فتووں کی کتابیں » مختصر احکام عبادات
تلاش کریں:
امر بالمعروف اور نہی از منکر
کے احکام
←
→ دوسری قسم : زکوٰۃ فطرہ ( فطریہ)
خمس کے احکام
خمس شریعت مقد س اسلام کے مالی حقوق میں سے جسے قرآن میں صراحتاً بیان کیا گیا ہے، اور اس فریضہ کی اہمیت اہل بیتؑ کی بہت سی احادیث میں بیان کی گئی ہے، بلکہ بعض احادیث میں جو افراد خمس ادا نہیں کرتے، اُسے ناحق کھاتے ہیں، ان پر لعنت کی گئی ہے۔
مسئلہ ۱۵۲۔ وہ مال جس پر خمس واجب ہوتاہے درجہ ذیل ہیں :
۱۔ غنیمت ِ جنگی جو ان کافروں سے حاصل ہو ا ہےجن کے ساتھ جنگ کرنا جائز ہے۔
۲۔ وہ معدن جو زمین سے خارج کیاگیاہو جیسے سونا، چاندی، دھات، لوہا، گندھک کچّا تیل وغیرہ۔
۳۔ گنج جسے نکالا گیاہو خواہ زمین میں ہو یا دیوار یا کسی اور چیز میں چھپا ہو۔
۴۔ قیمتی جواہر جیسے مر وارید، مرجان جو دریا اور بڑی ند یوں میں ہوتے ہیں اور غوّا صی کرکے نکالے جاتے ہیں ۔
۵۔ وہ حلال مال جو حرا م میں مخلوط ہوگیاہو، بعض صورتوں میں ۔
۶۔ وہ منفعت اور فائدہ جو تجارت، صنعت، حیازت یاکسی اور کام سے حاصل ہو ا ہو اور اسی طرح وہ مال جو بغیر کسی کام کے عوض انسان کو حاصل ہو جیسے تحفہ، وصیت، یا جو اموال اُسے دیا گیاہے یا مددکی گئی ہے بشرطیکہ خمس و زکوٰۃ میں سے نہ ہو کہ ان دو صورت میں اس پر خمس واجب نہیں ہے۔
اور کچھ مقامات میں خمس واجب نہیں ہے :
پہلا: وہ مال جو عورت کو مہر کے طور پر ملتاہے۔
دوسرا : وہ مال جو شوہر کو طلاق خلع کےعوض ملتاہے۔
تیسرا : شرعی دیت جو انسان کو ملتی ہے خواہ کسی عضو کا دیا ہو یا اس کے علاوہ۔
چوتھا : وہ مال جو انسان کو وراثت میں ملتاہے البتہ بعض صورتوں میں استثنا ء ہے جس کی مزید تفصیل کے لئے توضیح المسائل میں رجوع کر سکتے ہیں ۔
گزشتہ چھ مقامات میں شرائط پائے جانے کی صورت میں خمس واجب ہے جس کی تفصیل توضیح المسائل میں بیان ہوتی ہے، وہاں رجوع کرسکتے ہیں اور اختصار کا خیال رکھتے ہوئے صرف چھٹے مقام کے بعض مسائل کو بیان کریں گے۔
مسئلہ۱۵۳۔ در آمد اور فائدے کا خمس درجہ ذیل چیزوں کو کم کرکے واجب ہے :
۱۔ تجارت کا خرچ : جو رقم فائدہ حاصل کرنے کے لئے انسان خرچ کرتا ہے جیسے دوکان یا انبار کا کرایہ، لائٹ، ٹیلیفون، حمل و نقل کا خرچ، اور ٹیکس وغیرہ۔
۲۔ سال کا خرچ : جو کچھ انسان خود اور اپنے تحت کفالت افراد ( فیملی) کے لئے پورے سال خرچ کرے، یعنی جو کچھ کھانے پینے، پہننے، مکان، رفت و آمد، گھر کے سامان، علاج اور زندگی کے دوسرے اخراجات میں خرچ کرتاہے اسی طرح وہ پیسہ جو قرض کی ادائیگی، تحفہ، انعام کی شکل میں دوسروں کو دیتاہے اور وہ رقم جو زیارتی اور سیاحی سفر اور مہمان کی خاطر داری میں خرچ کرتاہے اور دوسرے اخراجات جو اس جیسے شخص کے لئے معمول ہے اور اسراف اور تبذیر شمارنہ ہو۔
