنے والے نے بھی وہ جنس خریدارکے حوالے نہ کی ہوتوبیچنے والاسودے کوختم کرسکتاہے لیکن ایسااس صورت میں ہوسکتاہے جب بیچنے والے نے خریدارکوقیمت اداکرنے کی مہلت دی ہولیکن مدت معین نہ کی ہواور اگراس کوبالکل مہلت نہ دی ہوتوبیچنے والاقیمت کی ادائیگی میں معمولی سی تاخیر سے بھی سوداختم کرسکتا ہے اوراگراسے تین دن سے زیادہ مہلت دی ہوتومدت پوری ہونے سے پہلے سوداختم نہیں کر سکتا۔اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جوجنس بیچی ہے اگروہ بعض ایسے پھلوں یا سبزیوں کی ہو جو تین دن سے پہلے ضائع ہوجاتی ہے تواس کی مہلت کم ہوگی ۔اسے ’’خیارتاخیر‘‘ کہتے ہیں ۔
۱۰:) جس شخص نے کوئی جانورخریداہووہ تین دن تک سودافسخ کرسکتاہے اورجوچیز اس نے بیچی ہواگراس کے عوض میں خریدار نے جانوردیاہوتوجانوربیچنے والابھی تین دن تک سودافسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیارحیوان‘‘ کہتے ہیں ۔
۱۱:) بیچنے والے نے جوچیزبیچی ہواگراس کاقبضہ نہ دے سکے مثلاً جوگھوڑااس نے بیچا ہووہ بھاگ گیاہوتواس صورت میں خریدارسودافسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیار تعذّرتسلیم‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۱۳۵)اگرخریدار کوجنس کی قیمت کاعلم نہ ہویاوہ سوداکرتے وقت غفلت برتے اور اس چیز کو عام قیمت سے مہنگا خریدے اوریہ قیمت خریدبڑی حدتک مہنگی ہوتووہ سوداختم کرسکتاہے بشرطیکہ سوداختم کرتے وقت وہ غبن (فراڈ) باقی ہو ورنہ حق خیار میں اشکال ہےنیز اگربیچنے والے کوجنس کی قیمت کاعلم نہ ہویاسوداکرتے وقت غفلت برتے اوراس جنس کواس کی قیمت سے سستابیچے اور بڑی حد تک سستا بیچے اس صورت میں کہ سستی قیمت عام طور سے قابل توجہ ہو توسابقہ شرط کے مطابق سوداختم کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۶)مشروط خریدوفروخت میں جب کہ مثال کے طورپرایک لاکھ روپے کا مکان پچاس ہزار روپے میں بیچ دیاجائے اورطے کیاجائے کہ اگربیچنے والامقررہ مدت تک رقم واپس کردے توسودافسخ کرسکتاہے تواگرخریدار اوربیچنے والا واقعی خریدوفروخت کی نیت رکھتے ہوں توسوداصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۷)مشروط خریدوفروخت میں اگربیچنے والے کواطمینان ہوکہ خریدار مقررہ مدت میں رقم ادا نہ کرسکنے کی صورت میں مال اسے واپس کردے گا توسودا صحیح ہے لیکن اگروہ مدت ختم ہونے تک رقم ادانہ کرسکے تووہ خریدارسے مال کی واپسی کامطالبہ کرنے کاحق نہیں رکھتااور اگرخریدار مرجائے تواس کے ورثاء سے مال کی واپسی کامطالبہ نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۳۸)اگرکوئی شخص عمدہ چائے میں گھٹیاچائے کی ملاوٹ کرکے عمدہ چائے کے طورپربیچے تو خریدارسودافسخ سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۳۹)اگرخریدارکوپتاچلے کہ جومعین مال اس نے خریداہے وہ عیب دار ہے مثلاً ایک جانور خریدے اور (خریدنے کے بعد) اسے پتاچلے کہ اس کی ایک آنکھ نہیں ہے لہٰذا اگریہ عیب مال میں سودے سے پہلے تھااوراسے علم نہیں تھاتووہ سودافسخ کر سکتا ہے اورمال بیچنے والے کوواپس کرسکتاہے اور اگرواپس کرناممکن نہ ہومثلاًاس مال میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہویاایساتصرف کرلیاگیاہوجوواپسی میں رکاوٹ بن رہاہوتوجسے اس نے بیچ دیا ہو کرایہ پر دے دیا ہو یا کپڑے کو کاٹ دیا یا سل دیا ہواس صورت میں وہ بے عیب اورعیب دار مال کی قیمت کے فرق کاحساب کرکے بیچنے والے سے (فرق کی) رقم واپس لے لے مثلاً اگراس نے کوئی مال چارروپے میں خریداہواور اسے اس کے عیب دارہونے کاعلم ہوجائے تواگرایساہی بے عیب مال (بازارمیں ) آٹھ روپے کااورعیب دارچھ روپے کاہوتوچونکہ بے عیب اورعیب دارکی قیمت کافرق ایک چوتھائی ہے اس لئے اس نے جتنی رقم دی ہے اس کاایک چوتھائی یعنی ایک روپیہ بیچنے والے سے واپس لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۰)اگربیچنے والے کوپتاچلے کہ اس نے جس معین عوض کے بدلے اپنا مال بیچاہے اس میں عیب ہے تواگروہ عیب اس عوض میں سودے سے پہلے موجودتھااور اسے علم نہ ہواہووہ سودافسخ کر سکتاہے اوروہ عوض اس کے مالک کوواپس کرسکتاہے لیکن اگر تبدیلی یاتصرف کی وجہ سے واپس نہ کر سکے توبے عیب کی قیمت کافرق اس قاعدے کے مطابق لے سکتاہے جس کاذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۱)اگرسوداکرنے کے بعداورقبضہ دینے سے پہلے مال میں کوئی عیب پیداہوجائے توخریدار سودافسخ کرسکتاہے نیزجوچیزمال کے عوض دی جائے اگراس میں سوداکرنے کے بعداورقبضہ دینے سے پہلے کوئی عیب پیداہوجائے توبیچنے والاسودافسخ کر سکتاہے اوراگرفریقین قیمت کافرق لیناچاہیں توواپس کرنا ناممکن ہونے کی صورت میں جائزہے۔
مسئلہ (۲۱۴۲)اگرکسی شخص کومال کے عیب کاعلم سوداکرنے کے بعدہوتواگروہ (سوداختم کرنا) چاہے توضروری ہے کہ فوراً سودے کوختم کردے( اور اختلاف کی صورتوں کو پیش نظررکھتے ہوئے) اگرمعمول سے زیادہ تاخیرکرے تووہ سودے کوختم نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۴۳)جب کسی شخص کوکوئی جنس خریدنے کے بعداس کے عیب کاپتاچلے تو خواہ بیچنے والااس پر تیارنہ بھی ہوخریدارسودافسخ کرسکتاہے اور دوسرے خیارات کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۴۴)دوصورتوں میں خریدارمال میں عیب ہونے کی بناپرسودافسخ نہیں کر سکتااورنہ ہی قیمت کافرق لے سکتاہے:
۱:) خریدتے وقت مال کے عیب سے واقف ہو۔
۲:)سودے کے وقت بیچنے والاکہے: ’’میں اس مال کوجوعیب بھی اس میں ہے اس کے ساتھ بیچتاہوں ‘‘۔ لیکن اگروہ ایک عیب کاتعین کردے اورکہے: ’’میں اس مال کوفلاں عیب کے ساتھ بیچ رہا ہوں ‘‘ اور بعدمیں معلوم ہوکہ مال میں کوئی دوسراعیب بھی ہے تو جو عیب بیچنے والے نے معین نہ کیاہواس کی بناپرخریداروہ مال واپس کرسکتاہے اور اگرواپس نہ کرسکے توقیمت کافرق لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۵)اگرخریدار کومعلوم ہوکہ مال میں ایک عیب ہے اوراسے وصول کرنے کے بعداس میں کوئی اورعیب نکل آئے تووہ سودافسخ نہیں کرسکتالیکن بے عیب اور عیب دار مال کافرق لے سکتاہے لیکن اگروہ عیب دارحیوان خریدے اورخیارکی مدت جو تین دن ہے گزرنے سے پہلے اس حیوان میں کسی اورعیب کاپتاچل جائے توگوخریدار نے اپنی تحویل میں لے لیاہوپھربھی وہ اسے واپس کرسکتاہے۔نیزاگرفقط خریدارکوکچھ مدت تک سودافسخ کرنے کاحق حاصل ہواوراس مدت کے دوران مال میں کوئی دوسرا عیب نکل آئے تواگرچہ خریدار نے وہ مال اپنی تحویل میں لے لیاہووہ سودافسخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۱۴۶)اگرکسی شخص کے پاس ایسامال ہوجسے اس نے بچشم خودنہ دیکھاہواور کسی دوسرے شخص نے مال کی خصوصیات اسے بتائی ہوں اوروہی خصوصیات خریدار کو بتائے اوروہ مال اس کے ہاتھ بیچ دے اوربعدمیں اسے (یعنی مالک کو) پتاچلے کہ وہ مال اس سے بہترخصوصیات کاحامل ہے تووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
متفرق مسائل
مسئلہ (۲۱۴۷)اگربیچنے والاخریدارکوکسی جنس کی قیمت خریدبتائے توضروری ہے کہ وہ تمام چیزیں بھی اسے بتائے جن کی وجہ سے مال کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے اگرچہ اسی قیمت پر (جس پرخریداہے) یااس سے بھی کم قیمت پربیچے۔مثلاًاسے بتاناضروری ہے کہ مال نقدخریداہے یاادھارلہٰذااگرمال کی کچھ خصوصیات نہ بتائے اورخریدار کوبعدمیں معلوم ہوتووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۸)اگرانسان کوئی جنس کسی کودے اوراس کی قیمت معین کردے اور کہے: ’’یہ جنس اس قیمت پربیچواوراس سے زیادہ جتنی قیمت وصول کروگے وہ تمہاری محنت کی اجرت ہوگی‘‘تواس صورت میں وہ شخص اس قیمت سے زیادہ جتنی قیمت بھی وصول کرے وہ جنس کے مالک کامال ہوگااوربیچنے والا مالک سے فقط محنتانہ لے سکتاہے لیکن اگر معاہدہ بطورجعالہ (حق العمل) ہواورمال کامالک کہے کہ اگرتونے یہ جنس اس قیمت سے زیادہ پربیچی توفاضل آمدنی تیرامال ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۴۹)اگرقصاب نرجانورکاگوشت کہہ کرمادہ کاگوشت بیچے تووہ گنہگار ہوگا لہٰذااگروہ اس گوشت کومعین کردے اورکہے کہ میں یہ نرجانورکاگوشت بیچ رہاہوں تو خریدار سودافسخ کرسکتاہے اور اگرقصاب اس گوشت کومعین نہ کرے اورخریدار کوجوگوشت ملاہو (یعنی مادہ کاگوشت) وہ اس پرراضی نہ ہوتوضروری ہے کہ قصاب اسے نرجانورکا گوشت دے۔
مسئلہ (۲۱۵۰)اگرخریداربزازسے کہے کہ مجھے ایساکپڑاچاہئے جس کارنگ کچانہ ہو اور بزازایک ایساکپڑااس کے ہاتھ فروخت کرے جس کارنگ کچاہوتوخریدارسودا فسخ کر سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۵۱)اگر جنس بیچنے والا جنس کو فروخت کرے جسے قبضہ میں نہیں دےسکتا جیسے کسی ایسے گھوڑے کو بیچے جو بھاگ گیا ہو تو اس صورت میں معاملہ باطل ہوجائے گا اور خریدنے والا اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
شراکت کے احکام
مسئلہ (۲۱۵۲)دوآدمی اگرباہم طے کریں کہ اپنے مشترک مال سے تجارت کرکےجو کچھ نفع کمائیں گے اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے اور وہ عربی یا کسی اورزبان میں شراکت کاصیغہ پڑھیں یاکوئی ایساکام کریں جس سے ظاہرہوتاہوکہ وہ ایک دوسرے کے شریک بنناچاہتے ہیں توان کی شراکت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۳)اگرچنداشخاص اس مزدوری میں جووہ اپنی محنت سے حاصل کرتے ہوں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کریں مثلاً چنددلاک(حمام میں بدن کی مالش کرنے اور میل نکالنے والے) آپس میں طے کریں کہ جواجرت حاصل ہوگی اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے توان کی شراکت صحیح نہیں ہے۔لیکن اگرباہم طے کرلیں کہ مثلاًہرایک کی آدھی مزدوری معین مدت تک کے لئے دوسرے کی آدھی مزدوری کے بدلے میں ہوگی تومعاملہ صحیح ہے اوران میں سے ہرایک دوسرے کی مزدوری میں شریک ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۵۴)اگردواشخاص آپس میں اس طرح شراکت کریں کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری پرجنس خریدے اوراس کی قیمت کی ادائگی کابھی خودمقروض ہو لیکن جوجنس انہوں نے خریدی ہواس کے نفع میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں تو ایسی شراکت صحیح نہیں ، البتہ اگران میں سے ہر ایک دوسرے کواپناوکیل بنائے کہ جوکچھ وہ ادھارلے رہاہے اس میں اسے شریک کرلے یعنی جنس کو اپنے اوراپنے حصہ دارکےلئے خریدے جس کی بناپردونوں مقروض ہوجائیں تودونوں میں سے ہرایک جنس میں شریک ہو جائے گا۔
مسئلہ (۲۱۵۵)جواشخاص شراکت کے ذریعے ایک دوسرے کے شریک کاربن جائیں ان کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہوں نیزیہ کہ ارادے اور اختیارکے ساتھ شراکت کریں اوریہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں تصرف کرسکتے ہوں لہٰذا چونکہ سفیہ(جواپنامال احمقانہ اورفضول کاموں پرخرچ کرتاہے) اپنے مال میں تصرف کاحق نہیں رکھتااگروہ کسی کے ساتھ شراکت کرے توصحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۶)اگرشراکت کے معاہدے میں یہ شرط لگائی جائے کہ جوشخص کام کرے گایاجودوسرے شریک سے زیادہ کام کرے گایاجس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ہے اسے منافع میں زیادہ حصہ ملے گاتوضروری ہے کہ جیسا طے کیاگیاہومتعلقہ شخص کواس کے مطابق دیں اوراسی طرح اگرشرط لگائی جائے کہ جو شخص کام نہیں کرے گایازیادہ کام نہیں کرے گایاجس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں ہے اسے منافع کازیادہ حصہ ملے گاتب بھی شرط صحیح ہے اور جیساطے کیاگیاہومتعلقہ شخص کواس کے مطابق دیں ۔
مسئلہ (۲۱۵۷)اگرشرکاء طے کریں کہ سارامنافع کسی ایک شخص کاہوگایاسارا نقصان کسی ایک کوبرداشت کرناہوگاتوشراکت صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۸)اگرشرکاء یہ طے نہ کریں کہ کسی ایک شریک کوزیادہ منافع ملے گاتو اگران میں سے ہر ایک کاسرمایہ برابرہوتونفع نقصان بھی ان کے مابین برابر تقسیم ہوگا اوران کاسرمایہ برابربرابرنہ ہوتو ضروری ہے کہ نفع نقصان سرمائے کی نسبت سے تقسیم کریں مثلاًاگردوافراد شراکت کریں اورایک کا سرمایہ دوسرے کے سرمائے سے دگنا ہو تو نفع نقصان میں بھی اس کاحصہ دوسرے سے دگناہوگاخواہ دونوں ایک جتناکام کریں یا ایک تھوڑاکام کرے یابالکل کام نہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۵۹)اگرشراکت کے معاہدے میں یہ طے کیاجائے کہ دونوں شریک مل کرخریدوفروخت کریں گے یاہرایک انفرادی طورپرلین دین کرنے کامجازہوگایاان میں سے فقط ایک شخص لین دین کرے گایاتیسرےشخص کو اجرت پرمعاملہ کےلئے قرار دےگاتوضروری ہے کہ اس معاہدے پرعمل کریں ۔
مسئلہ (۲۱۶۰)شرکت کی دو قسمیں ہیں :(۱)شرکت اذنی: اس کو کہتے ہیں جب مال تجارت کی مقدار شرکاء کے درمیان معین نہ ہو اور پہلے سے کسی کے لئے کچھ مقدار طے بھی نہ ہو۔(۲)شرکت عوضی: یعنی جب دوشریک اپنے اپنے مال شرکت کےلئے اکٹھا کریں تاکہ آخر میں ہر ایک اپنے اپنے حصہ کا نصف مال سے شریک کے نصف مال سے عوض کرلیں ۔ لہٰذا اگردونوں میں کسی ایک کا بھی معین نہ کیا ہو کہ کس مال سے خریدوفروخت ہوگی شرکت اذنی میں کوئی شریک اپنے ساتھی شریک کی اجازت کے بغیر اس مال سے تجارت نہیں کرسکتا لیکن شریک عوضی میں ہر شریک کو حق ہے کہ شرکت کی منفعت کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۱۶۱)جوشریک شراکت کے سرمائے پراختیار رکھتاہواس کے لئے ضروری ہے کہ شراکت کے معاہدے پرعمل کرے مثلاً اگراس سے طے کیاگیاہوکہ ادھار خریدے گا یانقد بیچے گایا کسی خاص جگہ سے خریدے گاتوجومعاہدہ طے پایاہے اس کے مطابق عمل کرناضروری ہے اوراگراس کے ساتھ کچھ طے نہ ہواہوتوضروری ہے کہ معمول کے مطابق لین دین کرے تاکہ شراکت کونقصان نہ ہو۔
مسئلہ (۲۱۶۲)جوشریک شراکت کے سرمائے سے سودے کرتاہواگرجوکچھ اس کے ساتھ طے کیاگیاہو اس کے برخلاف خریدوفروخت کرے یااگرکچھ طے نہ کیاگیاہو اور معمول کے خلاف سوداکرے توان دونوں صورتوں میں اگرچہ( اقویٰ قول کی بناپر) معاملہ صحیح ہے لیکن اگرمعاملہ نقصان دہ ہویاشراکت کے مال میں سے کچھ مال ضائع ہوجائے تو جس شریک نے معاہدے یاعام روش کے خلاف عمل کیاہووہ ضامن ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۶۳)جوشریک شراکت کے سرمائے سے کاروبارکرتاہواگروہ فضول خرچی نہ کرے اور سرمائے کی نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کرے اورپھراتفاقاً اس سرمائے کی کچھ مقداریاسارے کاسارا سرمایہ تلف ہوجائے تووہ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۶۴)جوشریک شراکت کے سرمائے سے کاروبارکرتاہواگروہ کہے کہ سرمایہ تلف ہوگیاہے تو اگروہ دوسرے شرکاء کے نزدیک معتبرشخص ہوتوضروری ہے کہ اس کا کہامان لیں اوراگردوسرے شرکاء کے نزدیک وہ معتبرشخص نہ ہوتوشرکاء حاکم شرع کے پاس اس کے خلاف دعویٰ کرسکتے ہیں تاکہ حاکم شرع قضاوت کے اصولوں کے مطابق تنازع کافیصلہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۶۵)اگرتمام شریک اس اجازت سے جوانہوں نے ایک دوسرے کو مال میں تصرف کے لئے دے رکھی ہوپھرجائیں توان میں سے کوئی بھی شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتااوراگران میں سے ایک اپنی دی ہوئی اجازت سے پھرجائے تو دوسرے شرکاء کوتصرف کاکوئی حق نہیں لیکن جوشخص اپنی دی ہوئی اجازت سے پھرگیاہو وہ شراکت کے مال میں تصرف کرسکتاہے اور تمام صورتوں میں سرمایہ میں سب کی شراکت اپنی حالت پر باقی رہے گی۔
مسئلہ (۲۱۶۶)جب شرکاء میں سے کوئی ایک تقاضاکرے کہ شراکت کاسرمایہ تقسیم کردیاجائے تواگرچہ شراکت کی معینہ مدت میں ابھی کچھ وقت باقی ہودوسروں کواس کا کہنا مان لیناضروری ہے مگریہ کہ انہوں نے پہلے ہی (معاہدہ کرتے وقت) سرمائے کی تقسیم کوردکردیاہو(یعنی بعض شریک کی طرف سے تقسیم مال کی ضرورت ہو) یامال کی تقسیم شرکاء کے لئے قابل ذکرنقصان کا موجب ہو (تواس کی بات قبول نہیں کرنی چاہئے)۔
مسئلہ (۲۱۶۷)اگرشرکاء میں سے کوئی مرجائے یادیوانہ یابے حواس ہوجائے تو دوسرے شرکاء شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتے اوراگران میں سے کوئی سفیہ ہو جائے یعنی اپنامال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرے تواس کابھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۶۸)اگرشریک اپنے لئے کوئی چیزادھار خریدے تواس نفع نقصان کاوہ خود ذمہ دارہے لیکن اگرشراکت کے لئے خریدے اور شراکت کے معاہدے میں ادھار معاملہ کرنابھی شامل ہوتوپھرنفع نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
مسئلہ (۲۱۶۹)اگرشراکت کے سرمائے سے کوئی معاملہ کیاجائے اوربعدمیں معلوم ہو کہ شراکت باطل تھی تو اگرصورت یہ ہوکہ معاملہ کرنے کی اجازت میں شراکت کے صحیح ہونے کی قیدنہ تھی یعنی اگرشرکاء جانتے ہوتے کہ شراکت درست نہیں ہے تب بھی وہ ایک دوسرے کے مال میں تصرف پرراضی ہوتے تومعاملہ صحیح ہے اورجوکچھ اس معاملے سے حاصل ہووہ ان سب کامال ہے اوراگرصورت یہ نہ ہوتوجولوگ دوسروں کے تصرف پر راضی نہ ہوں اگروہ یہ کہہ دیں کہ ہم اس معاملے پرراضی ہیں تو معاملہ صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔ دونوں صورتوں میں ان میں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کام کیاہواگراس نے بلا معاوضہ کام کرنے کے ارادے سے نہ کیاہوتووہ اپنی محنت کامعاوضہ معمول کے مطابق دوسرے شرکاء سے ان کے مفاد کاخیال رکھتے ہوئے لے سکتاہے۔لیکن اگرکام کرنے کامعاوضہ اس فائدہ کی مقدار سے زیادہ ہوجووہ شراکت صحیح ہونے کی صورت میں لیتاتووہ بس اسی قدرفائدہ لے سکتاہے۔
صلح کے احکام
مسئلہ (۲۱۷۰)’’صلح‘‘ سے مرادہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس بات پراتفاق کرے کہ اپنے مال سے یااپنے مال کے منافع سے کچھ مقداردوسرے کو دے دے یااپناقرض یاحق چھوڑدے تاکہ دوسرابھی اس کے عوض اپنے مال یا اپنے منافع کی کچھ مقداراسے دے دے یاقرض یاحق سے دستبردار ہو جائے۔ بلکہ اگرکوئی شخص عوض لئے بغیرکسی سے اتفاق کرے اور اپنامال یامال کے منافع کی کچھ مقدار اس کودے دے یا اپناقرض یاحق چھوڑدے تب بھی صلح صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۱)جوشخص اپنامال بطورصلح دوسرے کودے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بالغ اورعاقل ہواور صلح کاقصدرکھتاہونیزیہ کہ کسی نے اس صلح پرمجبورنہ کیاہواورضروری ہے کہ سفیہ یادیوالیہ ہونے کی بناپراسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے نہ روکاگیاہو۔
مسئلہ (۲۱۷۲)صلح کاصیغہ عربی میں پڑھناضروری نہیں بلکہ جن الفاظ سے اس بات کا اظہارہوکہ فریقین نے آپس میں صلح کی ہےتوصلح صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۳)اگرکوئی شخص اپنی بھیڑیں چرواہے کودے تاکہ وہ مثلاً ایک سال ان کی نگہداشت کرے اور ان کے دودھ سے خوداستفادہ کرے اورگھی کی کچھ مقدار مالک کودے تواگرچرواہے کی محنت اوراس گھی کے مقابلے میں وہ شخص بھیڑوں کے دودھ پر مصالحت کرلے تومعاملہ صحیح ہے بلکہ اگربھیڑیں چرواہے کوایک سال کے لئے اس شرط کے ساتھ اجارے پردے کہ وہ ان کے دودھ سے استفادہ کرے اوراس کے عوض اسے کچھ گھی دے مگریہ قیدنہ لگائے کہ بالخصوص انھی بھیڑوں کے دودھ وگھی ہوتواجارہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۴)اگرکوئی قرض خواہ اس قرض کے بدلے جواسے مقروض سے وصول کرناہے یااپنے حق کے بدلے اس شخص سے صلح کرناچاہے تویہ صلح اس صورت میں صحیح ہے جب دوسرااسے قبول کرلے لیکن اگرکوئی شخص اپنے قرض یاحق سے دستبردار ہونا چاہے تودوسرے کاقبول کرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۷۵)اگرمقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتاہوجب کہ قرض خواہ کوعلم نہ ہو اور قرض خواہ نے جو کچھ لیناہواس سے کم پرصلح کرلے مثلاً اس کو پچاس روپے لینے ہوں اوردس روپے پرصلح کرلے تو باقیماندہ رقم مقروض کے لئے حلال نہیں ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ جتنے کا مقروض ہے اس کے متعلق خودقرضہ کی مقدار کو بتائے اور اسے راضی کرلے یاصورت ایسی ہوکہ اگرقرضہ کی مقدار کوقرضے کی مقدارکاعلم ہوتاتب بھی وہ اسی مقدار (یعنی دس روپے) پرصلح کرلیتا۔
مسئلہ (۲۱۷۶)اگردوآدمیوں کے پاس کوئی مال موجودہویاایک دوسرے کے ذمہ کوئی مال باقی ہواور انہیں یہ علم ہوکہ ان دونوں اموال میں سے ایک مال دوسرے مال سے زیادہ ہے توچونکہ ان دونوں اموال کوایک دوسرے کے عوض میں فروخت کرنا سودہونے کی بناپرحرام ہے اس لئے ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح کرنابھی حرام ہے بلکہ اگران دونوں اموال میں سے ایک کے دوسرے سے زیادہ ہونے کاعلم نہ بھی ہولیکن زیادہ ہونے کااحتمال ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر)ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح نہیں کی جاسکتی۔
مسئلہ (۲۱۷۷)اگردواشخاص کوایک شخص سے یادواشخاص کودو اشخاص سے قرضہ وصول کرناہواوروہ اپنی اپنی طلب پرایک دوسرے سے صلح کرناچاہتے ہوں ۔چنانچہ اگر صلح کرناسود کاباعث نہ ہوجیساکہ سابقہ مسئلے میں کہاگیاہے توکوئی حرج نہیں ہے مثلاً اگر دونوں کودس من گیہوں وصول کرناہو(اورایک کاگیہوں اعلیٰ اوردوسرے کادرمیانی درجے کا ہو)اوردونوں کی مدت پوری ہوچکی ہوتوان دونوں کاآپس میں مصالحت کرنا صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۸)اگرایک شخص کوکسی سے اپناقرضہ کچھ مدت کے بعدواپس لیناہو اور وہ مقروض کے ساتھ مقررہ مدت سے پہلے معین مقدارسے کم پرصلح کرلے اوراس کا مقصد یہ ہوکہ اپنے قرضے کاکچھ حصہ معاف کردے اورباقیماندہ نقدلے لے تواس میں کوئی حرج نہیں اوریہ حکم اس صورت میں ہے کہ قرضہ سونے یاچاندی کی شکل میں یاکسی ایسی جنس کی شکل میں ہوجوناپ کریاتول کربیچی جاتی ہے اور اگرجنس اس قسم کی نہ ہو توقرض خواہ کے لئے جائزہے کہ اپنے قرضے کی مقروض سے یاکسی اورشخص سے کمترمقدار پرصلح کرلے یابیچ دے جیساکہ مسئلہ ( ۲۳۰۷ )میں بیان ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۷۹)اگردو اشخاص کسی چیزپرآپس میں صلح کرلیں توایک دوسرے کی رضا مندی سے اس صلح کو توڑسکتے ہیں ۔نیزاگرسودے کے سلسلے میں دونوں کویاکسی ایک کو سودا فسخ کرنے کاحق دیاگیاہوتوجس کے پاس حق ہے،وہ صلح کوفسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۰)جب تک خریداراوربیچنے والےایک دوسرے سے جدانہ ہوگئے ہوں وہ سودے کوفسخ کرسکتے ہیں ۔نیزاگرخریدارایک جانورخریدے تووہ تین دن تک سودافسخ کرنے کاحق رکھتاہے۔اسی طرح اگر ایک خریدارخریدی ہوئی جنس کی قیمت تین دن تک ادانہ کرے اورجنس کواپنی تحویل میں نہ لے توجیساکہ مسئلہ ( ۲۱۳۴ )میں بیان ہو چکا ہے بیچنے والاسودے کوفسخ کرسکتاہے۔لیکن جوشخص کسی مال پرصلح کرے وہ ان تینوں صورتوں میں صلح فسخ کرنے کاحق نہیں رکھتا۔لیکن اگرصلح کادوسرافریق مصالحت کامال دینے میں غیر معمولی تاخیرکرے یایہ شرط رکھی گئی ہوکہ مصالحت کامال نقددیاجائے اور دوسرافریق اس شرط پر عمل نہ کرے تواس صورت میں صلح فسخ کی جاسکتی ہے اور اسی طرح باقی صورتوں میں بھی جن کاذکر خریدوفروخت کے احکام میں آیاہے صلح فسخ کی جاسکتی ہے مگرمصالحت کے دونوں فریقوں میں سے ایک کو نقصان اور اگر صلح رفع نزاع کےلئے ہو تو صلح کوتوڑا نہیں جاسکتا ہےبلکہ اس صورت کے علاوہ بھی (احتیاط واجب کی بناء پر) نقصان اٹھانے والے کےلئے ضروری ہےکہ معاملہ فسخ نہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۸۱)جوچیزبذریعہ صلح ملے اگروہ عیب دارہوتوصلح فسخ کی جاسکتی ہے لیکن اگرمتعلقہ شخص بے عیب اورعیب دارکے مابین قیمت کافرق لیناچاہے تواس میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۸۲)اگرکوئی شخص اپنے مال کے ذریعے دوسرے سے صلح کرے اور اس کے ساتھ شرط لگائے اورکہے: ’’جس چیزپرمیں نے تم سے صلح کی ہے میرے مرنے کے بعد مثلاًتم اسے وقف کردوگے‘‘ اوردوسراشخص بھی اس کوقبول کرلے توضروری ہے کہ اس شرط پرعمل کرے۔
کرائے کے احکام
مسئلہ (۲۱۸۳)کوئی چیزکرائے پردینے والے اورکرائے پرلینے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں اورکرایہ لینے یاکرایہ دینے کاکام اپنے اختیارسے کریں اوریہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مال میں تصرف کاحق رکھتے ہوں لہٰذا چونکہ سفیہ اپنے مال میں تصرف کرنے کاحق نہیں رکھتااس لئے نہ وہ کوئی چیزکرائے پرلے سکتاہے اور نہ دے سکتاہے۔اسی طرح جوشخص دیوالیہ ہوچکاہووہ ان چیزوں کو کرائے پرنہیں دے سکتاجن میں وہ تصرف کاحق نہ رکھتاہواورنہ وہ ان میں سے کوئی چیزکرائے پرلے سکتاہے لیکن اپنی خدمات کوکرائے پرپیش کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۴)انسان دوسرے کی طرف سے وکیل بن کراس کامال کرائے پردے سکتاہے یاکوئی مال اس کے لئے کرائے پرلے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۵)اگربچے کاسرپرست یااس کے مال کامنتظم بچے کامال کرائے پردے یابچے کوکسی کااجیر مقررکردے توکوئی حرج نہیں اوراگربچے کوبالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کوبھی اجارے کی مدت کاحصہ قراردیاجائے توبچہ بالغ ہونے کے بعد باقیماندہ اجارہ فسخ کرسکتاہے اگرچہ صورت یہ ہوکہ اگربچے کے بالغ ہونے کی کچھ مدت کو اجارہ کی مدت کاحصہ نہ بنایاجاتاتویہ بچے کی مصلحت کےخلاف ہوتا۔ہاں اگر وہ مصلحت کہ جس کے بارے میں یہ علم ہوکہ شارع مقدس اس مصلحت کوترک کرنے پر راضی نہیں ہے اس صورت میں اگرحاکم شرع کی اجازت سے اجارہ واقع ہوجائے توبچہ بالغ ہونے کے بعداجارہ فسخ نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۸۶)جس نابالغ بچے کاسرپرست نہ ہواسے مجتہدکی اجازت کے بغیر مزدوری پرنہیں لگایاجاسکتااورجس شخص کی رسائی مجتہدتک نہ ہووہ ایک مومن شخص کی اجازت لے کرجوعادل ہوبچے کومزدوری پرلگاسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۷)اجارہ دینے والے اوراجارہ لینے والے کے لئے ضروری نہیں کہ صیغہ عربی زبان میں پڑھیں بلکہ اگرکسی چیزکامالک دوسرے سے کہے کہ: میں نے اپنا مال تمہیں اجارے پردیااوردوسراکہے کہ: میں نے قبول کیاتواجارہ صحیح ہے بلکہ اگروہ منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اورمالک اپنامال اجارے کے قصد سے مستاجرکودے اوروہ بھی اجارے کے قصدسے لے تواجارہ صحیح ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۸۸)اگرکوئی شخص چاہے کہ اجارے کاصیغہ پڑھے بغیرکوئی کام کرنے کے لئے اجیربن جائے توجیسے ہی وہ کام کرنے میں مشغول ہوگااجارہ صحیح ہوجائے گا۔
مسئلہ (۲۱۸۹)جوشخص بول نہ سکتاہواگروہ اشارے سے سمجھادے کہ اس نے کوئی چیز اجارے پردی ہے یااجارہ پرلی ہے تواجارہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۹۰)اگرکوئی شخص مکان یادکان یاکوئی بھی چیزاجارے پرلے اوراس کا مالک یہ شرط لگائے کہ صرف وہ اس سے استفادہ کرسکتاہے تومستاجراسے کسی دوسرے کو استعمال کے لئے اجارے پرنہیں دے سکتابجز اس کے کہ وہ نیااجارہ اس طرح ہوکہ اس کے فوائد بھی خودمستاجرسے مخصوص ہوں ۔مثلاًایک عورت ایک مکان یاکمرہ کرائے پر لے اوربعدمیں شادی کرلے اورکمرہ یامکان اپنی رہائش کے لئے کرائے پردے دے یعنی شوہرکوکرائے پردے کیونکہ بیوی کی رہائش کاانتظام بھی شوہرکی ذمہ داری ہے اوراگرمالک ایسی کوئی شرط نہ لگائے تومستاجر اسے دوسرے کو کرائے پردے سکتاہے۔ البتہ ملکیت کودوسرےمستاجرکے سپردکرنے کے لئے( احتیاط کی بناپر)ضروری ہے کہ مالک سے اجازت لے لے لیکن اگروہ یہ چاہے کہ جتنے کرائے پرلیاہے اس سے زیادہ کرائے پر دے اگرچہ (کرایہ رقم نہ ہو) دوسری جنس سے ہو مثلاً گھر، دوکان،کشتی توضروری ہے کہ اس نے مرمت اور سفیدی وغیرہ کرائی ہویااس کی حفاظت کے لئے کچھ نقصان برداشت کیاہوتووہ اسے زیادہ کرائے پردے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۹۱)اگراجیرمستاجرسے یہ شرط طے کرے کہ وہ فقط اسی کاکام کرے گا تو بجزاس صورت کے جس کاذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے اس اجیرکوکسی دوسرے شخص کو بطور اجارہ نہیں دیاجاسکتااوراگراجیر ایسی کوئی شرط نہ لگائے تواسے دوسرے کواجارے پردے سکتاہے لیکن جوچیزاس کواجارے پردے رہاہے ضروری ہے کہ اس کی قیمت اس ا جارے سے زیادہ نہ ہوجواجیرکے لئے قراردیاہے اور اسی طرح اگرکوئی شخص خودکسی کااجیربن جائے اورکسی دوسرے شخص کووہ کام کرنے کے لئے کم اجرت پررکھ لے تواس کے لئے بھی یہی حکم ہےیعنی وہ اسے کم اجرت پرنہیں رکھ سکتا لیکن اگراس نے کام کی کچھ مقدار خود انجام دی ہوتوپھردوسرے کوکم اجرت پربھی رکھ سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۹۲)اگرکوئی شخص مکان، دکان، کمرے اورکشتی کے علاوہ کوئی اورچیز مثلاً زمین کرائے پرلے اورزمین کامالک اس سے یہ شرط نہ کرے کہ صرف وہی اس سے استفادہ کرسکتاہے تواگرجتنے کرائے پر اس نے وہ چیزلی ہے اس سے زیادہ کرائے پر دے تواجارہ صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۹۳)اگرکوئی شخص مکان یادکان مثلاًایک سال کے لئے سوروپیہ کرائے پر لے اور اس کاآدھاحصہ خوداستعمال کرے تودوسراحصہ سوروپیہ کرائے پرچڑھاسکتا ہے لیکن اگروہ چاہے کہ مکان یادکان کا آدھاحصہ اس سے زیادہ کرائے پرچڑھادے جس پر اس نے خودوہ دکان یامکان کرائے پرلیاہے مثلاً (۱۲۰؍)روپے کرائے پردے دے تو ضروری ہے کہ اس نے اس میں مرمت وغیرہ کاکام کرایاہو۔
کرائے پردیئے جانے والے مال کے شرائط
مسئلہ (۲۱۹۴)جومال اجارے پردیاجائے اس کے چندشرائط ہیں :
۱:) وہ مال معین ہو۔لہٰذااگرکوئی شخص کہے کہ میں نے اپنے مکانات میں سے ایک مکان تمہیں کرائے پردیاتویہ درست نہیں ہے۔
۲:)مستاجریعنی کرائے پر لینے والا اس مال کودیکھ لے اور مال موجود نہیں یا مجمل ہے تواجارہ پردینے والا شخص اپنے مال کی خصوصیات اس طرح بیان کرے کہ اجارہ پر لینے والا راغب ہوسکے۔
۳:)اجارے پردیئے جانے والے مال کودوسرے فریق کے سپردکرناممکن ہولہٰذا اس گھوڑے کواجارے پردیناجوبھاگ گیاہواگرمستاجراس کونہ پکڑسکے تواجارہ باطل ہے اور اگرپکڑسکے تواجارہ صحیح ہے۔
۴:)اس مال سے استفادہ کرنااس کے ختم یاکالعدم ہوجانے پرموقوف نہ ہو لہٰذا روٹی، پھلوں اوردوسری کھانے والی اشیاء کوکھانے کے لئے کرائے پردیناصحیح نہیں ہے۔
۵:)مال سے وہ فائدہ اٹھاناممکن ہوجس کے لئے اسے کرائے پردیاجائے۔ لہٰذا ایسی زمین کازراعت کے لئے کرائے پردیناجس کے لئے بارش کاپانی کافی نہ ہواوروہ دریا کے پانی سے بھی سیراب نہ ہوتی ہوصحیح نہیں ہے۔
۶:)جوچیزکرائے پردی جارہی ہووہ اس کی منفعت کا مالک ہو اور اگر مالک نہ ہو اور نہ ہی وکیل اور ولی ہو تو اس صورت میں کرایہ پر دینا صحیح ہے جب اس کا مالک راضی ہو۔
مسئلہ (۲۱۹۵)جس درخت میں ابھی پھل نہ لگاہواس کا اس مقصد سے کرائے پر دیناکہ اس کے پھل سے استفادہ کیاجائے گادرست ہے اوراسی طرح ایک جانورکواس کے دودھ کے لئے کرائے پردینے کا بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۹۶)عورت اس مقصد کے لئے اجیربن سکتی ہے کہ اس کے دودھ سے استفادہ کیاجائے اورضروری نہیں کہ وہ اس مقصد کے لئے شوہرسے اجازت لے لیکن اگراس کے دودھ پلانے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہوتوپھراس کی اجازت کے بغیرعورت اجیرنہیں بن سکتی۔
کرائے پردیئے جانے والے مال سے استفادہ کے شرائط
مسئلہ (۲۱۹۷)جس استفادے کے لئے مال کرائے پردیاجاتاہے اس کی چار شرطیں ہیں :
۱:) استفادہ کرناحلال ہو۔لہٰذا اگر مال کی صرف حرام منفعت ہو یہ یا شرط لگائیں کہ حرام میں استعمال کیا جائے یا معاملہ کرنے سے پہلے حرام استعمال کو معین کریں اور معاملہ کو اس حرام استعمال پر قرار دیں تو معاملہ باطل ہےلہٰذادکان کوشراب بیچنے یاشراب ذخیرہ کرنے کے لئے کرائے پردینااورحیوان کوشراب کی نقل وحمل کے لئے کرائے پردیناباطل ہے۔
۲:)وہ عمل شریعت میں بلامعاوضہ انجام دیناواجب نہ ہو اور(احتیاط واجب کی بناپر)اسی قسم کے کاموں میں سے حلال اورحرام کے مسائل سکھانا بشرطیکہ مبتلا بہ ہو اورمردوں کی تجہیزوتکفین واجب مقدار میں کرنا۔ لہٰذا ان کاموں کی اجرت لیناجائزنہیں ہے اوراحتیاط واجب کی بناپرمعتبرہے کہ اس استفادے کے لئے رقم دینالوگوں کی نظروں میں فضول نہ ہو۔
۳:)جوچیزکرائے پردی جائے اگروہ کثیرالفوائد(اورکثیرالمقاصد) ہوتوجوفائدہ اٹھانے کی مستاجرکواجازت ہواسے معین کیاجائے۔مثلاًایک ایساجانورکرائے پردیا جائے جس پرسواری بھی کی جا سکتی ہواورمال بھی لاداجاسکتاہوتواسے کرائے پردیتے وقت یہ معین کرناضروری ہے کہ مستاجراسے فقط سواری کے مقصد کے لئے یافقط بار برداری کے مقصدکے لئے استعمال کرسکتاہے یااس سے ہرطرح استفادہ کرسکتاہے۔
۴:)استفادہ کرنے کی مقدار کاتعین کرلیاجائے اوریہ استفادہ مدت معین کرکے حاصل کیاجاسکتاہے مثلاً مکان یادکان کرائے پردے کریاکام کاتعین کرکے حاصل کیاجا سکتاہے مثلاً درزی کے ساتھ طے کرلیاجائے کہ وہ ایک معین لباس مخصوص ڈیزائن میں سلے گا۔
مسئلہ (۲۱۹۸)اگراجارے کی شروعات کاتعین نہ کیاجائے تواس کے شروع ہونے کاوقت اجارے کاصیغہ پڑھنے کے بعدسے ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۹۹)مثال کے طورپراگرمکان ایک سال کے لئے کرائے پردیاجائے اور معاہدے کی ابتداکا وقت صیغہ پڑھنے سے ایک مہینہ بعدسے مقررکیاجائے تواجارہ صحیح ہے اگرچہ جب صیغہ پڑھاجارہاہووہ مکان کسی دوسرے کے پاس کرائے پرہو۔
