فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل
تلاش کریں:
غسل مس میت ←
→ واجب غسل
اِستِحاضَہ
عورتوں کوجوخون آتے رہتے ہیں ان میں سے ایک خون استحاضہ ہے اورایسی عورت کوخون استحاضہ آنے کے وقت’’ مستحاضہ‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۳۹۰)خون استحاضہ زیادہ ترزرد رنگ کااورٹھنڈاہوتاہے اور فشار اور جلن کے بغیر خارج ہوتاہے اورگاڑھابھی نہیں ہوتالیکن ممکن ہے کہ کبھی سیاہ یاسرخ اورگرم اور گاڑھاہواورفشار اور سوزش کے ساتھ خارج ہو۔
مسئلہ (۳۹۱)استحاضہ تین قسم کاہوتاہے: قلیلہ، متوسطہ اور کثیرہ۔
استحاضۂ قلیلہ: یہ ہے کہ خون صرف اس روئی کے اوپروالے حصہ کوآلودہ کرے جو عورت اپنی شرم گاہ میں رکھے اوراس روئی کے اندرتک سرایت نہ کرے۔
استحاضۂ متوسطہ: یہ ہے کہ خون روئی کے اندرتک چلاجائے اگرچہ اس کے ایک کونے تک ہی ہو، لیکن روئی سے اس کپڑے تک نہ پہنچے جو عورتیں عموماً خون روکنے کے لئے باندھتی ہیں ۔
استحاضۂ کثیرہ: یہ ہے کہ خون روئی سے تجاوز کرکے کپڑے تک پہنچ جائے۔
استحاضہ کے احکام
مسئلہ (۳۹۲)استحاضۂ قلیلہ میں ہرنماز کے لئے علیٰحدہ وضوکرناضروری ہے اور( احتیاط مستحب کی بناپر)روئی کودھولے یااسے تبدیل کردے اور اگرشرم گاہ کے ظاہری حصے پر خون ہوتواسے بھی دھوناضروری ہے۔
مسئلہ (۳۹۳)استحاضۂ متوسطہ میں ( احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ عورت اپنی نمازوں کے لئے روزانہ ایک غسل کرے اوریہ بھی ضروری ہے استحاضۂ قلیلہ کے وہ افعال سرانجام دے جوسابقہ مسئلہ میں بیان ہوچکے ہیں چنانچہ اگرصبح کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران عورت کواستحاضہ آجائے تو صبح کی نماز کے لئے غسل کرناضروری ہے۔ اگر جان بوجھ کریابھول کرصبح کی نماز کے لئے غسل نہ کرے توظہراورعصر کی نماز کے لئے غسل کرناضروری ہے اوراگرنماز ظہراورعصرکے لئے غسل نہ کرے تونماز مغرب وعشاء سے پہلے غسل کرناضروری ہے خواہ خون آرہاہویابندہوچکاہو۔
مسئلہ (۳۹۴)استحاضۂ کثیرہ میں ( احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ عورت ہر نماز کے لئے روئی اور کپڑے کاٹکڑاتبدیل کرے یا اسے دھوئے اورایک غسل فجرکی نماز کے لئے اور ایک غسل ظہروعصر کی اور ایک غسل مغرب وعشاء کی نماز کے لئے کرنا ضروری ہے اور ظہر اورعصر کی اور مغرب و عشاء کی نمازوں کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اور اگرفاصلہ رکھے توعصر اور عشاءکی نماز کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے۔ یہ مذکورہ احکام اس صورت میں ہیں اگرخون باربار روئی سے کپڑے پرپہنچ جائے۔ اگرروئی سے کپڑے تک خون پہنچنے میں اتنافاصلہ ہوجائے کہ عورت اس فاصلہ کے اندرایک نمازیاایک سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہوتواحتیاط لازم یہ ہے کہ جب خون روئی سے کپڑے تک پہنچ جائے تو روئی اور کپڑے کو تبدیل کرلے یادھولے اور غسل کرلے۔ اسی بناپراگرعورت غسل کرے اور مثلاً ظہر کی نماز پڑھے لیکن عصرکی نماز سے پہلے یانماز کے دوران دوبارہ خون روئی سے کپڑے پر پہنچ جائے توعصر کی نماز کے لئے بھی غسل کرناضروری ہے۔ لیکن اگر فاصلہ اتناہو کہ عورت اس دوران دویادوسے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو، مثلاً مغرب اورعشاء کی نماز خون کے دوبارہ کپڑے پرپہنچنے سے پہلے پڑھ سکتی ہوتولازم نہیں ہے کہ ان نمازوں کے لئے دوبارہ غسل کرے۔ ان تمام صورتوں میں یہ ہے کہ استحاضۂ کثیرہ میں غسل کرنا وضوکے لئے بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۳۹۵)اگرخون استحاضہ نمازکے وقت سے پہلے بھی آئے اور عورت نے اس خون کے لئے وضو یاغسل نہ کیاہوتونماز کے وقت وضو یاغسل کرناضروری ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔
مسئلہ (۳۹۶)مستحاضۂ متوسطہ جس کے لئے وضو اور غسل کرناضروری ہے( احتیاط لازم کی بناپر)اسے چاہئے کہ پہلے غسل کرے اوربعدمیں وضوکرے، لیکن مستحاضۂ کثیرہ میں اگروضوکرناچاہے توضروری ہے کہ وضو غسل سے پہلے کرے۔
مسئلہ (۳۹۷)اگرعورت کااستحاضۂ قلیلہ صبح کی نماز کے بعدمتوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لئے غسل کرے اور اگرظہر اور عصر کی نماز کے بعد متوسطہ ہو تومغرب اور عشاء کی نمازکے لئے غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۳۹۸)اگرعورت کااستحاضہ قلیلہ یامتوسطہ صبح کی نماز کے بعدکثیرہ ہوجائے اوروہ عورت اسی حالت پرباقی رہے تومسئلہ ( ۳۹۴ )میں جواحکام گزرچکے ہیں نماز ظہرو عصر اور مغرب وعشاء پڑھنے کے لئے ان پرعمل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۳۹۹) مستحاضۂ کثیرہ کی جس صورت میں نماز اور غسل کے درمیان ضروری ہے کہ فاصلہ نہ ہوجیساکہ مسئلہ (۳۹۴ )میں گزرچکاہے اگرنماز کاوقت داخل ہونے سے پہلے غسل کرنے کی وجہ سے نماز اور غسل میں فاصلہ ہوجائے تواس غسل کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہے اور مستحاضہ نماز کے لئے دوبارہ غسل کرے اور یہی حکم مستحاضۂ متوسطہ کے لئے بھی ہے۔
مسئلہ (۴۰۰)ضروری ہے کہ مستحاضۂ قلیلہ ومتوسطہ میں عورت( روزانہ کی نمازوں کے علاوہ جن کے بارے میں حکم اوپربیان ہوچکاہے) ہرنماز کے لئے خواہ وہ واجب ہویامستحب وضو کرے، لیکن اگروہ چاہے کہ روزانہ کی وہ نمازیں جووہ پڑھ چکی ہواحتیاطاً دوبارہ پڑھے یاجونمازاس نے تنہاپڑھی ہے دوبارہ باجماعت پڑھے تو ضروری ہے کہ وہ تمام افعال بجالائے جن کاذکراستحاضہ کے سلسلے میں کیاگیاہے،البتہ اگروہ نمازاحتیاط، بھولے ہوئے سجدے اوربھولے ہوئے تشہدکو( نماز کے فوراً بعدپڑھے) اور اسی طرح سجدئہ سہوکسی بھی صورت میں کرے تواس کے لئے استحاضہ کے افعال کا انجام دینا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۰۱)اگرکسی مستحاضہ عورت کاخون رک جائے تواس کے بعدجوپہلی نماز پڑھے صرف اس کے لئے استحاضہ کے افعال انجام دیناضروری ہے۔ لیکن بعدکی نمازوں کے لئے ایساکرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۴۰۲)اگرکسی عورت کویہ معلوم نہ ہو کہ اس کااستحاضہ کون ساہے توجب نماز پڑھناچاہے توبطور احتیاط ضروری ہے کہ تحقیق کرنے کے لئے پہلے تھوڑی سی روئی شرم گاہ میں رکھے اور کچھ دیرانتظار کرے اورپھرروئی نکال لے اور جب اسے پتا چل جائے کہ اس کا استحاضہ تین اقسام میں سے کون سی قسم کاہے تواس قسم کے استحاضہ کے لئے جن افعال کاحکم دیاگیاہے انہیں انجام دے۔ لیکن اگروہ جانتی ہو کہ جس وقت تک وہ نماز پڑھنا چاہتی ہے اس کااستخاضہ تبدیل نہیں ہوگاتونماز کاوقت داخل ہونے سے پہلے بھی وہ اپنے بارے میں تحقیق کرسکتی ہے۔
مسئلہ (۴۰۳)اگرمستحاضہ عورت اپنے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے نماز میں مشغول ہو جائے تواگروہ قربت کاقصدرکھتی ہواوراس نے اپنے وظیفے کے مطابق عمل کیاہو مثلاً اس کا استحاضۂ قلیلہ ہواوراس نے استحاضۂ قلیلہ کے مطابق عمل کیاہوتواس کی نماز صحیح ہے، لیکن اگروہ قربت کا قصدنہ رکھتی ہویا اس کاعمل اس کے وظیفہ کے مطابق نہ ہومثلاً اس کا استحاضہ متوسطہ ہواور اس نے عمل استحاضۂ قلیلہ کے مطابق کیاہوتواس کی نماز باطل ہے۔
مسئلہ (۴۰۴)اگرمستحاضہ عورت اپنے بارے میں تحقیق نہ کرسکے توضروری ہے کہ جواس کا یقینی وظیفہ ہواس کے مطابق عمل کرے مثلاً اگروہ یہ نہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضۂ قلیلہ ہے یا متوسطہ توضروری ہے کہ استحاضۂ قلیلہ کے افعال انجام دے اوراگروہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کااستحاضہ متوسطہ ہے یاکثیرہ توضروری ہے کہ استحاضۂ متوسطہ کے افعال انجام دے، لیکن اگروہ جانتی ہوکہ اس سے پیشتراسے ان تین اقسام میں سے کون سی قسم کا استحاضہ تھاتوضروری ہے کہ اسی قسم کے استحاضہ کے مطابق اپناوظیفہ انجام دے۔
مسئلہ (۴۰۵)اگراستحاضہ کاخون اپنے ابتدائی مرحلے پرجسم کے اندرہی ہواورباہر نہ نکلے توعورت نے جو وضویاغسل کیاہواسے باطل نہیں کرتا، لیکن اگرباہر آجائے تو خواہ کتناہی کم کیوں نہ ہووضواورغسل کوباطل کردیتاہے۔
مسئلہ (۴۰۶)مستحاضہ عورت اگرنماز کے بعداپنے بارے میں تحقیق کرے اور خون نہ دیکھے تواگرچہ اسے علم ہو کہ دوبارہ خون آئے گاجووضووہ کئے ہوئے ہے اسی سے نماز پڑھ سکتی ہے۔
مسئلہ (۴۰۷) مستحاضہ عورت اگریہ جانتی ہوکہ جس وقت سے وہ وضو یاغسل میں مشغول ہوئی ہے خون اس کے بدن سے باہر نہیں آیااورنہ ہی شرم گاہ کے اندرہے توجب تک اسے پاک رہنے کایقین ہونماز پڑھنے میں تاخیرکرسکتی ہے۔
مسئلہ (۴۰۸)اگرمستحاضہ کویقین ہوکہ نمازکاوقت گزرنے سے پہلے پوری طرح پاک ہوجائے گی یااندازاً جتناوقت نماز پڑھنے میں لگتاہے اس میں خون آنابندہوجائے گا تو (احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ انتظارکرے اوراس وقت نماز پڑھے جب پاک ہو۔
مسئلہ (۴۰۹)اگروضواورغسل کے بعدخون آنابظاہربندہوجائے اورمستحاضہ کو معلوم ہوکہ اگرنماز پڑھنے میں تاخیرکرے توجتنی دیرمیں وضو، غسل اورنمازبجالائے گی بالکل پاک ہوجائے گی تو(احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ نماز کوموخرکردے اورجب بالکل پاک ہوجائے تودوبارہ وضواورغسل کرکے نماز پڑھے اوراگرخون کے بظاہر بند ہونے کے وقت نماز کاوقت تنگ ہوتووضواورغسل دوبارہ کرناضروری نہیں بلکہ جووضو اور غسل اس نے کیا ہوا ہے انہی کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔
مسئلہ (۴۱۰)مستحاضۂ کثیرہ جب خون سے بالکل پاک ہوجائے اگراسے معلوم ہو کہ جس وقت سے اس نے گذشتہ نماز کے لئے غسل کیاتھااس وقت تک خون نہیں آیا تو دوبارہ غسل کرناضروری نہیں ہے بصورت دیگرغسل کرناضروری ہے۔(اگرچہ اس حکم کا بطور کلی ہونااحتیاط کی بناپرہے) اور مستحاضۂ متوسطہ میں ضروری نہیں ہے کہ خون سے بالکل پاک ہوجائے پھرغسل کرے۔
مسئلہ (۴۱۱)مستحاضۂ قلیلہ کووضوکے بعداورمستحاضۂ متوسطہ کوغسل اوروضو کے بعد اور مستحاضۂ کثیرہ کو غسل کے بعدان دوصورتوں کے علاوہ جومسئلہ ( ۳۹۴ )اور (۴۰۷)میں آیا ہے فوراً نماز میں مشغول ہوناضروری ہے۔لیکن نماز سے پہلے اذان اوراقامت کہنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ نمازمیں مستحب کام مثلاً قنوت وغیرہ پڑھ سکتی ہے۔
مسئلہ (۴۱۲)اگرمستحاضہ جس کاوظیفہ یہ ہوکہ وضویاغسل اورنمازکے درمیان فاصلہ نہ رکھے اگر اس نے اپنے وظیفہ کے مطابق عمل نہ کیاہوتوضروری ہے کہ وضو یاغسل کرنے کے بعدفوراً نمازمیں مشغول ہوجائے۔
مسئلہ (۴۱۳)اگرعورت کاخون استحاضہ جاری رہے اور بند نہ ہوتا ہو اور خون کا روکنا اس کے لئے مضرنہ ہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ غسل کے پہلےخون کو باہر آنے سے روکے اور اگرایسا کرنے میں کوتاہی برتے اور خون نکل آئے تو جونماز پڑھ لی ہواسے دوبارہ پڑھے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
مسئلہ (۴۱۴)اگرغسل کرتے وقت خون نہ رکے توغسل صحیح ہے، لیکن اگر غسل کے دوران استحاضۂ متوسطہ استحاضۂ کثیرہ ہوجائے توازسرنوغسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۱۵)احتیاط مستحب یہ ہے کہ مستحاضہ روزے سے ہوتوسارادن جہاں تک ممکن ہوخون کونکلنے سے روکے۔
مسئلہ (۴۱۶)مشہور قول کی بناپرمستحاضۂ کثیرہ کاروزہ اس صورت میں صحیح ہوگا کہ جس رات کے بعدکے دن وہ روزہ رکھناچاہتی ہواس رات کی مغرب اور عشاء کی نماز کا غسل کرے۔اس کےعلاوہ دن کے وقت وہ غسل انجام دے جودن کی نمازوں کے لئے واجب ہیں ، لیکن کچھ بعیدنہیں کہ اس کے روزے کی صحت کاانحصار غسل پرنہ ہو۔ اسی طرح (بنابراقویٰ) مستحاضہ متوسطہ میں یہ غسل شرط نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۱۷)اگرعورت عصرکی نمازکے بعدمستحاضہ ہوجائے اورغروب آفتاب تک غسل نہ کرے تواس کاروزہ بلااشکال صحیح ہے۔
مسئلہ (۴۱۸)اگرکسی عورت کااستحاضۂ قلیلہ نمازسے پہلے متوسطہ یاکثیرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ متوسطہ یاکثیرہ کے افعال جن کااوپرذکرہوچکاہے انجام دے اور اگر استحاضۂ متوسطہ کثیرہ ہوجائے توچاہئے کہ استحاضۂ کثیرہ کے افعال انجام دے۔ چنانچہ اگر وہ استحاضۂ متوسطہ کے لئے غسل کرچکی ہوتواس کایہ غسل بے فائدہ ہوگااوراسے استحاضۂ کثیرہ کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۱۹)اگرنماز کے دوران کسی عورت کااستحاضۂ متوسطہ کثیرہ میں بدل جائے تو ضروری ہے کہ نماز توڑدے اوراستحاضۂ کثیرہ کے لئے غسل کرے اوراس کے دوسرے افعال انجام دے اورپھراسی نمازکو پڑھے اور(احتیاط مستحب کی بناپر)غسل سے پہلے وضو کرے اوراگراس کے پاس غسل کے لئے وقت نہ ہوتو غسل کے بدلے تیمم کرناضروری ہے اوراگرتیمم کے لئے بھی وقت نہ ہوتو (احتیاط کی بناپر)نمازنہ توڑے اور اسی حالت میں ختم کرے، لیکن ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعداس نماز کی قضاکرے اور اسی طرح اگر نماز کے دوران اس کااستحاضۂ قلیلہ استحاضۂ متوسطہ یاکثیرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نماز کوتوڑدے اور استحاضۂ متوسطہ یاکثیرہ کے افعال انجام دے۔
مسئلہ (۴۲۰)اگرنمازکے دوران خون بندہوجائے اورمستحاضہ کومعلوم نہ ہوکہ باطن میں بھی خون بندہواہے یانہیں یا نہ جانتی ہو کہ پاکیزگی اتنی مقدار میں ہے کہ طہارت حاصل کرکے نماز یا نماز کاحصہ انجام دےپائے گی یانہیں تو( احتیاط واجب کی بناء پر ) اپنے وظیفہ کے مطابق وضو یا غسل کرے اور نماز کو دوبارہ بجالائے۔
مسئلہ (۴۲۱)اگرکسی عورت کااستحاضۂ کثیرہ متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ پہلی نماز کے لئے کثیرہ کاعمل اوربعدکی نمازوں کے لئے متوسطہ کاعمل بجالائے مثلاً اگرظہر کی نماز سے پہلے استحاضۂ کثیرہ متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ ظہرکی نماز کے لئے غسل کرے اورنماز عصر ومغرب وعشاء کے لئے صرف وضو کرے لیکن اگرنماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عصر کے لئے وقت باقی ہوتو ضروری ہے کہ نماز عصر کے لئے غسل کرے اوراگرنماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے توضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگراس کے لئے بھی غسل نہ کرے اوراس کے پاس صرف نماز عشاء کے لئے وقت ہوتونماز عشاء کے لئے غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۲۲)اگرہرنمازسے پہلے مستحاضۂ کثیرہ کاخون بندہوجائے اور دوبارہ آجائے توہرنماز کے لئے غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۲۳) اگراستحاضۂ کثیرہ قلیلہ ہوجائے توضروری ہے کہ وہ عورت پہلی نماز کے لئے کثیرہ والے اور بعدکی نمازوں کے لئے قلیلہ والے افعال بجالائے اور اگراستحاضۂ متوسطہ، قلیلہ ہوجائے تو اگر پہلے متوسطہ کا عمل انجام نہ دیا تو پہلی نمازکےلئے متوسطہ کا عمل انجام دے۔
مسئلہ (۴۲۴) مستحاضہ کے لئے جوافعال واجب ہیں اگروہ ان میں سے کسی ایک کوبھی ترک کردے تو اس کی نماز باطل ہے۔
مسئلہ (۴۲۵) مستحاضۂ قلیلہ یامتوسطہ اگرنماز کے علاوہ وہ کام انجام دیناچاہتی ہو جس کے لئے وضو کاہوناشرط ہے مثلاً اپنے بدن کاکوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرنا چاہتی ہوتونماز اداکرنے کے بعد(احتیاط واجب کی بنا پر)وضوکرناضروری ہے اوروہ وضوجونماز کے لئے کیا تھاکافی نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۲۶)جس مستحاضہ نے اپنے واجب غسل کرلئے ہوں اس کامسجد میں جانا اور وہاں ٹھہرنااوروہ آیات پڑھناجن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہوجاتاہے اوراس کے شوہر کااس کے ساتھ مجامعت کرناحلال ہے۔ خواہ اس نے وہ افعال جووہ نماز کے لئے انجام دیتی تھی مثلاً روئی اورکپڑے کے ٹکڑے کوتبدیل نہ کیا ہو بلکہ یہ افعال بغیر غسل بھی جائزہیں ۔
مسئلہ (۴۲۷)جوعورت استحاضۂ کثیرہ یامتوسطہ میں ہواگروہ چاہے کہ نماز کے وقت سے پہلے اس آیت کوپڑھے جس کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہوجاتاہے یامسجد میں جائے تو(احتیاط مستحب کی بناپر) ضروری ہے کہ غسل کرے اور اگراس کاشوہر اس سے مجامعت کرناچاہے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۴۲۸)مستحاضہ پرنماز آیات کاپڑھناواجب ہے نماز آیات اداکرنے کے لئے یومیہ نمازوں کے لئے بیان کئے گئے تمام اعمال انجام دیناضروری ہیں ۔
مسئلہ (۴۲۹) جب بھی یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیات مستحاضہ پرواجب ہو جائے اوروہ چاہے کہ ان دونوں نمازوں کویکے بعددیگرے اداکرے تب بھی (احتیاط لازم کی بناپر)وہ ان دونوں کوایک وضواورغسل سے نہیں پڑھ سکتی۔
مسئلہ (۴۳۰) اگرمستحاضہ عورت قضانمازپڑھناچاہے توضروری ہے کہ نماز کے لئے وہ افعال انجام دے جو ادا نماز کے لئے اس پر واجب ہیں اور احتیاط کی بناپر قضا نماز کے لئے ان افعال پراکتفانہیں کرسکتی جو اس نے ادانماز کے لئے انجام دیئے ہوں ۔
مسئلہ (۴۳۱)اگرکوئی عورت جانتی ہوکہ جوخون اسے آرہاہے وہ زخم کاخون نہیں ہے، لیکن اس خون کے استحاضہ، حیض یانفاس ہونے کے بارے میں شک کرے اور شرعاً وہ خون حیض ونفاس کاحکم بھی نہ رکھتاہوتوضروری ہے کہ استحاضہ والے احکام کے مطابق عمل کرے۔ بلکہ اگراسے شک ہوکہ یہ خون استحاضہ ہے یاکوئی دوسرااوروہ دوسرے خون کی علامات بھی نہ رکھتاہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)استحاضہ کے افعال انجام دیناضروری ہیں ۔