مثال کے طور پر اگر کوئی تاجر ( بز نس مین) اپنے نقد اور غیر نقد مال کا حساب کرے تو اس کا فائدہ تجارت اور زندگی کے سالانہ اخراجات کے علاوہ پانچ ملین تومان ہو تو اس صورت اس بچت کا خمس کرنا لازم ہے یعنی ایک ملین تومان خمس ادا کرنا واجب ہے۔
مسئلہ ۱۵۴۔ جو افراد ایسا کام نہیں کرتے جس سے ان کے زندگی کے اخراجات پورے ہوں بلکہ زندگی کا خرچ تحفہ اور نذر وغیرہ سے پو را کرتے ہوں تو ان کے خمس کی کوئی تاریخ نہیں ہوگی بلکہ جب بھی کوئی مال حاصل ہو اُسے ایک سال مکمّل اپنے اخراجات میں خرچ کر سکتےہیں ۔
لیکن جو افراد کام کرتے ہیں اور اس کام کے ذریعے اپنی زندگی کے اخراجات پورے کرتے ہیں جیسے تجارت، پیشہ، صَنعت( کوئی سامان وغیرہ بنانا) تو ان کے خمس کی تاریخ وہی تاریخ ہے جس دن کام شروع کیا تھا اس لئے وہ اپنے زندگی کے اخراجات کو اسی سال کی درآمد ( income) سے کم کر سکتے ہیں لیکن سال پورا ہونے کے بعد اس سال کے فائدے کا خمس نکالے بغیر دوسرے سال میں خرچ نہیں کر سکتے۔
مسئلہ ۱۵۵۔ کام میں لگایا جانے والا سرمایہ اور دیگر لوازمات تجارت ان اخراجات میں سے نہیں ہے جسے خمس سے استثنا ء کیا گیا ہے، اس لئے وہ تاجر جس نے سر مایہ اور دیگر لوازم تجارت کو سال کی در آمد سے حاصل کیاہے، خمس کی تاریخ پر اپنے تمام مال کا مِن جملہ نقد پیسہ، بیچنے کا مال اور دوسرے سامان جو تجارت سے مربوط ہیں۔خمس ادا کرے، اسی طرح ، صنعت، کھیتی کے آلات جو صنعت گریا کسان کی ضرورت ہے اور اس طرح کی دیگر اشیاء کا حکم بھی کام کے سر مایہ اور اس کے لوازمات کی طرح ہے۔
مسئلہ ۱۵۶۔ اگر کوئی شخص سالانہ در آمد سے کوئی سامان خریدے اور خمس کی تاریخ سے پہلے اپنی ضروریات میں استعمال نہ کرے تو اس صورت میں اُس سامان کا خمس موجود ہ قیمت کے حساب سے اداکرے۔
لیکن اگر ایسے مال سے جس کا خمس ادا کیاہے یا جس پر خمس واجب نہیں ہے جیسے مہر کوئی سامان خریدے اور کچھ مدّت بعد اس کی قیمت میں اضافہ ہوجائے تو اِس مسئلے میں تین صورتیں ہیں :
۱۔ اگر اُسے تجارت کے لئے رکھا ہو تاکہ قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد بیچ دے تو اس صورت میں اضافہ شدہ قیمت کا خمس واجب ہے گرچہ اُسے نہ بیچے۔
۲۔ اگر وراثت وغیرہ میں ملی ہو اور تجارت کےلئے نہ رکھا ہوتو قیمت میں جو اضافہ ہواہے اُس کا خمس واجب نہیں ہے گرچہ زیادہ قیمت میں بیچے۔