مسئلہ (۲۲۰۰)اگراجارے کی مدت کاتعین نہ کیاجائے بلکہ کرائے دارسے کہا جائے کہ جب تک تم اس مکان میں رہوگے دس روپے ماہانہ کرایہ دوگے تواجارہ صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۰۱)اگرمالک مکان،کرائےدارسے کہے کہ: میں نے تجھے یہ مکان دس روپے ماہانہ کرائے پر دیایایہ کہے کہ: یہ مکان میں نے تجھے ایک مہینے کے لئے دس روپے کرائے پردیااوراس کے بعدبھی تم جتنی مدت اس میں رہوگے اس کاکرایہ دس روپے ماہانہ ہوگاتواس صورت میں جب اجارے کی مدت کی ابتداکاعلم ہوجائے توپہلے مہینے کااجارہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۰۲)جس مکان میں مسافر اورزائرقیام کرتے ہوں اوریہ علم نہ ہوکہ وہ کتنی مدت تک وہاں رہیں گے اگروہ مالک مکان سے طے کرلیں کہ مثلاً ایک رات کا ایک روپیہ دیں گے اورمالک مکان اس پرراضی ہوجائے تواس مکان سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ اجارے کی مدت طے نہیں کی گئی لہٰذاپہلی رات کے علاوہ اجارہ صحیح نہیں ہے اور مالک مکان پہلی رات کے بعدجب بھی چاہے انہیں نکال سکتا ہے۔
کرائے کے متفرق مسائل
مسئلہ (۲۲۰۳)جومال مستاجراجارے کے طورپردے رہاہوضروری ہے کہ وہ مال معلوم ہو۔لہٰذااگرایسی چیزیں ہوں جن کالین دین تول کرکیاجاتاہے مثلاًگیہوں توان کا وزن معلوم ہوناضروری ہے اوراگرایسی چیزیں ہوں جن کالین دین گن کرکیاجاتاہے مثلاً رائج الوقت سکے توضروری ہے کہ ان کی تعداد معین ہو اوراگروہ چیزیں گھوڑے اور بھیڑکی طرح ہوں توضروری ہے کہ کرایہ لینے والاانہیں دیکھ لے یامستاجران کی خصوصیات بتادے۔
مسئلہ (۲۲۰۴)اگرزمین زراعت کے لئے کرائے پردی جائے اوراس کی اجرت اسی زمین کی پیداوارقراردی جائے جواس وقت موجودنہ ہویاکلی طورپرکوئی چیزاس کے ذمے قراردے اس شرط پرکہ وہ اسی زمین کی پیداوارسے اداکی جائے گی تواجارہ صحیح نہیں ہے اوراگراجرت (یعنی اس زمین کی پیداوار) اجارہ کرتے وقت موجود ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۰۵)جس شخص نے کوئی چیزکرائے پردی ہووہ اس چیزکوکرایہ دارکی تحویل میں دینے سے پہلے کرایہ مانگنے کاحق نہیں رکھتانیزاگرکوئی شخص کسی کام کے لئے اجیر بناہو توجب تک وہ کام انجام نہ دے دے اجرت کا مطالبہ کرنے کاحق نہیں رکھتامگربعض صورتوں میں ، مثلاًحج کی ادائیگی کے لئے اجیرجسے عموماًعمل کے انجام دینے سے پہلے اجرت دے دی جاتی ہے (اجرت کامطالبہ کرنے کاحق رکھتاہے)۔
مسئلہ (۲۲۰۶)اگرکوئی شخص کرائے پردی گئی چیزکرایہ دار کی تحویل میں دے دے تو اگرچہ کرایہ داراس چیزپرقبضہ نہ کرے یاقبضہ حاصل کرلے لیکن اجارہ ختم ہونے تک اس سے فائدہ نہ اٹھائے پھربھی ضروری ہے کہ مالک کواجرت اداکرے۔
مسئلہ (۲۲۰۷)اگرایک شخص کوئی کام ایک معین دن میں انجام دینے کے لئے اجیر بن جائے اور اس دن وہ کام کرنے کے لئے تیارہوجائے توجس شخص نے اسے اجیر بنایا ہے خواہ وہ اس دن سے کام نہ لے ضروری ہے کہ اس کی اجرت اسے دے دے۔ مثلاً اگر کسی درزی کوایک معین دن لباس سینے کے لئے اجیربنائے اوردرزی اس دن کام کرنے پر تیارہوتواگرچہ مالک اسے سینے کے لئے کپڑانہ دے تب بھی ضروری ہے کہ اسے اس کی مزدوری دے دے۔ قطع نظراس سے کہ درزی بیکاررہاہویااس نے اپنایاکسی دوسرے کا کام کیاہو۔
مسئلہ (۲۲۰۸)اگراجارے کی مدت ختم ہوجانے کے بعدمعلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تومستاجر کے لئے ضروری ہے کہ عام طورپراس چیزکا جوکرایہ ہوتاہے مال کے مالک کو دے دے مثلاً اگروہ ایک مکان سو روپے کرائے پرایک سال کے لئے لے اور بعدمیں اسے پتاچلے کہ اجارہ باطل تھاتواگراس مکان کاکرایہ عام طورپرپچاس روپے ہوتو ضروری ہے کہ پچاس روپے دے اوراگراس کاکرایہ عام طورپردوسوروپے ہوتواگرمکان کرایہ پردینے والامالک مکان ہویااس کاوکیل ہواورعام طورپرگھرکے کرائے کی جو شرح ہواسے جانتاہوتوضروری نہیں ہے کہ مستاجرسوروپے سے زیادہ دے اور اگراس کےعلاوہ کوئی صورت ہوتوضروری ہے کہ مستاجر دوسوروپے دے نیزاگراجارے کی کچھ مدت گزرنے کے بعدمعلوم ہوکہ اجارہ باطل تھاتوجومدت گزرچکی ہواس پربھی یہی حکم جاری ہوگا۔
مسئلہ (۲۲۰۹)جس چیزکواجارے پرلیاگیاہواگروہ تلف ہوجائے اورمستاجر نے اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ برتی ہواوراسے غلط طورپراستعمال نہ کیاہوتو(پھروہ اس چیز کے تلف ہونے کا) ضامن نہیں ہے۔ اسی طرح مثال کے طورپراگردرزی کودیا گیا کپڑاتلف ہوجائے تواگردرزی نے بے احتیاطی نہ کی ہواورکپڑے کی نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ برتی ہوتووہ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۰)اگر کسی کاریگر نے کسی کرایہ پر دینے والے کے مال پر کچھ کام کرنے کےلئے لیا ہو جیسے درزی اور ہنرپیشہ افراد نےاگرکسی چیز کو لیا ہے ضائع ہوجائے تو ضامن ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۱)اگرقصاب کسی جانورکاسرکاٹ ڈالے اوراسے حرام کردے توخواہ اس نے مزدوری لی ہویابلا معاوضہ ذبح کیاہوضروری ہے کہ جانورکی قیمت اس کے مالک کواداکرے۔
مسئلہ (۲۲۱۲)اگرکوئی شخص کسی جانوریا کسی گاڑی کوکرائے پرلے اورمعین کرے کہ کتنابوجھ اس پرلادے گاتواگروہ اس پرمعینہ مقدارسے زیادہ بوجھ لادے اوراس وجہ سے وہ جانور مر جائے یا گاڑی تلف یاعیب دارہوجائے تومستاجرذمہ دار ہے ۔ نیز اگر اس نے بوجھ کی مقدار معین نہ کی ہواورمعمول سے زیادہ بوجھ جانورپرلادے اوردونوں صورتوں میں مستاجر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ معمول سے زیادہ بار کی اجرت ادا کرے ۔
مسئلہ (۲۲۱۳)اگرکوئی شخص حیوان کوایسا (نازک) سامان لادنے کے لئے کرائے پر دے جوٹوٹنے والا ہو اورجانورپھسل جائے یابھاگ کھڑاہواورسامان کوتوڑپھوڑدے تو جانورکامالک ذمہ دارنہیں ہے۔ ہاں اگرمالک جانورکومعمول سے زیادہ مارے یاایسی حرکت کرے جس کی وجہ سے جانورگرجائے اورلداہواسامان توڑدے تومالک ذمہ دار ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۴)اگرکوئی شخص بچے کاختنہ کرے اوروہ اپنے کام میں کوتاہی یاغلطی کرے مثلاً اس نے معمول سے زیادہ (چمڑا) کاٹاہواوروہ بچہ مرجائے یااس میں کوئی نقص پیداہوجائے تووہ ذمہ دارہے اور اگراس نے کوتاہی یاغلطی نہ کی ہواوربچہ ختنہ کرنے سے ہی مرجائے یااس میں کوئی عیب پیداہوجائے چنانچہ اس بات کی تشخیص کے لئے کہ بچے کے لئے نقصان دہ ہے یانہیں اس کی طرف رجوع نہ کیاگیاہو نیزوہ یہ بھی نہ جانتاہوکہ بچے کونقصان ہوگاتواس صورت میں وہ ذمے دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۵)اگرمعالج اپنے ہاتھ سے کسی مریض کودوادے یا اس کے لئے دوا تیار کرنے کوکہے اور دوا کھانے کی وجہ سے مریض کونقصان پہنچے یاوہ مرجائے تومعالج ذمہ دار ہے اگرچہ اس نے علاج کرنے میں کوتاہی نہ کی ہو۔
مسئلہ (۲۲۱۶)جب معالج مریض سے کہہ دے اگرتمہیں کوئی ضررپہنچاتومیں ذمہ دار نہیں ہوں اورپوری احتیاط سے کام لے لیکن اس کے باوجوداگرمریض کوضرر پہنچے یا وہ مرجائے تومعالج ذمہ دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۷)کرائے پرلینے والااورجس شخص نے کوئی چیزکرائے پردی ہو، وہ ایک دوسرے کی رضامندی سے معاملہ فسخ کرسکتے ہیں اور اگراجارہ میں یہ شرط عائد کریں کہ وہ دونوں یاان میں سے کوئی ایک معاملے کوفسخ کرنے کاحق رکھتاہے تووہ معاہدے کے مطابق اجارہ فسخ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۲۱۸)اگرمال اجارہ پردینے والے یامستاجرکوپتاچلے کہ وہ گھاٹے میں رہا ہے تواگراجارہ کرنے کے وقت وہ اس امرکی جانب متوجہ نہ تھاکہ وہ گھاٹے میں ہے تو وہ اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ( ۲۱۳۴) میں گزرچکی ہے اجارہ فسخ کرسکتاہے لیکن اگر اجارے کے صیغے میں یہ شرط عائدکی جائے کہ اگران میں سے کوئی گھاٹے میں بھی رہے گاتواسے جارہ فسخ کرنے کاحق نہیں ہوگاتوپھروہ اجارہ فسخ نہیں کرسکتے۔
مسئلہ (۲۲۱۹)اگرایک شخص کوئی چیزاجارے پردے اوراس سے پہلے کہ اس کا قبضہ مستاجرکودے کوئی اور شخص اس چیزکوغصب کرلے تومستاجر اجارہ فسخ کرسکتاہے اورجو چیزاس نے اجارے پردینے والے کودی ہو اسے واپس لے سکتاہے یا یہ بھی کرسکتاہے کہ اجارہ فسخ نہ کرے اورجتنی مدت وہ چیزغاصب کے پاس رہی ہواس کی عام طورپر جتنی اجرت بنے وہ غاصب سے لے لے۔ لہٰذااگرمستاجرایک حیوان کاایک مہینے کا اجارہ دس روپے کے عوض کرے اورکوئی شخص اس حیوان کودس دن کے لئے غصب کر لے اورعام طورپراس کا دس دن کااجارہ پندرہ روپے ہوتومستاجرپندرہ روپئے غاصب سے لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۲۰)اگرکوئی دوسراشخص مستاجرکواجارہ کردہ چیزاپنی تحویل میں نہ لینے دے یاتحویل میں لینے کے بعداس پرناجائز قبضہ کرلے یااس سے استفادہ کرنے میں حائل ہوتومستاجراجارہ فسخ نہیں کرسکتااور صرف یہ حق رکھتاہے کہ اس چیزکاعام طورپرجتنا کرایہ بنتاہووہ غاصب سے لے لے۔
مسئلہ (۲۲۲۱)اگراجارے کی مدت ختم ہونے سے پہلے مالک اپنامال مستاجر کے ہاتھ بیچ ڈالے تواجارہ فسخ نہیں ہوتااورمستاجر کوچاہئے کہ اس چیزکاکرایہ مالک کودے اور اگر(مالک مستاجرکے علاوہ) اس (مال) کوکسی اورشخص کے ہاتھ بیچ دے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۲۲۲)اگراجارے کی مدت شروع ہونے سے پہلے جوچیزاجارے پرلی ہے وہ اس استفادہ کے قابل نہ رہے جس کاتعین کیاگیاتھاتواجارہ باطل ہوجاتاہے اور مستاجراجارہ کی رقم مالک سے واپس لے لے گا اور اگرصورت یہ ہوکہ اس مال سے تھوڑاسا استفادہ کیاجاسکتاہوتومستاجراجارہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۲۳)اگرایک شخص کوئی چیزاجارہ پرلے اوروہ کچھ مدت گزرنے کے بعدجواستفادہ مستاجرکے لئے طے کیاگیاہواس کے قابل نہ رہے توباقی ماندہ مدت کے لئے اجارہ باطل ہوجاتاہے اورمستاجر گذری ہوئی مدت کااجارہ ’’اجرۃ المثل‘‘ یعنی جتنے دن وہ چیزاستعمال کی ہواتنے دنوں کی عام اجرت دے کراجارہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۲۴)اگرکوئی شخص ایسامکان کرائے پردے جس کے مثلاً دوکمرے ہوں اوران میں سے ایک کمرہ ٹوٹ پھوٹ جائے لیکن اجارے پردینے والااس کمرہ کو (مرمت کرکے) اس طرح بنادے جس میں سابقہ کمرے کے مقابلے میں کافی فرق ہو تو اس کے لئے وہی حکم ہے جواس سے پہلے والے مسئلے میں بتایا گیاہے اوراگراس طرح نہ ہو بلکہ اجارے پردینے والااسے فوراً بنادے اوراس سے استفادہ کرنے میں بھی قطعاً فرق واقع نہ ہوتواجارہ باطل نہیں ہوتااورکرائے دار بھی اجارے کوفسخ نہیں کرسکتا لیکن اگر کمرے کی مرمت میں قدرے تاخیرہوجائے اورکرائے داراس سے استفادہ نہ کر پائے تواس ’’تاخیر‘‘کی مدت تک کااجارہ باطل ہوجاتاہے اورکرائے دارچاہے توساری مدت کااجارہ بھی فسخ کرسکتاہے البتہ جتنی مدت اس نے کمرے سے استفادہ کیاہے اس کی اجرۃ المثل دے۔
مسئلہ (۲۲۲۵)اگرمال کرائے پردینے والایامستاجرمرجائے تواجارہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگرمکان کافائدہ صرف اس کی زندگی میں ہی اس کا ہومثلاًکسی دوسرے شخص نے وصیت کی ہوکہ جب تک وہ اجارے پر دینے والا زندہ ہے مکان کی آمدنی اس کامال ہوگا تواگروہ مکان کرائے پر دے دے اوراجارہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے مرجائے تو اس کے مرنے کے وقت سے اجارہ باطل ہے اوراگرموجودہ مالک اس اجارہ کی تصدیق کردے تواجارہ صحیح ہے اور اجارے پردینے والے کی موت کے بعداجارے کی جو مدت باقی ہوگی اس کی اجرت اس شخص کوملے گی جوموجودہ مالک ہے۔
مسئلہ (۲۲۲۶)اگرکوئی کسی معمار کواس مقصد سے وکیل بنائے کہ وہ اس کے لئے کاریگرمہیاکرے تواگرمعمارنے جوکچھ اس شخص سے لے لیاہے کاریگروں کواس سے کم دے توزائد مال اس پر حرام ہے اوراس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رقم اس شخص کو واپس کردے لیکن اگرمعمار اجیربن جائے کہ عمارت کومکمل کردے گااوروہ اپنے لئے یہ اختیار حاصل کرلے کہ خودبنائے گایادوسرے سے بنوائے گاتواس صورت میں کہ کچھ کام خود کرے اور باقیماندہ دوسروں سے اس اجرت سے کم پرکروائے جس پروہ خوداجیربنا ہے تو زائد رقم اس کے لئے حلال ہوگی۔
مسئلہ (۲۲۲۷)اگررنگریزوعدہ کرے کہ مثلاًکپڑانیل سے رنگے گاتواگروہ نیل کے بجائے اسے کسی اور چیزسے رنگ دے تواسے اجرت لینے کاکوئی حق نہیں ۔
مضاربہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۲۸)مضاربہ دو لوگوں کا درمیانی معاہدہ ہے جن میں سے ایک مالک ہے جو دوسرے کو جسے عامل (کام سنبھالنے والا) کہتے ہیں اس کو رقم دیتا ہے جس کے ذریعہ وہ تجارت کرے اور فائدہ کو آپس میں تقسیم کیا جائے۔
یہ معاملہ مندرجہ ذیل شرطوں کے ساتھ منعقد ہوتا ہے:
(۱)ایجاب و قبول: جس کی انشاء و اظہار کےلئے ہر لفظ یا فعل جو اس عبارت پر دلالت کرتا ہو کافی ہے۔
(۲)شرعی طور سے بالغ ہونا۔ اسی طرح عقل مند، سمجھ دار اوربا اختیار ہونا۔ دونوں کے لئے ضروری ہے اور مالک کے لئے خصوصی شرط یہ ہےکہ حاکم شرع کی طرف سے افلاس کی بناء پر شرعاً روک نہ دیا گیا ہو لیکن عامل کے لئے ایسی شرط نہیں ہے لیکن اس صورت میں جب معاہدہ اس بات کا متقاضی ہوعامل اپنے اس مال میں تصرف کررہا ہو جس کے استعمال سے روکا گیا ہو۔
(۳)دونوں میں سے ہر ایک کا فائدہ میں حصہ خاص مقدار میں نکالنے کے بعد معین ہو، جو کہ ایک تہائی یا نصف، یا کوئی مقدار معین ہے؟ اور اس شرط سےاس صورت میں بے نیاز ہواجاسکتا ہے جب کہ دونوں میں سے ہر ایک کا حصہ عام طور سے بازار میں معین ہے اس طرح کہ عام طور سے اس قسم کی شرط کا ذکر لازم نہ ہو۔ ہر ایک کے حصے کی رقم کاذکر مثلاً ایک لاکھ روپیہ کافی نہیں ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ فائدہ حاصل ہونے کے بعد اپنے حصہ کی رقم پر مصالحت کی جائے۔
(۴)یہ فائدہ صرف مالک اور عامل کےلئے ہی ہو لہٰذا اگر یہ شرط قرار دی جائے کہ کسی تیسرے کو فائدہ دیا جائے گا تو مضاربہ باطل ہے سوائے یہ کہ کسی تجارت کے کام کے مقابل رقم دی جائے۔
(۵)ضروری ہے کہ عامل تجارت پر قدرت رکھتا ہو اس صورت میں جب کہ معاہدہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہو کہ عامل خود تجارت کرے گامثلاً کہا:(یہ رقم تمہیں دی جارہی ہے کہ تم خود یہ تجارت کرو گے) لیکن ناتوانی کی صورت میں یہ معاہدہ باطل ہے اور اگر خود انجام دینے کی شرط معاہدہ کے متن میں ذکر ہوجیسے کہ یہ کہا گیا ہو کہ یہ رقم تمہیں تجارت کےلئے دی جارہی ہے بشرطیکہ تم خود اس کام کو انجام دو گےتو اس صورت میں اگر عامل ناتوان ہوتو معاملہ باطل نہیں ہے لیکن مالک عامل کے خود تجارت نہ کرنے کی بناء پر معاملہ فسخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے لیکن اگر کوئی قید وشرط قرار نہ دی گئی ہو اور عامل تجارت کرنے سے ناتوان ہویہاں تک کہ کسی دوسرے کےحوالے بھی نہ کرسکتا ہوتو معاہدہ باطل ہے اور اگر ابتداء میں قدرت رکھتا تھا لیکن بعد میں ناتوان ہوگیا تو جس وقت سے ناتوان ہوا ہے معاہدہ باطل ہوجائے گا ۔
مسئلہ (۲۲۲۹)عامل، حساب کتاب کا امانت دار ہے اس بناء پر اگر مال ضائع ہو جائے یا اس میں عیب پیدا ہوجائے تو ضامن نہیں ہے سوائے یہ کہ معاہدہ کی حدود سے تجاوز کرے یا مال کی حفاظت میں کوتاہی کرے اسی طرح سے نقصان کی صورت میں بھی ضامن نہیں ہے بلکہ یہ نقصان مالک کے مال میں شمار ہوگا اور اگر مالک یہ چاہے کہ نقصان صرف اس کے ذمہ نہ آئے تو یہ معاملہ تین طرح سے ممکن ہے:
(۱) معاہدہ کے ضمن میں شرط قرار دے کہ عامل اس نقصان میں شریک ہوگا ٹھیک اسی طرح جس طرح فائدہ میں شریک ہے اس صورت میں شرط باطل ہے لیکن معاملہ صحیح ہے۔
(۲) یہ شرط قرار دی جائے کہ تمام نقصان عامل کے ذمہ ہوگا یہ شرط صحیح ہے لیکن تمام فائدہ بھی اسی کو ملے گا اور مالک کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
(۳) یہ شرط رکھی جائے کہ نقصان کی صورت میں پوری یا کچھ معینہ رقم کی عامل اپنے مال میں سے بھر پائی کرے گا اور اسے دے گا یہ شرط صحیح ہے اور عامل کےلئے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ (۲۲۳۰)اذنی مضاربہ ایک لازم معاہدہ نہیں ہے اس معنی میں کہ مالک نے عامل کو جس مال میں تصرف کی اجازت دی ہے اس میں رجوع کرسکتا ہے اور عامل کےلئے بھی اس سرمایہ کے ساتھ کام کا مسلسل انجام دینا ضروری نہیں ہے جب بھی چاہے کام سے منع کرسکتا ہے کام کے شروع کرنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی چاہے فائدہ کےشروع ہونے سے پہلے ہویا بعد میں ہو، چاہے معاہدہ کسی خاص مدت کے لئے نہ ہو یا کسی خاص معینہ مدت کےلئے ہو لیکن اگر یہ شرط رکھی گئی ہو کہ ایک خاص معینہ مدت تک فسخ نہیں کریں گے تو شرط صحیح ہے اور اس پر عمل واجب ہے اس کے باوجود اگر دونوں میں سے کوئی ایک فسخ کرے تو فسخ ہوجائے گا اگر چہ وہ معاہدہ کی مخالفت کرنے کا گنہگار ہوگا۔
مسئلہ (۲۲۳۱)جب مضاربہ کا معاہدہ مطلق ہو اورکوئی خاص قید نہ لگائی گئی ہو تو عامل خریدار،بیچنے والے، مال کی قسم میں اپنی مصلحت اندیشی کے مطابق عمل کرے گا لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ مال کو ایک شہر سے دوسرے شہرلےکر جائے سوائے اس صورت میں کہ یہ کام معمولاً انجام دیا جاتا ہواس طرح سے کہ معاہدہ کا مطلق ہونا لوگوں کے درمیان اس صورت حال کو شامل کئے ہوں یا مالک خود اجازت دے اور اگر مالک کی اجازت کے بغیر کسی اورجگہ منتقل کرے اور مال ضائع ہوجائے یا نقصان ہوجائے تو ضامن ہے۔
مسئلہ (۲۲۳۲)اذنی مضاربہ مالک اور عامل میں سے کسی ایک کے انتقال سے باطل ہوجاتا ہے اس لئے کہ مالک کے انتقال سے مال اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور عامل کے پاس اس مال کے باقی رہنےکےلئے جدید مضاربہ کی ضرورت ہوتی ہے اوراگر عامل کا انتقال ہوجائے تو اذن (اجازت) ختم ہوجاتا ہے اس لئے کہ مالک کا اذن اس عامل سے مخصوص تھا۔
مسئلہ (۲۲۳۳)مالک اور عامل میں سے ہر ایک کےلئے ممکن ہے کہ مضاربہ کے معاہدہ میں یہ شرط رکھیں کہ اس کے لئے کوئی کام انجام دیا جائے گا یا کوئی مال اس کو دیا جائے گا اورجب تک یہ معاہدہ باقی ہے اور فسخ نہیں ہوا ہے اس شرط پر عمل واجب ہے چاہے کوئی فائدہ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔
مسئلہ (۲۲۳۴)مال مضاربہ پر ہونے والا نقصان یا اس کا ضائع ہوجانا جیسے آگ لگ جانا یا چوری ہوجانا وغیرہ کا حاصل شدہ فائدہ سے تدارک ہوگا چاہے یہ فائدہ اس نقصان سے پہلے حاصل ہوا ہو یا بعدمیں ہو، اس بناء پر عامل کی وہ مالکیت جو حاصل ہونے والے فائدہ میں حصہ کی شکل میں ہے وہ نقصان یا ضائع نہ ہوجانےکی صورت میں ہے اور صرف اس وقت یقینی ہوگا جب مضاربہ کی مدت ختم ہوجائے یا معاہدہ فسخ ہوجائے لیکن اگر عامل معاہدہ کے ضمن میں یہ شرط رکھنے کے نقصان یا فائدہ جو گزشتہ یا آئندہ ہو اس کا تدارک نہیں ہوگا تو شرط صحیح ہے اور ضروری ہےکہ اس پر عمل کیا جائے۔
مسئلہ (۲۲۳۵)مالک کےلئے یہ ممکن ہے کہ جعالہ کے طور پر شرعی راستوں سے سرمایہ گزاری کرے جس سے وہی مضاربہ کا نتیجہ حاصل ہو اس ترتیب سے کہ مال کو کسی شخص کےحوالے کرے اور بطور مثال یہ کہے کہ: اس مال کو تجارت میں یا ہر طرح کے فائدے میں استعمال کرو اور اس کے عوض مثلاً آدھی منفعت تمہارے لئے ہوگی۔
جعالہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۳۶)’’جعالہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان معاہدہ کرے کہ اگرایک کام اس کے لئے انجام دیاجائے گاتووہ اس کے بدلے کچھ مال دے گامثلاً یہ کہے کہ جو اس کی گمشدہ چیزڈھونڈھ کر لائےوہ اسے دس روپے دے گاتوجوشخص اس قسم کا معاہدہ کرے اسے ’’جاعل‘‘ اورجوشخص وہ کام انجام دے اسے ’’عامل‘‘ کہتے ہیں اور اجارے وجعالے میں بعض لحاظ سے فرق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اجارے میں صیغہ پڑھنے کے بعداجیرکے لئے ضروری ہے کہ کام انجام دے اور جس نے اسے اجیر بنایاہووہ اجرت کے لئے اس کامقروض ہوجاتاہے لیکن جعالہ میں اگرچہ عامل معین شخص ہےتاہم یہ ممکن ہے کہ وہ کام میں مشغول نہ ہو۔پس جب تک وہ کام انجام نہ دے، جاعل اس کا مقروض نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۲۲۳۷)جاعل کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہواوراپنے ارادے اوراختیار سےمعاہدہ کرے اورشرعاً اپنے مال میں تصرف کرسکتاہو۔اس بناپر سفیہ( یعنی وہ شخص جو بے مقصد امور میں پیسے خرچ کرے گا) جعالہ صحیح نہیں ہے اور بالکل اسی طرح دیوالیہ شخص کاجعالہ ان اموال میں صحیح نہیں ہے جن میں تصرف کاحق نہ رکھتاہو۔
مسئلہ (۲۲۳۸)’’جاعل‘‘ جوکام لوگوں سے کراناچاہتاہوضروری ہے کہ وہ حرام یابے فائدہ نہ ہواورنہ ہی ان واجبات میں سے ہوجن کابلامعاوضہ بجالاناشرعاًلازم ہو۔لہٰذا اگرکوئی کہے کہ جوشخص شراب پیئے گایارات کے وقت کسی عاقلانہ مقصد کے بغیرایک تاریک جگہ پرجائے گایاواجب نمازپڑھے گا۔میں اسے دس روپے دوں گاتوجعالہ صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۳۹)جس مال کے بارے میں معاہدہ کیاجارہاہوضروری نہیں ہے کہ اسے اس کی پوری خصوصیات کاذکرکرکے معین کیاجائے بلکہ اگر صورت حال یہ ہوکہ کام کرنے والے کومعلوم ہوکہ اس کام کوانجام دینے کے لئے اقدام کرناحماقت شمارنہ ہوگا تو کافی ہے مثلاً اگرجاعل یہ کہے کہ اگرتم نے اس مال کودس روپے سے زیادہ قیمت پر بیچا تو اضافی رقم تمہاری ہوگی توجعالہ صحیح ہے اور اسی طرح اگرجاعل کہے کہ جوکوئی میراگھوڑا ڈھونڈکر لائے گامیں اسے گھوڑے کا نصف یادس من گیہوں دوں گاتوبھی جعالہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۴۰)اگرکام کی اجرت مکمل طورپرمبہم ہومثلاً جاعل یہ کہے کہ جو میرابچہ تلاش کردے گامیں اسے رقم دوں گالیکن رقم کی مقدار کاتعین نہ کرے تواگرکوئی شخص اس کام کوانجام دے توضروری ہے کہ جاعل اسے اتنی اجرت دے جتنی عام لوگوں کی نظروں میں اس عمل کی اجرت قرارپاسکے۔
مسئلہ (۲۲۴۱)اگر’’عامل‘‘ نے جاعل کے قول وقرار سے پہلے ہی وہ کام کردیاہویا قول وقرار کے بعداس نیت سے وہ کام انجام دے کہ اس کے بدلے رقم نہیں لے گاتو پھر وہ اجرت کاحق دارنہیں ۔
مسئلہ (۲۲۴۲)اس سے پہلے کہ عامل کام شروع کرے جاعل جعالہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۲۴۳)جب عامل نے کام شروع کردیاہواگراس کے بعدجاعل جعالہ منسوخ کرناچاہے تواس میں اشکال ہےسوائے یہ کہ عامل کے ساتھ کوئی ہم آہنگی ہوجائے۔
مسئلہ (۲۲۴۴)عامل کام کوادھوراچھوڑ سکتاہے لیکن اگرکام ادھوراچھوڑنے پرجاعل کویا جس شخص کے لئے یہ کام انجام دیاجارہاہے کوئی نقصان پہنچتاہوتوضروری ہے کہ کام کو مکمل کرے۔مثلاً اگرکوئی شخص کہے کہ جوکوئی میری آنکھ کاآپریشن کردے میں اسے اس قدرمعاوضہ د وں گا اور ڈاکٹر اس کی آنکھ کا آپریشن کردے اور صورت یہ ہوکہ اگروہ آپریشن مکمل نہ کرے تو آنکھ میں عیب پیداہوجائے توضروری ہے کہ اپناعمل تکمیل تک پہنچائے ۔
مسئلہ (۲۲۴۵)اگرعامل کام ادھوراچھوڑدے توجاعل سے کسی چیز کامطالبہ نہیں کر سکتااوراگرجاعل اجرت کو کام مکمل کرنے سے مشروط کردے تب بھی یہی حکم ہے۔ مثلاً وہ کہے کہ جوکوئی میرالباس سئے گامیں اسے دس روپے دوں گالیکن اگراس کی مرادیہ ہوکہ جتناکام کیاجائے گااتنی اجرت دے گاتوپھرجاعل کو چاہئے کہ جتناکام ہواہواتنی اجرت عامل کودے دے۔
مزارعہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۴۶)مزارعہ یہ ہے کہ (زمین کا) مالک کاشت کار (زارع) سے معاہدہ کرکے اپنی زمین اس کے اختیارمیں دے تاکہ وہ اس میں کاشت کاری کرے اور پیداوارکاکچھ حصہ مالک کودے۔
مسئلہ (۲۲۴۷)مزارعہ کی چندشرائط ہیں :
۱:) معاہدہ ان دو کے درمیان ہو جیسے زمین کامالک کاشت کار سے کہے کہ میں نے زمین تمہیں کھیتی باڑی کے لئے دی ہے اور کاشت کار بھی کہے کہ میں نے قبول کی ہے یابغیراس کے کہ زبانی کچھ کہیں مالک کاشت کار کوکھیتی باڑی کے ارادے سے زمین دے دے اور کاشت کارقبول کرلے۔
۲:)زمین کامالک اورکاشت کاردونوں بالغ اورعاقل ہوں اور مزارعہ کامعاہدہ اپنے ارادے اور اختیارسے کریں اورسفیہ نہ ہوں یعنی اپنے مال کو بیہودہ کاموں میں مصرف نہ کریں اور اسی طرح ضروری ہے کہ مالک دیوالیہ نہ ہو۔لیکن اگر کاشت کار دیوالیہ ہواوراس کامزارعہ کرناان اموال میں تصرف نہ کہلائے جن میں اسے تصرف کرنامنع تھاتوایسی صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
۳:)مالک اور کاشت کارمیں سے ہرایک زمین کی پیداوارمیں سے کچھ حصہ مثلاً نصف یاایک تہائی وغیرہ لے لے۔لہٰذا اگرکوئی بھی اپنے لئے کوئی حصہ مقررنہ کرے یامثلاً مالک کہے کہ اس زمین میں کھیتی باڑی کرواور جوتمہاراجی چاہے مجھے دے دیناتویہ درست نہیں ہے اور اسی طرح اگرپیداوارکی ایک معین مقدارمثلاًدس من کاشت کار یامالک کے لئے مقررکردی جائے تویہ بھی صحیح نہیں ہے۔
۴:)جتنی مدت کے لئے زمین کاشت کار کے قبضے میں رہنی چاہئے اسے معین کردیں اور ضروری ہے کہ وہ مدت اتنی ہوکہ اس مدت میں پیداوارحاصل ہوناممکن ہواوراگر مدت کی ابتداایک مخصوص دن سے اورمدت کااختتام پیداوارملنے تک کومقررکردیں توکافی ہے۔
۵:)زمین قابل کاشت ہو اور اگراس میں ابھی کاشت کرناممکن نہ ہولیکن ایساکام کیاجاسکتاہوجس سے کاشت ممکن ہوجائے تومزارعہ صحیح ہے۔
۶:)کاشت کارجوچیزکاشت کرناچاہے،ضروری ہے کہ اس کومعین کردیاجائے۔مثلاً معین کرے کہ چاول ہے یاگیہوں اوراگرچاول ہے توکس قسم کاچاول ہے۔لیکن اگر کسی مخصوص چیزکی کاشت پیش نظرنہ ہوتواس کامعین کرناضروری نہیں ہے اور اسی طرح اگر کوئی مخصوص چیزپیش نظرہواوراس کاعلم ہوتولازم نہیں ہے کہ اس کی وضاحت بھی کرے۔
۷:)مالک، زمین کومعین کردے۔ یہ شرط اس صورت میں ہے جب کہ مالک کے پاس زمین کے چندقطعات ہوں اور ان قطعات کے لوازم کاشت کاری میں فرق رکھتے ہوں۔ لیکن ان میں کوئی فرق نہ ہوتو زمین کومعین کرنالازم نہیں ہے۔ لہٰذااگرمالک کاشت کار سے کہے کہ زمین کے ان قطعات میں سے کسی ایک میں کھیتی باڑی کرواور اس قطعہ کو معین نہ کرے تو مزارعہ صحیح ہےاور معاہدہ کے بعد معین کرنا مالک کے اختیار میں ہے۔
۸:)جوخرچ جیسے بیج ڈالنا کھاد ڈالنا اور زراعت کے لوازم کااستعمال کرنا وغیرہ ان میں سے ہرایک کوکرناضروری ہواسے معین کردیں لیکن جوخرچ ہر ایک کوکرناضروری ہو اگر اس کا علم ہوتوپھراس کی وضاحت کرنالازم نہیں ۔
مسئلہ (۲۲۴۸)اگرمالک کاشت کار سے طے کرے کہ پیداوارکی کچھ مقدارایک کی ہوگی اورجوباقی بچے گااسے وہ آپس میں تقسیم کرلیں گے تومزارعہ باطل ہے اگرچہ انہیں علم ہوکہ اس مقدار کوعلیٰحدہ کرنے کے بعدکچھ نہ کچھ باقی بچ جائے گا۔ ہاں اگروہ آپس میں یہ طے کرلیں کہ بیج کی جومقدارکاشت کی گئی ہے یا ٹیکس کی جومقدار حکومت لیتی ہے وہ پیداوارسے نکالی جائے گی اور جوباقی بچے گااسے دونوں کے درمیان تقسیم کیاجائے گا تو مزارعہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۴۹)اگرمزارعہ کے لئے کوئی مدت معین کی ہوکہ جس میں عموماً پیداوار دستیاب ہوجاتی ہے لیکن اگراتفاقاً مدت ختم ہوجائے اورپیداوار دستیاب نہ ہوئی ہوتو اگر مدت معین کرتے وقت یہ بات بھی شامل تھی یعنی دونوں اس بات پرراضی تھے کہ مدت ختم ہونے کے بعداگرچہ پیداوار دستیاب نہ ہو مزارعہ ختم ہوجائے گاتواس صورت میں اگر مالک اس بات پرراضی ہوکہ اجرت پریابغیراجرت فصل اس کی زمین میں کھڑی رہے اور کاشت کاربھی راضی ہوتوکوئی حرج نہیں اوراگرمالک راضی نہ ہوتوکاشت کار کومجبور کرسکتاہے کہ فصل زمین میں سے کاٹ لے اور اگرفصل کاٹ لینے سے کاشت کار کوکوئی نقصان پہنچے تو لازم نہیں کہ مالک اسے اس کاعوض دے لیکن اگرچہ کاشت کارمالک کوکوئی چیزدینے پرراضی ہو تب بھی وہ مالک کومجبورنہیں کرسکتاکہ وہ فصل اپنی زمین پررہنے دے۔
مسئلہ (۲۲۵۰)اگرکوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ زمین میں کھیتی باڑی کرناممکن نہ ہومثلاً زمین کاپانی بندہوجائے تومزارعہ ختم ہوجاتاہے اوراگرکاشت کاربلاوجہ کھیتی باڑی نہ کرے تواگرزمین اس کے تصرف میں رہی ہواورمالک کااس میں کوئی تصرف نہ رہاہوتو ضروری ہے کہ عام شرح کے حساب سے اس مدت کا کرایہ مالک کودے۔
مسئلہ (۲۲۵۱)زمین کامالک اورکاشت کارایک دوسرے کی رضامندی کے بغیر مزارعہ (کامعاہدہ) منسوخ نہیں کرسکتے۔لیکن اگرمزارعہ کے معاہدے کے سلسلے میں انہوں نے شرط طے کی ہوکہ ان میں سے دونوں کویاکسی ایک کومعاملہ فسخ کرنے کاحق حاصل ہوگاتوجومعاہدہ انہوں نے کررکھاہواس کے مطابق معاملہ فسخ کرسکتے ہیں ۔اسی طرح اگران دونوں میں سے ایک فریق طے شدہ شرائط کے خلاف عمل کرے تودوسرا فریق معاملہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۵۲)اگرمزارعہ کے معاہدے کے بعدمالک یاکاشت کار مرجائے تو مزارعہ منسوخ نہیں ہوجاتابلکہ ان کے وارث ان کی جگہ لے لیتے ہیں لیکن اگرکاشت کار مرجائے اور انہوں نے مزارعہ میں یہ شرط رکھی تھی کہ کاشت کار خودکاشت کرے گا تومزارعہ منسوخ ہو جاتاہے۔لیکن اگرجوکام ا س کے ذمے تھے وہ مکمل ہو گئے ہوں تواس صورت میں مزارعہ منسوخ نہیں ہوتااوراس کاحصہ اس کے ورثاء کودیناضروری ہے اورجودوسرے حقوق کاشت کار کوحاصل ہوں وہ بھی اس کے ورثاء کومیراث میں مل جاتے ہیں اورورثاء مالک کو اس بات پرمجبورکرسکتے ہیں کہ مزارعہ ختم ہونے تک فصل اس کی زمین میں کھڑی رہے۔
مسئلہ (۲۲۵۳)اگرکاشت کے بعدپتاچلے کہ مزارعہ باطل تھاتواگرجوبیج ڈالاگیاہو وہ مالک کامال ہوتوجو فصل ہاتھ آئے گی وہ بھی اسی کامال ہوگی اورضروری ہے کہ کاشت کار کی اجرت اورجوکچھ اس نے خرچ کیاہواورکاشت کارکے مملوکہ جن بیلوں اوردوسرے جانوروں نے زمین پرکام کیاہوان کاکرایہ کاشت کارکودے اوراگربیج کاشت کارکامال ہوتو فصل بھی اسی کامال ہے اورضروری ہے کہ زمین کاکرایہ اورجوکچھ مالک نے خرچ کیاہو اوران بیلوں اوردوسرے جانوروں کاکرایہ جومالک کامال ہوں اورجنہوں نے اس زراعت پر کام کیاہومالک کودے اور دونوں صورتوں میں عام طورپرجوحق بنتاہواگر اس کی مقدارطے شدہ مقدارسے زیادہ ہواوردوسرے فریق کواس کاعلم ہوتوزیادہ مقداردینا واجب نہیں ۔
مسئلہ (۲۲۵۴)اگربیج کاشت کارکامال ہواورکاشت کے بعدفریقین کوپتاچلے کہ مزارعہ باطل تھا تواگرمالک اورکاشت کار رضامندہوں کہ اجرت پریابلااجرت فصل زمین پر کھڑی رہے توکوئی اشکال نہیں ہے اوراگر مالک راضی نہ ہوتو(احتیاط واجب کی بنا ء پر) کاشت کار کو مجبور نہیں کیاجاسکتا کہ وہ زراعت کو کاٹ لے اوراسی طرح مالک کاشت کار کومجبور نہیں کرسکتاکہ وہ کرایہ دے کرفصل اس کی زمین میں کھڑی رہنے دے حتیٰ کہ اس سے زمین کاکرایہ طلب نہ کرے (تب بھی فصل کھڑی رکھنے پرمجبورنہیں کرسکتا)۔
مسئلہ (۲۲۵۵)اگرکھیت کی پیداوارجمع کرنے اورمزارعہ کی میعادختم ہونے کے بعد زراعت کی جڑیں زمین میں رہ جائیں اوردوسرے سال سرسبزہوجائیں اورپیداواردیں تو اگرمالک نے کاشت کار کے ساتھ زراعت کی جڑوں میں اشتراک کامعاہدہ نہ کیاہوتو دوسرے سال کی پیداواربیج کے مالک کامال ہے۔
مساقات اورمغارسہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۵۶)اگرانسان کسی کے ساتھ اس قسم کامعاہدہ کرے مثلاً پھل دار درختوں کوجن کاپھل خود اس کامال ہویااس پھل پراس کااختیار ہوایک مقررہ مدت کے لئے کسی دوسرے شخص کے سپردکردے تاکہ وہ ان کی نگہداشت کرے اور انہیں پانی دے اور جتنی مقداروہ آپس میں طے کریں اس کے مطابق وہ ان درختوں کاپھل لے لے توایسا معاملہ ’’مساقات‘‘ (آبیاری) کہلاتاہے۔
مسئلہ (۲۲۵۷)جودرخت پھل نہیں دیتے اگران کی کوئی دوسری پیداوارہومثلاً پتے اورپھول ہوں کہ جو کچھ نہ کچھ قابل توجہ مالیت رکھتے ہوں ( مثلاًمہندی (اورپان)کے درخت کہ ان کے پتے کام آتے ہیں ) ان کے لئے مساقات کامعاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۵۸)مساقات کے معاملے میں صیغہ پڑھنالازم نہیں بلکہ اگردرخت کا مالک مساقات کی نیت سے اسے کسی کے سپردکردے اورجس شخص کوکام کرناہووہ بھی اسی نیت سے کام میں مشغول ہوجائے تومعاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۵۹)درختوں کامالک اورجوشخص درختوں کی نگہداشت کی ذمہ داری لے ضروری ہے کہ دونوں بالغ اورعاقل ہوں اورکسی نے انہیں معاملہ کرنے پرمجبور نہ کیا ہو نیزیہ بھی ضروری ہے کہ سفیہ نہ ہوں یعنی اپنے مال کو بےہودہ کاموں میں استعمال نہ کریں اوراسی طرح ضروری ہے کہ مالک دیوالیہ نہ ہو۔ لیکن اگرباغبان دیوالیہ ہواور مساقات کامعاملہ کرنے کی صورت میں ان اموال میں تصرف کرنالازم نہ آئے جن میں تصرف کرنے سے اسے روکاگیاہوتوکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۰)مساقات کی مدت معین ہونی چاہئے اور اتنی مدت ہوناضروری ہے کہ جس میں پیداوارکا دستیاب ہوناممکن ہواور اگرفریقین اس مدت کی ابتدامعین کردیں اور اس کااختتام اس وقت کوقراردیں جب اس کی پیداوار دستیاب ہوتومعاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۱)ضروری ہے کہ ہرفریق کاحصہ پیداوارکاآدھایاایک تہائی یااسی کے مانندہواوراگریہ معاہدہ کریں کہ مثلاًسومن میوہ مالک کااورباقی کام کرنے والے کا ہوگا تو معاملہ باطل ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۲)لازم نہیں ہے کہ مساقات کامعاملہ پیداوارظاہرہونے سے پہلے طے کرلیں ۔بلکہ اگر پیداوارظاہرہونے کے بعدمعاملہ کریں اورکچھ کام باقی رہ جائے جو کہ پیداوار میں اضافے کے لئے یااس کی بہتری یااسے نقصان سے بچانے کے لئے ضروری ہوتومعاملہ صحیح ہے۔ لیکن اگراس طرح کے کوئی کام باقی نہ رہے ہوں کہ جو آبیاری کی طرح درخت کی پرورش کے لئے ضروری ہیں یامیوہ توڑنے یااس کی حفاظت جیسے کاموں میں سے باقی رہ جاتے ہیں توپھرمساقات کے معاملے کاصحیح ہونامحل اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۳)خربوزے اورکھیرے وغیرہ کی بیلوں کے بارے میں مساقات کا معاملہ( بنابراظہر)صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۴)جودرخت بارش کے پانی یازمین کی نمی سے استفادہ کرتے ہوں اور جسے آبیاری کی ضرورت نہ ہواگراسے مثلاً دوسرے ایسے کاموں کی ضرورت ہوجومسئلہ (۲۲۶۲) میں بیان ہوچکے ہیں توان کاموں کے بارے میں مساقات کامعاملہ کرناصحیح ہے ۔