حیض
حیض وہ خون ہے جوعموماً ہرمہینے چنددنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتاہے اور عورت کو جب حیض کاخون آئے تواسے’’ حائض‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۴۳۲) حیض کاخون عموماً گاڑھااورگرم ہوتاہے اوراس کارنگ سیاہ یاسرخ ہوتا ہے۔ وہ اچھل کراورتھوڑی سی جلن کے ساتھ خارج ہوتاہے۔
مسئلہ (۴۳۳)وہ خون جوعورتوں کوساٹھ برس پورے کرنے کے بعدآتاہے حیض کا حکم نہیں رکھتا۔ لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ عورتیں جو غیر قریشی (غیر سیدہ) ہیں وہ پچاس سے ساٹھ سال عمر کے دوران خون اس طرح دیکھیں کہ اگر وہ پچاس سال سے پہلے خون دیکھتیں تو وہ خون یقیناً حیض کا حکم رکھتا تو وہ مستحاضہ والے افعال بجالائیں ۔
مسئلہ (۴۳۴)اگرکسی لڑکی کونوسال کی عمرتک پہنچنے سے پہلے خون آئے تووہ حیض نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۳۵)حاملہ اوربچے کودودھ پلانے والی عورت کوبھی حیض آناممکن ہے اور حاملہ اور غیر حاملہ کا حکم ایک ہی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بیس روزبعد بھی اگرحیض کی علامتوں کے ساتھ خون دیکھے تواس کے لئے (احتیاط کی بناپر)ضروری ہے کہ وہ ان کاموں کوترک کردے جنہیں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔
مسئلہ (۴۳۶) اگرکسی ایسی لڑکی کوخون آئے جسے اپنی عمر کے نوسال پورے ہونے کا علم نہ ہواوراس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں تووہ حیض نہیں ہے اوراگراس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اس پر حیض کاحکم لگانامحل اشکال ہے مگریہ کہ اطمینان ہوجائے کہ یہ حیض ہے اور اس صورت میں یہ معلوم ہوجائے گاکہ اس کی عمرپورے نوسال ہوگئی ہے۔
مسئلہ (۴۳۷)جس عورت کوشک ہوکہ اس کی عمر ساٹھ سال ہوگئی ہے یانہیں اگر وہ خون دیکھے اوریہ نہ جانتی ہوکہ یہ حیض ہے یانہیں تواسے سمجھناچاہئے کہ اس کی عمرساٹھ سال نہیں ہوئی ہے۔
مسئلہ (۴۳۸)حیض کی مدت تین دن سے کم اوردس دن سے زیادہ نہیں ہوتی اور اگرخون آنے کی مدت تین دن سے بھی کم ہوتووہ حیض نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۴۳۹)حیض کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تین دن لگاتار آئے لہٰذا اگر مثال کے طورپرکسی عورت کودودن خون آئے پھرایک دن نہ آئے اورپھرایک دن آجائے تووہ حیض نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۴۰)حیض کی ابتدامیں خون کاباہرآناضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورے تین دن خون نکلتارہے بلکہ اگرشرم گاہ میں خون موجود ہوتوکافی ہے اور اگر تین دنوں میں تھوڑے سے وقت کے لئے بھی کوئی عورت پاک ہوجائے جیساکہ تمام یابعض عورتوں کے درمیان متعارف ہے تب بھی وہ حیض ہے۔
مسئلہ (۴۴۱)ایک عورت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا خون پہلی رات اور چوتھی رات کوباہر نکلے لیکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اورتیسری رات کو منقطع نہ ہوپس اگر پہلے دن صبح سویرے سے تیسرے دن غروب آفتاب تک متواترخون آتارہے اورکسی وقت بندنہ ہوتووہ حیض ہے اور اگرپہلے دن دوپہرسے خون آناشروع ہواور چوتھے دن اسی وقت بندہوتواس کی صورت بھی یہی ہے (یعنی وہ بھی حیض ہے)۔
مسئلہ (۴۴۲) اگرکسی عورت کوتین دن متواترخون آتارہے پھروہ پاک ہوجائے چنانچہ اگروہ دوبارہ خون دیکھے توجن دنوں میں وہ خون دیکھے اورجن دنوں میں وہ پاک ہو ان تمام دنوں کوملاکراگردس دن سے زیادہ نہ ہوں توجن دنوں میں وہ خون دیکھے وہ حیض کے دن ہیں ، لیکن احتیاط لازم کی بناپرپاکی کے دنوں میں وہ ان تمام امورکوجوپاک عورت پرواجب ہیں انھیں انجام دے اور جو امورحائض کے لئے حرام ہیں انہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۴۴۳)اگرکسی عورت کوتین دن سے زیادہ اوردس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہوکہ یہ خون پھوڑے یازخم کاہے یاحیض کاتواسے چاہئے کہ اس خون کوحیض نہ سمجھے۔
مسئلہ (۴۴۴)اگرکسی عورت کوایساخون آئے جس کے بارے میں اسے علم نہ ہوکہ زخم کاخون ہے یاحیض کا،توضروری ہے کہ اپنی عبادات بجالاتی رہے۔ لیکن اگراس کی سابقہ حالت حیض کی رہی ہوتواس صورت میں اسے حیض قراردے۔
مسئلہ (۴۴۵) اگرکسی عورت کوخون آئے اوراسے شک ہوکہ یہ خون حیض ہے یا استحاضہ توضروری ہے کہ حیض کی شرائط موجودہونے کی صورت میں اسے حیض قرار دے۔
مسئلہ (۴۴۶) اگرکسی عورت کوخون آئے اوراسے یہ معلوم نہ ہوکہ یہ حیض ہے یا بکارت کاخون ہے توضروری ہے کہ اپنے بارے میں تحقیق کرے یعنی کچھ روئی شرم گاہ میں رکھے اورتھوڑی دیرانتظار کرے۔پھرروئی باہر نکالے، پس اگرخون روئی کے اطراف میں لگاہوتوخون بکارت ہے اور اگرساری کی ساری روئی خون میں ترہوجائے تو حیض ہے۔
مسئلہ (۴۴۷)اگرکسی عورت کوتین دن سے کم مدت تک خون آئے اورپھر بندہو جائے اورتین دن تک خون آئے تودوسراخون حیض ہے اورپہلا خون خواہ وہ اس کی عادت کے دنوں ہی میں آیاہوحیض نہیں ہے۔
حائض کے احکام
مسئلہ (۴۴۸)چندچیزیں حائض پرحرام ہیں :
۱:) نمازاوراس جیسی دیگرعبادتیں جنہیں وضویاغسل یاتیمم کے ساتھ اداکرنا ضروری ہے۔اگر حائض عورت ان جیسے اعمال کو عمل صحیح کے طورپر بجالائے تو جائز نہیں ہے لیکن ان عبادتوں کے اداکرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے لئے وضو، غسل یا تیمم کرناضروری نہیں (جیسے نماز میت)۔
۲:) وہ تمام چیزیں جومجنب پرحرام ہیں اوران کاذکرجنابت کے احکام میں آچکاہے۔
۳:) عورت کی شرم گاہ میں جماع کرناجومرداورعورت دونوں کے لئے حرام ہے خواہ دخول صرف سپاری کی حد تک ہی ہواورمنی بھی خارج نہ ہوبلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سپاری سے کم مقدارمیں بھی دخول نہ کیاجائےاور یہ حکم دبر(پیچھے کی شرم گاہ) میں مجامعت کو شامل نہیں کرتا لیکن احتیاط کی بناء پر عورت کی دبر میں اگر راضی نہ ہوتو چاہے حائض ہو یا نہ ہو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۴۹)ان دنوں میں بھی جماع کرناحرام ہے جن میں عورت کاحیض یقینی نہ ہو، لیکن شرعاً اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کوحائض قراردے۔ پس جس عورت کو دس دن سے زیادہ خون آیاہو اوراس کے لئے ضروری ہوکہ اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں کیاجائے گااپنے آپ کواتنے دن کے لئے حائض قراردے جتنے دن کی اس کے کنبے کی عورتوں کوعادت ہوتواس کاشوہر ان دنوں میں اس سے مجامعت نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۴۵۰)اگرمرداپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے تواس کے لئے ضروری ہے کہ استغفار کرے اور کفارہ واجب نہیں ہے اگر چہ بہتر ہے اور اس کا کفارہ حیض کے ابتدائی حصے میں ایک مثقال سکہ دار سونا اور دوسرے حصہ میں آدھا مثقال اور تیسرے حصہ میں چوتھائی مثقال ہے اور مثقال شرعی( ۱۸)چنے ہیں ۔
مسئلہ (۴۵۱)حائض سے مجامعت کے علاوہ دوسری لطف اندوزیوں مثلاً بوسہ لینے اور باہمی چھیڑ چھاڑ کی ممانعت نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۵۲)جیساکہ طلاق کے احکام میں بتایاجائے گاعورت کوحیض کی حالت میں طلاق دیناباطل ہے۔
مسئلہ (۴۵۳)اگرعورت کہے کہ میں حائض ہوں یایہ کہے کہ میں حیض سے پاک ہوں اوروہ غلط بیانی نہ کرتی ہوتواس کی بات قبول کی جائے، لیکن اگرغلط بیاں ہوتو اس کی بات قبول کرنے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۴۵۴) اگرکوئی عورت نماز کے دوران حائض ہوجائے تواس کی نماز باطل ہے۔ یہاں تک کہ آخری سجدہ کے بعد اور آخری سلام کے آخری حرف سے پہلے بھی حیض آجائے تو احتیاط واجب کی بناء پرنماز باطل ہے۔
مسئلہ (۴۵۵) اگرعورت نماز کے دوران شک کرے کہ حائض ہوئی ہے یانہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ نماز کے دوران حائض ہوگئی تھی تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ باطل ہےجیسا کہ اس سے قبل گذر چکا ہے۔
مسئلہ (۴۵۶)عورت کے حیض سے پاک ہوجانے کے بعداس پرواجب ہے کہ نماز اوردوسری عبادات کے لئے جووضو، غسل یاتیمم کرکے بجالانا چاہئے غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اوروضو سے کفایت کرے گا اور بہتر یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضو بھی کرے۔
مسئلہ (۴۵۷)عورت کے حیض سے پاک ہوجانے کے بعداگرچہ اس نے غسل نہ کیاہواسے طلاق دینا صحیح ہے اور اس کاشوہر اس سے جماع بھی کرسکتاہے، لیکن احتیاط لازم یہ ہے کہ جماع شرم گاہ دھونے کے بعدکیاجائے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے غسل کرنے سے پہلے مرداس سے جماع نہ کرے۔البتہ جب تک وہ عورت غسل نہ کرلے وہ دوسرے کام جوحیض کے وقت اس پرحرام تھے( مثلاً قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا)اس پرحلال نہیں ہوتےجب تک غسل نہ کرے اور اسی طرح( احتیاط واجب کی بناء پر) وہ کام بھی ہیں کہ جن کی حرمت کے لئے یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ طہارت کی شرط کی بناء پر ہیں جیسے: مسجد میں قیام کرنا۔
مسئلہ (۴۵۸) اگرپانی (عورت کے) وضو اورغسل کے لئے کافی نہ ہواور تقریباً اتنا ہوکہ اس سے غسل کرسکے توضروری ہے کہ غسل کرے اور بہتریہ ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے اوراگرپانی صرف وضو کے لئے کافی ہواوراتنانہ ہوکہ اس سے غسل کیاجاسکے تو بہتریہ ہے کہ وضوکرے اور غسل کے بدلے تیمم کرناضروری ہے اوراگردونوں میں سے کسی کے لئے بھی پانی نہ ہوتوغسل کے بدلے تیمم کرناضروری ہے اور بہتریہ ہے کہ وضو کے بدلے بھی تیمم کرے۔
مسئلہ (۴۵۹)جونمازیں عورت نے حیض کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا نہیں لیکن رمضان کے وہ روزے جو حیض کی حالت میں نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اوراسی طرح (احتیاط لازم کی بناپر) جوروزے منت کی وجہ سے معین دنوں میں واجب ہوئے ہوں اوراس نے حیض کی حالت میں وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضاکرے۔
مسئلہ (۴۶۰)جب نماز کاوقت ہوجائے اورعورت یہ جان لے (یعنی اسے یقین ہو)کہ اگروہ نمازپڑھنے میں دیر کرے گی توحائض ہوجائے گی توضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اوراگراسے فقط احتمال ہوکہ نماز میں تاخیر کرنے سے وہ حائض ہوجائے گی (احتیاط لازم کی بناپر)یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۴۶۱)اگر عورت نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور ایک مکمل نماز تمام مقدمات (منجملہ پاک کپڑا پہننا اور وضو کرنے) کے ساتھ پڑھنے کا وقت گزر جائے اور اسے حیض آجائے تو اس نماز کی قضا اس عورت پر واجب ہے۔بلکہ اگر وقت داخل ہوگیا ہو جب کہ عورت وضو، غسل یا تیمم کے ہمراہ ایک نماز پڑھ سکتی تھی اور نہیں پڑھا تو( احتیاط واجب کی بناء پر) اس نماز کی قضا کرے خواہ تمام شرائط حاصل کرنے کےلئے کافی مقدار میں وقت نہ رہا ہو لیکن جلدی پڑھنے اور ٹھہرٹھہرکرپڑھنے اور دوسری باتوں کے بارے میں ضروری ہے کہ اپنی عادت کا لحاظ کرے مثلاًاگرایک عورت جو سفر میں نہیں ہےاگر اول وقت میں نماز ظہرنہ پڑھے تواس کی قضااس پراس صورت میں واجب ہوگی جب کہ وضو،غسل یا تیمم کےساتھ چاررکعت نماز پڑھنے کے برابر وقت اول ظہرسے گزر جائے اور وہ حائض ہوجائے اوراس عورت کے لئے جو سفرمیں ہوطہارت حاصل کرنے کے بعددورکعت پڑھنے کے برابروقت گزرجانابھی کافی ہے۔
مسئلہ (۴۶۲)اگرایک عورت نماز کے آخر وقت میں خون سے پاک ہوجائے اور اس کے پاس اندازاً اتنا وقت ہوکہ غسل کرکے ایک یاایک سے زائد رکعت پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگرنہ پڑھے توضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ (۴۶۳) اگرایک حائض کے پاس حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کے لئے وقت نہ ہولیکن تیمم کرکے نماز وقت کے اندرپڑھ سکتی ہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز تیمم کے ساتھ پڑھے اور اگرنہ پڑھے توقضاکرے۔ لیکن اگروقت کی تنگی سے قطع نظرکسی اوروجہ سے اس کافریضہ ہی تیمم کرناہو(مثلاًاگرپانی اس کے لئے مضرہوتو )ضروری ہے کہ تیمم کرکے وہ نماز پڑھے اور اگرنہ پڑھے توضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔
مسئلہ (۴۶۴)اگرکسی عورت کوحیض سے پاک ہوجانے کے بعدشک ہوکہ نماز کے لئے وقت باقی ہے یانہیں تواسے چاہئے کہ نماز پڑھ لے۔
مسئلہ (۴۶۵)اگرکوئی عورت اس خیال سے نمازنہ پڑھے کہ حدث سے پاک ہونے کے بعدایک رکعت نماز پڑھنے کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں ہے، لیکن بعد میں اسے پتا چلے کہ وقت تھاتواس نماز کی قضابجالاناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۶۶)حائض کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اورکپڑے کاٹکڑابدلے اوروضوکرے اور اگروضونہ کرسکے توتیمم کرے اور نماز کی جگہ پرروبقبلہ بیٹھ کر ذکر، دعااور صلوات میں مشغول ہوجائے۔
مسئلہ (۴۶۷)حائض کے لئے قرآن مجیدکا پڑھنااوراسے اپنے ساتھ رکھنااور اپنے بدن کاکوئی حصہ اس کے الفاظ کے درمیانی حصے سے مس کرنانیزمہندی یااس جیسی کسی اور چیز سے خضاب کرنا کچھ فقہاء کے بیان کے مطابق مکروہ ہے۔
حائض کی قسمیں
مسئلہ (۴۶۸)حائض کی چھ قسمیں ہیں :
۱): وقت اور عددکی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک معین وقت پرحیض آئے اور اس کے حیض کے دنوں کی تعداد بھی دونوں مہینوں میں ایک جیسی ہو۔مثلاً اسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتاہو۔
۲): وقت کی عادت رکھنے والی عورت : یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعددیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر حیض آئے، لیکن اس کے حیض کے دنوں کی تعداد دونوں مہینوں میں ایک جیسی نہ ہو۔مثلاً یکے بعددیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے خون آناشروع ہولیکن وہ پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن خون سے پاک ہو۔
۳): عددکی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعددیگرے دومہینوں میں ایک جیسی ہولیکن ہرمہینے خون آنے کاوقت یکساں نہ ہو۔ مثلاً پہلے مہینے میں اسے پانچویں سے دسویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں بارھویں سے سترھویں تاریخ تک خون آتاہو۔
۴): مضطربہ : یہ وہ عورت ہے جسے چندمہینے خون آیاہولیکن اس کی عادت معین نہ ہوئی ہویااس کی سابقہ عادت بگڑ گئی ہواورنئی عادت نہ بنی ہو۔
۵): مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جسے پہلی دفعہ خون آیاہو۔
۶): ناسیہ : یہ وہ عورت ہے جواپنی عادت بھول چکی ہو۔
ان میں سے ہرقسم کی عورت کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ احکام ہیں جن کاذکرآئندہ مسائل میں کیاجائے گا۔
۱ - وقت اور عددکی عادت رکھنے والی عورت
مسئلہ (۴۶۹)جوعورتیں وقت اورعددکی عادت رکھتی ہیں ان کی دوقسمیں ہیں :
(اول:) وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں ایک معین وقت پر خون آئے اوروہ ایک معین وقت پرہی پاک بھی ہوجائے مثلاً یکے بعددیگرے دومہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ کوخون آئے اوروہ ساتویں روز پاک ہوجائے تواس عورت کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک ہے۔
(دوم:) وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں معین وقت پرخون آئے اور جب تین یا زیادہ دن تک خون آچکے تووہ ایک یازیادہ دنوں کے لئے پاک ہوجائے اور پھراسے دوبارہ خون آجائے اوران تمام دنوں کی تعداد جن میں اسے خون آیاہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں وہ پاک رہی ہے دس سے زیادہ نہ ہواور دونوں مہینوں میں تمام دن جن میں اسے خون آیااوربیچ کے وہ دن جن میں پاک رہی ہوایک جتنے ہوں تواس کی عادت ان تمام دنوں کے مطابق قرار پائے گی جن میں اسے خون آیا لیکن ان دنوں کوشامل نہیں کرسکتی جن کے درمیان پاک رہی ہو۔ پس لازم ہے کہ جن دنوں میں اسے خون آیاہواورجن دنوں میں وہ پاک رہی ہودونوں مہینوں میں ان دنوں کی تعداد ایک جتنی ہومثلاًاگرپہلے مہینے میں اوراسی طرح دوسرے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تک خون آئے اورپھرتین دن پاک رہے اورپھرتین دن دوبارہ خون آئے تواس عورت کی عادت الگ الگ چھ دن کی ہوجائے گی اور درمیان کے تین پاک دنوں میں (احتیاط واجب کی بناء پر) حائض کے محرمات کو چھوڑ دے گی اور مستحاضہ کے اعمال کو بجالائے گی اور اگراسے دوسرے مہینے میں آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس سے کم یازیادہ ہوتویہ عورت وقت کی عادت رکھتی ہے، عد دکی نہیں ۔
