فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
مستحب غسل ←
→ غسل مس میت
محتضر ، میت کے احکام
مسئلہ (۵۲۱)جومومن محتضرہویعنی جاں کنی کی حالت میں ہوخواہ مردہویا عورت بڑاہویاچھوٹا، اسے( احتیاط کی بناپر)بصورت امکان پشت کے بل یوں لٹاناچاہئے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رخ ہوں ۔
مسئلہ (۵۲۲)بہتر یہ ہے کہ جب تک میت کاغسل مکمل نہ ہواسے بھی(جس طرح اس سے پہلے مسئلہ میں بیان کیا ہے) روبقبلہ لٹائیں ، لیکن جب اس کا غسل مکمل ہوجائے توبہتریہ ہے کہ اسے اس حالت میں لٹائیں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہیں ۔
مسئلہ (۵۲۳) جوشخص جاں کنی کی حالت میں ہواسے احتیاط کی بناپرروبقبلہ لٹانا ہر مسلمان پرواجب ہے۔لہٰذا وہ شخص جو جاں کنی کی حالت میں ہے راضی ہو(اورقاصر بھی نہ ہو) تواس کام کے لئے اس کے ولی کی اجازت لیناضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں اس کے ولی سے اجازت لینااحتیاط لازم کی بناپر ضروری ہے۔
مسئلہ (۵۲۴) مستحب ہے کہ جوشخص جاں کنی کی حالت میں ہواس کے سامنے شہادتین، بارہ اماموں کے نام کااقرار لینا اور دوسرے تمام دینی عقائد حقہ اس طرح دہرائے جائیں کہ وہ سمجھ لے اور اس کی موت کے وقت تک ان چیزوں کی تکرار کرنابھی مستحب ہے۔
مسئلہ (۵۲۵)مستحب ہے جوشخص جاں کنی کی حالت میں ہواسے مندرجہ ذیل دعا اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:
’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیَ الْکَثِیْرَ مِنْ مَّعَاصِیْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیْرَمِنْ طَاعَتِکَ یَامَنْ یَّقْبَلُ الْیَسِیْرَ وَیَعْفُوْعَنِ الْکَثِیْرِاقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِیْرَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَفُوُّالْغَفُوْرُاَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ فَاِنَّکَ رَحِیْمٌ‘‘۔
مسئلہ (۵۲۶) کسی کی جان سختی سے نکل رہی ہوتواگراسے تکلیف نہ ہوتواسے اس جگہ لے جاناجہاں وہ نماز پڑھاکرتاتھامستحب ہے۔
مسئلہ (۵۲۷) جوشخص جاں کنی کے عالم میں ہواس کی آسانی کے لئے (یعنی اس مقصد سے کہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے) اس کے سرہانے سورۂ یٰسین، سورئہ صافّات، سورئہ احزاب، آیۃ الکرسی اور سورئہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورئہ بقرہ کی آخری تین آیات پڑھنامستحب ہے بلکہ قرآن مجید جتنابھی پڑھاجاسکے پڑھے۔
مسئلہ (۵۲۸) جوشخص جان کنی کے عالم میں ہواسے تنہاچھوڑنااور کوئی بھاری چیز اس کے پیٹ پررکھنااور جنب اورحائض کااس کے قریب ہونااسی طرح اس کے پاس زیادہ باتیں کرنا، رونااور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنامکروہ ہے۔
مرنے کے بعدکے احکام
مسئلہ (۵۲۹)مستحب ہے کہ مرنے کے بعدمیت کی آنکھیں اورہونٹ بندکر دیئے جائیں اوراس کی ٹھوڑی کوباندھ دیاجائے نیزاس کے ہاتھ اورپاؤں سیدھے کر دیئے جائیں اوراس کے اوپرکپڑاڈال دیاجائے اوراگرموت رات کوواقع ہوتوجہاں موت واقع ہووہاں چراغ جلائیں (روشنی کردیں )اورجنازے میں شرکت کے لئے مومنین کو اطلاع دیں اورمیت کودفن کرنے میں جلدی کریں ،لیکن اگراس شخص کے مرنے کایقین نہ ہوتوانتظار کریں تاکہ صورت حال واضح ہوجائے۔اس کے علاوہ اگرمیت حاملہ ہواور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہوتوضروری ہے کہ دفن کرنے میں اتناتوقف کریں کہ اس کاپہلو چاک کرکے بچہ باہر نکال لیں اورپھراس پہلو کو سی دیں ۔
غسل، کفن، نماز اوردفن میت کاوجوب
مسئلہ (۵۳۰)کسی مسلمان کاغسل، حنوط، کفن، نمازمیت اور دفن خواہ وہ اثنا عشری شیعہ نہ بھی ہواس کے ولی پرواجب ہے۔لیکن ضروری ہے کہ ولی خودان کاموں کو انجام دے یاکسی دوسرے کوان کاموں کے لئے معین کرے اوراگرکوئی شخص ان کاموں کوولی کی اجازت سے انجام دے توولی سے وجوب ساقط ہو جاتاہے بلکہ اگردفن اوراس کے ماننددوسرے امورکوکوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر انجام دے تب بھی ولی سے وجوب ساقط ہوجاتاہے اوران امور کودوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں اوراگرمیت کا کوئی ولی نہ ہویاولی ان کاموں کوانجام دینے سے منع کرے تب بھی باقی مکلف لوگوں پرواجب کفائی ہے کہ میت کے ان کاموں کوانجام دیں اوراگربعض مکلف لوگوں نے انجام دیا تو دوسروں سے وجوب ساقط ہوجاتاہے۔ چنانچہ اگرکوئی بھی انجام نہ دے توتمام مکلف لوگ گناہ گارہوں گے اورولی کے منع کرنے کی صورت میں اس سے اجازت لینے کی شرط ختم ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۵۳۱)اگرکوئی تجہیزوتکفین کے کاموں میں مشغول ہوجائے تودوسروں کے لئے اس بارے میں کوئی اقدام کرناواجب نہیں ،لیکن اگروہ ان کاموں کوادھوراچھوڑ دے توضروری ہے کہ دوسرے انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں ۔
مسئلہ (۵۳۲) اگرکسی شخص کواطمینان ہوکہ کوئی دوسرامیت کو (نہلانے، کفنانے اور دفنانے)کے کاموں میں مشغول ہے تواس پرواجب نہیں ہے کہ میت کے(مذکور) کاموں کے بارے میں اقدام کرے لیکن اگر اسے (مذکور کاموں کے نہ ہونے کا) محض شک یاگمان ہوتوضروری ہے کہ اقدام کرے۔
مسئلہ (۵۳۳)اگرکسی شخص کومعلوم ہوکہ میت کاغسل یاکفن یانمازیادفن غلط طریقے سے ہواہے توضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، لیکن اگراسے باطل ہونے کا گمان ہو (یعنی یقین نہ ہو) یاشک ہو کہ درست تھایانہیں توپھراس بارے میں کوئی اقدام کرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۵۳۴)عورت کاولی اس کاشوہرہے اوراس کے علاوہ وہ اشخاص کہ جن کو میت سے میراث ملتی ہے اسی ترتیب سے جس کاذکرمیراث کے مختلف طبقوں میں آئے گا اور ہر طبقہ میں مرد عورتوں پر مقدم ہیں ۔ میت کا باپ میت کے بیٹے پراورمیت کادادااس کے بھائی پراور میت کاپدری ومادری بھائی اس کے صرف پدری بھائی یامادری بھائی پر اور اس کاپدری بھائی اس کے مادری بھائی پر اور اس کے چچاکے اس کے ماموں پرمقدم ہونے میں اشکال ہے چنانچہ اس سلسلے میں احتیاط کے (تمام) تقاضوں کو پیش نظر رکھناچاہئے اور اگر ولی متعدد ہوں تو ان میں سے ایک کی اجازت کافی ہے۔
مسئلہ (۵۳۵)نابالغ بچہ اور دیوانہ میت کے کاموں کوانجام دینے کے لئے ولی نہیں بن سکتے اوربالکل اسی طرح وہ شخص بھی جو غیر حاضرہووہ( خودیاکسی شخص کو مامور کرکے) میت سے متعلق امورکوانجام نہ دے سکتاہوتووہ بھی ولی نہیں بن سکتا۔
مسئلہ (۵۳۶)اگرکوئی شخص کہے کہ: میں میت کاولی ہوں یامیت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یاکہے کہ میں میت کے دفن سے متعلق کاموں میں میت کاوصی ہوں اور اس کے کہنے سے اطمینان حاصل ہوجائے یا میت اس کے تصرف میں ہویادوعادل شخص گواہی دیں تواس کاقول قبول کرلیناچاہئے۔
مسئلہ (۵۳۷)اگرمرنے والااپنے غسل، کفن، دفن اورنماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کومقررکرے توان امورکی ولایت اسی شخص کے ہاتھ میں ہے اوریہ ضروری نہیں کہ جس شخص کومیت نے وصیت کی ہوکہ وہ خودان کاموں کوانجام دینے کاذمہ دار بنے، اس وصیت کوقبول کرے،لیکن اگرقبول کرلے توضروری ہے کہ اس پرعمل کرے۔
غسل میت کی کیفیت
مسئلہ (۵۳۸) میت کوتین غسل اس ترتیب سے دینا واجب ہے: پہلا ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں ، دوسراایسے پانی سے جس میں کافورملاہواہواور تیسرا خالص پانی سے۔
مسئلہ (۵۳۹)ضروری ہے کہ بیری اورکافورنہ اس قدرزیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اورنہ اس قدرکم ہوں کہ یہ نہ کہاجاسکے کہ بیری اورکافور اس پانی میں ملائے گئے ہیں ۔
مسئلہ (۵۴۰)اگربیری اورکافورلازمی مقدار میں نہ مل سکیں تو( احتیاط مستحب کی بناپر)جتنی مقدارمیسرآئے پانی میں ڈال دی جائے۔
مسئلہ (۵۴۱)اگرکوئی شخص احرام کی حالت میں مرجائے تواسے کافور کے پانی سے غسل نہیں دیناچاہئے بلکہ اس کے بجائے خالص پانی سے غسل دیناچاہئے، لیکن اگر وہ حج تمتع کااحرام ہواوروہ طواف اور طواف کی نمازاور سعی کومکمل کرچکا ہو یا حج قران یا افراد کے احرام میں ہواورسرمنڈاچکاہوتوان دوصورتوں میں اس کوکافور کے پانی سے غسل دیناضروری ہے۔
مسئلہ (۵۴۲)اگربیری اورکافور یاان میں سے کوئی ایک نہ مل سکے یااس کا استعمال جائزنہ ہومثلاً یہ کہ غصبی ہوتو(احتیاط کی بناپر) ضروری ہے کہ اسے ایک تیمم کرائے اور ان میں سے ہراس چیزکے بجائے جس کاملناممکن نہ ہومیت کو خالص پانی سے غسل دیاجائے ۔
مسئلہ (۵۴۳)جوشخص میت کوغسل دے توضروری ہے کہ وہ عقل منداورمسلمان ہو (اوراحتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ وہ اثناعشری ہواورغسل کے مسائل سے بھی واقف ہو اور جوبچہ اچھے اور برے کی تمیز رکھتاہواگروہ غسل کوصحیح طریقے سے انجام دے سکتاہوتواس کاغسل دینابھی کافی ہے چنانچہ اگرغیر اثناعشری مسلمان کی میت کواس کا ہم مذہب اپنے مذہب کے مطابق غسل دے تو مومن اثناعشری سے ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔لیکن وہ اثناعشری شخص میت کاولی ہوتواس صورت میں ذمہ داری اس سے ساقط نہیں ہوتی۔
مسئلہ (۵۴۴) جوشخص غسل دے ضروری ہے کہ وہ قربت کی نیت رکھتاہویعنی اللہ کے حکم کی بجاآوری کے ارادے سے انجام دے۔
مسئلہ (۵۴۵) مسلمان کے بچے کو( خواہ وہ ولدالزناہی کیوں نہ ہو) غسل دیناواجب ہے اور کافر اوراس کی اولادکاغسل، کفن اور دفن واجب نہیں ہے اور اگر کافر کا بچہ ممیز ہو اوراسلام کا مظاہرہ کرے تو مسلمان ہے اور جو شخص بچپن سے دیوانہ ہواور دیوانگی کی حالت میں ہی بالغ ہوجائے تواگراس کے ماں باپ مسلمان ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے۔
مسئلہ (۵۴۶)اگرایک بچہ چارمہینے یااس سے زیادہ کاہوکرساقط ہوجائے تواسے غسل دیناضروری ہے بلکہ اگر چارمہینے سے بھی کم کاہولیکن اس کاپورابدن بن چکاہو تو (احتیاط واجب کی بناپر)اس کوغسل دیناضروری ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ احتیاط کی بناپراسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل دیئے دفن کردیناچاہئے۔
مسئلہ (۵۴۷)مرد نا محرم عورت کوغسل نہیں دے سکتااسی طرح عورت نامحرم مرد کوغسل نہیں دے سکتی۔ لیکن بیوی اپنے شوہرکوغسل دے سکتی ہے اورشوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
مسئلہ (۵۴۸) مرداتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتاہے جوممیزنہ ہواورعورت بھی اتنے چھوٹے لڑکے کو غسل دے سکتی ہے جو ممیزنہ ہو۔
مسئلہ (۵۴۹)محرم ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں چاہے نسبی محرم ہوں جیسے ماں اور بہن اور چاہے رضاعت یا نکاح کے سبب محرم ہوئے ہوں اور ضرور ی نہیں ہے غسل دینے میں (شرم گاہ کے علاوہ) وہ کپڑے کے نیچے سے ہواگر چہ بہتر ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر اس صورت میں ہے جب کوئی مرد اپنی محرم عورت کو غسل دے اور کوئی عورت غسل دینے کے لئے نہ ملے اور اسی طرح برعکس۔
مسئلہ (۵۵۰)اگرمیت اور غسال دونوں مردہوں یادونوں عورت ہوں توجائز ہے کہ شرم گاہ کے علاوہ میت کاباقی بدن برہنہ ہولیکن بہتریہ ہے کہ لباس کے نیچے سے غسل دیا جائے۔
مسئلہ (۵۵۱)شوہر اور زوجہ کے علاوہ میت کی شرم گاہ پرنظرڈالناحرام ہے اور جوشخص اسے غسل دے رہا ہو اگروہ اس پرنظر ڈالے توگناہ گارہے، لیکن اس سے غسل باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۵۵۲)اگرمیت کے بدن کے کسی حصے پرعین نجاست ہوتوضروری ہے کہ اس حصے کو غسل دینے سے پہلے عین نجس دورکرے اوراولیٰ یہ ہے کہ غسل شروع کرنے سے پہلے میت کاتمام بدن نجاسات سے پاک ہو۔
مسئلہ (۵۵۳) غسل میت غسل جنابت کی طرح ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک میت کو غسل ترتیبی دیناممکن ہوغسل ارتماسی نہ دیاجائے اورغسل ترتیبی میں بھی ضروری ہے کہ داہنی طرف کوبائیں طرف سے پہلے دھویاجائے ۔
مسئلہ (۵۵۴) جوشخص حیض یاجنابت کی حالت میں مرجائے اسے غسل حیض یا غسل جنابت دیناضروری نہیں ہے، بلکہ صرف غسل میت اس کے لئے کافی ہے۔