مسئلہ (۲۲۶۵)دوافراد جنہوں نے مساقات کی ہوباہمی رضامندی سے معاملہ فسخ کرسکتے ہیں اور اگر مساقات کے معاہدے کے سلسلے میں یہ شرط طے کریں کہ ان دونوں کویاان میں سے کسی ایک کومعاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگاتوان کے طے کردہ معاہدہ کے مطابق معاملہ فسخ کرنے میں کوئی اشکال نہیں اوراگر مساقات کے معاملے میں کوئی شرط طے کریں اوراس شرط پرعمل نہ ہوتوجس شخص کے فائدے کے لئے وہ شرط طے کی گئی ہو وہ معاملہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۶۶)اگرمالک مرجائے تومساقات کامعاملہ فسخ نہیں ہوتابلکہ اس کے وارث اس کی جگہ پاتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۲۶۷)درختوں کی پرورش جس شخص کے سپردکی گئی ہواگروہ مرجائے اور معاہدے میں یہ قیداور شرط عائدنہ کی گئی ہوکہ وہ خوددرختوں کی پرورش کرے گاتواس کے ورثاء اس کی جگہ ہیں اور اگر ورثاء نہ خوددرختوں کی پرورش کاکام انجام دیں اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کسی کواجیرمقررکریں توحاکم شرع مردہ کے مال سے کسی کواجیر مقررکردے گااورجوآمدنی ہوگی اسے مردہ کے ورثاء اوردرختوں کے مالک کے مابین تقسیم کردے گااوراگرفریقین نے معاملے میں یہ قیدلگائی ہوکہ وہ شخص خوددرختوں کی پرورش کرے گاتواس کے مرنے کے بعدمعاملہ فسخ ہوجائے گا۔
مسئلہ (۲۲۶۸)اگریہ شرط طے کی جائے کہ تمام پیداوارمالک کامال ہوگی تو مساقات باطل ہے لیکن ایسی صورت میں پیداوارمالک کامال ہوگا اورجس شخص نے کام کیاہووہ اجرت کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگر مساقات کسی اوروجہ سے باطل ہوتوضروری ہے کہ مالک آبیاری اور دوسرے کام کرنے کی اجرت درختوں کی نگہداشت کرنے والے کومعمول کے مطابق دے لیکن اگرمعمول کے مطابق اجرت طے شدہ اجرت سے زیادہ ہو اور وہ اس سے مطلع ہوتوطے شدہ اجرت سے زیادہ دینالازم نہیں ۔
مسئلہ (۲۲۶۹)’’مغارسہ‘‘ یہ ہے کہ کوئی شخص زمین دوسرے کے سپرد کردے تاکہ وہ درخت لگائے اور جو کچھ حاصل ہووہ دونوں کامال ہو تو یہ معاملہ صحیح ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ایسے معاملے کوترک کرے۔لیکن اس معاملے کے نتیجے پرپہنچنے کے لئے کوئی اور معاملہ انجام دے توبغیراشکال کے وہ معاملہ صحیح ہے،مثلاًفریقین کسی طرح باہم مصالحت اوراتفاق کرلیں یانئے درخت لگانے میں شریک ہوجائیں پھر باغبان اپنی خدمات مالک زمین کوبیج بونے، درختوں کی نگہداشت اورآبیاری کرنے کے لئے ایک معین مدت تک زمین کی پیداوار کے نصف فائدے کے عوض کرایہ پرپیش کرے۔
وہ اشخاص جواپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتے
مسئلہ (۲۲۷۰)جوبچہ بالغ نہ ہواہووہ اپنی ذمہ داری اوراپنے مال میں شرعاً تصرف نہیں کرسکتااگرچہ اچھے اور برے کوسمجھنے میں حدکمال اوررشدتک پہنچ گیاہواور سرپرست کی گذشتہ اجازت اس بارے میں کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور بعد کی اجازت میں بھی اشکال ہے۔لیکن چندچیزوں میں بچے کا تصرف کرناصحیح ہے،ان میں سے کم قیمت والی چیزوں کی خریدوفروخت کرناہے جیسے کہ مسئلہ ( ۲۰۹۲) میں گذرچکاہے۔اسی طرح بچے کا اپنے خونی رشتے داروں اورقریبی رشتے داروں کے لئے وصیت کرناجس کابیان مسئلہ (۲۷۱۴ ) میں آئے گا۔لڑکی میں بالغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ نوقمری سال پورے کرلے اور لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت تین چیزوں میں سے ایک ہوتی ہے:
۱:) ناف کے نیچے اورشرم گاہ سے اوپرسخت بالوں کااگنا۔
۲:)منی کاخارج ہونا۔
۳:)عمرکے پندرہ قمری سال پورے کرنا۔
مسئلہ (۲۲۷۱)چہرے پراورہونٹوں کے اوپرسخت بالوں کااگنابعیدنہیں کہ بلوغت کی علامت ہولیکن سینے پراوربغل کے نیچے بالوں کااگنااورآواز کابھاری ہوجانااورایسی ہی دوسری علامات بلوغت کی نشانیاں نہیں ہیں ۔
مسئلہ (۲۲۷۲)دیوانہ اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔اسی طرح دیوالیہ یعنی وہ شخص جسے اس کے قرض خواہوں کے مطالبے پرحاکم شرع نے اپنے مال میں تصرف کرنے سے منع کردیاہو، قرض خواہوں کی اجازت کے بغیراس مال میں تصرف نہیں کر سکتا اوراسی طرح سفیہ یعنی وہ شخص جواپنامال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرتاہو، سرپرست کی اجازت کے بغیراپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۲۷۳)جوشخص کبھی عاقل اورکبھی دیوانہ ہوجائے اس کادیوانگی کی حالت میں اپنے مال میں تصرف کرناصحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۴)انسان کواختیارہے مرض الموت کے عالم میں اپنے آپ پریااپنے اہل وعیال اورمہمانوں پراوران کاموں پرجوفضول خرچی میں شمارنہ ہوں جتناچاہے صرف کرے اوراگراپنے مال کواس کی (اصل) قیمت پر فروخت کرے یاکرائے پردے توکوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن اگرمثلاً اپنامال کسی کو بخش دے یارائج قیمت سے سستا فروخت کرے توجتنی مقداراس نے بخش دی ہے یاجتنی سستی فروخت کی ہے اگروہ اس کے مال کی ایک تہائی کے برابریا اس سے کم ہوتواس کاتصرف کرناصحیح ہے اور اگرایک تہائی سے زیادہ ہوتوورثاء کی اجازت کی صورت میں اس کاتصرف کرناصحیح ہے اوراگر ورثاء اجازت نہ دیں توایک تہائی سے زیادہ میں اس کاتصرف باطل ہے۔
وکالت کے احکام
وکالت سے مراد یہ ہےکہ(عقود یا ایقاعات میں سے) وہ کام جو اس کی شان کےمطابق ہو جیسے مال حوالے کرنا یا اپنے ذمہ لینا کہ وہ خوداس کو انجام دینے کا حق رکھتا ہے وہ کسی اور کے حوالے کردے مثلاً کسی کواپناوکیل بنائے تاکہ وہ اس کامکان بیچ دے یاکسی عورت سے اس کاعقد کر دے۔ لہٰذا سفیہ چونکہ اپنے مال میں تصرف کرنے کاحق نہیں رکھتااس لئے وہ مکان بیچنے کے لئے کسی کووکیل نہیں بناسکتا۔
مسئلہ (۲۲۷۵)وکالت میں صیغہ پڑھنالازم نہیں بلکہ اگرانسان دوسرے شخص کو سمجھا دے کہ اس نے اسے وکیل مقررکیاہے اور وہ بھی سمجھادے کہ اس نے وکیل بنناقبول کر لیا ہے مثلاًایک اپنامال دوسرے کو دے تاکہ وہ اسے اس کی طرف سے بیچ دے اوردوسرا شخص وہ مال لے لے تووکالت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۶)اگرانسان ایک ایسے شخص کووکیل مقررکرے جس کی رہائش دوسرے شہرمیں ہواوراس کو وکالت نامہ بھیج دے اور وہ وکالت نامہ قبول کرلے تواگرچہ وکالت نامہ اسے کچھ عرصے بعدہی ملے پھربھی وکالت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۷)موکل( یعنی وہ شخص جودوسرے کووکیل بنائے) اوروہ شخص جووکیل بنے ضروری ہے کہ دونوں عاقل ہوں اوروکیل بنانے اوروکیل بننے کااقدام قصداور اختیار سے کریں اورموکل کے لئے بالغ ہونا بھی ضروری ہے۔مگران کاموں میں جن کو ممیزبچے کاانجام دیناصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۸)جوکام انسان انجام نہ دے سکتاہویاشرعاًانجام دیناضروری نہ ہو اسے انجام دینے کے لئے وہ دوسرے کاوکیل نہیں بن سکتا۔مثلاًجوشخص حج کااحرام باندھ چکاہوچونکہ اسے نکاح کاصیغہ نہیں پڑھناچاہئے اس لئے وہ صیغۂ نکاح پڑھنے کے لئے دوسرے کاوکیل نہیں بن سکتا۔
مسئلہ (۲۲۷۹)اگرکوئی شخص اپنے تمام کام انجام دینے کے لئے دوسرے شخص کو وکیل بنائے توصحیح ہے لیکن اگراپنے کاموں میں سے ایک کام کرنے کے لئے دوسرے کو وکیل بنائے اور کام کاتعین نہ کرے تو وکالت صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگروکیل کو چند کاموں میں سے ایک کام جس کاوہ خودانتخاب کرے انجام دینے کے لئے وکیل بنائے مثلاً اس کو وکیل بنائے کہ یااس کاگھرفروخت کرے یاکرائے پردے تووکالت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۰)اگرمؤکل وکیل کومعزول کردے( یعنی جوکام اس کے ذمے لگایا ہواس سے برطرف کردے) تووکیل اپنی معزولی کی خبرمل جانے کے بعداس کام کو (مؤکل کی جانب سے) انجام نہیں دے سکتالیکن معزولی کی خبرملنے سے پہلے اس نے وہ کام کر دیاہوتوصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۱)مؤکل خواہ موجودنہ ہووکیل خودکووکالت سے کنارہ کش کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۸۲)جوکام وکیل کے سپردکیاگیاہو،اس کام کے لئے وہ کسی دوسرے شخص کووکیل مقررنہیں کرسکتالیکن اگر مؤکل نے اسے اجازت دی ہوکہ کسی کو وکیل مقرر کرے توجس طرح اس نے حکم دیاہے اسی طرح وہ عمل کرسکتاہے لہٰذااگراس نے کہاہو کہ میرے لئے ایک وکیل مقررکروتوضروری ہے کہ اس کی طرف سے وکیل مقرر کرے لیکن ازخودکسی کووکیل مقررنہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۲۸۳)اگروکیل مؤکل کی اجازت سے کسی کواس کی طرف سے وکیل مقرر کرے توپہلا وکیل دوسرے وکیل کومعزول نہیں کرسکتااوراگرپہلاوکیل مرجائے یامؤکل اسے معزول کردے تب بھی دوسرے وکیل کی وکالت باطل نہیں ہوتی۔
مسئلہ (۲۲۸۴)اگروکیل مؤکل کی اجازت سے کسی کوخوداپنی طرف سے وکیل مقرر کرے تومؤکل اورپہلا وکیل اس وکیل کومعزول کرسکتے ہیں اور اگرپہلا وکیل مرجائے یا معزول ہوجائے تودوسری وکالت باطل ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۵)اگر(مؤکل) کسی کام کے لئے چنداشخاص کووکیل مقررکرے اور ان سے کہے کہ ان میں سے ہرایک ذاتی طورپراس کام کوکرے توان میں سے ہرایک اس کام کوانجام دے سکتاہے اوراگران میں سے ایک مرجائے تودوسروں کی وکالت باطل نہیں ہوتی،لیکن اگریہ کہاہوکہ سب مل کرانجام دیں یا مطلقاً کہا ہو کہ: تم دونوں میرے وکیل ہو توان میں سے کوئی تنہااس کام کو انجام نہیں دے سکتااور اگران میں سے ایک مرجائے توباقی اشخاص کی وکالت باطل ہو جاتی ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۶)اگروکیل یامؤکل مرجائے تووکالت باطل ہوجاتی ہے۔نیز جس چیز میں تصرف کے لئے کسی شخص کووکیل مقررکیاجائے اگروہ چیزتلف ہوجائے مثلاً جس بھیڑ کوبیچنے کے لئے کسی کووکیل مقرر کیاگیاہواگروہ بھیڑمرجائے تووکالت باطل ہوجائے گی اوراسی طرح اگروکیل یامؤکل میں سے کوئی ایک ہمیشہ کے لئے ویوانہ یابے ہوش ہو جائے تووکالت باطل ہوجائے گی۔لیکن اگر کبھی کبھی دیوانگی یابے ہوشی کادورہ پڑتاہو تو وکالت کاباطل ہونادیوانگی اوربے ہوشی کی مدت میں حتیٰ کہ دیوانگی اوربے ہوشی ختم ہونے کے بعدبھی محل اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۷)اگرانسان کسی کواپنے کام کے لئے وکیل مقررکرے اوراسے کوئی چیز دیناطے کرے تو کام کی تکمیل کے بعدضروری ہے کہ جس چیزکادیناطے کیاہووہ اسے دے دے۔
مسئلہ (۲۲۸۸)جومال وکیل کے اختیار میں ہواگروہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اور جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہواس کے علاوہ کوئی تصرف اس میں نہ کرے اوراتفاقاً وہ مال تلف ہوجائے تواس کا ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۹)جومال وکیل کے اختیارمیں ہواگروہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی برتے یاجس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہواس سے تجاوز کرے اور وہ مال تلف ہو جائے تووہ وکیل ذمہ دار ہے۔لہٰذا جس لباس کے لئے اسے کہاجائے کہ اسے بیچ دو اگروہ اسے پہن لے اوروہ لباس تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۲۲۹۰)اگروکیل کومال میں جس تصرف کی اجازت دی گئی ہواس کے علاوہ کوئی تصرف کرے مثلاً اسے جس لباس کے بیچنے کے لئے کہاجائے وہ اسے پہن لے اور بعد میں وہ تصرف کرے جس کی اسے اجازت دی گئی ہوتووہ تصرف صحیح ہے۔
قرض کے احکام
مومنین کوخصوصاً ضرورت مندمومنین کوقرض دیناان مستحب کاموں میں سے ہے جن کے متعلق احادیث میں کافی تاکیدکی گئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت ہے : ’’جوشخص اپنے مسلمان بھائی کوقرض دے اور اس کو ممکنہ مدت تک مہلت دے تو اس کے مال میں زیادتی پیداہوتی ہے اور ملائکہ اس پر دعائےرحمت برساتے ہیں اس وقت کہ جب تک وہ اپنا مال واپس نہ لے لے‘‘ اور امام صادق علیہ السلام سے منقول ہےکہ ’’ اگر کوئی مومن دوسرے مومن کوقصدقربت کے ساتھ قرض دیتا ہے تو خداوند صدقہ کا اجر اس کے لئے اس وقت تک قرار دیتا ہے جب تک وہ اپنا مال واپس نہ لے لے‘‘ ۔
مسئلہ (۲۲۹۱)قرض میں صیغہ پڑھنالازم نہیں بلکہ اگرایک شخص دوسرے کوکوئی چیز قرض کی نیت سے دے اوردوسرابھی اسی نیت سے لے توقرض صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۹۲)جب بھی مقروض اپناقرضہ اداکرے توقرض دینے والے کوچاہئے کہ اسے قبول کرلے۔ لیکن اگر قرض اداکرنے کے لئے قرض دینے والے کے کہنے سے یادونوں کے کہنے سے ایک مدت مقررکی ہوتواس صورت میں قرض دینے والا اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے اپناقرض واپس لینے سے انکارکرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۹۳)اگر قرض کے صیغہ میں ادائگی کےلئے کوئی مدت مقرر کی جائے تو اگر یہ مدت قرض لینے والے کے کہنے سے یا دونوں فریق کے کہنے سے معین کی گئی ہوتو قرض دینے والا اس مدت کے ختم ہونے سےپہلے قرض کامطالبہ نہیں کرسکتا لیکن اگر مدت قرض دینے والے کے کہنے سے معین کی گئی ہو یا ادائگی کے لئے کوئی مدت معین نہ کی گئی ہو تو قرض دینے والا جب بھی چاہے ادائگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۲۹۴)اگرقرضہ دینے والا اپنے قرض کی ادائگی کامطالبہ کرے اور وقت مقرر نہ کیا گیا ہویا وقت آگیا ہو اورمقروض اپنا قرض ادا کرسکتاہوتواسے چاہئے کہ فوراً ادا کرے اوراگرادائگی میں تاخیرکرے توگنہگارہے۔
مسئلہ (۲۲۹۵)اگرمقروض کے پاس ایک گھرہوکہ جس میں وہ رہتاہواورگھرکے اسباب جو اس کی معاشرتی حیثیت اور درجہ کے مطابق ہوں اوران لوازمات کہ جن کی اسے ضرورت ہواوران کے بغیراسے پریشانی ہواور کوئی چیزنہ ہوتوقرض دینے والا اس سے قرض کی ادائگی کا مطالبہ نہیں کرسکتابلکہ اسے چاہئے کہ انتظارکرے حتیٰ کہ مقروض قرض اداکرنے کے قابل ہوجائے۔
مسئلہ (۲۲۹۶)جوشخص مقروض ہواوراپناقرض ادانہ کرسکتاہوتواگروہ کوئی ایساکام کاج کرسکتاہوجواس کے شایان شان ہوتوواجب یہ ہے کہ کام کرے اور اپنا قرض اداکرے بلکہ اس صورت کےعلاوہ بھی کوئی ایسا کام جو اس کی حیثیت کےمطابق ہو،کرنا ممکن ہوتو احتیاط واجب یہ ہےکہ اس کام کو کرے اور اپنے قرضہ کو ادا کرے۔
مسئلہ (۲۲۹۷)جس شخص کےلئے اپنےقرض دینے والے تک رسائی نہ ہو اورمستقبل میں اس کے یااس کے وارث کے ملنے کی امیدبھی نہ ہوتوضروری ہے کہ وہ قرضے کامال قرض دینے والا کی طرف سے فقیرکودے دے اور(احتیاط واجب کی بناپر) ایساکرنے کی اجازت حاکم شرع سے لے لے ۔لیکن اگر مقروض کوقرض دینے والے یااس کے وارث کے ملنے کی امیدہوتوضروری ہے کہ انتظار کرے اوراس کوتلاش کرے اور اگروہ نہ ملے تووصیت کرے کہ اگروہ مرجائے اور قرض دینے والا یا اس کاوارث مل جائے تواس کا قرض اس کے مال سے اداکیاجائے۔
مسئلہ (۲۲۹۸)اگرکسی میت کامال اس کے کفن دفن کے واجب اخراجات اور قرض سے زیادہ نہ ہوتواس کامال انہی امورپرخرچ کرناضروری ہے اوراس کے وارث کو کچھ نہیں ملے گا۔
مسئلہ (۲۲۹۹)اگر کوئی شخص کچھ مقدار میں رقم یا گیہوں یا جو یا اس جیسی کوئی چیز جو مثلی ہے قرض لے اور اس کی قیمت کم یا زیادہ ہوجائے تولی گئی مقدارکو اس کے وہ صفات اور خصوصیات جو اس مال کی محبوبیت میں دخالت رکھتی ہیں انھیں کے ساتھ واپس کرے اور یہی کافی ہے لیکن اگر قرض دینے والا اور قرض لینے والا ان کے علاوہ کسی پر راضی ہوجائیں تو اشکال نہیں ہے لیکن اگر جس چیز کو بطور قرض لیا ہے وہ قیمی ہو جیسے بھیڑ و بکری تو ضروری ہے کہ اس دن کی قیمت ادا کرے جس دن قرض لیا تھا۔
مسئلہ (۲۳۰۰)کسی شخص نے جومال قرض لیاہواگروہ تلف نہ ہواہواورمال کامالک اس کامطالبہ کرے توواجب نہیں ہے کہ مقروض وہی مال مالک کودے دے اور اگر لینے والا چاہے کہ اسی مال کو دے تو قرض دینے والےکےلئے یہ ممکن ہےکہ قبول نہ کرے۔
مسئلہ (۲۳۰۱)اگرقرض دینے والاشرط عائد کرے کہ وہ جتنی مقدارمیں مال دے رہاہے اس سے زیادہ واپس لے گامثلاًایک من گیہوں دے اور شرط عائد کرے کہ ایک من پانچ سیرواپس لوں گایادس انڈے دے اور کہے کہ گیارہ انڈے واپس لوں گاتویہ سود اور حرام ہے بلکہ اگرطے کرے کہ مقروض اس کے لئے کوئی کام کرے گایاجوچیزلی ہو وہ کسی دوسری جنس کی کچھ مقدار کے ساتھ واپس کرے گامثلاًطے کرے کہ (مقروض نے) جوایک روپیہ لیاہے واپس کرتے وقت اس کے ساتھ ماچس کی ایک ڈبیہ بھی دے تو یہ سود ہوگااورحرام ہے۔نیزاگرمقروض کے ساتھ شرط کرے کہ جوچیزقرض لے رہاہے اسے ایک مخصوص طریقے سے واپس کرے گامثلاً ان گڑھے سونے کی کچھ مقداراسے دے اور شرط کرے کہ گھڑاہواسونا واپس کرے گاتب بھی یہ سوداورحرام ہوگاالبتہ اگرقرض خواہ کوئی شرط نہ لگائے بلکہ مقروض خودقرضے کی مقدارکچھ زیادہ واپس دے توکوئی اشکال نہیں بلکہ ایساکرنا مستحب ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۲)سوددیناسودلینے کی طرح حرام ہے لیکن قرض لینا صحیح ہے لیکن جوشخص سودپرقرض لے ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کامالک ہوجاتاہے لیکن قرض دینے والا اس مال کا جسے وہ اضافی لے رہا ہے اس کا مالک نہیں بنتا اور اس میں تصرف بھی حرام ہے اگر اس مال سے کسی چیز کو خریدے تو اس کا مالک نہیں بنتا اور اگر صورت یہ ہوکہ طرفین نے سودکامعاہدہ نہ بھی کیاہوتااور رقم کامالک اس بات پرراضی ہوتاکہ قرض لینے والارقم میں تصرف کرلے تومقروض بغیرکسی اشکال کے اس رقم میں تصرف کرسکتاہے۔اور اسی طرح سے اگر مسئلہ نہ جاننے کی بناء پر سودلے لے او رجانکاری ملنے کے بعد توبہ کرلے تو نادانی کے دور میں جس چیز کولیا ہے اس کے لئےحلال ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۳)اگرکوئی شخص گیہوں یااسی جیسی کوئی چیزسودی قرضے کے طورپرلے اوراس کے ذریعے کاشت کرے تووہ پیداوارکامالک ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۲۳۰۴)اگرایک شخص کوئی لباس خریدے اوربعدمیں اس کی قیمت کپڑے کے مالک کوسودی رقم سے یاایسی حلال رقم سے جوسودی قرضے پرلی گئی رقم کے ساتھ مخلوط ہوگئی ہواداکرے تواس لباس کے پہننے یااس کے ساتھ نمازپڑھنے میں کوئی اشکال نہیں لیکن اگربیچنے والے سے کہے کہ میں یہ لباس اس رقم سے خریدرہاہوں تواس لباس کا مالک نہیں ہوگا اوراس لباس کو پہننا حرام ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۵)اگرکوئی شخص کسی شخص کوکچھ رقم دے اوردوسرے شہرمیں اس شخص سے کم رقم لے تواس میں کوئی اشکال نہیں اوراسے ’’صرف برأت‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۳۰۶)اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چیز دے کہ دوسرے شہر میں اس سے زیادہ لے گا اس صورت میں کہ وہ چیز سونا یا چاندی یا گیہوں یاجو ہوجو ناپ اور تول کردی جاتی ہیں ان میں سےہو تو سود اور حرام ہے لیکن اگر اضافی مال کو لے اور اس اضافے کے مقابل میں کوئی چیز دے یا کوئی عمل انجام دے تو اشکال نہیں ہے لیکن اگر نوٹ کی شکل میں قرض دے تواس سے زیادہ لیناجائز نہیں ہے اور اگر بیچے تو نقدی ہویا قرض کی شکل میں ہو لیکن اس کی رقم دو طرح کی ہو جیسے ایک روپیہ میں ہو او ردوسرے ڈالر میں ہو تو زیادہ رقم میں اشکال نہیں ہے لیکن اگر قرض کی شکل میں ہو اور ایک طرح کے ہوں تو زیادہ لینے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۷)اگرکسی شخص نے کسی سے کچھ قرض لیاہواوروہ چیز ناپی یاتولی جانے والی جنس نہ ہوتووہ شخص اس چیزکومقروض یاکسی اورکے پاس کم قیمت پر بیچ کراس کی قیمت نقدوصول کرسکتاہے۔اسی بناپرموجودہ دورمیں جوچیک اورہنڈیاں قرض دینے والا مقروض سے لیتاہے انہیں وہ بینک کے پاس یاکسی دوسرے شخص کے پاس اس سے کم قیمت پر(جسے عام طورپربھاؤگرناکہتے ہیں ) بیچ سکتاہے اورباقی رقم نقدلے سکتا ہے ۔
حوالہ دینے کے احکام
مسئلہ (۲۳۰۸)اگرکوئی شخص اپنے قرض دینے والے کوحوالہ دے کہ وہ اپناقرض ایک اور شخص سے لے لے اورقرض دینے والا اس بات کوقبول کرلے توجب ’’حوالہ‘‘ ان شرائط کے ساتھ جن کاذکربعدمیں آئے گامکمل ہوجائے توجس شخص کے نام حوالہ دیاگیاہے وہ مقروض ہوجائے گااوراس کے بعدقرض دینے والا پہلے مقروض سے اپنے قرض کامطالبہ نہیں کر سکتا۔
مسئلہ (۲۳۰۹)مقروض اورقرض دینے والا اورجس شخص کاحوالہ دیا جا سکتا ہو ضروری ہے کہ سب بالغ اور عاقل ہوں اور کسی نے انہیں مجبورنہ کیاہونیزضروری ہے کہ سفیہ نہ ہوں یعنی اپنامال احمقانہ اورفضول کاموں میں خرچ نہ کرتے ہوں اوریہ بھی معتبرہے کہ مقروض اور قرض دینےوالا دیوالیہ نہ ہوں ۔ہاں اگر حوالہ ایسے شخص کے نام ہوجوپہلے سے حوالہ دینے والے کامقروض نہ ہوتواگرچہ حوالہ دینے والادیوالیہ بھی ہوکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۱۰)حوالے کے تمام مقامات میں ضروری ہےکہ جس کے حوالے کیا جائے وہ قبول کررہا ہو چاہے قرض دار ہو یا نہ ہو۔
مسئلہ (۲۳۱۱)انسان جب حوالہ دے توضروری ہے کہ وہ اس وقت مقروض ہو لہٰذا اگروہ کسی سے قرض لیناچاہتاہوتوجب تک اس سے قرض نہ لے لے اسے کسی کے نام کا حوالہ نہیں دے سکتاتاکہ جوقرض اسے بعدمیں دیناہووہ پہلے ہی اس شخص سے وصول کرلے۔
مسئلہ (۲۳۱۲)حوالہ کی جنس اورمقدار فی الواقع معین ہوناضروری ہے پس اگرحوالہ دینے والاکسی شخص کا دس من گیہوں اوردس روپے کامقروض ہواورقرض خواہ کوحوالہ دے کہ ان دونوں قرضوں میں سے کوئی ایک فلاں شخص سے لے لواور اس قرضے کومعین نہ کرے توحوالہ درست نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۱۳)اگرقرض واقعی معین ہولیکن حوالہ دینے کے وقت قرض دینے والے اور لینے والےکو اس کی مقداریاجنس کاعلم نہ ہوتوحوالہ صحیح ہے مثلاً اگرکسی شخص نے دوسرے کا قرضہ رجسٹر میں لکھاہواور رجسٹردیکھنے سے پہلے حوالہ دے دے اوربعدمیں رجسٹردیکھے اورقرض دینے والے کو قرضے کی مقداربتادے توحوالہ صحیح ہوگا۔
مسئلہ (۲۳۱۴)قرض خواہ کواختیارہے کہ حوالہ قبول نہ کرے اگرچہ جس کے نام کا حوالہ دیاجائے وہ دولت مندہواورحوالہ کے اداکرنے میں کوتاہی بھی نہ کرے۔
مسئلہ (۲۳۱۵)جوشخص حوالہ دینے والے کامقروض نہ ہواگرحوالہ قبول کرے تو حوالہ اداکرنے سے پہلے حوالہ دینے والے سے حوالے کی مقدارکامطالبہ کرسکتا ہے۔مگریہ کہ جوقرض جس کے نام حوالہ دیاگیاہے اس کی مدت معین ہواورابھی وہ مدت ختم نہ ہوئی ہوتواس صورت میں وہ مدت ختم ہونے سے پہلے حوالہ دینے والے سے حوالے کی مقدار کامطالبہ نہیں کرسکتااگرچہ اس نے ادائگی کردی ہواوراسی طرح اگرقرض دینے والااپنے قرض سے تھوڑی مقدارپرسمجھوتہ کرے تووہ حوالہ دینے والے سے فقط اتنی مقدار کاہی مطالبہ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۳۱۶)حوالہ کی شرائط پوری ہونے کے بعدحوالہ دینے والااورجس کے نام حوالہ دیاجائے حوالہ منسوخ نہیں کرسکتے اوروہ شخص جس کے نام کاحوالہ دیاگیاہے حوالہ کے وقت فقیرنہ ہوتواگرچہ وہ بعد میں فقیرہوجائے توقرض دینے والا بھی حوالے کومنسوخ نہیں کر سکتا۔یہی حکم اس وقت ہے جب (وہ شخص جس کے نام کاحوالہ دیاگیاہو) حوالہ دینے کے وقت فقیرہواور قرض دینے والا جانتاہوکہ وہ فقیرہے لیکن اگرقرض دینے والے کوعلم نہ ہوکہ وہ فقیر ہے اوربعدمیں اسے پتا چلے تواگراس وقت وہ شخص مال دارنہ ہواہوقرض دینے والا حوالہ منسوخ کرکے اپناقرض حوالہ دینے والے سے لے سکتاہے۔ لیکن اگروہ مال دار ہوگیاہو توحق فسخ کے رکھنے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۳۱۷)اگرمقروض اورقرض دینے والے اورجس کے نام کاحوالہ دیا گیا ہو یا ان میں سے کسی ایک نے اپنے حق میں حوالہ منسوخ کرنے کامعاہدہ کیاہوتوجومعاہدہ انہوں نے کیا ہواس کے مطابق وہ حوالہ منسوخ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۳۱۸)اگرحوالہ دینے والاخودقرض دینے والے کاقرضہ اداکردے یہ کام اس شخص کی خواہش پرہواہوجس کے نام کاحوالہ دیاگیاہوجب کہ وہ حوالہ دینے والے کا مقروض بھی ہو تووہ جوکچھ دیاہواس سے لے سکتاہے اوراگراس کی خواہش کے بغیر ادا کیا ہو یاوہ حوالہ دہندہ کامقروض نہ ہوتوپھراس نے جوکچھ دیاہے اس کا مطالبہ اس سے نہیں کرسکتا۔
رہن کے احکام[8]
مسئلہ (۲۳۱۹)رہن یہ ہے کہ انسان قرض کے بدلے اپنامال یاجس مال کے لئے ضامن بناہووہ مال کسی کے پاس گروی رکھوائے کہ اگررہن رکھوانے والاقرضہ نہ لوٹا سکے یارہن نہ چھڑاسکے تورہن لینے والاشخص اس کاعوض اس مال سے لے سکے۔
مسئلہ (۲۳۲۰)رہن میں صیغہ پڑھنالازم نہیں ہے بلکہ اتناکافی ہے کہ گروی دینے والااپنامال گروی رکھنے کی نیت سے گروی لینے والے کودے دے اوروہ اسی نیت سے لے لے تورہن صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۱)ضروری ہے کہ گروی رکھوانے والااورگروی لینے والابالغ اور عاقل ہوں اورکسی نے انہیں اس معاملے کے لئے مجبورنہ کیاہواوریہ بھی ضروری ہے کہ مال گروی رکھوانے والادیوالیہ اور سفیہ نہ ہو(دیوالیہ اور سفیہ کے معنی مسئلہ ( ۲۲۷۲) میں بتائے جاچکے ہیں ) اوراگردیوالیہ ہولیکن جو مال وہ گروی رکھوارہاہے اس کااپنامال نہ ہویا ان اموال میں سے نہ ہوجس کے تصرف کرنے سے منع کیاگیاہوتوکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۲)انسان وہ مال گروی رکھ سکتاہے جس میں وہ شرعاً تصرف کرسکتاہو اور اگرکسی دوسرے کامال اس کی اجازت سے گروی رکھ دے توبھی صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۳)جس چیز کوگروی رکھاجارہاہوضروری ہے کہ اس کی خریدوفروخت صحیح ہو۔ لہٰذااگرشراب یااس جیسی چیزگروی رکھی جائے تودرست نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۴)جس چیزکوگروی رکھاجارہاہے اس سے جوفائدہ ہوگاوہ اس چیز کے مالک کی ملکیت ہوگاخواہ وہ گروی رکھوانے والاہویاکوئی دوسراشخص ہو۔
مسئلہ (۲۳۲۵)گروی لینے والے نے جومال بطورگروی لیاہواس مال کواس کے مالک کی اجازت کے بغیر(خواہ گروی رکھوانے والاہویاکوئی دوسراشخص) کسی دوسرے کی ملکیت میں نہیں دے سکتا۔مثلاًنہ وہ کسی دوسرے کووہ مال بخش سکتاہے نہ کسی کوبیچ سکتا ہے۔ لیکن اگروہ بعد میں اجازت دے دے توکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۶)اگرگروی لینے والااس مال کوجواس نے بطورگروی لیاہواس کے مالک کی اجازت سے بیچ دے تومال کی طرح اس کی قیمت گروی نہیں ہوگی اوریہی حکم ہے اگرمالک کی اجازت کے بغیر بیچ دے اور مالک بعدمیں اجازت دے (یعنی اس مال کی جوقیمت وصول کی جائے وہ اس مال کی طرح گروی نہیں ہوگی)۔لیکن اگرگروی رکھوانے والااس چیزکوگروی لینے والے کی اجازت سے بیچ دے تاکہ اس کی قیمت کو گروی قراردے توضروری ہے کہ مالک کی اجازت سے بیچ دے اوراس صورت کی مخالفت کررہا ہو معاملہ باطل ہے۔ مگریہ کہ گروی لینے والے نے اس کی اجازت دی ہو (توپھرمعاملہ صحیح ہے)۔
مسئلہ (۲۳۲۷)جس وقت مقروض کوقرض اداکردیناچاہئے اگرقرض دینے والا اس وقت مطالبہ کرے اورمقروض ادائگی نہ کرے تواس صورت میں جب کہ قرض دینے والا مال کو فروخت کرکے اپناقرضہ اس کے مال سے وصول کرنے کااختیاررکھتاہووہ گروی لئے ہوئے مال کوفروخت کرکے اپناقرضہ وصول کرسکتاہے اور اگروکالت نہ رکھتاہوتواس کے لئے لازم ہے کہ مقروض سے اجازت لے اور اگراس تک پہنچ نہ سکتا ہوتو(احتیاط واجب کی بناءپر)ضروری ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے اور دونوں صورتوں میں اگر قرضے سے زیادہ قیمت وصول ہوتوضروری ہے کہ زائدمال مالک کودے دے۔
مسئلہ (۲۳۲۸)اگرمقروض کے پاس مکان کے علاوہ جس میں وہ رہتاہواوراس سامان کے علاوہ جس کی اسے ضرورت ہواورکوئی چیزنہ ہوتوقرض دینے والا اس سے اپنے قرض کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن مقروض نے جومال بطورگروی دیاہواگرچہ وہ مکان اور سامان ہی کیوں نہ ہوقرض دینے والا گذشتہ مسئلہ میں مذکورہ امور کی رعایت کرتے ہوئے اسے بیچ کراپناقرض وصول کرسکتاہے۔
ضامن ہونے کے احکام
مسئلہ (۲۳۲۹)اگرکوئی شخص کسی دوسرے کےقرضہ کو اداکرنے کے لئے ضامن بننا چاہے تواس کاضامن بننااس وقت صحیح ہوگاجب وہ کسی لفظ سے اگرچہ وہ عربی زبان میں نہ ہویاکسی عمل سے قرض دینے والے کوسمجھادے کہ میں تمہارے قرض کی ادائگی کے لئے ضامن بن گیاہوں اورقرض دینے والا بھی اپنی رضامندی کااظہارکردے اوراس سلسلے میں مقروض کارضامندہوناشرط نہیں ہے۔اور اس معاملہ کی دو صورتیں ہیں :
(۱) یہ ہے کہ ضامن قرضہ کوقرضہ دینے والے کے ذمہ سے اپنے ذمہ میں لے لے لہٰذا اگر ادا کرنے سےپہلے انتقال کرجائے تو بقیہ قرضوں کی طرح میراث پر مقدم ہوگا اور عام طور سے فقہاء کی نظر میں ’’ ضمان‘‘ کے لفظ کا یہی معنی ہے۔
(۲) ضامن قرض ادا کرنے کو اپنے لئے ضروری قرار دے لیکن اس پرفرض نہیں ہے اور اگر وصیت نہ کرے تواس کے انتقال کےبعد اس کے مال میں سے ادانہیں ہوگا۔
مسئلہ (۲۳۳۰)ضامن اورقرض دینے والے دونوں کے لئے ضروری ہے بالغ اورعاقل ہوں اور کسی نے انہیں اس معاملے پرمجبورنہ کیاہونیزضروری ہے کہ وہ سفیہ بھی نہ ہوں اور اسی طرح ضروری ہے کہ قرض دینے والا دیوالیہ نہ ہو،لیکن یہ شرائط مقروض کے لئے نہیں ہیں مثلاًاگرکوئی شخص بچے،دیوانے یاسفیہ کاقرض اداکرنے کے لئے ضامن بنے تو ضمانت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۱)جب کوئی شخص ضامن بننے کے لئے کوئی شرط رکھے مثلاً یہ کہے کہ ’’اگر مقروض تمہاراقرض ادانہ کرے تومیں تمہاراقرض اداکروں گا‘‘ تومسئلہ ( ۲۳۲۹) کی پہلی صورت کے مطابق اس کے ضامن بننے میں اشکال ہے لیکن اسی مسئلہ کی دوسری صورت کےمطابق اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۲)انسان جس شخص کے قرض کی ضمانت دے رہاہے ضروری ہے کہ وہ مقروض ہولہٰذااگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے قرض لیناچاہتاہوتوجب تک وہ قرض نہ لے لے اس وقت تک کوئی شخص اس کاضامن نہیں بن سکتااور ضمانت کی یہ شرط دوسری صورت میں نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۳)انسان اسی صورت میں ضامن بن سکتاہے جب قرض دینے والا اور مقروض اور قرض دیا گیا مال (یہ تینوں ) فی الواقع معین ہوں لہٰذااگردواشخاص کسی ایک شخص سے قرض واپس لینا چاہتے ہوں اور کوئی انسان کہے کہ میں تم میں سے ایک کاقرض اداکردوں گاتوچونکہ اس نے اس بات کومعین نہیں کیاکہ وہ ان میں سے کس کاقرض اداکرے گااس لئے اس کاضامن بننا باطل ہے۔نیزاگرکسی کودواشخاص سے قرض وصول کرناہو اورکوئی شخص کہے کہ میں ضامن ہوں کہ ان میں سے ایک کاقرض تمہیں ادا کردوں گاتوچونکہ اس نے اس بات کومعین نہیں کیاکہ دونوں میں سے کس کاقرضہ اداکرے گااس لئے اس کاضامن بنناباطل ہے اور اسی طرح اگرکسی نے ایک دوسرے شخص سے مثال کے طورپردس من گیہوں اوردس روپے واپس لینے ہوں اورکوئی شخص کہے کہ میں تمہارے دونوں قرضوں میں سے ایک کی ادائگی کاضامن ہوں اوراس چیز کو معین نہ کرے کہ وہ گیہوں کے لئے ضامن ہے یا روپیوں کے لئے تویہ ضمانت صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۴)اگر کوئی شخص قرض لینے والے کی اجازت کے بغیر ضامن ہوجائے کہ اس کے قرضے کو ادا کردے گا تو وہ اس سے کسی چیز کو نہیں لے سکتا۔
مسئلہ (۲۳۳۵)اگرکوئی شخص مقروض کی اجازت سے اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن بن جائے توجس مقدارکے لئے ضامن بناہو(اگرچہ اسے اداکرنے سے پہلے) مقروض سے اس کامطالبہ کرسکتاہے لیکن جس جنس کے لئے وہ مقروض تھااس کی بجائے کوئی اورجنس قرض دینے والے کودے توجوچیزدی ہواس کامطالبہ مقروض سے نہیں کر سکتامثلاًاگرمقروض کودس دمن گیہوں دینا ہواورضامن دس من چاول دے دے تو ضامن مقروض سے دس من چاول کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگرمقروض خودچاول دینے پر رضامندہوجائے توپھرکوئی اشکال نہیں ۔
مسئلہ (۲۳۳۶)اگرقرض دینے والا اپناقرض ضامن کوبخش دے توضامن مقروض سے کوئی چیزنہیں لے سکتااوراگروہ قرضے کی کچھ مقداراسے بخش دے تووہ (مقروض سے) اس مقدارکامطالبہ نہیں کرسکتا لیکن اگر ان سب کو یا کچھ مقدار ھبہ کرے یا خمس یا زکوٰۃ یا صدقات یا ان جیسے باب سےاسے حساب کرے تو ضامن مقروض سے مطالبہ کرسکتا ہے ۔
مسئلہ (۲۳۳۷)اگرکوئی شخص کسی کاقرضہ اداکرنے کے لئے ضامن بن جائے تو پھر وہ ضامن ہونے سے مکرنہیں سکتاہے۔
مسئلہ (۲۳۳۸)(احتیاط واجب کی بناپر)ضامن اورقرض دینے والا یہ شرط نہیں کرسکتے کہ جس وقت چاہیں ضامن کی ضمانت منسوخ کردیں ۔
مسئلہ (۲۳۳۹)اگرانسان ضامن بننے کے وقت قرض دینے والے کاقرضہ اداکرنے کے قابل ہوتوخواہ وہ (ضامن)بعدمیں فقیر ہوجائے قرض دینے والا اس کی ضمانت منسوخ کرکے پہلے مقروض سے قرض کی ادائیگی کامطالبہ نہیں کر سکتااوراسی طرح اگر ضمانت دیتے وقت ضامن قرض اداکرنے پرقادرنہ ہولیکن قرض دینے والا یہ بات جانتے ہوئے اس کے ضامن بننے پرراضی ہوجائے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۳۴۰)اگرانسان ضامن بننے کے وقت قرض دینے والا کاقرضہ ادا کرنے پر قادر نہ ہواورقرض دینے والا صورت حال سے لاعلم ہونے کی بناپراس کی ضمانت منسوخ کرناچاہے تو اس میں اشکال ہے خصوصاً اس صورت میں جب کہ قرض دینےو الے کے اس امرکی جانب متوجہ ہونے سے پہلے ضامن قرضے کی ادائگی پرقادرہوجائے۔
کفالت کے احکام
مسئلہ (۲۳۴۱)’’کفالت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ذمہ لے کہ جس وقت قرض دینے والاچاہے گا وہ مقروض کواس کے سپردکردے گااور جوشخص اس قسم کی ذمے داری قبول کرے اسے’’ کفیل‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۳۴۲)کفالت اس وقت صحیح ہے جب کفیل کسی بھی الفاظ میں خواہ وہ عربی زبان کے نہ بھی ہوں یا کسی عمل سے قرض دینے والے کویہ بات سمجھادے کہ میں ذمہ لیتاہوں کہ جس وقت تم چاہوگے میں مقروض کو تمہارے حوالے کردوں گااورقرض دینے والا بھی اس بات کو قبول کرلے اور( احتیاط واجب کی بناپر)کفالت کے صحیح ہونے کے لئے مقروض کی رضامندی بھی معتبرہے۔بلکہ( احتیاط واجب) یہ ہے کہ کفالت کے معاملے میں اسی طرح مقروض کوبھی ایک فریق ہوناچاہئے یعنی مقروض اورقرض دینے والا دونوں کفالت کوقبول کریں ۔
مسئلہ (۲۳۴۳)کفیل کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہواوراسے کفیل بننے پر مجبورنہ کیاگیاہواور وہ اس بات پرقادرہوکہ جس کاکفیل بنے اسے حاضرکرسکے اوراسی طرح اس صورت میں جب مقروض کوحاضرکرنے کے لئے کفیل کواپنامال خرچ کرنا پڑے توضروری ہے کہ وہ سفیہ اوردیوالیہ نہ ہو۔
مسئلہ (۲۳۴۴)ان پانچ چیزوں میں سے کوئی ایک کفالت کوکالعدم کردیتی ہے:
۱:) کفیل مقروض کوقرض دینے والے کے حوالے کردے یاوہ خوداپنے آپ کوقرض دینے والےکے حوالے کردے۔
۲:)قرض دینے والے کاقرضہ اداکردیاجائے۔
۳:)قرض دینے والے اپنے قرضے سے دستبردار ہوجائے یااسے کسی دوسرے کے حوالے کردے۔
۴:)مقروض یاکفیل میں سے ایک مرجائے۔
۵:)قرض دینے والا کفیل کوکفالت سے بری الذمہ قراردے دے۔
مسئلہ (۲۳۴۵)اگرکوئی شخص مقروض کوقرض دینے والے سے زبردستی آزاد کرادے اور قرض دینے والے کی پہنچ مقروض تک نہ ہوسکے توجس نے مقروض کوآزاد کرایاہوضروری ہے کہ وہ مقروض کوقرض دینے والے کے حوالے کردے یااس کاقرض اداکرے۔