مسئلہ (۴۷۰) جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو(خواہ عدد کی عادت رکھتی ہویانہ رکھتی ہو)اگراسے عادت کے وقت یا اس سے ایک دودن یااس سے بھی زیادہ دن پہلے خون آجائے جب کہ یہ کہاجائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہوگئی ہے اگراس خون میں حیض کی علامات نہ بھی ہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان احکام پرعمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اوراگربعدمیں اسے پتا چلے کہ وہ حیض کاخون نہیں تھامثلاً وہ تین دن سے پہلے پاک ہوجائے توضروری ہے کہ جوعبادات اس نے انجام نہ دی ہوں ان کی قضا کرے۔
مسئلہ (۴۷۱)جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے تمام دنوں میں اور عادت سے چنددن پہلے اورعادت کے چنددن بعدخون آئے اوروہ کل ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو وہ سارے کاساراحیض ہے اور اگریہ مدت دس دن سے بڑھ جائے توجو خون اسے عادت کے دنوں میں آیا ہے وہ حیض ہے اورجو عادت سے پہلے یابعدمیں آیاہے وہ استحاضہ ہے اور جوعبادات وہ عادت سے پہلے اوربعدکے دنوں میں بجانہیں لائی ان کی قضاکرناضروری ہے اور اگرعادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت سے کچھ دن پہلے اسے خون آئے اور ان سب دنوں کوملاکر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہوتوسارا حیض ہے اور اگردنوں کی تعداددس سے زیادہ ہوجائے توصرف عادت کے دنوں میں آنے والاخون حیض ہے( اگرچہ اس میں حیض کی علامات نہ ہوں اور اس سے پہلے آنے والاخون حیض کی علامات کے ساتھ ہو) اور جو خون اس سے پہلے آئے وہ استحاضہ ہے اور اگران دنوں میں عبادت نہ کی ہوتوضروری ہے کہ اس کی قضاکرے اور اگرعادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت کے چنددن بعدخون آئے اورکل دنوں کی تعداد ملا کر دس سے زیادہ نہ ہوتوسارے کاساراحیض ہے اوراگریہ تعداددس سے بڑھ جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والاخون حیض ہے اورباقی استحاضہ ہے۔
مسئلہ (۴۷۲) جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے کچھ دنوں میں یاعادت سے پہلے خون آئے اوران تمام دنوں کوملاکران کی تعداددس سے زیادہ نہ ہوتووہ سارے کاساراحیض ہے اوراگران دنوں کی تعداددس سے بڑھ جائے تو جن دنوں میں اسے حسب عادت خون آیاہے اور پہلے کے چنددن شامل کرکے عادت کے دنوں کی تعداد پوری ہونے تک حیض اورشروع کے دنوں کواستحاضہ قرار دے اور اگر عادت کے کچھ دنوں کے ساتھ ساتھ عادت کے بعد کے کچھ دنوں میں خون آئے اور ان سب دنوں کو ملاکران کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہوتوسارے کاساراحیض ہے اوراگر دس سے بڑھ جائے تواسے چاہئے کہ جن دنوں میں عادت کے مطابق خون آیاہے اس میں بعد کے چنددن ملاکرجن دنوں کی مجموعی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوجائے انہیں حیض اورباقی کواستحاضہ قراردے۔
مسئلہ (۴۷۳)جوعورت عادت رکھتی ہواگراس کاخون تین یازیادہ دن تک آنے کے بعدرک جائے اورپھردوبارہ خون آئے اوران دونوں خون کادرمیانی فاصلہ دس دن سے کم ہواوران سب دنوں کی تعدادجن میں خون آیاہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں پاک رہی ہودس سے زیادہ ہو۔ مثلاً پانچ دن خون آیاہوپھرپانچ دن رک گیاہو اور پھرپانچ دن دوبارہ آیاہوتواس کی چندصورتیں ہیں :
۱) وہ تمام خون یااس کی مقدارجوپہلی باردیکھے عادت کے دنوں میں ہواور دوسرا خون جوپاک ہونے کے بعدآیاہے عادت کے دنوں میں نہ ہو۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے تمام خون کوحیض اور دوسرے خون کواستحاضہ قراردے۔مگر یہ کہ دوسرا خون حیض کی علامتیں رکھتاہو کہ اس صورت میں وہ حصہ جو پہلے خون کے حساب کے ساتھ اور اس کے بعد پاک والا حصہ مجموعی طورسے دس دن سے زیادہ نہ ہوتو حیض ہے اور بقیہ استحاضہ ہے۔ مثلاً اگرتین دن خون دیکھے اور تین دن پاک ر ہے اور اس کے بعد پانچ دن خون دیکھے جس میں حیض کی علامتیں ہوں تو پہلا تین دن اور دوسرے خون کا چار دن حیض ہے اور درمیانی طہارت کے دنو ں میں (احتیاط واجب کی بنا پر) غیر حائض کے واجبات کو انجام دے اور حیض کے محرمات کو ترک کرے۔
۲) پہلا خون عادت کے دنوں میں نہ آئے اوردوسرا تمام خون یااس کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے توضروری ہے کہ دوسرے تمام خون کو حیض اورپہلے کواستحاضہ قرار دے۔
۳) دوسرے اور پہلے خون کی کچھ مقدارعادت کے دنوں میں آئے اور ایام عادت میں آنے والاپہلا خون تین دن سے کم نہ ہواس صورت میں درمیان میں پاک رہنے کی مدت اور عادت کے دنوں میں آنے والے دوسرے خون کی مدت دس دن سے زیادہ نہ ہوتودونوں خون حیض ہیں اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ پاکی کی درمیانی مدت میں پاک عورت کے کام بھی انجام دے اور وہ کام جوحائض پر حرام ہیں ترک کرے اور دوسرے خون کی وہ مقدارجو عادت کے دنوں کے بعدآئے استحاضہ ہے اور خون اول کی وہ مقدارجو ایام عادت سے پہلے آئی ہو اور عرفاًکہاجائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہوگئی ہے تووہ خون، حیض کاحکم رکھتاہے۔لیکن اگر اس خون پرحیض کاحکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدارجوعادت کے دنوں میں تھی یاسارے کاساراخون،حیض کے دس دن سے زیادہ ہوجائے تواس صورت میں وہ خون،خون استحاضہ کاحکم رکھتاہے مثلاً اگرعورت کی عادت مہینے کی تیسری سے دسویں تاریخ تک ہواور اسے کسی مہینے کی پہلی سے چھٹی تاریخ تک خون آئے اورپھردودن کے لئے بندہوجائے اورپھرپندرھویں تاریخ تک آئے توتیسری سے دسویں تاریخ تک حیض ہے اور گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک آنے والاخون استحاضہ ہے۔
۴) پہلے اوردوسرے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے لیکن ایام عادت میں آنے والاپہلاخون تین دن سے کم ہو۔ اس صورت میں آخر کے تین دن کے ابتدائی خون کو حیض قرار دینا ضروری ہے اور اسی طرح دوسرے خون کوجس کے مجموعی دن پہلے دنوں کےتین دن کے ساتھ اور درمیان کے پاک دنوں کی تعداد دس دن ہوں تو اگر اس سے زیادہ ہے تو استحاضہ ہے اور اگر اس کی طہارت کے ایام سات دن ہوں تو دوسرے تمام خون کو استحاضہ کہا جائے گالیکن بعض مقامات میں تمام پہلے خون کو حیض قرار دےاوراس میں دوشرطیں ہیں :
(اول:) اسے اپنی عادت سے کچھ دن پہلے خون آیاہوکہ اس کے بارے میں یہ کہاجائے کہ اس کی عادت تبدیل ہوکروقت سے پہلے ہوگئی ہے۔
(دوم:) اگروہ اسے حیض قراردے تویہ لازم نہ آئے کہ اس کے دوسرے خون کی کچھ مقدارجو عادت کے دنوں میں آیاہوحیض کے دس دن سے زیادہ ہوجائے مثلاً اگر عورت کی عادت کی تیسری تاریخ سے دس تاریخ تک تھی اوراسے مہینے کے پہلے دن سے چوتھے دن کے آخری وقت تک خون آئے اوردودن کے لئے پاک ہواورپھردوبارہ اسے پندرہ تاریخ تک خون آئے تواس صورت میں پہلاپورے کاپوراخون حیض ہے اوراسی طرح دوسراوہ خون بھی جودسویں دن کے آخری وقت تک آئے حیض کاخون ہے۔
مسئلہ (۴۷۴)جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے وقت خون نہ آئے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور وقت حیض کے دنوں کی مقدار میں اس کو خون آئے تو اسی خون کوحیض قراردے خواہ وہ عادت کے وقت سے پہلے آئے یا بعدمیں آئے۔
مسئلہ (۴۷۵)جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے وقت تین یاتین سے زیادہ دن تک خون آئے، لیکن اس کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں سے کم یازیادہ ہواورپاک ہونے کے بعداسے دوبارہ اتنے دنوں کے لئے خون آئے جتنی اس کی عادت ہوتواس کی چندصورتیں ہیں :
۱): دونوں خون کے دنوں اوران کے درمیان پاک رہنے کے دنوں کوملاکر دس دن سے زیادہ نہ ہوتواس صورت میں دونوں خون ایک حیض شمارہوں گے۔
۲): دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن یادس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون میں سے ہرایک کوایک مستقل حیض قراردیاجائے گا۔
۳): ان دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن سے کم ہولیکن ان دونوں خون کواوردرمیان میں پاک رہنے کی ساری مدت کوملاکردس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قراردے۔
مسئلہ (۴۷۶) جو عورت وقت اور عددکی عادت رکھتی ہواگراسے دس سے زیادہ دن تک خون آئے توجو خون اسے عادت کے دنوں میں آئے خواہ وہ حیض کی علامات نہ بھی رکھتاہوتب بھی حیض ہے اور جوخون عادت کے دنوں کے بعدآئے خواہ وہ حیض کی علامات بھی رکھتاہواستحاضہ ہے۔مثلاً اگرایک ایسی عورت جس کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہواسے پہلی سے بارہویں تاریخ تک خون آئے تو پہلے سات دن حیض اوربقیہ پانچ دن استحاضہ کے ہوں گے۔
۲ - وقت کی عادت رکھنے والی عورت
مسئلہ (۴۷۷)جو عورتیں وقت کی عادت رکھتی ہیں اوران کی عادت کی پہلی تاریخ معین ہوان کی دوقسمیں ہیں :
۱): وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں معین وقت پرخون آئے اور چند دنوں بعدبند ہوجائے، لیکن دونوں مہینوں میں خون آنے کے دنوں کی تعداد مختلف ہو۔ مثلاًاسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ کوخون آئے لیکن پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن بندہو۔ایسی عورت کو چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کواپنی عادت قراردے۔
۲): وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دو مہینوں میں معین وقت پرتین یازیادہ دن خون آئے اورپھربندہوجائے اورپھردوبارہ خون آئے اوران تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیاہے مع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بندرہاہے دس سے زیادہ نہ ہو،لیکن دوسرے مہینے میں دنوں کی تعداد پہلے مہینے سے کم یازیادہ ہومثلاً پہلے مہینے میں آٹھ دن اور دوسرے مہینے میں نودن بنتے ہوں لیکن دونوں مہینوں میں مہینے کی شروعات میں خون آیا ہو تو اس عورت کوبھی چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کواپنے حیض کی عادت کاپہلا دن قراردے۔
مسئلہ (۴۷۸)وہ عورت جووقت کی عادت رکھتی ہے اگراس کوعادت کے دنوں میں یا عادت سے دوتین دن پہلے خون آئے توضروری ہے کہ وہ عورت ان احکام پرعمل کرے جوحائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور اس صورت کی تفصیل مسئلہ (۴۷۰)میں گزر چکی ہے۔ لیکن ان دوصورتوں کے علاوہ (مثلاً یہ کہ عادت سے اس قدرپہلے خون آئے کہ یہ نہ کہاجاسکے کہ عادت وقت سے قبل ہوگئی ہے بلکہ یہ کہاجائے کہ عادت کی مدت کے علاوہ (یعنی دوسرے وقت میں ) خون آیاہے یایہ کہاجائے کہ عادت کے بعد خون آیاہے) چنانچہ وہ خون حیض کی علامات کے ساتھ آئے توضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جوحائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اوراگراس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں لیکن وہ عورت یہ جان لے کہ خون تین دن تک جاری رہے گاتب بھی یہی حکم ہے اور اگریہ نہ جانتی ہوکہ خون تین دن تک جاری رہے گایانہیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ وہ کام جو مستحاضہ پرواجب ہیں انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۴۷۹)جوعورت وقت کی عادت رکھتی ہے اگراسے عادت کے دنوں میں خون آئے اور اس خون کی مدت دس دن سے زیادہ ہولہٰذا اگر چند دن اس کے خون میں حیض کی نشانی ہو اور کچھ دن نہ ہو اور ان دنوں میں جن میں خون حیض کی نشانی ہو تین دن سے کمتر اور دس دن سے زیادہ نہ ہوں تواس کو حیض اور بقیہ کو استحاضہ قرار دے گی اور اگر یہی خون اسی طرح کی شرطوں کے ساتھ دوبار تکرار ہو مثلاً چار دن خون حیض کی نشانی کے ساتھ اور چار دن استحاضہ کی نشانی کے ساتھ پھر چار دن حیض کی نشانی کے ساتھ ہوتو صرف پہلے خون کو حیض قرار دے اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر خون حیض اپنی نشانیوں کے ساتھ تین دن سے کم ہوتو اس کو حیض قرار دے اور اس کی عدد کو آنے والے دوراستوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ (یا رشتہ دار عورتوں کی طرف رجوع کرے یا عدد کے انتخاب سے معین کرے) اور اگر دس دن سے زیادہ ہوتو اس کے کچھ حصے کو ان ہی دو راستوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ سے اس کو حیض قرار دے اور اگر حیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعہ نہ پہچان سکے یعنی اس کا خون ایک ہی جیسا ہوتو یاپھر وہ خون جس میں حیض کی نشانی ہے دس دن سے زیادہ یا تین دن سے کم ہوتو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ داروں کی عادت کے مقدار کے مطابق اس کو حیض قرار دے چاہے وہ رشتہ ماں کی طرف سے ہویاباپ کی طرف سے زندہ ہویامردہ لیکن اس کی دوشرطیں ہیں :
۱): اسے اپنے حیض کی مقدار اوراس رشتہ دار عورت کی مقدار میں فرق کاعلم نہ ہو مثلاًیہ کہ وہ خودنوجوان ہواورطاقت کے لحاظ سے قوی اور رشتہ دار عورت عمر کے لحاظ سے یائسہ کے نزدیک ہوتو ایسی صورت میں معمولاً عادت کی مقدارکم ہوتی ہےاس صورت کے برعکس بھی اور اس صورت میں بھی جب وہ دوسری رشتہ دار خاتون جو ناقص عدد رکھنے والی ہے جس کا معنی اور حکم مسئلہ ( ۴۸۸ )میں آئے گا ۔
۲): اسے اس عورت کی عادت کی مقدار میں اوراس کی دوسری رشتہ دار عورتوں کی عادت کی مقدارمیں کہ جن میں پہلی شرط موجودہے اختلاف کاعلم نہ ہولیکن اگراختلاف اتناکم ہوکہ اسے اختلاف شمارنہ کیاجاتاہوتوکوئی حرج نہیں ہے اور اس عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے جو وقت کی عادت رکھتی ہے اورعادت کے دنوں میں کوئی خون نہ آئے، لیکن عادت کے وقت کے علاوہ کوئی خون آئے جودس دن سے زیادہ ہواورحیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعے معین نہ کرسکے۔
مسئلہ (۴۸۰) وقت کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کے علاوہ وقت میں آنے والے خون کو حیض قرار نہیں دے سکتی، لہٰذا اگر اسے عادت کاابتدائی وقت معلوم ہو مثلاًہرمہینے کی پہلی کوخون آتاہواورکبھی پانچویں اورکبھی چھٹی کوخون سے پاک ہوتی ہو چنانچہ اسے کسی ایک مہینے میں بارہ دن خون آئے اوروہ حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کرسکے توچاہئے کہ مہینے کی پہلی کو حیض کی پہلی تاریخ قراردے اوراس کی تعداد کے بارے میں جوکچھ پہلے مسئلہ میں بیان کیاگیاہے اس پر عمل کرے اور اگراس کی عادت کی درمیانی یاآخری تاریخ معلوم ہوچنانچہ اگراسے دس دن سے زیادہ خون آئے تو ضروری ہے کہ اس کاحساب اس طرح کرے کہ آخری یا درمیانی تاریخ میں سے ایک اس کی عادت کے دنوں کے مطابق ہو۔
مسئلہ (۴۸۱)جوعورت وقت کی عادت رکھتی ہواوراسے دس دن سے زیادہ خون آئے اوراس خون کو مسئلہ ( ۴۷۹ )میں بتائے گئے طریقے سے معین نہ کرسکے( مثلاً اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں یاپہلے بتائی گئی دوشرطوں میں سے ایک شرط نہ ہو)تواسے اختیار ہے کہ تین دن سے دس دن تک جتنے دن حیض کی مقدار کے مناسب سمجھے حیض قرار دے۔ چھ یاآٹھ دنوں کو اپنے حیض کی مقدار کے مناسب سمجھنے کی صورت میں بہتریہ ہے کہ سات دنوں کوحیض قراردے لیکن ضروری ہے کہ جن دنوں کووہ حیض قرار دے وہ دن اس کی عادت کے وقت کے مطابق ہوں جیساکہ گذشتہ مسئلے میں بیان کیاجا چکا ہے۔
۳ ۔عددکی عادت رکھنے والی عورت
جوعورتیں عددکی عادت رکھتی ہیں ان کی دوقسمیں ہیں :
۱:) وہ عورت جس کے حیض کے دنوں کی تعدادیکے بعدیگرے دو مہینوں میں یکساں ہو لیکن اس کے خون آنے کاوقت ایک جیسانہ ہواس صورت میں جتنے دن اسے خون آئے وہی اس کی عادت ہوگی۔مثلاً اگرپہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک خون آئے تواس کی عادت پانچ دن ہوگی۔
۲:) وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دو مہینوں میں سے ہرایک میں تین یاتین سے زیادہ دنوں تک خون آئے اورایک یااس سے زائد دنوں کے لئے بندہوجائے اورپھر دوبارہ خون آئے اور خون آنے کاوقت پہلے مہینے اوردوسرے مہینے میں مختلف ہواس صورت میں اگران تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیاہے بمع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بندرہاہے دس سے زیادہ نہ ہواوردونوں مہینوں میں سے ہرایک میں ان کی تعداد بھی یکساں ہوتووہ تمام دن جن میں خون آیاہے اس کے حیض کی عادت کے دن شمار کئے جائیں گے اور ان درمیانی دنوں میں جن میں خون نہیں آیااحتیاط کی بناپر ضروری ہے کہ جو کام پاک عورت پرواجب ہیں انجام دے اور جوکام حائض پرحرام ہیں انہیں ترک کرے مثلاًاگرپہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اورپھردودن کے لئے بندہوجائے اور پھردوبارہ تین دن خون آئے اوردوسرے مہینے میں گیارہویں سے تیرہویں تک خون آئے اوردو دن کے لئے بندہوجائے اورپھردوبارہ تین دن خون آئے تواس عورت کی عادت چھ دن کی ہوگی اور اگرپہلے مہینے میں اسے آٹھ دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں چاردن خون آئے اور پھربندہوجائے اور پھر دوبارہ آئے اورخون کے دنوں اوردرمیان میں خون بندہوجانے والے دنوں کی مجموعی تعداد آٹھ دن ہو تو یہ عورت عددکی عادت نہیں رکھتی،بلکہ مضطربہ شمار ہوگی جس کاحکم بعدمیں بیان کیاجائے گا۔
