فتووں کی کتابیں » مختصر احکام عبادات
تلاش کریں:
زکوٰۃ کےاحکام ←
→ روزے کے احکام
حج کے احکام
اسلام کے اہم واجبات میں سے ایک حج ہے، خداوند متعال فرماتاہے :
(وَ لِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْه سَبِيْلًا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ الله غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ)
خداوند متعال نے خانہ کعبہ کا حج ان لوگوں پر جانے کے لئے جو مستطیع ہیں واجب کیاہے اورجو بھی اس واجب سےرو گردانی کرے اور انکار کرے ( اپنے کو نقصان پہونچایا ہے) اور خدا وند عالم ( اور لوگوں ) سے بے نیاز ہے۔
امام صادق ؈ سے روایت ہےکہ (مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ يَحُجَّ حِجَّةَ الْإِسْلَامِ وَ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ ذَلِكَ حَاجَةٌ تُجْحِفُ بِهِ أَوْ مَرَضٌ لَا يُطِيْقُ مَعَهُ الْحَجَّ أَوْ سُلْطَانٌ يَمْنَعُهُ فَلْيَمُتْ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا) جو شخص دنیاسے جائے اور اُ س نے واجب حج انجام نہ دیا ہو جب کہ کوئی ضروری حاجت یا بیماری یاحکومت جانے سے مانع نہ ہوتی ہو تو ایسا شخص مرتے وقت یہودی یا نصرانی مرے گا۔
مسئلہ ۱۳۲۔ فریضہ حج بالغ، عاقل اور مستطیع انسان پر واجب ہے اور استطاعت درجہ ذیل امورکے ہونے سے حاصل ہوجاتی ہے :
۱۔ جسم کی سلامتی اس معنی میں کہ انسان صحت سے ہو اورخود حج انجام دے سکتاہو اس لئے اگر کوئی شخص بیمار یا ضعیف ہو اور کسی بھی صورت میں حج انجام دینے پر قادر نہ ہو یایہ کہ حج کے اعمال انجام دینے میں حرج اور مشقت کا سامنا کرنا پڑے جوکہ معمولاً غیر قابل تحمّل ہے تو اس صورت میں خود اُس پر حج بجالانا لازم نہیں ہے۔
۲۔ راستے میں اور حج انجام دیتے وقت جان،مال یا آبرو کا خطرہ نہ ہو۔
۳۔ حج کے مکمّل اخراجات اٹھانے کی صلاحیت رکھتاہو من جملہ پاسپورٹ وغیرہ رفت آمدکا خرچ یاحد اقل جانے کا خرچ۔ اگر اپنے شہر واپس آنے کا ارادہ نہ ہو۔ دور اُس مقدس زمین پر رہنے اورکھانے کاخرچ وغیرہـ۔
۴۔ فریضہ حج کا انجام دینااس بات کا سبب نہ بنے کہ انسان واپس آنے کے بعد تنگ دستی میں پڑجائے، اس لئے اگر ایسا شخص جس کی در آمد کم ہے اتنی مالی توانائی رکھتاہوکہ حج کے تمام اخراجات اٹھائے لیکن واپس آنے کے بعد زندگی کے اخراجات کا پورا کرنا اور گزشتہ حالت پر رہنا اس کے لئے دشواری کا باعث ہو اور مشقت میں پڑجائے تو اُس پر حج انجا م دینا واجب نہیں ہے۔
۵۔ وقت میں وُسعت ہو، اس معنی میں کہ مکّہ جانے اور حج کے اعمال دینے کے لئے لازم مقدار وقت ہو اگر کسی شخص کے مالی امکان اس وقت فراہم کہ حج کے مقدّمات فراہم کرنے جیسے پاسپورٹ اور ویزہ وغیرہ کے لئے وقت کافی نہ ہو یا یہ کہ اس کے لئے حرج و مشقت جوکہ معمولاً قابل تحمّل نہیں ہے۔ میں پڑ رہاہوتو ایسے شخص پر حج واجب نہیں ہوگا لیکن اگر اُسے اطمینان ہےکہ آئندہ سال یا اس کے بعد میں حج پر جانے کے لئے قادر ہوگا تو واجب ہےکہ حج کے لئے اپنے مال کو محفوظ رکھے۔
مسئلہ ۱۳۳۔ حج میں نائب بنانا( کسی شخص کی طرف سے دوسرے شخص کو اعمال حج انجا م دینے کےلئے بھیجنا) تین صورتوںمیں واجب ہے ـ :