مسئلہ (۵۵۵)میت کو غسل دینے کی اجرت لینا(احتیاط واجب کی بناپر)حرام ہے اور اگرکوئی شخص اجرت لینے کے لئے میت کواس طرح غسل دے کہ یہ غسل دیناقصدقربت کے منافی ہوتوغسل باطل ہے، لیکن غسل کے ابتدائی کاموں کی اجرت لیناحرام نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۵۶)میت کے غسل میں غسل جبیرہ جائزنہیں ہے اور اگرپانی میسرنہ ہو یا اس کے استعمال میں کوئی امرمانع ہوتوضروری ہے کہ غسل کے بدلے میت کو ایک تیمم کرائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تین تیمم کرائے جائیں ۔
مسئلہ (۵۵۷) جوشخص میت کوتیمم کرارہاہواسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور میت کے چہرے اورہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تومیت کواس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تیمم کرائے۔
کفن کے احکام
مسئلہ (۵۵۸)مسلمان میت کوتین کپڑوں کاکفن دیناضروری ہے جنہیں لنگ، کرتہ اورچادرکہاجاتاہے۔
مسئلہ (۵۵۹)(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ لنگی ایسی ہوجوناف سے گھنٹوں تک بدن کے اطراف کو ڈھانپ لے اور بہتریہ ہے کہ سینے سے پاؤں تک پہنچے اور (کرتہ یا) پیراہن (احتیاط واجب کی بناپر) ایساہو کہ کندھوں کے سروں سے آدھی پنڈلیوں تک تمام بدن کو ڈھانپے اوربہتریہ ہے کہ پاؤں تک پہنچے اورچادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ پورے بدن کو ڈھانپ دے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ میت کے پاؤں اور سر کی طرف سے گرہ دے سکیں اوراس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہئے کہ اس کاایک کنارہ دوسرے کنارہ پرآسکے۔
مسئلہ (۵۶۰)واجب مقدارکی حدتک کفن جس کاذکرسابقہ مسئلہ میں ہوچکاہے میت کے اصل مال سے لیاجاتاہے اور ظاہر یہ ہے کہ مستحب مقدار کی حدتک کفن میت کی شان اور عرف عام کوپیش نظررکھتے ہوئے میت کے اصل مال سے لیاجائے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب مقدارسے زائد کفن ان وارثوں کے حصے سے نہ لیاجائے جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں ۔
مسئلہ (۵۶۱)اگرکسی شخص نے وصیت کی ہوکہ مستحب کفن کی مقدار اس کے تہائی مال سے لیاجائے یایہ وصیت کی ہوکہ اس کاتہائی مال خوداس پرخرچ کیاجائے،لیکن اس کے مصرف کاتعین نہ کیاہویاصرف اس کے کچھ حصے کے مصرف کاتعین کیاہوتو مستحب کفن اس کے تہائی مال سے لیاجاسکتاہے خواہ معمول کی مقدار سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ (۵۶۲)اگرمرنے والے نے یہ وصیت نہ کی ہوکہ کفن اس کے تہائی مال سے لیاجائے اورمتعلقہ اشخاص چاہیں کہ اس کے اصل مال سے لیں تو جوبیان مسئلہ (۵۶۰) میں گزرچکاہے اس سے زیادہ نہ لیں مثلاً وہ مستحب کام جو معمولاًانجام نہ دیئے جاتے ہوں اور جومیت کی شان کے مطابق بھی نہ ہوں تو ان کی ادائیگی کے لئے ہرگزاصل مال سے نہ لیں اوربالکل اسی طرح اگرکفن معمول سے زیادہ قیمتی ہوتو اضافی رقم کو میت کے اصل مال سے نہیں لیناچاہئے لیکن جوورثاء بالغ ہیں اگروہ اپنے حصے سے لینے کی اجازت دیں توجس حدتک وہ لوگ اجازت دیں ان کے حصے سے لیاجاسکتاہے۔
مسئلہ (۵۶۳)عورت کے کفن کی ذمہ داری شوہرپرہے خواہ عورت اپنامال بھی رکھتی ہو۔اسی طرح اگر عورت کواس تفصیل کے مطابق جوطلاق کے احکام میں آئے گی طلاق رجعی دی گئی ہواوروہ عدت ختم ہونے سے پہلے مرجائے توشوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے اور اگرشوہر بالغ نہ ہویادیوانہ ہو توشوہر کے ولی کوچاہئے کہ اس کے مال سے عورت کوکفن دے۔
مسئلہ (۵۶۴)میت کوکفن دینااس کے قرابت داروں پرواجب نہیں اگرچہ اس کی زندگی میں اخراجات کی کفالت ان پرواجب رہی ہو۔
مسئلہ (۵۶۵) اگر میت کے پاس کفن کےلئے کوئی مال نہ ہو تو اس کا برہنہ دفن کرنا جائز نہیں ہے بلکہ( احتیاط کی بناپر) مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسے کفن دیں اور اس کا خرچ زکوٰۃ سے حساب کرنا جائز ہے۔
مسئلہ (۵۶۶)احتیاط واجب یہ ہےکہ کفن کے تینوں کپڑوں میں سے ہر ایک اتنا باریک نہ ہو کہ میت کا بدن اس کے نیچے نظر آئے لیکن اگر اس طرح ہو کہ تینوں کپڑوں کو ملاکر میت کا بدن نظر نہ آئے تو کافی ہے۔
مسئلہ (۵۶۷)غصب کی ہوئی چیزکاکفن دیناخواہ کوئی دوسری چیزمیسر نہ ہوتب بھی جائزنہیں ہے پس اگرمیت کاکفن غصبی ہواوراس کامالک راضی نہ ہوتووہ کفن اس کے بدن سے اتارلیناچاہئے خواہ اس کودفن بھی کیاجاچکاہو، لیکن بعض صورتوں میں جن کی تفصیل کی گنجائش اس مقام پرنہیں ہے۔
مسئلہ (۵۶۸)میت کونجس چیز یاخالص ریشمی کپڑے کا کفن دینا اور( احتیاط واجب کی بناپر)سونے سے کام کئے ہوئے کپڑے کاکفن دینا(بھی) جائزنہیں ، لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۶۹)میت کونجس مردارکی کھال کاکفن دینااختیاری حالت میں جائز نہیں ہے بلکہ پاک مردار کی کھال کا کفن دینابھی جائزنہیں ہے اور(احتیاط واجب کی بناپر)کسی ایسے کپڑے کاکفن دیناجوپشمی ہویااس جانورکے اون سے تیارکیاگیاہوجس کاگوشت کھانا حرام ہواختیاری حالت میں جائز نہیں ہے لیکن اگرکفن حلال گوشت جانورکی کھال یا بال اور اون کاہوتوکوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کابھی کفن نہ دیاجائے۔
مسئلہ (۵۷۰)اگرمیت کاکفن اس کی اپنی نجاست یاکسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اگرایساکرنے سے کفن ضائع نہ ہوتاہوتوجتناحصہ نجس ہواسے دھونا یاکاٹنا ضروری ہے خواہ میت کو قبر میں ہی کیوں نہ اتاراجاچکا ہو اور اگراس کادھونایاکاٹناممکن نہ ہو، لیکن بدل دیناممکن ہوتوضروری ہے کہ بدل دیں ۔
مسئلہ (۵۷۱)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جس نے حج یاعمرے کااحرام باندھ رکھا ہو تواسے دوسروں کی طرح کفن پہنانا ضروری ہے اوراس کا سراور چہرہ ڈھانک دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۷۲)انسان کے لئے اپنی تندرست زندگی میں کفن،بیری اورکافورکاتیاررکھنا مستحب ہے۔
حنوط کے احکام
مسئلہ (۵۷۳)غسل دینے کے بعدواجب ہے کہ میت کوحنوط کیاجائے یعنی اس کی پیشانی،دونوں ہتھیلیوں ،دونوں گھٹنوں اوردونوں پاؤں کے انگوٹھوں پرکافوراس طرح ملاجائے کہ کچھ کافوراس پرباقی رہے خواہ کچھ کافور بغیر ملے باقی بچے اور مستحب یہ ہے کہ میت کی ناک کے اوپری حصہ پربھی کافور ملاجائے۔کافورپساہوااورتازہ ہوناچاہئے پاک اور مباح (غیر غصبی) ہونا چاہیے اور اگرپرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبوزائل ہوگئی ہوتوکافی نہیں ۔
مسئلہ (۵۷۴)احتیاط مستحب یہ ہے کہ کافور پہلے میت کی پیشانی پرملاجائے لیکن دوسرے مقامات پرملنے میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۷۵) بہتریہ ہے کہ میت کو کفن پہنانے سے پہلے حنوط کیاجائے۔ اگرچہ کفن پہنانے کے دوران یا اس کے بعدبھی حنوط کریں توکوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۷۶)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جس نے حج یاعمرے کے لئے احرام پہن رکھاہوتو اسے حنوط کرناجائزنہیں ہے مگران دوصورتوں میں (جائزہے) جن کا ذکر مسئلہ (۵۴۱ )میں گزرچکاہے۔
مسئلہ (۵۷۷)اعتکاف کرنے والا اور ایسی عورت جس کا شوہر مرگیاہواورابھی اس کی عدت باقی ہو اگرچہ خوشبولگانااس کے لئے حرام ہے لیکن اگروہ مرجائے تواسے حنوط کرناواجب ہے۔
مسئلہ (۵۷۸)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کو مشک، عنبر، عوداور دوسری خوشبوئیں نہ لگائی جائیں اورانہیں کافور کے ساتھ بھی نہ ملایاجائے۔
مسئلہ (۵۷۹)مستحب ہے کہ سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی مٹی (خاک شفا) کی کچھ مقدار کافورمیں ملالی جائے،لیکن اس کافورکو ایسے مقامات پر نہیں لگانا چاہئے جہاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہواوریہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہوکہ جب وہ کافور کے ساتھ مل جائے تواسے کافور نہ کہاجاسکے۔
مسئلہ (۵۸۰)اگر کافورنہ مل سکے یافقط غسل کے لئے کافی ہوتوحنوط کرناضروری نہیں اوراگرغسل کی ضرورت سے زیادہ ہولیکن تمام سات اعضا کے لئے کافی نہ ہوتو (احتیاط مستحب کی بناپر)چاہئے کہ پہلے پیشانی پراوراگربچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔
مسئلہ (۵۸۱)مستحب ہے کہ (درخت کی) دوتروتازہ ٹہنیاں میت کے ساتھ قبر میں رکھی جائیں ۔
نماز میت کے احکام
مسئلہ (۵۸۲)ہرمسلمان کی میت پراورایسے بچے کی میت پرجواسلام کے حکم میں ہو اور پورے چھ سال کا ہوچکاہونماز پڑھناواجب ہے۔
مسئلہ (۵۸۳) ایک ایسے بچے کی میت پرجوچھ سال کانہ ہواہولیکن نماز کو جانتاہو احتیاط لازم کی بناپرنمازپڑھناچاہئے اوراگرنماز کونہ جانتاہو تورجاء کی نیت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ بچہ جو مردہ پیداہواہواس کی میت پرنماز پڑھنامستحب نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۸۴) میت کی نمازاسے غسل دینے، حنوط کرنے اورکفن پہنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اوراگر ان امور سے پہلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایساکرنا خواہ بھول چوک یامسئلے سے لاعلمی کی بناپرہی کیوں نہ ہوکافی نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۸۵) جوشخص میت کی نماز پڑھناچاہتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ اس نے وضو، غسل یاتیمم کر رکھاہواور اس کابدن اورلباس پاک ہوں اور اگراس کالباس غصبی ہوتب بھی کوئی حرج نہیں ۔اگرچہ بہتریہ ہے کہ ان تمام چیزوں کالحاظ رکھے جو دوسری نمازوں میں لازمی ہیں ۔
مسئلہ (۵۸۶) جوشخص نمازمیت پڑھ رہاہواسے چاہئے کہ روبقبلہ ہواوریہ بھی واجب ہے کہ میت کونماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل یوں لٹایاجائے کہ میت کاسرنماز پڑھنے والے کے دائیں طرف ہواورپاؤں بائیں طرف ہو۔
مسئلہ (۵۸۷)احتیاط مستحب کی بناپرضروری ہے کہ جس جگہ ایک شخص میت کی نماز پڑھے وہ غصبی نہ ہواوریہ بھی ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ میت کے مقام سے اونچی یا نیچی نہ ہولیکن معمولی پستی یابلندی میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۸۸) نماز پڑھنے والے کوچاہئے کہ میت سے دورنہ ہولیکن جو شخص نماز میت باجماعت پڑھ رہاہواگروہ میت سے دورہوجب کہ صفیں باہم متصل ہوں توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۸۹)نماز پڑھنے والے کوچاہئے کہ میت کے سامنے کھڑاہولیکن اگرنماز با جماعت پڑھی جائے اورنماز پڑھنے والا میت کے مقابل نہ بھی ہو تو اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۹۰)احتیاط کی بناپرمیت او رنماز پڑھنے والے کے درمیان پردہ یا دیوار یا کوئی اورایسی چیز حائل نہیں ہونی چاہئے، لیکن اگرمیت تابوت میں یاایسی ہی کسی اور چیز میں رکھی ہوتوکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۹۱)نماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ میت کی شرم گاہ ڈھکی ہوئی ہو اور اگر اسے کفن پہنانا ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ اس کی شرم گاہ کوخواہ لکڑی یااینٹ یاایسی ہی کسی چیزسے ہی ڈھانک دیں ۔
مسئلہ (۵۹۲)نماز میت کھڑے ہوکراورقربت کی نیت سے پڑھنی چاہئے اورنیت کرتے وقت میت کو معین کرلینامثلاً نیت کرنی چاہئے کہ: میں اس میت پر’’قربۃً الی اللہ ‘‘ نماز پڑھ رہاہوں ۔اور احتیاط واجب یہ ہےکہ یومیہ نماز کےقیام میں جو سکون واطمینان لازم ہے اس کی نماز میت میں بھی رعایت کی جائے۔
مسئلہ (۵۹۳)اگرکوئی شخص کھڑے ہوکرنماز میت نہ پڑھ سکتاہوتوبیٹھ کرپڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۵۹۴)اگرمرنے والے نے وصیت کی ہوکہ کوئی مخصوص شخص اس کی نماز پڑھے تو ضروری نہیں ہےکہ وہ شخص میت کے ولی سے اجازت حاصل کرے۔اگرچہ بہتر ہے۔