مسئلہ (۴۸۲) جوعورت عددکی عادت رکھتی ہواگراسے اپنی عادت کی تعداد سے کم یازیادہ دن خون آئے اوران دنوں کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہوتوان تمام دنوں کوحیض قرار دے اوراگراس کی عادت سے زیادہ خون آئے اور دس دن سے تجاوزکرجائے تو اگر تمام کا تمام خون ایک جیساہوتوخون آنے کی ابتداسے لے کر اس کی عادت کے دنوں تک حیض اور باقی خون کو استحاضہ قراردے اور اگرآنے والاتمام خون ایک جیسانہ ہوبلکہ کچھ دن حیض کی علامات کے ساتھ اورکچھ دن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہوپس اگرحیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کوحیض اورباقی دنوں کواستحاضہ قراردے اوراگران دنوں کی تعداد جن میں خون حیض کی علامات کے ساتھ آیاہوعادت کے دنوں سے زیادہ ہوتو صرف عادت کے دن حیض اور باقی دن استحاضہ ہے اوراگرحیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد عادت کے دنوں سے کم ہوتوضروری ہے کہ ان دنوں کے ساتھ چنداوردنوں کوملاکرعادت کی مدت پوری کرے اور ان کو حیض اورباقی کو استحاضہ قراردے۔
۴ - مضطربہ
مسئلہ (۴۸۳)مضطربہ یعنی وہ عورت جسے دومہینے مسلسل خون آئے لیکن (وقت اور عدد دونوں کے لحاظ سے)اختلاف ہواگراسے دس دن سے زیادہ خون آئے اورساراخون ایک جیساہویعنی تمام خون یاحیض کی نشانیوں کے ساتھ یااستحاضہ کی نشانیوں کے ساتھ آیاہوتواس کاحکم (احتیاط کی بناء پر) وقت کی عادت رکھنے والی عورت کاحکم ہے کہ جسے اپنی عادت کے علاوہ وقت میں خون آئے اورعلامات کے ذریعے حیض کو استحاضہ سے تمیزنہ دے سکتی ہوتوضروری ہےکہ اپنی رشتہ دار عورتوں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قراردے اور اگریہ ممکن نہ ہوتوتین اوردس دن میں درمیان کی عددکو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ( ۴۷۹) اور(۴۸۱ )میں بیان کی گئی ہے اپنے حیض کی عادت قراردے۔
مسئلہ (۴۸۴)اگرمضطربہ کودس دن سے زیادہ خون آئے جس میں سے چنددنوں کے خون میں حیض کی علامات اورچنددوسرے دنوں کے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو مسئلہ ( ۴۷۹ )میں بیان شدہ حکم کے مطابق عمل کرے۔
۵ - مبتدئہ
مسئلہ (۴۸۵) مبتدئہ یعنی اس عورت کوجسے پہلی بارخون آیاہودس دن سے زیادہ خون آئے اوروہ تمام خون جومبتدئہ کوآیاہے ایک جیساہوتواسے چاہئے کہ اپنے کنبے والیوں کی عادت کی مقدار کوحیض اورباقی کوان دوشرطوں کے ساتھ استحاضہ قرار دے جو مسئلہ (۴۷۹ )میں بیان ہوئی ہیں اور اگریہ ممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ مسئلہ ( ۴۸۱ )میں دی گئی تفصیل کے مطابق تین اوردس دن میں سے کسی ایک عددکواپنے حیض کے دن قرار دے۔
مسئلہ (۴۸۶)اگرمبتدئہ کودس سے زیادہ دن تک خون آئے جب کہ چند دن آنے والے خون میں حیض کی علامات اورچنددن آنے والے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں توجس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم اوردس دن سے زیادہ نہ ہو وہ ساراحیض ہے۔لیکن جس خون میں حیض کی علامات تھیں اس کے بعددس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ خون آئے اوراس میں بھی حیض کی علامات ہوں مثلاً پانچ دن سیاہ خون اورنودن زردخون اورپھردوبارہ پانچ دن سیاہ خون آئے تواسے چاہئے کہ پہلے آنے والے خون کوحیض اوربعدمیں آنے والے دونوں خون کو استحاضہ قراردے جیساکہ مضطربہ کے متعلق بتایاگیاہے۔
مسئلہ (۴۸۷)اگرمبتدئہ کودس سے زیادہ دنوں تک خون آئے جوچنددن حیض کی علامات کے ساتھ اورچنددن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہولیکن جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم مدت تک آیاہو یا دس دن سے زیادہ ہو تو اسے چاہئے کہ (۴۷۹)کی ابتداء میں بیان شدہ حکم کے مطابق عمل کرے۔
۶ - ناسیہ
مسئلہ (۴۸۸) ناسیہ یعنی وہ عورت جواپنی عادت کی مقداربھول چکی ہو،یا اپنی عادت کے وقت یا پھر دونوں کو بھول گئی ہوتو اگر اس عورت کے وہاں خون آئے جو تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ تمام کا تمام خون حیض ہے لیکن اگر دس دن سے زیادہ ہوتو اس کی چند قسمیں ہیں :
(۱) وہ عورت وقتی یا عددی عادت یا دونوں عادتیں رکھتی ہو لیکن اسےپورے طورسے فراموش کردیا ہو یہاں تک کہ اجمالی طور پر بھی اس کو ایام یا اس کے عدد بھی یاد نہیں آتے ہیں ۔ یہ عورت مبتدئہ کاحکم رکھتی ہے جو گذر چکا ہے۔
(۲) وہ عورت جو وقت کی عادت رکھتی ہے چاہے عدد کی عادت ہویانہ ہو لیکن اگر وقت کی عادت اس کو اجمالی طور سے یاد ہو مثلاً وہ جانتی ہو فلاں دن اس کی عادت کاحصہ تھا یا اس کی عادت مہینے کے پہلے پندرہ دنوں میں تھی اس طرح کی عورت بھی مبتدئہ کاحکم رکھتی ہے لیکن حیض کو اس وقت قرار نہ دےجو یقینی طور سے اس کی عادت کے خلاف ہو،مثلاً اگر جانتی ہے کہ مہینہ کے سترہویں دن اس کی عادت کا حصہ تھا یا مہینہ کےدوسرے پندرہ دنوں میں اس کی عادت تھی اور اب ہے، پہلے سے بیس تاریخ تک خون آیا ہے تو وہ اپنی عادت کو مہینے کے شروع کے دس دن قرار نہیں دے سکتی یہاں تک کہ اگر اس خون میں حیض کی نشانی ہو اور دوسرے دس دن میں استحاضہ کی نشانی رہی ہو۔
(۳)وہ عورت جو عدد کی عادت رکھتی ہو اور اپنے ایام کی مقدار کو بھول گئی ہو یہ عورت بھی مبتدئہ کاحکم رکھتی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ جس مقدار کو حیض قرار دے رہی ہے وہ اس مقدار سےکم ہوجس کے بارےمیں اسے علم ہےکہ اس کاحیض اس سےکم نہیں ہے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس مقدار سے زیادہ کو حیض قرار دے جس کے بارے میں جانتی ہے کہ اس کی عادت کے دن سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی طرح کے حکم کی ناقص عدد والی عورت بھی اپنی عادت میں رعایت کرے یعنی وہ عورت جس کی عادت کے ایام کی تعداد دو عدد کے درمیان مشتبہ ہو تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم اس طرح کی عورتیں جن کو ہر مہینہ میں یا چھ دن خون آتاہے یا سات دن، تو یہ عورت حیض کی نشانیوں کو دیکھ کر یااپنی رشتہ دار عورتوں کی عادت کو دیکھ کر یا عدد کاانتخاب کرے( اس صورت میں جب دس دن سے زیادہ خون آئے) تو چھ دن سےکم یا سات دن سے زیادہ کو حیض قرار نہیں دے سکتی۔
حیض کے متفرق مسائل
مسئلہ (۴۸۹) مبتدئہ، مضطربہ، ناسیہ اور عددکی عادت رکھنے والی عورتوں کو اگر خون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں یایقین ہوکہ یہ خون تین دن تک آئے گاتوانہیں چاہئے کہ عبادات ترک کردیں اوراگربعدمیں انہیں پتا چلے کہ یہ حیض نہیں تھاتوانہیں چاہئے کہ جو عبادات بجانہ لائی ہوں ان کی قضاکریں ۔
مسئلہ (۴۹۰)جو عورت حیض کی عادت رکھتی ہوخواہ یہ عادت حیض کے وقت کے اعتبار سے ہویاحیض کے عدد کے اعتبارسے یاوقت اور عدد دونوں کے اعتبارسے ہو۔ اگر اسے یکے بعد دیگرے دومہینوں میں اپنی عادت کے برخلاف خون آئے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یاوقت اوردن دونوں کی تعداد یکساں ہو تواس کی عادت جس طرح ان دو مہینوں میں اسے خون آیا ہے اس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثلاً اگرپہلے اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتاتھااورپھربندہوجاتاتھامگردو مہینوں میں اسے دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک خون آیا ہواورپھربندہواہو تواس کی عادت دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک ہوجائے گی۔
مسئلہ (۴۹۱)ایک مہینے سے مرادوقتی عادت کے معین ہونے کے علاوہ بقیہ مقام میں خون آنے کی ابتداء سے تیس دن کا گزرنا ہے۔ مہینے کی پہلی تاریخ سے مہینے کے آخرتک نہیں ہے۔لیکن وقتی عادت کےمعین ہونے کے مقام میں مہینہ سے مراد قمری مہینہ ہے شمسی نہیں ۔
مسئلہ (۴۹۲)اگرکسی عورت کو عموماً مہینے میں ایک مرتبہ خون آتاہولیکن کسی ایک مہینے میں دومرتبہ آجائے تواگران درمیانی دنوں کی تعداد جن میں اسے خون نہیں آیادس دن سے کم نہ ہو تواسے چاہئے کہ دونوں خون کو حیض قراردے۔اگر چہ دونوں میں سے کوئی حیض کی علامت نہ رکھتا ہو۔
مسئلہ (۴۹۳) وہ عورت جس کےلئے خون کی علامتوں کے اختلاف کے ذریعہ حیض کا معین کرنا ضروری ہے لیکن اگرکسی عورت کوتین یااس سے زیادہ دنوں تک ایساخون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں ا ور اس کے بعددس یااس سے زیادہ دنوں تک ایسا خون آئے جس میں استحاضہ کی علامات ہوں اورپھراس کے بعددوبارہ تین دن تک حیض کی علامتوں کے ساتھ خون آئے تواسے چاہئے کہ پہلے اور آخری خون کو جس میں حیض کی علامات ہوں حیض قراردے۔لیکن اگر دو خون میں سے کوئی ایک عادت کے دنوں میں ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ درمیان کے تمام دس دن استحاضہ ہیں یا کچھ حیض ہے اس صورت میں جو خون عادت کے دنوں میں آئے وہ حیض ہے اور باقی استحاضہ ہے۔
مسئلہ (۴۹۴)اگرکسی عورت کاخون دس دن سے پہلے رک جائے اور وہ یہ جانے کہ اس کے باطن میں خون نہیں ہے تواسے چاہئے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے اگرچہ گمان رکھتی ہوکہ دس دن پورے ہونے سے پہلے دوبارہ خون آجائے گا۔ لیکن اگراسے یقین ہوکہ دس دن پورے ہونے سے پہلے اسے دوبارہ خون آجائے گا تو جیسے بیان ہوچکااسے چاہئے کہ احتیاطاًغسل کرے اوراپنی عبادات بجالائے اورجو چیزیں حائض پرحرام ہیں انہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۴۹۵)اگرکسی عورت کا خون دس دن گزرنے سے پہلے بندہوجائے اور اس بات کااحتمال ہوکہ اس کے باطن میں خون حیض ہے توضروری ہے کہ احتیاطاً عبادتوں کو انجام دے یااستبراء کرے اور بغیر استبراء کئے عبادتوں کو ترک کرنا جائز نہیں ہے اور استبراء سےمراد یہ کہ تھوڑی سی روئی شرم گاہ کے اندر قرار دے کرانتظار کرے( اور اگر اس کی عادت ایسی ہےکہ اس کا خون دوران حیض تھوڑی مدت کےلئے بند ہوجاتا ہے جیسے کہ کچھ عورتوں کےلئے کہاگیاہے تو اسے چاہئیے کہ زیادہ مقدار میں انتظار کرے) اور اس کے بعد روئی کو باہر لائے پس اگر خون ختم ہوگیاہوتوغسل کرے اور عبادات بجالائے اور اگر خون بندنہ ہواہو(اگرچہ تھوڑاسا زرد پانی لگاہو)پس اگروہ حیض کی معین عادت نہ رکھتی ہویااس کی عادت دس دن کی ہو یا ابھی اس کی عادت کے دس دن تمام نہ ہوئے ہوں تواسے چاہئے کہ انتظارکرے اور اگر دس دن سے پہلے خون ختم ہوجائے تو غسل کرے اور اگردسویں دن کے خاتمے پرخون آنا بندہویاخون دس دن کے بعدبھی آتارہے تودسویں دن غسل کرے اور اگراس کی عادت دس دنوں سے کم ہواور وہ جانتی ہوکہ دس دن ختم ہونے سے پہلے یادسویں دن کے خاتمے پر خون بندہوجائے گاتوغسل کرناضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۹۶)اگرکوئی عورت چنددنوں کوحیض قراردے اورعبادت نہ کرے لیکن بعد میں اسے پتا چلے کہ حیض نہیں تھا تواسے چاہئے کہ جونمازیں اور روزے وہ ان دنوں میں بجانہیں لائی ان کی قضاکرے اور اگرچنددن اس خیال سے عبادات بجالاتی رہی ہو کہ حیض نہیں ہے اوربعدمیں اسے پتا چلے کہ حیض تھاتواگران دنوں میں اس نے روزے بھی رکھے ہوں تو ان کی قضا کرناضروری ہے۔
نفاس
مسئلہ (۴۹۷)بچے کاپہلاجزءماں کے پیٹ سے باہر آنے کے وقت سے جو خون عورت کودس دن کے دوران آتا ہے تووہ خون نفاس ہے اس شرط کے ساتھ کہ ولادت کا خون اس پر صادق آئے اور نفاس کی حالت میں عورت کو’’ نفساء‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۴۹۸)جو خون عورت کو بچے کاپہلا جزباہر آنے سے پہلے آئے وہ نفاس نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۹۹)یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوبلکہ اس کی خلقت نامکمل ہو البتہ علقہ(جمع ہوا خون) اور مضغہ(گوشت کا ٹکڑا) کی حالت سے گزر چکا ہو اور ساقط ہوجائے تو جو خون عورت کودس دن تک آئے خون نفاس ہے۔
مسئلہ (۵۰۰)یہ ہوسکتاہے کہ خون نفاس ایک لحظہ سے زیادہ نہ آئے، اور دس دن سے زیادہ نہیں آتا۔
مسئلہ (۵۰۱)اگرکسی عورت کوشک ہوکہ اسقاط ہواہے یانہیں یاجواسقاط ہواوہ بچہ تھایانہیں تواس کے لئے تحقیق کرناضروری نہیں اور جو خون اسے آئے وہ شرعاً نفاس نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۰۲)جو چیز حائض پر واجب ہے وہ نفساء پربھی واجب ہے اور بنا بر احتیاط واجب مسجد میں ٹھہرنا،عبور کئے بغیر داخل ہونا، دو مسجدوں (مسجد الحرام، مسجد پیغمبرؐ)سے عبور کرنا،آیات سجدۂ واجب کا پڑھنا اور قرآنی الفاظ و نام خدا کامس کرنا نفساء پر حرام ہے۔
مسئلہ (۵۰۳) جوعورت نفاس کی حالت میں ہواسے طلاق دینااور اس سے جماع کرنا حرام ہے، لیکن کفارہ نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۰۴) وہ عورت جو عددکی عادت نہ رکھتی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون نہ آئے تو تمام خون نفاس ہے۔ اگر دس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادتوں کو بجالائے اور اگر بعد میں ایک بار یا ایک بار سے زیادہ خون دیکھے چنانچہ ان دنوں میں جن میں خون دیکھا ہے ان دنوں کے ساتھ جن میں وہ درمیان میں پاک تھی وہ سب ملا کر دس دن یا دس دن سےکم ہوتو جو خون اس نے دیکھا ہے وہ سب خون نفاس ہے اور ان دنوں میں جس میں وہ پاک تھی ضروری ہے کہ احتیاطاً اپنی واجب عبادتوں کو انجام دے اور وہ کام جو نفساء پر حرام ہیں ، چھوڑدے اس بناپر ضروری ہے چنانچہ اگر اس نے روزہ رکھا ہے تو اس کی قضا کرے اور اگر وہ خون جو اس نےآخر میں دیکھا ہے دس دن سے تجاوز کرجائے توضروری ہے کہ اسی مقدار میں جو اس نے دس دنوں کے اندر دیکھاہے اس کو نفاس اور بقیہ کو استحاضہ قرار دے۔
مسئلہ (۵۰۵)وہ عورت جس کی عادت عددی ہو اگر عادت کےدنوں سے خون زیادہ آئے اگرچہ ان دنوں سے تجاوز نہ کرے( بنا بر احتیاط واجب) ان دنوں میں جو عدد کی عادت کے بعد دیکھا ہے نفساء کے محرمات کو ترک کرے اور مستحاضہ کے واجبات کو انجام دے اور اگر ایک بار سے زیادہ خون آئے اور اس کے درمیان پاک ہوجائے تو عاد ت کےایام کی تعداد کےلحاظ سےخون کو نفاس قرار دے اور احتیاطاً درمیان کے ان دنوں میں جن میں خون نہیں آیا اور عادت سے زائد خون کےدنوں میں نفساء کےمحرمات کو ترک اور واجبات کو انجام دے۔
مسئلہ (۵۰۶)اگر کوئی عورت نفاس کےخون سےپاک ہوجائے اور احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون ہے تو یا ضروری ہے کہ احتیاطاً غسل کرے اور اپنی عبادتوں کو انجام دے یا ضروری ہے کہ استبراء کرے اورجائز نہیں ہے کہ بغیر استبراء کئے اپنی عبادتوں کو چھوڑ دے اور استبراء کا طریقہ مسئلہ (۴۹۵ )میں بیان ہوا ہے۔
مسئلہ (۵۰۷)اگرعورت کو نفاس کاخون دس دن سے زیادہ آئے اور وہ حیض میں عادت رکھتی ہوتوعادت کے برابر دنوں کی مدت نفاس اورباقی استحاضہ ہے اور اگرعادت نہ رکھتی ہوتودس دن تک نفاس اورباقی استحاضہ ہے اور اگر اپنی عادت کو بھول گئی ہو تو ضروری ہے کہ عادت کی سب سے زیادہ عدد کو فرض کرے جس کا احتمال دیتی ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے جو عورت عادت رکھتی ہووہ عادت کے بعدکے دن سے اورجوعورت عادت نہ رکھتی ہووہ دسویں دن کے بعدسے بچے کی پیدائش کے اٹھارہویں دن تک استحاضہ کے افعال بجالائے اور وہ کام جونفساء پرحرام ہیں انہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۵۰۸)جوعورت حیض میں عادت رکھتی ہواگراسے بچہ جننے کے بعدایک مہینے تک یاایک مہینے سے زیادہ مدت تک لگاتار خون آتارہے تواس کی عادت کے دنوں کی تعداد کے برابرخون نفاس ہے اور جو خون نفاس کے بعددس دن تک آئے اگر چہ وقتی عادت بھی رکھتی ہو اور وہ اس کی ماہانہ عادت کے دنوں میں آیاہواستحاضہ ہے۔ مثلاًایسی عورت جس کے حیض کی عادت ہر مہینے کی بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک ہواگروہ مہینے کی دس تاریخ کو بچہ جنے اور ایک مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اسے متواتر خون آئے تو سترھویں تاریخ تک نفاس اور سترھویں تاریخ سے دس دن تک کاخون حتیٰ کہ وہ خون بھی جوبیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک اس کی عادت کے دنوں میں آیاہے استحاضہ ہوگااوردس دن گزرنے کے بعدجوخون اسے آئے اگر وقتی عادت رکھتی ہو اور جو خون آیا ہےوہ عادت کے دنوں میں نہ ہو تواس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی عادت کے دنوں کاانتظار کرے اگرچہ اس کے انتظار کی مدت ایک مہینے یاایک مہینے سے زیادہ ہوجائے اورخواہ اس مدت میں جو خون آئے اس میں حیض کی علامات ہوں اور اگروہ وقت کی عادت والی عورت نہ ہواور اس کے لئے ممکن ہو توضروری ہے کہ وہ اپنے حیض کوعلامات کے ذریعے معین کرے(جس کا طریقہ مسئلہ (۴۷۹)میں بیان ہوا) اور اگر ممکن نہ ہوجیساکہ نفاس کے بعد دس دن جو خون آئے وہ ساراایک جیسا ہواور ایک مہینہ یاچندمہینے انھی علامات کے ساتھ آتارہے توضروری ہے کہ ہرمہینے میں اپنے کنبے کی بعض عورتوں کی جو صورت ہو اسی کے مطابق اپنے لئے حیض قرار دے جیسا کہ تفصیل کے ساتھ مسئلہ (۴۷۹ )میں بیان ہوا ہے اور اگریہ ممکن نہ ہو توجو عدداپنے لئے مناسب سمجھتی ہے اختیار کرے اور ان تمام امور کی تفصیل مسئلہ (۴۸۱ )میں گزرچکی ہے۔