ودیعت (امانت) کے احکام
مسئلہ (۲۳۴۶)اگرایک شخص کوئی مال کسی کودے اورکہے کہ یہ تمہارے پاس امانت رہے گااوروہ بھی قبول کرے یاکوئی لفظ کہے بغیرمال کامالک اس شخص کوسمجھادے کہ وہ اسے مال رکھوالی کے لئے دے رہا ہے اوروہ بھی رکھوالی کے مقصدسے لے لے تو ضروری ہے امانت داری کے ان احکام کے مطابق عمل کرے جو بعدمیں بیان ہوں گے۔
مسئلہ (۲۳۴۷)ضروری ہے کہ امانت داراوروہ شخص جومال بطورامانت دے دونوں بالغ اورعاقل ہوں اورکسی نے انہیں مجبورنہ کیاہولہٰذااگرکوئی شخص کسی مال کودیوانے یابچے کے پاس امانت کے طورپررکھے یادیوانہ یابچہ کوئی مال کسی کے پاس امانت کے طورپر رکھے توصحیح نہیں ہے ہاں سمجھ دار بچہ کسی دوسرے کے مال کواس کی اجازت سے کسی کے پاس امانت رکھے توجائزہے۔اسی طرح ضروری ہے کہ امانت رکھوانے والاسفیہ اور دیوالیہ نہ ہولیکن اگردیوالیہ ہوتاہم جومال اس نے امانت کے طورپررکھوایاہووہ اس مال میں سے نہ ہوجس میں اسے تصرف کرنے سے منع کیاگیاہے تواس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ نیزاس صورت میں کہ جب مال کی حفاظت کرنے کے لئے امانت دار کو اپنامال خرچ کرناپڑے جو مال ا س کی ملکیت سے منتقل کرنے کا سبب ہو یا مال کے چلے جانے کا باعث ہوتوضروری ہے کہ وہ ا مانت دار سفیہ اوردیوالیہ نہ ہو۔
مسئلہ (۲۳۴۸)اگرکوئی شخص بچے سے کوئی چیزاس کے مالک کی اجازت کے بغیر بطور امانت قبول کرلے تو ضروری ہے کہ وہ چیزاس کے مالک کودے دے اوراگروہ چیز خود بچے کامال ہوتولازم ہے کہ وہ چیزبچے کے سرپرست تک پہنچادے اوراگروہ مال ان لوگوں کے پاس پہنچانے سے پہلے تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے مگر اس ڈرسے کہ تلف ہوجائے اس مال کو اس کے مالک تک پہنچانے کی نیت سے لیاہوتواس صورت میں اگراس نے مال کی حفاظت کرنے اوراسے مالک تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کی ہواور جن امور میں اجازت نہیں اس میں تصرف نہ کیا ہوتووہ ضامن نہیں ہے اوراگرامانت کے طورپرمال دینے والا دیوانہ ہوتب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۳۴۹)جوشخص امانت کی حفاظت نہ کرسکتاہواگرامانت رکھوانے والااس کی اس حالت سے باخبر نہ ہوتوضروری ہے کہ وہ شخص امانت قبول نہ کرے اگر قبول کیااور ضائع ہوگیا تو ضامن ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۰)اگرانسان صاحب مال کوسمجھائے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کے لئے تیارنہیں اوراس مال کوامانت کے طورپرقبول نہ کرے اور صاحب مال پھربھی مال چھوڑ کرچلاجائے اوروہ مال تلف ہو جائے توجس شخص نے امانت قبول نہ کی ہووہ ذمہ دار نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگرممکن ہوتواس مال کی حفاظت کرے۔
مسئلہ (۲۳۵۱)جوشخص کسی کے پاس کوئی چیزبطورامانت رکھوائے وہ امانت کوجس وقت چاہے منسوخ کرسکتاہے اوراسی طرح امین بھی جب چاہے اسے منسوخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۲)اگرکوئی شخص امانت کی نگہداشت ترک کردے اورامانت داری منسوخ کردے تو ضروری ہے کہ جس قدرجلد ہوسکے مال اس کے مالک یامالک کے وکیل یاسرپرست کوپہنچادے یاانہیں اطلاع دے کہ وہ مال کی(مزید) نگہداشت کے لئے تیارنہیں ہے اوراگروہ بغیرعذرکے مال ان تک نہ پہنچائے یااطلاع نہ دے اورمال تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۲۳۵۳)جوشخص امانت قبول کرے اگراس کے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہ ہوتو ضروری ہے کہ اس کے لئے مناسب جگہ حاصل کرے اور امانت کی اس طرح نگہداشت کرے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس نے نگہداشت میں کوتاہی کی ہے اور اگروہ اس کام میں کوتاہی کرے اور امانت تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۲۳۵۴)جوشخص امانت قبول کرے اگروہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اورنہ ہی تعدی(یعنی جن امور میں اجازت نہیں ہے ان میں تصرف) کرے اوراتفاقاً وہ مال تلف ہوجائے تووہ شخص ذمہ دارنہیں ہے لیکن اگروہ اس مال کی حفاظت میں کوتاہی کرے مثلاًمال کوایسی جگہ رکھے جہاں وہ غیرمحفوظ ہوکہ اگرکوئی ظالم خبرپائے تولے جائے یاوہ اس مال میں تعدی کرے یعنی مالک کی اجازت کے بغیراس مال میں تصرف کرے مثلاًلباس کواستعمال کرے یاجانورپر سواری کرے اوروہ تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کاعوض اس کے مالک کودے۔
مسئلہ (۲۳۵۵)اگرمال کامالک اپنے مال کی نگہداشت کے لئے کوئی جگہ معین کردے اورجس شخص نے امانت قبول کی ہواس سے کہے کہ ’’تمہیں چاہئے کہ یہیں مال کا خیال رکھواوراگراس کے ضائع ہوجانے کااحتمال ہوتب بھی تم اس کوکہیں اور نہ لے جانا۔ ’’توامانت قبول کرنے والااسے کسی اورجگہ نہیں لے جاسکتااوراگروہ مال کوکسی دوسری جگہ لے جائے اوروہ تلف ہوجائے توامین ذمہ دارہےسوائے اس صورت کے کہ اس بات کا یقین ہوکہ مال وہاں پر ضائع ہوجائے گا تو اس صورت میں محفوظ جگہ کی طرف منتقل کردیناجائز ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۶)اگرمال کامالک اپنے مال کی نگہداشت کے لئے کوئی جگہ معین کرے لیکن ظاہراً اس کے کہنے سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہوکہ اس کی نظرمیں وہ جگہ کوئی خصوصیت نہیں رکھتی تووہ شخص جس نے امانت قبول کی ہے اس مال کوکسی ایسی جگہ جوزیادہ محفوظ ہویاپہلی جگہ جتنی محفوظ ہولے جاسکتاہے اوراگرمال وہاں تلف ہوجائے تووہ ذمہ دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۷)اگرمال کامالک ہمیشہ کے لئے دیوانہ یابے ہوش ہوجائے تو امانت کا معاملہ ختم ہوجائے گااور جس شخص نے اس سے امانت قبول کی ہواسے چاہئے کہ فوراً امانت اس کے سرپرست کوپہنچادے یااس کے سرپرست کوخبرکرےاس کے علاوہ اگر مال ضائع ہوجائے تو ضروری ہےکہ اس کا عوض دے۔لیکن اگرمال کے مالک پر کبھی کبھار دیوانگی یابے ہوشی کادورہ پڑتاہوتواحتیاط واجب کی بنیاد پر یہی کام کرے۔
مسئلہ (۲۳۵۸)اگرمال کامالک مرجائے توامانت کامعاملہ باطل ہوجاتاہے۔لہٰذا اگر اس مال میں کسی دوسرے کاحق نہ ہوتووہ مال اس کے وارث کوملتاہے اورضروری ہے کہ امانت دار اس مال کواس کے وارث تک پہنچائے یااسے اطلاع دے اور اس کے علاوہ بقیہ صورتوں میں اگر مال ضائع ہوجائے تو ضامن ہے یایہ جانناچاہتاہوکہ کوئی اور شخص میت کاوارث ہے یانہیں اوراگر (اس تحقیق کے بیچ) مال تلف ہوجائے تووہ ذمہ دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۹)اگرمال کامالک مرجائے اورمال کی ملکیت کاحق اس کے ورثاء کو مل جائے توجس شخص نے امانت قبول کی ہوضروری ہے کہ مال تمام ورثاء کودے یاان سب کے وکیل کو دےلہٰذااگروہ دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیرتمام مال فقط ایک وارث کودے دے تووہ دوسروں کے حصوں کاذمہ دار ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۰)جس شخص نے امانت قبول کی ہواگروہ مرجائے یا ہمیشہ کے لئے دیوانہ یابے ہوش ہو جائے توامانت کامعاملہ باطل ہوجائے گااوراس کے سرپرست یاوارث کوچاہئے کہ جس قدرجلد ہوسکے مال کے مالک کواطلاع دے یاامانت اس تک پہنچائے۔لیکن اگرکبھی کبھار (یاتھوڑی مدت کے لئے) دیوانہ یابے ہوش ہوتاہو تو (احتیاط واجب کی بنیادپر) یہی کام کرے
مسئلہ (۲۳۶۱)اگرامانت داراپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھے تواگرممکن ہو تو (احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ امانت کواس کے مالک،سرپرست یاوکیل تک پہنچادے یا اس کواطلاع دے اوراگریہ ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ ایسابندوبست کرے کہ اسے اطمینان ہوجائے کہ اس کے مرنے کے بعدمال اس کے مالک کومل جائے گا مثلاً وصیت کرے اوراس وصیت پرگواہ مقررکرے اورمال کے مالک کانام اورمال کی جنس اور خصوصیات اورمحل وقوع وصی اور گواہوں کوبتادے۔
مسئلہ (۲۳۶۲)اگر امانت رکھنے والے شخص کو سفر درپیش ہوتو وہ امانت کو اپنے اہل وعیال کے نزدیک قرار دے سکتا ہے سوائے اس صورت میں کہ جب اس مال کی حفاظت خود اس کے رہنے پر متوقف ہو اس صورت میں ضروری ہےکہ یا خود قیام کرے یا اس مال کے مالک ،سرپرست یا وکیل کے حوالے کردے یا پھر اس کو مطلع کردے۔
عاریہ کے احکام
مسئلہ (۲۳۶۳)’’عاریہ‘‘ سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنامال دوسرے کودے تاکہ وہ اس مال سے استفادہ کرے اور اس کے عوض کوئی چیزاس سے نہ لے۔
مسئلہ (۲۳۶۴)عاریہ میں صیغہ پڑھنالازم نہیں اور اگرمثال کے طورپرکوئی شخص کسی کو لباس عاریۃً دے اوروہ بھی اسی قصد سے لے توعاریہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۵)غصبی چیزیااس چیزکوبطورعاریہ دیناجو عاریۃً دینے والے کامال ہو لیکن اس کی آمدنی اس نے کسی دوسرے شخص کے سپردکردی ہومثلاً اسے کرائے پر دے رکھاہو، اس صورت میں صحیح ہے جب غصبی چیزکامالک یاوہ شخص جس نے عاریۃً دی جانے والی چیزکوبطوراجارہ لے رکھاہواس کےعاریۃً دینے پرراضی ہو۔
مسئلہ (۲۳۶۶)جس چیزکی منفعت کسی شخص کے سپردہومثلاً اس چیزکوکرائے پرلے رکھاہو تواسے بطور عاریت دے سکتاہے سوائے اس صورت میں کہ اجارہ کے معاہدہ میں یہ شرط قرار دی گئی ہو کہ خود استفادہ کرے گا پہلی صورت میں (احتیاط واجب کی بنا پر ) مالک کی اجازت کے بغیر اس شخص کے حوالے نہیں کرسکتاجس نے اسے بطورعاریت لیاہے۔
مسئلہ (۲۳۶۷)اگردیوانہ،بچہ،دیوالیہ اورسفیہ اپنامال عاریتاًدیں توصحیح نہیں ہے لیکن اگر (ان میں سے کسی کا) سرپرست عاریۃً دینے کی مصلحت سمجھتاہواورجس شخص کا وہ سرپرست ہے اس کا مال عاریتاً دے دے تواس میں کوئی اشکال نہیں اسی طرح جس شخص نے مال عاریتاًلیاہواس تک مال پہنچانے کے لئے بچہ وسیلہ بنے توکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۸) عاریتاًلی ہوئی چیزکی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اوراس سے معمول سے زیادہ استفادہ بھی نہ کرے اوراتفاقاً وہ چیزتلف ہوجائے تووہ شخص ذمہ دار نہیں ہے لیکن اگرطرفین آپس میں یہ شرط کریں کہ اگروہ چیزتلف ہوجائے توعاریتا ً لینے والا ذمہ دار ہوگایاجوچیزعاریتا ً لی ہووہ سونایاچاندی ہوتواس کا عوض دیناضروری ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۹)اگرکوئی شخص سونایاچاندی عاریتا ًلے اوریہ طے کیاہوکہ اگرتلف ہو گیاتوذمے دارنہیں ہوگاپھرتلف ہوجائے تووہ شخص ذمے دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۷۰)اگرعاریۃً دینے والامرجائے توعاریہ پرلینے والے کے لئے ضروری ہے کہ جوطریقہ امانت کے مالک کے فوت ہوجانے کی صورت میں مسئلہ (۲۳۵۸) میں بتایاگیاہے اسی کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ (۲۳۷۱)اگرعاریۃً دینے والے کی کیفیت یہ ہوکہ وہ شرعاًاپنے مال میں تصرف نہ کرسکتاہومثلاً دیوانہ یابے ہوش ہوجائے تو عاریۃً لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسی طریقے کے مطابق عمل کرے جو مسئلہ ( ۲۳۵۷) میں امانت کے بارے میں اس جیسی صورت میں بیان کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۳۷۲)جس شخص نے کوئی چیزعاریتا ً دی ہووہ جب بھی چاہے اسے منسوخ کر سکتاہے اورجس نے کوئی چیزعاریتا ً لی ہووہ بھی جب چاہے اسے منسوخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۳۷۳)کسی ایسی چیزکاعاریتا ًدیناجس سے حلال استفادہ نہ ہوسکتاہو مثلاً لہوولعب اورقماربازی کے آلات اورکھانے پینے میں استعمال کرنے کے لئے سونے اور چاندی کے برتن عاریتا ً دینا(بلکہ احتیاط لازم کی بناپرہرقسم کے استعمال کے لئے عاریتا ً دینا)باطل ہے اورتزئین وآرائش کے لئے عاریتا ًدیناجائز ہے۔
مسئلہ (۲۳۷۴)بھیڑ (بکریوں ) کوان کے دودھ اوراون سے استفادہ کرنے کے لئے نیزنرحیوان کومادہ حیوانات کے ساتھ ملاپ کے لئے عاریتا ً دیناصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۷۵)اگرکسی چیزکوعاریتا ً لینے والااسے اس کے مالک یامالک کے وکیل یا سرپرست کودے دے اوراس کے بعدوہ چیزتلف ہوجائے تواس چیزکوعاریتا ًلینے والا ذمے دارنہیں ہے لیکن اگروہ مال کے مالک یااس کے وکیل یاسرپرست کی اجازت کے بغیرمال کوخواہ ایسی جگہ لے جائے جہاں مال کامالک اسے عموماًلے جاتاہومثلاً گھوڑے کو اس اصطبل میں باندھ دے جواس کے مالک نے اس کے لئے تیارکیاہواوربعدمیں گھوڑا تلف ہوجائے یاکوئی اسے تلف کردے توعاریتا ً لینے والاذمہ دارہے۔
مسئلہ (۲۳۷۶)اگرایک شخص کوئی نجس چیزعاریتاًدے تواس صورت میں اسے چاہئے کہ جیساکہ مسئلہ ( ۲۰۶۵) میں بیان ہوچکاہے اس چیزکے نجس ہونے کے بارے میں عاریتاً لینے والے شخص کوبتادے۔
مسئلہ (۲۳۷۷)جوچیزکسی شخص نے عاریتاً لی ہواسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیرکسی دوسرے کوکرائے پریاعاریتاًنہیں دے سکتا۔
مسئلہ (۲۳۷۸)جوچیزکسی شخص نے عاریتاً لی ہواگروہ اسے مالک کی اجازت سے کسی اورشخص کوعاریتاً دے دے تواگرجس شخص نے پہلے وہ چیزعاریتاً لی ہومرجائے یا دیوانہ ہوجائے تودوسراعاریۃً باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۲۳۷۹)اگرکوئی شخص جانتاہوکہ جومال اس نے عاریتاً لیاہے وہ غصبی ہے تو ضروری ہے کہ وہ مال اس کے مالک کوپہنچادے اوروہ اسے عاریتاً دینے والے کو نہیں دے سکتا۔
مسئلہ (۲۳۸۰)اگرکوئی شخص ایسامال عاریۃً لے جس کے متعلق جانتاہوکہ وہ غصبی ہے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور اس کے ہاتھ سے وہ مال تلف ہوجائے تومالک اس مال کاعوض اور جوفائدہ عاریۃً لینے والے نے اٹھایاہے اس کاعوض اس سے یاجس نے مال غصب کیاہواس سے طلب کرسکتاہے اوراگرمالک عاریۃً لینے والے سے عوض لے لے تو عاریۃً لینے والاجوکچھ مالک کودے اس کامطالبہ عاریۃً دینے والے سے نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۳۸۱)اگرکسی شخص کویہ معلوم نہ ہوکہ اس نے جومال عاریہ لیاہے وہ غصبی ہے اوراس کے پاس ہوتے ہوئے وہ مال تلف ہوجائے تواگرمال کامالک اس کاعوض اس سے لے لے تووہ بھی جوکچھ مال کے مالک کو دیاہواس کامطالبہ عاریۃً دینے والے سے کرسکتاہے لیکن اگراس نے جوچیزعاریۃً لی ہووہ سونایاچاندی ہویابطورعاریہ دینے والے نے اس سے شرط کی ہوکہ اگروہ چیزتلف ہوجائے تووہ اس کاعوض دے گاپھراس نے مال کا جوعوض مال کے مالک کو دیاہواس کامطالبہ عاریۃً دینے والے سے نہیں کرسکتالیکن اگر مال کا مالک اس مال کے استفادہ کےمقابل کوئی چیز لے تو عاریۃً دینے والے سے اس کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۰۶۰)اگرکوئی مسئلے سے ناواقفیت کی بناپریہ نہ جانتاہوکہ اس نے جومعاملہ کیاہے وہ صحیح ہے یاباطل توجومال اس نے حاصل کیاہواسے استعمال نہیں کرسکتااور وہ مال جسے دیاہے اس میں بھی تصرف نہیں کرسکتا بلکہ ضروری ہےکہ مسئلہ سیکھے یا احتیاط کرے اگر چہ مصالحت کے ذریعہ ہی کیو ں نہ ہو اور اگر اسے علم ہوجائے کہ دوسرافریق اس مال کواستعمال کرنے پرراضی ہے تواس صورت میں وہ استعمال کرسکتاہے اگرچہ معاملہ باطل ہو۔
مسئلہ (۲۰۶۱)جس شخص کے پاس مال نہ ہواورکچھ اخراجات اس پرواجب ہوں ، مثلاًبیوی بچوں کاخرچ، توضروری ہے کہ کاروبارکرے اور مستحب کاموں کے لئے مثلاً اہل وعیال کی خوشحالی اور فقیروں کی مددکرنے کے لئے کاروبارکرنامستحب ہے۔
خریدوفروخت کے مستحبات
خریدوفروخت میں چندچیزیں مستحب شمارکی گئی ہیں :
(اول:) فقراوراس جیسی کیفیت کے سواجنس کی قیمت میں خریداروں کے درمیان فرق نہ کرے۔
(دوم:) تجارت کرتے وقت پہلے شہادتین پڑھے اور معاملہ کے وقت تکبیر کہے۔
(سوم:) جوچیزبیچ رہاہووہ کچھ زیادہ دے اورجوچیزخریدرہاہووہ کچھ کم لے۔
(چہارم:) اگرکوئی شخص سوداکرنے کے بعدپشیمان ہوکراس چیزکوواپس کرنا چاہے توواپس لے لے۔
مکروہ معاملات
مسئلہ (۲۰۶۲)وہ خاص معاملات جنہیں مکروہ شمارکیاگیاہے،یہ ہیں :
۱:) جائداد کابیچنابجزاس کے کہ اس رقم سے دوسری جائداد خریدی جائے۔
:۲)گوشت فروشی کاپیشہ اختیارکرنا۔
۳:)کفن فروشی کاپیشہ اختیارکرنا۔
۴:)پست لوگوں سے معاملہ کرنا۔
۵:)صبح کی اذان سے سورج نکلنے کے وقت تک معاملہ کرنا۔
۶:)گیہوں ،جواوران جیسی دوسری اجناس کی خریدوفروخت کواپناپیشہ قراردینا۔
۷:)اگر کوئی جنس خریدرہاہوتواس کے سودے میں دخل اندازی کرکے خریدار بننے کااظہارکرنا۔
حرام معاملات
مسئلہ (۲۰۶۳)بہت سے معاملات حرام ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں :
۱:) نشہ آورمشروبات،غیرشکاری کتے اورسورکی خریدوفروخت حرام ہے اوراسی طرح (احتیاط واجب کی بناپر)نجس مردار کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔ان کے علاوہ دوسری نجاسات کی خریدو فروخت اس صورت میں جائزہے جب کہ عین نجس سے حلال فائدہ حاصل کرنامقصود ہو مثلاً گوبراورپاخانے سے کھادبنائیں ( اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ ان کی خریدوفروخت سے بھی پرہیزکیاجائے)۔
۲:) غصبی مال کی خریدوفروخت اگر اس میں تصرف لازم آئے جیسے کوئی چیز لینا اور دینا۔
۳:) ان پیسوں سے لین دین کرنا جن کا اعتبار ختم ہوچکا ہو یا نقلی ہوں اس شرط کے ساتھ کہ دوسرا فریق متوجہ نہ ہو لیکن اگر متوجہ ہوتو معاملہ جائز ہے۔
۴:) حرام وسائل کے ذریعہ معاملہ کرنا یعنی ایسی چیزیں جنھیں اس طرح بنایا گیا ہو کہ عام طورپر حرام کام میں استعمال ہوتی ہوں اور ان کی اہمیت حرام استعمال کی وجہ سے ہو جیسے بت صلیب، جوئے اور حرام لھو ولعب کے وسائل۔
۵:) ایسا معاملہ جس میں دھوکا دھڑی ہو، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو شخص مسلمانوں کےساتھ معاملہ میں دھوکہ دھڑی سے کام لے وہ ہم میں سے نہیں ہے خداوندعالم اس کی روزی کی برکت اٹھا لیتا ہے اور اس کے ذریعۂ معاش کو بند کردیتا ہے اور اس کو خود اس کے حوالے کردیتا ہے۔‘‘ دھوکا دھڑی کے مختلف مقامات ہیں ۔
(۱) اچھی جنس کو خراب یا کسی دوسری چیز سے ملانا جیسے دودھ میں پانی ملانا۔
(۲) حقیقت اور واقع کے خلاف کسی جنس کو اچھا بنا کر پیش کرنا جیسے باسی سبزی پر پانی ڈال کر تازہ بنا کر پیش کرنا۔
(۳) ایک جنس کو دوسری شکل میں ظاہر کرنا جیسے سونے کو خریدار کی اطلاع کے بغیر کسی دوسری شکل میں ڈھال دینا۔
(۴) جنس کے عیب کو چھپانا جب کہ خریدار بیچنے والے پر اعتماد رکھتا ہو کہ وہ اس سے نہیں چھپائے گا۔
مسئلہ (۲۰۶۴)جوپاک چیزنجس ہوگئی ہواوراسے پانی سے دھوکرپاک کرناممکن ہو تو اسے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے قالین اور برتن اوراگراسے دھوناممکن نہ ہوتب بھی یہی حکم ہے لیکن اگراس کاحلال فائدہ عرف عام میں اس کے پاک ہونے پرمنحصر نہ ہومثلاً بعض اقسام کے تیل بلکہ اگراس کاحلال فائدہ پاک ہونے پر موقوف ہواوراس کامناسب حد تک حلال فائدہ بھی ہوتب بھی اس کابیچناجائزہے۔
مسئلہ (۲۰۶۵)اگرکوئی شخص نجس چیز بیچناچاہے توضروری ہے کہ وہ اس کی نجاست کے بارے میں خریدار کوبتادے اوراگراسے نہ بتائے تووہ ایک حکم واجب کی مخالفت کا مرتکب ہوگامثلاًنجس پانی کووضویاغسل میں استعمال کرے گااوراس کے ساتھ اپنی واجب نمازپڑھے گایااس نجس چیزکوکھانے یاپینے میں استعمال کرے گاالبتہ اگریہ جانتاہوکہ اسے بتانے سے کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ لاپروا شخص ہے اورنجس پاک کاخیال نہیں رکھتاتو اسے بتاناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۲۰۶۶)اگرچہ کھانے والی اورنہ کھانے والی نجس دواؤں کی خریدوفروخت جائز ہے لیکن ان کی نجاست کے متعلق خریدارکواس صورت میں بتادیناضروری ہے جس کا ذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۰۶۷)جوتیل غیراسلامی ممالک سے درآمدکئے جاتے ہیں اگران کے نجس ہونے کے بارے میں علم نہ ہوتوان کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں اورجوچربی کسی حیوان کے مرجانے کے بعدحاصل کی جاتی ہے تیل، چربی، جلاٹین اگراسے کافرسے لیں یاغیراسلامی ممالک سے منگائیں تواس صورت میں جب کہ اس کے بارے میں احتمال ہوکہ ایسے حیوان کی ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیاگیاہے تواگر چہ وہ پاک ہے اوراس کی خریدو فروخت جائزہے لیکن اس کاکھاناحرام ہے اوربیچنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی کیفیت سے خریدار کوآگاہ کرے کیوں کہ خریدارکوآگاہ نہ کرنے کی صورت میں وہ کسی واجب حکم کی مخالفت یا حرام کامرتکب ہوگاجیسے کہ مسئلہ ( ۲۰۶۵) میں گزرچکاہے۔
مسئلہ (۲۰۶۸)اگرلومڑی یااس جیسے جانوروں کوغیرشرعی طریقے سے ذبح کیاجائے یا وہ خودمرجائیں توان کی کھال کی خریدوفروخت (احتیاط کی بناپر)جائزنہیں ہے اور اگر مشکوک ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۶۹)جوچمڑاغیراسلامی ممالک سے درآمدکیاجائے یاکافر سے لیا جائے اگراس کے بارے میں احتمال ہوکہ ایک ایسے جانورکاہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیاہے تواس کی خرید وفروخت جائزہے اوراسی طرح اس میں نمازبھی صحیح ہوگی۔
مسئلہ (۲۰۷۰)جوتیل اورچربی حیوان کے مرنے کے بعدحاصل کی جائے یا وہ چمڑا جومسلمان سے لیاجائے اورانسان کوعلم ہوکہ اس مسلمان نے یہ چیزکافرسے لی ہے لیکن یہ تحقیق نہیں کی کہ یہ ایسے حیوان کی ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیاگیاہے یانہیں اگرچہ اس پرطہارت کاحکم لگتاہے اوراس کی خریدوفروخت جائزہے لیکن اس تیل یاچربی کا کھاناجائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۷۱)شراب اور حمام سیال نشہ آورمشروبات کالین دین حرام اور باطل ہے۔
مسئلہ (۲۰۷۲)غصبی مال کابیچناباطل ہےمگر یہ کہ اس کا مالک اجازت دے دے اوربیچنے والے نے جورقم خریدارسے لی ہو اسے واپس کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۲۰۷۳)اگرخریدارسنجیدگی سے سوداکرنے کاارادہ رکھتاہولیکن اس کی نیت یہ ہوکہ جوچیزخریدرہاہے اس کی قیمت نہیں دے گاتواس کایہ سوچناسودے کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے اورضروری ہے کہ خریداراس سودےکا پیسہ بیچنے والے کودے۔
مسئلہ (۲۰۷۴)اگرخریدارچاہے کہ جومال اس نے ادھار خریداہے اس کی قیمت بعدمیں حرام مال سے دے گاتب بھی معاملہ صحیح ہے البتہ ضروری ہے کہ جتنی قیمت اس کے ذمہ ہوحلال مال سے دے تاکہ اس کاادھارچکتاہوجائے۔
مسئلہ (۲۰۷۵)حرام آلات لہو ولعب کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔لیکن (حلال اورحرام میں استعمال ہونے والے) مشترکہ آلات مثلاً ریڈیواورٹیپ ریکارڈ ویڈیوکی خرید وفروخت میں کوئی حرج نہیں اور ان کااس شخص کےلئے اپنے پاس رکھنا جائز ہے جو اس بات سے مطمئن ہے کہ خوداور اس کے گھر والے حرام میں استعمال نہیں کریں گے۔
مسئلہ (۲۰۷۶)اگرکوئی چیز جس سے جائزفائدہ اٹھایاجاسکتاہواس نیت سے بیچی جائے کہ اسے حرام مصرف میں لایاجائے مثلاً انگوراس نیت سے بیچاجائے کہ اس سے شراب تیارکی جائےخواہ اسے معاملہ کے ضمن میں اسی کام کےلئے قرار دیا ہویا معاملہ سے پہلے اور معاملہ کو ایسے معاہدہ کی بنیاد پر انجام دے تواس کاسوداحرام ہے۔لیکن اگرکوئی شخص انگور اس مقصد سے نہ بیچے اورفقط یہ جانتاہوکہ خریدار انگورسے شراب تیارکرے گاتو سودے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۰۷۷)جاندار کامجسمہ بنانا(احتیاط کی بناپر) حرام ہے لیکن ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں ہے لیکن جاندار کی نقاشی جائزہے۔
مسئلہ (۲۰۷۸)کسی ایسی چیزکاخریدناحرام ہے جوجوئے یاچوری یاباطل سودے سے حاصل کی گئی ہو اگر اس میں تصرف لازم آرہا ہے تو حرام ہےاور اگرکوئی ایسی چیزخریدلے اور بیچنے والے سے لے لے توضروری ہے کہ اس کے اصلی مالک کو لوٹا دے۔
مسئلہ (۲۰۷۹)اگرکوئی شخص ایساگھی بیچے جس میں چربی کی ملاوٹ ہواوراسے معین کردے مثلاًکہے کہ: میں ’’یہ ایک من گھی بیچ رہاہوں ‘‘ تواس صورت میں جب اس میں چربی کی مقداراتنی زیادہ ہوکہ اسے گھی نہ کہاجائے تومعاملہ باطل ہے اوراگرچربی کی مقدار اتنی کم ہوکہ اسے چربی ملاہواگھی کہاجائے تومعاملہ صحیح ہے لیکن خریدنے والے کومال عیب دارہونے کی بناپرحق حاصل ہے کہ وہ معاملہ ختم کرسکتاہے اوراپناپیسہ واپس لے سکتا ہے اوراگرچربی گھی سے جداہوتوچربی کی جتنی مقدارکی ملاوٹ ہے اس کامعاملہ باطل ہے اورچربی کی جوقیمت بیچنے والے نے لی ہے وہ خریدار کی ہے اور چربی، بیچنے والے کا مال ہے اورگاہک اس میں جوخالص گھی ہے اس کامعاملہ بھی کرسکتاہے۔لیکن اگرمعین نہ کرے بلکہ صرف ایک من گھی بتاکربیچے لیکن دیتے وقت چربی ملاہواگھی دے توگاہک وہ گھی واپس کرکے خالص گھی کامطالبہ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۰۸۰)جس جنس کوناپ تول کربیچاجاتاہے اگرکوئی بیچنے والااسی جنس کے بدلے میں بڑھاکربیچے مثلاً ایک من گیہوں کی قیمت ڈیڑھ من گیہوں وصول کرے تویہ سوداورحرام ہے بلکہ اگردوجنسوں میں سے ایک بے عیب اوردوسری عیب دارہویاایک جنس بڑھیااوردوسری گھٹیاہویاان کی قیمتوں میں فرق ہوتواگربیچنے والاجو مقدار دے رہا ہواس سے زیادہ لے تب بھی سوداورحرام ہے۔لہٰذااگروہ ثابت تانبادے کراس سے زیادہ مقدارمیں ٹوٹاہواتانبالے یاثابت قسم کا پیتل دے کراس سے زیادہ مقدارمیں ٹوٹا ہواپیتل لےیا صدری (نامی) چاول دے کر گردہ (نامی) چاول لے، یا گڑھا ہوا سونا دے کراس سے زیادہ مقدارمیں بغیرگڑھاہواسونالے تویہ بھی سوداورحرام ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۱)بیچنے والاجوچیززائدلے اگروہ اس جنس سے مختلف ہوجووہ بیچ رہا ہے مثلاًایک من گیہوں کوایک من گیہوں اورکچھ نقدرقم کے عوض بیچے تب بھی یہ سود اور حرام ہے بلکہ اگروہ کوئی چیززائدنہ لے لیکن یہ شرط لگائے کہ خریداراس کے لئے کوئی کام کرے گاتویہ بھی سوداورحرام ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۲)جوشخص کوئی چیزکم مقدارمیں دے رہاہواگروہ اس کے ساتھ کوئی اور چیزشامل کردے مثلاًایک من گیہوں اورایک رومال کوڈیڑھ من گیہوں کے عوض بیچے تو اس میں کوئی حرج نہیں اس صورت میں جب کہ اس کی نیت یہ ہوکہ رومال اس زیادہ گیہوں کے مقابلے میں ہے اورمعاملہ بھی نقد ہواوراسی طرح اگردونوں طرف سے کوئی چیزبڑھادی جائے مثلاًایک شخص ایک من گیہوں اورایک رومال کوڈیڑھ من گیہوں اور ایک رومال کے عوض بیچے تواس کے لئے بھی یہی حکم ہے لہٰذااگران کی نیت یہ ہوکہ ایک کا رومال آدھامن گیہوں دوسرے کے رومال کے مقابلے میں ہے تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۳)اگرکوئی شخص ایسی چیزبیچے جومیٹراورگزکے حساب سے بیچی جاتی ہے (مثلاًکپڑا)یاایسی چیزبیچے جوگن کربیچی جاتی ہے مثلاً اخروٹ اورانڈے اور زیادہ لے مثلاً دس انڈے دے اورگیارہ لے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن اگرایساہوکہ معاملے میں دونوں چیزیں ایک ہی جنس سے ہوں اور مدت معین ہوتواس صورت میں معاملے کے صحیح ہونے میں اشکال ہے مثلاً دس اخروٹ نقددے اوربارہ اخروٹ ایک مہینے کے بعدلے اور کرنسی نوٹوں کافروخت کرنابھی اسی زمرے میں آتاہے مثلاًتومان کونوٹوں کی کسی دوسری جنس کے بدلے میں مثلاً دینار یاڈالرکے بدلے میں نقدیامعین مدت کے لئے بیچے تواس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگراپنی ہی جنس کے بدلے میں بیچناچاہے اور بہت زیادہ لے تومعاملہ معین مدت کے لئے نہیں ہوناچاہئے مثلاًسوتومان نقددے اور ایک سودس تومان چھ مہینے کے بعدلے تواس معاملے کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۴)اگرکسی جنس کواکثرشہروں میں ناپ تول کربیچاجاتاہواوربعض شہروں میں اس کالین دین گن کرہوتاہوتواس جنس کو اس شہر کی نسبت جہاں گن کر لین دین ہوتاہے دوسرے شہرمیں زیادہ قیمت پربیچناجائزہے۔
مسئلہ (۲۰۸۵)ان چیزوں میں جوتول کریاناپ کربیچی جاتی ہیں اگربیچی جانے والی چیزاوراس کے بدلے میں لی جانے والی چیزایک جنس سے نہ ہوں اورلین دین بھی نقدہو توزیادہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگرلین دین معین مدت کے لئے ہوتواس میں اشکال ہے۔لہٰذااگرکوئی شخص ایک من چاول کودومن گیہوں کے بدلے میں ایک مہینے کی مدت تک بیچے تواس لین دین کاصحیح ہونااشکال سے خالی نہیں ۔
مسئلہ (۲۰۸۶)اگرایک شخص پکے میووں کاسوداکچے میووں سے کرے توزیادہ لےکر معاملہ کرناجائز نہیں ہے اور اگر دونوں نقدی ہوں تو مساوی طورپر معاملہ کرنا مکروہ ہے اور اگر ادھار ہوتو اس میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۷)سودکے اعتبار سے گیہوں اور جوایک جنس شمار ہوتے ہیں لہٰذامثال کے طورپراگرکوئی شخص ایک من گیہوں دے اوراس کے بدلے میں ایک من پانچ سیرجو لے تویہ سود اورحرام ہے اور مثال کے طورپراگردس من جواس شرط پرخریدے کہ گیہوں کی فصل اٹھانے کے وقت دس من گیہوں بدلے میں دے گاتوچونکہ جواس نے نقد لئے ہیں اورگیہوں کچھ مدت کے بعددے رہاہے لہٰذایہ اسی طرح ہے۔جیسے اضافہ لیاہواس لئے حرام ہے۔
مسئلہ (۲۰۸۸)باپ بیٹااورمیاں بیوی ایک دوسرے سے سودلے سکتے ہیں اوراسی طرح مسلمان ایک ایسے کافرسے جواسلام کی پناہ میں نہ ہوسودلے سکتاہے لیکن ایسے کافر سے جواسلام کی پناہ میں ہے سودکالین دین حرام ہے البتہ معاملے طے کرلینے کے بعداگر سوددینااس کی شریعت میں جائزہوتواس سے سودلے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۰۸۹)ڈاڑھی منڈوانا اور اس کی اجرت لینا (احتیاط واجب کی بناء پر) جائز نہیں ہے سوائے مجبوری کی حالت میں یا اس کا ترک کرنا کسی نقصان یا حرج کا سبب قرار پانے جس کو عام طورپربرداشت کرنا مشکل ہو اگر چہ مذاق اڑانے اور توہین کے لحاظ سے ہو۔
مسئلہ (۲۰۹۰)غناء حرام ہے اور اس سے مراد وہ باطل کلام ہے جو گانے کے انداز میں ہو اور لہو و لعب کی نشستوں سے مناسبت رکھتا ہو اور اسی طرح جائز نہیں ہے کہ اس انداز سے قرآن،دعا اور اس کے جیسی چیزیں پڑھی جائیں اور( احتیاط واجب کی بناء پر) جو باتیں بیان کی گئی ان کے علاوہ بھی اس طرح سے نہ گائیں اور اسی طرح غناء کا سننا بھی حرام ہے اور اس کی اجرت لینا بھی حرام ہے اور وہ اس اجرت کا مالک نہیں بن سکتا اور اسی طرح سے اس کو سیکھنا اور سکھانا بھی جائز نہیں ہے اور موسیقی یعنی مخصوص وسائل کوبجانا بھی اس طرح سے ہو کہ لہو ولعب کی نشستوں سے مناسبت رکھتی ہو تو حرام ہے اور اس کے علاوہ حرام نہیں ہے اور حرام موسیقی بجانے کی اجرت لینا بھی حرام ہے اور اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس کا سیکھنا اور سکھانا حرام ہے۔
بیچنے والے اورخریدارکی شرائط
مسئلہ (۲۰۹۱)بیچنے والے اورخریدارکے لئے چھ چیزیں شرط ہیں :
۱:) بالغ ہوں ۔
۲:) عاقل ہوں ۔
۳:) سفیہ نہ ہوں یعنی اپنامال احمقانہ کاموں میں خرچ نہ کرتے ہوں ۔
۴:) خریدوفروخت کاارادہ رکھتے ہوں ۔پس اگرکوئی مذاق میں کہے کہ میں نے اپنامال بیچاتومعاملہ باطل ہوگا۔
۵:) کسی نے انہیں خریدوفروخت پرمجبورنہ کیاہو۔
۶:) جوجنس اوراس کے بدلے میں جوچیزایک دوسرے کودے رہے ہوں اس کے مالک ہوں اور ان کے بارے میں احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
مسئلہ (۲۰۹۲)کسی نابالغ بچے کے ساتھ سوداکرناجوآزادانہ طورپرسوداکررہاہو باطل ہے لیکن ان کم قیمت چیزوں میں جن کی خریدوفروخت نابالغ مگر سمجھ داربچے کے ساتھ لین دین کا رواج ہو(صحیح ہے) اوراگرسودااس کے سرپرست کے ساتھ ہواورنابالغ مگرسمجھ داربچہ لین دین کاصیغہ جاری کرے توسوداصحیح ہے بلکہ اگرجنس یارقم کسی دوسرے آدمی کا مال ہواوربچہ بحیثیت وکیل اس مال کے مالک کی طرف سے وہ مال بیچے یااس رقم سے کوئی چیزخریدے توظاہریہ ہے کہ سوداصحیح ہے اگرچہ وہ سمجھ داربچہ آزادانہ طورپراس مال یارقم میں (حق) تصرف رکھتاہواوراسی طرح اگربچہ اس کام میں وسیلہ ہوکہ رقم بیچنے والے کو دے اورجنس خریدار تک پہنچائے یاجنس خریدار کو دے اوررقم بیچنے والے کوپہنچائے تواگرچہ بچہ سمجھ دار نہ ہو سوداصحیح ہے کیونکہ دراصل دوبالغ افراد نے آپس میں سوداکیاہے۔
مسئلہ (۲۰۹۳)اگرکوئی شخص اس صورت میں کہ ایک نابالغ بچے سے سوداکرنا صحیح نہ ہواس سے کوئی چیزخریدے یااس کے ہاتھ کوئی چیزبیچے توضروری ہے کہ جوجنس یارقم اس بچے سے لے اگروہ خودبچے کامال ہوتواس کے سرپرست کواوراگرکسی اورکامال ہوتواس کے مالک کودےدے یااس کے مالک کی رضامندی حاصل کرے اوراگرسوداکرنے والا شخص اس جنس یارقم کے مالک کونہ جانتاہواوراس کاپتا چلانے کاکوئی ذریعہ بھی نہ ہو تو اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ جوچیزاس نے بچے سے لی ہووہ اس چیزکے مالک کی طرف سے بعنوان ردّ مظالم کسی فقیرکودے دے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کام میں حاکم شرع سے اجازت لے۔
مسئلہ (۲۰۹۴)اگرکوئی شخص ایک سمجھ داربچے سے اس صورت میں سوداکرے جب کہ اس کے ساتھ سوداکرناصحیح نہ ہواوراس نے جوجنس یارقم بچے کودی ہووہ تلف ہوجائے تو ظاہریہ ہے کہ وہ شخص بچے سے اس کے بالغ ہونے کے بعدیااس کے سرپرست سے مطالبہ کرسکتاہے اوراگربچہ سمجھ دار نہ ہویاممیز ہو اوراس نے خود اپنے مال کو تلف نہ کیا بلکہ اس کے پاس رہتے ہوئے تلف ہوگیا ہو اگر چہ بے توجہی یا حفاظت میں کوتاہی کی وجہ سے ہو ‘ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۰۹۵)اگرخریداریابیچنے والے کوسوداکرنے پرمجبورکیاجائے اورسوداہو جانے کے بعدوہ راضی ہوجائے اورمثال کے طورپرکہے کہ میں راضی ہوں توسودا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ معاملے کا صیغہ دوبارہ پڑھاجائے۔
مسئلہ (۲۰۹۶)اگرانسان کسی کامال اس کی اجازت کے بغیربیچ دے اورمال کا مالک اس کے بیچنے پرراضی نہ ہواوراجازت نہ دے توسوداباطل ہے۔
مسئلہ (۲۰۹۷)بچے کاباپ اوردادانیزباپ کاوصی اورداداکاوصی بچے کامال فروخت کرسکتے ہیں اوراگر صورت حال کاتقاضاہوتومجتہدعادل بھی دیوانے شخص یایتیم بچے کامال یاایسے شخص کامال جوغائب ہوفروخت کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۰۹۸)اگرکوئی شخص کسی کامال غصب کرکے بیچ ڈالے اورمال کے بک جانے کے بعداس کامالک سودے کی اجازت دے دے توسوداصحیح ہے اورجوچیزغصب کرنے والے نے خریدارکودی ہواوراس چیزسے جو منافع سودے کے وقت سے حاصل ہو وہ خریدار کی ملکیت ہے اورجوچیزخریدارنے دی ہواوراس چیزسے جومنافع سودے کے وقت سے حاصل ہووہ اس شخص کی ملکیت ہے جس کامال غصب کیاگیاہو۔
