فتووں کی کتابیں » مختصر احکام عبادات
تلاش کریں:
حج کے احکام ←
→ نماز جمعہ
روزے کے احکام
ماہ رمضان کا روزہ دین اسلام کے اہم ترین واجبات میں سے ایک ہے۔
امام صادقؑ سے حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا :(مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ خَرَجَ رُوْحُ الْإِيْمَانِ مِنْهُ) جو شخص ماہ رمضان کا ایک روزہ (بغیر کسی عذر کے) کھائے اس سے روح ایمان خارج ہوجائے گی۔
مسئلہ ۱۲۰۔ مکلّف پر ماہ رمضان کا روزہ درجہ ذیل شرائط کے ساتھ واجب ہوجاتاہے :
۱۔ بالغ ہو پس نابالغ پر روزہ واجب نہیں ہے گرچہ اُسے روزہ رکھنے کی عادت ڈلوانامستحب ہے یعنی بچے کو حکم کریں کہ اپنی طاقت کی مقدار روزہ رکھے جیسے صبح سے ظہر تک ( یا اس سے کم یا زیادہ) کھانے پینے سے پرہیز کرے تاکہ روزہ رکھنے اور اُسے تحمّل کرنے کی عادت ہوجائے۔
۲۔ عاقل ہو ۔
۳۔ بیہوش نہ ہو ۔
۴۔ حیض اور نفاس سے پاک ہو اس لئے حائض اور نفساء عورت پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن بعد میں اس کی قضا بجالانا واجب ہے۔
۵۔ روزہ رکھنا نقصان دہ نہ ہو پس اگر بیمار شخص کے لئے روزہ نقصان دہ ہو جیسے کہ اس کی بیماری میں اضافہ ہوجائے یا یہ کہ بیماری دیر میں صحیح ہو یا درد میں اضافہ ہوجائے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے البتہ ان تمام صورتوں میں نقصان قابل توجہ ہونا چاہئے یعنی اس حد تک ہوکہ معمولاً قابل تحمّل نہ ہو۔
۶۔ مسافر نہ ہو، اس لئے جس مسافر کا فریضہ قصر نماز ہے اس پر روزہ واجب نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کا روزہ صحیح نہیں ہے اور اس حکم سے چند صورتیں استثناء ہیں:
الف : جو شخص نہ جانتاہو کہ سفر میں روزہ باطل ہے اور روزہ رکھ لیا ہو پھر روزہ مکمّل ہونے کے بعد مسئلے کا علم ہو تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے، قضاء واجب نہیں ہے۔
ب: جو شخص زوال کے بعد سفر کرے تو اس پر احتیاط واجب کی بنا پر واجب ہے کہ اس دن کا روزہ مکمّل کرے اور وہی روزہ کافی ہوگا۔
ج: جو مسافر زوال سے پہلے اپنے شہر میں داخل ہوجائے جب کہ مبطلات روزہ میں سے کوئی ایک انجام نہ دیا ہو تو احتیاط واجب کی بناءپر اس دن کےروزے کی نیت کرے اور وہی روزہ کافی ہوگا۔
البتہ جس شخص کا زوال سےپہلے سفرکرنے کا قصد ہے اس کے لئے اپنے شہر میں یا سفر پر نکلنے کے بعد حد ترخّص تک پہونچنے سے پہلے افطار کرنا جائز نہیں ہے، حد ترخص کی وضاحت مسئلہ نمبر ۱۰۳ میں بیان ہو چکی ہے۔
مسئلہ ۱۲۱۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ درجہ ذیل طریقوں سے ثابت ہوگی :
پہلا : خود شخص چاند دیکھے اور دیکھنا بھی بغیر کسی آلہ کے ذریعے ہو اس لئے اگر چاند معمول کے مطابق بغیر کسی آلہ کہ قابل دید نہ ہو تو ٹیلی سکوپ وغیرہ سے دیکھنا کافی نہیں ہے۔
دوسرا : دو عادل مرد چاند دیکھنے کی گواہی دیں بشر طیکہ انسان کو ان کی غلطی کرنے کا علم نہ ہو یا ان کی گواہی کے خلاف۔گرچہ معارض حکمی۔ گواہی موجود نہ ہو اور ہماری مراد ( معارض حکمی) گواہی سے یہ ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو جو اس کی گواہی قبول کرنے سے مانع ہو جیسے کہ شہر کے بہت سے لوگ چانددیکھیں لیکن ان دو شخص کے علاوہ کسی اور کو چاند نظرنہ آئے۔