مسئلہ (۵۹۵)بعض فقہاء کے نزدیک میت پرکئی دفعہ نماز پڑھنامکروہ ہے۔لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے اور اگرمیت کسی صاحب علم وتقویٰ کی ہوتوبغیر اشکال کےمکروہ نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۹۶)اگرمیت کوجان بوجھ کریابھول چوک کی وجہ سے یاکسی عذرکی بناپر بغیرنمازپڑھے دفن کردیاجائے یادفن کردینے کے بعدپتا چلے کہ جو نمازاس پرپڑھی جاچکی ہے وہ باطل ہے تو میت پرنمازپڑھنے کے لئے اس کی قبر کوکھولناجائز نہیں ، لیکن جب تک اس کابدن پاش پاش نہ ہوجائے اورجن شرائط کانماز میت کے سلسلے میں ذکر آ چکا ہے ان کے ساتھ رجاء کی نیت سے اس کی قبرپرنماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نماز میت کاطریقہ
مسئلہ (۵۹۷)میت کی نمازمیں پانچ تکبیریں ہیں اوراگرنمازپڑھنے والاشخص مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ پانچ تکبیریں یوں کہے توکافی ہے:
نیت کرنے اورپہلی تکبیر پڑھنے کے بعدکہے :
اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔
دوسری تکبیرکے بعدکہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔
تیسری تکبیر کے بعدکہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔
چوتھی تکبیر کے بعد اگرمیت مردہوتوکہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِھٰذَاالْمَیِّتِ۔
اگرمیت عورت ہوتوکہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِھٰذِہِ الْمَیِّتِ،
اوراس کے بعدپانچویں تکبیر پڑھے۔
بہتریہ ہے کہ پہلی تکبیرکے بعدکہے:
اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اَرْسَلَہٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًاوَّنَذِیْراً بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ۔
دوسری تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍوَّارْحَمْ مُحَمَّداًوَّاٰلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَاصَلَّیْتَ وَبَارَکْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَاٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ وَّصَلِّ عَلیٰ جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَجَمِیْعِ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ۔
تیسری تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَآءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَیْنَنَاوَبَیْنَھُمْ بِالْخَیْرَاتِ اِنَّکَ مُجِیْبُ الدَّعْوَاتِ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
اگرمیت مردہوتوچوتھی تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَاعَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَیْرُمَنْزُوْلٍ بِہِ اَللّٰھُمَّ اِنَّالَانَعْلَمُ مِنْہُ اِلَّا خَیْراًوَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنَّااَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِناًفَزِدْفِیْ اِحْسَانِہٖ وَاِنْ کَانَ مُسِیْئًافَتَجَاوَزَعَنْہُ وَاغْفِرْلَہٗ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّیِّیْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ اَھْلِہٖ فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْہُ بِرَحْمَتِکَ یَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
اور اس کے بعد پانچویں تکبیر پڑھے۔
لیکن اگرمیت عورت ہوتوچوتھی تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذِہٖ اَمَتُکَ وَابْنَۃُ عَبْدِکَ وَابْنَۃُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَیْرٌمَنْزُوْلٍ بِہٖ اَللّٰھُمَّ اِنَّالَا نَعْلَمُ مِنْھَااِلَّا خَیْراًوَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِھَامِنَّااَللّٰھُمَّ اِنْ کاَنَتْ مُحْسِنَۃً فَزِدْفِیْ اِحْسَانِھَا وَاِنْ کاَنَتْ مُسِیْٓئَۃً فَتَجَاوَزْعَنْھَاوَاغْفِرْلَھَااَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَاعِنْدَکَ فِیْٓ اَعْلیٰ عِلِّیِّیْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ اَھْلِھَافِی الْغٰابِرِیْنَ وَارْحَمْھَابِرَحْمَتِکَ یَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
مسئلہ (۵۹۸)تکبیریں اوردعائیں (تسلسل کے ساتھ) یکے بعددیگرے اس طرح پڑھنی چاہئیں کہ نماز اپنی شکل نہ کھودے۔
مسئلہ (۵۹۹)جوشخص میت کی نماز باجماعت پڑھ رہاہوخواہ وہ مقتدی ہی ہواسے چاہئے کہ اس کی تکبیریں اوردعائیں بھی پڑھے۔
نماز میت کے مستحبات
مسئلہ (۶۰۰)چندچیزیں نمازمیت میں مستحب ہیں :
۱): جوشخص نماز میت پڑھے وہ وضو، غسل یاتیمم کرے اور احتیاط اس میں ہے کہ تیمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرناممکن نہ ہویااسے خدشہ ہوکہ اگروضو یاغسل کرے گاتونماز میں شریک نہ ہوسکے گا۔
۲): اگرمیت مردہوتوامام یاجوشخص اکیلامیت پرنماز پڑھ رہاہومیت کے شکم کے سامنے کھڑا ہواوراگرمیت عورت ہوتواس کے سینے کے سامنے کھڑاہو۔
۳): نمازننگے پاؤں پڑھی جائے۔
۴): ہرتکبیر میں ہاتھوں کوبلندکیاجائے۔
۵): نمازی اورمیت کے درمیان اتناکم فاصلہ ہوکہ اگرہوانمازی کے لباس کوحرکت دے تووہ جنازے کوچھوجائے۔
۶): نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔
۷): امام تکبیریں اور دعائیں بلندآوازسے پڑھے اور مقتدی آہستہ پڑھیں ۔
۸): نماز باجماعت میں مقتدی خواہ ایک شخص ہی کیوں نہ ہوامام کے پیچھے کھڑاہو۔
۹): نمازپڑھنے والامیت اور مومنین کے لئے کثرت سے دعاکرے۔
۱۰): باجماعت نماز سے پہلے تین مرتبہ ’’الصلوٰۃ‘‘کہے۔
۱۱): نماز ایسی جگہ پڑھی جائے جہاں نماز میت کے لئے لوگ زیادہ ترجاتے ہوں ۔
۱۲): اگرحائض نمازمیت جماعت کے ساتھ پڑھے تواکیلی کھڑی ہواورنمازوں کی صف میں نہ کھڑی ہو۔
مسئلہ (۶۰۱)نمازمیت مسجدوں میں پڑھنامکروہ ہے، لیکن مسجدالحرام میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
دفن کے احکام
مسئلہ (۶۰۲)میت کواس طرح زمین میں دفن کرناواجب ہے کہ اس کی بوباہر نہ آئے اوردرندے بھی اس کابدن باہرنہ نکال سکیں اوراگراس بات کاخوف ہوکہ درندے اس کابدن باہرنکال لیں گے توقبرکو اینٹوں وغیرہ سے پختہ کردیناچاہئے۔
مسئلہ (۶۰۳)اگرمیت کوزمین میں دفن کرناممکن نہ ہوتودفن کرنے کے بجائے اسے کمرے یاتابوت میں رکھاجاسکتاہے۔
مسئلہ (۶۰۴)میت کوقبرمیں دائیں پہلو اس طرح لٹاناچاہئے کہ اس کے بدن کا سامنے کاحصہ روبقبلہ ہو۔
مسئلہ (۶۰۵)اگرکوئی شخص کشتی میں مرجائے اوراس کی میت کے خراب ہونے کا امکان نہ ہواوراسے کشتی میں رکھنے میں بھی کوئی امرمانع نہ ہوتولوگوں کوچاہئے کہ انتظار کریں تاکہ خشکی تک پہنچ جائیں اور اسے زمین میں دفن کردیں ورنہ چاہئے کہ اسے کشتی میں ہی غسل دے کرحنوط کریں اورکفن پہنائیں اورنماز میت پڑھنے کے بعد اسے چٹائی میں رکھ کراس کامنہ بندکردیں اور سمندرمیں ڈال دیں یاکوئی بھاری چیزاس کے پاؤں میں باندھ کرسمندرمیں ڈال دیں اورجہاں تک ممکن ہواسے ایسی جگہ نہیں ڈالناچاہئے جہاں جانوراسے فوراًاپنا لقمہ بنالیں ۔
مسئلہ (۶۰۶)اگراس بات کاخوف ہوکہ دشمن قبرکوکھودکرمیت کاجسم باہر نکال لے گااوراس کے کان یاناک یادوسرے اعضاء کاٹ لے گاتواگرممکن ہوتوسابقہ مسئلے میں بیان کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر میں ڈال دیناچاہئے۔
مسئلہ (۶۰۷)اگرمیت کوسمندرمیں ڈالنایااس کی قبرکوپختہ کرناضروری ہوتواس کے اخراجات میت کے اصل مال میں سے لے سکتے ہیں ۔
مسئلہ (۶۰۸)اگرکوئی کافرعورت مرجائے اوراس کے پیٹ میں مراہوابچہ ہو اور اس بچے کاباپ مسلمان ہوتواس عورت کوقبرمیں بائیں پہلو قبلے کی طرف پیٹھ کرکے لٹانا چاہئے تاکہ بچے کامنہ قبلے کی طرف ہواوراگرپیٹ میں موجود بچے کے بدن میں ابھی جان نہ پڑی ہوتب بھی (احتیاط مستحب کی بناپر)یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۶۰۹)مسلمان کوکافروں کے قبرستان میں دفن کرنااورکافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرناجائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۶۱۰)مسلمان کوایسی جگہ جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہومثلاً جہاں کوڑا کرکٹ اورگندگی پھینکی جاتی ہو، دفن کرناجائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۶۱۱)میت کوغصبی زمین میں یاایسی زمین میں جودفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد مثلاً مسجد کے لئے وقف ہواس صورت میں جب وقف کے نقصان دہ یا وقف کےمفادات کی راہ میں رکاوٹ ہو دفن کرنا جائز نہیں ہے اور( احتیاط واجب کی بنا پر) یہی صورت حال اس وقت بھی ہوگی جب وقف کےلئے نقصان دہ اور رکاوٹ نہ بنےدفن کرناجائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۶۱۲)کسی میت کی قبرکھودکرکسی دوسرے مردے کواس قبرمیں دفن کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگرقبرپرانی ہوگئی ہواورپہلی میت کامکمل نشان باقی نہ رہاہوتودفن کر سکتے ہیں ۔
مسئلہ (۶۱۳)جوچیزمیت سے جداہوجائے خواہ وہ اس کے بال، ناخن یا دانت ہی ہوں اسے اس کے ساتھ ہی دفن کردیناچاہئے اوراگرجداہونے والی چیزیں اگرچہ وہ دانت،ناخن یابال ہی کیوں نہ ہوں میت کو دفنانے کے بعدملیں تو(احتیاط لازم کی بناپر ) انہیں کسی دوسری جگہ دفن کردیناچاہئے اور دانت اور ناخن انسان کی زندگی میں ہی اس سے جدا ہو جائیں تو انہیں دفن کرنامستحب ہے۔
مسئلہ (۶۱۴)اگرکوئی شخص کنویں میں مرجائے اوراسے باہرنکالناممکن نہ ہوتو چاہئے کہ کنویں کامنہ بندکردیں اوراس کنویں کوہی اس کی قبرقراردیں ۔
مسئلہ (۶۱۵)اگرکوئی بچہ ماں کے پیٹ میں مرجائے اوراس کاپیٹ میں رہناماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہوتوچاہئے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکالیں ۔ چنانچہ اگراسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پربھی مجبورہوں توایساکرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چاہئے کہ اگراس عورت کاشوہر اہل فن(ماہر) ہوتو بچے کو اس کے ذریعے باہر نکالیں اور اگریہ ممکن نہ ہوتوکسی اہل فن(ماہر) عورت کے ذریعے سے نکالیں اور عورت کسی ایسے شخص سے رجوع کرسکتی ہے جو اس کام کو بہتر انجام دے سکے اور اس کی حالت کےلئے زیادہ مناسب ہو اگر چہ وہ نامحرم ہو۔
مسئلہ (۶۱۶)اگرماں مرجائے اوربچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہواوراگرچہ اس بچے کے زندہ رہنے کی امیدتھوڑے وقت کےلئے ہی صحیح ہوتب بھی ضروری ہے کہ ہر اس جگہ کو چاک کریں جوبچے کی سلامتی کے لئے بہترہے اور بچے کوباہر نکالیں اورپھراس جگہ کوٹانکے لگا دیں اور اگر اس عمل کی بناء پر بچے کے مرجانے کاعلم یا اطمینان ہو تو جائز نہیں ہے۔
دفن کے مستحبات