پہلی صورت : ایسا شخص جو حج کے اخراجات اٹھا سکتاہے لیکن کسی اور عذر کی بناپر جیسے بیماری یاکوئی دوسرا عذر خود حج کرنے پر قادر نہ ہو۔
دوسری صورت : ایسا شخص جو خودحج کر سکتاتھا لیکن فریضہ میں کوتاہی کی وجہ سے حج نہیں کیا یہاں تک ضعیفی،بیماری یا کسی اور وجہ سے اب حج کرنے پر قادر نہ ہو اور آئندہ بجالانے کی امید بھی نہ رکھتاہو۔
تیسری صورت: ایساشخص جو حج کرنے پر قادر ہو لیکن اس فریضے کے انجام دہی میں کوتاہی کی ہو یہاں تک کہ انتقال ہو جائےتو اُس کے ورثے سے کسی شخص کو نیابتی حج کےلئے بھیجنا لازم ہے۔
مسئلہ ۱۳۴۔ حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج افراد، حج قران۔
حج تمتع ایسے افراد کا فریضہ ہے کہ جن کی سکونت شہر مکہ مکرمہ سے اٹھاسی ۸۸ کیلو میٹر سے زیادہ ہو۔
حج افراد اور قران اہل مکّہ اور ایسے افراد کا فریضہ ہے جن کی سکونت شہر مکہ مکرّمہ سے ( اٹھاسی ۸۸) کیلو میٹر سے کم ہو۔
کیونکہ دنیاکے اغلب مومنین مکہ سے اٹھاسی ۸۸ کیلو میٹر سے زیادہ کے فاصلے پر رہتے ہیں اس لئے ا ن کا فریضہ حج تمتع ہے، آئندہ مسائل میں صر ف حج تمتع کے احکام مختصر وضاحت کے ساتھ بیان ہونگے۔
مسئلہ ۱۳۵۔ حج تمتع دو عبادت کے مجموعے کا نام ہے : عمرہ تمتّع، حج تمتّع عمرہ تمتع میں پانچ عمل ترتیب سے واجب ہیں :
۱۔ کسی ایک میقات سے احرام باندھنا ( وہ مقامات جو احرام کےلئے معین کئے گئے ہیں)
۲۔ سات مرتبہ خانہ کعبہ کےاطراف طواف کرنا۔
۳۔ مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے طواف کی نماز۔
۴۔ صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کرنا۔
۵۔ تقصیر : سر، داڑھی یا مونچھ کے مختصر بالوں کا کاٹنا۔
اور حج تمتع میں تیرہ ۱۳ عمل واجب ہے :
۱۔ مکرّمہ سے احرام باندھنا۔
۲۔ نو ذی الحجہ کو زوال سے غروب آفتاب تک عر فات میں ٹھہر نا۔
۳۔ شب عید قربان کے کچھ حصّے سے طلوع آفتاب تک مز دلفہ میں ٹھہر نا۔
۴۔ عید قربان کے دن سات کنکریوں سے رَمی حجرہ عقبہ کرنا۔
۵۔ عید قربان کے دن یا اس کے بعد روزِ تشریق کے آخری حصّے تک مِنا میں قربانی کرنا۔
۶۔ مِنی میں سر کا بال چھلنا یا کچھ مقدار میں کاٹناـ ۔
۷۔ خانہ خدا کا طوافِ حج کرنا ( طواف زیارت)
۸۔ مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے طواف کی نماز۔
۹۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی۔
۱۰۔ طواف النساء۔
۱۱۔ طواف النساء کی نماز۔
۱۲۔ ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں کی شب منی میں ٹھہر نا۔
۱۳۔ گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات کو کنکری مارنا۔
مسئلہ ۱۳۶۔عمرہ اور حج کے اعمال میں سے ہر ایک عبادی عمل ہے اُسے خداوند متعال کی اطاعت اور خضوع کی نیت سے بجالانا لازم ہے، حج کے اعمال میں بہت سے شرعی احکا م اور خصوصیات میں جس کا ذکر رسالہ ( مناسک حج) میں ہو اہے، اور جو شخص اس فریضہ الٰہی کو انجام دیناچاہتاہے لازم ہے کہ لازم مقدار میں اس کے احکا م سے آشنائی پیدا کرے تاکہ جہالت اور غفلت کا شکار نہ ہو اور اس طرح اپنا حج ناقص یا باطل انجام نہ دے کیونکہ اس صورت میں اُسے دوبارہ حج بجالانا ہوگا۔