مسئلہ (۲۰۹۹)اگرکوئی شخص کسی کامال غصب کرکے بیچ دے اوراس کاارادہ یہ ہو کہ اس مال کی قیمت خوداس کی ملکیت ہوگی اوراگرمال کامالک سودے کی اجازت دےدے توسوداصحیح ہے لیکن مال کی قیمت مالک کی ملکیت ہوگی نہ کہ غاصب کی۔
جنس اوراس کے عوض کی شرائط
مسئلہ (۲۱۰۰)جوچیزبیچی جائے اورجوچیزاس کے بدلے میں لی جائے اس کی پانچ شرطیں ہیں :
(اول:) ناپ، تول یاگنتی وغیرہ کی شکل میں اس کی مقدار معلوم ہو۔
(دوم:) بیچنے والاان چیزوں کوتحویل میں دینے کااہل ہو۔اگراہل نہ ہوتوسودا صحیح نہیں ہے لیکن اگروہ اس کوکسی دوسری چیزکے ساتھ ملاکربیچے جسے وہ تحویل میں دے سکتاہوتواس صورت میں لین دین صحیح ہے البتہ ظاہریہ ہے کہ اگرخریدار اس چیزکوجو خریدی ہواپنے قبضے میں لے سکتاہواگرچہ بیچنے والااسے اس کی تحویل میں دینے کااہل نہ ہوتوبھی لین دین صحیح ہے مثلاًجوگھوڑابھاگ گیاہواگراسے بیچے اورخریدنے والااس گھوڑے کو ڈھونڈسکتاہوتواس سودے میں کوئی حرج نہیں اوروہ صحیح ہوگااوراس صورت میں کسی بات کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔
(سوم:) وہ خصوصیات جوجنس اورعوض میں موجودہوں اورجن کی وجہ سے سودے میں لوگوں کی دلچسپی میں فرق پڑتاہو،بتادی جائیں ۔
(چہارم:) کسی دوسرے کاحق اس مال سے اس طرح وابستہ نہ ہوکہ مال مالک کی ملکیتسے خارج ہونے سے دوسرے کاحق ضائع ہوجائے۔
(پنجم:) بیچنے والاخوداس جنس کوبیچے نہ کہ اس کی منفعت کو۔پس مثال کے طور پر اگرمکان کی ایک سال کی منفعت بیچی جائے توصحیح نہیں ہے لیکن اگرخریدار نقد کے بجائے اپنی ملکیت کامنافع دے مثلاً کسی سے قالین یادری وغیرہ خریدے اوراس کے عوض میں اپنےمکان کےایک سال کامنافع اسے دےدے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ ان سب کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
مسئلہ (۲۱۰۱)جس جنس کاسوداکسی شہرمیں تول کریاناپ کرکیاجاتاہواس شہرمیں ضروری ہے اس جنس کوتول کریاناپ کرہی خریدے لیکن جس شہرمیں اس جنس کاسودااسے دیکھ کرکیاجاتاہواس شہرمیں وہ اسے دیکھ کرخریدسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۰۲)جس چیزکی خریدوفروخت تول کرکی جاتی ہواس کاسوداناپ کربھی کیاجاسکتاہے مثال کے طورپراگرایک شخص دس من گیہوں بیچناچاہے تووہ ایک ایسا پیمانہ جس میں ایک من گیہوں سماتا ہودس مرتبہ بھرکردے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۰۳)اگرمعاملہ (چوتھی شرط کے علاوہ) جوشرائط بیان کئے گئے ہیں ان میں سے کوئی ایک شرط نہ ہونے کی بناپرباطل ہولیکن بیچنے والااور خریدارایک دوسرے کے مال میں تصرف کرنے پرراضی ہوں توان کے تصرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۰۴)جوچیزوقف کی جاچکی ہواس کاسودا باطل ہے لیکن اگروہ اس قدر خراب ہوجائے کہ جس فائدے کے لئے وقف کی گئی ہے وہ حاصل نہ کیاجاسکے یاوہ چیز خراب ہونے والی ہومثلاً مسجدکی چٹائی اس طرح پھٹ جائے کہ اس پرنمازنہ پڑھی جاسکے توجوشخص متولی ہے یاجسے متولی جیسے اختیارات حاصل ہوں وہ اسے بیچ دے توکوئی حرج نہیں اور(احتیاط مستحب کی بناپر)جہاں تک ممکن ہواس کی قیمت اسی مسجد کے کسی ایسے کام پر خرچ کی جائے جووقف کرنے والے کے مقصدسے قریب ترہو۔
مسئلہ (۲۱۰۵)جب ان لوگوں کے مابین جن کے لئے مال وقف کیاگیاہوایسا اختلاف پیداہوجائے کہ اندیشہ ہوکہ اگروقف شدہ مال فروخت نہ کیاگیاتومال یاکسی کی جان تلف ہوجائے گی تواس کے بیچنے میں اشکال ہے۔ ہاں اگروقف کرنے والایہ شرط لگائے کہ وقف کے بیچ دینے میں کوئی مصلحت ہوتو بیچ دیاجائے تواس صورت میں اسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۰۶)جوجائدادکسی دوسرے کوکرائے پردی گئی ہواس کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جتنی مدت کے لئے اسے کرائے پردی گئی ہو وہ کرایہ دار کا مال ہے اوراگر خریدار کویہ علم نہ ہوکہ وہ جائداد کرائے پردی جا چکی ہے یااس گمان کے تحت کہ کرائے کی مدت تھوڑی ہے اس جائداد کو خریدلے تو جب اسے حقیقت حال کاعلم ہو،وہ سوداتوڑسکتاہے۔
خریدوفروخت کاصیغہ
مسئلہ (۲۱۰۷)ضروری نہیں کہ خریدوفروخت کاصیغہ عربی زبان میں جاری کیا جائے مثلاًاگربیچنے والا فارسی (یااردو) میں کہے کہ میں نے یہ مال اتنی رقم پربیچا اورخریدار کہے کہ میں نے قبول کیاتوسوداصحیح ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ خریداراوربیچنے والاقصد انشاء (معاملے کا) دلی ارادہ رکھتے ہوں یعنی یہ دوجملے کہنے سے ان کی مراد خریدوفروخت ہو۔
مسئلہ (۲۱۰۸)اگرسوداکرتے وقت صیغہ نہ پڑھاجائے لیکن بیچنے والااس مال کے مقابلے میں جووہ خریدار سے لے اپنامال اس کی ملکیت میں دے دے تو سودا صحیح ہے اور دونوں اشخاص متعلقہ چیزوں کے مالک ہوجاتے ہیں ۔
پھلوں کی خریدوفروخت
مسئلہ (۲۱۰۹)جن پھلوں کے پھول گرچکے ہوں اوران میں دانے پڑچکے ہوں اگر ان کے آفت (مثلاً بیماریوں اورکیڑوں کے حملوں ) سے محفوظ ہونے یانہ ہونے کے بارے میں اس طرح علم ہوکہ اس درخت کی پیداوارکااندازہ لگاسکیں تواس کے توڑنے سے پہلے اس کابیچناصحیح ہے بلکہ اگرمعلوم نہ بھی ہوکہ آفت سے محفوظ ہے یانہیں تب بھی اگر دوسال یااس سے زیادہ عرصے کی پیداواریاپھلوں کی صرف اتنی مقدارجواس وقت لگی ہو بیچی جائے( بشرطیکہ اس کی کسی حدتک مالیت ہو)تومعاملہ صحیح ہے۔ اسی طرح اگر زمین کی پیداواریاکسی دوسری چیزکواس کے ساتھ بیچاجائے تومعاملہ صحیح ہے لیکن اس صورت میں احتیاط لازم یہ ہے کہ دوسری چیز(جوضمناًبیچ رہاہووہ)ایسی ہوکہ اگربیج ثمرآورنہ ہوسکیں توخریدار کے سرمائے کوڈوبنے سے بچالے۔
مسئلہ (۲۱۱۰)جس درخت پرپھل لگاہو،دانا بننے اورپھول گرنے سے پہلے اس کا بیچناجائزہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اورچیزبھی بیچے جیساکہ اس سے پہلے والے مسئلے میں بیان کیاگیاہے یا ایک سال سے زیادہ مدت کاپھل بیچے۔
مسئلہ (۲۱۱۱)درخت پرلگی ہوئی وہ کھجوریں جو پکی ہوں یا کچی ہوں ان کوبیچنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کے عوض میں خواہ اسی درخت کی کھجوریں ہوں یاکسی اور درخت کی،کھجوریں نہ دی جائیں لیکن اگر پکی رطب کو یا کچی کھجور سے بیچا جائے تو اشکال نہیں ہے البتہ اگرایک شخص کاکھجورکادرخت کسی دوسرے شخص کے گھرمیں ہوتواگراس درخت کی کھجوروں کاتخمینہ لگا لیاجائے اوردرخت کامالک انہیں گھرکے مالک کوبیچ دے اور کھجوروں کواس کاعوض نہ قراردیاجائے تو کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۱۲)کھیرے،بینگن،سبزیاں اوران جیسی(دوسری)چیزیں ساگ وغیرہ جو سال میں کئی دفعہ توڑی جاتی ہوں اگر وہ اگ آئی ہوں اوریہ طے کرلیاجائے کہ خریدارانہیں سال میں کتنی دفعہ توڑے گاتوانہیں بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگراگی نہ ہوں توانہیں بیچنے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۳)اگردانہ آنے کے بعدگندم کے خوشے کوگندم سے جوخوداس سے حاصل ہوتی ہے یاکسی دوسرے خوشے کے عوض بیچ دیاجائے توسوداصحیح نہیں ہے۔
نقداورادھارکے احکام
مسئلہ (۲۱۱۴)اگرکسی جنس کونقدبیچاجائے توسوداطے پاجانے کے بعدخریدار اور بیچنے والاایک دوسرے سے جنس اوررقم کامطالبہ کرسکتے ہیں اوراسے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں ۔منقولہ چیزوں مثلاًقالین اورلباس کوقبضے میں دینے اورغیرمنقولہ چیزوں مثلاً گھر اورزمین کوقبضے میں دینے سے مرادیہ ہے کہ ان چیزوں سے دست بردار ہوجائے اور انہیں فریق ثانی کی تحویل میں اس طرح دےدے کہ جب وہ چاہے اس میں تصرف کر سکے اورواضح رہے کہ مختلف چیزوں میں تصرف مختلف طریقے سے ہوتاہے۔
مسئلہ (۲۱۱۵)ادھار کے معاملے میں ضروری ہے کہ مدت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو۔ لہٰذااگرایک شخص کوئی چیزاس وعدے پربیچے کہ وہ اس کی قیمت فصل اٹھنے پرلے گاتو چونکہ اس کی مدت ٹھیک ٹھیک معین نہیں ہوئی اس لئے سوداباطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۶)اگرکوئی شخص اپنامال ادھار بیچے توجومدت طے ہوئی ہواس کی میعاد پوری ہونے سے پہلے وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگرخریدار مر جائے اوراس کااپناکوئی مال ہوتوبیچنے والاطے شدہ میعادپوری ہونے سے پہلے ہی جورقم لینی ہواس کامطالبہ مرنے والے کے ورثاء سے کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۱۷)اگرکوئی شخص ایک چیزادھاربیچے توطے شدہ مدت گزرنے کے بعد وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ کرسکتاہے لیکن اگرخریدارادائیگی نہ کرسکتاہوتو ضروری ہے کہ بیچنے والااسے مہلت دے یاسوداختم کردے اوراگروہ چیزجوبیچی ہے موجودہوتو اسے واپس لے لے۔
مسئلہ (۲۱۱۸)اگرکوئی شخص ایک ایسے فرد کوجسے کسی چیزکی قیمت معلوم نہ ہواس کی کچھ مقدار ادھاردے اور اس کی قیمت اسے نہ بتائے توسوداباطل ہے۔لیکن اگرایسے شخص کو جسے جنس کی نقدقیمت معلوم ہوادھار پرمہنگے داموں پربیچے مثلاًکہے کہ: جوجنس میں تمہیں ادھار دے رہاہوں اس کی قیمت سے جس پرمیں نقدبیچتاہوں ایک پیسہ فی روپیہ زیادہ لوں گااورخریدار اس شرط کوقبول کرلے توایسے سودے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۱۹)اگرایک شخص نے کوئی جنس ادھار فروخت کی ہواوراس کی قیمت کی ادائیگی کے لئے مدت مقررکی گئی ہوتواگرمثال کے طورپرآدھی مدت گزرنے کے بعد (فروخت کرنے والا) واجب الادا رقم میں کٹوتی کردے اورباقی ماندہ رقم نقدلے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
معاملہ ٔ سلف اور اس کی شرائط
مسئلہ (۲۱۲۰)معاملہ ٔ سلف (پیشگی سودا) سے مرادیہ ہے کہ کوئی شخص نقدرقم لے کر پورامال جووہ مقررہ مدت کے بعدتحویل میں دے گا،بیچ دے لہٰذااگرخریدارکہے کہ میں یہ رقم دے رہاہوں تاکہ مثلاً چھ مہینے بعدفلاں چیزلے لوں اوربیچنے والاکہے کہ میں نے قبول کیایابیچنے والارقم لے لے اورکہے کہ میں نے فلاں چیزبیچی اوراس کا قبضہ چھ مہینے بعد دوں گاتوسوداصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۲۱)اگرکوئی شخص سونے یاچاندی کے سکے بطورسلف بیچے اوراس کے عوض چاندی یاسونے کے سکے لے توسوداباطل ہے لیکن اگرکوئی ایسی چیز یاسکے جوسونے یاچاندی کے نہ ہوں بیچے اوران کے عوض کوئی دوسری چیزیاسونے یاچاندی کے سکے لے توسودا(اس تفصیل کے مطابق) صحیح ہے جوآئندہ مسئلے کی ساتویں شرط میں بتائی جائے گی اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جومال بیچے اس کے عوض رقم لے، کوئی دوسرامال نہ لے۔
مسئلہ (۲۱۲۲)معاملہ ٔ سلف میں سات شرطیں ہیں :
۱:) ان خصوصیات کوجن کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت میں فرق پڑتاہو معین کردیا جائے۔لیکن زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسی قدرکافی ہے کہ لوگ کہیں کہ اس کی خصوصیات معلوم ہوگئی ہیں ۔
۲:) اس سے پہلے کہ خریدار اوربیچنے والاایک دوسرے سے جداہوجائیں خریدار پوری قیمت بیچنے والے کودے یااگربیچنے والاخریدار کااتنی ہی رقم کا مقروض ہو اور خریدار کو اس سے جو کچھ لیناہو اسے مال کی قیمت میں حساب کرلے اور بیچنے والااس بات کو قبول کرے اوراگرخریدار اس مال کی قیمت کی کچھ مقدار بیچنے والے کو دےدے تو اگر چہ اس مقدار کی نسبت سے سوداصحیح ہے۔ لیکن بیچنے والا سودا فسخ کرسکتاہے۔
۳:) مدت کوٹھیک معین کیاجائے۔ مثلاًاگربیچنے والاکہے کہ فصل کاقبضہ کٹائی پر دوں گا توچونکہ اس سے مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین نہیں ہوتااس لئے سوداباطل ہے۔
۴:) جنس کاقبضہ دینےکے لئے ایساوقت معین کیاجائے جس میں بیچنے والاجنس کاقبضہ دے سکے خواہ وہ جنس کمیاب ہویافراوان ہو۔
۵:) جنس کاقبضہ دینے کی جگہ کا تعین( احتیاط واجب کی بناپر)مکمل طور پر کیا جائے ۔ لیکن اگر طرفین کی باتوں سے جگہ کا پتاچل جائے تواس کانام لیناضروری نہیں ۔
۶:) اس جنس کاتول یاناپ یا عدد معین کیاجائے اور جس چیزکاسوداعموماً دیکھ کرکیاجاتا ہے اگر اسے بطورسلف بیچاجائے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مثال کے طورپراخروٹ اور انڈوں کی بعض قسموں میں تعداد کافرق ضروری ہے کہ اتناہوکہ لوگ اسے اہمیت نہ دیں ۔
۷:) جس چیزکوبطورسلف بیچاجائے اگروہ ایسی ہوں جنہیں تول کریاناپ کربیچا جاتا ہےتو اس کا عوض اسی جنس سے نہ ہوبلکہ احتیاط لازم کی بناپردوسری جنس میں سے بھی ایسی چیزنہ ہوجسے تول کریاناپ کربیچاجاتاہے اوراگروہ چیزجسے بیچاجارہاہے ان چیزوں میں سے ہوجنہیں گن کربیچاجاتاہو تو(احتیاط واجب کی بناپر)جائزنہیں ہے کہ اس کاعوض خود اسی کی جنس سے زیادہ مقدارمیں مقررکرے۔
معاملہ ٔ سلف کے احکام
مسئلہ (۲۱۲۳)جوجنس کسی نے بطورسلف خریدی ہواسے وہ مدت ختم ہونے سے پہلے بیچنے والے کے سوا کسی اور کے ہاتھ نہیں بیچ سکتااورمدت ختم ہونے کے بعداگرچہ خریدارنے اس کاقبضہ نہ بھی لیاہواسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ۔البتہ پھلوں کے علاوہ جن غلوں مثلاً گیہوں اورجووغیرہ کوتول کریاناپ کرفروخت کیاجاتاہے انہیں اپنے قبضے میں لینے سے پہلے ان کا دوسرےخریدار کوبیچناجائزنہیں ہے ماسوااس کے کہ جس قیمت پراس نے خریدی ہوں اسی قیمت پریااس سے کم قیمت پربیچے۔
مسئلہ (۲۱۲۴)سلف کے لین دین میں اگربیچنے والامدت ختم ہونے پراس چیزکا قبضہ دے جس کاسوداہواہے توخریدارکےلئے قبول کرنا ضروری ہے اور اگر بہتر دے دیا ہوتو قبول کرنا ضروری ہے البتہ منظور شدہ شرط سے بہتر چیز کی نفی کرنا بہتر ہے ۔
مسئلہ (۲۱۲۵)اگربیچنے والاجوجنس دے وہ اس جنس سے گھٹیاہوجس کاسوداہوا ہے تو خریدار اسے قبول کرنے سے انکار کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۲۶)اگربیچنے والااس جنس کے بجائے جس کاسوداہواہے کوئی دوسری جنس دے اورخریدار اسے لینے پرراضی ہوجائے تواشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۲۷)جوچیزبطورسلف بیچی گئی ہواگروہ خریدار کے حوالے کرنے کے لئے طے شدہ وقت پردستیاب نہ ہوسکے توخریدارکواختیارہے کہ انتظار کرے تاکہ بیچنے والا اسے مہیاکردے یاسودافسخ کردے اور جوچیز بیچنے والے کودی ہواسے واپس لے لے اور (احتیاط واجب کی بناپر)وہ چیزبیچنے والے کوزیادہ قیمت پرنہیں بیچ سکتا۔
مسئلہ (۲۱۲۸)اگرایک شخص کوئی چیز بیچے اورمعاہدہ کرے کہ کچھ مدت بعد وہ چیز خریدار کے حوالے کردے گااور اس کی قیمت بھی کچھ مدت بعدلے گاتوایساسوداباطل ہے۔
سونے چاندی کوسونے چاندی کے عوض بیچنا
مسئلہ (۲۱۲۹)اگرسونے کوسونے سے یاچاندی کوچاندی سے بیچاجائے توچاہے وہ سکہ دارہوں یانہ ہوں اگران میں سے ایک کاوزن دوسرے وزن سے زیادہ ہوتوایساسودا حرام اور باطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۰)اگرسونے کوچاندی سے یاچاندی کوسونے سے نقد بیچاجائے تو سودا صحیح ہے اور ضروری نہیں کہ دونوں کاوزن برابرہو۔لیکن اگرمعاملے میں مدت معین ہوتو باطل ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۱)اگرسونے یاچاندی کوسونے یاچاندی کے عوض بیچاجائے توضروری ہے کہ بیچنے والااور خریدار ایک دوسرے سے جداہونے سے پہلے جنس اور اس کا عوض ایک دوسرے کے حوالے کردیں اور اگرجس چیزکے بارے میں معاملہ طے ہواہے اس کی کچھ مقدار بھی ایک دوسرے کے حوالے نہ کی جائے تومعاملہ باطل ہے اگر کچھ حصہ بھی دےدیا جائے تو اس کی مقدار کے بقدر معاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۲)اگربیچنے والے یاخریدار میں سے کوئی ایک طے شدہ مال پوراپورا دوسرے کے حوالے کردے لیکن دوسرا (مال کی صرف) کچھ مقدارحوالے کرے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جداہوجائیں تو اگرچہ اتنی مقدار کے متعلق معاملہ صحیح ہے لیکن جس کو پورامال نہ ملاہووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۳۳)اگرچاندی کی کان کی مٹی کوخالص چاندی سے اور سونے کی کان کی سونے کی مٹی کوخالص سونے سے بیچاجائے توسوداباطل ہے۔( مگریہ کہ جب جانتے ہوں کہ مثلاً چاندی کی مٹی کی مقدار خالص چاندی کی مقدار کے برابر ہے) لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکاہے چاندی کی مٹی کوسونے کے عوض اورسونے کی مٹی کوچاندی کے عوض بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ۔
معاملہ فسخ کئے جانے کی صورتیں
مسئلہ (۲۱۳۴)معاملہ فسخ کرنے کے حق کو ’’خیار‘‘ کہتے ہیں اورخریدار اوربیچنے والا گیارہ صورتوں میں معاملہ فسخ کرسکتے ہیں :
۱:) جس نشست میں معاملہ ہواہے وہ برخاست نہ ہوئی ہواگرچہ سوداہوچکاہواسے ’’خیارمجلس‘‘ کہتے ہیں ۔
۲:) خریدوفروخت کے معاملے میں خریداریابیچنے والانیزدوسرے معاملات میں طرفین میں سے کوئی ایک مغبون ہوجائے،اسے ’’خیارغبن‘‘ کہتے ہیں (مغبون سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ فراڈکیاگیاہو)خیارکی اس قسم کا منشاعرف عام میں شرط ارتکازی ہوتاہے یعنی ہر معاملے میں فریقین کے ذہن میں یہ شرط موجود ہوتی ہے جو مال حاصل کررہاہے اس کی قیمت مال سے بہت زیادہ کم نہیں جووہ اداکررہاہے اور اگر اس کی قیمت کم ہوتووہ معاملے کوختم کرنے کاحق رکھتاہے لیکن عرف خاص کی چند صورتوں میں ارتکازی شرط دوسری طرح ہومثلاً یہ شرط ہوکہ اگرجومال لیاہووہ بلحاظ قیمت اس مال سے کم ہوجواس نے دیاہے تودونوں (مال) کے درمیان جوکمی بیشی ہوگی اس کا مطالبہ کر سکتاہے اوراگرممکن نہ ہوسکے تومعاملے کوختم کردے اورضروری ہے کہ اس قسم کی صورتوں میں عرف خاص کاخیال رکھاجائے۔
۳:) سوداکرتے وقت یہ طے کیاجائے کہ مقررہ مدت تک فریقین کویاکسی ایک فریق کو سودافسخ کرنے کااختیارہوگا۔اسے ’’خیارشرط‘‘ کہتے ہیں ۔
۴:) فریقین میں سے ایک فریق اپنے مال کواس کی اصلیت سے بہتربتاکرپیش کرے جس کی وجہ سے دوسرافریق اس میں دلچسپی لے یااس کی دلچسپی اس میں بڑھ جائے اسے ’’خیارتدلیس‘‘ کہتے ہیں ۔
۵:) فریقین میں سے ایک فریق دوسرے کے ساتھ شرط کرے کہ وہ فلاں کام انجام دے گااور اس شرط پرعمل نہ ہویاشرط کے بجائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کوایک مخصوص قسم کامعین مال دے گااورجومال دیاجائے اس میں وہ خصوصیت نہ ہو،اس صورت میں شرط لگانے والا فریق معاملے کوفسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیارتخلف شرط‘‘ کہتے ہیں ۔
۶:) دی جانے والی جنس یااس کے عوض میں کوئی عیب ہو۔اسے ’’خیار عیب‘‘ کہتے ہیں ۔
۷:) یہ پتاچلے کہ فریقین نے جس جنس کاسوداکیاہے اس کی کچھ مقدارکسی اورشخص کا مال ہے۔اس صورت میں اگراس مقدارکامالک سودے پرراضی نہ ہوتوخریدنے والا سودا فسخ کرسکتاہے یااگر اتنی مقدار کی ادائیگی کرچکاہوتواسے واپس لے سکتاہے۔اسے ’’خیار شرکت‘‘ کہتے ہیں ۔
۸:) جس معین جنس کودوسرے فریق نے نہ دیکھاہواگراس جنس کامالک اسے اس کی خصوصیات بتائے اوربعدمیں معلوم ہوکہ جوخصوصیات اس نے بتائی تھیں وہ اس میں نہیں ہیں یادوسرے فریق نے پہلے اس جنس کودیکھاتھااوراس کاخیال تھاکہ وہ خصوصیات اب بھی اس میں باقی ہیں لیکن دیکھنے کے بعدمعلوم ہوکہ وہ خصوصیات اب اس میں باقی نہیں ہیں تواس صورت میں دوسرا فریق معاملہ فسخ کرسکتاہے۔ اسے ’’خیار رؤیت‘‘ کہتے ہیں ۔
۹:) خریدارنے جوجنس خریدی ہواگراس کی قیمت تین دن تک نہ دے اور بیچنے والے نے بھی وہ جنس خریدارکے حوالے نہ کی ہوتوبیچنے والاسودے کوختم کرسکتاہے لیکن ایسااس صورت میں ہوسکتاہے جب بیچنے والے نے خریدارکوقیمت اداکرنے کی مہلت دی ہولیکن مدت معین نہ کی ہواور اگراس کوبالکل مہلت نہ دی ہوتوبیچنے والاقیمت کی ادائیگی میں معمولی سی تاخیر سے بھی سوداختم کرسکتا ہے اوراگراسے تین دن سے زیادہ مہلت دی ہوتومدت پوری ہونے سے پہلے سوداختم نہیں کر سکتا۔اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جوجنس بیچی ہے اگروہ بعض ایسے پھلوں یا سبزیوں کی ہو جو تین دن سے پہلے ضائع ہوجاتی ہے تواس کی مہلت کم ہوگی ۔اسے ’’خیارتاخیر‘‘ کہتے ہیں ۔
۱۰:) جس شخص نے کوئی جانورخریداہووہ تین دن تک سودافسخ کرسکتاہے اورجوچیز اس نے بیچی ہواگراس کے عوض میں خریدار نے جانوردیاہوتوجانوربیچنے والابھی تین دن تک سودافسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیارحیوان‘‘ کہتے ہیں ۔
۱۱:) بیچنے والے نے جوچیزبیچی ہواگراس کاقبضہ نہ دے سکے مثلاً جوگھوڑااس نے بیچا ہووہ بھاگ گیاہوتواس صورت میں خریدارسودافسخ کرسکتاہے۔اسے ’’خیار تعذّرتسلیم‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۱۳۵)اگرخریدار کوجنس کی قیمت کاعلم نہ ہویاوہ سوداکرتے وقت غفلت برتے اور اس چیز کو عام قیمت سے مہنگا خریدے اوریہ قیمت خریدبڑی حدتک مہنگی ہوتووہ سوداختم کرسکتاہے بشرطیکہ سوداختم کرتے وقت وہ غبن (فراڈ) باقی ہو ورنہ حق خیار میں اشکال ہےنیز اگربیچنے والے کوجنس کی قیمت کاعلم نہ ہویاسوداکرتے وقت غفلت برتے اوراس جنس کواس کی قیمت سے سستابیچے اور بڑی حد تک سستا بیچے اس صورت میں کہ سستی قیمت عام طور سے قابل توجہ ہو توسابقہ شرط کے مطابق سوداختم کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۶)مشروط خریدوفروخت میں جب کہ مثال کے طورپرایک لاکھ روپے کا مکان پچاس ہزار روپے میں بیچ دیاجائے اورطے کیاجائے کہ اگربیچنے والامقررہ مدت تک رقم واپس کردے توسودافسخ کرسکتاہے تواگرخریدار اوربیچنے والا واقعی خریدوفروخت کی نیت رکھتے ہوں توسوداصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۳۷)مشروط خریدوفروخت میں اگربیچنے والے کواطمینان ہوکہ خریدار مقررہ مدت میں رقم ادا نہ کرسکنے کی صورت میں مال اسے واپس کردے گا توسودا صحیح ہے لیکن اگروہ مدت ختم ہونے تک رقم ادانہ کرسکے تووہ خریدارسے مال کی واپسی کامطالبہ کرنے کاحق نہیں رکھتااور اگرخریدار مرجائے تواس کے ورثاء سے مال کی واپسی کامطالبہ نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۳۸)اگرکوئی شخص عمدہ چائے میں گھٹیاچائے کی ملاوٹ کرکے عمدہ چائے کے طورپربیچے تو خریدارسودافسخ سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۳۹)اگرخریدارکوپتاچلے کہ جومعین مال اس نے خریداہے وہ عیب دار ہے مثلاً ایک جانور خریدے اور (خریدنے کے بعد) اسے پتاچلے کہ اس کی ایک آنکھ نہیں ہے لہٰذا اگریہ عیب مال میں سودے سے پہلے تھااوراسے علم نہیں تھاتووہ سودافسخ کر سکتا ہے اورمال بیچنے والے کوواپس کرسکتاہے اور اگرواپس کرناممکن نہ ہومثلاًاس مال میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہویاایساتصرف کرلیاگیاہوجوواپسی میں رکاوٹ بن رہاہوتوجسے اس نے بیچ دیا ہو کرایہ پر دے دیا ہو یا کپڑے کو کاٹ دیا یا سل دیا ہواس صورت میں وہ بے عیب اورعیب دار مال کی قیمت کے فرق کاحساب کرکے بیچنے والے سے (فرق کی) رقم واپس لے لے مثلاً اگراس نے کوئی مال چارروپے میں خریداہواور اسے اس کے عیب دارہونے کاعلم ہوجائے تواگرایساہی بے عیب مال (بازارمیں ) آٹھ روپے کااورعیب دارچھ روپے کاہوتوچونکہ بے عیب اورعیب دارکی قیمت کافرق ایک چوتھائی ہے اس لئے اس نے جتنی رقم دی ہے اس کاایک چوتھائی یعنی ایک روپیہ بیچنے والے سے واپس لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۰)اگربیچنے والے کوپتاچلے کہ اس نے جس معین عوض کے بدلے اپنا مال بیچاہے اس میں عیب ہے تواگروہ عیب اس عوض میں سودے سے پہلے موجودتھااور اسے علم نہ ہواہووہ سودافسخ کر سکتاہے اوروہ عوض اس کے مالک کوواپس کرسکتاہے لیکن اگر تبدیلی یاتصرف کی وجہ سے واپس نہ کر سکے توبے عیب کی قیمت کافرق اس قاعدے کے مطابق لے سکتاہے جس کاذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۱)اگرسوداکرنے کے بعداورقبضہ دینے سے پہلے مال میں کوئی عیب پیداہوجائے توخریدار سودافسخ کرسکتاہے نیزجوچیزمال کے عوض دی جائے اگراس میں سوداکرنے کے بعداورقبضہ دینے سے پہلے کوئی عیب پیداہوجائے توبیچنے والاسودافسخ کر سکتاہے اوراگرفریقین قیمت کافرق لیناچاہیں توواپس کرنا ناممکن ہونے کی صورت میں جائزہے۔
مسئلہ (۲۱۴۲)اگرکسی شخص کومال کے عیب کاعلم سوداکرنے کے بعدہوتواگروہ (سوداختم کرنا) چاہے توضروری ہے کہ فوراً سودے کوختم کردے( اور اختلاف کی صورتوں کو پیش نظررکھتے ہوئے) اگرمعمول سے زیادہ تاخیرکرے تووہ سودے کوختم نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۴۳)جب کسی شخص کوکوئی جنس خریدنے کے بعداس کے عیب کاپتاچلے تو خواہ بیچنے والااس پر تیارنہ بھی ہوخریدارسودافسخ کرسکتاہے اور دوسرے خیارات کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۴۴)دوصورتوں میں خریدارمال میں عیب ہونے کی بناپرسودافسخ نہیں کر سکتااورنہ ہی قیمت کافرق لے سکتاہے:
۱:) خریدتے وقت مال کے عیب سے واقف ہو۔
۲:)سودے کے وقت بیچنے والاکہے: ’’میں اس مال کوجوعیب بھی اس میں ہے اس کے ساتھ بیچتاہوں ‘‘۔ لیکن اگروہ ایک عیب کاتعین کردے اورکہے: ’’میں اس مال کوفلاں عیب کے ساتھ بیچ رہا ہوں ‘‘ اور بعدمیں معلوم ہوکہ مال میں کوئی دوسراعیب بھی ہے تو جو عیب بیچنے والے نے معین نہ کیاہواس کی بناپرخریداروہ مال واپس کرسکتاہے اور اگرواپس نہ کرسکے توقیمت کافرق لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۵)اگرخریدار کومعلوم ہوکہ مال میں ایک عیب ہے اوراسے وصول کرنے کے بعداس میں کوئی اورعیب نکل آئے تووہ سودافسخ نہیں کرسکتالیکن بے عیب اور عیب دار مال کافرق لے سکتاہے لیکن اگروہ عیب دارحیوان خریدے اورخیارکی مدت جو تین دن ہے گزرنے سے پہلے اس حیوان میں کسی اورعیب کاپتاچل جائے توگوخریدار نے اپنی تحویل میں لے لیاہوپھربھی وہ اسے واپس کرسکتاہے۔نیزاگرفقط خریدارکوکچھ مدت تک سودافسخ کرنے کاحق حاصل ہواوراس مدت کے دوران مال میں کوئی دوسرا عیب نکل آئے تواگرچہ خریدار نے وہ مال اپنی تحویل میں لے لیاہووہ سودافسخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۱۴۶)اگرکسی شخص کے پاس ایسامال ہوجسے اس نے بچشم خودنہ دیکھاہواور کسی دوسرے شخص نے مال کی خصوصیات اسے بتائی ہوں اوروہی خصوصیات خریدار کو بتائے اوروہ مال اس کے ہاتھ بیچ دے اوربعدمیں اسے (یعنی مالک کو) پتاچلے کہ وہ مال اس سے بہترخصوصیات کاحامل ہے تووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
متفرق مسائل
مسئلہ (۲۱۴۷)اگربیچنے والاخریدارکوکسی جنس کی قیمت خریدبتائے توضروری ہے کہ وہ تمام چیزیں بھی اسے بتائے جن کی وجہ سے مال کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے اگرچہ اسی قیمت پر (جس پرخریداہے) یااس سے بھی کم قیمت پربیچے۔مثلاًاسے بتاناضروری ہے کہ مال نقدخریداہے یاادھارلہٰذااگرمال کی کچھ خصوصیات نہ بتائے اورخریدار کوبعدمیں معلوم ہوتووہ سودافسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۴۸)اگرانسان کوئی جنس کسی کودے اوراس کی قیمت معین کردے اور کہے: ’’یہ جنس اس قیمت پربیچواوراس سے زیادہ جتنی قیمت وصول کروگے وہ تمہاری محنت کی اجرت ہوگی‘‘تواس صورت میں وہ شخص اس قیمت سے زیادہ جتنی قیمت بھی وصول کرے وہ جنس کے مالک کامال ہوگااوربیچنے والا مالک سے فقط محنتانہ لے سکتاہے لیکن اگر معاہدہ بطورجعالہ (حق العمل) ہواورمال کامالک کہے کہ اگرتونے یہ جنس اس قیمت سے زیادہ پربیچی توفاضل آمدنی تیرامال ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۴۹)اگرقصاب نرجانورکاگوشت کہہ کرمادہ کاگوشت بیچے تووہ گنہگار ہوگا لہٰذااگروہ اس گوشت کومعین کردے اورکہے کہ میں یہ نرجانورکاگوشت بیچ رہاہوں تو خریدار سودافسخ کرسکتاہے اور اگرقصاب اس گوشت کومعین نہ کرے اورخریدار کوجوگوشت ملاہو (یعنی مادہ کاگوشت) وہ اس پرراضی نہ ہوتوضروری ہے کہ قصاب اسے نرجانورکا گوشت دے۔
مسئلہ (۲۱۵۰)اگرخریداربزازسے کہے کہ مجھے ایساکپڑاچاہئے جس کارنگ کچانہ ہو اور بزازایک ایساکپڑااس کے ہاتھ فروخت کرے جس کارنگ کچاہوتوخریدارسودا فسخ کر سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۵۱)اگر جنس بیچنے والا جنس کو فروخت کرے جسے قبضہ میں نہیں دےسکتا جیسے کسی ایسے گھوڑے کو بیچے جو بھاگ گیا ہو تو اس صورت میں معاملہ باطل ہوجائے گا اور خریدنے والا اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
شراکت کے احکام
مسئلہ (۲۱۵۲)دوآدمی اگرباہم طے کریں کہ اپنے مشترک مال سے تجارت کرکےجو کچھ نفع کمائیں گے اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے اور وہ عربی یا کسی اورزبان میں شراکت کاصیغہ پڑھیں یاکوئی ایساکام کریں جس سے ظاہرہوتاہوکہ وہ ایک دوسرے کے شریک بنناچاہتے ہیں توان کی شراکت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۳)اگرچنداشخاص اس مزدوری میں جووہ اپنی محنت سے حاصل کرتے ہوں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کریں مثلاً چنددلاک(حمام میں بدن کی مالش کرنے اور میل نکالنے والے) آپس میں طے کریں کہ جواجرت حاصل ہوگی اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے توان کی شراکت صحیح نہیں ہے۔لیکن اگرباہم طے کرلیں کہ مثلاًہرایک کی آدھی مزدوری معین مدت تک کے لئے دوسرے کی آدھی مزدوری کے بدلے میں ہوگی تومعاملہ صحیح ہے اوران میں سے ہرایک دوسرے کی مزدوری میں شریک ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۵۴)اگردواشخاص آپس میں اس طرح شراکت کریں کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری پرجنس خریدے اوراس کی قیمت کی ادائگی کابھی خودمقروض ہو لیکن جوجنس انہوں نے خریدی ہواس کے نفع میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں تو ایسی شراکت صحیح نہیں ، البتہ اگران میں سے ہر ایک دوسرے کواپناوکیل بنائے کہ جوکچھ وہ ادھارلے رہاہے اس میں اسے شریک کرلے یعنی جنس کو اپنے اوراپنے حصہ دارکےلئے خریدے جس کی بناپردونوں مقروض ہوجائیں تودونوں میں سے ہرایک جنس میں شریک ہو جائے گا۔
مسئلہ (۲۱۵۵)جواشخاص شراکت کے ذریعے ایک دوسرے کے شریک کاربن جائیں ان کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہوں نیزیہ کہ ارادے اور اختیارکے ساتھ شراکت کریں اوریہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں تصرف کرسکتے ہوں لہٰذا چونکہ سفیہ(جواپنامال احمقانہ اورفضول کاموں پرخرچ کرتاہے) اپنے مال میں تصرف کاحق نہیں رکھتااگروہ کسی کے ساتھ شراکت کرے توصحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۶)اگرشراکت کے معاہدے میں یہ شرط لگائی جائے کہ جوشخص کام کرے گایاجودوسرے شریک سے زیادہ کام کرے گایاجس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ہے اسے منافع میں زیادہ حصہ ملے گاتوضروری ہے کہ جیسا طے کیاگیاہومتعلقہ شخص کواس کے مطابق دیں اوراسی طرح اگرشرط لگائی جائے کہ جو شخص کام نہیں کرے گایازیادہ کام نہیں کرے گایاجس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں ہے اسے منافع کازیادہ حصہ ملے گاتب بھی شرط صحیح ہے اور جیساطے کیاگیاہومتعلقہ شخص کواس کے مطابق دیں ۔
مسئلہ (۲۱۵۷)اگرشرکاء طے کریں کہ سارامنافع کسی ایک شخص کاہوگایاسارا نقصان کسی ایک کوبرداشت کرناہوگاتوشراکت صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۵۸)اگرشرکاء یہ طے نہ کریں کہ کسی ایک شریک کوزیادہ منافع ملے گاتو اگران میں سے ہر ایک کاسرمایہ برابرہوتونفع نقصان بھی ان کے مابین برابر تقسیم ہوگا اوران کاسرمایہ برابربرابرنہ ہوتو ضروری ہے کہ نفع نقصان سرمائے کی نسبت سے تقسیم کریں مثلاًاگردوافراد شراکت کریں اورایک کا سرمایہ دوسرے کے سرمائے سے دگنا ہو تو نفع نقصان میں بھی اس کاحصہ دوسرے سے دگناہوگاخواہ دونوں ایک جتناکام کریں یا ایک تھوڑاکام کرے یابالکل کام نہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۵۹)اگرشراکت کے معاہدے میں یہ طے کیاجائے کہ دونوں شریک مل کرخریدوفروخت کریں گے یاہرایک انفرادی طورپرلین دین کرنے کامجازہوگایاان میں سے فقط ایک شخص لین دین کرے گایاتیسرےشخص کو اجرت پرمعاملہ کےلئے قرار دےگاتوضروری ہے کہ اس معاہدے پرعمل کریں ۔
مسئلہ (۲۱۶۰)شرکت کی دو قسمیں ہیں :(۱)شرکت اذنی: اس کو کہتے ہیں جب مال تجارت کی مقدار شرکاء کے درمیان معین نہ ہو اور پہلے سے کسی کے لئے کچھ مقدار طے بھی نہ ہو۔(۲)شرکت عوضی: یعنی جب دوشریک اپنے اپنے مال شرکت کےلئے اکٹھا کریں تاکہ آخر میں ہر ایک اپنے اپنے حصہ کا نصف مال سے شریک کے نصف مال سے عوض کرلیں ۔ لہٰذا اگردونوں میں کسی ایک کا بھی معین نہ کیا ہو کہ کس مال سے خریدوفروخت ہوگی شرکت اذنی میں کوئی شریک اپنے ساتھی شریک کی اجازت کے بغیر اس مال سے تجارت نہیں کرسکتا لیکن شریک عوضی میں ہر شریک کو حق ہے کہ شرکت کی منفعت کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۱۶۱)جوشریک شراکت کے سرمائے پراختیار رکھتاہواس کے لئے ضروری ہے کہ شراکت کے معاہدے پرعمل کرے مثلاً اگراس سے طے کیاگیاہوکہ ادھار خریدے گا یانقد بیچے گایا کسی خاص جگہ سے خریدے گاتوجومعاہدہ طے پایاہے اس کے مطابق عمل کرناضروری ہے اوراگراس کے ساتھ کچھ طے نہ ہواہوتوضروری ہے کہ معمول کے مطابق لین دین کرے تاکہ شراکت کونقصان نہ ہو۔
مسئلہ (۲۱۶۲)جوشریک شراکت کے سرمائے سے سودے کرتاہواگرجوکچھ اس کے ساتھ طے کیاگیاہو اس کے برخلاف خریدوفروخت کرے یااگرکچھ طے نہ کیاگیاہو اور معمول کے خلاف سوداکرے توان دونوں صورتوں میں اگرچہ( اقویٰ قول کی بناپر) معاملہ صحیح ہے لیکن اگرمعاملہ نقصان دہ ہویاشراکت کے مال میں سے کچھ مال ضائع ہوجائے تو جس شریک نے معاہدے یاعام روش کے خلاف عمل کیاہووہ ضامن ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۶۳)جوشریک شراکت کے سرمائے سے کاروبارکرتاہواگروہ فضول خرچی نہ کرے اور سرمائے کی نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کرے اورپھراتفاقاً اس سرمائے کی کچھ مقداریاسارے کاسارا سرمایہ تلف ہوجائے تووہ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۱۶۴)جوشریک شراکت کے سرمائے سے کاروبارکرتاہواگروہ کہے کہ سرمایہ تلف ہوگیاہے تو اگروہ دوسرے شرکاء کے نزدیک معتبرشخص ہوتوضروری ہے کہ اس کا کہامان لیں اوراگردوسرے شرکاء کے نزدیک وہ معتبرشخص نہ ہوتوشرکاء حاکم شرع کے پاس اس کے خلاف دعویٰ کرسکتے ہیں تاکہ حاکم شرع قضاوت کے اصولوں کے مطابق تنازع کافیصلہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۶۵)اگرتمام شریک اس اجازت سے جوانہوں نے ایک دوسرے کو مال میں تصرف کے لئے دے رکھی ہوپھرجائیں توان میں سے کوئی بھی شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتااوراگران میں سے ایک اپنی دی ہوئی اجازت سے پھرجائے تو دوسرے شرکاء کوتصرف کاکوئی حق نہیں لیکن جوشخص اپنی دی ہوئی اجازت سے پھرگیاہو وہ شراکت کے مال میں تصرف کرسکتاہے اور تمام صورتوں میں سرمایہ میں سب کی شراکت اپنی حالت پر باقی رہے گی۔