مسئلہ (۶۱۷)مستحب ہے کہ متعلقہ اشخاص قبرکوایک متوسط انسان کے قدکے لگ بھگ کھودیں اور میت کونزدیک ترین قبرستان میں دفن کریں ماسوااس کے جوقبرستان دور ہو وہ کسی وجہ سے بہترہومثلاً وہاں نیک لوگ دفن کئے گئے ہوں یازیادہ لوگ وہاں فاتحہ پڑھنے جاتے ہوں ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ قبر سے چندگزدورزمین پررکھ دیں اور تین دفعہ کرکے تھوڑا تھوڑاقبرکے نزدیک لے جائیں اورہردفعہ زمین پررکھیں اورپھر اٹھالیں اورچوتھی دفعہ قبرمیں اتاردیں اور اگرمیت مردہوتوتیسری دفعہ زمین پراس طرح رکھیں کہ اس کاسرقبرکی نچلی طرف ہواورچوتھی دفعہ سرکی طرف سے قبرمیں داخل کریں اور اگر میت عورت ہوتوتیسری دفعہ اسے قبرکے قبلے کی طرف رکھیں اور پہلو کی طرف سے قبر میں اتاریں اور قبر میں اتارتے وقت ایک کپڑاقبر کے اوپرتان لیں ۔یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ بڑے آرام کے ساتھ تابوت سے نکالیں اورقبر میں داخل کریں اوروہ دعائیں جنہیں پڑھنے کے لئے کہاگیاہے دفن کرنے سے پہلے اوردفن کرتے وقت پڑھیں اور میت کوقبر میں رکھنے کے بعداس کے کفن کی گرہیں کھول دیں اور اس کا رخسار زمین پر رکھ دیں اور اس کے سرکے نیچے مٹی کاتکیہ بنادیں اور اس کی پیٹھ کے پیچھے کچی اینٹیں یا ڈھیلے رکھ دیں تاکہ میت چت نہ ہوجائے او راس سےپہلےکہ قبر بندکریں دایاں ہاتھ میت کے داہنے کندھے پرماریں اور بایاں ہاتھ زورسے میت کے بائیں کندھے پررکھیں اور منہ اس کے کان کے قریب لے جائیں اور اسے زورسے حرکت دیں اور تین دفعہ کہیں : ’’اِسْمَعْ اِفْھَمْ یَافُلاَنَ ابْنَ فُلَانٍ‘‘۔ اور فلان ابن فلان کی جگہ میت کااور اس کے باپ کا نام لیں ۔ مثلاً اگراس کااپنانام محمد اوراس کے باپ کا نام علی ہوتوتین دفعہ کہیں :’’ اِسْمَعْ اِفْھَمْ یَامحمد بْنَ علی‘‘ اس کے بعدکہیں : ھَلْ اَنْتَ عَلَی الْعَھْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَاعَلَیْہِ مِنْ شَہَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَسَیِّدُالنَّبِیِّیْنَ وَخَاتَمُ الْمُرْسَلِیْنَ وَاَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ وَسَیِّدُ الْوَصِیِّیْنَ وَاِمَامٌ اِفْتَرَضَ اللہُ طَاعَتَہٗ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ وَعَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَبْنَ مُحَمَّدٍ وَّمُوْسَیٰ بْنَ جَعْفَرٍوَّعَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَمُحَمَّدَبْنَ عَلِیٍّ وَّعَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَالحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَائِمَ الْحُجَّۃَ الْمَھْدِیَّ صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْھِمْ اَئِمَّۃُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَحُجَجُ اللہِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِیْنَ وَاَئِمَّتُکَ اَئِمَّۃُ ھُدًی بِکَ اَبْرَارٌ یَافُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ، اورفلان ابن فلان کے بجائے میت کااوراس کے باپ کانام لے اورپھرکہے :’’ اِذَااَتَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَیْنِ مِنْ عِنْدِاللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ وَسَاَلَاکَ عَنْ رَّبِّکَ وَعَنْ نَّبِیِّکَ وَعَنْ دِیْنِکَ وَعَنْ کِتَابِکَ وَعَنْ قِبْلَتِکَ وَعَنْ اَئِمَّتِکَ فَلَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ وَقُلْ فِیْ جَوَابِھِمَااَللہُ رَبِّیْ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمْ نَبِیٍّ وَالْاِسْلَامُ دِیْنِیْ وَالْقُرْاٰنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَۃُ قِبْلَتِیْ وَاَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِمَامِیْ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ الْمُجْتَبٰی اِمَامِیْ وَالْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیِّ الشَّھِیْدُ بِکَرْبَلَاءِ اِمَامِیْ وَعَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ وَمُحَمَّدُالْبَاقِرُ اِمَامِیْ وَجْعْفَرْ الصَّادِقُ اِمَامِیْ وَمُوْسَیٰ الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَعَلِیُّ الرِّضَا اِمَامِیْ وَمُحَمَّدُ الْجَوَادُ اِمَامِیْ وَعَلِیُّ الْھَادِیْ اِمَامِیْ وَالْحَسَنُ الْعَسْکَرِیُّ اِمَامِیْ وَالْحُجَّۃُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ ھٰٓؤُلَاءِ صَلَوَاتُ اللہُ عَلَیْھِمْ اَئِمَّتِیْ وَسَادَتِیْ وَقَادَتِیْ وَ شُفَعَائِی بِھِمْ اَتَوَلّٰی وَمِنْ اَعْدَائِھِمْ اَتَبَرَّاُ فِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃِ ثُمَّ اعْلَمْ یَافُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ اور فلان ابن فلان کے بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اورپھرکہے :’’ اَنَّ اللہَ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّداًصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَاَوْلَادَہُ الْمَعْصُوْمِیْنَ الْاَئِمَّۃَ الْاِثْنَیْ عَشَرَنِعْمَ الْاَئِمَّۃُ وَاَنَّ مَاجَآءَ بِہٖ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ حَقٌّ وَّاَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّ سُؤَالَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیْرٍ فِی الْقَبْرِحَقٌّ وَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَّالنُّشُوْرَ حَقٌّ وَّالصِّرَاطَ حَقٌّ وَّالْمِیْزَانَ حَقٌّ وَّتَطَایُرَالْکُتُبِ حَقٌّ وَّاَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَّالنَّارَحَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃُ لَّا رَیْبَ فِیھَاوَاَنَّ اللہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ‘‘۔ پھرکہے ،’’اَفَھِمْتَ یَافُلَانُ‘‘ اورفلان کے بجائے میت کانام لے اور اس کے بعد کہے : ’’ثَبَّتَکَ اللہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَ ھَدَاکَ اللہُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ عَرَّفَ اللہُ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اَوْلِیَآئِکَ فِیْ مُسْتَقَرٍّمِّنْ رَّحْمَتِہٖ‘‘۔ اس کے بعد کہے: ’’اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَاَصْعِدْ بِرُوْحِہٖ اِلَیْکَ وَلَقِّہٖ مِنْکَ بُرْھَانًا اَللّٰھُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَکَ‘‘۔
مسئلہ (۶۱۸)مستحب ہے کہ جوشخص میت کوقبر میں اتارے وہ باطہارت، برہنہ سر اور برہنہ پاہواورمیت کی پائینتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلے اورمیت کے عزیزو اقربا کے علاوہ جو لوگ موجودہوں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پرمٹی ڈالیں اور’’اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘پڑھیں ۔اگرمیت عورت ہوتواس کامحرم اسے قبر میں اتارے اوراگرمحرم نہ ہو تو اس کے عزیز واقربا اسے قبرمیں اتاریں ۔
مسئلہ (۶۱۹)مستحب ہے کہ قبر مربع بنائی جائے اورزمین سے تقریباً چار انگل بلندہواور اس پر کوئی (کتبہ یا) نشانی لگادی جائے تاکہ پہچاننے میں غلطی نہ ہو اور قبر پرپانی چھڑکاجائے اورپانی چھڑکنے کے بعدجولوگ موجودہوں وہ اپنی انگلیاں قبر کی مٹی میں گاڑکرسات دفعہ سورۂ قدرپڑھیں اورمیت کے لئے مغفرت طلب کریں اور یہ دعاپڑھیں :
’’ اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَاَصْعِدْ اِلَیْکَ رُوْحَہٗ وَلَقِّہٖ مِنْکَ رِضْوَاناً وَّاَسْکِنْ قَبْرَہٗ مِنْ رَّحْمَتِکَ مَاتُغْنِیْہِ بِہٖ عَنْ رَّحْمَۃِ مَنْ سِوَاکَ‘‘۔
مسئلہ (۶۲۰)مستحب ہے کہ جولوگ جنازے میں شرکت کے لئے آئے ہوں ان کے چلے جانے کے بعدمیت کاولی یاوہ شخص جسے ولی اجازت دے میت کو ان دعاؤں کی تلقین کرے جوبتائی گئی ہیں ۔
مسئلہ (۶۲۱)دفن کے بعدمستحب ہے کہ میت کے پسماندگان کوپرسادیا جائے، لیکن اگراتنی مدت گزرچکی ہوکہ پرسادینے سے ان کادکھ تازہ ہوجائے توپرسانہ دینا بہتر ہے۔ یہ بھی مستحب ہے کہ میت کے اہل خانہ کے لئے تین دن تک کھانابھیجاجائے۔ ان کے پاس بیٹھ کراوران کے گھرمیں کھاناکھانامکروہ ہے۔
مسئلہ (۶۲۲)مستحب ہے کہ انسان عزیزواقرباکی موت پرخصوصاً بیٹے کی موت پر صبر کرے اور جب بھی میت کی یادآئے پڑھے’’ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ اور میت کے لئے قرآن خوانی کرے اورماں باپ کی قبروں پر جاکر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں طلب کرے اورقبر کوپختہ کردے تاکہ جلدی ٹوٹ پھوٹ نہ جائے۔
مسئلہ (۶۲۳)کسی کی موت پربھی انسان کے لئے احتیاط کی بناپر جائزنہیں کہ اپنا چہرہ اوربدن زخمی کرے اوراپنے بال نوچے لیکن سراورچہرے کاپیٹنا جائزہے۔
مسئلہ (۶۲۴)باپ اوربھائی کے علاوہ کسی کی موت پرگریبان چاک کرنا(احتیاط کی بناپر)جائز نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ باپ اوربھائی کی موت پربھی گریبان چاک نہ کیاجائے۔
مسئلہ (۶۲۵)اگرعورت میت کے سوگ میں اپناچہرہ زخمی کرکے خون آلود کرلے یااپنا بال نوچے تو احتیاط مستحب کی بناپروہ ایک غلام کوآزاد کرے یا دس فقیروں کوکھاناکھلائے یا انہیں کپڑے پہنائے اوراگرمرداپنی بیوی یافرزند کی موت پر اپناگریبان یالباس پھاڑے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۶۲۶)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت پرروتے وقت آواز بہت بلندنہ کی جائے۔
نمازوحشت
مسئلہ (۶۲۷)مناسب ہے کہ میت کے دفن کے بعدپہلی رات کواس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے اوراس کے پڑھنے کاطریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ الحمد کے بعدایک دفعہ آیۃ الکرسی اوردوسری رکعت میں سورۂ الحمد کے بعددس دفعہ سورۂ قدر پڑھاجائے اور نمازکے سلام کے بعدکہاجائے :’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّابْعَثْ ثَوَابَھَااِلَی قَبْرِ فُلَانٍ‘‘۔اورلفظ فلاں کے بجائے میت کانام لیاجائے۔
مسئلہ (۶۲۸)نماز وحشت میت کے دفن کے بعدپہلی رات کو کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے لیکن بہتریہ ہے کہ اول شب میں نماز عشاکے بعدپڑھی جائے۔
مسئلہ (۶۲۹)اگرمیت کوکسی دورکے شہرمیں لے جانامقصودہویاکسی اوروجہ سے اس کے دفن میں تاخیرہوجائے تونماز وحشت کواس کے سابقہ طریقے کے مطابق دفن کی پہلی رات تک ملتوی کردیناچاہئے۔
نبش قبر
مسئلہ (۶۳۰)کسی مسلمان کانبش قبریعنی اس کی قبرکاکھولناخواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کیوں نہ ہوحرام ہے۔ہاں اگراس کابدن مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوچکاہوتوپھرکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۶۳۱)امام زادوں ،شہیدوں ،عالموں کی قبروں کواجاڑنا خواہ انہیں فوت ہوئے کئی سال گزرچکے ہوں اوران کے بدن خاک ہوگئے ہوں ، اگر ان کی بے حرمتی شمار ہوتی ہوتوحرام ہے۔
مسئلہ (۶۳۲)چندصورتیں ایسی ہیں جن میں قبرکاکھولناحرام نہیں :
۱): جب میت کوغصبی زمین میں دفن کیاگیاہواورزمین کامالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو۔اور نبش قبر بھی کسی قسم کی دشواری کا سبب نہ ہو ورنہ لازم نہیں ہے سواء یہ کہ خود غاصب ہو اور اگر نبش قبر میں بہت بڑی پریشانی ہوتو لازم نہیں ہےبلکہ جائز نہیں ہے جیسے یہ کہ نبش قبر سے میت کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا سبب بنے بلکہ اگر بے احترامی کا سبب ہوتو (احتیاط واجب کی بنا پر) جائز نہیں ہے مگر یہ کہ میت نے خود زمین کو غصب کیا ہو۔
۲): جب کفن یاکوئی اورچیزجومیت کے ساتھ دفن کی گئی ہوغصبی ہواور اس کامالک اس بات پررضامندنہ ہوکہ وہ قبرمیں رہے اوراگرخودمیت کے مال میں سے کوئی چیزجو اس کے وارثوں کوملی ہواس کے ساتھ دفن ہوگئی ہواوراس کے وارث اس بات پر راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبرمیں رہے تواس کی بھی یہی صورت ہے،البتہ اگرمرنے والے نے وصیت کی ہوکہ دعایاقرآن مجیدیاانگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اوراس کی وصیت نافذ ہوتوان چیزوں کونکالنے کے لئے قبرکونہیں کھولاجاسکتا۔اور اس مقام میں وہ مستثنیٰ چیزیں جو پہلے بیان کی گئی ہیں ان کا حکم جاری ہے۔
۳): جب قبرکاکھولنامیت کی بے حرمتی کاموجب نہ ہواورمیت کوبغیر غسل دیئے یا بغیرکفن پہنائے یا بغیر حنوط کے دفن کیاگیاہویاپتا چلے کہ میت کاغسل باطل تھایااسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہیں دیاگیاتھایاحنوط نہیں کیا گیا تھایاقبر میں قبلے کے رخ پرنہیں لٹایاگیاتھا۔
۴): جب کوئی ایساحق ثابت کرنے کے لئے جو نبش قبرسے اہم یا اس کے مساوی ہو میت کا بدن دیکھنا ضروری ہو۔
۵): جب میت کو ایسی جگہ دفن کیاگیاہوجہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو، مثلاً اسے کافروں کے قبرستان میں یا اس جگہ دفن کیاگیاہو جہاں غلاظت اورکوڑاکرکٹ پھینکا جاتا ہو۔
۶): جب کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبرکھولی جائے جس کی اہمیت قبرکھولنے سے زیادہ ہو مثلاً کسی زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پیٹ سے نکالنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گیاہو۔
۷): جب یہ خوف ہوکہ درندہ میت کوچیر پھاڑ ڈالے گایاسیلاب اسے بہالے جائے گا یا دشمن اسے نکال لے گا۔
۸): میت نے وصیت کی ہوکہ اسے دفن کرنے سے پہلے مقدس مقامات کی طرف منتقل کیاجائے اور چنانچہ لے جاتے وقت اس میں کوئی دشواری نہ ہو لیکن جان بوجھ کر یا بھولے سےیا حکم سے جاہل ہونے کی بناء پر کسی دوسری جگہ دفنادیاگیاہوتوبے حرمتی نہ ہونے کی صورت میں قبر کھول کر اسے مقدس مقامات کی طرف لے جاسکتے ہیں بلکہ اس صورت میں نبش قبر کرنا اور منتقل کرنا واجب ہے۔