زکوٰۃ کےاحکام ←
→ روزے کے احکام
(وَ لِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْه سَبِيْلًا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ الله غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ)
خداوند متعال نے خانہ کعبہ کا حج ان لوگوں پر جانے کے لئے جو مستطیع ہیں واجب کیاہے اورجو بھی اس واجب سےرو گردانی کرے اور انکار کرے ( اپنے کو نقصان پہونچایا ہے) اور خدا وند عالم ( اور لوگوں ) سے بے نیاز ہے۔
امام صادق ؈ سے روایت ہےکہ (مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ يَحُجَّ حِجَّةَ الْإِسْلَامِ وَ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ ذَلِكَ حَاجَةٌ تُجْحِفُ بِهِ أَوْ مَرَضٌ لَا يُطِيْقُ مَعَهُ الْحَجَّ أَوْ سُلْطَانٌ يَمْنَعُهُ فَلْيَمُتْ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا) جو شخص دنیاسے جائے اور اُ س نے واجب حج انجام نہ دیا ہو جب کہ کوئی ضروری حاجت یا بیماری یاحکومت جانے سے مانع نہ ہوتی ہو تو ایسا شخص مرتے وقت یہودی یا نصرانی مرے گا۔
مسئلہ ۱۳۲۔ فریضہ حج بالغ، عاقل اور مستطیع انسان پر واجب ہے اور استطاعت درجہ ذیل امورکے ہونے سے حاصل ہوجاتی ہے :
۱۔ جسم کی سلامتی اس معنی میں کہ انسان صحت سے ہو اورخود حج انجام دے سکتاہو اس لئے اگر کوئی شخص بیمار یا ضعیف ہو اور کسی بھی صورت میں حج انجام دینے پر قادر نہ ہو یایہ کہ حج کے اعمال انجام دینے میں حرج اور مشقت کا سامنا کرنا پڑے جوکہ معمولاً غیر قابل تحمّل ہے تو اس صورت میں خود اُس پر حج بجالانا لازم نہیں ہے۔
۲۔ راستے میں اور حج انجام دیتے وقت جان،مال یا آبرو کا خطرہ نہ ہو۔
۳۔ حج کے مکمّل اخراجات اٹھانے کی صلاحیت رکھتاہو من جملہ پاسپورٹ وغیرہ رفت آمدکا خرچ یاحد اقل جانے کا خرچ۔ اگر اپنے شہر واپس آنے کا ارادہ نہ ہو۔ دور اُس مقدس زمین پر رہنے اورکھانے کاخرچ وغیرہـ۔
۴۔ فریضہ حج کا انجام دینااس بات کا سبب نہ بنے کہ انسان واپس آنے کے بعد تنگ دستی میں پڑجائے، اس لئے اگر ایسا شخص جس کی در آمد کم ہے اتنی مالی توانائی رکھتاہوکہ حج کے تمام اخراجات اٹھائے لیکن واپس آنے کے بعد زندگی کے اخراجات کا پورا کرنا اور گزشتہ حالت پر رہنا اس کے لئے دشواری کا باعث ہو اور مشقت میں پڑجائے تو اُس پر حج انجا م دینا واجب نہیں ہے۔
۵۔ وقت میں وُسعت ہو، اس معنی میں کہ مکّہ جانے اور حج کے اعمال دینے کے لئے لازم مقدار وقت ہو اگر کسی شخص کے مالی امکان اس وقت فراہم کہ حج کے مقدّمات فراہم کرنے جیسے پاسپورٹ اور ویزہ وغیرہ کے لئے وقت کافی نہ ہو یا یہ کہ اس کے لئے حرج و مشقت جوکہ معمولاً قابل تحمّل نہیں ہے۔ میں پڑ رہاہوتو ایسے شخص پر حج واجب نہیں ہوگا لیکن اگر اُسے اطمینان ہےکہ آئندہ سال یا اس کے بعد میں حج پر جانے کے لئے قادر ہوگا تو واجب ہےکہ حج کے لئے اپنے مال کو محفوظ رکھے۔
مسئلہ ۱۳۳۔ حج میں نائب بنانا( کسی شخص کی طرف سے دوسرے شخص کو اعمال حج انجا م دینے کےلئے بھیجنا) تین صورتوںمیں واجب ہے ـ :