مسئلہ (۲۱۶۶)جب شرکاء میں سے کوئی ایک تقاضاکرے کہ شراکت کاسرمایہ تقسیم کردیاجائے تواگرچہ شراکت کی معینہ مدت میں ابھی کچھ وقت باقی ہودوسروں کواس کا کہنا مان لیناضروری ہے مگریہ کہ انہوں نے پہلے ہی (معاہدہ کرتے وقت) سرمائے کی تقسیم کوردکردیاہو(یعنی بعض شریک کی طرف سے تقسیم مال کی ضرورت ہو) یامال کی تقسیم شرکاء کے لئے قابل ذکرنقصان کا موجب ہو (تواس کی بات قبول نہیں کرنی چاہئے)۔
مسئلہ (۲۱۶۷)اگرشرکاء میں سے کوئی مرجائے یادیوانہ یابے حواس ہوجائے تو دوسرے شرکاء شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتے اوراگران میں سے کوئی سفیہ ہو جائے یعنی اپنامال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرے تواس کابھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۶۸)اگرشریک اپنے لئے کوئی چیزادھار خریدے تواس نفع نقصان کاوہ خود ذمہ دارہے لیکن اگرشراکت کے لئے خریدے اور شراکت کے معاہدے میں ادھار معاملہ کرنابھی شامل ہوتوپھرنفع نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
مسئلہ (۲۱۶۹)اگرشراکت کے سرمائے سے کوئی معاملہ کیاجائے اوربعدمیں معلوم ہو کہ شراکت باطل تھی تو اگرصورت یہ ہوکہ معاملہ کرنے کی اجازت میں شراکت کے صحیح ہونے کی قیدنہ تھی یعنی اگرشرکاء جانتے ہوتے کہ شراکت درست نہیں ہے تب بھی وہ ایک دوسرے کے مال میں تصرف پرراضی ہوتے تومعاملہ صحیح ہے اورجوکچھ اس معاملے سے حاصل ہووہ ان سب کامال ہے اوراگرصورت یہ نہ ہوتوجولوگ دوسروں کے تصرف پر راضی نہ ہوں اگروہ یہ کہہ دیں کہ ہم اس معاملے پرراضی ہیں تو معاملہ صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔ دونوں صورتوں میں ان میں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کام کیاہواگراس نے بلا معاوضہ کام کرنے کے ارادے سے نہ کیاہوتووہ اپنی محنت کامعاوضہ معمول کے مطابق دوسرے شرکاء سے ان کے مفاد کاخیال رکھتے ہوئے لے سکتاہے۔لیکن اگرکام کرنے کامعاوضہ اس فائدہ کی مقدار سے زیادہ ہوجووہ شراکت صحیح ہونے کی صورت میں لیتاتووہ بس اسی قدرفائدہ لے سکتاہے۔
صلح کے احکام
مسئلہ (۲۱۷۰)’’صلح‘‘ سے مرادہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس بات پراتفاق کرے کہ اپنے مال سے یااپنے مال کے منافع سے کچھ مقداردوسرے کو دے دے یااپناقرض یاحق چھوڑدے تاکہ دوسرابھی اس کے عوض اپنے مال یا اپنے منافع کی کچھ مقداراسے دے دے یاقرض یاحق سے دستبردار ہو جائے۔ بلکہ اگرکوئی شخص عوض لئے بغیرکسی سے اتفاق کرے اور اپنامال یامال کے منافع کی کچھ مقدار اس کودے دے یا اپناقرض یاحق چھوڑدے تب بھی صلح صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۱)جوشخص اپنامال بطورصلح دوسرے کودے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بالغ اورعاقل ہواور صلح کاقصدرکھتاہونیزیہ کہ کسی نے اس صلح پرمجبورنہ کیاہواورضروری ہے کہ سفیہ یادیوالیہ ہونے کی بناپراسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے نہ روکاگیاہو۔
مسئلہ (۲۱۷۲)صلح کاصیغہ عربی میں پڑھناضروری نہیں بلکہ جن الفاظ سے اس بات کا اظہارہوکہ فریقین نے آپس میں صلح کی ہےتوصلح صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۳)اگرکوئی شخص اپنی بھیڑیں چرواہے کودے تاکہ وہ مثلاً ایک سال ان کی نگہداشت کرے اور ان کے دودھ سے خوداستفادہ کرے اورگھی کی کچھ مقدار مالک کودے تواگرچرواہے کی محنت اوراس گھی کے مقابلے میں وہ شخص بھیڑوں کے دودھ پر مصالحت کرلے تومعاملہ صحیح ہے بلکہ اگربھیڑیں چرواہے کوایک سال کے لئے اس شرط کے ساتھ اجارے پردے کہ وہ ان کے دودھ سے استفادہ کرے اوراس کے عوض اسے کچھ گھی دے مگریہ قیدنہ لگائے کہ بالخصوص انھی بھیڑوں کے دودھ وگھی ہوتواجارہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۴)اگرکوئی قرض خواہ اس قرض کے بدلے جواسے مقروض سے وصول کرناہے یااپنے حق کے بدلے اس شخص سے صلح کرناچاہے تویہ صلح اس صورت میں صحیح ہے جب دوسرااسے قبول کرلے لیکن اگرکوئی شخص اپنے قرض یاحق سے دستبردار ہونا چاہے تودوسرے کاقبول کرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۲۱۷۵)اگرمقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتاہوجب کہ قرض خواہ کوعلم نہ ہو اور قرض خواہ نے جو کچھ لیناہواس سے کم پرصلح کرلے مثلاً اس کو پچاس روپے لینے ہوں اوردس روپے پرصلح کرلے تو باقیماندہ رقم مقروض کے لئے حلال نہیں ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ جتنے کا مقروض ہے اس کے متعلق خودقرضہ کی مقدار کو بتائے اور اسے راضی کرلے یاصورت ایسی ہوکہ اگرقرضہ کی مقدار کوقرضے کی مقدارکاعلم ہوتاتب بھی وہ اسی مقدار (یعنی دس روپے) پرصلح کرلیتا۔
مسئلہ (۲۱۷۶)اگردوآدمیوں کے پاس کوئی مال موجودہویاایک دوسرے کے ذمہ کوئی مال باقی ہواور انہیں یہ علم ہوکہ ان دونوں اموال میں سے ایک مال دوسرے مال سے زیادہ ہے توچونکہ ان دونوں اموال کوایک دوسرے کے عوض میں فروخت کرنا سودہونے کی بناپرحرام ہے اس لئے ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح کرنابھی حرام ہے بلکہ اگران دونوں اموال میں سے ایک کے دوسرے سے زیادہ ہونے کاعلم نہ بھی ہولیکن زیادہ ہونے کااحتمال ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر)ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح نہیں کی جاسکتی۔
مسئلہ (۲۱۷۷)اگردواشخاص کوایک شخص سے یادواشخاص کودو اشخاص سے قرضہ وصول کرناہواوروہ اپنی اپنی طلب پرایک دوسرے سے صلح کرناچاہتے ہوں ۔چنانچہ اگر صلح کرناسود کاباعث نہ ہوجیساکہ سابقہ مسئلے میں کہاگیاہے توکوئی حرج نہیں ہے مثلاً اگر دونوں کودس من گیہوں وصول کرناہو(اورایک کاگیہوں اعلیٰ اوردوسرے کادرمیانی درجے کا ہو)اوردونوں کی مدت پوری ہوچکی ہوتوان دونوں کاآپس میں مصالحت کرنا صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۷۸)اگرایک شخص کوکسی سے اپناقرضہ کچھ مدت کے بعدواپس لیناہو اور وہ مقروض کے ساتھ مقررہ مدت سے پہلے معین مقدارسے کم پرصلح کرلے اوراس کا مقصد یہ ہوکہ اپنے قرضے کاکچھ حصہ معاف کردے اورباقیماندہ نقدلے لے تواس میں کوئی حرج نہیں اوریہ حکم اس صورت میں ہے کہ قرضہ سونے یاچاندی کی شکل میں یاکسی ایسی جنس کی شکل میں ہوجوناپ کریاتول کربیچی جاتی ہے اور اگرجنس اس قسم کی نہ ہو توقرض خواہ کے لئے جائزہے کہ اپنے قرضے کی مقروض سے یاکسی اورشخص سے کمترمقدار پرصلح کرلے یابیچ دے جیساکہ مسئلہ ( ۲۳۰۷ )میں بیان ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۷۹)اگردو اشخاص کسی چیزپرآپس میں صلح کرلیں توایک دوسرے کی رضا مندی سے اس صلح کو توڑسکتے ہیں ۔نیزاگرسودے کے سلسلے میں دونوں کویاکسی ایک کو سودا فسخ کرنے کاحق دیاگیاہوتوجس کے پاس حق ہے،وہ صلح کوفسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۰)جب تک خریداراوربیچنے والےایک دوسرے سے جدانہ ہوگئے ہوں وہ سودے کوفسخ کرسکتے ہیں ۔نیزاگرخریدارایک جانورخریدے تووہ تین دن تک سودافسخ کرنے کاحق رکھتاہے۔اسی طرح اگر ایک خریدارخریدی ہوئی جنس کی قیمت تین دن تک ادانہ کرے اورجنس کواپنی تحویل میں نہ لے توجیساکہ مسئلہ ( ۲۱۳۴ )میں بیان ہو چکا ہے بیچنے والاسودے کوفسخ کرسکتاہے۔لیکن جوشخص کسی مال پرصلح کرے وہ ان تینوں صورتوں میں صلح فسخ کرنے کاحق نہیں رکھتا۔لیکن اگرصلح کادوسرافریق مصالحت کامال دینے میں غیر معمولی تاخیرکرے یایہ شرط رکھی گئی ہوکہ مصالحت کامال نقددیاجائے اور دوسرافریق اس شرط پر عمل نہ کرے تواس صورت میں صلح فسخ کی جاسکتی ہے اور اسی طرح باقی صورتوں میں بھی جن کاذکر خریدوفروخت کے احکام میں آیاہے صلح فسخ کی جاسکتی ہے مگرمصالحت کے دونوں فریقوں میں سے ایک کو نقصان اور اگر صلح رفع نزاع کےلئے ہو تو صلح کوتوڑا نہیں جاسکتا ہےبلکہ اس صورت کے علاوہ بھی (احتیاط واجب کی بناء پر) نقصان اٹھانے والے کےلئے ضروری ہےکہ معاملہ فسخ نہ کرے۔
مسئلہ (۲۱۸۱)جوچیزبذریعہ صلح ملے اگروہ عیب دارہوتوصلح فسخ کی جاسکتی ہے لیکن اگرمتعلقہ شخص بے عیب اورعیب دارکے مابین قیمت کافرق لیناچاہے تواس میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۸۲)اگرکوئی شخص اپنے مال کے ذریعے دوسرے سے صلح کرے اور اس کے ساتھ شرط لگائے اورکہے: ’’جس چیزپرمیں نے تم سے صلح کی ہے میرے مرنے کے بعد مثلاًتم اسے وقف کردوگے‘‘ اوردوسراشخص بھی اس کوقبول کرلے توضروری ہے کہ اس شرط پرعمل کرے۔
کرائے کے احکام
مسئلہ (۲۱۸۳)کوئی چیزکرائے پردینے والے اورکرائے پرلینے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں اورکرایہ لینے یاکرایہ دینے کاکام اپنے اختیارسے کریں اوریہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مال میں تصرف کاحق رکھتے ہوں لہٰذا چونکہ سفیہ اپنے مال میں تصرف کرنے کاحق نہیں رکھتااس لئے نہ وہ کوئی چیزکرائے پرلے سکتاہے اور نہ دے سکتاہے۔اسی طرح جوشخص دیوالیہ ہوچکاہووہ ان چیزوں کو کرائے پرنہیں دے سکتاجن میں وہ تصرف کاحق نہ رکھتاہواورنہ وہ ان میں سے کوئی چیزکرائے پرلے سکتاہے لیکن اپنی خدمات کوکرائے پرپیش کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۴)انسان دوسرے کی طرف سے وکیل بن کراس کامال کرائے پردے سکتاہے یاکوئی مال اس کے لئے کرائے پرلے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۵)اگربچے کاسرپرست یااس کے مال کامنتظم بچے کامال کرائے پردے یابچے کوکسی کااجیر مقررکردے توکوئی حرج نہیں اوراگربچے کوبالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کوبھی اجارے کی مدت کاحصہ قراردیاجائے توبچہ بالغ ہونے کے بعد باقیماندہ اجارہ فسخ کرسکتاہے اگرچہ صورت یہ ہوکہ اگربچے کے بالغ ہونے کی کچھ مدت کو اجارہ کی مدت کاحصہ نہ بنایاجاتاتویہ بچے کی مصلحت کےخلاف ہوتا۔ہاں اگر وہ مصلحت کہ جس کے بارے میں یہ علم ہوکہ شارع مقدس اس مصلحت کوترک کرنے پر راضی نہیں ہے اس صورت میں اگرحاکم شرع کی اجازت سے اجارہ واقع ہوجائے توبچہ بالغ ہونے کے بعداجارہ فسخ نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۱۸۶)جس نابالغ بچے کاسرپرست نہ ہواسے مجتہدکی اجازت کے بغیر مزدوری پرنہیں لگایاجاسکتااورجس شخص کی رسائی مجتہدتک نہ ہووہ ایک مومن شخص کی اجازت لے کرجوعادل ہوبچے کومزدوری پرلگاسکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۸۷)اجارہ دینے والے اوراجارہ لینے والے کے لئے ضروری نہیں کہ صیغہ عربی زبان میں پڑھیں بلکہ اگرکسی چیزکامالک دوسرے سے کہے کہ: میں نے اپنا مال تمہیں اجارے پردیااوردوسراکہے کہ: میں نے قبول کیاتواجارہ صحیح ہے بلکہ اگروہ منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اورمالک اپنامال اجارے کے قصد سے مستاجرکودے اوروہ بھی اجارے کے قصدسے لے تواجارہ صحیح ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۸۸)اگرکوئی شخص چاہے کہ اجارے کاصیغہ پڑھے بغیرکوئی کام کرنے کے لئے اجیربن جائے توجیسے ہی وہ کام کرنے میں مشغول ہوگااجارہ صحیح ہوجائے گا۔
مسئلہ (۲۱۸۹)جوشخص بول نہ سکتاہواگروہ اشارے سے سمجھادے کہ اس نے کوئی چیز اجارے پردی ہے یااجارہ پرلی ہے تواجارہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۱۹۰)اگرکوئی شخص مکان یادکان یاکوئی بھی چیزاجارے پرلے اوراس کا مالک یہ شرط لگائے کہ صرف وہ اس سے استفادہ کرسکتاہے تومستاجراسے کسی دوسرے کو استعمال کے لئے اجارے پرنہیں دے سکتابجز اس کے کہ وہ نیااجارہ اس طرح ہوکہ اس کے فوائد بھی خودمستاجرسے مخصوص ہوں ۔مثلاًایک عورت ایک مکان یاکمرہ کرائے پر لے اوربعدمیں شادی کرلے اورکمرہ یامکان اپنی رہائش کے لئے کرائے پردے دے یعنی شوہرکوکرائے پردے کیونکہ بیوی کی رہائش کاانتظام بھی شوہرکی ذمہ داری ہے اوراگرمالک ایسی کوئی شرط نہ لگائے تومستاجر اسے دوسرے کو کرائے پردے سکتاہے۔ البتہ ملکیت کودوسرےمستاجرکے سپردکرنے کے لئے( احتیاط کی بناپر)ضروری ہے کہ مالک سے اجازت لے لے لیکن اگروہ یہ چاہے کہ جتنے کرائے پرلیاہے اس سے زیادہ کرائے پر دے اگرچہ (کرایہ رقم نہ ہو) دوسری جنس سے ہو مثلاً گھر، دوکان،کشتی توضروری ہے کہ اس نے مرمت اور سفیدی وغیرہ کرائی ہویااس کی حفاظت کے لئے کچھ نقصان برداشت کیاہوتووہ اسے زیادہ کرائے پردے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۹۱)اگراجیرمستاجرسے یہ شرط طے کرے کہ وہ فقط اسی کاکام کرے گا تو بجزاس صورت کے جس کاذکرسابقہ مسئلے میں کیاگیاہے اس اجیرکوکسی دوسرے شخص کو بطور اجارہ نہیں دیاجاسکتااوراگراجیر ایسی کوئی شرط نہ لگائے تواسے دوسرے کواجارے پردے سکتاہے لیکن جوچیزاس کواجارے پردے رہاہے ضروری ہے کہ اس کی قیمت اس ا جارے سے زیادہ نہ ہوجواجیرکے لئے قراردیاہے اور اسی طرح اگرکوئی شخص خودکسی کااجیربن جائے اورکسی دوسرے شخص کووہ کام کرنے کے لئے کم اجرت پررکھ لے تواس کے لئے بھی یہی حکم ہےیعنی وہ اسے کم اجرت پرنہیں رکھ سکتا لیکن اگراس نے کام کی کچھ مقدار خود انجام دی ہوتوپھردوسرے کوکم اجرت پربھی رکھ سکتاہے۔
مسئلہ (۲۱۹۲)اگرکوئی شخص مکان، دکان، کمرے اورکشتی کے علاوہ کوئی اورچیز مثلاً زمین کرائے پرلے اورزمین کامالک اس سے یہ شرط نہ کرے کہ صرف وہی اس سے استفادہ کرسکتاہے تواگرجتنے کرائے پر اس نے وہ چیزلی ہے اس سے زیادہ کرائے پر دے تواجارہ صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۱۹۳)اگرکوئی شخص مکان یادکان مثلاًایک سال کے لئے سوروپیہ کرائے پر لے اور اس کاآدھاحصہ خوداستعمال کرے تودوسراحصہ سوروپیہ کرائے پرچڑھاسکتا ہے لیکن اگروہ چاہے کہ مکان یادکان کا آدھاحصہ اس سے زیادہ کرائے پرچڑھادے جس پر اس نے خودوہ دکان یامکان کرائے پرلیاہے مثلاً (۱۲۰؍)روپے کرائے پردے دے تو ضروری ہے کہ اس نے اس میں مرمت وغیرہ کاکام کرایاہو۔
کرائے پردیئے جانے والے مال کے شرائط
مسئلہ (۲۱۹۴)جومال اجارے پردیاجائے اس کے چندشرائط ہیں :
۱:) وہ مال معین ہو۔لہٰذااگرکوئی شخص کہے کہ میں نے اپنے مکانات میں سے ایک مکان تمہیں کرائے پردیاتویہ درست نہیں ہے۔
۲:)مستاجریعنی کرائے پر لینے والا اس مال کودیکھ لے اور مال موجود نہیں یا مجمل ہے تواجارہ پردینے والا شخص اپنے مال کی خصوصیات اس طرح بیان کرے کہ اجارہ پر لینے والا راغب ہوسکے۔
۳:)اجارے پردیئے جانے والے مال کودوسرے فریق کے سپردکرناممکن ہولہٰذا اس گھوڑے کواجارے پردیناجوبھاگ گیاہواگرمستاجراس کونہ پکڑسکے تواجارہ باطل ہے اور اگرپکڑسکے تواجارہ صحیح ہے۔
۴:)اس مال سے استفادہ کرنااس کے ختم یاکالعدم ہوجانے پرموقوف نہ ہو لہٰذا روٹی، پھلوں اوردوسری کھانے والی اشیاء کوکھانے کے لئے کرائے پردیناصحیح نہیں ہے۔
۵:)مال سے وہ فائدہ اٹھاناممکن ہوجس کے لئے اسے کرائے پردیاجائے۔ لہٰذا ایسی زمین کازراعت کے لئے کرائے پردیناجس کے لئے بارش کاپانی کافی نہ ہواوروہ دریا کے پانی سے بھی سیراب نہ ہوتی ہوصحیح نہیں ہے۔
۶:)جوچیزکرائے پردی جارہی ہووہ اس کی منفعت کا مالک ہو اور اگر مالک نہ ہو اور نہ ہی وکیل اور ولی ہو تو اس صورت میں کرایہ پر دینا صحیح ہے جب اس کا مالک راضی ہو۔
مسئلہ (۲۱۹۵)جس درخت میں ابھی پھل نہ لگاہواس کا اس مقصد سے کرائے پر دیناکہ اس کے پھل سے استفادہ کیاجائے گادرست ہے اوراسی طرح ایک جانورکواس کے دودھ کے لئے کرائے پردینے کا بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۱۹۶)عورت اس مقصد کے لئے اجیربن سکتی ہے کہ اس کے دودھ سے استفادہ کیاجائے اورضروری نہیں کہ وہ اس مقصد کے لئے شوہرسے اجازت لے لیکن اگراس کے دودھ پلانے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہوتوپھراس کی اجازت کے بغیرعورت اجیرنہیں بن سکتی۔
کرائے پردیئے جانے والے مال سے استفادہ کے شرائط
مسئلہ (۲۱۹۷)جس استفادے کے لئے مال کرائے پردیاجاتاہے اس کی چار شرطیں ہیں :
۱:) استفادہ کرناحلال ہو۔لہٰذا اگر مال کی صرف حرام منفعت ہو یہ یا شرط لگائیں کہ حرام میں استعمال کیا جائے یا معاملہ کرنے سے پہلے حرام استعمال کو معین کریں اور معاملہ کو اس حرام استعمال پر قرار دیں تو معاملہ باطل ہےلہٰذادکان کوشراب بیچنے یاشراب ذخیرہ کرنے کے لئے کرائے پردینااورحیوان کوشراب کی نقل وحمل کے لئے کرائے پردیناباطل ہے۔
۲:)وہ عمل شریعت میں بلامعاوضہ انجام دیناواجب نہ ہو اور(احتیاط واجب کی بناپر)اسی قسم کے کاموں میں سے حلال اورحرام کے مسائل سکھانا بشرطیکہ مبتلا بہ ہو اورمردوں کی تجہیزوتکفین واجب مقدار میں کرنا۔ لہٰذا ان کاموں کی اجرت لیناجائزنہیں ہے اوراحتیاط واجب کی بناپرمعتبرہے کہ اس استفادے کے لئے رقم دینالوگوں کی نظروں میں فضول نہ ہو۔
۳:)جوچیزکرائے پردی جائے اگروہ کثیرالفوائد(اورکثیرالمقاصد) ہوتوجوفائدہ اٹھانے کی مستاجرکواجازت ہواسے معین کیاجائے۔مثلاًایک ایساجانورکرائے پردیا جائے جس پرسواری بھی کی جا سکتی ہواورمال بھی لاداجاسکتاہوتواسے کرائے پردیتے وقت یہ معین کرناضروری ہے کہ مستاجراسے فقط سواری کے مقصد کے لئے یافقط بار برداری کے مقصدکے لئے استعمال کرسکتاہے یااس سے ہرطرح استفادہ کرسکتاہے۔
۴:)استفادہ کرنے کی مقدار کاتعین کرلیاجائے اوریہ استفادہ مدت معین کرکے حاصل کیاجاسکتاہے مثلاً مکان یادکان کرائے پردے کریاکام کاتعین کرکے حاصل کیاجا سکتاہے مثلاً درزی کے ساتھ طے کرلیاجائے کہ وہ ایک معین لباس مخصوص ڈیزائن میں سلے گا۔
مسئلہ (۲۱۹۸)اگراجارے کی شروعات کاتعین نہ کیاجائے تواس کے شروع ہونے کاوقت اجارے کاصیغہ پڑھنے کے بعدسے ہوگا۔
مسئلہ (۲۱۹۹)مثال کے طورپراگرمکان ایک سال کے لئے کرائے پردیاجائے اور معاہدے کی ابتداکا وقت صیغہ پڑھنے سے ایک مہینہ بعدسے مقررکیاجائے تواجارہ صحیح ہے اگرچہ جب صیغہ پڑھاجارہاہووہ مکان کسی دوسرے کے پاس کرائے پرہو۔
مسئلہ (۲۲۰۰)اگراجارے کی مدت کاتعین نہ کیاجائے بلکہ کرائے دارسے کہا جائے کہ جب تک تم اس مکان میں رہوگے دس روپے ماہانہ کرایہ دوگے تواجارہ صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۰۱)اگرمالک مکان،کرائےدارسے کہے کہ: میں نے تجھے یہ مکان دس روپے ماہانہ کرائے پر دیایایہ کہے کہ: یہ مکان میں نے تجھے ایک مہینے کے لئے دس روپے کرائے پردیااوراس کے بعدبھی تم جتنی مدت اس میں رہوگے اس کاکرایہ دس روپے ماہانہ ہوگاتواس صورت میں جب اجارے کی مدت کی ابتداکاعلم ہوجائے توپہلے مہینے کااجارہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۰۲)جس مکان میں مسافر اورزائرقیام کرتے ہوں اوریہ علم نہ ہوکہ وہ کتنی مدت تک وہاں رہیں گے اگروہ مالک مکان سے طے کرلیں کہ مثلاً ایک رات کا ایک روپیہ دیں گے اورمالک مکان اس پرراضی ہوجائے تواس مکان سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ اجارے کی مدت طے نہیں کی گئی لہٰذاپہلی رات کے علاوہ اجارہ صحیح نہیں ہے اور مالک مکان پہلی رات کے بعدجب بھی چاہے انہیں نکال سکتا ہے۔
کرائے کے متفرق مسائل
مسئلہ (۲۲۰۳)جومال مستاجراجارے کے طورپردے رہاہوضروری ہے کہ وہ مال معلوم ہو۔لہٰذااگرایسی چیزیں ہوں جن کالین دین تول کرکیاجاتاہے مثلاًگیہوں توان کا وزن معلوم ہوناضروری ہے اوراگرایسی چیزیں ہوں جن کالین دین گن کرکیاجاتاہے مثلاً رائج الوقت سکے توضروری ہے کہ ان کی تعداد معین ہو اوراگروہ چیزیں گھوڑے اور بھیڑکی طرح ہوں توضروری ہے کہ کرایہ لینے والاانہیں دیکھ لے یامستاجران کی خصوصیات بتادے۔
مسئلہ (۲۲۰۴)اگرزمین زراعت کے لئے کرائے پردی جائے اوراس کی اجرت اسی زمین کی پیداوارقراردی جائے جواس وقت موجودنہ ہویاکلی طورپرکوئی چیزاس کے ذمے قراردے اس شرط پرکہ وہ اسی زمین کی پیداوارسے اداکی جائے گی تواجارہ صحیح نہیں ہے اوراگراجرت (یعنی اس زمین کی پیداوار) اجارہ کرتے وقت موجود ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۰۵)جس شخص نے کوئی چیزکرائے پردی ہووہ اس چیزکوکرایہ دارکی تحویل میں دینے سے پہلے کرایہ مانگنے کاحق نہیں رکھتانیزاگرکوئی شخص کسی کام کے لئے اجیر بناہو توجب تک وہ کام انجام نہ دے دے اجرت کا مطالبہ کرنے کاحق نہیں رکھتامگربعض صورتوں میں ، مثلاًحج کی ادائیگی کے لئے اجیرجسے عموماًعمل کے انجام دینے سے پہلے اجرت دے دی جاتی ہے (اجرت کامطالبہ کرنے کاحق رکھتاہے)۔
مسئلہ (۲۲۰۶)اگرکوئی شخص کرائے پردی گئی چیزکرایہ دار کی تحویل میں دے دے تو اگرچہ کرایہ داراس چیزپرقبضہ نہ کرے یاقبضہ حاصل کرلے لیکن اجارہ ختم ہونے تک اس سے فائدہ نہ اٹھائے پھربھی ضروری ہے کہ مالک کواجرت اداکرے۔
مسئلہ (۲۲۰۷)اگرایک شخص کوئی کام ایک معین دن میں انجام دینے کے لئے اجیر بن جائے اور اس دن وہ کام کرنے کے لئے تیارہوجائے توجس شخص نے اسے اجیر بنایا ہے خواہ وہ اس دن سے کام نہ لے ضروری ہے کہ اس کی اجرت اسے دے دے۔ مثلاً اگر کسی درزی کوایک معین دن لباس سینے کے لئے اجیربنائے اوردرزی اس دن کام کرنے پر تیارہوتواگرچہ مالک اسے سینے کے لئے کپڑانہ دے تب بھی ضروری ہے کہ اسے اس کی مزدوری دے دے۔ قطع نظراس سے کہ درزی بیکاررہاہویااس نے اپنایاکسی دوسرے کا کام کیاہو۔
مسئلہ (۲۲۰۸)اگراجارے کی مدت ختم ہوجانے کے بعدمعلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تومستاجر کے لئے ضروری ہے کہ عام طورپراس چیزکا جوکرایہ ہوتاہے مال کے مالک کو دے دے مثلاً اگروہ ایک مکان سو روپے کرائے پرایک سال کے لئے لے اور بعدمیں اسے پتاچلے کہ اجارہ باطل تھاتواگراس مکان کاکرایہ عام طورپرپچاس روپے ہوتو ضروری ہے کہ پچاس روپے دے اوراگراس کاکرایہ عام طورپردوسوروپے ہوتواگرمکان کرایہ پردینے والامالک مکان ہویااس کاوکیل ہواورعام طورپرگھرکے کرائے کی جو شرح ہواسے جانتاہوتوضروری نہیں ہے کہ مستاجرسوروپے سے زیادہ دے اور اگراس کےعلاوہ کوئی صورت ہوتوضروری ہے کہ مستاجر دوسوروپے دے نیزاگراجارے کی کچھ مدت گزرنے کے بعدمعلوم ہوکہ اجارہ باطل تھاتوجومدت گزرچکی ہواس پربھی یہی حکم جاری ہوگا۔
مسئلہ (۲۲۰۹)جس چیزکواجارے پرلیاگیاہواگروہ تلف ہوجائے اورمستاجر نے اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ برتی ہواوراسے غلط طورپراستعمال نہ کیاہوتو(پھروہ اس چیز کے تلف ہونے کا) ضامن نہیں ہے۔ اسی طرح مثال کے طورپراگردرزی کودیا گیا کپڑاتلف ہوجائے تواگردرزی نے بے احتیاطی نہ کی ہواورکپڑے کی نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ برتی ہوتووہ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۰)اگر کسی کاریگر نے کسی کرایہ پر دینے والے کے مال پر کچھ کام کرنے کےلئے لیا ہو جیسے درزی اور ہنرپیشہ افراد نےاگرکسی چیز کو لیا ہے ضائع ہوجائے تو ضامن ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۱)اگرقصاب کسی جانورکاسرکاٹ ڈالے اوراسے حرام کردے توخواہ اس نے مزدوری لی ہویابلا معاوضہ ذبح کیاہوضروری ہے کہ جانورکی قیمت اس کے مالک کواداکرے۔
مسئلہ (۲۲۱۲)اگرکوئی شخص کسی جانوریا کسی گاڑی کوکرائے پرلے اورمعین کرے کہ کتنابوجھ اس پرلادے گاتواگروہ اس پرمعینہ مقدارسے زیادہ بوجھ لادے اوراس وجہ سے وہ جانور مر جائے یا گاڑی تلف یاعیب دارہوجائے تومستاجرذمہ دار ہے ۔ نیز اگر اس نے بوجھ کی مقدار معین نہ کی ہواورمعمول سے زیادہ بوجھ جانورپرلادے اوردونوں صورتوں میں مستاجر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ معمول سے زیادہ بار کی اجرت ادا کرے ۔
مسئلہ (۲۲۱۳)اگرکوئی شخص حیوان کوایسا (نازک) سامان لادنے کے لئے کرائے پر دے جوٹوٹنے والا ہو اورجانورپھسل جائے یابھاگ کھڑاہواورسامان کوتوڑپھوڑدے تو جانورکامالک ذمہ دارنہیں ہے۔ ہاں اگرمالک جانورکومعمول سے زیادہ مارے یاایسی حرکت کرے جس کی وجہ سے جانورگرجائے اورلداہواسامان توڑدے تومالک ذمہ دار ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۴)اگرکوئی شخص بچے کاختنہ کرے اوروہ اپنے کام میں کوتاہی یاغلطی کرے مثلاً اس نے معمول سے زیادہ (چمڑا) کاٹاہواوروہ بچہ مرجائے یااس میں کوئی نقص پیداہوجائے تووہ ذمہ دارہے اور اگراس نے کوتاہی یاغلطی نہ کی ہواوربچہ ختنہ کرنے سے ہی مرجائے یااس میں کوئی عیب پیداہوجائے چنانچہ اس بات کی تشخیص کے لئے کہ بچے کے لئے نقصان دہ ہے یانہیں اس کی طرف رجوع نہ کیاگیاہو نیزوہ یہ بھی نہ جانتاہوکہ بچے کونقصان ہوگاتواس صورت میں وہ ذمے دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۵)اگرمعالج اپنے ہاتھ سے کسی مریض کودوادے یا اس کے لئے دوا تیار کرنے کوکہے اور دوا کھانے کی وجہ سے مریض کونقصان پہنچے یاوہ مرجائے تومعالج ذمہ دار ہے اگرچہ اس نے علاج کرنے میں کوتاہی نہ کی ہو۔
مسئلہ (۲۲۱۶)جب معالج مریض سے کہہ دے اگرتمہیں کوئی ضررپہنچاتومیں ذمہ دار نہیں ہوں اورپوری احتیاط سے کام لے لیکن اس کے باوجوداگرمریض کوضرر پہنچے یا وہ مرجائے تومعالج ذمہ دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۱۷)کرائے پرلینے والااورجس شخص نے کوئی چیزکرائے پردی ہو، وہ ایک دوسرے کی رضامندی سے معاملہ فسخ کرسکتے ہیں اور اگراجارہ میں یہ شرط عائد کریں کہ وہ دونوں یاان میں سے کوئی ایک معاملے کوفسخ کرنے کاحق رکھتاہے تووہ معاہدے کے مطابق اجارہ فسخ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۲۱۸)اگرمال اجارہ پردینے والے یامستاجرکوپتاچلے کہ وہ گھاٹے میں رہا ہے تواگراجارہ کرنے کے وقت وہ اس امرکی جانب متوجہ نہ تھاکہ وہ گھاٹے میں ہے تو وہ اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ( ۲۱۳۴) میں گزرچکی ہے اجارہ فسخ کرسکتاہے لیکن اگر اجارے کے صیغے میں یہ شرط عائدکی جائے کہ اگران میں سے کوئی گھاٹے میں بھی رہے گاتواسے جارہ فسخ کرنے کاحق نہیں ہوگاتوپھروہ اجارہ فسخ نہیں کرسکتے۔
مسئلہ (۲۲۱۹)اگرایک شخص کوئی چیزاجارے پردے اوراس سے پہلے کہ اس کا قبضہ مستاجرکودے کوئی اور شخص اس چیزکوغصب کرلے تومستاجر اجارہ فسخ کرسکتاہے اورجو چیزاس نے اجارے پردینے والے کودی ہو اسے واپس لے سکتاہے یا یہ بھی کرسکتاہے کہ اجارہ فسخ نہ کرے اورجتنی مدت وہ چیزغاصب کے پاس رہی ہواس کی عام طورپر جتنی اجرت بنے وہ غاصب سے لے لے۔ لہٰذااگرمستاجرایک حیوان کاایک مہینے کا اجارہ دس روپے کے عوض کرے اورکوئی شخص اس حیوان کودس دن کے لئے غصب کر لے اورعام طورپراس کا دس دن کااجارہ پندرہ روپے ہوتومستاجرپندرہ روپئے غاصب سے لے سکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۲۰)اگرکوئی دوسراشخص مستاجرکواجارہ کردہ چیزاپنی تحویل میں نہ لینے دے یاتحویل میں لینے کے بعداس پرناجائز قبضہ کرلے یااس سے استفادہ کرنے میں حائل ہوتومستاجراجارہ فسخ نہیں کرسکتااور صرف یہ حق رکھتاہے کہ اس چیزکاعام طورپرجتنا کرایہ بنتاہووہ غاصب سے لے لے۔
مسئلہ (۲۲۲۱)اگراجارے کی مدت ختم ہونے سے پہلے مالک اپنامال مستاجر کے ہاتھ بیچ ڈالے تواجارہ فسخ نہیں ہوتااورمستاجر کوچاہئے کہ اس چیزکاکرایہ مالک کودے اور اگر(مالک مستاجرکے علاوہ) اس (مال) کوکسی اورشخص کے ہاتھ بیچ دے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۲۲۲)اگراجارے کی مدت شروع ہونے سے پہلے جوچیزاجارے پرلی ہے وہ اس استفادہ کے قابل نہ رہے جس کاتعین کیاگیاتھاتواجارہ باطل ہوجاتاہے اور مستاجراجارہ کی رقم مالک سے واپس لے لے گا اور اگرصورت یہ ہوکہ اس مال سے تھوڑاسا استفادہ کیاجاسکتاہوتومستاجراجارہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۲۳)اگرایک شخص کوئی چیزاجارہ پرلے اوروہ کچھ مدت گزرنے کے بعدجواستفادہ مستاجرکے لئے طے کیاگیاہواس کے قابل نہ رہے توباقی ماندہ مدت کے لئے اجارہ باطل ہوجاتاہے اورمستاجر گذری ہوئی مدت کااجارہ ’’اجرۃ المثل‘‘ یعنی جتنے دن وہ چیزاستعمال کی ہواتنے دنوں کی عام اجرت دے کراجارہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۲۴)اگرکوئی شخص ایسامکان کرائے پردے جس کے مثلاً دوکمرے ہوں اوران میں سے ایک کمرہ ٹوٹ پھوٹ جائے لیکن اجارے پردینے والااس کمرہ کو (مرمت کرکے) اس طرح بنادے جس میں سابقہ کمرے کے مقابلے میں کافی فرق ہو تو اس کے لئے وہی حکم ہے جواس سے پہلے والے مسئلے میں بتایا گیاہے اوراگراس طرح نہ ہو بلکہ اجارے پردینے والااسے فوراً بنادے اوراس سے استفادہ کرنے میں بھی قطعاً فرق واقع نہ ہوتواجارہ باطل نہیں ہوتااورکرائے دار بھی اجارے کوفسخ نہیں کرسکتا لیکن اگر کمرے کی مرمت میں قدرے تاخیرہوجائے اورکرائے داراس سے استفادہ نہ کر پائے تواس ’’تاخیر‘‘کی مدت تک کااجارہ باطل ہوجاتاہے اورکرائے دارچاہے توساری مدت کااجارہ بھی فسخ کرسکتاہے البتہ جتنی مدت اس نے کمرے سے استفادہ کیاہے اس کی اجرۃ المثل دے۔
مسئلہ (۲۲۲۵)اگرمال کرائے پردینے والایامستاجرمرجائے تواجارہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگرمکان کافائدہ صرف اس کی زندگی میں ہی اس کا ہومثلاًکسی دوسرے شخص نے وصیت کی ہوکہ جب تک وہ اجارے پر دینے والا زندہ ہے مکان کی آمدنی اس کامال ہوگا تواگروہ مکان کرائے پر دے دے اوراجارہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے مرجائے تو اس کے مرنے کے وقت سے اجارہ باطل ہے اوراگرموجودہ مالک اس اجارہ کی تصدیق کردے تواجارہ صحیح ہے اور اجارے پردینے والے کی موت کے بعداجارے کی جو مدت باقی ہوگی اس کی اجرت اس شخص کوملے گی جوموجودہ مالک ہے۔
مسئلہ (۲۲۲۶)اگرکوئی کسی معمار کواس مقصد سے وکیل بنائے کہ وہ اس کے لئے کاریگرمہیاکرے تواگرمعمارنے جوکچھ اس شخص سے لے لیاہے کاریگروں کواس سے کم دے توزائد مال اس پر حرام ہے اوراس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رقم اس شخص کو واپس کردے لیکن اگرمعمار اجیربن جائے کہ عمارت کومکمل کردے گااوروہ اپنے لئے یہ اختیار حاصل کرلے کہ خودبنائے گایادوسرے سے بنوائے گاتواس صورت میں کہ کچھ کام خود کرے اور باقیماندہ دوسروں سے اس اجرت سے کم پرکروائے جس پروہ خوداجیربنا ہے تو زائد رقم اس کے لئے حلال ہوگی۔
مسئلہ (۲۲۲۷)اگررنگریزوعدہ کرے کہ مثلاًکپڑانیل سے رنگے گاتواگروہ نیل کے بجائے اسے کسی اور چیزسے رنگ دے تواسے اجرت لینے کاکوئی حق نہیں ۔
مضاربہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۲۸)مضاربہ دو لوگوں کا درمیانی معاہدہ ہے جن میں سے ایک مالک ہے جو دوسرے کو جسے عامل (کام سنبھالنے والا) کہتے ہیں اس کو رقم دیتا ہے جس کے ذریعہ وہ تجارت کرے اور فائدہ کو آپس میں تقسیم کیا جائے۔
یہ معاملہ مندرجہ ذیل شرطوں کے ساتھ منعقد ہوتا ہے:
(۱)ایجاب و قبول: جس کی انشاء و اظہار کےلئے ہر لفظ یا فعل جو اس عبارت پر دلالت کرتا ہو کافی ہے۔
(۲)شرعی طور سے بالغ ہونا۔ اسی طرح عقل مند، سمجھ دار اوربا اختیار ہونا۔ دونوں کے لئے ضروری ہے اور مالک کے لئے خصوصی شرط یہ ہےکہ حاکم شرع کی طرف سے افلاس کی بناء پر شرعاً روک نہ دیا گیا ہو لیکن عامل کے لئے ایسی شرط نہیں ہے لیکن اس صورت میں جب معاہدہ اس بات کا متقاضی ہوعامل اپنے اس مال میں تصرف کررہا ہو جس کے استعمال سے روکا گیا ہو۔
(۳)دونوں میں سے ہر ایک کا فائدہ میں حصہ خاص مقدار میں نکالنے کے بعد معین ہو، جو کہ ایک تہائی یا نصف، یا کوئی مقدار معین ہے؟ اور اس شرط سےاس صورت میں بے نیاز ہواجاسکتا ہے جب کہ دونوں میں سے ہر ایک کا حصہ عام طور سے بازار میں معین ہے اس طرح کہ عام طور سے اس قسم کی شرط کا ذکر لازم نہ ہو۔ ہر ایک کے حصے کی رقم کاذکر مثلاً ایک لاکھ روپیہ کافی نہیں ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ فائدہ حاصل ہونے کے بعد اپنے حصہ کی رقم پر مصالحت کی جائے۔
(۴)یہ فائدہ صرف مالک اور عامل کےلئے ہی ہو لہٰذا اگر یہ شرط قرار دی جائے کہ کسی تیسرے کو فائدہ دیا جائے گا تو مضاربہ باطل ہے سوائے یہ کہ کسی تجارت کے کام کے مقابل رقم دی جائے۔
(۵)ضروری ہے کہ عامل تجارت پر قدرت رکھتا ہو اس صورت میں جب کہ معاہدہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہو کہ عامل خود تجارت کرے گامثلاً کہا:(یہ رقم تمہیں دی جارہی ہے کہ تم خود یہ تجارت کرو گے) لیکن ناتوانی کی صورت میں یہ معاہدہ باطل ہے اور اگر خود انجام دینے کی شرط معاہدہ کے متن میں ذکر ہوجیسے کہ یہ کہا گیا ہو کہ یہ رقم تمہیں تجارت کےلئے دی جارہی ہے بشرطیکہ تم خود اس کام کو انجام دو گےتو اس صورت میں اگر عامل ناتوان ہوتو معاملہ باطل نہیں ہے لیکن مالک عامل کے خود تجارت نہ کرنے کی بناء پر معاملہ فسخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے لیکن اگر کوئی قید وشرط قرار نہ دی گئی ہو اور عامل تجارت کرنے سے ناتوان ہویہاں تک کہ کسی دوسرے کےحوالے بھی نہ کرسکتا ہوتو معاہدہ باطل ہے اور اگر ابتداء میں قدرت رکھتا تھا لیکن بعد میں ناتوان ہوگیا تو جس وقت سے ناتوان ہوا ہے معاہدہ باطل ہوجائے گا ۔
مسئلہ (۲۲۲۹)عامل، حساب کتاب کا امانت دار ہے اس بناء پر اگر مال ضائع ہو جائے یا اس میں عیب پیدا ہوجائے تو ضامن نہیں ہے سوائے یہ کہ معاہدہ کی حدود سے تجاوز کرے یا مال کی حفاظت میں کوتاہی کرے اسی طرح سے نقصان کی صورت میں بھی ضامن نہیں ہے بلکہ یہ نقصان مالک کے مال میں شمار ہوگا اور اگر مالک یہ چاہے کہ نقصان صرف اس کے ذمہ نہ آئے تو یہ معاملہ تین طرح سے ممکن ہے:
(۱) معاہدہ کے ضمن میں شرط قرار دے کہ عامل اس نقصان میں شریک ہوگا ٹھیک اسی طرح جس طرح فائدہ میں شریک ہے اس صورت میں شرط باطل ہے لیکن معاملہ صحیح ہے۔