مستحب غسل ←
→ غسل مس میت
مسئلہ (۵۲۲)بہتر یہ ہے کہ جب تک میت کاغسل مکمل نہ ہواسے بھی(جس طرح اس سے پہلے مسئلہ میں بیان کیا ہے) روبقبلہ لٹائیں ، لیکن جب اس کا غسل مکمل ہوجائے توبہتریہ ہے کہ اسے اس حالت میں لٹائیں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہیں ۔
مسئلہ (۵۲۳) جوشخص جاں کنی کی حالت میں ہواسے احتیاط کی بناپرروبقبلہ لٹانا ہر مسلمان پرواجب ہے۔لہٰذا وہ شخص جو جاں کنی کی حالت میں ہے راضی ہو(اورقاصر بھی نہ ہو) تواس کام کے لئے اس کے ولی کی اجازت لیناضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں اس کے ولی سے اجازت لینااحتیاط لازم کی بناپر ضروری ہے۔
مسئلہ (۵۲۴) مستحب ہے کہ جوشخص جاں کنی کی حالت میں ہواس کے سامنے شہادتین، بارہ اماموں کے نام کااقرار لینا اور دوسرے تمام دینی عقائد حقہ اس طرح دہرائے جائیں کہ وہ سمجھ لے اور اس کی موت کے وقت تک ان چیزوں کی تکرار کرنابھی مستحب ہے۔
مسئلہ (۵۲۵)مستحب ہے جوشخص جاں کنی کی حالت میں ہواسے مندرجہ ذیل دعا اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:
’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیَ الْکَثِیْرَ مِنْ مَّعَاصِیْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیْرَمِنْ طَاعَتِکَ یَامَنْ یَّقْبَلُ الْیَسِیْرَ وَیَعْفُوْعَنِ الْکَثِیْرِاقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِیْرَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَفُوُّالْغَفُوْرُاَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ فَاِنَّکَ رَحِیْمٌ‘‘۔
مسئلہ (۵۲۶) کسی کی جان سختی سے نکل رہی ہوتواگراسے تکلیف نہ ہوتواسے اس جگہ لے جاناجہاں وہ نماز پڑھاکرتاتھامستحب ہے۔
مسئلہ (۵۲۷) جوشخص جاں کنی کے عالم میں ہواس کی آسانی کے لئے (یعنی اس مقصد سے کہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے) اس کے سرہانے سورۂ یٰسین، سورئہ صافّات، سورئہ احزاب، آیۃ الکرسی اور سورئہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورئہ بقرہ کی آخری تین آیات پڑھنامستحب ہے بلکہ قرآن مجید جتنابھی پڑھاجاسکے پڑھے۔
مسئلہ (۵۲۸) جوشخص جان کنی کے عالم میں ہواسے تنہاچھوڑنااور کوئی بھاری چیز اس کے پیٹ پررکھنااور جنب اورحائض کااس کے قریب ہونااسی طرح اس کے پاس زیادہ باتیں کرنا، رونااور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنامکروہ ہے۔
مرنے کے بعدکے احکام
مسئلہ (۵۲۹)مستحب ہے کہ مرنے کے بعدمیت کی آنکھیں اورہونٹ بندکر دیئے جائیں اوراس کی ٹھوڑی کوباندھ دیاجائے نیزاس کے ہاتھ اورپاؤں سیدھے کر دیئے جائیں اوراس کے اوپرکپڑاڈال دیاجائے اوراگرموت رات کوواقع ہوتوجہاں موت واقع ہووہاں چراغ جلائیں (روشنی کردیں )اورجنازے میں شرکت کے لئے مومنین کو اطلاع دیں اورمیت کودفن کرنے میں جلدی کریں ،لیکن اگراس شخص کے مرنے کایقین نہ ہوتوانتظار کریں تاکہ صورت حال واضح ہوجائے۔اس کے علاوہ اگرمیت حاملہ ہواور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہوتوضروری ہے کہ دفن کرنے میں اتناتوقف کریں کہ اس کاپہلو چاک کرکے بچہ باہر نکال لیں اورپھراس پہلو کو سی دیں ۔
غسل، کفن، نماز اوردفن میت کاوجوب
مسئلہ (۵۳۰)کسی مسلمان کاغسل، حنوط، کفن، نمازمیت اور دفن خواہ وہ اثنا عشری شیعہ نہ بھی ہواس کے ولی پرواجب ہے۔لیکن ضروری ہے کہ ولی خودان کاموں کو انجام دے یاکسی دوسرے کوان کاموں کے لئے معین کرے اوراگرکوئی شخص ان کاموں کوولی کی اجازت سے انجام دے توولی سے وجوب ساقط ہو جاتاہے بلکہ اگردفن اوراس کے ماننددوسرے امورکوکوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر انجام دے تب بھی ولی سے وجوب ساقط ہوجاتاہے اوران امور کودوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں اوراگرمیت کا کوئی ولی نہ ہویاولی ان کاموں کوانجام دینے سے منع کرے تب بھی باقی مکلف لوگوں پرواجب کفائی ہے کہ میت کے ان کاموں کوانجام دیں اوراگربعض مکلف لوگوں نے انجام دیا تو دوسروں سے وجوب ساقط ہوجاتاہے۔ چنانچہ اگرکوئی بھی انجام نہ دے توتمام مکلف لوگ گناہ گارہوں گے اورولی کے منع کرنے کی صورت میں اس سے اجازت لینے کی شرط ختم ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۵۳۱)اگرکوئی تجہیزوتکفین کے کاموں میں مشغول ہوجائے تودوسروں کے لئے اس بارے میں کوئی اقدام کرناواجب نہیں ،لیکن اگروہ ان کاموں کوادھوراچھوڑ دے توضروری ہے کہ دوسرے انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں ۔
مسئلہ (۵۳۲) اگرکسی شخص کواطمینان ہوکہ کوئی دوسرامیت کو (نہلانے، کفنانے اور دفنانے)کے کاموں میں مشغول ہے تواس پرواجب نہیں ہے کہ میت کے(مذکور) کاموں کے بارے میں اقدام کرے لیکن اگر اسے (مذکور کاموں کے نہ ہونے کا) محض شک یاگمان ہوتوضروری ہے کہ اقدام کرے۔
مسئلہ (۵۳۳)اگرکسی شخص کومعلوم ہوکہ میت کاغسل یاکفن یانمازیادفن غلط طریقے سے ہواہے توضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، لیکن اگراسے باطل ہونے کا گمان ہو (یعنی یقین نہ ہو) یاشک ہو کہ درست تھایانہیں توپھراس بارے میں کوئی اقدام کرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۵۳۴)عورت کاولی اس کاشوہرہے اوراس کے علاوہ وہ اشخاص کہ جن کو میت سے میراث ملتی ہے اسی ترتیب سے جس کاذکرمیراث کے مختلف طبقوں میں آئے گا اور ہر طبقہ میں مرد عورتوں پر مقدم ہیں ۔ میت کا باپ میت کے بیٹے پراورمیت کادادااس کے بھائی پراور میت کاپدری ومادری بھائی اس کے صرف پدری بھائی یامادری بھائی پر اور اس کاپدری بھائی اس کے مادری بھائی پر اور اس کے چچاکے اس کے ماموں پرمقدم ہونے میں اشکال ہے چنانچہ اس سلسلے میں احتیاط کے (تمام) تقاضوں کو پیش نظر رکھناچاہئے اور اگر ولی متعدد ہوں تو ان میں سے ایک کی اجازت کافی ہے۔
مسئلہ (۵۳۵)نابالغ بچہ اور دیوانہ میت کے کاموں کوانجام دینے کے لئے ولی نہیں بن سکتے اوربالکل اسی طرح وہ شخص بھی جو غیر حاضرہووہ( خودیاکسی شخص کو مامور کرکے) میت سے متعلق امورکوانجام نہ دے سکتاہوتووہ بھی ولی نہیں بن سکتا۔
مسئلہ (۵۳۶)اگرکوئی شخص کہے کہ: میں میت کاولی ہوں یامیت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یاکہے کہ میں میت کے دفن سے متعلق کاموں میں میت کاوصی ہوں اور اس کے کہنے سے اطمینان حاصل ہوجائے یا میت اس کے تصرف میں ہویادوعادل شخص گواہی دیں تواس کاقول قبول کرلیناچاہئے۔
مسئلہ (۵۳۷)اگرمرنے والااپنے غسل، کفن، دفن اورنماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کومقررکرے توان امورکی ولایت اسی شخص کے ہاتھ میں ہے اوریہ ضروری نہیں کہ جس شخص کومیت نے وصیت کی ہوکہ وہ خودان کاموں کوانجام دینے کاذمہ دار بنے، اس وصیت کوقبول کرے،لیکن اگرقبول کرلے توضروری ہے کہ اس پرعمل کرے۔
غسل میت کی کیفیت
مسئلہ (۵۳۸) میت کوتین غسل اس ترتیب سے دینا واجب ہے: پہلا ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں ، دوسراایسے پانی سے جس میں کافورملاہواہواور تیسرا خالص پانی سے۔
مسئلہ (۵۳۹)ضروری ہے کہ بیری اورکافورنہ اس قدرزیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اورنہ اس قدرکم ہوں کہ یہ نہ کہاجاسکے کہ بیری اورکافور اس پانی میں ملائے گئے ہیں ۔
مسئلہ (۵۴۰)اگربیری اورکافورلازمی مقدار میں نہ مل سکیں تو( احتیاط مستحب کی بناپر)جتنی مقدارمیسرآئے پانی میں ڈال دی جائے۔
مسئلہ (۵۴۱)اگرکوئی شخص احرام کی حالت میں مرجائے تواسے کافور کے پانی سے غسل نہیں دیناچاہئے بلکہ اس کے بجائے خالص پانی سے غسل دیناچاہئے، لیکن اگر وہ حج تمتع کااحرام ہواوروہ طواف اور طواف کی نمازاور سعی کومکمل کرچکا ہو یا حج قران یا افراد کے احرام میں ہواورسرمنڈاچکاہوتوان دوصورتوں میں اس کوکافور کے پانی سے غسل دیناضروری ہے۔
مسئلہ (۵۴۲)اگربیری اورکافور یاان میں سے کوئی ایک نہ مل سکے یااس کا استعمال جائزنہ ہومثلاً یہ کہ غصبی ہوتو(احتیاط کی بناپر) ضروری ہے کہ اسے ایک تیمم کرائے اور ان میں سے ہراس چیزکے بجائے جس کاملناممکن نہ ہومیت کو خالص پانی سے غسل دیاجائے ۔
مسئلہ (۵۴۳)جوشخص میت کوغسل دے توضروری ہے کہ وہ عقل منداورمسلمان ہو (اوراحتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ وہ اثناعشری ہواورغسل کے مسائل سے بھی واقف ہو اور جوبچہ اچھے اور برے کی تمیز رکھتاہواگروہ غسل کوصحیح طریقے سے انجام دے سکتاہوتواس کاغسل دینابھی کافی ہے چنانچہ اگرغیر اثناعشری مسلمان کی میت کواس کا ہم مذہب اپنے مذہب کے مطابق غسل دے تو مومن اثناعشری سے ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔لیکن وہ اثناعشری شخص میت کاولی ہوتواس صورت میں ذمہ داری اس سے ساقط نہیں ہوتی۔
مسئلہ (۵۴۴) جوشخص غسل دے ضروری ہے کہ وہ قربت کی نیت رکھتاہویعنی اللہ کے حکم کی بجاآوری کے ارادے سے انجام دے۔
مسئلہ (۵۴۵) مسلمان کے بچے کو( خواہ وہ ولدالزناہی کیوں نہ ہو) غسل دیناواجب ہے اور کافر اوراس کی اولادکاغسل، کفن اور دفن واجب نہیں ہے اور اگر کافر کا بچہ ممیز ہو اوراسلام کا مظاہرہ کرے تو مسلمان ہے اور جو شخص بچپن سے دیوانہ ہواور دیوانگی کی حالت میں ہی بالغ ہوجائے تواگراس کے ماں باپ مسلمان ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے۔
مسئلہ (۵۴۶)اگرایک بچہ چارمہینے یااس سے زیادہ کاہوکرساقط ہوجائے تواسے غسل دیناضروری ہے بلکہ اگر چارمہینے سے بھی کم کاہولیکن اس کاپورابدن بن چکاہو تو (احتیاط واجب کی بناپر)اس کوغسل دیناضروری ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ احتیاط کی بناپراسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل دیئے دفن کردیناچاہئے۔
مسئلہ (۵۴۷)مرد نا محرم عورت کوغسل نہیں دے سکتااسی طرح عورت نامحرم مرد کوغسل نہیں دے سکتی۔ لیکن بیوی اپنے شوہرکوغسل دے سکتی ہے اورشوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
مسئلہ (۵۴۸) مرداتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتاہے جوممیزنہ ہواورعورت بھی اتنے چھوٹے لڑکے کو غسل دے سکتی ہے جو ممیزنہ ہو۔
مسئلہ (۵۴۹)محرم ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں چاہے نسبی محرم ہوں جیسے ماں اور بہن اور چاہے رضاعت یا نکاح کے سبب محرم ہوئے ہوں اور ضرور ی نہیں ہے غسل دینے میں (شرم گاہ کے علاوہ) وہ کپڑے کے نیچے سے ہواگر چہ بہتر ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر اس صورت میں ہے جب کوئی مرد اپنی محرم عورت کو غسل دے اور کوئی عورت غسل دینے کے لئے نہ ملے اور اسی طرح برعکس۔
مسئلہ (۵۵۰)اگرمیت اور غسال دونوں مردہوں یادونوں عورت ہوں توجائز ہے کہ شرم گاہ کے علاوہ میت کاباقی بدن برہنہ ہولیکن بہتریہ ہے کہ لباس کے نیچے سے غسل دیا جائے۔
مسئلہ (۵۵۱)شوہر اور زوجہ کے علاوہ میت کی شرم گاہ پرنظرڈالناحرام ہے اور جوشخص اسے غسل دے رہا ہو اگروہ اس پرنظر ڈالے توگناہ گارہے، لیکن اس سے غسل باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۵۵۲)اگرمیت کے بدن کے کسی حصے پرعین نجاست ہوتوضروری ہے کہ اس حصے کو غسل دینے سے پہلے عین نجس دورکرے اوراولیٰ یہ ہے کہ غسل شروع کرنے سے پہلے میت کاتمام بدن نجاسات سے پاک ہو۔
مسئلہ (۵۵۳) غسل میت غسل جنابت کی طرح ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک میت کو غسل ترتیبی دیناممکن ہوغسل ارتماسی نہ دیاجائے اورغسل ترتیبی میں بھی ضروری ہے کہ داہنی طرف کوبائیں طرف سے پہلے دھویاجائے ۔
مسئلہ (۵۵۴) جوشخص حیض یاجنابت کی حالت میں مرجائے اسے غسل حیض یا غسل جنابت دیناضروری نہیں ہے، بلکہ صرف غسل میت اس کے لئے کافی ہے۔