مسئلہ (۵۰۹)جوعورت حیض میں عدد کے لحاظ سے عادت نہ رکھتی ہو اگراسے بچہ جننے کے بعدایک مہینے تک یاایک مہینے سے زیادہ مدت تک خون آئے تو اس کے پہلے دس دن کو نفاس قرار دے اور دوسری دہائی میں جو خون آئے وہ استحاضہ ہے اور جو خون اسے اس کے بعد آئے ممکن ہے وہ حیض ہو اور ممکن ہے استحاضہ ہواور حیض قراردینے کے لئے ضروری ہے کہ اس حکم کے مطابق عمل کرے جس کا ذکرسابقہ مسئلہ میں گزرچکاہے۔
غسل مس میت ←
→ واجب غسل
مسئلہ (۳۹۰)خون استحاضہ زیادہ ترزرد رنگ کااورٹھنڈاہوتاہے اور فشار اور جلن کے بغیر خارج ہوتاہے اورگاڑھابھی نہیں ہوتالیکن ممکن ہے کہ کبھی سیاہ یاسرخ اورگرم اور گاڑھاہواورفشار اور سوزش کے ساتھ خارج ہو۔
مسئلہ (۳۹۱)استحاضہ تین قسم کاہوتاہے: قلیلہ، متوسطہ اور کثیرہ۔
استحاضۂ قلیلہ: یہ ہے کہ خون صرف اس روئی کے اوپروالے حصہ کوآلودہ کرے جو عورت اپنی شرم گاہ میں رکھے اوراس روئی کے اندرتک سرایت نہ کرے۔
استحاضۂ متوسطہ: یہ ہے کہ خون روئی کے اندرتک چلاجائے اگرچہ اس کے ایک کونے تک ہی ہو، لیکن روئی سے اس کپڑے تک نہ پہنچے جو عورتیں عموماً خون روکنے کے لئے باندھتی ہیں ۔
استحاضۂ کثیرہ: یہ ہے کہ خون روئی سے تجاوز کرکے کپڑے تک پہنچ جائے۔
استحاضہ کے احکام
مسئلہ (۳۹۲)استحاضۂ قلیلہ میں ہرنماز کے لئے علیٰحدہ وضوکرناضروری ہے اور( احتیاط مستحب کی بناپر)روئی کودھولے یااسے تبدیل کردے اور اگرشرم گاہ کے ظاہری حصے پر خون ہوتواسے بھی دھوناضروری ہے۔
مسئلہ (۳۹۳)استحاضۂ متوسطہ میں ( احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ عورت اپنی نمازوں کے لئے روزانہ ایک غسل کرے اوریہ بھی ضروری ہے استحاضۂ قلیلہ کے وہ افعال سرانجام دے جوسابقہ مسئلہ میں بیان ہوچکے ہیں چنانچہ اگرصبح کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران عورت کواستحاضہ آجائے تو صبح کی نماز کے لئے غسل کرناضروری ہے۔ اگر جان بوجھ کریابھول کرصبح کی نماز کے لئے غسل نہ کرے توظہراورعصر کی نماز کے لئے غسل کرناضروری ہے اوراگرنماز ظہراورعصرکے لئے غسل نہ کرے تونماز مغرب وعشاء سے پہلے غسل کرناضروری ہے خواہ خون آرہاہویابندہوچکاہو۔
مسئلہ (۳۹۴)استحاضۂ کثیرہ میں ( احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ عورت ہر نماز کے لئے روئی اور کپڑے کاٹکڑاتبدیل کرے یا اسے دھوئے اورایک غسل فجرکی نماز کے لئے اور ایک غسل ظہروعصر کی اور ایک غسل مغرب وعشاء کی نماز کے لئے کرنا ضروری ہے اور ظہر اورعصر کی اور مغرب و عشاء کی نمازوں کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اور اگرفاصلہ رکھے توعصر اور عشاءکی نماز کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے۔ یہ مذکورہ احکام اس صورت میں ہیں اگرخون باربار روئی سے کپڑے پرپہنچ جائے۔ اگرروئی سے کپڑے تک خون پہنچنے میں اتنافاصلہ ہوجائے کہ عورت اس فاصلہ کے اندرایک نمازیاایک سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہوتواحتیاط لازم یہ ہے کہ جب خون روئی سے کپڑے تک پہنچ جائے تو روئی اور کپڑے کو تبدیل کرلے یادھولے اور غسل کرلے۔ اسی بناپراگرعورت غسل کرے اور مثلاً ظہر کی نماز پڑھے لیکن عصرکی نماز سے پہلے یانماز کے دوران دوبارہ خون روئی سے کپڑے پر پہنچ جائے توعصر کی نماز کے لئے بھی غسل کرناضروری ہے۔ لیکن اگر فاصلہ اتناہو کہ عورت اس دوران دویادوسے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو، مثلاً مغرب اورعشاء کی نماز خون کے دوبارہ کپڑے پرپہنچنے سے پہلے پڑھ سکتی ہوتولازم نہیں ہے کہ ان نمازوں کے لئے دوبارہ غسل کرے۔ ان تمام صورتوں میں یہ ہے کہ استحاضۂ کثیرہ میں غسل کرنا وضوکے لئے بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۳۹۵)اگرخون استحاضہ نمازکے وقت سے پہلے بھی آئے اور عورت نے اس خون کے لئے وضو یاغسل نہ کیاہوتونماز کے وقت وضو یاغسل کرناضروری ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔
مسئلہ (۳۹۶)مستحاضۂ متوسطہ جس کے لئے وضو اور غسل کرناضروری ہے( احتیاط لازم کی بناپر)اسے چاہئے کہ پہلے غسل کرے اوربعدمیں وضوکرے، لیکن مستحاضۂ کثیرہ میں اگروضوکرناچاہے توضروری ہے کہ وضو غسل سے پہلے کرے۔
مسئلہ (۳۹۷)اگرعورت کااستحاضۂ قلیلہ صبح کی نماز کے بعدمتوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لئے غسل کرے اور اگرظہر اور عصر کی نماز کے بعد متوسطہ ہو تومغرب اور عشاء کی نمازکے لئے غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۳۹۸)اگرعورت کااستحاضہ قلیلہ یامتوسطہ صبح کی نماز کے بعدکثیرہ ہوجائے اوروہ عورت اسی حالت پرباقی رہے تومسئلہ ( ۳۹۴ )میں جواحکام گزرچکے ہیں نماز ظہرو عصر اور مغرب وعشاء پڑھنے کے لئے ان پرعمل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۳۹۹) مستحاضۂ کثیرہ کی جس صورت میں نماز اور غسل کے درمیان ضروری ہے کہ فاصلہ نہ ہوجیساکہ مسئلہ (۳۹۴ )میں گزرچکاہے اگرنماز کاوقت داخل ہونے سے پہلے غسل کرنے کی وجہ سے نماز اور غسل میں فاصلہ ہوجائے تواس غسل کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہے اور مستحاضہ نماز کے لئے دوبارہ غسل کرے اور یہی حکم مستحاضۂ متوسطہ کے لئے بھی ہے۔
مسئلہ (۴۰۰)ضروری ہے کہ مستحاضۂ قلیلہ ومتوسطہ میں عورت( روزانہ کی نمازوں کے علاوہ جن کے بارے میں حکم اوپربیان ہوچکاہے) ہرنماز کے لئے خواہ وہ واجب ہویامستحب وضو کرے، لیکن اگروہ چاہے کہ روزانہ کی وہ نمازیں جووہ پڑھ چکی ہواحتیاطاً دوبارہ پڑھے یاجونمازاس نے تنہاپڑھی ہے دوبارہ باجماعت پڑھے تو ضروری ہے کہ وہ تمام افعال بجالائے جن کاذکراستحاضہ کے سلسلے میں کیاگیاہے،البتہ اگروہ نمازاحتیاط، بھولے ہوئے سجدے اوربھولے ہوئے تشہدکو( نماز کے فوراً بعدپڑھے) اور اسی طرح سجدئہ سہوکسی بھی صورت میں کرے تواس کے لئے استحاضہ کے افعال کا انجام دینا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۰۱)اگرکسی مستحاضہ عورت کاخون رک جائے تواس کے بعدجوپہلی نماز پڑھے صرف اس کے لئے استحاضہ کے افعال انجام دیناضروری ہے۔ لیکن بعدکی نمازوں کے لئے ایساکرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۴۰۲)اگرکسی عورت کویہ معلوم نہ ہو کہ اس کااستحاضہ کون ساہے توجب نماز پڑھناچاہے توبطور احتیاط ضروری ہے کہ تحقیق کرنے کے لئے پہلے تھوڑی سی روئی شرم گاہ میں رکھے اور کچھ دیرانتظار کرے اورپھرروئی نکال لے اور جب اسے پتا چل جائے کہ اس کا استحاضہ تین اقسام میں سے کون سی قسم کاہے تواس قسم کے استحاضہ کے لئے جن افعال کاحکم دیاگیاہے انہیں انجام دے۔ لیکن اگروہ جانتی ہو کہ جس وقت تک وہ نماز پڑھنا چاہتی ہے اس کااستخاضہ تبدیل نہیں ہوگاتونماز کاوقت داخل ہونے سے پہلے بھی وہ اپنے بارے میں تحقیق کرسکتی ہے۔
مسئلہ (۴۰۳)اگرمستحاضہ عورت اپنے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے نماز میں مشغول ہو جائے تواگروہ قربت کاقصدرکھتی ہواوراس نے اپنے وظیفے کے مطابق عمل کیاہو مثلاً اس کا استحاضۂ قلیلہ ہواوراس نے استحاضۂ قلیلہ کے مطابق عمل کیاہوتواس کی نماز صحیح ہے، لیکن اگروہ قربت کا قصدنہ رکھتی ہویا اس کاعمل اس کے وظیفہ کے مطابق نہ ہومثلاً اس کا استحاضہ متوسطہ ہواور اس نے عمل استحاضۂ قلیلہ کے مطابق کیاہوتواس کی نماز باطل ہے۔
مسئلہ (۴۰۴)اگرمستحاضہ عورت اپنے بارے میں تحقیق نہ کرسکے توضروری ہے کہ جواس کا یقینی وظیفہ ہواس کے مطابق عمل کرے مثلاً اگروہ یہ نہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضۂ قلیلہ ہے یا متوسطہ توضروری ہے کہ استحاضۂ قلیلہ کے افعال انجام دے اوراگروہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کااستحاضہ متوسطہ ہے یاکثیرہ توضروری ہے کہ استحاضۂ متوسطہ کے افعال انجام دے، لیکن اگروہ جانتی ہوکہ اس سے پیشتراسے ان تین اقسام میں سے کون سی قسم کا استحاضہ تھاتوضروری ہے کہ اسی قسم کے استحاضہ کے مطابق اپناوظیفہ انجام دے۔
مسئلہ (۴۰۵)اگراستحاضہ کاخون اپنے ابتدائی مرحلے پرجسم کے اندرہی ہواورباہر نہ نکلے توعورت نے جو وضویاغسل کیاہواسے باطل نہیں کرتا، لیکن اگرباہر آجائے تو خواہ کتناہی کم کیوں نہ ہووضواورغسل کوباطل کردیتاہے۔
مسئلہ (۴۰۶)مستحاضہ عورت اگرنماز کے بعداپنے بارے میں تحقیق کرے اور خون نہ دیکھے تواگرچہ اسے علم ہو کہ دوبارہ خون آئے گاجووضووہ کئے ہوئے ہے اسی سے نماز پڑھ سکتی ہے۔
مسئلہ (۴۰۷) مستحاضہ عورت اگریہ جانتی ہوکہ جس وقت سے وہ وضو یاغسل میں مشغول ہوئی ہے خون اس کے بدن سے باہر نہیں آیااورنہ ہی شرم گاہ کے اندرہے توجب تک اسے پاک رہنے کایقین ہونماز پڑھنے میں تاخیرکرسکتی ہے۔
مسئلہ (۴۰۸)اگرمستحاضہ کویقین ہوکہ نمازکاوقت گزرنے سے پہلے پوری طرح پاک ہوجائے گی یااندازاً جتناوقت نماز پڑھنے میں لگتاہے اس میں خون آنابندہوجائے گا تو (احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ انتظارکرے اوراس وقت نماز پڑھے جب پاک ہو۔
مسئلہ (۴۰۹)اگروضواورغسل کے بعدخون آنابظاہربندہوجائے اورمستحاضہ کو معلوم ہوکہ اگرنماز پڑھنے میں تاخیرکرے توجتنی دیرمیں وضو، غسل اورنمازبجالائے گی بالکل پاک ہوجائے گی تو(احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ نماز کوموخرکردے اورجب بالکل پاک ہوجائے تودوبارہ وضواورغسل کرکے نماز پڑھے اوراگرخون کے بظاہر بند ہونے کے وقت نماز کاوقت تنگ ہوتووضواورغسل دوبارہ کرناضروری نہیں بلکہ جووضو اور غسل اس نے کیا ہوا ہے انہی کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔
مسئلہ (۴۱۰)مستحاضۂ کثیرہ جب خون سے بالکل پاک ہوجائے اگراسے معلوم ہو کہ جس وقت سے اس نے گذشتہ نماز کے لئے غسل کیاتھااس وقت تک خون نہیں آیا تو دوبارہ غسل کرناضروری نہیں ہے بصورت دیگرغسل کرناضروری ہے۔(اگرچہ اس حکم کا بطور کلی ہونااحتیاط کی بناپرہے) اور مستحاضۂ متوسطہ میں ضروری نہیں ہے کہ خون سے بالکل پاک ہوجائے پھرغسل کرے۔
مسئلہ (۴۱۱)مستحاضۂ قلیلہ کووضوکے بعداورمستحاضۂ متوسطہ کوغسل اوروضو کے بعد اور مستحاضۂ کثیرہ کو غسل کے بعدان دوصورتوں کے علاوہ جومسئلہ ( ۳۹۴ )اور (۴۰۷)میں آیا ہے فوراً نماز میں مشغول ہوناضروری ہے۔لیکن نماز سے پہلے اذان اوراقامت کہنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ نمازمیں مستحب کام مثلاً قنوت وغیرہ پڑھ سکتی ہے۔
مسئلہ (۴۱۲)اگرمستحاضہ جس کاوظیفہ یہ ہوکہ وضویاغسل اورنمازکے درمیان فاصلہ نہ رکھے اگر اس نے اپنے وظیفہ کے مطابق عمل نہ کیاہوتوضروری ہے کہ وضو یاغسل کرنے کے بعدفوراً نمازمیں مشغول ہوجائے۔
مسئلہ (۴۱۳)اگرعورت کاخون استحاضہ جاری رہے اور بند نہ ہوتا ہو اور خون کا روکنا اس کے لئے مضرنہ ہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ غسل کے پہلےخون کو باہر آنے سے روکے اور اگرایسا کرنے میں کوتاہی برتے اور خون نکل آئے تو جونماز پڑھ لی ہواسے دوبارہ پڑھے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
مسئلہ (۴۱۴)اگرغسل کرتے وقت خون نہ رکے توغسل صحیح ہے، لیکن اگر غسل کے دوران استحاضۂ متوسطہ استحاضۂ کثیرہ ہوجائے توازسرنوغسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۱۵)احتیاط مستحب یہ ہے کہ مستحاضہ روزے سے ہوتوسارادن جہاں تک ممکن ہوخون کونکلنے سے روکے۔
مسئلہ (۴۱۶)مشہور قول کی بناپرمستحاضۂ کثیرہ کاروزہ اس صورت میں صحیح ہوگا کہ جس رات کے بعدکے دن وہ روزہ رکھناچاہتی ہواس رات کی مغرب اور عشاء کی نماز کا غسل کرے۔اس کےعلاوہ دن کے وقت وہ غسل انجام دے جودن کی نمازوں کے لئے واجب ہیں ، لیکن کچھ بعیدنہیں کہ اس کے روزے کی صحت کاانحصار غسل پرنہ ہو۔ اسی طرح (بنابراقویٰ) مستحاضہ متوسطہ میں یہ غسل شرط نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۱۷)اگرعورت عصرکی نمازکے بعدمستحاضہ ہوجائے اورغروب آفتاب تک غسل نہ کرے تواس کاروزہ بلااشکال صحیح ہے۔
مسئلہ (۴۱۸)اگرکسی عورت کااستحاضۂ قلیلہ نمازسے پہلے متوسطہ یاکثیرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ متوسطہ یاکثیرہ کے افعال جن کااوپرذکرہوچکاہے انجام دے اور اگر استحاضۂ متوسطہ کثیرہ ہوجائے توچاہئے کہ استحاضۂ کثیرہ کے افعال انجام دے۔ چنانچہ اگر وہ استحاضۂ متوسطہ کے لئے غسل کرچکی ہوتواس کایہ غسل بے فائدہ ہوگااوراسے استحاضۂ کثیرہ کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۱۹)اگرنماز کے دوران کسی عورت کااستحاضۂ متوسطہ کثیرہ میں بدل جائے تو ضروری ہے کہ نماز توڑدے اوراستحاضۂ کثیرہ کے لئے غسل کرے اوراس کے دوسرے افعال انجام دے اورپھراسی نمازکو پڑھے اور(احتیاط مستحب کی بناپر)غسل سے پہلے وضو کرے اوراگراس کے پاس غسل کے لئے وقت نہ ہوتو غسل کے بدلے تیمم کرناضروری ہے اوراگرتیمم کے لئے بھی وقت نہ ہوتو (احتیاط کی بناپر)نمازنہ توڑے اور اسی حالت میں ختم کرے، لیکن ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعداس نماز کی قضاکرے اور اسی طرح اگر نماز کے دوران اس کااستحاضۂ قلیلہ استحاضۂ متوسطہ یاکثیرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نماز کوتوڑدے اور استحاضۂ متوسطہ یاکثیرہ کے افعال انجام دے۔
مسئلہ (۴۲۰)اگرنمازکے دوران خون بندہوجائے اورمستحاضہ کومعلوم نہ ہوکہ باطن میں بھی خون بندہواہے یانہیں یا نہ جانتی ہو کہ پاکیزگی اتنی مقدار میں ہے کہ طہارت حاصل کرکے نماز یا نماز کاحصہ انجام دےپائے گی یانہیں تو( احتیاط واجب کی بناء پر ) اپنے وظیفہ کے مطابق وضو یا غسل کرے اور نماز کو دوبارہ بجالائے۔
مسئلہ (۴۲۱)اگرکسی عورت کااستحاضۂ کثیرہ متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ پہلی نماز کے لئے کثیرہ کاعمل اوربعدکی نمازوں کے لئے متوسطہ کاعمل بجالائے مثلاً اگرظہر کی نماز سے پہلے استحاضۂ کثیرہ متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ ظہرکی نماز کے لئے غسل کرے اورنماز عصر ومغرب وعشاء کے لئے صرف وضو کرے لیکن اگرنماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عصر کے لئے وقت باقی ہوتو ضروری ہے کہ نماز عصر کے لئے غسل کرے اوراگرنماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے توضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگراس کے لئے بھی غسل نہ کرے اوراس کے پاس صرف نماز عشاء کے لئے وقت ہوتونماز عشاء کے لئے غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۲۲)اگرہرنمازسے پہلے مستحاضۂ کثیرہ کاخون بندہوجائے اور دوبارہ آجائے توہرنماز کے لئے غسل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۲۳) اگراستحاضۂ کثیرہ قلیلہ ہوجائے توضروری ہے کہ وہ عورت پہلی نماز کے لئے کثیرہ والے اور بعدکی نمازوں کے لئے قلیلہ والے افعال بجالائے اور اگراستحاضۂ متوسطہ، قلیلہ ہوجائے تو اگر پہلے متوسطہ کا عمل انجام نہ دیا تو پہلی نمازکےلئے متوسطہ کا عمل انجام دے۔
مسئلہ (۴۲۴) مستحاضہ کے لئے جوافعال واجب ہیں اگروہ ان میں سے کسی ایک کوبھی ترک کردے تو اس کی نماز باطل ہے۔
مسئلہ (۴۲۵) مستحاضۂ قلیلہ یامتوسطہ اگرنماز کے علاوہ وہ کام انجام دیناچاہتی ہو جس کے لئے وضو کاہوناشرط ہے مثلاً اپنے بدن کاکوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرنا چاہتی ہوتونماز اداکرنے کے بعد(احتیاط واجب کی بنا پر)وضوکرناضروری ہے اوروہ وضوجونماز کے لئے کیا تھاکافی نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۲۶)جس مستحاضہ نے اپنے واجب غسل کرلئے ہوں اس کامسجد میں جانا اور وہاں ٹھہرنااوروہ آیات پڑھناجن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہوجاتاہے اوراس کے شوہر کااس کے ساتھ مجامعت کرناحلال ہے۔ خواہ اس نے وہ افعال جووہ نماز کے لئے انجام دیتی تھی مثلاً روئی اورکپڑے کے ٹکڑے کوتبدیل نہ کیا ہو بلکہ یہ افعال بغیر غسل بھی جائزہیں ۔
مسئلہ (۴۲۷)جوعورت استحاضۂ کثیرہ یامتوسطہ میں ہواگروہ چاہے کہ نماز کے وقت سے پہلے اس آیت کوپڑھے جس کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہوجاتاہے یامسجد میں جائے تو(احتیاط مستحب کی بناپر) ضروری ہے کہ غسل کرے اور اگراس کاشوہر اس سے مجامعت کرناچاہے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۴۲۸)مستحاضہ پرنماز آیات کاپڑھناواجب ہے نماز آیات اداکرنے کے لئے یومیہ نمازوں کے لئے بیان کئے گئے تمام اعمال انجام دیناضروری ہیں ۔
مسئلہ (۴۲۹) جب بھی یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیات مستحاضہ پرواجب ہو جائے اوروہ چاہے کہ ان دونوں نمازوں کویکے بعددیگرے اداکرے تب بھی (احتیاط لازم کی بناپر)وہ ان دونوں کوایک وضواورغسل سے نہیں پڑھ سکتی۔
مسئلہ (۴۳۰) اگرمستحاضہ عورت قضانمازپڑھناچاہے توضروری ہے کہ نماز کے لئے وہ افعال انجام دے جو ادا نماز کے لئے اس پر واجب ہیں اور احتیاط کی بناپر قضا نماز کے لئے ان افعال پراکتفانہیں کرسکتی جو اس نے ادانماز کے لئے انجام دیئے ہوں ۔
مسئلہ (۴۳۱)اگرکوئی عورت جانتی ہوکہ جوخون اسے آرہاہے وہ زخم کاخون نہیں ہے، لیکن اس خون کے استحاضہ، حیض یانفاس ہونے کے بارے میں شک کرے اور شرعاً وہ خون حیض ونفاس کاحکم بھی نہ رکھتاہوتوضروری ہے کہ استحاضہ والے احکام کے مطابق عمل کرے۔ بلکہ اگراسے شک ہوکہ یہ خون استحاضہ ہے یاکوئی دوسرااوروہ دوسرے خون کی علامات بھی نہ رکھتاہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)استحاضہ کے افعال انجام دیناضروری ہیں ۔