تیسرا : شعبان مہینے کے تیس دن گزرجائیں ۔
چوتھا: لوگوں کے درمیان مشہور ہوجائے کہ چاند نظر آگیاہے اور اس شہرت سے علم یا اطمینان پیداہوجائے لیکن سوشل میڈیا یا ریڈیو وغیرہ پر چاند نظر آنے کے اعلان کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔
اور جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ رمضان کی پہلی تاریخ تو اس دن ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے لیکن قضاء کی نیت سے اگر اس کے ذمہّ میں ہے اور اگر قضاء نہیں ہے تو شعبان کے مستحب روزے کی نیت سے روزہ رکھ سکتاہے، چنانچہ بعد میں معلوم ہوکہ اس دن ماہ رمضان تھا تو وہی روزہ کفایت کرے گا، اور جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہے کہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ شوال کی پہلی تاریخ تو اس دن مفطرات روزہ انجام دینا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ چاند ثابت ہونے کے کسی ایک طریقے سے اُس کے لئے ثابت ہوجائےکہ گذشتہ رات چاند نظر آیاہے۔
مسئلہ ۱۲۲۔ روزہ یہ ہے کہ انسان خداوند متعال کی بارگاہ میں خشوع اور بندگیٔ نیت سے طلوع فجر سے غروب شرعی تک کچھ چیزوں سے پرہیز کرے جنہیں ( مفطرات روزہ) کہاجاتاہے، اور مفطرات روزہ درجہ ذیل ہیں:
۱۔ جان بوجھ کر کھانا پینا خواہ مقدار کم ہو یا زیادہ پس اگر جان بوجھ کر نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوگا جیسے کہ انسان بھول جائے کہ روزہ ہےاور کچھ کھا پی لے۔
۲۔ آگے یا پیچھے کے مقام میں ہمبستری کرناخواہ فاعل ہو یا مفعول۔
۳۔ استمناء ،اس معنی میں ہے کہ انسان منی خارج کرنے کے قصد سے ایسا کام کرے جس سے منی خارج ہو گرچہ یہ کام بذات خود حلال ہی کیوں نہ ہو جیسے کہ بیوی کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنے سے منی خارج کرے البتہ دن میں محتلم ہونا ( نیند میں منی خارج ہونا) روزے کو باطل نہیں کر تا بلکہ اگر دن کے آخری حصّہ تک غسل نہ کرے پھر بھی روزہ باطل نہیں ہوگا۔
۴۔ جان بوجھ کر قے کرنا۔
۵۔ جان بوجھ کر پانی یا ہر سیّال ( بہنے والی) چیز سے اینما لینا۔
۶۔ احتیاط واجب کی بنا پر خدا وند متعال یا رسول اکرم ﷺیا ائمہ طاہرین ؊ میں سے کسی ایک کی طرف جان بوجھ کر جھوٹی نسبت دینا۔
۷۔ احتیاط واجب کی بناپر جان بوجھ کر غلیظ گرد و غبار حلق تک پہونچانا۔
مسئلہ ۱۲۳۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی شب میں جنابت کی حالت میں ہوجائے تو طلوع فجر سے پہلے غسل کرنا لازم ہے اور چنانچہ بیماری یاکسی اور وجہ سے غسل نہ کرسکے تو لازم ہے کہ تیمم کرے اور اسی طرح اگر کوئی عورت ماہ رمضان میں رات میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے تو طلوع فجر سے پہلے غسل کرنا لازم ہے اور دونوں صورتوں میں اگر غسل جان بوجھ کر طلوع فجر تک غسل جنابت یا حیض ونفاس یا ان کے بدلے میں تیمم نہ کرے تو اس دن کے روزے کی قضابھی لازم ہے اور قربت مطلقہ کی نیت سے پورے دن مفطرات سے بھی پرہیز کرے۔
