فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
مال کی زکوٰۃ ←
→ ان لوگوں کے شرائط جوسہم سادات کے مستحق ہیں
خمس ادا کرنے کے دوسرے احکام
مسئلہ 2469: مالیات (ٹیکس) خمس کےعنوان سے حساب نہیں کیا جائے گا پس جو شخص مالیات (ٹیکس) اور اس کے مانند ادا کرتا ہے اسے خمس کا جز یا دوسرے رقوم شرعیہ کے عنوان سے اپنے مرجع تقلید سے حساب نہیں کر سکتا البتہ جو کچھ بھی مالیات (ٹیکس) کے عنوان سے سال کے دوران کی درآمد سے ادا کیا ہے وہ اس کے اخراجات میں سے شمار ہوگا جس کا خمس نہیں ہے گرچہ گذشتہ سال کے مالیات (ٹیکس) سے مربوط ہو۔
مسئلہ 2470: انسان اس مال کا خمس جس پر خمس واجب ہے خود اسی مال سے ادا کر سکتا ہے یا اس کی قیمت کی مقدار جتنا خمس واجب ہوا ہے رائج پیسہ دے سکتا ہے[294]{ FR 4741 } لیکن اگر اس مال کا خمس کسی دوسرے مال سے جو دوسری جنس سے ہے دے تو اشکال ہے مگر یہ کہ حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت سے ہو۔
مسئلہ 2471: اگر وہ مال جس پر خمس واجب ہے کسی دوسری جگہ جہاں مالک نہیں رہتا ہے موجود ہو اور انسان خود اس سے خمس ادا کرنے کی توانائی تاخیر کئے بغیر نہ رکھتا ہو لیکن اس کی قیمت فوراً ادا کر سکتا ہو تو اس کے لیے ایسا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ تاخیر جائز ہے تاکہ خمس کو خود اس مال سے ادا کرے لیکن ضروری ہے کہ خمس ادا کرنے میں کوتاہی اور لاپرواہی نہ کرے۔
مسئلہ 2472: اگر انسان کے شہر میں کوئی مستحق نہ ہو تو خمس دوسرے شہر میں لے جا سکتا ہے بلکہ اگر اس کے شہر میں مستحق ہو اور خمس کے ادا کرنے میں لاپرواہی شمار نہ ہوتو خمس کو دوسرے شہر لے جا سکتا ہے اور دونوں صورتوں میں اس کے نقل و انتقال کے اخراجات خمس سے کم نہیں کر سکتا اور اگر تلف ہو جائے توگرچہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو، ضامن ہے لیکن اگرخمس کو اپنے مال سے جدا کیا ہو اور مستحق یا حاکم شرع کی وکالت سے اسے قبض کرلے تو اس کا ذمہ بری ہو جائے گا اوراگر اس کے بعد اس خمس کو اپنے موکل کی اجازت یا اس کے حکم سے دوسرے شہر میں لے جائے اور تلف ہو جائےپس ا گر اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو تو ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ 2473: اگر انسان اپنی درآمد کا حساب سال کے آخر میں کركے اس کا خمس ادا کرے اور پھر بعد میں متوجہ ہو کہ غلط حساب کیا تھا اور جتنا اس کے مال میں خمس واجب ہوا تھا اس سے زیادہ خمس ادا کیا ہے تو اس کے لیے اس اضافہ کو اس خمس سے حساب کرنا جو اگلے سال اس پر واجب ہوگا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اصلاح امر کے لیے حاکم شرع یا غریب کو دے دیا ہو تو اگر وہ خود باقی ہو تو اسے واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ خود تلف ہو گیا ہے اور غریب کو معلوم تھا کہ اس نے حساب کرنے میں غلطی کرکے اضافہ دیا ہے تو بھی اس کا عوض واپس لینا جائز ہے۔
مسئلہ 2474: جو شخص خمس ادا کرنا چاہتا ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی سامان کی قیمت اس کی واقعی قیمت سے زیادہ حساب کرے اور اسے خمس کے لیے ادا کرے یا وہ مال جس پر خمس واجب ہوا ہے اسے اس کی واقعی قیمت سے کم حساب کرے اور اس کا خمس دے گرچہ مستحق اس قیمت پر راضی ہو اور مسئلہ نمبر 2470 میں گزر گیا کہ رائج پیسے کے علاوہ کسی اور چیز کو خمس کے لیے دینا مطلقاً اشکال رکھتا ہے مگریہ کہ یہ کام حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت سے انجام دے۔