مسئلہ (۵۵۵)میت کو غسل دینے کی اجرت لینا(احتیاط واجب کی بناپر)حرام ہے اور اگرکوئی شخص اجرت لینے کے لئے میت کواس طرح غسل دے کہ یہ غسل دیناقصدقربت کے منافی ہوتوغسل باطل ہے، لیکن غسل کے ابتدائی کاموں کی اجرت لیناحرام نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۵۶)میت کے غسل میں غسل جبیرہ جائزنہیں ہے اور اگرپانی میسرنہ ہو یا اس کے استعمال میں کوئی امرمانع ہوتوضروری ہے کہ غسل کے بدلے میت کو ایک تیمم کرائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تین تیمم کرائے جائیں ۔
مسئلہ (۵۵۷) جوشخص میت کوتیمم کرارہاہواسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور میت کے چہرے اورہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تومیت کواس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تیمم کرائے۔
کفن کے احکام
مسئلہ (۵۵۸)مسلمان میت کوتین کپڑوں کاکفن دیناضروری ہے جنہیں لنگ، کرتہ اورچادرکہاجاتاہے۔
مسئلہ (۵۵۹)(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ لنگی ایسی ہوجوناف سے گھنٹوں تک بدن کے اطراف کو ڈھانپ لے اور بہتریہ ہے کہ سینے سے پاؤں تک پہنچے اور (کرتہ یا) پیراہن (احتیاط واجب کی بناپر) ایساہو کہ کندھوں کے سروں سے آدھی پنڈلیوں تک تمام بدن کو ڈھانپے اوربہتریہ ہے کہ پاؤں تک پہنچے اورچادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ پورے بدن کو ڈھانپ دے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ میت کے پاؤں اور سر کی طرف سے گرہ دے سکیں اوراس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہئے کہ اس کاایک کنارہ دوسرے کنارہ پرآسکے۔
مسئلہ (۵۶۰)واجب مقدارکی حدتک کفن جس کاذکرسابقہ مسئلہ میں ہوچکاہے میت کے اصل مال سے لیاجاتاہے اور ظاہر یہ ہے کہ مستحب مقدار کی حدتک کفن میت کی شان اور عرف عام کوپیش نظررکھتے ہوئے میت کے اصل مال سے لیاجائے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب مقدارسے زائد کفن ان وارثوں کے حصے سے نہ لیاجائے جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں ۔
مسئلہ (۵۶۱)اگرکسی شخص نے وصیت کی ہوکہ مستحب کفن کی مقدار اس کے تہائی مال سے لیاجائے یایہ وصیت کی ہوکہ اس کاتہائی مال خوداس پرخرچ کیاجائے،لیکن اس کے مصرف کاتعین نہ کیاہویاصرف اس کے کچھ حصے کے مصرف کاتعین کیاہوتو مستحب کفن اس کے تہائی مال سے لیاجاسکتاہے خواہ معمول کی مقدار سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ (۵۶۲)اگرمرنے والے نے یہ وصیت نہ کی ہوکہ کفن اس کے تہائی مال سے لیاجائے اورمتعلقہ اشخاص چاہیں کہ اس کے اصل مال سے لیں تو جوبیان مسئلہ (۵۶۰) میں گزرچکاہے اس سے زیادہ نہ لیں مثلاً وہ مستحب کام جو معمولاًانجام نہ دیئے جاتے ہوں اور جومیت کی شان کے مطابق بھی نہ ہوں تو ان کی ادائیگی کے لئے ہرگزاصل مال سے نہ لیں اوربالکل اسی طرح اگرکفن معمول سے زیادہ قیمتی ہوتو اضافی رقم کو میت کے اصل مال سے نہیں لیناچاہئے لیکن جوورثاء بالغ ہیں اگروہ اپنے حصے سے لینے کی اجازت دیں توجس حدتک وہ لوگ اجازت دیں ان کے حصے سے لیاجاسکتاہے۔
مسئلہ (۵۶۳)عورت کے کفن کی ذمہ داری شوہرپرہے خواہ عورت اپنامال بھی رکھتی ہو۔اسی طرح اگر عورت کواس تفصیل کے مطابق جوطلاق کے احکام میں آئے گی طلاق رجعی دی گئی ہواوروہ عدت ختم ہونے سے پہلے مرجائے توشوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے اور اگرشوہر بالغ نہ ہویادیوانہ ہو توشوہر کے ولی کوچاہئے کہ اس کے مال سے عورت کوکفن دے۔
مسئلہ (۵۶۴)میت کوکفن دینااس کے قرابت داروں پرواجب نہیں اگرچہ اس کی زندگی میں اخراجات کی کفالت ان پرواجب رہی ہو۔
مسئلہ (۵۶۵) اگر میت کے پاس کفن کےلئے کوئی مال نہ ہو تو اس کا برہنہ دفن کرنا جائز نہیں ہے بلکہ( احتیاط کی بناپر) مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسے کفن دیں اور اس کا خرچ زکوٰۃ سے حساب کرنا جائز ہے۔
مسئلہ (۵۶۶)احتیاط واجب یہ ہےکہ کفن کے تینوں کپڑوں میں سے ہر ایک اتنا باریک نہ ہو کہ میت کا بدن اس کے نیچے نظر آئے لیکن اگر اس طرح ہو کہ تینوں کپڑوں کو ملاکر میت کا بدن نظر نہ آئے تو کافی ہے۔
مسئلہ (۵۶۷)غصب کی ہوئی چیزکاکفن دیناخواہ کوئی دوسری چیزمیسر نہ ہوتب بھی جائزنہیں ہے پس اگرمیت کاکفن غصبی ہواوراس کامالک راضی نہ ہوتووہ کفن اس کے بدن سے اتارلیناچاہئے خواہ اس کودفن بھی کیاجاچکاہو، لیکن بعض صورتوں میں جن کی تفصیل کی گنجائش اس مقام پرنہیں ہے۔
مسئلہ (۵۶۸)میت کونجس چیز یاخالص ریشمی کپڑے کا کفن دینا اور( احتیاط واجب کی بناپر)سونے سے کام کئے ہوئے کپڑے کاکفن دینا(بھی) جائزنہیں ، لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۶۹)میت کونجس مردارکی کھال کاکفن دینااختیاری حالت میں جائز نہیں ہے بلکہ پاک مردار کی کھال کا کفن دینابھی جائزنہیں ہے اور(احتیاط واجب کی بناپر)کسی ایسے کپڑے کاکفن دیناجوپشمی ہویااس جانورکے اون سے تیارکیاگیاہوجس کاگوشت کھانا حرام ہواختیاری حالت میں جائز نہیں ہے لیکن اگرکفن حلال گوشت جانورکی کھال یا بال اور اون کاہوتوکوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کابھی کفن نہ دیاجائے۔
مسئلہ (۵۷۰)اگرمیت کاکفن اس کی اپنی نجاست یاکسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اگرایساکرنے سے کفن ضائع نہ ہوتاہوتوجتناحصہ نجس ہواسے دھونا یاکاٹنا ضروری ہے خواہ میت کو قبر میں ہی کیوں نہ اتاراجاچکا ہو اور اگراس کادھونایاکاٹناممکن نہ ہو، لیکن بدل دیناممکن ہوتوضروری ہے کہ بدل دیں ۔
مسئلہ (۵۷۱)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جس نے حج یاعمرے کااحرام باندھ رکھا ہو تواسے دوسروں کی طرح کفن پہنانا ضروری ہے اوراس کا سراور چہرہ ڈھانک دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۷۲)انسان کے لئے اپنی تندرست زندگی میں کفن،بیری اورکافورکاتیاررکھنا مستحب ہے۔
حنوط کے احکام
مسئلہ (۵۷۳)غسل دینے کے بعدواجب ہے کہ میت کوحنوط کیاجائے یعنی اس کی پیشانی،دونوں ہتھیلیوں ،دونوں گھٹنوں اوردونوں پاؤں کے انگوٹھوں پرکافوراس طرح ملاجائے کہ کچھ کافوراس پرباقی رہے خواہ کچھ کافور بغیر ملے باقی بچے اور مستحب یہ ہے کہ میت کی ناک کے اوپری حصہ پربھی کافور ملاجائے۔کافورپساہوااورتازہ ہوناچاہئے پاک اور مباح (غیر غصبی) ہونا چاہیے اور اگرپرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبوزائل ہوگئی ہوتوکافی نہیں ۔
مسئلہ (۵۷۴)احتیاط مستحب یہ ہے کہ کافور پہلے میت کی پیشانی پرملاجائے لیکن دوسرے مقامات پرملنے میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۷۵) بہتریہ ہے کہ میت کو کفن پہنانے سے پہلے حنوط کیاجائے۔ اگرچہ کفن پہنانے کے دوران یا اس کے بعدبھی حنوط کریں توکوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۷۶)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جس نے حج یاعمرے کے لئے احرام پہن رکھاہوتو اسے حنوط کرناجائزنہیں ہے مگران دوصورتوں میں (جائزہے) جن کا ذکر مسئلہ (۵۴۱ )میں گزرچکاہے۔
مسئلہ (۵۷۷)اعتکاف کرنے والا اور ایسی عورت جس کا شوہر مرگیاہواورابھی اس کی عدت باقی ہو اگرچہ خوشبولگانااس کے لئے حرام ہے لیکن اگروہ مرجائے تواسے حنوط کرناواجب ہے۔
مسئلہ (۵۷۸)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کو مشک، عنبر، عوداور دوسری خوشبوئیں نہ لگائی جائیں اورانہیں کافور کے ساتھ بھی نہ ملایاجائے۔
مسئلہ (۵۷۹)مستحب ہے کہ سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی مٹی (خاک شفا) کی کچھ مقدار کافورمیں ملالی جائے،لیکن اس کافورکو ایسے مقامات پر نہیں لگانا چاہئے جہاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہواوریہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہوکہ جب وہ کافور کے ساتھ مل جائے تواسے کافور نہ کہاجاسکے۔
مسئلہ (۵۸۰)اگر کافورنہ مل سکے یافقط غسل کے لئے کافی ہوتوحنوط کرناضروری نہیں اوراگرغسل کی ضرورت سے زیادہ ہولیکن تمام سات اعضا کے لئے کافی نہ ہوتو (احتیاط مستحب کی بناپر)چاہئے کہ پہلے پیشانی پراوراگربچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔
مسئلہ (۵۸۱)مستحب ہے کہ (درخت کی) دوتروتازہ ٹہنیاں میت کے ساتھ قبر میں رکھی جائیں ۔
نماز میت کے احکام
مسئلہ (۵۸۲)ہرمسلمان کی میت پراورایسے بچے کی میت پرجواسلام کے حکم میں ہو اور پورے چھ سال کا ہوچکاہونماز پڑھناواجب ہے۔
مسئلہ (۵۸۳) ایک ایسے بچے کی میت پرجوچھ سال کانہ ہواہولیکن نماز کو جانتاہو احتیاط لازم کی بناپرنمازپڑھناچاہئے اوراگرنماز کونہ جانتاہو تورجاء کی نیت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ بچہ جو مردہ پیداہواہواس کی میت پرنماز پڑھنامستحب نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۸۴) میت کی نمازاسے غسل دینے، حنوط کرنے اورکفن پہنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اوراگر ان امور سے پہلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایساکرنا خواہ بھول چوک یامسئلے سے لاعلمی کی بناپرہی کیوں نہ ہوکافی نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۸۵) جوشخص میت کی نماز پڑھناچاہتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ اس نے وضو، غسل یاتیمم کر رکھاہواور اس کابدن اورلباس پاک ہوں اور اگراس کالباس غصبی ہوتب بھی کوئی حرج نہیں ۔اگرچہ بہتریہ ہے کہ ان تمام چیزوں کالحاظ رکھے جو دوسری نمازوں میں لازمی ہیں ۔
مسئلہ (۵۸۶) جوشخص نمازمیت پڑھ رہاہواسے چاہئے کہ روبقبلہ ہواوریہ بھی واجب ہے کہ میت کونماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل یوں لٹایاجائے کہ میت کاسرنماز پڑھنے والے کے دائیں طرف ہواورپاؤں بائیں طرف ہو۔
مسئلہ (۵۸۷)احتیاط مستحب کی بناپرضروری ہے کہ جس جگہ ایک شخص میت کی نماز پڑھے وہ غصبی نہ ہواوریہ بھی ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ میت کے مقام سے اونچی یا نیچی نہ ہولیکن معمولی پستی یابلندی میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۸۸) نماز پڑھنے والے کوچاہئے کہ میت سے دورنہ ہولیکن جو شخص نماز میت باجماعت پڑھ رہاہواگروہ میت سے دورہوجب کہ صفیں باہم متصل ہوں توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۸۹)نماز پڑھنے والے کوچاہئے کہ میت کے سامنے کھڑاہولیکن اگرنماز با جماعت پڑھی جائے اورنماز پڑھنے والا میت کے مقابل نہ بھی ہو تو اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۹۰)احتیاط کی بناپرمیت او رنماز پڑھنے والے کے درمیان پردہ یا دیوار یا کوئی اورایسی چیز حائل نہیں ہونی چاہئے، لیکن اگرمیت تابوت میں یاایسی ہی کسی اور چیز میں رکھی ہوتوکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۵۹۱)نماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ میت کی شرم گاہ ڈھکی ہوئی ہو اور اگر اسے کفن پہنانا ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ اس کی شرم گاہ کوخواہ لکڑی یااینٹ یاایسی ہی کسی چیزسے ہی ڈھانک دیں ۔
مسئلہ (۵۹۲)نماز میت کھڑے ہوکراورقربت کی نیت سے پڑھنی چاہئے اورنیت کرتے وقت میت کو معین کرلینامثلاً نیت کرنی چاہئے کہ: میں اس میت پر’’قربۃً الی اللہ ‘‘ نماز پڑھ رہاہوں ۔اور احتیاط واجب یہ ہےکہ یومیہ نماز کےقیام میں جو سکون واطمینان لازم ہے اس کی نماز میت میں بھی رعایت کی جائے۔
مسئلہ (۵۹۳)اگرکوئی شخص کھڑے ہوکرنماز میت نہ پڑھ سکتاہوتوبیٹھ کرپڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۵۹۴)اگرمرنے والے نے وصیت کی ہوکہ کوئی مخصوص شخص اس کی نماز پڑھے تو ضروری نہیں ہےکہ وہ شخص میت کے ولی سے اجازت حاصل کرے۔اگرچہ بہتر ہے۔
مسئلہ (۵۹۵)بعض فقہاء کے نزدیک میت پرکئی دفعہ نماز پڑھنامکروہ ہے۔لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے اور اگرمیت کسی صاحب علم وتقویٰ کی ہوتوبغیر اشکال کےمکروہ نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۹۶)اگرمیت کوجان بوجھ کریابھول چوک کی وجہ سے یاکسی عذرکی بناپر بغیرنمازپڑھے دفن کردیاجائے یادفن کردینے کے بعدپتا چلے کہ جو نمازاس پرپڑھی جاچکی ہے وہ باطل ہے تو میت پرنمازپڑھنے کے لئے اس کی قبر کوکھولناجائز نہیں ، لیکن جب تک اس کابدن پاش پاش نہ ہوجائے اورجن شرائط کانماز میت کے سلسلے میں ذکر آ چکا ہے ان کے ساتھ رجاء کی نیت سے اس کی قبرپرنماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نماز میت کاطریقہ