پہلی صورت : ایسا شخص جو حج کے اخراجات اٹھا سکتاہے لیکن کسی اور عذر کی بناپر جیسے بیماری یاکوئی دوسرا عذر خود حج کرنے پر قادر نہ ہو۔
دوسری صورت : ایسا شخص جو خودحج کر سکتاتھا لیکن فریضہ میں کوتاہی کی وجہ سے حج نہیں کیا یہاں تک ضعیفی،بیماری یا کسی اور وجہ سے اب حج کرنے پر قادر نہ ہو اور آئندہ بجالانے کی امید بھی نہ رکھتاہو۔
تیسری صورت: ایساشخص جو حج کرنے پر قادر ہو لیکن اس فریضے کے انجام دہی میں کوتاہی کی ہو یہاں تک کہ انتقال ہو جائےتو اُس کے ورثے سے کسی شخص کو نیابتی حج کےلئے بھیجنا لازم ہے۔
مسئلہ ۱۳۴۔ حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج افراد، حج قران۔
حج تمتع ایسے افراد کا فریضہ ہے کہ جن کی سکونت شہر مکہ مکرمہ سے اٹھاسی ۸۸ کیلو میٹر سے زیادہ ہو۔
حج افراد اور قران اہل مکّہ اور ایسے افراد کا فریضہ ہے جن کی سکونت شہر مکہ مکرّمہ سے ( اٹھاسی ۸۸) کیلو میٹر سے کم ہو۔
کیونکہ دنیاکے اغلب مومنین مکہ سے اٹھاسی ۸۸ کیلو میٹر سے زیادہ کے فاصلے پر رہتے ہیں اس لئے ا ن کا فریضہ حج تمتع ہے، آئندہ مسائل میں صر ف حج تمتع کے احکام مختصر وضاحت کے ساتھ بیان ہونگے۔
مسئلہ ۱۳۵۔ حج تمتع دو عبادت کے مجموعے کا نام ہے : عمرہ تمتّع، حج تمتّع عمرہ تمتع میں پانچ عمل ترتیب سے واجب ہیں :
۱۔ کسی ایک میقات سے احرام باندھنا ( وہ مقامات جو احرام کےلئے معین کئے گئے ہیں)
۲۔ سات مرتبہ خانہ کعبہ کےاطراف طواف کرنا۔
۳۔ مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے طواف کی نماز۔
۴۔ صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کرنا۔
۵۔ تقصیر : سر، داڑھی یا مونچھ کے مختصر بالوں کا کاٹنا۔
اور حج تمتع میں تیرہ ۱۳ عمل واجب ہے :
۱۔ مکرّمہ سے احرام باندھنا۔
۲۔ نو ذی الحجہ کو زوال سے غروب آفتاب تک عر فات میں ٹھہر نا۔
۳۔ شب عید قربان کے کچھ حصّے سے طلوع آفتاب تک مز دلفہ میں ٹھہر نا۔
۴۔ عید قربان کے دن سات کنکریوں سے رَمی حجرہ عقبہ کرنا۔
۵۔ عید قربان کے دن یا اس کے بعد روزِ تشریق کے آخری حصّے تک مِنا میں قربانی کرنا۔
۶۔ مِنی میں سر کا بال چھلنا یا کچھ مقدار میں کاٹناـ ۔
۷۔ خانہ خدا کا طوافِ حج کرنا ( طواف زیارت)
۸۔ مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے طواف کی نماز۔
۹۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی۔
۱۰۔ طواف النساء۔
۱۱۔ طواف النساء کی نماز۔
۱۲۔ ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں کی شب منی میں ٹھہر نا۔
۱۳۔ گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات کو کنکری مارنا۔
مسئلہ ۱۳۶۔عمرہ اور حج کے اعمال میں سے ہر ایک عبادی عمل ہے اُسے خداوند متعال کی اطاعت اور خضوع کی نیت سے بجالانا لازم ہے، حج کے اعمال میں بہت سے شرعی احکا م اور خصوصیات میں جس کا ذکر رسالہ ( مناسک حج) میں ہو اہے، اور جو شخص اس فریضہ الٰہی کو انجام دیناچاہتاہے لازم ہے کہ لازم مقدار میں اس کے احکا م سے آشنائی پیدا کرے تاکہ جہالت اور غفلت کا شکار نہ ہو اور اس طرح اپنا حج ناقص یا باطل انجام نہ دے کیونکہ اس صورت میں اُسے دوبارہ حج بجالانا ہوگا۔