۳۔ اگر اُسے رکھنے کے قصد سے۔ نہ تجارت کےقصد سے۔ معاوضہ وغیرہ جیسے خرید و فروخت کے ذریعے حاصل کیاہو تو اس صورت میں جب تک نہ بیچے، اضافہ شدہ قیمت پر خمس نہیں ہے اور جب بھی اضافہ شدہ قیمت میں بیچے تو اس کی اضافہ شدہ قیمت بیچے جانے والے سال کی در آمد میں شمار ہوگی پس اگر خمس کی تاریخ تک ضروریا ت میں استعما ل نہ ہو تو اُس کا خمس ادا کرے گا۔
مسئلہ ۱۵۷۔ بعض مکلّف افراد خمس کی ادائیگی میں کو تاہی کرتے ہیں اور سالَہا اپنا خمس ادا نہیں کرتے اورپھر ہدایت پاکر صحیح راستے پر چلتے ہوئے اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اپنے تمام مال کی ایک لیسٹ تیار کریں اورحساب کرنے کے لئے حاکم شرع یا اُس کے وکیل پر رجوع کریںاور اگر ضرورت ہوتو مشکوک مقدار اور اسی طرح اگر ایک ساتھ ادا نہیں کر سکتا تو قسطی ادا کرنے کے لئے مصالحت کرے۔
مسئلہ ۱۵۸۔ اگر کسی چیز پر خمس واجب ہو تو مکلّف کو اختیار ہےکہ خود اس چیز سے خمس نکالے یا اس کی قیمت کے برابر پیسہ دے۔
مسئلہ ۱۵۹۔ جس شخص پر خمس کی تاریخ آنے کے بعد اس کے مال میں خمس واجب ہو گیا ہو جب تک اس کا خمس ادا نہیں کیاہے اس مال میں تصرّف نہیں کر سکتا لیکن مجتہد یا اس کے وکیل پر رجوع کرکے دست گردان کر سکتاہے تاکہ اس مال کا خمس اس کے ذمّے میں مُنتقل ہو اور اس کےلئے تصرّف جائز ہوجائے۔
مسئلہ ۱۶۰۔ اگر کسی کے مال پر خمس واجب ہوا ہو توالگ کرنے سےاس کا خمس معیّن نہیں ہوگا بلکہ مرجع تقلید یا اس کے وکیل پر رجوع کریں۔
مسئلہ ۱۶۱۔ خمس واجب ہونے میں مالک کا بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں ہے بلکہ خمس نابالغ بچے یا دیوانہ انسان کے مال پر بھی واجب ہو تا ہے، ولی پر واجب ہے کہ ان کے مال کا خمس ادا کرے اور چنانچہ ولی ادا نہ کرے تو نابالغ بچے کے بالغ ہونے اور دیوانہ شخص کے عاقل ہونے کے بعد واجب ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ ۱۶۲۔خمس کے دو حصّے ہیں:
نصف سہم امام ؑ ہے جو ایسے امور میں خرچ ہونا چاہئے جس میں آنحضر ت کی رضایت کا اطمینان ہے، اس زمانہ میں لازم ہے کہ ایسے مرجع کو اداکیاجائے جو اعلم ہے اور عمومی جہات سے آگاہی رکھتاہے، یا یہ کہ کسی مقام پر خرچ کرنے کے لئے اس سے اجازت لی جائے۔
اور باقی نصف سہم سادات ہے جو ایسے ہاشمی سادات کے لئے ہے جو غریب ہوں یا سفر میں غریب ہوگئے ہیں، بشرطیکہ مومن ہوں اور اپنے دینی واجبات کو انجام دیتے ہوں ، اور اسی طرح یتیم سادات جو غریب اور مومن ہوں وہ بھی سہم سادات کے مستحق ہیں ، لیکن اگر غریب نہ ہوں تو سہم سادات کے مستحق نہیں ہونگے۔
مسئلہ ۱۶۳۔ احتیاط واجب کی بناپر ایسےشخص کو خمس نہیں دے سکتے جس کا نفقہ خمس دینے والے پر واجب ہے جیسے باپ، بیوی، بچےاسی طرح ایسے شخص کو بھی خمس نہیں دے سکتے جو حرام کام میں خرچ کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر بےنمازی، شرابی اور ایسے افراد کو جو کھلے عام گناہ کرتے ہیں خمس نہیں دے سکتے۔