مسئلہ ۱۲۴۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی شب میں مجنب ( جنابت کی حالت) ہوجائے اور اُسے یہ اطمینان ہوکہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا ( کیونکہ اس وقت اٹھنے کی عادت ہے یا کوئی اور وجہ سے) اور غسل کرنے کا ارادہ کرکے سوئے لیکن اتفاقاً نماز صبح سے پہلے بیدار نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اگر یہی شخص نماز صبح سے پہلے بیدار ہو اور دوبارہ سوجائے اور پھر اذانِ صبح سے پہلے بیدار نہ ہوپائے تو عقوبت کے لئے اس دن کے روزے کی قضاء بجالانا لازم ہے۔
مسئلہ ۱۲۵۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کا روزہ کھانے، پینے، جماع، استمناء یا طلوع فجر تک جنابت میں باقی رہنے کے ذریعے باطل کرے چنانچہ جان بوجھ کر یا بااختیار ایسا کرے،ناچاری،اضطرار یا کسی کے اجبار کرنے سے نہ ہوتو قضاء کے علاوہ کفّا رہ بھی واجب ہوجائے گا۔
اور عمداً افطار کرنے کا کفّارہ یہ ہےکہ یا انسان ایک غلام آزا د کرے یا دومہینے ( پے در پے) روزہ رکھے یا ساٹھ غریب کو پیٹ بھر کھانا کھلائے،اور ساٹھ غریب کو سیر کرنے کے لئے کافی ہے کہ غریب کو ۷۵۰ گرام خرما، گیہوں ، روٹی، نوڈل یا ہر وہ چیز جسے کھانا کہاجائے دے، اور کھانے کی جگہ پیسا دینا کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۲۶۔ روزے کا کفّارہ اُس شخص پر واجب ہے جسے روزے کے واجب ہونے اور اسی طرح جو کام انجام دے رہا ہے اُس کے مفطر ( روزہ باطل کرنے والا) ہونے کا علم ہو، لیکن اگر علم نہ ہونے کی وجہ سے یقین کرے کہ اُس پر روزہ واجب نہیں ہے یا کوئی چیز مُفطر نہیں ہے،تو اُس پر کفّا رہ واجب نہیں ہوگا جیسے کہ کسی کو یقین ہوکہ ابھی بالغ نہیں ہوا ہے اور روزہ نہ رکھے یا یہ یقین ہوکہ مفطرات روزہ میں سے کوئی ایک روزے کو باطل نہیں کرتا اور اُسے انجام دے تو دونوں صورتوں میں کفّارہ واجب نہیں ہوگا،البتہ کفّارہ واجب ہونے کا علم ہونا کفّارہ واجب ہونے کے لئے شرط نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۲۷۔ اگر کسی شخص سے ماہ رمضان کا روزہ چھوٹ جائے خواہ کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر عذر تو سال کے کسی حصّے میں اُس کی قضاء بجالانا لازم ہے البتہ عید فطر اور عید قربان کے علاوہ کیونکہ ان دونوں میں روزہ رکھنا مطلقاً حرام ہے اور قضا واجب ہونے میں کچھ صورتیںاستثناء ہیںـ :
۱۔ ایسی بیماری جو آئندہ سال تک طول پیدا کرے اسی طرح سے کہ سال کے تمام ا یّام میں روزہ نہ رکھ سکے تو اس صور ت میں اُس سے قضاساقط ہوجائے گی اور فد یہ دیناہوگا یعنی ہر دن کے بدلے تقریباً ۷۵۰ گرام کھانا غریب کو دے۔
۲۔ ضعیف مرد اور عورت جن کے لئے ضعیفی کی وجہ سے روزہ رکھنا بہت زیادہ حرج اور مشقت کا باعث ہے تو ان پر روزہ واجب نہیں ہے اور قضا بھی لازم نہیں ہے لیکن ہر دن کے بدلے فدیہ دیناہوگا اور اگر ان کے لئے روزہ رکھنا بالکل ممکن ہی نہ ہو تو فدیہ دینا بھی لازم نہیں ہے۔