(۲) یہ شرط قرار دی جائے کہ تمام نقصان عامل کے ذمہ ہوگا یہ شرط صحیح ہے لیکن تمام فائدہ بھی اسی کو ملے گا اور مالک کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
(۳) یہ شرط رکھی جائے کہ نقصان کی صورت میں پوری یا کچھ معینہ رقم کی عامل اپنے مال میں سے بھر پائی کرے گا اور اسے دے گا یہ شرط صحیح ہے اور عامل کےلئے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ (۲۲۳۰)اذنی مضاربہ ایک لازم معاہدہ نہیں ہے اس معنی میں کہ مالک نے عامل کو جس مال میں تصرف کی اجازت دی ہے اس میں رجوع کرسکتا ہے اور عامل کےلئے بھی اس سرمایہ کے ساتھ کام کا مسلسل انجام دینا ضروری نہیں ہے جب بھی چاہے کام سے منع کرسکتا ہے کام کے شروع کرنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی چاہے فائدہ کےشروع ہونے سے پہلے ہویا بعد میں ہو، چاہے معاہدہ کسی خاص مدت کے لئے نہ ہو یا کسی خاص معینہ مدت کےلئے ہو لیکن اگر یہ شرط رکھی گئی ہو کہ ایک خاص معینہ مدت تک فسخ نہیں کریں گے تو شرط صحیح ہے اور اس پر عمل واجب ہے اس کے باوجود اگر دونوں میں سے کوئی ایک فسخ کرے تو فسخ ہوجائے گا اگر چہ وہ معاہدہ کی مخالفت کرنے کا گنہگار ہوگا۔
مسئلہ (۲۲۳۱)جب مضاربہ کا معاہدہ مطلق ہو اورکوئی خاص قید نہ لگائی گئی ہو تو عامل خریدار،بیچنے والے، مال کی قسم میں اپنی مصلحت اندیشی کے مطابق عمل کرے گا لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ مال کو ایک شہر سے دوسرے شہرلےکر جائے سوائے اس صورت میں کہ یہ کام معمولاً انجام دیا جاتا ہواس طرح سے کہ معاہدہ کا مطلق ہونا لوگوں کے درمیان اس صورت حال کو شامل کئے ہوں یا مالک خود اجازت دے اور اگر مالک کی اجازت کے بغیر کسی اورجگہ منتقل کرے اور مال ضائع ہوجائے یا نقصان ہوجائے تو ضامن ہے۔
مسئلہ (۲۲۳۲)اذنی مضاربہ مالک اور عامل میں سے کسی ایک کے انتقال سے باطل ہوجاتا ہے اس لئے کہ مالک کے انتقال سے مال اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور عامل کے پاس اس مال کے باقی رہنےکےلئے جدید مضاربہ کی ضرورت ہوتی ہے اوراگر عامل کا انتقال ہوجائے تو اذن (اجازت) ختم ہوجاتا ہے اس لئے کہ مالک کا اذن اس عامل سے مخصوص تھا۔
مسئلہ (۲۲۳۳)مالک اور عامل میں سے ہر ایک کےلئے ممکن ہے کہ مضاربہ کے معاہدہ میں یہ شرط رکھیں کہ اس کے لئے کوئی کام انجام دیا جائے گا یا کوئی مال اس کو دیا جائے گا اورجب تک یہ معاہدہ باقی ہے اور فسخ نہیں ہوا ہے اس شرط پر عمل واجب ہے چاہے کوئی فائدہ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔
مسئلہ (۲۲۳۴)مال مضاربہ پر ہونے والا نقصان یا اس کا ضائع ہوجانا جیسے آگ لگ جانا یا چوری ہوجانا وغیرہ کا حاصل شدہ فائدہ سے تدارک ہوگا چاہے یہ فائدہ اس نقصان سے پہلے حاصل ہوا ہو یا بعدمیں ہو، اس بناء پر عامل کی وہ مالکیت جو حاصل ہونے والے فائدہ میں حصہ کی شکل میں ہے وہ نقصان یا ضائع نہ ہوجانےکی صورت میں ہے اور صرف اس وقت یقینی ہوگا جب مضاربہ کی مدت ختم ہوجائے یا معاہدہ فسخ ہوجائے لیکن اگر عامل معاہدہ کے ضمن میں یہ شرط رکھنے کے نقصان یا فائدہ جو گزشتہ یا آئندہ ہو اس کا تدارک نہیں ہوگا تو شرط صحیح ہے اور ضروری ہےکہ اس پر عمل کیا جائے۔
مسئلہ (۲۲۳۵)مالک کےلئے یہ ممکن ہے کہ جعالہ کے طور پر شرعی راستوں سے سرمایہ گزاری کرے جس سے وہی مضاربہ کا نتیجہ حاصل ہو اس ترتیب سے کہ مال کو کسی شخص کےحوالے کرے اور بطور مثال یہ کہے کہ: اس مال کو تجارت میں یا ہر طرح کے فائدے میں استعمال کرو اور اس کے عوض مثلاً آدھی منفعت تمہارے لئے ہوگی۔
جعالہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۳۶)’’جعالہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان معاہدہ کرے کہ اگرایک کام اس کے لئے انجام دیاجائے گاتووہ اس کے بدلے کچھ مال دے گامثلاً یہ کہے کہ جو اس کی گمشدہ چیزڈھونڈھ کر لائےوہ اسے دس روپے دے گاتوجوشخص اس قسم کا معاہدہ کرے اسے ’’جاعل‘‘ اورجوشخص وہ کام انجام دے اسے ’’عامل‘‘ کہتے ہیں اور اجارے وجعالے میں بعض لحاظ سے فرق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اجارے میں صیغہ پڑھنے کے بعداجیرکے لئے ضروری ہے کہ کام انجام دے اور جس نے اسے اجیر بنایاہووہ اجرت کے لئے اس کامقروض ہوجاتاہے لیکن جعالہ میں اگرچہ عامل معین شخص ہےتاہم یہ ممکن ہے کہ وہ کام میں مشغول نہ ہو۔پس جب تک وہ کام انجام نہ دے، جاعل اس کا مقروض نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۲۲۳۷)جاعل کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہواوراپنے ارادے اوراختیار سےمعاہدہ کرے اورشرعاً اپنے مال میں تصرف کرسکتاہو۔اس بناپر سفیہ( یعنی وہ شخص جو بے مقصد امور میں پیسے خرچ کرے گا) جعالہ صحیح نہیں ہے اور بالکل اسی طرح دیوالیہ شخص کاجعالہ ان اموال میں صحیح نہیں ہے جن میں تصرف کاحق نہ رکھتاہو۔
مسئلہ (۲۲۳۸)’’جاعل‘‘ جوکام لوگوں سے کراناچاہتاہوضروری ہے کہ وہ حرام یابے فائدہ نہ ہواورنہ ہی ان واجبات میں سے ہوجن کابلامعاوضہ بجالاناشرعاًلازم ہو۔لہٰذا اگرکوئی کہے کہ جوشخص شراب پیئے گایارات کے وقت کسی عاقلانہ مقصد کے بغیرایک تاریک جگہ پرجائے گایاواجب نمازپڑھے گا۔میں اسے دس روپے دوں گاتوجعالہ صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۳۹)جس مال کے بارے میں معاہدہ کیاجارہاہوضروری نہیں ہے کہ اسے اس کی پوری خصوصیات کاذکرکرکے معین کیاجائے بلکہ اگر صورت حال یہ ہوکہ کام کرنے والے کومعلوم ہوکہ اس کام کوانجام دینے کے لئے اقدام کرناحماقت شمارنہ ہوگا تو کافی ہے مثلاً اگرجاعل یہ کہے کہ اگرتم نے اس مال کودس روپے سے زیادہ قیمت پر بیچا تو اضافی رقم تمہاری ہوگی توجعالہ صحیح ہے اور اسی طرح اگرجاعل کہے کہ جوکوئی میراگھوڑا ڈھونڈکر لائے گامیں اسے گھوڑے کا نصف یادس من گیہوں دوں گاتوبھی جعالہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۴۰)اگرکام کی اجرت مکمل طورپرمبہم ہومثلاً جاعل یہ کہے کہ جو میرابچہ تلاش کردے گامیں اسے رقم دوں گالیکن رقم کی مقدار کاتعین نہ کرے تواگرکوئی شخص اس کام کوانجام دے توضروری ہے کہ جاعل اسے اتنی اجرت دے جتنی عام لوگوں کی نظروں میں اس عمل کی اجرت قرارپاسکے۔
مسئلہ (۲۲۴۱)اگر’’عامل‘‘ نے جاعل کے قول وقرار سے پہلے ہی وہ کام کردیاہویا قول وقرار کے بعداس نیت سے وہ کام انجام دے کہ اس کے بدلے رقم نہیں لے گاتو پھر وہ اجرت کاحق دارنہیں ۔
مسئلہ (۲۲۴۲)اس سے پہلے کہ عامل کام شروع کرے جاعل جعالہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۲۴۳)جب عامل نے کام شروع کردیاہواگراس کے بعدجاعل جعالہ منسوخ کرناچاہے تواس میں اشکال ہےسوائے یہ کہ عامل کے ساتھ کوئی ہم آہنگی ہوجائے۔
مسئلہ (۲۲۴۴)عامل کام کوادھوراچھوڑ سکتاہے لیکن اگرکام ادھوراچھوڑنے پرجاعل کویا جس شخص کے لئے یہ کام انجام دیاجارہاہے کوئی نقصان پہنچتاہوتوضروری ہے کہ کام کو مکمل کرے۔مثلاً اگرکوئی شخص کہے کہ جوکوئی میری آنکھ کاآپریشن کردے میں اسے اس قدرمعاوضہ د وں گا اور ڈاکٹر اس کی آنکھ کا آپریشن کردے اور صورت یہ ہوکہ اگروہ آپریشن مکمل نہ کرے تو آنکھ میں عیب پیداہوجائے توضروری ہے کہ اپناعمل تکمیل تک پہنچائے ۔
مسئلہ (۲۲۴۵)اگرعامل کام ادھوراچھوڑدے توجاعل سے کسی چیز کامطالبہ نہیں کر سکتااوراگرجاعل اجرت کو کام مکمل کرنے سے مشروط کردے تب بھی یہی حکم ہے۔ مثلاً وہ کہے کہ جوکوئی میرالباس سئے گامیں اسے دس روپے دوں گالیکن اگراس کی مرادیہ ہوکہ جتناکام کیاجائے گااتنی اجرت دے گاتوپھرجاعل کو چاہئے کہ جتناکام ہواہواتنی اجرت عامل کودے دے۔
مزارعہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۴۶)مزارعہ یہ ہے کہ (زمین کا) مالک کاشت کار (زارع) سے معاہدہ کرکے اپنی زمین اس کے اختیارمیں دے تاکہ وہ اس میں کاشت کاری کرے اور پیداوارکاکچھ حصہ مالک کودے۔
مسئلہ (۲۲۴۷)مزارعہ کی چندشرائط ہیں :
۱:) معاہدہ ان دو کے درمیان ہو جیسے زمین کامالک کاشت کار سے کہے کہ میں نے زمین تمہیں کھیتی باڑی کے لئے دی ہے اور کاشت کار بھی کہے کہ میں نے قبول کی ہے یابغیراس کے کہ زبانی کچھ کہیں مالک کاشت کار کوکھیتی باڑی کے ارادے سے زمین دے دے اور کاشت کارقبول کرلے۔
۲:)زمین کامالک اورکاشت کاردونوں بالغ اورعاقل ہوں اور مزارعہ کامعاہدہ اپنے ارادے اور اختیارسے کریں اورسفیہ نہ ہوں یعنی اپنے مال کو بیہودہ کاموں میں مصرف نہ کریں اور اسی طرح ضروری ہے کہ مالک دیوالیہ نہ ہو۔لیکن اگر کاشت کار دیوالیہ ہواوراس کامزارعہ کرناان اموال میں تصرف نہ کہلائے جن میں اسے تصرف کرنامنع تھاتوایسی صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
۳:)مالک اور کاشت کارمیں سے ہرایک زمین کی پیداوارمیں سے کچھ حصہ مثلاً نصف یاایک تہائی وغیرہ لے لے۔لہٰذا اگرکوئی بھی اپنے لئے کوئی حصہ مقررنہ کرے یامثلاً مالک کہے کہ اس زمین میں کھیتی باڑی کرواور جوتمہاراجی چاہے مجھے دے دیناتویہ درست نہیں ہے اور اسی طرح اگرپیداوارکی ایک معین مقدارمثلاًدس من کاشت کار یامالک کے لئے مقررکردی جائے تویہ بھی صحیح نہیں ہے۔
۴:)جتنی مدت کے لئے زمین کاشت کار کے قبضے میں رہنی چاہئے اسے معین کردیں اور ضروری ہے کہ وہ مدت اتنی ہوکہ اس مدت میں پیداوارحاصل ہوناممکن ہواوراگر مدت کی ابتداایک مخصوص دن سے اورمدت کااختتام پیداوارملنے تک کومقررکردیں توکافی ہے۔
۵:)زمین قابل کاشت ہو اور اگراس میں ابھی کاشت کرناممکن نہ ہولیکن ایساکام کیاجاسکتاہوجس سے کاشت ممکن ہوجائے تومزارعہ صحیح ہے۔
۶:)کاشت کارجوچیزکاشت کرناچاہے،ضروری ہے کہ اس کومعین کردیاجائے۔مثلاً معین کرے کہ چاول ہے یاگیہوں اوراگرچاول ہے توکس قسم کاچاول ہے۔لیکن اگر کسی مخصوص چیزکی کاشت پیش نظرنہ ہوتواس کامعین کرناضروری نہیں ہے اور اسی طرح اگر کوئی مخصوص چیزپیش نظرہواوراس کاعلم ہوتولازم نہیں ہے کہ اس کی وضاحت بھی کرے۔
۷:)مالک، زمین کومعین کردے۔ یہ شرط اس صورت میں ہے جب کہ مالک کے پاس زمین کے چندقطعات ہوں اور ان قطعات کے لوازم کاشت کاری میں فرق رکھتے ہوں۔ لیکن ان میں کوئی فرق نہ ہوتو زمین کومعین کرنالازم نہیں ہے۔ لہٰذااگرمالک کاشت کار سے کہے کہ زمین کے ان قطعات میں سے کسی ایک میں کھیتی باڑی کرواور اس قطعہ کو معین نہ کرے تو مزارعہ صحیح ہےاور معاہدہ کے بعد معین کرنا مالک کے اختیار میں ہے۔
۸:)جوخرچ جیسے بیج ڈالنا کھاد ڈالنا اور زراعت کے لوازم کااستعمال کرنا وغیرہ ان میں سے ہرایک کوکرناضروری ہواسے معین کردیں لیکن جوخرچ ہر ایک کوکرناضروری ہو اگر اس کا علم ہوتوپھراس کی وضاحت کرنالازم نہیں ۔
مسئلہ (۲۲۴۸)اگرمالک کاشت کار سے طے کرے کہ پیداوارکی کچھ مقدارایک کی ہوگی اورجوباقی بچے گااسے وہ آپس میں تقسیم کرلیں گے تومزارعہ باطل ہے اگرچہ انہیں علم ہوکہ اس مقدار کوعلیٰحدہ کرنے کے بعدکچھ نہ کچھ باقی بچ جائے گا۔ ہاں اگروہ آپس میں یہ طے کرلیں کہ بیج کی جومقدارکاشت کی گئی ہے یا ٹیکس کی جومقدار حکومت لیتی ہے وہ پیداوارسے نکالی جائے گی اور جوباقی بچے گااسے دونوں کے درمیان تقسیم کیاجائے گا تو مزارعہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۴۹)اگرمزارعہ کے لئے کوئی مدت معین کی ہوکہ جس میں عموماً پیداوار دستیاب ہوجاتی ہے لیکن اگراتفاقاً مدت ختم ہوجائے اورپیداوار دستیاب نہ ہوئی ہوتو اگر مدت معین کرتے وقت یہ بات بھی شامل تھی یعنی دونوں اس بات پرراضی تھے کہ مدت ختم ہونے کے بعداگرچہ پیداوار دستیاب نہ ہو مزارعہ ختم ہوجائے گاتواس صورت میں اگر مالک اس بات پرراضی ہوکہ اجرت پریابغیراجرت فصل اس کی زمین میں کھڑی رہے اور کاشت کاربھی راضی ہوتوکوئی حرج نہیں اوراگرمالک راضی نہ ہوتوکاشت کار کومجبور کرسکتاہے کہ فصل زمین میں سے کاٹ لے اور اگرفصل کاٹ لینے سے کاشت کار کوکوئی نقصان پہنچے تو لازم نہیں کہ مالک اسے اس کاعوض دے لیکن اگرچہ کاشت کارمالک کوکوئی چیزدینے پرراضی ہو تب بھی وہ مالک کومجبورنہیں کرسکتاکہ وہ فصل اپنی زمین پررہنے دے۔
مسئلہ (۲۲۵۰)اگرکوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ زمین میں کھیتی باڑی کرناممکن نہ ہومثلاً زمین کاپانی بندہوجائے تومزارعہ ختم ہوجاتاہے اوراگرکاشت کاربلاوجہ کھیتی باڑی نہ کرے تواگرزمین اس کے تصرف میں رہی ہواورمالک کااس میں کوئی تصرف نہ رہاہوتو ضروری ہے کہ عام شرح کے حساب سے اس مدت کا کرایہ مالک کودے۔
مسئلہ (۲۲۵۱)زمین کامالک اورکاشت کارایک دوسرے کی رضامندی کے بغیر مزارعہ (کامعاہدہ) منسوخ نہیں کرسکتے۔لیکن اگرمزارعہ کے معاہدے کے سلسلے میں انہوں نے شرط طے کی ہوکہ ان میں سے دونوں کویاکسی ایک کومعاملہ فسخ کرنے کاحق حاصل ہوگاتوجومعاہدہ انہوں نے کررکھاہواس کے مطابق معاملہ فسخ کرسکتے ہیں ۔اسی طرح اگران دونوں میں سے ایک فریق طے شدہ شرائط کے خلاف عمل کرے تودوسرا فریق معاملہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۵۲)اگرمزارعہ کے معاہدے کے بعدمالک یاکاشت کار مرجائے تو مزارعہ منسوخ نہیں ہوجاتابلکہ ان کے وارث ان کی جگہ لے لیتے ہیں لیکن اگرکاشت کار مرجائے اور انہوں نے مزارعہ میں یہ شرط رکھی تھی کہ کاشت کار خودکاشت کرے گا تومزارعہ منسوخ ہو جاتاہے۔لیکن اگرجوکام ا س کے ذمے تھے وہ مکمل ہو گئے ہوں تواس صورت میں مزارعہ منسوخ نہیں ہوتااوراس کاحصہ اس کے ورثاء کودیناضروری ہے اورجودوسرے حقوق کاشت کار کوحاصل ہوں وہ بھی اس کے ورثاء کومیراث میں مل جاتے ہیں اورورثاء مالک کو اس بات پرمجبورکرسکتے ہیں کہ مزارعہ ختم ہونے تک فصل اس کی زمین میں کھڑی رہے۔
مسئلہ (۲۲۵۳)اگرکاشت کے بعدپتاچلے کہ مزارعہ باطل تھاتواگرجوبیج ڈالاگیاہو وہ مالک کامال ہوتوجو فصل ہاتھ آئے گی وہ بھی اسی کامال ہوگی اورضروری ہے کہ کاشت کار کی اجرت اورجوکچھ اس نے خرچ کیاہواورکاشت کارکے مملوکہ جن بیلوں اوردوسرے جانوروں نے زمین پرکام کیاہوان کاکرایہ کاشت کارکودے اوراگربیج کاشت کارکامال ہوتو فصل بھی اسی کامال ہے اورضروری ہے کہ زمین کاکرایہ اورجوکچھ مالک نے خرچ کیاہو اوران بیلوں اوردوسرے جانوروں کاکرایہ جومالک کامال ہوں اورجنہوں نے اس زراعت پر کام کیاہومالک کودے اور دونوں صورتوں میں عام طورپرجوحق بنتاہواگر اس کی مقدارطے شدہ مقدارسے زیادہ ہواوردوسرے فریق کواس کاعلم ہوتوزیادہ مقداردینا واجب نہیں ۔
مسئلہ (۲۲۵۴)اگربیج کاشت کارکامال ہواورکاشت کے بعدفریقین کوپتاچلے کہ مزارعہ باطل تھا تواگرمالک اورکاشت کار رضامندہوں کہ اجرت پریابلااجرت فصل زمین پر کھڑی رہے توکوئی اشکال نہیں ہے اوراگر مالک راضی نہ ہوتو(احتیاط واجب کی بنا ء پر) کاشت کار کو مجبور نہیں کیاجاسکتا کہ وہ زراعت کو کاٹ لے اوراسی طرح مالک کاشت کار کومجبور نہیں کرسکتاکہ وہ کرایہ دے کرفصل اس کی زمین میں کھڑی رہنے دے حتیٰ کہ اس سے زمین کاکرایہ طلب نہ کرے (تب بھی فصل کھڑی رکھنے پرمجبورنہیں کرسکتا)۔
مسئلہ (۲۲۵۵)اگرکھیت کی پیداوارجمع کرنے اورمزارعہ کی میعادختم ہونے کے بعد زراعت کی جڑیں زمین میں رہ جائیں اوردوسرے سال سرسبزہوجائیں اورپیداواردیں تو اگرمالک نے کاشت کار کے ساتھ زراعت کی جڑوں میں اشتراک کامعاہدہ نہ کیاہوتو دوسرے سال کی پیداواربیج کے مالک کامال ہے۔
مساقات اورمغارسہ کے احکام
مسئلہ (۲۲۵۶)اگرانسان کسی کے ساتھ اس قسم کامعاہدہ کرے مثلاً پھل دار درختوں کوجن کاپھل خود اس کامال ہویااس پھل پراس کااختیار ہوایک مقررہ مدت کے لئے کسی دوسرے شخص کے سپردکردے تاکہ وہ ان کی نگہداشت کرے اور انہیں پانی دے اور جتنی مقداروہ آپس میں طے کریں اس کے مطابق وہ ان درختوں کاپھل لے لے توایسا معاملہ ’’مساقات‘‘ (آبیاری) کہلاتاہے۔
مسئلہ (۲۲۵۷)جودرخت پھل نہیں دیتے اگران کی کوئی دوسری پیداوارہومثلاً پتے اورپھول ہوں کہ جو کچھ نہ کچھ قابل توجہ مالیت رکھتے ہوں ( مثلاًمہندی (اورپان)کے درخت کہ ان کے پتے کام آتے ہیں ) ان کے لئے مساقات کامعاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۵۸)مساقات کے معاملے میں صیغہ پڑھنالازم نہیں بلکہ اگردرخت کا مالک مساقات کی نیت سے اسے کسی کے سپردکردے اورجس شخص کوکام کرناہووہ بھی اسی نیت سے کام میں مشغول ہوجائے تومعاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۵۹)درختوں کامالک اورجوشخص درختوں کی نگہداشت کی ذمہ داری لے ضروری ہے کہ دونوں بالغ اورعاقل ہوں اورکسی نے انہیں معاملہ کرنے پرمجبور نہ کیا ہو نیزیہ بھی ضروری ہے کہ سفیہ نہ ہوں یعنی اپنے مال کو بےہودہ کاموں میں استعمال نہ کریں اوراسی طرح ضروری ہے کہ مالک دیوالیہ نہ ہو۔ لیکن اگرباغبان دیوالیہ ہواور مساقات کامعاملہ کرنے کی صورت میں ان اموال میں تصرف کرنالازم نہ آئے جن میں تصرف کرنے سے اسے روکاگیاہوتوکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۰)مساقات کی مدت معین ہونی چاہئے اور اتنی مدت ہوناضروری ہے کہ جس میں پیداوارکا دستیاب ہوناممکن ہواور اگرفریقین اس مدت کی ابتدامعین کردیں اور اس کااختتام اس وقت کوقراردیں جب اس کی پیداوار دستیاب ہوتومعاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۱)ضروری ہے کہ ہرفریق کاحصہ پیداوارکاآدھایاایک تہائی یااسی کے مانندہواوراگریہ معاہدہ کریں کہ مثلاًسومن میوہ مالک کااورباقی کام کرنے والے کا ہوگا تو معاملہ باطل ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۲)لازم نہیں ہے کہ مساقات کامعاملہ پیداوارظاہرہونے سے پہلے طے کرلیں ۔بلکہ اگر پیداوارظاہرہونے کے بعدمعاملہ کریں اورکچھ کام باقی رہ جائے جو کہ پیداوار میں اضافے کے لئے یااس کی بہتری یااسے نقصان سے بچانے کے لئے ضروری ہوتومعاملہ صحیح ہے۔ لیکن اگراس طرح کے کوئی کام باقی نہ رہے ہوں کہ جو آبیاری کی طرح درخت کی پرورش کے لئے ضروری ہیں یامیوہ توڑنے یااس کی حفاظت جیسے کاموں میں سے باقی رہ جاتے ہیں توپھرمساقات کے معاملے کاصحیح ہونامحل اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۳)خربوزے اورکھیرے وغیرہ کی بیلوں کے بارے میں مساقات کا معاملہ( بنابراظہر)صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۶۴)جودرخت بارش کے پانی یازمین کی نمی سے استفادہ کرتے ہوں اور جسے آبیاری کی ضرورت نہ ہواگراسے مثلاً دوسرے ایسے کاموں کی ضرورت ہوجومسئلہ (۲۲۶۲) میں بیان ہوچکے ہیں توان کاموں کے بارے میں مساقات کامعاملہ کرناصحیح ہے ۔
مسئلہ (۲۲۶۵)دوافراد جنہوں نے مساقات کی ہوباہمی رضامندی سے معاملہ فسخ کرسکتے ہیں اور اگر مساقات کے معاہدے کے سلسلے میں یہ شرط طے کریں کہ ان دونوں کویاان میں سے کسی ایک کومعاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگاتوان کے طے کردہ معاہدہ کے مطابق معاملہ فسخ کرنے میں کوئی اشکال نہیں اوراگر مساقات کے معاملے میں کوئی شرط طے کریں اوراس شرط پرعمل نہ ہوتوجس شخص کے فائدے کے لئے وہ شرط طے کی گئی ہو وہ معاملہ فسخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۶۶)اگرمالک مرجائے تومساقات کامعاملہ فسخ نہیں ہوتابلکہ اس کے وارث اس کی جگہ پاتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۲۶۷)درختوں کی پرورش جس شخص کے سپردکی گئی ہواگروہ مرجائے اور معاہدے میں یہ قیداور شرط عائدنہ کی گئی ہوکہ وہ خوددرختوں کی پرورش کرے گاتواس کے ورثاء اس کی جگہ ہیں اور اگر ورثاء نہ خوددرختوں کی پرورش کاکام انجام دیں اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کسی کواجیرمقررکریں توحاکم شرع مردہ کے مال سے کسی کواجیر مقررکردے گااورجوآمدنی ہوگی اسے مردہ کے ورثاء اوردرختوں کے مالک کے مابین تقسیم کردے گااوراگرفریقین نے معاملے میں یہ قیدلگائی ہوکہ وہ شخص خوددرختوں کی پرورش کرے گاتواس کے مرنے کے بعدمعاملہ فسخ ہوجائے گا۔
مسئلہ (۲۲۶۸)اگریہ شرط طے کی جائے کہ تمام پیداوارمالک کامال ہوگی تو مساقات باطل ہے لیکن ایسی صورت میں پیداوارمالک کامال ہوگا اورجس شخص نے کام کیاہووہ اجرت کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگر مساقات کسی اوروجہ سے باطل ہوتوضروری ہے کہ مالک آبیاری اور دوسرے کام کرنے کی اجرت درختوں کی نگہداشت کرنے والے کومعمول کے مطابق دے لیکن اگرمعمول کے مطابق اجرت طے شدہ اجرت سے زیادہ ہو اور وہ اس سے مطلع ہوتوطے شدہ اجرت سے زیادہ دینالازم نہیں ۔
مسئلہ (۲۲۶۹)’’مغارسہ‘‘ یہ ہے کہ کوئی شخص زمین دوسرے کے سپرد کردے تاکہ وہ درخت لگائے اور جو کچھ حاصل ہووہ دونوں کامال ہو تو یہ معاملہ صحیح ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ایسے معاملے کوترک کرے۔لیکن اس معاملے کے نتیجے پرپہنچنے کے لئے کوئی اور معاملہ انجام دے توبغیراشکال کے وہ معاملہ صحیح ہے،مثلاًفریقین کسی طرح باہم مصالحت اوراتفاق کرلیں یانئے درخت لگانے میں شریک ہوجائیں پھر باغبان اپنی خدمات مالک زمین کوبیج بونے، درختوں کی نگہداشت اورآبیاری کرنے کے لئے ایک معین مدت تک زمین کی پیداوار کے نصف فائدے کے عوض کرایہ پرپیش کرے۔
وہ اشخاص جواپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتے
مسئلہ (۲۲۷۰)جوبچہ بالغ نہ ہواہووہ اپنی ذمہ داری اوراپنے مال میں شرعاً تصرف نہیں کرسکتااگرچہ اچھے اور برے کوسمجھنے میں حدکمال اوررشدتک پہنچ گیاہواور سرپرست کی گذشتہ اجازت اس بارے میں کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور بعد کی اجازت میں بھی اشکال ہے۔لیکن چندچیزوں میں بچے کا تصرف کرناصحیح ہے،ان میں سے کم قیمت والی چیزوں کی خریدوفروخت کرناہے جیسے کہ مسئلہ ( ۲۰۹۲) میں گذرچکاہے۔اسی طرح بچے کا اپنے خونی رشتے داروں اورقریبی رشتے داروں کے لئے وصیت کرناجس کابیان مسئلہ (۲۷۱۴ ) میں آئے گا۔لڑکی میں بالغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ نوقمری سال پورے کرلے اور لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت تین چیزوں میں سے ایک ہوتی ہے:
۱:) ناف کے نیچے اورشرم گاہ سے اوپرسخت بالوں کااگنا۔
۲:)منی کاخارج ہونا۔
۳:)عمرکے پندرہ قمری سال پورے کرنا۔
مسئلہ (۲۲۷۱)چہرے پراورہونٹوں کے اوپرسخت بالوں کااگنابعیدنہیں کہ بلوغت کی علامت ہولیکن سینے پراوربغل کے نیچے بالوں کااگنااورآواز کابھاری ہوجانااورایسی ہی دوسری علامات بلوغت کی نشانیاں نہیں ہیں ۔
مسئلہ (۲۲۷۲)دیوانہ اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔اسی طرح دیوالیہ یعنی وہ شخص جسے اس کے قرض خواہوں کے مطالبے پرحاکم شرع نے اپنے مال میں تصرف کرنے سے منع کردیاہو، قرض خواہوں کی اجازت کے بغیراس مال میں تصرف نہیں کر سکتا اوراسی طرح سفیہ یعنی وہ شخص جواپنامال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرتاہو، سرپرست کی اجازت کے بغیراپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۲۷۳)جوشخص کبھی عاقل اورکبھی دیوانہ ہوجائے اس کادیوانگی کی حالت میں اپنے مال میں تصرف کرناصحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۴)انسان کواختیارہے مرض الموت کے عالم میں اپنے آپ پریااپنے اہل وعیال اورمہمانوں پراوران کاموں پرجوفضول خرچی میں شمارنہ ہوں جتناچاہے صرف کرے اوراگراپنے مال کواس کی (اصل) قیمت پر فروخت کرے یاکرائے پردے توکوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن اگرمثلاً اپنامال کسی کو بخش دے یارائج قیمت سے سستا فروخت کرے توجتنی مقداراس نے بخش دی ہے یاجتنی سستی فروخت کی ہے اگروہ اس کے مال کی ایک تہائی کے برابریا اس سے کم ہوتواس کاتصرف کرناصحیح ہے اور اگرایک تہائی سے زیادہ ہوتوورثاء کی اجازت کی صورت میں اس کاتصرف کرناصحیح ہے اوراگر ورثاء اجازت نہ دیں توایک تہائی سے زیادہ میں اس کاتصرف باطل ہے۔
وکالت کے احکام
وکالت سے مراد یہ ہےکہ(عقود یا ایقاعات میں سے) وہ کام جو اس کی شان کےمطابق ہو جیسے مال حوالے کرنا یا اپنے ذمہ لینا کہ وہ خوداس کو انجام دینے کا حق رکھتا ہے وہ کسی اور کے حوالے کردے مثلاً کسی کواپناوکیل بنائے تاکہ وہ اس کامکان بیچ دے یاکسی عورت سے اس کاعقد کر دے۔ لہٰذا سفیہ چونکہ اپنے مال میں تصرف کرنے کاحق نہیں رکھتااس لئے وہ مکان بیچنے کے لئے کسی کووکیل نہیں بناسکتا۔
مسئلہ (۲۲۷۵)وکالت میں صیغہ پڑھنالازم نہیں بلکہ اگرانسان دوسرے شخص کو سمجھا دے کہ اس نے اسے وکیل مقررکیاہے اور وہ بھی سمجھادے کہ اس نے وکیل بنناقبول کر لیا ہے مثلاًایک اپنامال دوسرے کو دے تاکہ وہ اسے اس کی طرف سے بیچ دے اوردوسرا شخص وہ مال لے لے تووکالت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۶)اگرانسان ایک ایسے شخص کووکیل مقررکرے جس کی رہائش دوسرے شہرمیں ہواوراس کو وکالت نامہ بھیج دے اور وہ وکالت نامہ قبول کرلے تواگرچہ وکالت نامہ اسے کچھ عرصے بعدہی ملے پھربھی وکالت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۷)موکل( یعنی وہ شخص جودوسرے کووکیل بنائے) اوروہ شخص جووکیل بنے ضروری ہے کہ دونوں عاقل ہوں اوروکیل بنانے اوروکیل بننے کااقدام قصداور اختیار سے کریں اورموکل کے لئے بالغ ہونا بھی ضروری ہے۔مگران کاموں میں جن کو ممیزبچے کاانجام دیناصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۷۸)جوکام انسان انجام نہ دے سکتاہویاشرعاًانجام دیناضروری نہ ہو اسے انجام دینے کے لئے وہ دوسرے کاوکیل نہیں بن سکتا۔مثلاًجوشخص حج کااحرام باندھ چکاہوچونکہ اسے نکاح کاصیغہ نہیں پڑھناچاہئے اس لئے وہ صیغۂ نکاح پڑھنے کے لئے دوسرے کاوکیل نہیں بن سکتا۔
مسئلہ (۲۲۷۹)اگرکوئی شخص اپنے تمام کام انجام دینے کے لئے دوسرے شخص کو وکیل بنائے توصحیح ہے لیکن اگراپنے کاموں میں سے ایک کام کرنے کے لئے دوسرے کو وکیل بنائے اور کام کاتعین نہ کرے تو وکالت صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگروکیل کو چند کاموں میں سے ایک کام جس کاوہ خودانتخاب کرے انجام دینے کے لئے وکیل بنائے مثلاً اس کو وکیل بنائے کہ یااس کاگھرفروخت کرے یاکرائے پردے تووکالت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۰)اگرمؤکل وکیل کومعزول کردے( یعنی جوکام اس کے ذمے لگایا ہواس سے برطرف کردے) تووکیل اپنی معزولی کی خبرمل جانے کے بعداس کام کو (مؤکل کی جانب سے) انجام نہیں دے سکتالیکن معزولی کی خبرملنے سے پہلے اس نے وہ کام کر دیاہوتوصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۱)مؤکل خواہ موجودنہ ہووکیل خودکووکالت سے کنارہ کش کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۸۲)جوکام وکیل کے سپردکیاگیاہو،اس کام کے لئے وہ کسی دوسرے شخص کووکیل مقررنہیں کرسکتالیکن اگر مؤکل نے اسے اجازت دی ہوکہ کسی کو وکیل مقرر کرے توجس طرح اس نے حکم دیاہے اسی طرح وہ عمل کرسکتاہے لہٰذااگراس نے کہاہو کہ میرے لئے ایک وکیل مقررکروتوضروری ہے کہ اس کی طرف سے وکیل مقرر کرے لیکن ازخودکسی کووکیل مقررنہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۲۸۳)اگروکیل مؤکل کی اجازت سے کسی کواس کی طرف سے وکیل مقرر کرے توپہلا وکیل دوسرے وکیل کومعزول نہیں کرسکتااوراگرپہلاوکیل مرجائے یامؤکل اسے معزول کردے تب بھی دوسرے وکیل کی وکالت باطل نہیں ہوتی۔
مسئلہ (۲۲۸۴)اگروکیل مؤکل کی اجازت سے کسی کوخوداپنی طرف سے وکیل مقرر کرے تومؤکل اورپہلا وکیل اس وکیل کومعزول کرسکتے ہیں اور اگرپہلا وکیل مرجائے یا معزول ہوجائے تودوسری وکالت باطل ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۵)اگر(مؤکل) کسی کام کے لئے چنداشخاص کووکیل مقررکرے اور ان سے کہے کہ ان میں سے ہرایک ذاتی طورپراس کام کوکرے توان میں سے ہرایک اس کام کوانجام دے سکتاہے اوراگران میں سے ایک مرجائے تودوسروں کی وکالت باطل نہیں ہوتی،لیکن اگریہ کہاہوکہ سب مل کرانجام دیں یا مطلقاً کہا ہو کہ: تم دونوں میرے وکیل ہو توان میں سے کوئی تنہااس کام کو انجام نہیں دے سکتااور اگران میں سے ایک مرجائے توباقی اشخاص کی وکالت باطل ہو جاتی ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۶)اگروکیل یامؤکل مرجائے تووکالت باطل ہوجاتی ہے۔نیز جس چیز میں تصرف کے لئے کسی شخص کووکیل مقررکیاجائے اگروہ چیزتلف ہوجائے مثلاً جس بھیڑ کوبیچنے کے لئے کسی کووکیل مقرر کیاگیاہواگروہ بھیڑمرجائے تووکالت باطل ہوجائے گی اوراسی طرح اگروکیل یامؤکل میں سے کوئی ایک ہمیشہ کے لئے ویوانہ یابے ہوش ہو جائے تووکالت باطل ہوجائے گی۔لیکن اگر کبھی کبھی دیوانگی یابے ہوشی کادورہ پڑتاہو تو وکالت کاباطل ہونادیوانگی اوربے ہوشی کی مدت میں حتیٰ کہ دیوانگی اوربے ہوشی ختم ہونے کے بعدبھی محل اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۷)اگرانسان کسی کواپنے کام کے لئے وکیل مقررکرے اوراسے کوئی چیز دیناطے کرے تو کام کی تکمیل کے بعدضروری ہے کہ جس چیزکادیناطے کیاہووہ اسے دے دے۔
مسئلہ (۲۲۸۸)جومال وکیل کے اختیار میں ہواگروہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اور جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہواس کے علاوہ کوئی تصرف اس میں نہ کرے اوراتفاقاً وہ مال تلف ہوجائے تواس کا ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۲۸۹)جومال وکیل کے اختیارمیں ہواگروہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی برتے یاجس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہواس سے تجاوز کرے اور وہ مال تلف ہو جائے تووہ وکیل ذمہ دار ہے۔لہٰذا جس لباس کے لئے اسے کہاجائے کہ اسے بیچ دو اگروہ اسے پہن لے اوروہ لباس تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۲۲۹۰)اگروکیل کومال میں جس تصرف کی اجازت دی گئی ہواس کے علاوہ کوئی تصرف کرے مثلاً اسے جس لباس کے بیچنے کے لئے کہاجائے وہ اسے پہن لے اور بعد میں وہ تصرف کرے جس کی اسے اجازت دی گئی ہوتووہ تصرف صحیح ہے۔
قرض کے احکام
مومنین کوخصوصاً ضرورت مندمومنین کوقرض دیناان مستحب کاموں میں سے ہے جن کے متعلق احادیث میں کافی تاکیدکی گئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت ہے : ’’جوشخص اپنے مسلمان بھائی کوقرض دے اور اس کو ممکنہ مدت تک مہلت دے تو اس کے مال میں زیادتی پیداہوتی ہے اور ملائکہ اس پر دعائےرحمت برساتے ہیں اس وقت کہ جب تک وہ اپنا مال واپس نہ لے لے‘‘ اور امام صادق علیہ السلام سے منقول ہےکہ ’’ اگر کوئی مومن دوسرے مومن کوقصدقربت کے ساتھ قرض دیتا ہے تو خداوند صدقہ کا اجر اس کے لئے اس وقت تک قرار دیتا ہے جب تک وہ اپنا مال واپس نہ لے لے‘‘ ۔
مسئلہ (۲۲۹۱)قرض میں صیغہ پڑھنالازم نہیں بلکہ اگرایک شخص دوسرے کوکوئی چیز قرض کی نیت سے دے اوردوسرابھی اسی نیت سے لے توقرض صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۲۹۲)جب بھی مقروض اپناقرضہ اداکرے توقرض دینے والے کوچاہئے کہ اسے قبول کرلے۔ لیکن اگر قرض اداکرنے کے لئے قرض دینے والے کے کہنے سے یادونوں کے کہنے سے ایک مدت مقررکی ہوتواس صورت میں قرض دینے والا اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے اپناقرض واپس لینے سے انکارکرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۲۹۳)اگر قرض کے صیغہ میں ادائگی کےلئے کوئی مدت مقرر کی جائے تو اگر یہ مدت قرض لینے والے کے کہنے سے یا دونوں فریق کے کہنے سے معین کی گئی ہوتو قرض دینے والا اس مدت کے ختم ہونے سےپہلے قرض کامطالبہ نہیں کرسکتا لیکن اگر مدت قرض دینے والے کے کہنے سے معین کی گئی ہو یا ادائگی کے لئے کوئی مدت معین نہ کی گئی ہو تو قرض دینے والا جب بھی چاہے ادائگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۲۹۴)اگرقرضہ دینے والا اپنے قرض کی ادائگی کامطالبہ کرے اور وقت مقرر نہ کیا گیا ہویا وقت آگیا ہو اورمقروض اپنا قرض ادا کرسکتاہوتواسے چاہئے کہ فوراً ادا کرے اوراگرادائگی میں تاخیرکرے توگنہگارہے۔
مسئلہ (۲۲۹۵)اگرمقروض کے پاس ایک گھرہوکہ جس میں وہ رہتاہواورگھرکے اسباب جو اس کی معاشرتی حیثیت اور درجہ کے مطابق ہوں اوران لوازمات کہ جن کی اسے ضرورت ہواوران کے بغیراسے پریشانی ہواور کوئی چیزنہ ہوتوقرض دینے والا اس سے قرض کی ادائگی کا مطالبہ نہیں کرسکتابلکہ اسے چاہئے کہ انتظارکرے حتیٰ کہ مقروض قرض اداکرنے کے قابل ہوجائے۔
مسئلہ (۲۲۹۶)جوشخص مقروض ہواوراپناقرض ادانہ کرسکتاہوتواگروہ کوئی ایساکام کاج کرسکتاہوجواس کے شایان شان ہوتوواجب یہ ہے کہ کام کرے اور اپنا قرض اداکرے بلکہ اس صورت کےعلاوہ بھی کوئی ایسا کام جو اس کی حیثیت کےمطابق ہو،کرنا ممکن ہوتو احتیاط واجب یہ ہےکہ اس کام کو کرے اور اپنے قرضہ کو ادا کرے۔
مسئلہ (۲۲۹۷)جس شخص کےلئے اپنےقرض دینے والے تک رسائی نہ ہو اورمستقبل میں اس کے یااس کے وارث کے ملنے کی امیدبھی نہ ہوتوضروری ہے کہ وہ قرضے کامال قرض دینے والا کی طرف سے فقیرکودے دے اور(احتیاط واجب کی بناپر) ایساکرنے کی اجازت حاکم شرع سے لے لے ۔لیکن اگر مقروض کوقرض دینے والے یااس کے وارث کے ملنے کی امیدہوتوضروری ہے کہ انتظار کرے اوراس کوتلاش کرے اور اگروہ نہ ملے تووصیت کرے کہ اگروہ مرجائے اور قرض دینے والا یا اس کاوارث مل جائے تواس کا قرض اس کے مال سے اداکیاجائے۔
مسئلہ (۲۲۹۸)اگرکسی میت کامال اس کے کفن دفن کے واجب اخراجات اور قرض سے زیادہ نہ ہوتواس کامال انہی امورپرخرچ کرناضروری ہے اوراس کے وارث کو کچھ نہیں ملے گا۔
مسئلہ (۲۲۹۹)اگر کوئی شخص کچھ مقدار میں رقم یا گیہوں یا جو یا اس جیسی کوئی چیز جو مثلی ہے قرض لے اور اس کی قیمت کم یا زیادہ ہوجائے تولی گئی مقدارکو اس کے وہ صفات اور خصوصیات جو اس مال کی محبوبیت میں دخالت رکھتی ہیں انھیں کے ساتھ واپس کرے اور یہی کافی ہے لیکن اگر قرض دینے والا اور قرض لینے والا ان کے علاوہ کسی پر راضی ہوجائیں تو اشکال نہیں ہے لیکن اگر جس چیز کو بطور قرض لیا ہے وہ قیمی ہو جیسے بھیڑ و بکری تو ضروری ہے کہ اس دن کی قیمت ادا کرے جس دن قرض لیا تھا۔
مسئلہ (۲۳۰۰)کسی شخص نے جومال قرض لیاہواگروہ تلف نہ ہواہواورمال کامالک اس کامطالبہ کرے توواجب نہیں ہے کہ مقروض وہی مال مالک کودے دے اور اگر لینے والا چاہے کہ اسی مال کو دے تو قرض دینے والےکےلئے یہ ممکن ہےکہ قبول نہ کرے۔