امر بالمعروف اور نہی از منکر
کے احکام
←
→ دوسری قسم : زکوٰۃ فطرہ ( فطریہ)
مسئلہ ۱۵۲۔ وہ مال جس پر خمس واجب ہوتاہے درجہ ذیل ہیں :
۱۔ غنیمت ِ جنگی جو ان کافروں سے حاصل ہو ا ہےجن کے ساتھ جنگ کرنا جائز ہے۔
۲۔ وہ معدن جو زمین سے خارج کیاگیاہو جیسے سونا، چاندی، دھات، لوہا، گندھک کچّا تیل وغیرہ۔
۳۔ گنج جسے نکالا گیاہو خواہ زمین میں ہو یا دیوار یا کسی اور چیز میں چھپا ہو۔
۴۔ قیمتی جواہر جیسے مر وارید، مرجان جو دریا اور بڑی ند یوں میں ہوتے ہیں اور غوّا صی کرکے نکالے جاتے ہیں ۔
۵۔ وہ حلال مال جو حرا م میں مخلوط ہوگیاہو، بعض صورتوں میں ۔
۶۔ وہ منفعت اور فائدہ جو تجارت، صنعت، حیازت یاکسی اور کام سے حاصل ہو ا ہو اور اسی طرح وہ مال جو بغیر کسی کام کے عوض انسان کو حاصل ہو جیسے تحفہ، وصیت، یا جو اموال اُسے دیا گیاہے یا مددکی گئی ہے بشرطیکہ خمس و زکوٰۃ میں سے نہ ہو کہ ان دو صورت میں اس پر خمس واجب نہیں ہے۔
اور کچھ مقامات میں خمس واجب نہیں ہے :
پہلا: وہ مال جو عورت کو مہر کے طور پر ملتاہے۔
دوسرا : وہ مال جو شوہر کو طلاق خلع کےعوض ملتاہے۔
تیسرا : شرعی دیت جو انسان کو ملتی ہے خواہ کسی عضو کا دیا ہو یا اس کے علاوہ۔
چوتھا : وہ مال جو انسان کو وراثت میں ملتاہے البتہ بعض صورتوں میں استثنا ء ہے جس کی مزید تفصیل کے لئے توضیح المسائل میں رجوع کر سکتے ہیں ۔
گزشتہ چھ مقامات میں شرائط پائے جانے کی صورت میں خمس واجب ہے جس کی تفصیل توضیح المسائل میں بیان ہوتی ہے، وہاں رجوع کرسکتے ہیں اور اختصار کا خیال رکھتے ہوئے صرف چھٹے مقام کے بعض مسائل کو بیان کریں گے۔
مسئلہ۱۵۳۔ در آمد اور فائدے کا خمس درجہ ذیل چیزوں کو کم کرکے واجب ہے :
۱۔ تجارت کا خرچ : جو رقم فائدہ حاصل کرنے کے لئے انسان خرچ کرتا ہے جیسے دوکان یا انبار کا کرایہ، لائٹ، ٹیلیفون، حمل و نقل کا خرچ، اور ٹیکس وغیرہ۔
۲۔ سال کا خرچ : جو کچھ انسان خود اور اپنے تحت کفالت افراد ( فیملی) کے لئے پورے سال خرچ کرے، یعنی جو کچھ کھانے پینے، پہننے، مکان، رفت و آمد، گھر کے سامان، علاج اور زندگی کے دوسرے اخراجات میں خرچ کرتاہے اسی طرح وہ پیسہ جو قرض کی ادائیگی، تحفہ، انعام کی شکل میں دوسروں کو دیتاہے اور وہ رقم جو زیارتی اور سیاحی سفر اور مہمان کی خاطر داری میں خرچ کرتاہے اور دوسرے اخراجات جو اس جیسے شخص کے لئے معمول ہے اور اسراف اور تبذیر شمارنہ ہو۔