مسئلہ (۵۹۷)میت کی نمازمیں پانچ تکبیریں ہیں اوراگرنمازپڑھنے والاشخص مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ پانچ تکبیریں یوں کہے توکافی ہے:
نیت کرنے اورپہلی تکبیر پڑھنے کے بعدکہے :
اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔
دوسری تکبیرکے بعدکہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔
تیسری تکبیر کے بعدکہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔
چوتھی تکبیر کے بعد اگرمیت مردہوتوکہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِھٰذَاالْمَیِّتِ۔
اگرمیت عورت ہوتوکہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِھٰذِہِ الْمَیِّتِ،
اوراس کے بعدپانچویں تکبیر پڑھے۔
بہتریہ ہے کہ پہلی تکبیرکے بعدکہے:
اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اَرْسَلَہٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًاوَّنَذِیْراً بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ۔
دوسری تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍوَّارْحَمْ مُحَمَّداًوَّاٰلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَاصَلَّیْتَ وَبَارَکْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَاٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ وَّصَلِّ عَلیٰ جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَجَمِیْعِ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ۔
تیسری تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَآءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَیْنَنَاوَبَیْنَھُمْ بِالْخَیْرَاتِ اِنَّکَ مُجِیْبُ الدَّعْوَاتِ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
اگرمیت مردہوتوچوتھی تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَاعَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَیْرُمَنْزُوْلٍ بِہِ اَللّٰھُمَّ اِنَّالَانَعْلَمُ مِنْہُ اِلَّا خَیْراًوَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنَّااَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِناًفَزِدْفِیْ اِحْسَانِہٖ وَاِنْ کَانَ مُسِیْئًافَتَجَاوَزَعَنْہُ وَاغْفِرْلَہٗ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّیِّیْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ اَھْلِہٖ فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْہُ بِرَحْمَتِکَ یَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
اور اس کے بعد پانچویں تکبیر پڑھے۔
لیکن اگرمیت عورت ہوتوچوتھی تکبیر کے بعدکہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذِہٖ اَمَتُکَ وَابْنَۃُ عَبْدِکَ وَابْنَۃُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَیْرٌمَنْزُوْلٍ بِہٖ اَللّٰھُمَّ اِنَّالَا نَعْلَمُ مِنْھَااِلَّا خَیْراًوَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِھَامِنَّااَللّٰھُمَّ اِنْ کاَنَتْ مُحْسِنَۃً فَزِدْفِیْ اِحْسَانِھَا وَاِنْ کاَنَتْ مُسِیْٓئَۃً فَتَجَاوَزْعَنْھَاوَاغْفِرْلَھَااَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَاعِنْدَکَ فِیْٓ اَعْلیٰ عِلِّیِّیْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ اَھْلِھَافِی الْغٰابِرِیْنَ وَارْحَمْھَابِرَحْمَتِکَ یَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
مسئلہ (۵۹۸)تکبیریں اوردعائیں (تسلسل کے ساتھ) یکے بعددیگرے اس طرح پڑھنی چاہئیں کہ نماز اپنی شکل نہ کھودے۔
مسئلہ (۵۹۹)جوشخص میت کی نماز باجماعت پڑھ رہاہوخواہ وہ مقتدی ہی ہواسے چاہئے کہ اس کی تکبیریں اوردعائیں بھی پڑھے۔
نماز میت کے مستحبات
مسئلہ (۶۰۰)چندچیزیں نمازمیت میں مستحب ہیں :
۱): جوشخص نماز میت پڑھے وہ وضو، غسل یاتیمم کرے اور احتیاط اس میں ہے کہ تیمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرناممکن نہ ہویااسے خدشہ ہوکہ اگروضو یاغسل کرے گاتونماز میں شریک نہ ہوسکے گا۔
۲): اگرمیت مردہوتوامام یاجوشخص اکیلامیت پرنماز پڑھ رہاہومیت کے شکم کے سامنے کھڑا ہواوراگرمیت عورت ہوتواس کے سینے کے سامنے کھڑاہو۔
۳): نمازننگے پاؤں پڑھی جائے۔
۴): ہرتکبیر میں ہاتھوں کوبلندکیاجائے۔
۵): نمازی اورمیت کے درمیان اتناکم فاصلہ ہوکہ اگرہوانمازی کے لباس کوحرکت دے تووہ جنازے کوچھوجائے۔
۶): نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔
۷): امام تکبیریں اور دعائیں بلندآوازسے پڑھے اور مقتدی آہستہ پڑھیں ۔
۸): نماز باجماعت میں مقتدی خواہ ایک شخص ہی کیوں نہ ہوامام کے پیچھے کھڑاہو۔
۹): نمازپڑھنے والامیت اور مومنین کے لئے کثرت سے دعاکرے۔
۱۰): باجماعت نماز سے پہلے تین مرتبہ ’’الصلوٰۃ‘‘کہے۔
۱۱): نماز ایسی جگہ پڑھی جائے جہاں نماز میت کے لئے لوگ زیادہ ترجاتے ہوں ۔
۱۲): اگرحائض نمازمیت جماعت کے ساتھ پڑھے تواکیلی کھڑی ہواورنمازوں کی صف میں نہ کھڑی ہو۔
مسئلہ (۶۰۱)نمازمیت مسجدوں میں پڑھنامکروہ ہے، لیکن مسجدالحرام میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
دفن کے احکام
مسئلہ (۶۰۲)میت کواس طرح زمین میں دفن کرناواجب ہے کہ اس کی بوباہر نہ آئے اوردرندے بھی اس کابدن باہرنہ نکال سکیں اوراگراس بات کاخوف ہوکہ درندے اس کابدن باہرنکال لیں گے توقبرکو اینٹوں وغیرہ سے پختہ کردیناچاہئے۔
مسئلہ (۶۰۳)اگرمیت کوزمین میں دفن کرناممکن نہ ہوتودفن کرنے کے بجائے اسے کمرے یاتابوت میں رکھاجاسکتاہے۔
مسئلہ (۶۰۴)میت کوقبرمیں دائیں پہلو اس طرح لٹاناچاہئے کہ اس کے بدن کا سامنے کاحصہ روبقبلہ ہو۔
مسئلہ (۶۰۵)اگرکوئی شخص کشتی میں مرجائے اوراس کی میت کے خراب ہونے کا امکان نہ ہواوراسے کشتی میں رکھنے میں بھی کوئی امرمانع نہ ہوتولوگوں کوچاہئے کہ انتظار کریں تاکہ خشکی تک پہنچ جائیں اور اسے زمین میں دفن کردیں ورنہ چاہئے کہ اسے کشتی میں ہی غسل دے کرحنوط کریں اورکفن پہنائیں اورنماز میت پڑھنے کے بعد اسے چٹائی میں رکھ کراس کامنہ بندکردیں اور سمندرمیں ڈال دیں یاکوئی بھاری چیزاس کے پاؤں میں باندھ کرسمندرمیں ڈال دیں اورجہاں تک ممکن ہواسے ایسی جگہ نہیں ڈالناچاہئے جہاں جانوراسے فوراًاپنا لقمہ بنالیں ۔
مسئلہ (۶۰۶)اگراس بات کاخوف ہوکہ دشمن قبرکوکھودکرمیت کاجسم باہر نکال لے گااوراس کے کان یاناک یادوسرے اعضاء کاٹ لے گاتواگرممکن ہوتوسابقہ مسئلے میں بیان کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر میں ڈال دیناچاہئے۔
مسئلہ (۶۰۷)اگرمیت کوسمندرمیں ڈالنایااس کی قبرکوپختہ کرناضروری ہوتواس کے اخراجات میت کے اصل مال میں سے لے سکتے ہیں ۔
مسئلہ (۶۰۸)اگرکوئی کافرعورت مرجائے اوراس کے پیٹ میں مراہوابچہ ہو اور اس بچے کاباپ مسلمان ہوتواس عورت کوقبرمیں بائیں پہلو قبلے کی طرف پیٹھ کرکے لٹانا چاہئے تاکہ بچے کامنہ قبلے کی طرف ہواوراگرپیٹ میں موجود بچے کے بدن میں ابھی جان نہ پڑی ہوتب بھی (احتیاط مستحب کی بناپر)یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۶۰۹)مسلمان کوکافروں کے قبرستان میں دفن کرنااورکافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرناجائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۶۱۰)مسلمان کوایسی جگہ جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہومثلاً جہاں کوڑا کرکٹ اورگندگی پھینکی جاتی ہو، دفن کرناجائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۶۱۱)میت کوغصبی زمین میں یاایسی زمین میں جودفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد مثلاً مسجد کے لئے وقف ہواس صورت میں جب وقف کے نقصان دہ یا وقف کےمفادات کی راہ میں رکاوٹ ہو دفن کرنا جائز نہیں ہے اور( احتیاط واجب کی بنا پر) یہی صورت حال اس وقت بھی ہوگی جب وقف کےلئے نقصان دہ اور رکاوٹ نہ بنےدفن کرناجائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۶۱۲)کسی میت کی قبرکھودکرکسی دوسرے مردے کواس قبرمیں دفن کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگرقبرپرانی ہوگئی ہواورپہلی میت کامکمل نشان باقی نہ رہاہوتودفن کر سکتے ہیں ۔
مسئلہ (۶۱۳)جوچیزمیت سے جداہوجائے خواہ وہ اس کے بال، ناخن یا دانت ہی ہوں اسے اس کے ساتھ ہی دفن کردیناچاہئے اوراگرجداہونے والی چیزیں اگرچہ وہ دانت،ناخن یابال ہی کیوں نہ ہوں میت کو دفنانے کے بعدملیں تو(احتیاط لازم کی بناپر ) انہیں کسی دوسری جگہ دفن کردیناچاہئے اور دانت اور ناخن انسان کی زندگی میں ہی اس سے جدا ہو جائیں تو انہیں دفن کرنامستحب ہے۔
مسئلہ (۶۱۴)اگرکوئی شخص کنویں میں مرجائے اوراسے باہرنکالناممکن نہ ہوتو چاہئے کہ کنویں کامنہ بندکردیں اوراس کنویں کوہی اس کی قبرقراردیں ۔
مسئلہ (۶۱۵)اگرکوئی بچہ ماں کے پیٹ میں مرجائے اوراس کاپیٹ میں رہناماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہوتوچاہئے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکالیں ۔ چنانچہ اگراسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پربھی مجبورہوں توایساکرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چاہئے کہ اگراس عورت کاشوہر اہل فن(ماہر) ہوتو بچے کو اس کے ذریعے باہر نکالیں اور اگریہ ممکن نہ ہوتوکسی اہل فن(ماہر) عورت کے ذریعے سے نکالیں اور عورت کسی ایسے شخص سے رجوع کرسکتی ہے جو اس کام کو بہتر انجام دے سکے اور اس کی حالت کےلئے زیادہ مناسب ہو اگر چہ وہ نامحرم ہو۔
مسئلہ (۶۱۶)اگرماں مرجائے اوربچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہواوراگرچہ اس بچے کے زندہ رہنے کی امیدتھوڑے وقت کےلئے ہی صحیح ہوتب بھی ضروری ہے کہ ہر اس جگہ کو چاک کریں جوبچے کی سلامتی کے لئے بہترہے اور بچے کوباہر نکالیں اورپھراس جگہ کوٹانکے لگا دیں اور اگر اس عمل کی بناء پر بچے کے مرجانے کاعلم یا اطمینان ہو تو جائز نہیں ہے۔
دفن کے مستحبات
مسئلہ (۶۱۷)مستحب ہے کہ متعلقہ اشخاص قبرکوایک متوسط انسان کے قدکے لگ بھگ کھودیں اور میت کونزدیک ترین قبرستان میں دفن کریں ماسوااس کے جوقبرستان دور ہو وہ کسی وجہ سے بہترہومثلاً وہاں نیک لوگ دفن کئے گئے ہوں یازیادہ لوگ وہاں فاتحہ پڑھنے جاتے ہوں ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ قبر سے چندگزدورزمین پررکھ دیں اور تین دفعہ کرکے تھوڑا تھوڑاقبرکے نزدیک لے جائیں اورہردفعہ زمین پررکھیں اورپھر اٹھالیں اورچوتھی دفعہ قبرمیں اتاردیں اور اگرمیت مردہوتوتیسری دفعہ زمین پراس طرح رکھیں کہ اس کاسرقبرکی نچلی طرف ہواورچوتھی دفعہ سرکی طرف سے قبرمیں داخل کریں اور اگر میت عورت ہوتوتیسری دفعہ اسے قبرکے قبلے کی طرف رکھیں اور پہلو کی طرف سے قبر میں اتاریں اور قبر میں اتارتے وقت ایک کپڑاقبر کے اوپرتان لیں ۔یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ بڑے آرام کے ساتھ تابوت سے نکالیں اورقبر میں داخل کریں اوروہ دعائیں جنہیں پڑھنے کے لئے کہاگیاہے دفن کرنے سے پہلے اوردفن کرتے وقت پڑھیں اور میت کوقبر میں رکھنے کے بعداس کے کفن کی گرہیں کھول دیں اور اس کا رخسار زمین پر رکھ دیں اور اس کے سرکے نیچے مٹی کاتکیہ بنادیں اور اس کی پیٹھ کے پیچھے کچی اینٹیں یا ڈھیلے رکھ دیں تاکہ میت چت نہ ہوجائے او راس سےپہلےکہ قبر بندکریں دایاں ہاتھ میت کے داہنے کندھے پرماریں اور بایاں ہاتھ زورسے میت کے بائیں کندھے پررکھیں اور منہ اس کے کان کے قریب لے جائیں اور اسے زورسے حرکت دیں اور تین دفعہ کہیں : ’’اِسْمَعْ اِفْھَمْ یَافُلاَنَ ابْنَ فُلَانٍ‘‘۔ اور فلان ابن فلان کی جگہ میت کااور اس کے باپ کا نام لیں ۔ مثلاً اگراس کااپنانام محمد اوراس کے باپ کا نام علی ہوتوتین دفعہ کہیں :’’ اِسْمَعْ اِفْھَمْ یَامحمد بْنَ علی‘‘ اس کے بعدکہیں : ھَلْ اَنْتَ عَلَی الْعَھْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَاعَلَیْہِ مِنْ شَہَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَسَیِّدُالنَّبِیِّیْنَ وَخَاتَمُ الْمُرْسَلِیْنَ وَاَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ وَسَیِّدُ الْوَصِیِّیْنَ وَاِمَامٌ اِفْتَرَضَ اللہُ طَاعَتَہٗ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ وَعَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَبْنَ مُحَمَّدٍ وَّمُوْسَیٰ بْنَ جَعْفَرٍوَّعَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَمُحَمَّدَبْنَ عَلِیٍّ وَّعَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَالحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَائِمَ الْحُجَّۃَ الْمَھْدِیَّ صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْھِمْ اَئِمَّۃُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَحُجَجُ اللہِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِیْنَ وَاَئِمَّتُکَ اَئِمَّۃُ ھُدًی بِکَ اَبْرَارٌ یَافُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ، اورفلان ابن فلان کے بجائے میت کااوراس کے باپ کانام لے اورپھرکہے :’’ اِذَااَتَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَیْنِ مِنْ عِنْدِاللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ وَسَاَلَاکَ عَنْ رَّبِّکَ وَعَنْ نَّبِیِّکَ وَعَنْ دِیْنِکَ وَعَنْ کِتَابِکَ وَعَنْ قِبْلَتِکَ وَعَنْ اَئِمَّتِکَ فَلَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ وَقُلْ فِیْ جَوَابِھِمَااَللہُ رَبِّیْ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمْ نَبِیٍّ وَالْاِسْلَامُ دِیْنِیْ وَالْقُرْاٰنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَۃُ قِبْلَتِیْ وَاَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِمَامِیْ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ الْمُجْتَبٰی اِمَامِیْ وَالْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیِّ الشَّھِیْدُ بِکَرْبَلَاءِ اِمَامِیْ وَعَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ وَمُحَمَّدُالْبَاقِرُ اِمَامِیْ وَجْعْفَرْ الصَّادِقُ اِمَامِیْ وَمُوْسَیٰ الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَعَلِیُّ الرِّضَا اِمَامِیْ وَمُحَمَّدُ الْجَوَادُ اِمَامِیْ وَعَلِیُّ الْھَادِیْ اِمَامِیْ وَالْحَسَنُ الْعَسْکَرِیُّ اِمَامِیْ وَالْحُجَّۃُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ ھٰٓؤُلَاءِ صَلَوَاتُ اللہُ عَلَیْھِمْ اَئِمَّتِیْ وَسَادَتِیْ وَقَادَتِیْ وَ شُفَعَائِی بِھِمْ اَتَوَلّٰی وَمِنْ اَعْدَائِھِمْ اَتَبَرَّاُ فِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃِ ثُمَّ اعْلَمْ یَافُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ اور فلان ابن فلان کے بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اورپھرکہے :’’ اَنَّ اللہَ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّداًصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَاَوْلَادَہُ الْمَعْصُوْمِیْنَ الْاَئِمَّۃَ الْاِثْنَیْ عَشَرَنِعْمَ الْاَئِمَّۃُ وَاَنَّ مَاجَآءَ بِہٖ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ حَقٌّ وَّاَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّ سُؤَالَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیْرٍ فِی الْقَبْرِحَقٌّ وَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَّالنُّشُوْرَ حَقٌّ وَّالصِّرَاطَ حَقٌّ وَّالْمِیْزَانَ حَقٌّ وَّتَطَایُرَالْکُتُبِ حَقٌّ وَّاَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَّالنَّارَحَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃُ لَّا رَیْبَ فِیھَاوَاَنَّ اللہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ‘‘۔ پھرکہے ،’’اَفَھِمْتَ یَافُلَانُ‘‘ اورفلان کے بجائے میت کانام لے اور اس کے بعد کہے : ’’ثَبَّتَکَ اللہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَ ھَدَاکَ اللہُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ عَرَّفَ اللہُ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اَوْلِیَآئِکَ فِیْ مُسْتَقَرٍّمِّنْ رَّحْمَتِہٖ‘‘۔ اس کے بعد کہے: ’’اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَاَصْعِدْ بِرُوْحِہٖ اِلَیْکَ وَلَقِّہٖ مِنْکَ بُرْھَانًا اَللّٰھُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَکَ‘‘۔
مسئلہ (۶۱۸)مستحب ہے کہ جوشخص میت کوقبر میں اتارے وہ باطہارت، برہنہ سر اور برہنہ پاہواورمیت کی پائینتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلے اورمیت کے عزیزو اقربا کے علاوہ جو لوگ موجودہوں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پرمٹی ڈالیں اور’’اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘پڑھیں ۔اگرمیت عورت ہوتواس کامحرم اسے قبر میں اتارے اوراگرمحرم نہ ہو تو اس کے عزیز واقربا اسے قبرمیں اتاریں ۔
مسئلہ (۶۱۹)مستحب ہے کہ قبر مربع بنائی جائے اورزمین سے تقریباً چار انگل بلندہواور اس پر کوئی (کتبہ یا) نشانی لگادی جائے تاکہ پہچاننے میں غلطی نہ ہو اور قبر پرپانی چھڑکاجائے اورپانی چھڑکنے کے بعدجولوگ موجودہوں وہ اپنی انگلیاں قبر کی مٹی میں گاڑکرسات دفعہ سورۂ قدرپڑھیں اورمیت کے لئے مغفرت طلب کریں اور یہ دعاپڑھیں :
’’ اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَاَصْعِدْ اِلَیْکَ رُوْحَہٗ وَلَقِّہٖ مِنْکَ رِضْوَاناً وَّاَسْکِنْ قَبْرَہٗ مِنْ رَّحْمَتِکَ مَاتُغْنِیْہِ بِہٖ عَنْ رَّحْمَۃِ مَنْ سِوَاکَ‘‘۔
مسئلہ (۶۲۰)مستحب ہے کہ جولوگ جنازے میں شرکت کے لئے آئے ہوں ان کے چلے جانے کے بعدمیت کاولی یاوہ شخص جسے ولی اجازت دے میت کو ان دعاؤں کی تلقین کرے جوبتائی گئی ہیں ۔
مسئلہ (۶۲۱)دفن کے بعدمستحب ہے کہ میت کے پسماندگان کوپرسادیا جائے، لیکن اگراتنی مدت گزرچکی ہوکہ پرسادینے سے ان کادکھ تازہ ہوجائے توپرسانہ دینا بہتر ہے۔ یہ بھی مستحب ہے کہ میت کے اہل خانہ کے لئے تین دن تک کھانابھیجاجائے۔ ان کے پاس بیٹھ کراوران کے گھرمیں کھاناکھانامکروہ ہے۔
مسئلہ (۶۲۲)مستحب ہے کہ انسان عزیزواقرباکی موت پرخصوصاً بیٹے کی موت پر صبر کرے اور جب بھی میت کی یادآئے پڑھے’’ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ اور میت کے لئے قرآن خوانی کرے اورماں باپ کی قبروں پر جاکر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں طلب کرے اورقبر کوپختہ کردے تاکہ جلدی ٹوٹ پھوٹ نہ جائے۔
مسئلہ (۶۲۳)کسی کی موت پربھی انسان کے لئے احتیاط کی بناپر جائزنہیں کہ اپنا چہرہ اوربدن زخمی کرے اوراپنے بال نوچے لیکن سراورچہرے کاپیٹنا جائزہے۔
مسئلہ (۶۲۴)باپ اوربھائی کے علاوہ کسی کی موت پرگریبان چاک کرنا(احتیاط کی بناپر)جائز نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ باپ اوربھائی کی موت پربھی گریبان چاک نہ کیاجائے۔
مسئلہ (۶۲۵)اگرعورت میت کے سوگ میں اپناچہرہ زخمی کرکے خون آلود کرلے یااپنا بال نوچے تو احتیاط مستحب کی بناپروہ ایک غلام کوآزاد کرے یا دس فقیروں کوکھاناکھلائے یا انہیں کپڑے پہنائے اوراگرمرداپنی بیوی یافرزند کی موت پر اپناگریبان یالباس پھاڑے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۶۲۶)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت پرروتے وقت آواز بہت بلندنہ کی جائے۔
نمازوحشت
مسئلہ (۶۲۷)مناسب ہے کہ میت کے دفن کے بعدپہلی رات کواس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے اوراس کے پڑھنے کاطریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ الحمد کے بعدایک دفعہ آیۃ الکرسی اوردوسری رکعت میں سورۂ الحمد کے بعددس دفعہ سورۂ قدر پڑھاجائے اور نمازکے سلام کے بعدکہاجائے :’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّابْعَثْ ثَوَابَھَااِلَی قَبْرِ فُلَانٍ‘‘۔اورلفظ فلاں کے بجائے میت کانام لیاجائے۔
مسئلہ (۶۲۸)نماز وحشت میت کے دفن کے بعدپہلی رات کو کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے لیکن بہتریہ ہے کہ اول شب میں نماز عشاکے بعدپڑھی جائے۔
مسئلہ (۶۲۹)اگرمیت کوکسی دورکے شہرمیں لے جانامقصودہویاکسی اوروجہ سے اس کے دفن میں تاخیرہوجائے تونماز وحشت کواس کے سابقہ طریقے کے مطابق دفن کی پہلی رات تک ملتوی کردیناچاہئے۔
نبش قبر
مسئلہ (۶۳۰)کسی مسلمان کانبش قبریعنی اس کی قبرکاکھولناخواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کیوں نہ ہوحرام ہے۔ہاں اگراس کابدن مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوچکاہوتوپھرکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۶۳۱)امام زادوں ،شہیدوں ،عالموں کی قبروں کواجاڑنا خواہ انہیں فوت ہوئے کئی سال گزرچکے ہوں اوران کے بدن خاک ہوگئے ہوں ، اگر ان کی بے حرمتی شمار ہوتی ہوتوحرام ہے۔
مسئلہ (۶۳۲)چندصورتیں ایسی ہیں جن میں قبرکاکھولناحرام نہیں :
۱): جب میت کوغصبی زمین میں دفن کیاگیاہواورزمین کامالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو۔اور نبش قبر بھی کسی قسم کی دشواری کا سبب نہ ہو ورنہ لازم نہیں ہے سواء یہ کہ خود غاصب ہو اور اگر نبش قبر میں بہت بڑی پریشانی ہوتو لازم نہیں ہےبلکہ جائز نہیں ہے جیسے یہ کہ نبش قبر سے میت کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا سبب بنے بلکہ اگر بے احترامی کا سبب ہوتو (احتیاط واجب کی بنا پر) جائز نہیں ہے مگر یہ کہ میت نے خود زمین کو غصب کیا ہو۔
۲): جب کفن یاکوئی اورچیزجومیت کے ساتھ دفن کی گئی ہوغصبی ہواور اس کامالک اس بات پررضامندنہ ہوکہ وہ قبرمیں رہے اوراگرخودمیت کے مال میں سے کوئی چیزجو اس کے وارثوں کوملی ہواس کے ساتھ دفن ہوگئی ہواوراس کے وارث اس بات پر راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبرمیں رہے تواس کی بھی یہی صورت ہے،البتہ اگرمرنے والے نے وصیت کی ہوکہ دعایاقرآن مجیدیاانگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اوراس کی وصیت نافذ ہوتوان چیزوں کونکالنے کے لئے قبرکونہیں کھولاجاسکتا۔اور اس مقام میں وہ مستثنیٰ چیزیں جو پہلے بیان کی گئی ہیں ان کا حکم جاری ہے۔
۳): جب قبرکاکھولنامیت کی بے حرمتی کاموجب نہ ہواورمیت کوبغیر غسل دیئے یا بغیرکفن پہنائے یا بغیر حنوط کے دفن کیاگیاہویاپتا چلے کہ میت کاغسل باطل تھایااسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہیں دیاگیاتھایاحنوط نہیں کیا گیا تھایاقبر میں قبلے کے رخ پرنہیں لٹایاگیاتھا۔
۴): جب کوئی ایساحق ثابت کرنے کے لئے جو نبش قبرسے اہم یا اس کے مساوی ہو میت کا بدن دیکھنا ضروری ہو۔
۵): جب میت کو ایسی جگہ دفن کیاگیاہوجہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو، مثلاً اسے کافروں کے قبرستان میں یا اس جگہ دفن کیاگیاہو جہاں غلاظت اورکوڑاکرکٹ پھینکا جاتا ہو۔
۶): جب کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبرکھولی جائے جس کی اہمیت قبرکھولنے سے زیادہ ہو مثلاً کسی زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پیٹ سے نکالنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گیاہو۔
۷): جب یہ خوف ہوکہ درندہ میت کوچیر پھاڑ ڈالے گایاسیلاب اسے بہالے جائے گا یا دشمن اسے نکال لے گا۔
۸): میت نے وصیت کی ہوکہ اسے دفن کرنے سے پہلے مقدس مقامات کی طرف منتقل کیاجائے اور چنانچہ لے جاتے وقت اس میں کوئی دشواری نہ ہو لیکن جان بوجھ کر یا بھولے سےیا حکم سے جاہل ہونے کی بناء پر کسی دوسری جگہ دفنادیاگیاہوتوبے حرمتی نہ ہونے کی صورت میں قبر کھول کر اسے مقدس مقامات کی طرف لے جاسکتے ہیں بلکہ اس صورت میں نبش قبر کرنا اور منتقل کرنا واجب ہے۔