حیض
حیض وہ خون ہے جوعموماً ہرمہینے چنددنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتاہے اور عورت کو جب حیض کاخون آئے تواسے’’ حائض‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۴۳۲) حیض کاخون عموماً گاڑھااورگرم ہوتاہے اوراس کارنگ سیاہ یاسرخ ہوتا ہے۔ وہ اچھل کراورتھوڑی سی جلن کے ساتھ خارج ہوتاہے۔
مسئلہ (۴۳۳)وہ خون جوعورتوں کوساٹھ برس پورے کرنے کے بعدآتاہے حیض کا حکم نہیں رکھتا۔ لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ عورتیں جو غیر قریشی (غیر سیدہ) ہیں وہ پچاس سے ساٹھ سال عمر کے دوران خون اس طرح دیکھیں کہ اگر وہ پچاس سال سے پہلے خون دیکھتیں تو وہ خون یقیناً حیض کا حکم رکھتا تو وہ مستحاضہ والے افعال بجالائیں ۔
مسئلہ (۴۳۴)اگرکسی لڑکی کونوسال کی عمرتک پہنچنے سے پہلے خون آئے تووہ حیض نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۳۵)حاملہ اوربچے کودودھ پلانے والی عورت کوبھی حیض آناممکن ہے اور حاملہ اور غیر حاملہ کا حکم ایک ہی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بیس روزبعد بھی اگرحیض کی علامتوں کے ساتھ خون دیکھے تواس کے لئے (احتیاط کی بناپر)ضروری ہے کہ وہ ان کاموں کوترک کردے جنہیں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔
مسئلہ (۴۳۶) اگرکسی ایسی لڑکی کوخون آئے جسے اپنی عمر کے نوسال پورے ہونے کا علم نہ ہواوراس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں تووہ حیض نہیں ہے اوراگراس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اس پر حیض کاحکم لگانامحل اشکال ہے مگریہ کہ اطمینان ہوجائے کہ یہ حیض ہے اور اس صورت میں یہ معلوم ہوجائے گاکہ اس کی عمرپورے نوسال ہوگئی ہے۔
مسئلہ (۴۳۷)جس عورت کوشک ہوکہ اس کی عمر ساٹھ سال ہوگئی ہے یانہیں اگر وہ خون دیکھے اوریہ نہ جانتی ہوکہ یہ حیض ہے یانہیں تواسے سمجھناچاہئے کہ اس کی عمرساٹھ سال نہیں ہوئی ہے۔
مسئلہ (۴۳۸)حیض کی مدت تین دن سے کم اوردس دن سے زیادہ نہیں ہوتی اور اگرخون آنے کی مدت تین دن سے بھی کم ہوتووہ حیض نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۴۳۹)حیض کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تین دن لگاتار آئے لہٰذا اگر مثال کے طورپرکسی عورت کودودن خون آئے پھرایک دن نہ آئے اورپھرایک دن آجائے تووہ حیض نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۴۰)حیض کی ابتدامیں خون کاباہرآناضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورے تین دن خون نکلتارہے بلکہ اگرشرم گاہ میں خون موجود ہوتوکافی ہے اور اگر تین دنوں میں تھوڑے سے وقت کے لئے بھی کوئی عورت پاک ہوجائے جیساکہ تمام یابعض عورتوں کے درمیان متعارف ہے تب بھی وہ حیض ہے۔
مسئلہ (۴۴۱)ایک عورت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا خون پہلی رات اور چوتھی رات کوباہر نکلے لیکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اورتیسری رات کو منقطع نہ ہوپس اگر پہلے دن صبح سویرے سے تیسرے دن غروب آفتاب تک متواترخون آتارہے اورکسی وقت بندنہ ہوتووہ حیض ہے اور اگرپہلے دن دوپہرسے خون آناشروع ہواور چوتھے دن اسی وقت بندہوتواس کی صورت بھی یہی ہے (یعنی وہ بھی حیض ہے)۔
مسئلہ (۴۴۲) اگرکسی عورت کوتین دن متواترخون آتارہے پھروہ پاک ہوجائے چنانچہ اگروہ دوبارہ خون دیکھے توجن دنوں میں وہ خون دیکھے اورجن دنوں میں وہ پاک ہو ان تمام دنوں کوملاکراگردس دن سے زیادہ نہ ہوں توجن دنوں میں وہ خون دیکھے وہ حیض کے دن ہیں ، لیکن احتیاط لازم کی بناپرپاکی کے دنوں میں وہ ان تمام امورکوجوپاک عورت پرواجب ہیں انھیں انجام دے اور جو امورحائض کے لئے حرام ہیں انہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۴۴۳)اگرکسی عورت کوتین دن سے زیادہ اوردس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہوکہ یہ خون پھوڑے یازخم کاہے یاحیض کاتواسے چاہئے کہ اس خون کوحیض نہ سمجھے۔
مسئلہ (۴۴۴)اگرکسی عورت کوایساخون آئے جس کے بارے میں اسے علم نہ ہوکہ زخم کاخون ہے یاحیض کا،توضروری ہے کہ اپنی عبادات بجالاتی رہے۔ لیکن اگراس کی سابقہ حالت حیض کی رہی ہوتواس صورت میں اسے حیض قراردے۔
مسئلہ (۴۴۵) اگرکسی عورت کوخون آئے اوراسے شک ہوکہ یہ خون حیض ہے یا استحاضہ توضروری ہے کہ حیض کی شرائط موجودہونے کی صورت میں اسے حیض قرار دے۔
مسئلہ (۴۴۶) اگرکسی عورت کوخون آئے اوراسے یہ معلوم نہ ہوکہ یہ حیض ہے یا بکارت کاخون ہے توضروری ہے کہ اپنے بارے میں تحقیق کرے یعنی کچھ روئی شرم گاہ میں رکھے اورتھوڑی دیرانتظار کرے۔پھرروئی باہر نکالے، پس اگرخون روئی کے اطراف میں لگاہوتوخون بکارت ہے اور اگرساری کی ساری روئی خون میں ترہوجائے تو حیض ہے۔
مسئلہ (۴۴۷)اگرکسی عورت کوتین دن سے کم مدت تک خون آئے اورپھر بندہو جائے اورتین دن تک خون آئے تودوسراخون حیض ہے اورپہلا خون خواہ وہ اس کی عادت کے دنوں ہی میں آیاہوحیض نہیں ہے۔
حائض کے احکام
مسئلہ (۴۴۸)چندچیزیں حائض پرحرام ہیں :
۱:) نمازاوراس جیسی دیگرعبادتیں جنہیں وضویاغسل یاتیمم کے ساتھ اداکرنا ضروری ہے۔اگر حائض عورت ان جیسے اعمال کو عمل صحیح کے طورپر بجالائے تو جائز نہیں ہے لیکن ان عبادتوں کے اداکرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے لئے وضو، غسل یا تیمم کرناضروری نہیں (جیسے نماز میت)۔
۲:) وہ تمام چیزیں جومجنب پرحرام ہیں اوران کاذکرجنابت کے احکام میں آچکاہے۔
۳:) عورت کی شرم گاہ میں جماع کرناجومرداورعورت دونوں کے لئے حرام ہے خواہ دخول صرف سپاری کی حد تک ہی ہواورمنی بھی خارج نہ ہوبلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سپاری سے کم مقدارمیں بھی دخول نہ کیاجائےاور یہ حکم دبر(پیچھے کی شرم گاہ) میں مجامعت کو شامل نہیں کرتا لیکن احتیاط کی بناء پر عورت کی دبر میں اگر راضی نہ ہوتو چاہے حائض ہو یا نہ ہو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۴۹)ان دنوں میں بھی جماع کرناحرام ہے جن میں عورت کاحیض یقینی نہ ہو، لیکن شرعاً اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کوحائض قراردے۔ پس جس عورت کو دس دن سے زیادہ خون آیاہو اوراس کے لئے ضروری ہوکہ اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں کیاجائے گااپنے آپ کواتنے دن کے لئے حائض قراردے جتنے دن کی اس کے کنبے کی عورتوں کوعادت ہوتواس کاشوہر ان دنوں میں اس سے مجامعت نہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۴۵۰)اگرمرداپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے تواس کے لئے ضروری ہے کہ استغفار کرے اور کفارہ واجب نہیں ہے اگر چہ بہتر ہے اور اس کا کفارہ حیض کے ابتدائی حصے میں ایک مثقال سکہ دار سونا اور دوسرے حصہ میں آدھا مثقال اور تیسرے حصہ میں چوتھائی مثقال ہے اور مثقال شرعی( ۱۸)چنے ہیں ۔
مسئلہ (۴۵۱)حائض سے مجامعت کے علاوہ دوسری لطف اندوزیوں مثلاً بوسہ لینے اور باہمی چھیڑ چھاڑ کی ممانعت نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۵۲)جیساکہ طلاق کے احکام میں بتایاجائے گاعورت کوحیض کی حالت میں طلاق دیناباطل ہے۔
مسئلہ (۴۵۳)اگرعورت کہے کہ میں حائض ہوں یایہ کہے کہ میں حیض سے پاک ہوں اوروہ غلط بیانی نہ کرتی ہوتواس کی بات قبول کی جائے، لیکن اگرغلط بیاں ہوتو اس کی بات قبول کرنے میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۴۵۴) اگرکوئی عورت نماز کے دوران حائض ہوجائے تواس کی نماز باطل ہے۔ یہاں تک کہ آخری سجدہ کے بعد اور آخری سلام کے آخری حرف سے پہلے بھی حیض آجائے تو احتیاط واجب کی بناء پرنماز باطل ہے۔
مسئلہ (۴۵۵) اگرعورت نماز کے دوران شک کرے کہ حائض ہوئی ہے یانہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ نماز کے دوران حائض ہوگئی تھی تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ باطل ہےجیسا کہ اس سے قبل گذر چکا ہے۔
مسئلہ (۴۵۶)عورت کے حیض سے پاک ہوجانے کے بعداس پرواجب ہے کہ نماز اوردوسری عبادات کے لئے جووضو، غسل یاتیمم کرکے بجالانا چاہئے غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اوروضو سے کفایت کرے گا اور بہتر یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضو بھی کرے۔
مسئلہ (۴۵۷)عورت کے حیض سے پاک ہوجانے کے بعداگرچہ اس نے غسل نہ کیاہواسے طلاق دینا صحیح ہے اور اس کاشوہر اس سے جماع بھی کرسکتاہے، لیکن احتیاط لازم یہ ہے کہ جماع شرم گاہ دھونے کے بعدکیاجائے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے غسل کرنے سے پہلے مرداس سے جماع نہ کرے۔البتہ جب تک وہ عورت غسل نہ کرلے وہ دوسرے کام جوحیض کے وقت اس پرحرام تھے( مثلاً قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا)اس پرحلال نہیں ہوتےجب تک غسل نہ کرے اور اسی طرح( احتیاط واجب کی بناء پر) وہ کام بھی ہیں کہ جن کی حرمت کے لئے یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ طہارت کی شرط کی بناء پر ہیں جیسے: مسجد میں قیام کرنا۔
مسئلہ (۴۵۸) اگرپانی (عورت کے) وضو اورغسل کے لئے کافی نہ ہواور تقریباً اتنا ہوکہ اس سے غسل کرسکے توضروری ہے کہ غسل کرے اور بہتریہ ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے اوراگرپانی صرف وضو کے لئے کافی ہواوراتنانہ ہوکہ اس سے غسل کیاجاسکے تو بہتریہ ہے کہ وضوکرے اور غسل کے بدلے تیمم کرناضروری ہے اوراگردونوں میں سے کسی کے لئے بھی پانی نہ ہوتوغسل کے بدلے تیمم کرناضروری ہے اور بہتریہ ہے کہ وضو کے بدلے بھی تیمم کرے۔
مسئلہ (۴۵۹)جونمازیں عورت نے حیض کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا نہیں لیکن رمضان کے وہ روزے جو حیض کی حالت میں نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اوراسی طرح (احتیاط لازم کی بناپر) جوروزے منت کی وجہ سے معین دنوں میں واجب ہوئے ہوں اوراس نے حیض کی حالت میں وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضاکرے۔
مسئلہ (۴۶۰)جب نماز کاوقت ہوجائے اورعورت یہ جان لے (یعنی اسے یقین ہو)کہ اگروہ نمازپڑھنے میں دیر کرے گی توحائض ہوجائے گی توضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اوراگراسے فقط احتمال ہوکہ نماز میں تاخیر کرنے سے وہ حائض ہوجائے گی (احتیاط لازم کی بناپر)یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۴۶۱)اگر عورت نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور ایک مکمل نماز تمام مقدمات (منجملہ پاک کپڑا پہننا اور وضو کرنے) کے ساتھ پڑھنے کا وقت گزر جائے اور اسے حیض آجائے تو اس نماز کی قضا اس عورت پر واجب ہے۔بلکہ اگر وقت داخل ہوگیا ہو جب کہ عورت وضو، غسل یا تیمم کے ہمراہ ایک نماز پڑھ سکتی تھی اور نہیں پڑھا تو( احتیاط واجب کی بناء پر) اس نماز کی قضا کرے خواہ تمام شرائط حاصل کرنے کےلئے کافی مقدار میں وقت نہ رہا ہو لیکن جلدی پڑھنے اور ٹھہرٹھہرکرپڑھنے اور دوسری باتوں کے بارے میں ضروری ہے کہ اپنی عادت کا لحاظ کرے مثلاًاگرایک عورت جو سفر میں نہیں ہےاگر اول وقت میں نماز ظہرنہ پڑھے تواس کی قضااس پراس صورت میں واجب ہوگی جب کہ وضو،غسل یا تیمم کےساتھ چاررکعت نماز پڑھنے کے برابر وقت اول ظہرسے گزر جائے اور وہ حائض ہوجائے اوراس عورت کے لئے جو سفرمیں ہوطہارت حاصل کرنے کے بعددورکعت پڑھنے کے برابروقت گزرجانابھی کافی ہے۔
مسئلہ (۴۶۲)اگرایک عورت نماز کے آخر وقت میں خون سے پاک ہوجائے اور اس کے پاس اندازاً اتنا وقت ہوکہ غسل کرکے ایک یاایک سے زائد رکعت پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگرنہ پڑھے توضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ (۴۶۳) اگرایک حائض کے پاس حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کے لئے وقت نہ ہولیکن تیمم کرکے نماز وقت کے اندرپڑھ سکتی ہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز تیمم کے ساتھ پڑھے اور اگرنہ پڑھے توقضاکرے۔ لیکن اگروقت کی تنگی سے قطع نظرکسی اوروجہ سے اس کافریضہ ہی تیمم کرناہو(مثلاًاگرپانی اس کے لئے مضرہوتو )ضروری ہے کہ تیمم کرکے وہ نماز پڑھے اور اگرنہ پڑھے توضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔
مسئلہ (۴۶۴)اگرکسی عورت کوحیض سے پاک ہوجانے کے بعدشک ہوکہ نماز کے لئے وقت باقی ہے یانہیں تواسے چاہئے کہ نماز پڑھ لے۔
مسئلہ (۴۶۵)اگرکوئی عورت اس خیال سے نمازنہ پڑھے کہ حدث سے پاک ہونے کے بعدایک رکعت نماز پڑھنے کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں ہے، لیکن بعد میں اسے پتا چلے کہ وقت تھاتواس نماز کی قضابجالاناضروری ہے۔
مسئلہ (۴۶۶)حائض کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اورکپڑے کاٹکڑابدلے اوروضوکرے اور اگروضونہ کرسکے توتیمم کرے اور نماز کی جگہ پرروبقبلہ بیٹھ کر ذکر، دعااور صلوات میں مشغول ہوجائے۔
مسئلہ (۴۶۷)حائض کے لئے قرآن مجیدکا پڑھنااوراسے اپنے ساتھ رکھنااور اپنے بدن کاکوئی حصہ اس کے الفاظ کے درمیانی حصے سے مس کرنانیزمہندی یااس جیسی کسی اور چیز سے خضاب کرنا کچھ فقہاء کے بیان کے مطابق مکروہ ہے۔
حائض کی قسمیں
مسئلہ (۴۶۸)حائض کی چھ قسمیں ہیں :
۱): وقت اور عددکی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک معین وقت پرحیض آئے اور اس کے حیض کے دنوں کی تعداد بھی دونوں مہینوں میں ایک جیسی ہو۔مثلاً اسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتاہو۔
۲): وقت کی عادت رکھنے والی عورت : یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعددیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر حیض آئے، لیکن اس کے حیض کے دنوں کی تعداد دونوں مہینوں میں ایک جیسی نہ ہو۔مثلاً یکے بعددیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے خون آناشروع ہولیکن وہ پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن خون سے پاک ہو۔
۳): عددکی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعددیگرے دومہینوں میں ایک جیسی ہولیکن ہرمہینے خون آنے کاوقت یکساں نہ ہو۔ مثلاً پہلے مہینے میں اسے پانچویں سے دسویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں بارھویں سے سترھویں تاریخ تک خون آتاہو۔
۴): مضطربہ : یہ وہ عورت ہے جسے چندمہینے خون آیاہولیکن اس کی عادت معین نہ ہوئی ہویااس کی سابقہ عادت بگڑ گئی ہواورنئی عادت نہ بنی ہو۔
۵): مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جسے پہلی دفعہ خون آیاہو۔
۶): ناسیہ : یہ وہ عورت ہے جواپنی عادت بھول چکی ہو۔
ان میں سے ہرقسم کی عورت کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ احکام ہیں جن کاذکرآئندہ مسائل میں کیاجائے گا۔
۱ - وقت اور عددکی عادت رکھنے والی عورت
مسئلہ (۴۶۹)جوعورتیں وقت اورعددکی عادت رکھتی ہیں ان کی دوقسمیں ہیں :
(اول:) وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں ایک معین وقت پر خون آئے اوروہ ایک معین وقت پرہی پاک بھی ہوجائے مثلاً یکے بعددیگرے دومہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ کوخون آئے اوروہ ساتویں روز پاک ہوجائے تواس عورت کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک ہے۔
(دوم:) وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں معین وقت پرخون آئے اور جب تین یا زیادہ دن تک خون آچکے تووہ ایک یازیادہ دنوں کے لئے پاک ہوجائے اور پھراسے دوبارہ خون آجائے اوران تمام دنوں کی تعداد جن میں اسے خون آیاہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں وہ پاک رہی ہے دس سے زیادہ نہ ہواور دونوں مہینوں میں تمام دن جن میں اسے خون آیااوربیچ کے وہ دن جن میں پاک رہی ہوایک جتنے ہوں تواس کی عادت ان تمام دنوں کے مطابق قرار پائے گی جن میں اسے خون آیا لیکن ان دنوں کوشامل نہیں کرسکتی جن کے درمیان پاک رہی ہو۔ پس لازم ہے کہ جن دنوں میں اسے خون آیاہواورجن دنوں میں وہ پاک رہی ہودونوں مہینوں میں ان دنوں کی تعداد ایک جتنی ہومثلاًاگرپہلے مہینے میں اوراسی طرح دوسرے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تک خون آئے اورپھرتین دن پاک رہے اورپھرتین دن دوبارہ خون آئے تواس عورت کی عادت الگ الگ چھ دن کی ہوجائے گی اور درمیان کے تین پاک دنوں میں (احتیاط واجب کی بناء پر) حائض کے محرمات کو چھوڑ دے گی اور مستحاضہ کے اعمال کو بجالائے گی اور اگراسے دوسرے مہینے میں آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس سے کم یازیادہ ہوتویہ عورت وقت کی عادت رکھتی ہے، عد دکی نہیں ۔
مسئلہ (۴۷۰) جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو(خواہ عدد کی عادت رکھتی ہویانہ رکھتی ہو)اگراسے عادت کے وقت یا اس سے ایک دودن یااس سے بھی زیادہ دن پہلے خون آجائے جب کہ یہ کہاجائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہوگئی ہے اگراس خون میں حیض کی علامات نہ بھی ہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان احکام پرعمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اوراگربعدمیں اسے پتا چلے کہ وہ حیض کاخون نہیں تھامثلاً وہ تین دن سے پہلے پاک ہوجائے توضروری ہے کہ جوعبادات اس نے انجام نہ دی ہوں ان کی قضا کرے۔