مثال کے طور پر اگر کوئی تاجر ( بز نس مین) اپنے نقد اور غیر نقد مال کا حساب کرے تو اس کا فائدہ تجارت اور زندگی کے سالانہ اخراجات کے علاوہ پانچ ملین تومان ہو تو اس صورت اس بچت کا خمس کرنا لازم ہے یعنی ایک ملین تومان خمس ادا کرنا واجب ہے۔
مسئلہ ۱۵۴۔ جو افراد ایسا کام نہیں کرتے جس سے ان کے زندگی کے اخراجات پورے ہوں بلکہ زندگی کا خرچ تحفہ اور نذر وغیرہ سے پو را کرتے ہوں تو ان کے خمس کی کوئی تاریخ نہیں ہوگی بلکہ جب بھی کوئی مال حاصل ہو اُسے ایک سال مکمّل اپنے اخراجات میں خرچ کر سکتےہیں ۔
لیکن جو افراد کام کرتے ہیں اور اس کام کے ذریعے اپنی زندگی کے اخراجات پورے کرتے ہیں جیسے تجارت، پیشہ، صَنعت( کوئی سامان وغیرہ بنانا) تو ان کے خمس کی تاریخ وہی تاریخ ہے جس دن کام شروع کیا تھا اس لئے وہ اپنے زندگی کے اخراجات کو اسی سال کی درآمد ( income) سے کم کر سکتے ہیں لیکن سال پورا ہونے کے بعد اس سال کے فائدے کا خمس نکالے بغیر دوسرے سال میں خرچ نہیں کر سکتے۔
مسئلہ ۱۵۵۔ کام میں لگایا جانے والا سرمایہ اور دیگر لوازمات تجارت ان اخراجات میں سے نہیں ہے جسے خمس سے استثنا ء کیا گیا ہے، اس لئے وہ تاجر جس نے سر مایہ اور دیگر لوازم تجارت کو سال کی در آمد سے حاصل کیاہے، خمس کی تاریخ پر اپنے تمام مال کا مِن جملہ نقد پیسہ، بیچنے کا مال اور دوسرے سامان جو تجارت سے مربوط ہیں۔خمس ادا کرے، اسی طرح ، صنعت، کھیتی کے آلات جو صنعت گریا کسان کی ضرورت ہے اور اس طرح کی دیگر اشیاء کا حکم بھی کام کے سر مایہ اور اس کے لوازمات کی طرح ہے۔
مسئلہ ۱۵۶۔ اگر کوئی شخص سالانہ در آمد سے کوئی سامان خریدے اور خمس کی تاریخ سے پہلے اپنی ضروریات میں استعمال نہ کرے تو اس صورت میں اُس سامان کا خمس موجود ہ قیمت کے حساب سے اداکرے۔
لیکن اگر ایسے مال سے جس کا خمس ادا کیاہے یا جس پر خمس واجب نہیں ہے جیسے مہر کوئی سامان خریدے اور کچھ مدّت بعد اس کی قیمت میں اضافہ ہوجائے تو اِس مسئلے میں تین صورتیں ہیں :
۱۔ اگر اُسے تجارت کے لئے رکھا ہو تاکہ قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد بیچ دے تو اس صورت میں اضافہ شدہ قیمت کا خمس واجب ہے گرچہ اُسے نہ بیچے۔
۲۔ اگر وراثت وغیرہ میں ملی ہو اور تجارت کےلئے نہ رکھا ہوتو قیمت میں جو اضافہ ہواہے اُس کا خمس واجب نہیں ہے گرچہ زیادہ قیمت میں بیچے۔
۳۔ اگر اُسے رکھنے کے قصد سے۔ نہ تجارت کےقصد سے۔ معاوضہ وغیرہ جیسے خرید و فروخت کے ذریعے حاصل کیاہو تو اس صورت میں جب تک نہ بیچے، اضافہ شدہ قیمت پر خمس نہیں ہے اور جب بھی اضافہ شدہ قیمت میں بیچے تو اس کی اضافہ شدہ قیمت بیچے جانے والے سال کی در آمد میں شمار ہوگی پس اگر خمس کی تاریخ تک ضروریا ت میں استعما ل نہ ہو تو اُس کا خمس ادا کرے گا۔