۳۔ جو شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ جتنا بھی پانی پی لے سیراب نہیں ہوتا تو اُس کا حکم ضعیف مرد اور عورت کی طرح ہے۔
مسئلہ ۱۲۸۔ جس عورت کے بچے کی ولادت کے ایام قریب ہیں ( آٹھواں اور نواں مہینہ) روزہ اس کے لئے یا بچے کے لئے نقصان دہ ہے، اسی طرح وہ عورت جو بچے کو دودھ پلا رہی ہے اور اس کا دودھ کم ہے روزہ اس کےلئے یا بچے کے لئے نقصان دہ ہے، دونوں صورتوں میں روزہ ترک کرنا جائز ہے لیکن ماہ رمضان کےبعد اس کی قضا بجالائے اور ہردن کے بدلے فدیہ دے۔
مسئلہ ۱۲۹۔ جس شخص پر ماہ رمضان کی قضا واجب ہے احتیاط مستحب ہے کہ آئندہ ماہ رمضان آنے سے پہلے اس کی قضا بجالائے اور اگر جان بوجھ کر قضا کرنے میں تاخیر کرے تو قضا کے علاوہ ہر دن کے بدلے ۷۵۰ گرام فدیہ بھی احتیاط واجب کی بناپر ادا کرے۔
مسئلہ ۱۳۰۔ جس شخص نے ماہ رمضا ن کا قضا روزہ رکھا ہوا ہے اس کے لئے زوال کے بعد روزہ توڑنا جائز نہیں ہے اگر ایسا کرتاہے تو کفّارہ واجب ہوجائےگا اور دس غریب کو کھانا کھلانا ہوگا یعنی ہر ایک کو ۷۵۰ گرام کھا نا دے اور اگر اس پر قادر نہ ہوتو تین دن روزہ رکھے۔
مسئلہ ۱۳۱۔ جس شخص کے ذمے ماہ رمضان کے روزوں کی قضاء ہے مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا روزہ صحیح نہیں ہوگا لیکن کوئی اور واجب روزہ اُس کے ذمّے ہو جیسے کفّارہ کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی قضا اس کے ذ مّے ہوتو مستحب روزہ رکھ سکتاہے روزہ صحیح ہوگا۔
حج کے احکام ←
→ نماز جمعہ
امام صادقؑ سے حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا :(مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ خَرَجَ رُوْحُ الْإِيْمَانِ مِنْهُ) جو شخص ماہ رمضان کا ایک روزہ (بغیر کسی عذر کے) کھائے اس سے روح ایمان خارج ہوجائے گی۔
مسئلہ ۱۲۰۔ مکلّف پر ماہ رمضان کا روزہ درجہ ذیل شرائط کے ساتھ واجب ہوجاتاہے :
۱۔ بالغ ہو پس نابالغ پر روزہ واجب نہیں ہے گرچہ اُسے روزہ رکھنے کی عادت ڈلوانامستحب ہے یعنی بچے کو حکم کریں کہ اپنی طاقت کی مقدار روزہ رکھے جیسے صبح سے ظہر تک ( یا اس سے کم یا زیادہ) کھانے پینے سے پرہیز کرے تاکہ روزہ رکھنے اور اُسے تحمّل کرنے کی عادت ہوجائے۔
۲۔ عاقل ہو ۔
۳۔ بیہوش نہ ہو ۔
۴۔ حیض اور نفاس سے پاک ہو اس لئے حائض اور نفساء عورت پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن بعد میں اس کی قضا بجالانا واجب ہے۔
۵۔ روزہ رکھنا نقصان دہ نہ ہو پس اگر بیمار شخص کے لئے روزہ نقصان دہ ہو جیسے کہ اس کی بیماری میں اضافہ ہوجائے یا یہ کہ بیماری دیر میں صحیح ہو یا درد میں اضافہ ہوجائے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے البتہ ان تمام صورتوں میں نقصان قابل توجہ ہونا چاہئے یعنی اس حد تک ہوکہ معمولاً قابل تحمّل نہ ہو۔
۶۔ مسافر نہ ہو، اس لئے جس مسافر کا فریضہ قصر نماز ہے اس پر روزہ واجب نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کا روزہ صحیح نہیں ہے اور اس حکم سے چند صورتیں استثناء ہیں:
الف : جو شخص نہ جانتاہو کہ سفر میں روزہ باطل ہے اور روزہ رکھ لیا ہو پھر روزہ مکمّل ہونے کے بعد مسئلے کا علم ہو تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے، قضاء واجب نہیں ہے۔
ب: جو شخص زوال کے بعد سفر کرے تو اس پر احتیاط واجب کی بنا پر واجب ہے کہ اس دن کا روزہ مکمّل کرے اور وہی روزہ کافی ہوگا۔
ج: جو مسافر زوال سے پہلے اپنے شہر میں داخل ہوجائے جب کہ مبطلات روزہ میں سے کوئی ایک انجام نہ دیا ہو تو احتیاط واجب کی بناءپر اس دن کےروزے کی نیت کرے اور وہی روزہ کافی ہوگا۔
البتہ جس شخص کا زوال سےپہلے سفرکرنے کا قصد ہے اس کے لئے اپنے شہر میں یا سفر پر نکلنے کے بعد حد ترخّص تک پہونچنے سے پہلے افطار کرنا جائز نہیں ہے، حد ترخص کی وضاحت مسئلہ نمبر ۱۰۳ میں بیان ہو چکی ہے۔
مسئلہ ۱۲۱۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ درجہ ذیل طریقوں سے ثابت ہوگی :
پہلا : خود شخص چاند دیکھے اور دیکھنا بھی بغیر کسی آلہ کے ذریعے ہو اس لئے اگر چاند معمول کے مطابق بغیر کسی آلہ کہ قابل دید نہ ہو تو ٹیلی سکوپ وغیرہ سے دیکھنا کافی نہیں ہے۔
دوسرا : دو عادل مرد چاند دیکھنے کی گواہی دیں بشر طیکہ انسان کو ان کی غلطی کرنے کا علم نہ ہو یا ان کی گواہی کے خلاف۔گرچہ معارض حکمی۔ گواہی موجود نہ ہو اور ہماری مراد ( معارض حکمی) گواہی سے یہ ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو جو اس کی گواہی قبول کرنے سے مانع ہو جیسے کہ شہر کے بہت سے لوگ چانددیکھیں لیکن ان دو شخص کے علاوہ کسی اور کو چاند نظرنہ آئے۔
تیسرا : شعبان مہینے کے تیس دن گزرجائیں ۔
چوتھا: لوگوں کے درمیان مشہور ہوجائے کہ چاند نظر آگیاہے اور اس شہرت سے علم یا اطمینان پیداہوجائے لیکن سوشل میڈیا یا ریڈیو وغیرہ پر چاند نظر آنے کے اعلان کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔
اور جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ رمضان کی پہلی تاریخ تو اس دن ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے لیکن قضاء کی نیت سے اگر اس کے ذمہّ میں ہے اور اگر قضاء نہیں ہے تو شعبان کے مستحب روزے کی نیت سے روزہ رکھ سکتاہے، چنانچہ بعد میں معلوم ہوکہ اس دن ماہ رمضان تھا تو وہی روزہ کفایت کرے گا، اور جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہے کہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ شوال کی پہلی تاریخ تو اس دن مفطرات روزہ انجام دینا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ چاند ثابت ہونے کے کسی ایک طریقے سے اُس کے لئے ثابت ہوجائےکہ گذشتہ رات چاند نظر آیاہے۔
مسئلہ ۱۲۲۔ روزہ یہ ہے کہ انسان خداوند متعال کی بارگاہ میں خشوع اور بندگیٔ نیت سے طلوع فجر سے غروب شرعی تک کچھ چیزوں سے پرہیز کرے جنہیں ( مفطرات روزہ) کہاجاتاہے، اور مفطرات روزہ درجہ ذیل ہیں:
۱۔ جان بوجھ کر کھانا پینا خواہ مقدار کم ہو یا زیادہ پس اگر جان بوجھ کر نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوگا جیسے کہ انسان بھول جائے کہ روزہ ہےاور کچھ کھا پی لے۔
۲۔ آگے یا پیچھے کے مقام میں ہمبستری کرناخواہ فاعل ہو یا مفعول۔
۳۔ استمناء ،اس معنی میں ہے کہ انسان منی خارج کرنے کے قصد سے ایسا کام کرے جس سے منی خارج ہو گرچہ یہ کام بذات خود حلال ہی کیوں نہ ہو جیسے کہ بیوی کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنے سے منی خارج کرے البتہ دن میں محتلم ہونا ( نیند میں منی خارج ہونا) روزے کو باطل نہیں کر تا بلکہ اگر دن کے آخری حصّہ تک غسل نہ کرے پھر بھی روزہ باطل نہیں ہوگا۔
۴۔ جان بوجھ کر قے کرنا۔
۵۔ جان بوجھ کر پانی یا ہر سیّال ( بہنے والی) چیز سے اینما لینا۔
۶۔ احتیاط واجب کی بنا پر خدا وند متعال یا رسول اکرم ﷺیا ائمہ طاہرین ؊ میں سے کسی ایک کی طرف جان بوجھ کر جھوٹی نسبت دینا۔
۷۔ احتیاط واجب کی بناپر جان بوجھ کر غلیظ گرد و غبار حلق تک پہونچانا۔
مسئلہ ۱۲۳۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی شب میں جنابت کی حالت میں ہوجائے تو طلوع فجر سے پہلے غسل کرنا لازم ہے اور چنانچہ بیماری یاکسی اور وجہ سے غسل نہ کرسکے تو لازم ہے کہ تیمم کرے اور اسی طرح اگر کوئی عورت ماہ رمضان میں رات میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے تو طلوع فجر سے پہلے غسل کرنا لازم ہے اور دونوں صورتوں میں اگر غسل جان بوجھ کر طلوع فجر تک غسل جنابت یا حیض ونفاس یا ان کے بدلے میں تیمم نہ کرے تو اس دن کے روزے کی قضابھی لازم ہے اور قربت مطلقہ کی نیت سے پورے دن مفطرات سے بھی پرہیز کرے۔
مسئلہ ۱۲۴۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی شب میں مجنب ( جنابت کی حالت) ہوجائے اور اُسے یہ اطمینان ہوکہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا ( کیونکہ اس وقت اٹھنے کی عادت ہے یا کوئی اور وجہ سے) اور غسل کرنے کا ارادہ کرکے سوئے لیکن اتفاقاً نماز صبح سے پہلے بیدار نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اگر یہی شخص نماز صبح سے پہلے بیدار ہو اور دوبارہ سوجائے اور پھر اذانِ صبح سے پہلے بیدار نہ ہوپائے تو عقوبت کے لئے اس دن کے روزے کی قضاء بجالانا لازم ہے۔
مسئلہ ۱۲۵۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کا روزہ کھانے، پینے، جماع، استمناء یا طلوع فجر تک جنابت میں باقی رہنے کے ذریعے باطل کرے چنانچہ جان بوجھ کر یا بااختیار ایسا کرے،ناچاری،اضطرار یا کسی کے اجبار کرنے سے نہ ہوتو قضاء کے علاوہ کفّا رہ بھی واجب ہوجائے گا۔
اور عمداً افطار کرنے کا کفّارہ یہ ہےکہ یا انسان ایک غلام آزا د کرے یا دومہینے ( پے در پے) روزہ رکھے یا ساٹھ غریب کو پیٹ بھر کھانا کھلائے،اور ساٹھ غریب کو سیر کرنے کے لئے کافی ہے کہ غریب کو ۷۵۰ گرام خرما، گیہوں ، روٹی، نوڈل یا ہر وہ چیز جسے کھانا کہاجائے دے، اور کھانے کی جگہ پیسا دینا کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۲۶۔ روزے کا کفّارہ اُس شخص پر واجب ہے جسے روزے کے واجب ہونے اور اسی طرح جو کام انجام دے رہا ہے اُس کے مفطر ( روزہ باطل کرنے والا) ہونے کا علم ہو، لیکن اگر علم نہ ہونے کی وجہ سے یقین کرے کہ اُس پر روزہ واجب نہیں ہے یا کوئی چیز مُفطر نہیں ہے،تو اُس پر کفّا رہ واجب نہیں ہوگا جیسے کہ کسی کو یقین ہوکہ ابھی بالغ نہیں ہوا ہے اور روزہ نہ رکھے یا یہ یقین ہوکہ مفطرات روزہ میں سے کوئی ایک روزے کو باطل نہیں کرتا اور اُسے انجام دے تو دونوں صورتوں میں کفّارہ واجب نہیں ہوگا،البتہ کفّارہ واجب ہونے کا علم ہونا کفّارہ واجب ہونے کے لئے شرط نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۲۷۔ اگر کسی شخص سے ماہ رمضان کا روزہ چھوٹ جائے خواہ کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر عذر تو سال کے کسی حصّے میں اُس کی قضاء بجالانا لازم ہے البتہ عید فطر اور عید قربان کے علاوہ کیونکہ ان دونوں میں روزہ رکھنا مطلقاً حرام ہے اور قضا واجب ہونے میں کچھ صورتیںاستثناء ہیںـ :
۱۔ ایسی بیماری جو آئندہ سال تک طول پیدا کرے اسی طرح سے کہ سال کے تمام ا یّام میں روزہ نہ رکھ سکے تو اس صور ت میں اُس سے قضاساقط ہوجائے گی اور فد یہ دیناہوگا یعنی ہر دن کے بدلے تقریباً ۷۵۰ گرام کھانا غریب کو دے۔
۲۔ ضعیف مرد اور عورت جن کے لئے ضعیفی کی وجہ سے روزہ رکھنا بہت زیادہ حرج اور مشقت کا باعث ہے تو ان پر روزہ واجب نہیں ہے اور قضا بھی لازم نہیں ہے لیکن ہر دن کے بدلے فدیہ دیناہوگا اور اگر ان کے لئے روزہ رکھنا بالکل ممکن ہی نہ ہو تو فدیہ دینا بھی لازم نہیں ہے۔
۳۔ جو شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ جتنا بھی پانی پی لے سیراب نہیں ہوتا تو اُس کا حکم ضعیف مرد اور عورت کی طرح ہے۔
مسئلہ ۱۲۸۔ جس عورت کے بچے کی ولادت کے ایام قریب ہیں ( آٹھواں اور نواں مہینہ) روزہ اس کے لئے یا بچے کے لئے نقصان دہ ہے، اسی طرح وہ عورت جو بچے کو دودھ پلا رہی ہے اور اس کا دودھ کم ہے روزہ اس کےلئے یا بچے کے لئے نقصان دہ ہے، دونوں صورتوں میں روزہ ترک کرنا جائز ہے لیکن ماہ رمضان کےبعد اس کی قضا بجالائے اور ہردن کے بدلے فدیہ دے۔
مسئلہ ۱۲۹۔ جس شخص پر ماہ رمضان کی قضا واجب ہے احتیاط مستحب ہے کہ آئندہ ماہ رمضان آنے سے پہلے اس کی قضا بجالائے اور اگر جان بوجھ کر قضا کرنے میں تاخیر کرے تو قضا کے علاوہ ہر دن کے بدلے ۷۵۰ گرام فدیہ بھی احتیاط واجب کی بناپر ادا کرے۔
مسئلہ ۱۳۰۔ جس شخص نے ماہ رمضا ن کا قضا روزہ رکھا ہوا ہے اس کے لئے زوال کے بعد روزہ توڑنا جائز نہیں ہے اگر ایسا کرتاہے تو کفّارہ واجب ہوجائےگا اور دس غریب کو کھانا کھلانا ہوگا یعنی ہر ایک کو ۷۵۰ گرام کھا نا دے اور اگر اس پر قادر نہ ہوتو تین دن روزہ رکھے۔
مسئلہ ۱۳۱۔ جس شخص کے ذمے ماہ رمضان کے روزوں کی قضاء ہے مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا روزہ صحیح نہیں ہوگا لیکن کوئی اور واجب روزہ اُس کے ذمّے ہو جیسے کفّارہ کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی قضا اس کے ذ مّے ہوتو مستحب روزہ رکھ سکتاہے روزہ صحیح ہوگا۔