مسئلہ (۴۷۱)جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے تمام دنوں میں اور عادت سے چنددن پہلے اورعادت کے چنددن بعدخون آئے اوروہ کل ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو وہ سارے کاساراحیض ہے اور اگریہ مدت دس دن سے بڑھ جائے توجو خون اسے عادت کے دنوں میں آیا ہے وہ حیض ہے اورجو عادت سے پہلے یابعدمیں آیاہے وہ استحاضہ ہے اور جوعبادات وہ عادت سے پہلے اوربعدکے دنوں میں بجانہیں لائی ان کی قضاکرناضروری ہے اور اگرعادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت سے کچھ دن پہلے اسے خون آئے اور ان سب دنوں کوملاکر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہوتوسارا حیض ہے اور اگردنوں کی تعداددس سے زیادہ ہوجائے توصرف عادت کے دنوں میں آنے والاخون حیض ہے( اگرچہ اس میں حیض کی علامات نہ ہوں اور اس سے پہلے آنے والاخون حیض کی علامات کے ساتھ ہو) اور جو خون اس سے پہلے آئے وہ استحاضہ ہے اور اگران دنوں میں عبادت نہ کی ہوتوضروری ہے کہ اس کی قضاکرے اور اگرعادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت کے چنددن بعدخون آئے اورکل دنوں کی تعداد ملا کر دس سے زیادہ نہ ہوتوسارے کاساراحیض ہے اوراگریہ تعداددس سے بڑھ جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والاخون حیض ہے اورباقی استحاضہ ہے۔
مسئلہ (۴۷۲) جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے کچھ دنوں میں یاعادت سے پہلے خون آئے اوران تمام دنوں کوملاکران کی تعداددس سے زیادہ نہ ہوتووہ سارے کاساراحیض ہے اوراگران دنوں کی تعداددس سے بڑھ جائے تو جن دنوں میں اسے حسب عادت خون آیاہے اور پہلے کے چنددن شامل کرکے عادت کے دنوں کی تعداد پوری ہونے تک حیض اورشروع کے دنوں کواستحاضہ قرار دے اور اگر عادت کے کچھ دنوں کے ساتھ ساتھ عادت کے بعد کے کچھ دنوں میں خون آئے اور ان سب دنوں کو ملاکران کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہوتوسارے کاساراحیض ہے اوراگر دس سے بڑھ جائے تواسے چاہئے کہ جن دنوں میں عادت کے مطابق خون آیاہے اس میں بعد کے چنددن ملاکرجن دنوں کی مجموعی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوجائے انہیں حیض اورباقی کواستحاضہ قراردے۔
مسئلہ (۴۷۳)جوعورت عادت رکھتی ہواگراس کاخون تین یازیادہ دن تک آنے کے بعدرک جائے اورپھردوبارہ خون آئے اوران دونوں خون کادرمیانی فاصلہ دس دن سے کم ہواوران سب دنوں کی تعدادجن میں خون آیاہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں پاک رہی ہودس سے زیادہ ہو۔ مثلاً پانچ دن خون آیاہوپھرپانچ دن رک گیاہو اور پھرپانچ دن دوبارہ آیاہوتواس کی چندصورتیں ہیں :
۱) وہ تمام خون یااس کی مقدارجوپہلی باردیکھے عادت کے دنوں میں ہواور دوسرا خون جوپاک ہونے کے بعدآیاہے عادت کے دنوں میں نہ ہو۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے تمام خون کوحیض اور دوسرے خون کواستحاضہ قراردے۔مگر یہ کہ دوسرا خون حیض کی علامتیں رکھتاہو کہ اس صورت میں وہ حصہ جو پہلے خون کے حساب کے ساتھ اور اس کے بعد پاک والا حصہ مجموعی طورسے دس دن سے زیادہ نہ ہوتو حیض ہے اور بقیہ استحاضہ ہے۔ مثلاً اگرتین دن خون دیکھے اور تین دن پاک ر ہے اور اس کے بعد پانچ دن خون دیکھے جس میں حیض کی علامتیں ہوں تو پہلا تین دن اور دوسرے خون کا چار دن حیض ہے اور درمیانی طہارت کے دنو ں میں (احتیاط واجب کی بنا پر) غیر حائض کے واجبات کو انجام دے اور حیض کے محرمات کو ترک کرے۔
۲) پہلا خون عادت کے دنوں میں نہ آئے اوردوسرا تمام خون یااس کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے توضروری ہے کہ دوسرے تمام خون کو حیض اورپہلے کواستحاضہ قرار دے۔
۳) دوسرے اور پہلے خون کی کچھ مقدارعادت کے دنوں میں آئے اور ایام عادت میں آنے والاپہلا خون تین دن سے کم نہ ہواس صورت میں درمیان میں پاک رہنے کی مدت اور عادت کے دنوں میں آنے والے دوسرے خون کی مدت دس دن سے زیادہ نہ ہوتودونوں خون حیض ہیں اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ پاکی کی درمیانی مدت میں پاک عورت کے کام بھی انجام دے اور وہ کام جوحائض پر حرام ہیں ترک کرے اور دوسرے خون کی وہ مقدارجو عادت کے دنوں کے بعدآئے استحاضہ ہے اور خون اول کی وہ مقدارجو ایام عادت سے پہلے آئی ہو اور عرفاًکہاجائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہوگئی ہے تووہ خون، حیض کاحکم رکھتاہے۔لیکن اگر اس خون پرحیض کاحکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدارجوعادت کے دنوں میں تھی یاسارے کاساراخون،حیض کے دس دن سے زیادہ ہوجائے تواس صورت میں وہ خون،خون استحاضہ کاحکم رکھتاہے مثلاً اگرعورت کی عادت مہینے کی تیسری سے دسویں تاریخ تک ہواور اسے کسی مہینے کی پہلی سے چھٹی تاریخ تک خون آئے اورپھردودن کے لئے بندہوجائے اورپھرپندرھویں تاریخ تک آئے توتیسری سے دسویں تاریخ تک حیض ہے اور گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک آنے والاخون استحاضہ ہے۔
۴) پہلے اوردوسرے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے لیکن ایام عادت میں آنے والاپہلاخون تین دن سے کم ہو۔ اس صورت میں آخر کے تین دن کے ابتدائی خون کو حیض قرار دینا ضروری ہے اور اسی طرح دوسرے خون کوجس کے مجموعی دن پہلے دنوں کےتین دن کے ساتھ اور درمیان کے پاک دنوں کی تعداد دس دن ہوں تو اگر اس سے زیادہ ہے تو استحاضہ ہے اور اگر اس کی طہارت کے ایام سات دن ہوں تو دوسرے تمام خون کو استحاضہ کہا جائے گالیکن بعض مقامات میں تمام پہلے خون کو حیض قرار دےاوراس میں دوشرطیں ہیں :
(اول:) اسے اپنی عادت سے کچھ دن پہلے خون آیاہوکہ اس کے بارے میں یہ کہاجائے کہ اس کی عادت تبدیل ہوکروقت سے پہلے ہوگئی ہے۔
(دوم:) اگروہ اسے حیض قراردے تویہ لازم نہ آئے کہ اس کے دوسرے خون کی کچھ مقدارجو عادت کے دنوں میں آیاہوحیض کے دس دن سے زیادہ ہوجائے مثلاً اگر عورت کی عادت کی تیسری تاریخ سے دس تاریخ تک تھی اوراسے مہینے کے پہلے دن سے چوتھے دن کے آخری وقت تک خون آئے اوردودن کے لئے پاک ہواورپھردوبارہ اسے پندرہ تاریخ تک خون آئے تواس صورت میں پہلاپورے کاپوراخون حیض ہے اوراسی طرح دوسراوہ خون بھی جودسویں دن کے آخری وقت تک آئے حیض کاخون ہے۔
مسئلہ (۴۷۴)جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے وقت خون نہ آئے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور وقت حیض کے دنوں کی مقدار میں اس کو خون آئے تو اسی خون کوحیض قراردے خواہ وہ عادت کے وقت سے پہلے آئے یا بعدمیں آئے۔
مسئلہ (۴۷۵)جوعورت وقت اورعددکی عادت رکھتی ہواگراسے عادت کے وقت تین یاتین سے زیادہ دن تک خون آئے، لیکن اس کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں سے کم یازیادہ ہواورپاک ہونے کے بعداسے دوبارہ اتنے دنوں کے لئے خون آئے جتنی اس کی عادت ہوتواس کی چندصورتیں ہیں :
۱): دونوں خون کے دنوں اوران کے درمیان پاک رہنے کے دنوں کوملاکر دس دن سے زیادہ نہ ہوتواس صورت میں دونوں خون ایک حیض شمارہوں گے۔
۲): دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن یادس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون میں سے ہرایک کوایک مستقل حیض قراردیاجائے گا۔
۳): ان دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن سے کم ہولیکن ان دونوں خون کواوردرمیان میں پاک رہنے کی ساری مدت کوملاکردس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قراردے۔
مسئلہ (۴۷۶) جو عورت وقت اور عددکی عادت رکھتی ہواگراسے دس سے زیادہ دن تک خون آئے توجو خون اسے عادت کے دنوں میں آئے خواہ وہ حیض کی علامات نہ بھی رکھتاہوتب بھی حیض ہے اور جوخون عادت کے دنوں کے بعدآئے خواہ وہ حیض کی علامات بھی رکھتاہواستحاضہ ہے۔مثلاً اگرایک ایسی عورت جس کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہواسے پہلی سے بارہویں تاریخ تک خون آئے تو پہلے سات دن حیض اوربقیہ پانچ دن استحاضہ کے ہوں گے۔
۲ - وقت کی عادت رکھنے والی عورت
مسئلہ (۴۷۷)جو عورتیں وقت کی عادت رکھتی ہیں اوران کی عادت کی پہلی تاریخ معین ہوان کی دوقسمیں ہیں :
۱): وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں معین وقت پرخون آئے اور چند دنوں بعدبند ہوجائے، لیکن دونوں مہینوں میں خون آنے کے دنوں کی تعداد مختلف ہو۔ مثلاًاسے یکے بعددیگرے دومہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ کوخون آئے لیکن پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن بندہو۔ایسی عورت کو چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کواپنی عادت قراردے۔
۲): وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دو مہینوں میں معین وقت پرتین یازیادہ دن خون آئے اورپھربندہوجائے اورپھردوبارہ خون آئے اوران تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیاہے مع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بندرہاہے دس سے زیادہ نہ ہو،لیکن دوسرے مہینے میں دنوں کی تعداد پہلے مہینے سے کم یازیادہ ہومثلاً پہلے مہینے میں آٹھ دن اور دوسرے مہینے میں نودن بنتے ہوں لیکن دونوں مہینوں میں مہینے کی شروعات میں خون آیا ہو تو اس عورت کوبھی چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کواپنے حیض کی عادت کاپہلا دن قراردے۔
مسئلہ (۴۷۸)وہ عورت جووقت کی عادت رکھتی ہے اگراس کوعادت کے دنوں میں یا عادت سے دوتین دن پہلے خون آئے توضروری ہے کہ وہ عورت ان احکام پرعمل کرے جوحائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور اس صورت کی تفصیل مسئلہ (۴۷۰)میں گزر چکی ہے۔ لیکن ان دوصورتوں کے علاوہ (مثلاً یہ کہ عادت سے اس قدرپہلے خون آئے کہ یہ نہ کہاجاسکے کہ عادت وقت سے قبل ہوگئی ہے بلکہ یہ کہاجائے کہ عادت کی مدت کے علاوہ (یعنی دوسرے وقت میں ) خون آیاہے یایہ کہاجائے کہ عادت کے بعد خون آیاہے) چنانچہ وہ خون حیض کی علامات کے ساتھ آئے توضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جوحائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اوراگراس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں لیکن وہ عورت یہ جان لے کہ خون تین دن تک جاری رہے گاتب بھی یہی حکم ہے اور اگریہ نہ جانتی ہوکہ خون تین دن تک جاری رہے گایانہیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ وہ کام جو مستحاضہ پرواجب ہیں انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۴۷۹)جوعورت وقت کی عادت رکھتی ہے اگراسے عادت کے دنوں میں خون آئے اور اس خون کی مدت دس دن سے زیادہ ہولہٰذا اگر چند دن اس کے خون میں حیض کی نشانی ہو اور کچھ دن نہ ہو اور ان دنوں میں جن میں خون حیض کی نشانی ہو تین دن سے کمتر اور دس دن سے زیادہ نہ ہوں تواس کو حیض اور بقیہ کو استحاضہ قرار دے گی اور اگر یہی خون اسی طرح کی شرطوں کے ساتھ دوبار تکرار ہو مثلاً چار دن خون حیض کی نشانی کے ساتھ اور چار دن استحاضہ کی نشانی کے ساتھ پھر چار دن حیض کی نشانی کے ساتھ ہوتو صرف پہلے خون کو حیض قرار دے اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر خون حیض اپنی نشانیوں کے ساتھ تین دن سے کم ہوتو اس کو حیض قرار دے اور اس کی عدد کو آنے والے دوراستوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ (یا رشتہ دار عورتوں کی طرف رجوع کرے یا عدد کے انتخاب سے معین کرے) اور اگر دس دن سے زیادہ ہوتو اس کے کچھ حصے کو ان ہی دو راستوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ سے اس کو حیض قرار دے اور اگر حیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعہ نہ پہچان سکے یعنی اس کا خون ایک ہی جیسا ہوتو یاپھر وہ خون جس میں حیض کی نشانی ہے دس دن سے زیادہ یا تین دن سے کم ہوتو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ داروں کی عادت کے مقدار کے مطابق اس کو حیض قرار دے چاہے وہ رشتہ ماں کی طرف سے ہویاباپ کی طرف سے زندہ ہویامردہ لیکن اس کی دوشرطیں ہیں :
۱): اسے اپنے حیض کی مقدار اوراس رشتہ دار عورت کی مقدار میں فرق کاعلم نہ ہو مثلاًیہ کہ وہ خودنوجوان ہواورطاقت کے لحاظ سے قوی اور رشتہ دار عورت عمر کے لحاظ سے یائسہ کے نزدیک ہوتو ایسی صورت میں معمولاً عادت کی مقدارکم ہوتی ہےاس صورت کے برعکس بھی اور اس صورت میں بھی جب وہ دوسری رشتہ دار خاتون جو ناقص عدد رکھنے والی ہے جس کا معنی اور حکم مسئلہ ( ۴۸۸ )میں آئے گا ۔
۲): اسے اس عورت کی عادت کی مقدار میں اوراس کی دوسری رشتہ دار عورتوں کی عادت کی مقدارمیں کہ جن میں پہلی شرط موجودہے اختلاف کاعلم نہ ہولیکن اگراختلاف اتناکم ہوکہ اسے اختلاف شمارنہ کیاجاتاہوتوکوئی حرج نہیں ہے اور اس عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے جو وقت کی عادت رکھتی ہے اورعادت کے دنوں میں کوئی خون نہ آئے، لیکن عادت کے وقت کے علاوہ کوئی خون آئے جودس دن سے زیادہ ہواورحیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعے معین نہ کرسکے۔
مسئلہ (۴۸۰) وقت کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کے علاوہ وقت میں آنے والے خون کو حیض قرار نہیں دے سکتی، لہٰذا اگر اسے عادت کاابتدائی وقت معلوم ہو مثلاًہرمہینے کی پہلی کوخون آتاہواورکبھی پانچویں اورکبھی چھٹی کوخون سے پاک ہوتی ہو چنانچہ اسے کسی ایک مہینے میں بارہ دن خون آئے اوروہ حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کرسکے توچاہئے کہ مہینے کی پہلی کو حیض کی پہلی تاریخ قراردے اوراس کی تعداد کے بارے میں جوکچھ پہلے مسئلہ میں بیان کیاگیاہے اس پر عمل کرے اور اگراس کی عادت کی درمیانی یاآخری تاریخ معلوم ہوچنانچہ اگراسے دس دن سے زیادہ خون آئے تو ضروری ہے کہ اس کاحساب اس طرح کرے کہ آخری یا درمیانی تاریخ میں سے ایک اس کی عادت کے دنوں کے مطابق ہو۔
مسئلہ (۴۸۱)جوعورت وقت کی عادت رکھتی ہواوراسے دس دن سے زیادہ خون آئے اوراس خون کو مسئلہ ( ۴۷۹ )میں بتائے گئے طریقے سے معین نہ کرسکے( مثلاً اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں یاپہلے بتائی گئی دوشرطوں میں سے ایک شرط نہ ہو)تواسے اختیار ہے کہ تین دن سے دس دن تک جتنے دن حیض کی مقدار کے مناسب سمجھے حیض قرار دے۔ چھ یاآٹھ دنوں کو اپنے حیض کی مقدار کے مناسب سمجھنے کی صورت میں بہتریہ ہے کہ سات دنوں کوحیض قراردے لیکن ضروری ہے کہ جن دنوں کووہ حیض قرار دے وہ دن اس کی عادت کے وقت کے مطابق ہوں جیساکہ گذشتہ مسئلے میں بیان کیاجا چکا ہے۔
۳ ۔عددکی عادت رکھنے والی عورت
جوعورتیں عددکی عادت رکھتی ہیں ان کی دوقسمیں ہیں :
۱:) وہ عورت جس کے حیض کے دنوں کی تعدادیکے بعدیگرے دو مہینوں میں یکساں ہو لیکن اس کے خون آنے کاوقت ایک جیسانہ ہواس صورت میں جتنے دن اسے خون آئے وہی اس کی عادت ہوگی۔مثلاً اگرپہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک خون آئے تواس کی عادت پانچ دن ہوگی۔
۲:) وہ عورت جسے یکے بعددیگرے دو مہینوں میں سے ہرایک میں تین یاتین سے زیادہ دنوں تک خون آئے اورایک یااس سے زائد دنوں کے لئے بندہوجائے اورپھر دوبارہ خون آئے اور خون آنے کاوقت پہلے مہینے اوردوسرے مہینے میں مختلف ہواس صورت میں اگران تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیاہے بمع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بندرہاہے دس سے زیادہ نہ ہواوردونوں مہینوں میں سے ہرایک میں ان کی تعداد بھی یکساں ہوتووہ تمام دن جن میں خون آیاہے اس کے حیض کی عادت کے دن شمار کئے جائیں گے اور ان درمیانی دنوں میں جن میں خون نہیں آیااحتیاط کی بناپر ضروری ہے کہ جو کام پاک عورت پرواجب ہیں انجام دے اور جوکام حائض پرحرام ہیں انہیں ترک کرے مثلاًاگرپہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اورپھردودن کے لئے بندہوجائے اور پھردوبارہ تین دن خون آئے اوردوسرے مہینے میں گیارہویں سے تیرہویں تک خون آئے اوردو دن کے لئے بندہوجائے اورپھردوبارہ تین دن خون آئے تواس عورت کی عادت چھ دن کی ہوگی اور اگرپہلے مہینے میں اسے آٹھ دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں چاردن خون آئے اور پھربندہوجائے اور پھر دوبارہ آئے اورخون کے دنوں اوردرمیان میں خون بندہوجانے والے دنوں کی مجموعی تعداد آٹھ دن ہو تو یہ عورت عددکی عادت نہیں رکھتی،بلکہ مضطربہ شمار ہوگی جس کاحکم بعدمیں بیان کیاجائے گا۔