مسئلہ ۱۵۷۔ بعض مکلّف افراد خمس کی ادائیگی میں کو تاہی کرتے ہیں اور سالَہا اپنا خمس ادا نہیں کرتے اورپھر ہدایت پاکر صحیح راستے پر چلتے ہوئے اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اپنے تمام مال کی ایک لیسٹ تیار کریں اورحساب کرنے کے لئے حاکم شرع یا اُس کے وکیل پر رجوع کریںاور اگر ضرورت ہوتو مشکوک مقدار اور اسی طرح اگر ایک ساتھ ادا نہیں کر سکتا تو قسطی ادا کرنے کے لئے مصالحت کرے۔
مسئلہ ۱۵۸۔ اگر کسی چیز پر خمس واجب ہو تو مکلّف کو اختیار ہےکہ خود اس چیز سے خمس نکالے یا اس کی قیمت کے برابر پیسہ دے۔
مسئلہ ۱۵۹۔ جس شخص پر خمس کی تاریخ آنے کے بعد اس کے مال میں خمس واجب ہو گیا ہو جب تک اس کا خمس ادا نہیں کیاہے اس مال میں تصرّف نہیں کر سکتا لیکن مجتہد یا اس کے وکیل پر رجوع کرکے دست گردان کر سکتاہے تاکہ اس مال کا خمس اس کے ذمّے میں مُنتقل ہو اور اس کےلئے تصرّف جائز ہوجائے۔
مسئلہ ۱۶۰۔ اگر کسی کے مال پر خمس واجب ہوا ہو توالگ کرنے سےاس کا خمس معیّن نہیں ہوگا بلکہ مرجع تقلید یا اس کے وکیل پر رجوع کریں۔
مسئلہ ۱۶۱۔ خمس واجب ہونے میں مالک کا بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں ہے بلکہ خمس نابالغ بچے یا دیوانہ انسان کے مال پر بھی واجب ہو تا ہے، ولی پر واجب ہے کہ ان کے مال کا خمس ادا کرے اور چنانچہ ولی ادا نہ کرے تو نابالغ بچے کے بالغ ہونے اور دیوانہ شخص کے عاقل ہونے کے بعد واجب ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ ۱۶۲۔خمس کے دو حصّے ہیں:
نصف سہم امام ؑ ہے جو ایسے امور میں خرچ ہونا چاہئے جس میں آنحضر ت کی رضایت کا اطمینان ہے، اس زمانہ میں لازم ہے کہ ایسے مرجع کو اداکیاجائے جو اعلم ہے اور عمومی جہات سے آگاہی رکھتاہے، یا یہ کہ کسی مقام پر خرچ کرنے کے لئے اس سے اجازت لی جائے۔
اور باقی نصف سہم سادات ہے جو ایسے ہاشمی سادات کے لئے ہے جو غریب ہوں یا سفر میں غریب ہوگئے ہیں، بشرطیکہ مومن ہوں اور اپنے دینی واجبات کو انجام دیتے ہوں ، اور اسی طرح یتیم سادات جو غریب اور مومن ہوں وہ بھی سہم سادات کے مستحق ہیں ، لیکن اگر غریب نہ ہوں تو سہم سادات کے مستحق نہیں ہونگے۔
مسئلہ ۱۶۳۔ احتیاط واجب کی بناپر ایسےشخص کو خمس نہیں دے سکتے جس کا نفقہ خمس دینے والے پر واجب ہے جیسے باپ، بیوی، بچےاسی طرح ایسے شخص کو بھی خمس نہیں دے سکتے جو حرام کام میں خرچ کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر بےنمازی، شرابی اور ایسے افراد کو جو کھلے عام گناہ کرتے ہیں خمس نہیں دے سکتے۔