مسئلہ (۲۳۰۱)اگرقرض دینے والاشرط عائد کرے کہ وہ جتنی مقدارمیں مال دے رہاہے اس سے زیادہ واپس لے گامثلاًایک من گیہوں دے اور شرط عائد کرے کہ ایک من پانچ سیرواپس لوں گایادس انڈے دے اور کہے کہ گیارہ انڈے واپس لوں گاتویہ سود اور حرام ہے بلکہ اگرطے کرے کہ مقروض اس کے لئے کوئی کام کرے گایاجوچیزلی ہو وہ کسی دوسری جنس کی کچھ مقدار کے ساتھ واپس کرے گامثلاًطے کرے کہ (مقروض نے) جوایک روپیہ لیاہے واپس کرتے وقت اس کے ساتھ ماچس کی ایک ڈبیہ بھی دے تو یہ سود ہوگااورحرام ہے۔نیزاگرمقروض کے ساتھ شرط کرے کہ جوچیزقرض لے رہاہے اسے ایک مخصوص طریقے سے واپس کرے گامثلاً ان گڑھے سونے کی کچھ مقداراسے دے اور شرط کرے کہ گھڑاہواسونا واپس کرے گاتب بھی یہ سوداورحرام ہوگاالبتہ اگرقرض خواہ کوئی شرط نہ لگائے بلکہ مقروض خودقرضے کی مقدارکچھ زیادہ واپس دے توکوئی اشکال نہیں بلکہ ایساکرنا مستحب ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۲)سوددیناسودلینے کی طرح حرام ہے لیکن قرض لینا صحیح ہے لیکن جوشخص سودپرقرض لے ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کامالک ہوجاتاہے لیکن قرض دینے والا اس مال کا جسے وہ اضافی لے رہا ہے اس کا مالک نہیں بنتا اور اس میں تصرف بھی حرام ہے اگر اس مال سے کسی چیز کو خریدے تو اس کا مالک نہیں بنتا اور اگر صورت یہ ہوکہ طرفین نے سودکامعاہدہ نہ بھی کیاہوتااور رقم کامالک اس بات پرراضی ہوتاکہ قرض لینے والارقم میں تصرف کرلے تومقروض بغیرکسی اشکال کے اس رقم میں تصرف کرسکتاہے۔اور اسی طرح سے اگر مسئلہ نہ جاننے کی بناء پر سودلے لے او رجانکاری ملنے کے بعد توبہ کرلے تو نادانی کے دور میں جس چیز کولیا ہے اس کے لئےحلال ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۳)اگرکوئی شخص گیہوں یااسی جیسی کوئی چیزسودی قرضے کے طورپرلے اوراس کے ذریعے کاشت کرے تووہ پیداوارکامالک ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۲۳۰۴)اگرایک شخص کوئی لباس خریدے اوربعدمیں اس کی قیمت کپڑے کے مالک کوسودی رقم سے یاایسی حلال رقم سے جوسودی قرضے پرلی گئی رقم کے ساتھ مخلوط ہوگئی ہواداکرے تواس لباس کے پہننے یااس کے ساتھ نمازپڑھنے میں کوئی اشکال نہیں لیکن اگربیچنے والے سے کہے کہ میں یہ لباس اس رقم سے خریدرہاہوں تواس لباس کا مالک نہیں ہوگا اوراس لباس کو پہننا حرام ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۵)اگرکوئی شخص کسی شخص کوکچھ رقم دے اوردوسرے شہرمیں اس شخص سے کم رقم لے تواس میں کوئی اشکال نہیں اوراسے ’’صرف برأت‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۳۰۶)اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چیز دے کہ دوسرے شہر میں اس سے زیادہ لے گا اس صورت میں کہ وہ چیز سونا یا چاندی یا گیہوں یاجو ہوجو ناپ اور تول کردی جاتی ہیں ان میں سےہو تو سود اور حرام ہے لیکن اگر اضافی مال کو لے اور اس اضافے کے مقابل میں کوئی چیز دے یا کوئی عمل انجام دے تو اشکال نہیں ہے لیکن اگر نوٹ کی شکل میں قرض دے تواس سے زیادہ لیناجائز نہیں ہے اور اگر بیچے تو نقدی ہویا قرض کی شکل میں ہو لیکن اس کی رقم دو طرح کی ہو جیسے ایک روپیہ میں ہو او ردوسرے ڈالر میں ہو تو زیادہ رقم میں اشکال نہیں ہے لیکن اگر قرض کی شکل میں ہو اور ایک طرح کے ہوں تو زیادہ لینے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۳۰۷)اگرکسی شخص نے کسی سے کچھ قرض لیاہواوروہ چیز ناپی یاتولی جانے والی جنس نہ ہوتووہ شخص اس چیزکومقروض یاکسی اورکے پاس کم قیمت پر بیچ کراس کی قیمت نقدوصول کرسکتاہے۔اسی بناپرموجودہ دورمیں جوچیک اورہنڈیاں قرض دینے والا مقروض سے لیتاہے انہیں وہ بینک کے پاس یاکسی دوسرے شخص کے پاس اس سے کم قیمت پر(جسے عام طورپربھاؤگرناکہتے ہیں ) بیچ سکتاہے اورباقی رقم نقدلے سکتا ہے ۔
حوالہ دینے کے احکام
مسئلہ (۲۳۰۸)اگرکوئی شخص اپنے قرض دینے والے کوحوالہ دے کہ وہ اپناقرض ایک اور شخص سے لے لے اورقرض دینے والا اس بات کوقبول کرلے توجب ’’حوالہ‘‘ ان شرائط کے ساتھ جن کاذکربعدمیں آئے گامکمل ہوجائے توجس شخص کے نام حوالہ دیاگیاہے وہ مقروض ہوجائے گااوراس کے بعدقرض دینے والا پہلے مقروض سے اپنے قرض کامطالبہ نہیں کر سکتا۔
مسئلہ (۲۳۰۹)مقروض اورقرض دینے والا اورجس شخص کاحوالہ دیا جا سکتا ہو ضروری ہے کہ سب بالغ اور عاقل ہوں اور کسی نے انہیں مجبورنہ کیاہونیزضروری ہے کہ سفیہ نہ ہوں یعنی اپنامال احمقانہ اورفضول کاموں میں خرچ نہ کرتے ہوں اوریہ بھی معتبرہے کہ مقروض اور قرض دینےوالا دیوالیہ نہ ہوں ۔ہاں اگر حوالہ ایسے شخص کے نام ہوجوپہلے سے حوالہ دینے والے کامقروض نہ ہوتواگرچہ حوالہ دینے والادیوالیہ بھی ہوکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۱۰)حوالے کے تمام مقامات میں ضروری ہےکہ جس کے حوالے کیا جائے وہ قبول کررہا ہو چاہے قرض دار ہو یا نہ ہو۔
مسئلہ (۲۳۱۱)انسان جب حوالہ دے توضروری ہے کہ وہ اس وقت مقروض ہو لہٰذا اگروہ کسی سے قرض لیناچاہتاہوتوجب تک اس سے قرض نہ لے لے اسے کسی کے نام کا حوالہ نہیں دے سکتاتاکہ جوقرض اسے بعدمیں دیناہووہ پہلے ہی اس شخص سے وصول کرلے۔
مسئلہ (۲۳۱۲)حوالہ کی جنس اورمقدار فی الواقع معین ہوناضروری ہے پس اگرحوالہ دینے والاکسی شخص کا دس من گیہوں اوردس روپے کامقروض ہواورقرض خواہ کوحوالہ دے کہ ان دونوں قرضوں میں سے کوئی ایک فلاں شخص سے لے لواور اس قرضے کومعین نہ کرے توحوالہ درست نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۱۳)اگرقرض واقعی معین ہولیکن حوالہ دینے کے وقت قرض دینے والے اور لینے والےکو اس کی مقداریاجنس کاعلم نہ ہوتوحوالہ صحیح ہے مثلاً اگرکسی شخص نے دوسرے کا قرضہ رجسٹر میں لکھاہواور رجسٹردیکھنے سے پہلے حوالہ دے دے اوربعدمیں رجسٹردیکھے اورقرض دینے والے کو قرضے کی مقداربتادے توحوالہ صحیح ہوگا۔
مسئلہ (۲۳۱۴)قرض خواہ کواختیارہے کہ حوالہ قبول نہ کرے اگرچہ جس کے نام کا حوالہ دیاجائے وہ دولت مندہواورحوالہ کے اداکرنے میں کوتاہی بھی نہ کرے۔
مسئلہ (۲۳۱۵)جوشخص حوالہ دینے والے کامقروض نہ ہواگرحوالہ قبول کرے تو حوالہ اداکرنے سے پہلے حوالہ دینے والے سے حوالے کی مقدارکامطالبہ کرسکتا ہے۔مگریہ کہ جوقرض جس کے نام حوالہ دیاگیاہے اس کی مدت معین ہواورابھی وہ مدت ختم نہ ہوئی ہوتواس صورت میں وہ مدت ختم ہونے سے پہلے حوالہ دینے والے سے حوالے کی مقدار کامطالبہ نہیں کرسکتااگرچہ اس نے ادائگی کردی ہواوراسی طرح اگرقرض دینے والااپنے قرض سے تھوڑی مقدارپرسمجھوتہ کرے تووہ حوالہ دینے والے سے فقط اتنی مقدار کاہی مطالبہ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۳۱۶)حوالہ کی شرائط پوری ہونے کے بعدحوالہ دینے والااورجس کے نام حوالہ دیاجائے حوالہ منسوخ نہیں کرسکتے اوروہ شخص جس کے نام کاحوالہ دیاگیاہے حوالہ کے وقت فقیرنہ ہوتواگرچہ وہ بعد میں فقیرہوجائے توقرض دینے والا بھی حوالے کومنسوخ نہیں کر سکتا۔یہی حکم اس وقت ہے جب (وہ شخص جس کے نام کاحوالہ دیاگیاہو) حوالہ دینے کے وقت فقیرہواور قرض دینے والا جانتاہوکہ وہ فقیرہے لیکن اگرقرض دینے والے کوعلم نہ ہوکہ وہ فقیر ہے اوربعدمیں اسے پتا چلے تواگراس وقت وہ شخص مال دارنہ ہواہوقرض دینے والا حوالہ منسوخ کرکے اپناقرض حوالہ دینے والے سے لے سکتاہے۔ لیکن اگروہ مال دار ہوگیاہو توحق فسخ کے رکھنے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۲۳۱۷)اگرمقروض اورقرض دینے والے اورجس کے نام کاحوالہ دیا گیا ہو یا ان میں سے کسی ایک نے اپنے حق میں حوالہ منسوخ کرنے کامعاہدہ کیاہوتوجومعاہدہ انہوں نے کیا ہواس کے مطابق وہ حوالہ منسوخ کرسکتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۳۱۸)اگرحوالہ دینے والاخودقرض دینے والے کاقرضہ اداکردے یہ کام اس شخص کی خواہش پرہواہوجس کے نام کاحوالہ دیاگیاہوجب کہ وہ حوالہ دینے والے کا مقروض بھی ہو تووہ جوکچھ دیاہواس سے لے سکتاہے اوراگراس کی خواہش کے بغیر ادا کیا ہو یاوہ حوالہ دہندہ کامقروض نہ ہوتوپھراس نے جوکچھ دیاہے اس کا مطالبہ اس سے نہیں کرسکتا۔
رہن کے احکام[8]
مسئلہ (۲۳۱۹)رہن یہ ہے کہ انسان قرض کے بدلے اپنامال یاجس مال کے لئے ضامن بناہووہ مال کسی کے پاس گروی رکھوائے کہ اگررہن رکھوانے والاقرضہ نہ لوٹا سکے یارہن نہ چھڑاسکے تورہن لینے والاشخص اس کاعوض اس مال سے لے سکے۔
مسئلہ (۲۳۲۰)رہن میں صیغہ پڑھنالازم نہیں ہے بلکہ اتناکافی ہے کہ گروی دینے والااپنامال گروی رکھنے کی نیت سے گروی لینے والے کودے دے اوروہ اسی نیت سے لے لے تورہن صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۱)ضروری ہے کہ گروی رکھوانے والااورگروی لینے والابالغ اور عاقل ہوں اورکسی نے انہیں اس معاملے کے لئے مجبورنہ کیاہواوریہ بھی ضروری ہے کہ مال گروی رکھوانے والادیوالیہ اور سفیہ نہ ہو(دیوالیہ اور سفیہ کے معنی مسئلہ ( ۲۲۷۲) میں بتائے جاچکے ہیں ) اوراگردیوالیہ ہولیکن جو مال وہ گروی رکھوارہاہے اس کااپنامال نہ ہویا ان اموال میں سے نہ ہوجس کے تصرف کرنے سے منع کیاگیاہوتوکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۲)انسان وہ مال گروی رکھ سکتاہے جس میں وہ شرعاً تصرف کرسکتاہو اور اگرکسی دوسرے کامال اس کی اجازت سے گروی رکھ دے توبھی صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۳)جس چیز کوگروی رکھاجارہاہوضروری ہے کہ اس کی خریدوفروخت صحیح ہو۔ لہٰذااگرشراب یااس جیسی چیزگروی رکھی جائے تودرست نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۴)جس چیزکوگروی رکھاجارہاہے اس سے جوفائدہ ہوگاوہ اس چیز کے مالک کی ملکیت ہوگاخواہ وہ گروی رکھوانے والاہویاکوئی دوسراشخص ہو۔
مسئلہ (۲۳۲۵)گروی لینے والے نے جومال بطورگروی لیاہواس مال کواس کے مالک کی اجازت کے بغیر(خواہ گروی رکھوانے والاہویاکوئی دوسراشخص) کسی دوسرے کی ملکیت میں نہیں دے سکتا۔مثلاًنہ وہ کسی دوسرے کووہ مال بخش سکتاہے نہ کسی کوبیچ سکتا ہے۔ لیکن اگروہ بعد میں اجازت دے دے توکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۲۶)اگرگروی لینے والااس مال کوجواس نے بطورگروی لیاہواس کے مالک کی اجازت سے بیچ دے تومال کی طرح اس کی قیمت گروی نہیں ہوگی اوریہی حکم ہے اگرمالک کی اجازت کے بغیر بیچ دے اور مالک بعدمیں اجازت دے (یعنی اس مال کی جوقیمت وصول کی جائے وہ اس مال کی طرح گروی نہیں ہوگی)۔لیکن اگرگروی رکھوانے والااس چیزکوگروی لینے والے کی اجازت سے بیچ دے تاکہ اس کی قیمت کو گروی قراردے توضروری ہے کہ مالک کی اجازت سے بیچ دے اوراس صورت کی مخالفت کررہا ہو معاملہ باطل ہے۔ مگریہ کہ گروی لینے والے نے اس کی اجازت دی ہو (توپھرمعاملہ صحیح ہے)۔
مسئلہ (۲۳۲۷)جس وقت مقروض کوقرض اداکردیناچاہئے اگرقرض دینے والا اس وقت مطالبہ کرے اورمقروض ادائگی نہ کرے تواس صورت میں جب کہ قرض دینے والا مال کو فروخت کرکے اپناقرضہ اس کے مال سے وصول کرنے کااختیاررکھتاہووہ گروی لئے ہوئے مال کوفروخت کرکے اپناقرضہ وصول کرسکتاہے اور اگروکالت نہ رکھتاہوتواس کے لئے لازم ہے کہ مقروض سے اجازت لے اور اگراس تک پہنچ نہ سکتا ہوتو(احتیاط واجب کی بناءپر)ضروری ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے اور دونوں صورتوں میں اگر قرضے سے زیادہ قیمت وصول ہوتوضروری ہے کہ زائدمال مالک کودے دے۔
مسئلہ (۲۳۲۸)اگرمقروض کے پاس مکان کے علاوہ جس میں وہ رہتاہواوراس سامان کے علاوہ جس کی اسے ضرورت ہواورکوئی چیزنہ ہوتوقرض دینے والا اس سے اپنے قرض کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن مقروض نے جومال بطورگروی دیاہواگرچہ وہ مکان اور سامان ہی کیوں نہ ہوقرض دینے والا گذشتہ مسئلہ میں مذکورہ امور کی رعایت کرتے ہوئے اسے بیچ کراپناقرض وصول کرسکتاہے۔
ضامن ہونے کے احکام
مسئلہ (۲۳۲۹)اگرکوئی شخص کسی دوسرے کےقرضہ کو اداکرنے کے لئے ضامن بننا چاہے تواس کاضامن بننااس وقت صحیح ہوگاجب وہ کسی لفظ سے اگرچہ وہ عربی زبان میں نہ ہویاکسی عمل سے قرض دینے والے کوسمجھادے کہ میں تمہارے قرض کی ادائگی کے لئے ضامن بن گیاہوں اورقرض دینے والا بھی اپنی رضامندی کااظہارکردے اوراس سلسلے میں مقروض کارضامندہوناشرط نہیں ہے۔اور اس معاملہ کی دو صورتیں ہیں :
(۱) یہ ہے کہ ضامن قرضہ کوقرضہ دینے والے کے ذمہ سے اپنے ذمہ میں لے لے لہٰذا اگر ادا کرنے سےپہلے انتقال کرجائے تو بقیہ قرضوں کی طرح میراث پر مقدم ہوگا اور عام طور سے فقہاء کی نظر میں ’’ ضمان‘‘ کے لفظ کا یہی معنی ہے۔
(۲) ضامن قرض ادا کرنے کو اپنے لئے ضروری قرار دے لیکن اس پرفرض نہیں ہے اور اگر وصیت نہ کرے تواس کے انتقال کےبعد اس کے مال میں سے ادانہیں ہوگا۔
مسئلہ (۲۳۳۰)ضامن اورقرض دینے والے دونوں کے لئے ضروری ہے بالغ اورعاقل ہوں اور کسی نے انہیں اس معاملے پرمجبورنہ کیاہونیزضروری ہے کہ وہ سفیہ بھی نہ ہوں اور اسی طرح ضروری ہے کہ قرض دینے والا دیوالیہ نہ ہو،لیکن یہ شرائط مقروض کے لئے نہیں ہیں مثلاًاگرکوئی شخص بچے،دیوانے یاسفیہ کاقرض اداکرنے کے لئے ضامن بنے تو ضمانت صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۱)جب کوئی شخص ضامن بننے کے لئے کوئی شرط رکھے مثلاً یہ کہے کہ ’’اگر مقروض تمہاراقرض ادانہ کرے تومیں تمہاراقرض اداکروں گا‘‘ تومسئلہ ( ۲۳۲۹) کی پہلی صورت کے مطابق اس کے ضامن بننے میں اشکال ہے لیکن اسی مسئلہ کی دوسری صورت کےمطابق اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۲)انسان جس شخص کے قرض کی ضمانت دے رہاہے ضروری ہے کہ وہ مقروض ہولہٰذااگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے قرض لیناچاہتاہوتوجب تک وہ قرض نہ لے لے اس وقت تک کوئی شخص اس کاضامن نہیں بن سکتااور ضمانت کی یہ شرط دوسری صورت میں نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۳)انسان اسی صورت میں ضامن بن سکتاہے جب قرض دینے والا اور مقروض اور قرض دیا گیا مال (یہ تینوں ) فی الواقع معین ہوں لہٰذااگردواشخاص کسی ایک شخص سے قرض واپس لینا چاہتے ہوں اور کوئی انسان کہے کہ میں تم میں سے ایک کاقرض اداکردوں گاتوچونکہ اس نے اس بات کومعین نہیں کیاکہ وہ ان میں سے کس کاقرض اداکرے گااس لئے اس کاضامن بننا باطل ہے۔نیزاگرکسی کودواشخاص سے قرض وصول کرناہو اورکوئی شخص کہے کہ میں ضامن ہوں کہ ان میں سے ایک کاقرض تمہیں ادا کردوں گاتوچونکہ اس نے اس بات کومعین نہیں کیاکہ دونوں میں سے کس کاقرضہ اداکرے گااس لئے اس کاضامن بنناباطل ہے اور اسی طرح اگرکسی نے ایک دوسرے شخص سے مثال کے طورپردس من گیہوں اوردس روپے واپس لینے ہوں اورکوئی شخص کہے کہ میں تمہارے دونوں قرضوں میں سے ایک کی ادائگی کاضامن ہوں اوراس چیز کو معین نہ کرے کہ وہ گیہوں کے لئے ضامن ہے یا روپیوں کے لئے تویہ ضمانت صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۳۴)اگر کوئی شخص قرض لینے والے کی اجازت کے بغیر ضامن ہوجائے کہ اس کے قرضے کو ادا کردے گا تو وہ اس سے کسی چیز کو نہیں لے سکتا۔
مسئلہ (۲۳۳۵)اگرکوئی شخص مقروض کی اجازت سے اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن بن جائے توجس مقدارکے لئے ضامن بناہو(اگرچہ اسے اداکرنے سے پہلے) مقروض سے اس کامطالبہ کرسکتاہے لیکن جس جنس کے لئے وہ مقروض تھااس کی بجائے کوئی اورجنس قرض دینے والے کودے توجوچیزدی ہواس کامطالبہ مقروض سے نہیں کر سکتامثلاًاگرمقروض کودس دمن گیہوں دینا ہواورضامن دس من چاول دے دے تو ضامن مقروض سے دس من چاول کامطالبہ نہیں کرسکتالیکن اگرمقروض خودچاول دینے پر رضامندہوجائے توپھرکوئی اشکال نہیں ۔
مسئلہ (۲۳۳۶)اگرقرض دینے والا اپناقرض ضامن کوبخش دے توضامن مقروض سے کوئی چیزنہیں لے سکتااوراگروہ قرضے کی کچھ مقداراسے بخش دے تووہ (مقروض سے) اس مقدارکامطالبہ نہیں کرسکتا لیکن اگر ان سب کو یا کچھ مقدار ھبہ کرے یا خمس یا زکوٰۃ یا صدقات یا ان جیسے باب سےاسے حساب کرے تو ضامن مقروض سے مطالبہ کرسکتا ہے ۔
مسئلہ (۲۳۳۷)اگرکوئی شخص کسی کاقرضہ اداکرنے کے لئے ضامن بن جائے تو پھر وہ ضامن ہونے سے مکرنہیں سکتاہے۔
مسئلہ (۲۳۳۸)(احتیاط واجب کی بناپر)ضامن اورقرض دینے والا یہ شرط نہیں کرسکتے کہ جس وقت چاہیں ضامن کی ضمانت منسوخ کردیں ۔
مسئلہ (۲۳۳۹)اگرانسان ضامن بننے کے وقت قرض دینے والے کاقرضہ اداکرنے کے قابل ہوتوخواہ وہ (ضامن)بعدمیں فقیر ہوجائے قرض دینے والا اس کی ضمانت منسوخ کرکے پہلے مقروض سے قرض کی ادائیگی کامطالبہ نہیں کر سکتااوراسی طرح اگر ضمانت دیتے وقت ضامن قرض اداکرنے پرقادرنہ ہولیکن قرض دینے والا یہ بات جانتے ہوئے اس کے ضامن بننے پرراضی ہوجائے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۳۴۰)اگرانسان ضامن بننے کے وقت قرض دینے والا کاقرضہ ادا کرنے پر قادر نہ ہواورقرض دینے والا صورت حال سے لاعلم ہونے کی بناپراس کی ضمانت منسوخ کرناچاہے تو اس میں اشکال ہے خصوصاً اس صورت میں جب کہ قرض دینےو الے کے اس امرکی جانب متوجہ ہونے سے پہلے ضامن قرضے کی ادائگی پرقادرہوجائے۔
کفالت کے احکام
مسئلہ (۲۳۴۱)’’کفالت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ذمہ لے کہ جس وقت قرض دینے والاچاہے گا وہ مقروض کواس کے سپردکردے گااور جوشخص اس قسم کی ذمے داری قبول کرے اسے’’ کفیل‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۲۳۴۲)کفالت اس وقت صحیح ہے جب کفیل کسی بھی الفاظ میں خواہ وہ عربی زبان کے نہ بھی ہوں یا کسی عمل سے قرض دینے والے کویہ بات سمجھادے کہ میں ذمہ لیتاہوں کہ جس وقت تم چاہوگے میں مقروض کو تمہارے حوالے کردوں گااورقرض دینے والا بھی اس بات کو قبول کرلے اور( احتیاط واجب کی بناپر)کفالت کے صحیح ہونے کے لئے مقروض کی رضامندی بھی معتبرہے۔بلکہ( احتیاط واجب) یہ ہے کہ کفالت کے معاملے میں اسی طرح مقروض کوبھی ایک فریق ہوناچاہئے یعنی مقروض اورقرض دینے والا دونوں کفالت کوقبول کریں ۔
مسئلہ (۲۳۴۳)کفیل کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہواوراسے کفیل بننے پر مجبورنہ کیاگیاہواور وہ اس بات پرقادرہوکہ جس کاکفیل بنے اسے حاضرکرسکے اوراسی طرح اس صورت میں جب مقروض کوحاضرکرنے کے لئے کفیل کواپنامال خرچ کرنا پڑے توضروری ہے کہ وہ سفیہ اوردیوالیہ نہ ہو۔
مسئلہ (۲۳۴۴)ان پانچ چیزوں میں سے کوئی ایک کفالت کوکالعدم کردیتی ہے:
۱:) کفیل مقروض کوقرض دینے والے کے حوالے کردے یاوہ خوداپنے آپ کوقرض دینے والےکے حوالے کردے۔
۲:)قرض دینے والے کاقرضہ اداکردیاجائے۔
۳:)قرض دینے والے اپنے قرضے سے دستبردار ہوجائے یااسے کسی دوسرے کے حوالے کردے۔
۴:)مقروض یاکفیل میں سے ایک مرجائے۔
۵:)قرض دینے والا کفیل کوکفالت سے بری الذمہ قراردے دے۔
مسئلہ (۲۳۴۵)اگرکوئی شخص مقروض کوقرض دینے والے سے زبردستی آزاد کرادے اور قرض دینے والے کی پہنچ مقروض تک نہ ہوسکے توجس نے مقروض کوآزاد کرایاہوضروری ہے کہ وہ مقروض کوقرض دینے والے کے حوالے کردے یااس کاقرض اداکرے۔
ودیعت (امانت) کے احکام
مسئلہ (۲۳۴۶)اگرایک شخص کوئی مال کسی کودے اورکہے کہ یہ تمہارے پاس امانت رہے گااوروہ بھی قبول کرے یاکوئی لفظ کہے بغیرمال کامالک اس شخص کوسمجھادے کہ وہ اسے مال رکھوالی کے لئے دے رہا ہے اوروہ بھی رکھوالی کے مقصدسے لے لے تو ضروری ہے امانت داری کے ان احکام کے مطابق عمل کرے جو بعدمیں بیان ہوں گے۔
مسئلہ (۲۳۴۷)ضروری ہے کہ امانت داراوروہ شخص جومال بطورامانت دے دونوں بالغ اورعاقل ہوں اورکسی نے انہیں مجبورنہ کیاہولہٰذااگرکوئی شخص کسی مال کودیوانے یابچے کے پاس امانت کے طورپررکھے یادیوانہ یابچہ کوئی مال کسی کے پاس امانت کے طورپر رکھے توصحیح نہیں ہے ہاں سمجھ دار بچہ کسی دوسرے کے مال کواس کی اجازت سے کسی کے پاس امانت رکھے توجائزہے۔اسی طرح ضروری ہے کہ امانت رکھوانے والاسفیہ اور دیوالیہ نہ ہولیکن اگردیوالیہ ہوتاہم جومال اس نے امانت کے طورپررکھوایاہووہ اس مال میں سے نہ ہوجس میں اسے تصرف کرنے سے منع کیاگیاہے تواس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ نیزاس صورت میں کہ جب مال کی حفاظت کرنے کے لئے امانت دار کو اپنامال خرچ کرناپڑے جو مال ا س کی ملکیت سے منتقل کرنے کا سبب ہو یا مال کے چلے جانے کا باعث ہوتوضروری ہے کہ وہ ا مانت دار سفیہ اوردیوالیہ نہ ہو۔
مسئلہ (۲۳۴۸)اگرکوئی شخص بچے سے کوئی چیزاس کے مالک کی اجازت کے بغیر بطور امانت قبول کرلے تو ضروری ہے کہ وہ چیزاس کے مالک کودے دے اوراگروہ چیز خود بچے کامال ہوتولازم ہے کہ وہ چیزبچے کے سرپرست تک پہنچادے اوراگروہ مال ان لوگوں کے پاس پہنچانے سے پہلے تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے مگر اس ڈرسے کہ تلف ہوجائے اس مال کو اس کے مالک تک پہنچانے کی نیت سے لیاہوتواس صورت میں اگراس نے مال کی حفاظت کرنے اوراسے مالک تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کی ہواور جن امور میں اجازت نہیں اس میں تصرف نہ کیا ہوتووہ ضامن نہیں ہے اوراگرامانت کے طورپرمال دینے والا دیوانہ ہوتب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۲۳۴۹)جوشخص امانت کی حفاظت نہ کرسکتاہواگرامانت رکھوانے والااس کی اس حالت سے باخبر نہ ہوتوضروری ہے کہ وہ شخص امانت قبول نہ کرے اگر قبول کیااور ضائع ہوگیا تو ضامن ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۰)اگرانسان صاحب مال کوسمجھائے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کے لئے تیارنہیں اوراس مال کوامانت کے طورپرقبول نہ کرے اور صاحب مال پھربھی مال چھوڑ کرچلاجائے اوروہ مال تلف ہو جائے توجس شخص نے امانت قبول نہ کی ہووہ ذمہ دار نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگرممکن ہوتواس مال کی حفاظت کرے۔
مسئلہ (۲۳۵۱)جوشخص کسی کے پاس کوئی چیزبطورامانت رکھوائے وہ امانت کوجس وقت چاہے منسوخ کرسکتاہے اوراسی طرح امین بھی جب چاہے اسے منسوخ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۲)اگرکوئی شخص امانت کی نگہداشت ترک کردے اورامانت داری منسوخ کردے تو ضروری ہے کہ جس قدرجلد ہوسکے مال اس کے مالک یامالک کے وکیل یاسرپرست کوپہنچادے یاانہیں اطلاع دے کہ وہ مال کی(مزید) نگہداشت کے لئے تیارنہیں ہے اوراگروہ بغیرعذرکے مال ان تک نہ پہنچائے یااطلاع نہ دے اورمال تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۲۳۵۳)جوشخص امانت قبول کرے اگراس کے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہ ہوتو ضروری ہے کہ اس کے لئے مناسب جگہ حاصل کرے اور امانت کی اس طرح نگہداشت کرے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس نے نگہداشت میں کوتاہی کی ہے اور اگروہ اس کام میں کوتاہی کرے اور امانت تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۲۳۵۴)جوشخص امانت قبول کرے اگروہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اورنہ ہی تعدی(یعنی جن امور میں اجازت نہیں ہے ان میں تصرف) کرے اوراتفاقاً وہ مال تلف ہوجائے تووہ شخص ذمہ دارنہیں ہے لیکن اگروہ اس مال کی حفاظت میں کوتاہی کرے مثلاًمال کوایسی جگہ رکھے جہاں وہ غیرمحفوظ ہوکہ اگرکوئی ظالم خبرپائے تولے جائے یاوہ اس مال میں تعدی کرے یعنی مالک کی اجازت کے بغیراس مال میں تصرف کرے مثلاًلباس کواستعمال کرے یاجانورپر سواری کرے اوروہ تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کاعوض اس کے مالک کودے۔
مسئلہ (۲۳۵۵)اگرمال کامالک اپنے مال کی نگہداشت کے لئے کوئی جگہ معین کردے اورجس شخص نے امانت قبول کی ہواس سے کہے کہ ’’تمہیں چاہئے کہ یہیں مال کا خیال رکھواوراگراس کے ضائع ہوجانے کااحتمال ہوتب بھی تم اس کوکہیں اور نہ لے جانا۔ ’’توامانت قبول کرنے والااسے کسی اورجگہ نہیں لے جاسکتااوراگروہ مال کوکسی دوسری جگہ لے جائے اوروہ تلف ہوجائے توامین ذمہ دارہےسوائے اس صورت کے کہ اس بات کا یقین ہوکہ مال وہاں پر ضائع ہوجائے گا تو اس صورت میں محفوظ جگہ کی طرف منتقل کردیناجائز ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۶)اگرمال کامالک اپنے مال کی نگہداشت کے لئے کوئی جگہ معین کرے لیکن ظاہراً اس کے کہنے سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہوکہ اس کی نظرمیں وہ جگہ کوئی خصوصیت نہیں رکھتی تووہ شخص جس نے امانت قبول کی ہے اس مال کوکسی ایسی جگہ جوزیادہ محفوظ ہویاپہلی جگہ جتنی محفوظ ہولے جاسکتاہے اوراگرمال وہاں تلف ہوجائے تووہ ذمہ دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۷)اگرمال کامالک ہمیشہ کے لئے دیوانہ یابے ہوش ہوجائے تو امانت کا معاملہ ختم ہوجائے گااور جس شخص نے اس سے امانت قبول کی ہواسے چاہئے کہ فوراً امانت اس کے سرپرست کوپہنچادے یااس کے سرپرست کوخبرکرےاس کے علاوہ اگر مال ضائع ہوجائے تو ضروری ہےکہ اس کا عوض دے۔لیکن اگرمال کے مالک پر کبھی کبھار دیوانگی یابے ہوشی کادورہ پڑتاہوتواحتیاط واجب کی بنیاد پر یہی کام کرے۔
مسئلہ (۲۳۵۸)اگرمال کامالک مرجائے توامانت کامعاملہ باطل ہوجاتاہے۔لہٰذا اگر اس مال میں کسی دوسرے کاحق نہ ہوتووہ مال اس کے وارث کوملتاہے اورضروری ہے کہ امانت دار اس مال کواس کے وارث تک پہنچائے یااسے اطلاع دے اور اس کے علاوہ بقیہ صورتوں میں اگر مال ضائع ہوجائے تو ضامن ہے یایہ جانناچاہتاہوکہ کوئی اور شخص میت کاوارث ہے یانہیں اوراگر (اس تحقیق کے بیچ) مال تلف ہوجائے تووہ ذمہ دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۵۹)اگرمال کامالک مرجائے اورمال کی ملکیت کاحق اس کے ورثاء کو مل جائے توجس شخص نے امانت قبول کی ہوضروری ہے کہ مال تمام ورثاء کودے یاان سب کے وکیل کو دےلہٰذااگروہ دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیرتمام مال فقط ایک وارث کودے دے تووہ دوسروں کے حصوں کاذمہ دار ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۰)جس شخص نے امانت قبول کی ہواگروہ مرجائے یا ہمیشہ کے لئے دیوانہ یابے ہوش ہو جائے توامانت کامعاملہ باطل ہوجائے گااوراس کے سرپرست یاوارث کوچاہئے کہ جس قدرجلد ہوسکے مال کے مالک کواطلاع دے یاامانت اس تک پہنچائے۔لیکن اگرکبھی کبھار (یاتھوڑی مدت کے لئے) دیوانہ یابے ہوش ہوتاہو تو (احتیاط واجب کی بنیادپر) یہی کام کرے
مسئلہ (۲۳۶۱)اگرامانت داراپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھے تواگرممکن ہو تو (احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ امانت کواس کے مالک،سرپرست یاوکیل تک پہنچادے یا اس کواطلاع دے اوراگریہ ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ ایسابندوبست کرے کہ اسے اطمینان ہوجائے کہ اس کے مرنے کے بعدمال اس کے مالک کومل جائے گا مثلاً وصیت کرے اوراس وصیت پرگواہ مقررکرے اورمال کے مالک کانام اورمال کی جنس اور خصوصیات اورمحل وقوع وصی اور گواہوں کوبتادے۔
مسئلہ (۲۳۶۲)اگر امانت رکھنے والے شخص کو سفر درپیش ہوتو وہ امانت کو اپنے اہل وعیال کے نزدیک قرار دے سکتا ہے سوائے اس صورت میں کہ جب اس مال کی حفاظت خود اس کے رہنے پر متوقف ہو اس صورت میں ضروری ہےکہ یا خود قیام کرے یا اس مال کے مالک ،سرپرست یا وکیل کے حوالے کردے یا پھر اس کو مطلع کردے۔
عاریہ کے احکام
مسئلہ (۲۳۶۳)’’عاریہ‘‘ سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنامال دوسرے کودے تاکہ وہ اس مال سے استفادہ کرے اور اس کے عوض کوئی چیزاس سے نہ لے۔
مسئلہ (۲۳۶۴)عاریہ میں صیغہ پڑھنالازم نہیں اور اگرمثال کے طورپرکوئی شخص کسی کو لباس عاریۃً دے اوروہ بھی اسی قصد سے لے توعاریہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۵)غصبی چیزیااس چیزکوبطورعاریہ دیناجو عاریۃً دینے والے کامال ہو لیکن اس کی آمدنی اس نے کسی دوسرے شخص کے سپردکردی ہومثلاً اسے کرائے پر دے رکھاہو، اس صورت میں صحیح ہے جب غصبی چیزکامالک یاوہ شخص جس نے عاریۃً دی جانے والی چیزکوبطوراجارہ لے رکھاہواس کےعاریۃً دینے پرراضی ہو۔
مسئلہ (۲۳۶۶)جس چیزکی منفعت کسی شخص کے سپردہومثلاً اس چیزکوکرائے پرلے رکھاہو تواسے بطور عاریت دے سکتاہے سوائے اس صورت میں کہ اجارہ کے معاہدہ میں یہ شرط قرار دی گئی ہو کہ خود استفادہ کرے گا پہلی صورت میں (احتیاط واجب کی بنا پر ) مالک کی اجازت کے بغیر اس شخص کے حوالے نہیں کرسکتاجس نے اسے بطورعاریت لیاہے۔
مسئلہ (۲۳۶۷)اگردیوانہ،بچہ،دیوالیہ اورسفیہ اپنامال عاریتاًدیں توصحیح نہیں ہے لیکن اگر (ان میں سے کسی کا) سرپرست عاریۃً دینے کی مصلحت سمجھتاہواورجس شخص کا وہ سرپرست ہے اس کا مال عاریتاً دے دے تواس میں کوئی اشکال نہیں اسی طرح جس شخص نے مال عاریتاًلیاہواس تک مال پہنچانے کے لئے بچہ وسیلہ بنے توکوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۸) عاریتاًلی ہوئی چیزکی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اوراس سے معمول سے زیادہ استفادہ بھی نہ کرے اوراتفاقاً وہ چیزتلف ہوجائے تووہ شخص ذمہ دار نہیں ہے لیکن اگرطرفین آپس میں یہ شرط کریں کہ اگروہ چیزتلف ہوجائے توعاریتا ً لینے والا ذمہ دار ہوگایاجوچیزعاریتا ً لی ہووہ سونایاچاندی ہوتواس کا عوض دیناضروری ہے۔
مسئلہ (۲۳۶۹)اگرکوئی شخص سونایاچاندی عاریتا ًلے اوریہ طے کیاہوکہ اگرتلف ہو گیاتوذمے دارنہیں ہوگاپھرتلف ہوجائے تووہ شخص ذمے دارنہیں ہے۔
مسئلہ (۲۳۷۰)اگرعاریۃً دینے والامرجائے توعاریہ پرلینے والے کے لئے ضروری ہے کہ جوطریقہ امانت کے مالک کے فوت ہوجانے کی صورت میں مسئلہ (۲۳۵۸) میں بتایاگیاہے اسی کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ (۲۳۷۱)اگرعاریۃً دینے والے کی کیفیت یہ ہوکہ وہ شرعاًاپنے مال میں تصرف نہ کرسکتاہومثلاً دیوانہ یابے ہوش ہوجائے تو عاریۃً لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسی طریقے کے مطابق عمل کرے جو مسئلہ ( ۲۳۵۷) میں امانت کے بارے میں اس جیسی صورت میں بیان کیاگیاہے۔
مسئلہ (۲۳۷۲)جس شخص نے کوئی چیزعاریتا ً دی ہووہ جب بھی چاہے اسے منسوخ کر سکتاہے اورجس نے کوئی چیزعاریتا ً لی ہووہ بھی جب چاہے اسے منسوخ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۲۳۷۳)کسی ایسی چیزکاعاریتا ًدیناجس سے حلال استفادہ نہ ہوسکتاہو مثلاً لہوولعب اورقماربازی کے آلات اورکھانے پینے میں استعمال کرنے کے لئے سونے اور چاندی کے برتن عاریتا ً دینا(بلکہ احتیاط لازم کی بناپرہرقسم کے استعمال کے لئے عاریتا ً دینا)باطل ہے اورتزئین وآرائش کے لئے عاریتا ًدیناجائز ہے۔
مسئلہ (۲۳۷۴)بھیڑ (بکریوں ) کوان کے دودھ اوراون سے استفادہ کرنے کے لئے نیزنرحیوان کومادہ حیوانات کے ساتھ ملاپ کے لئے عاریتا ً دیناصحیح ہے۔
مسئلہ (۲۳۷۵)اگرکسی چیزکوعاریتا ً لینے والااسے اس کے مالک یامالک کے وکیل یا سرپرست کودے دے اوراس کے بعدوہ چیزتلف ہوجائے تواس چیزکوعاریتا ًلینے والا ذمے دارنہیں ہے لیکن اگروہ مال کے مالک یااس کے وکیل یاسرپرست کی اجازت کے بغیرمال کوخواہ ایسی جگہ لے جائے جہاں مال کامالک اسے عموماًلے جاتاہومثلاً گھوڑے کو اس اصطبل میں باندھ دے جواس کے مالک نے اس کے لئے تیارکیاہواوربعدمیں گھوڑا تلف ہوجائے یاکوئی اسے تلف کردے توعاریتا ً لینے والاذمہ دارہے۔
مسئلہ (۲۳۷۶)اگرایک شخص کوئی نجس چیزعاریتاًدے تواس صورت میں اسے چاہئے کہ جیساکہ مسئلہ ( ۲۰۶۵) میں بیان ہوچکاہے اس چیزکے نجس ہونے کے بارے میں عاریتاً لینے والے شخص کوبتادے۔
مسئلہ (۲۳۷۷)جوچیزکسی شخص نے عاریتاً لی ہواسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیرکسی دوسرے کوکرائے پریاعاریتاًنہیں دے سکتا۔
مسئلہ (۲۳۷۸)جوچیزکسی شخص نے عاریتاً لی ہواگروہ اسے مالک کی اجازت سے کسی اورشخص کوعاریتاً دے دے تواگرجس شخص نے پہلے وہ چیزعاریتاً لی ہومرجائے یا دیوانہ ہوجائے تودوسراعاریۃً باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۲۳۷۹)اگرکوئی شخص جانتاہوکہ جومال اس نے عاریتاً لیاہے وہ غصبی ہے تو ضروری ہے کہ وہ مال اس کے مالک کوپہنچادے اوروہ اسے عاریتاً دینے والے کو نہیں دے سکتا۔
مسئلہ (۲۳۸۰)اگرکوئی شخص ایسامال عاریۃً لے جس کے متعلق جانتاہوکہ وہ غصبی ہے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور اس کے ہاتھ سے وہ مال تلف ہوجائے تومالک اس مال کاعوض اور جوفائدہ عاریۃً لینے والے نے اٹھایاہے اس کاعوض اس سے یاجس نے مال غصب کیاہواس سے طلب کرسکتاہے اوراگرمالک عاریۃً لینے والے سے عوض لے لے تو عاریۃً لینے والاجوکچھ مالک کودے اس کامطالبہ عاریۃً دینے والے سے نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۲۳۸۱)اگرکسی شخص کویہ معلوم نہ ہوکہ اس نے جومال عاریہ لیاہے وہ غصبی ہے اوراس کے پاس ہوتے ہوئے وہ مال تلف ہوجائے تواگرمال کامالک اس کاعوض اس سے لے لے تووہ بھی جوکچھ مال کے مالک کو دیاہواس کامطالبہ عاریۃً دینے والے سے کرسکتاہے لیکن اگراس نے جوچیزعاریۃً لی ہووہ سونایاچاندی ہویابطورعاریہ دینے والے نے اس سے شرط کی ہوکہ اگروہ چیزتلف ہوجائے تووہ اس کاعوض دے گاپھراس نے مال کا جوعوض مال کے مالک کو دیاہواس کامطالبہ عاریۃً دینے والے سے نہیں کرسکتالیکن اگر مال کا مالک اس مال کے استفادہ کےمقابل کوئی چیز لے تو عاریۃً دینے والے سے اس کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
[8] اس بات کی یاددہانی لازم ہے کہ آج کل لوگوں کے درمیان جو چیز رہن کے عنوان سے مشہور ہے وہ درواقع رہن نہیں ہے بلکہ یہ وہ رقم ہے جو گھر کے مالک کو بطور قرض دی جاتی ہے اور اس کے مقابل گھر میں سکونت اختیار کی جاتی ہے۔ اگر یہ کام کرایہ کے ساتھ نہ ہوتوسود اور حرام ہے اور یہ حق نہیں ہےکہ اس گھر میں قیام کرے اور اگر کرایہ کے ساتھ ہوتو اگر قرض کرایہ کی شرط کے ساتھ دیا جائے تو بھی حرام ہے اور اگر کرایہ قرض کی شرط کے ساتھ ہوتو( احتیاط واجب کی بناء پر )جائز نہیں ہے۔