مسئلہ (۴۸۲) جوعورت عددکی عادت رکھتی ہواگراسے اپنی عادت کی تعداد سے کم یازیادہ دن خون آئے اوران دنوں کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہوتوان تمام دنوں کوحیض قرار دے اوراگراس کی عادت سے زیادہ خون آئے اور دس دن سے تجاوزکرجائے تو اگر تمام کا تمام خون ایک جیساہوتوخون آنے کی ابتداسے لے کر اس کی عادت کے دنوں تک حیض اور باقی خون کو استحاضہ قراردے اور اگرآنے والاتمام خون ایک جیسانہ ہوبلکہ کچھ دن حیض کی علامات کے ساتھ اورکچھ دن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہوپس اگرحیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کوحیض اورباقی دنوں کواستحاضہ قراردے اوراگران دنوں کی تعداد جن میں خون حیض کی علامات کے ساتھ آیاہوعادت کے دنوں سے زیادہ ہوتو صرف عادت کے دن حیض اور باقی دن استحاضہ ہے اوراگرحیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد عادت کے دنوں سے کم ہوتوضروری ہے کہ ان دنوں کے ساتھ چنداوردنوں کوملاکرعادت کی مدت پوری کرے اور ان کو حیض اورباقی کو استحاضہ قراردے۔
۴ - مضطربہ
مسئلہ (۴۸۳)مضطربہ یعنی وہ عورت جسے دومہینے مسلسل خون آئے لیکن (وقت اور عدد دونوں کے لحاظ سے)اختلاف ہواگراسے دس دن سے زیادہ خون آئے اورساراخون ایک جیساہویعنی تمام خون یاحیض کی نشانیوں کے ساتھ یااستحاضہ کی نشانیوں کے ساتھ آیاہوتواس کاحکم (احتیاط کی بناء پر) وقت کی عادت رکھنے والی عورت کاحکم ہے کہ جسے اپنی عادت کے علاوہ وقت میں خون آئے اورعلامات کے ذریعے حیض کو استحاضہ سے تمیزنہ دے سکتی ہوتوضروری ہےکہ اپنی رشتہ دار عورتوں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قراردے اور اگریہ ممکن نہ ہوتوتین اوردس دن میں درمیان کی عددکو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ( ۴۷۹) اور(۴۸۱ )میں بیان کی گئی ہے اپنے حیض کی عادت قراردے۔
مسئلہ (۴۸۴)اگرمضطربہ کودس دن سے زیادہ خون آئے جس میں سے چنددنوں کے خون میں حیض کی علامات اورچنددوسرے دنوں کے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو مسئلہ ( ۴۷۹ )میں بیان شدہ حکم کے مطابق عمل کرے۔
۵ - مبتدئہ
مسئلہ (۴۸۵) مبتدئہ یعنی اس عورت کوجسے پہلی بارخون آیاہودس دن سے زیادہ خون آئے اوروہ تمام خون جومبتدئہ کوآیاہے ایک جیساہوتواسے چاہئے کہ اپنے کنبے والیوں کی عادت کی مقدار کوحیض اورباقی کوان دوشرطوں کے ساتھ استحاضہ قرار دے جو مسئلہ (۴۷۹ )میں بیان ہوئی ہیں اور اگریہ ممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ مسئلہ ( ۴۸۱ )میں دی گئی تفصیل کے مطابق تین اوردس دن میں سے کسی ایک عددکواپنے حیض کے دن قرار دے۔
مسئلہ (۴۸۶)اگرمبتدئہ کودس سے زیادہ دن تک خون آئے جب کہ چند دن آنے والے خون میں حیض کی علامات اورچنددن آنے والے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں توجس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم اوردس دن سے زیادہ نہ ہو وہ ساراحیض ہے۔لیکن جس خون میں حیض کی علامات تھیں اس کے بعددس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ خون آئے اوراس میں بھی حیض کی علامات ہوں مثلاً پانچ دن سیاہ خون اورنودن زردخون اورپھردوبارہ پانچ دن سیاہ خون آئے تواسے چاہئے کہ پہلے آنے والے خون کوحیض اوربعدمیں آنے والے دونوں خون کو استحاضہ قراردے جیساکہ مضطربہ کے متعلق بتایاگیاہے۔
مسئلہ (۴۸۷)اگرمبتدئہ کودس سے زیادہ دنوں تک خون آئے جوچنددن حیض کی علامات کے ساتھ اورچنددن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہولیکن جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم مدت تک آیاہو یا دس دن سے زیادہ ہو تو اسے چاہئے کہ (۴۷۹)کی ابتداء میں بیان شدہ حکم کے مطابق عمل کرے۔
۶ - ناسیہ
مسئلہ (۴۸۸) ناسیہ یعنی وہ عورت جواپنی عادت کی مقداربھول چکی ہو،یا اپنی عادت کے وقت یا پھر دونوں کو بھول گئی ہوتو اگر اس عورت کے وہاں خون آئے جو تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ تمام کا تمام خون حیض ہے لیکن اگر دس دن سے زیادہ ہوتو اس کی چند قسمیں ہیں :
(۱) وہ عورت وقتی یا عددی عادت یا دونوں عادتیں رکھتی ہو لیکن اسےپورے طورسے فراموش کردیا ہو یہاں تک کہ اجمالی طور پر بھی اس کو ایام یا اس کے عدد بھی یاد نہیں آتے ہیں ۔ یہ عورت مبتدئہ کاحکم رکھتی ہے جو گذر چکا ہے۔
(۲) وہ عورت جو وقت کی عادت رکھتی ہے چاہے عدد کی عادت ہویانہ ہو لیکن اگر وقت کی عادت اس کو اجمالی طور سے یاد ہو مثلاً وہ جانتی ہو فلاں دن اس کی عادت کاحصہ تھا یا اس کی عادت مہینے کے پہلے پندرہ دنوں میں تھی اس طرح کی عورت بھی مبتدئہ کاحکم رکھتی ہے لیکن حیض کو اس وقت قرار نہ دےجو یقینی طور سے اس کی عادت کے خلاف ہو،مثلاً اگر جانتی ہے کہ مہینہ کے سترہویں دن اس کی عادت کا حصہ تھا یا مہینہ کےدوسرے پندرہ دنوں میں اس کی عادت تھی اور اب ہے، پہلے سے بیس تاریخ تک خون آیا ہے تو وہ اپنی عادت کو مہینے کے شروع کے دس دن قرار نہیں دے سکتی یہاں تک کہ اگر اس خون میں حیض کی نشانی ہو اور دوسرے دس دن میں استحاضہ کی نشانی رہی ہو۔
(۳)وہ عورت جو عدد کی عادت رکھتی ہو اور اپنے ایام کی مقدار کو بھول گئی ہو یہ عورت بھی مبتدئہ کاحکم رکھتی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ جس مقدار کو حیض قرار دے رہی ہے وہ اس مقدار سےکم ہوجس کے بارےمیں اسے علم ہےکہ اس کاحیض اس سےکم نہیں ہے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس مقدار سے زیادہ کو حیض قرار دے جس کے بارے میں جانتی ہے کہ اس کی عادت کے دن سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی طرح کے حکم کی ناقص عدد والی عورت بھی اپنی عادت میں رعایت کرے یعنی وہ عورت جس کی عادت کے ایام کی تعداد دو عدد کے درمیان مشتبہ ہو تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم اس طرح کی عورتیں جن کو ہر مہینہ میں یا چھ دن خون آتاہے یا سات دن، تو یہ عورت حیض کی نشانیوں کو دیکھ کر یااپنی رشتہ دار عورتوں کی عادت کو دیکھ کر یا عدد کاانتخاب کرے( اس صورت میں جب دس دن سے زیادہ خون آئے) تو چھ دن سےکم یا سات دن سے زیادہ کو حیض قرار نہیں دے سکتی۔
حیض کے متفرق مسائل
مسئلہ (۴۸۹) مبتدئہ، مضطربہ، ناسیہ اور عددکی عادت رکھنے والی عورتوں کو اگر خون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں یایقین ہوکہ یہ خون تین دن تک آئے گاتوانہیں چاہئے کہ عبادات ترک کردیں اوراگربعدمیں انہیں پتا چلے کہ یہ حیض نہیں تھاتوانہیں چاہئے کہ جو عبادات بجانہ لائی ہوں ان کی قضاکریں ۔
مسئلہ (۴۹۰)جو عورت حیض کی عادت رکھتی ہوخواہ یہ عادت حیض کے وقت کے اعتبار سے ہویاحیض کے عدد کے اعتبارسے یاوقت اور عدد دونوں کے اعتبارسے ہو۔ اگر اسے یکے بعد دیگرے دومہینوں میں اپنی عادت کے برخلاف خون آئے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یاوقت اوردن دونوں کی تعداد یکساں ہو تواس کی عادت جس طرح ان دو مہینوں میں اسے خون آیا ہے اس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثلاً اگرپہلے اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتاتھااورپھربندہوجاتاتھامگردو مہینوں میں اسے دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک خون آیا ہواورپھربندہواہو تواس کی عادت دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک ہوجائے گی۔
مسئلہ (۴۹۱)ایک مہینے سے مرادوقتی عادت کے معین ہونے کے علاوہ بقیہ مقام میں خون آنے کی ابتداء سے تیس دن کا گزرنا ہے۔ مہینے کی پہلی تاریخ سے مہینے کے آخرتک نہیں ہے۔لیکن وقتی عادت کےمعین ہونے کے مقام میں مہینہ سے مراد قمری مہینہ ہے شمسی نہیں ۔
مسئلہ (۴۹۲)اگرکسی عورت کو عموماً مہینے میں ایک مرتبہ خون آتاہولیکن کسی ایک مہینے میں دومرتبہ آجائے تواگران درمیانی دنوں کی تعداد جن میں اسے خون نہیں آیادس دن سے کم نہ ہو تواسے چاہئے کہ دونوں خون کو حیض قراردے۔اگر چہ دونوں میں سے کوئی حیض کی علامت نہ رکھتا ہو۔
مسئلہ (۴۹۳) وہ عورت جس کےلئے خون کی علامتوں کے اختلاف کے ذریعہ حیض کا معین کرنا ضروری ہے لیکن اگرکسی عورت کوتین یااس سے زیادہ دنوں تک ایساخون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں ا ور اس کے بعددس یااس سے زیادہ دنوں تک ایسا خون آئے جس میں استحاضہ کی علامات ہوں اورپھراس کے بعددوبارہ تین دن تک حیض کی علامتوں کے ساتھ خون آئے تواسے چاہئے کہ پہلے اور آخری خون کو جس میں حیض کی علامات ہوں حیض قراردے۔لیکن اگر دو خون میں سے کوئی ایک عادت کے دنوں میں ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ درمیان کے تمام دس دن استحاضہ ہیں یا کچھ حیض ہے اس صورت میں جو خون عادت کے دنوں میں آئے وہ حیض ہے اور باقی استحاضہ ہے۔
مسئلہ (۴۹۴)اگرکسی عورت کاخون دس دن سے پہلے رک جائے اور وہ یہ جانے کہ اس کے باطن میں خون نہیں ہے تواسے چاہئے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے اگرچہ گمان رکھتی ہوکہ دس دن پورے ہونے سے پہلے دوبارہ خون آجائے گا۔ لیکن اگراسے یقین ہوکہ دس دن پورے ہونے سے پہلے اسے دوبارہ خون آجائے گا تو جیسے بیان ہوچکااسے چاہئے کہ احتیاطاًغسل کرے اوراپنی عبادات بجالائے اورجو چیزیں حائض پرحرام ہیں انہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۴۹۵)اگرکسی عورت کا خون دس دن گزرنے سے پہلے بندہوجائے اور اس بات کااحتمال ہوکہ اس کے باطن میں خون حیض ہے توضروری ہے کہ احتیاطاً عبادتوں کو انجام دے یااستبراء کرے اور بغیر استبراء کئے عبادتوں کو ترک کرنا جائز نہیں ہے اور استبراء سےمراد یہ کہ تھوڑی سی روئی شرم گاہ کے اندر قرار دے کرانتظار کرے( اور اگر اس کی عادت ایسی ہےکہ اس کا خون دوران حیض تھوڑی مدت کےلئے بند ہوجاتا ہے جیسے کہ کچھ عورتوں کےلئے کہاگیاہے تو اسے چاہئیے کہ زیادہ مقدار میں انتظار کرے) اور اس کے بعد روئی کو باہر لائے پس اگر خون ختم ہوگیاہوتوغسل کرے اور عبادات بجالائے اور اگر خون بندنہ ہواہو(اگرچہ تھوڑاسا زرد پانی لگاہو)پس اگروہ حیض کی معین عادت نہ رکھتی ہویااس کی عادت دس دن کی ہو یا ابھی اس کی عادت کے دس دن تمام نہ ہوئے ہوں تواسے چاہئے کہ انتظارکرے اور اگر دس دن سے پہلے خون ختم ہوجائے تو غسل کرے اور اگردسویں دن کے خاتمے پرخون آنا بندہویاخون دس دن کے بعدبھی آتارہے تودسویں دن غسل کرے اور اگراس کی عادت دس دنوں سے کم ہواور وہ جانتی ہوکہ دس دن ختم ہونے سے پہلے یادسویں دن کے خاتمے پر خون بندہوجائے گاتوغسل کرناضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۹۶)اگرکوئی عورت چنددنوں کوحیض قراردے اورعبادت نہ کرے لیکن بعد میں اسے پتا چلے کہ حیض نہیں تھا تواسے چاہئے کہ جونمازیں اور روزے وہ ان دنوں میں بجانہیں لائی ان کی قضاکرے اور اگرچنددن اس خیال سے عبادات بجالاتی رہی ہو کہ حیض نہیں ہے اوربعدمیں اسے پتا چلے کہ حیض تھاتواگران دنوں میں اس نے روزے بھی رکھے ہوں تو ان کی قضا کرناضروری ہے۔
نفاس
مسئلہ (۴۹۷)بچے کاپہلاجزءماں کے پیٹ سے باہر آنے کے وقت سے جو خون عورت کودس دن کے دوران آتا ہے تووہ خون نفاس ہے اس شرط کے ساتھ کہ ولادت کا خون اس پر صادق آئے اور نفاس کی حالت میں عورت کو’’ نفساء‘‘ کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۴۹۸)جو خون عورت کو بچے کاپہلا جزباہر آنے سے پہلے آئے وہ نفاس نہیں ہے۔
مسئلہ (۴۹۹)یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوبلکہ اس کی خلقت نامکمل ہو البتہ علقہ(جمع ہوا خون) اور مضغہ(گوشت کا ٹکڑا) کی حالت سے گزر چکا ہو اور ساقط ہوجائے تو جو خون عورت کودس دن تک آئے خون نفاس ہے۔
مسئلہ (۵۰۰)یہ ہوسکتاہے کہ خون نفاس ایک لحظہ سے زیادہ نہ آئے، اور دس دن سے زیادہ نہیں آتا۔
مسئلہ (۵۰۱)اگرکسی عورت کوشک ہوکہ اسقاط ہواہے یانہیں یاجواسقاط ہواوہ بچہ تھایانہیں تواس کے لئے تحقیق کرناضروری نہیں اور جو خون اسے آئے وہ شرعاً نفاس نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۰۲)جو چیز حائض پر واجب ہے وہ نفساء پربھی واجب ہے اور بنا بر احتیاط واجب مسجد میں ٹھہرنا،عبور کئے بغیر داخل ہونا، دو مسجدوں (مسجد الحرام، مسجد پیغمبرؐ)سے عبور کرنا،آیات سجدۂ واجب کا پڑھنا اور قرآنی الفاظ و نام خدا کامس کرنا نفساء پر حرام ہے۔
مسئلہ (۵۰۳) جوعورت نفاس کی حالت میں ہواسے طلاق دینااور اس سے جماع کرنا حرام ہے، لیکن کفارہ نہیں ہے۔
مسئلہ (۵۰۴) وہ عورت جو عددکی عادت نہ رکھتی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون نہ آئے تو تمام خون نفاس ہے۔ اگر دس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادتوں کو بجالائے اور اگر بعد میں ایک بار یا ایک بار سے زیادہ خون دیکھے چنانچہ ان دنوں میں جن میں خون دیکھا ہے ان دنوں کے ساتھ جن میں وہ درمیان میں پاک تھی وہ سب ملا کر دس دن یا دس دن سےکم ہوتو جو خون اس نے دیکھا ہے وہ سب خون نفاس ہے اور ان دنوں میں جس میں وہ پاک تھی ضروری ہے کہ احتیاطاً اپنی واجب عبادتوں کو انجام دے اور وہ کام جو نفساء پر حرام ہیں ، چھوڑدے اس بناپر ضروری ہے چنانچہ اگر اس نے روزہ رکھا ہے تو اس کی قضا کرے اور اگر وہ خون جو اس نےآخر میں دیکھا ہے دس دن سے تجاوز کرجائے توضروری ہے کہ اسی مقدار میں جو اس نے دس دنوں کے اندر دیکھاہے اس کو نفاس اور بقیہ کو استحاضہ قرار دے۔
مسئلہ (۵۰۵)وہ عورت جس کی عادت عددی ہو اگر عادت کےدنوں سے خون زیادہ آئے اگرچہ ان دنوں سے تجاوز نہ کرے( بنا بر احتیاط واجب) ان دنوں میں جو عدد کی عادت کے بعد دیکھا ہے نفساء کے محرمات کو ترک کرے اور مستحاضہ کے واجبات کو انجام دے اور اگر ایک بار سے زیادہ خون آئے اور اس کے درمیان پاک ہوجائے تو عاد ت کےایام کی تعداد کےلحاظ سےخون کو نفاس قرار دے اور احتیاطاً درمیان کے ان دنوں میں جن میں خون نہیں آیا اور عادت سے زائد خون کےدنوں میں نفساء کےمحرمات کو ترک اور واجبات کو انجام دے۔
مسئلہ (۵۰۶)اگر کوئی عورت نفاس کےخون سےپاک ہوجائے اور احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون ہے تو یا ضروری ہے کہ احتیاطاً غسل کرے اور اپنی عبادتوں کو انجام دے یا ضروری ہے کہ استبراء کرے اورجائز نہیں ہے کہ بغیر استبراء کئے اپنی عبادتوں کو چھوڑ دے اور استبراء کا طریقہ مسئلہ (۴۹۵ )میں بیان ہوا ہے۔
مسئلہ (۵۰۷)اگرعورت کو نفاس کاخون دس دن سے زیادہ آئے اور وہ حیض میں عادت رکھتی ہوتوعادت کے برابر دنوں کی مدت نفاس اورباقی استحاضہ ہے اور اگرعادت نہ رکھتی ہوتودس دن تک نفاس اورباقی استحاضہ ہے اور اگر اپنی عادت کو بھول گئی ہو تو ضروری ہے کہ عادت کی سب سے زیادہ عدد کو فرض کرے جس کا احتمال دیتی ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے جو عورت عادت رکھتی ہووہ عادت کے بعدکے دن سے اورجوعورت عادت نہ رکھتی ہووہ دسویں دن کے بعدسے بچے کی پیدائش کے اٹھارہویں دن تک استحاضہ کے افعال بجالائے اور وہ کام جونفساء پرحرام ہیں انہیں ترک کرے۔
مسئلہ (۵۰۸)جوعورت حیض میں عادت رکھتی ہواگراسے بچہ جننے کے بعدایک مہینے تک یاایک مہینے سے زیادہ مدت تک لگاتار خون آتارہے تواس کی عادت کے دنوں کی تعداد کے برابرخون نفاس ہے اور جو خون نفاس کے بعددس دن تک آئے اگر چہ وقتی عادت بھی رکھتی ہو اور وہ اس کی ماہانہ عادت کے دنوں میں آیاہواستحاضہ ہے۔ مثلاًایسی عورت جس کے حیض کی عادت ہر مہینے کی بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک ہواگروہ مہینے کی دس تاریخ کو بچہ جنے اور ایک مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اسے متواتر خون آئے تو سترھویں تاریخ تک نفاس اور سترھویں تاریخ سے دس دن تک کاخون حتیٰ کہ وہ خون بھی جوبیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک اس کی عادت کے دنوں میں آیاہے استحاضہ ہوگااوردس دن گزرنے کے بعدجوخون اسے آئے اگر وقتی عادت رکھتی ہو اور جو خون آیا ہےوہ عادت کے دنوں میں نہ ہو تواس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی عادت کے دنوں کاانتظار کرے اگرچہ اس کے انتظار کی مدت ایک مہینے یاایک مہینے سے زیادہ ہوجائے اورخواہ اس مدت میں جو خون آئے اس میں حیض کی علامات ہوں اور اگروہ وقت کی عادت والی عورت نہ ہواور اس کے لئے ممکن ہو توضروری ہے کہ وہ اپنے حیض کوعلامات کے ذریعے معین کرے(جس کا طریقہ مسئلہ (۴۷۹)میں بیان ہوا) اور اگر ممکن نہ ہوجیساکہ نفاس کے بعد دس دن جو خون آئے وہ ساراایک جیسا ہواور ایک مہینہ یاچندمہینے انھی علامات کے ساتھ آتارہے توضروری ہے کہ ہرمہینے میں اپنے کنبے کی بعض عورتوں کی جو صورت ہو اسی کے مطابق اپنے لئے حیض قرار دے جیسا کہ تفصیل کے ساتھ مسئلہ (۴۷۹ )میں بیان ہوا ہے اور اگریہ ممکن نہ ہو توجو عدداپنے لئے مناسب سمجھتی ہے اختیار کرے اور ان تمام امور کی تفصیل مسئلہ (۴۸۱ )میں گزرچکی ہے۔
مسئلہ (۵۰۹)جوعورت حیض میں عدد کے لحاظ سے عادت نہ رکھتی ہو اگراسے بچہ جننے کے بعدایک مہینے تک یاایک مہینے سے زیادہ مدت تک خون آئے تو اس کے پہلے دس دن کو نفاس قرار دے اور دوسری دہائی میں جو خون آئے وہ استحاضہ ہے اور جو خون اسے اس کے بعد آئے ممکن ہے وہ حیض ہو اور ممکن ہے استحاضہ ہواور حیض قراردینے کے لئے ضروری ہے کہ اس حکم کے مطابق عمل کرے جس کا ذکرسابقہ مسئلہ میں گزرچکاہے۔