مسئلہ 2475: مالک مستحق کو خمس دے کر اس سے شرط نہیں کر سکتا کہ وہ اسے واپس کردے۔
مسئلہ 2470: انسان اس مال کا خمس جس پر خمس واجب ہے خود اسی مال سے ادا کر سکتا ہے یا اس کی قیمت کی مقدار جتنا خمس واجب ہوا ہے رائج پیسہ دے سکتا ہے[294]{ FR 4741 } لیکن اگر اس مال کا خمس کسی دوسرے مال سے جو دوسری جنس سے ہے دے تو اشکال ہے مگر یہ کہ حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت سے ہو۔
مسئلہ 2471: اگر وہ مال جس پر خمس واجب ہے کسی دوسری جگہ جہاں مالک نہیں رہتا ہے موجود ہو اور انسان خود اس سے خمس ادا کرنے کی توانائی تاخیر کئے بغیر نہ رکھتا ہو لیکن اس کی قیمت فوراً ادا کر سکتا ہو تو اس کے لیے ایسا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ تاخیر جائز ہے تاکہ خمس کو خود اس مال سے ادا کرے لیکن ضروری ہے کہ خمس ادا کرنے میں کوتاہی اور لاپرواہی نہ کرے۔
مسئلہ 2472: اگر انسان کے شہر میں کوئی مستحق نہ ہو تو خمس دوسرے شہر میں لے جا سکتا ہے بلکہ اگر اس کے شہر میں مستحق ہو اور خمس کے ادا کرنے میں لاپرواہی شمار نہ ہوتو خمس کو دوسرے شہر لے جا سکتا ہے اور دونوں صورتوں میں اس کے نقل و انتقال کے اخراجات خمس سے کم نہیں کر سکتا اور اگر تلف ہو جائے توگرچہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو، ضامن ہے لیکن اگرخمس کو اپنے مال سے جدا کیا ہو اور مستحق یا حاکم شرع کی وکالت سے اسے قبض کرلے تو اس کا ذمہ بری ہو جائے گا اوراگر اس کے بعد اس خمس کو اپنے موکل کی اجازت یا اس کے حکم سے دوسرے شہر میں لے جائے اور تلف ہو جائےپس ا گر اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو تو ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ 2473: اگر انسان اپنی درآمد کا حساب سال کے آخر میں کركے اس کا خمس ادا کرے اور پھر بعد میں متوجہ ہو کہ غلط حساب کیا تھا اور جتنا اس کے مال میں خمس واجب ہوا تھا اس سے زیادہ خمس ادا کیا ہے تو اس کے لیے اس اضافہ کو اس خمس سے حساب کرنا جو اگلے سال اس پر واجب ہوگا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اصلاح امر کے لیے حاکم شرع یا غریب کو دے دیا ہو تو اگر وہ خود باقی ہو تو اسے واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ خود تلف ہو گیا ہے اور غریب کو معلوم تھا کہ اس نے حساب کرنے میں غلطی کرکے اضافہ دیا ہے تو بھی اس کا عوض واپس لینا جائز ہے۔
مسئلہ 2474: جو شخص خمس ادا کرنا چاہتا ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی سامان کی قیمت اس کی واقعی قیمت سے زیادہ حساب کرے اور اسے خمس کے لیے ادا کرے یا وہ مال جس پر خمس واجب ہوا ہے اسے اس کی واقعی قیمت سے کم حساب کرے اور اس کا خمس دے گرچہ مستحق اس قیمت پر راضی ہو اور مسئلہ نمبر 2470 میں گزر گیا کہ رائج پیسے کے علاوہ کسی اور چیز کو خمس کے لیے دینا مطلقاً اشکال رکھتا ہے مگریہ کہ یہ کام حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت سے انجام دے۔
مسئلہ 2475: مالک مستحق کو خمس دے کر اس سے شرط نہیں کر سکتا کہ وہ اسے واپس کردے۔
[294] چنانچہ انسان اپنے مال کا خمس رائج پیسے سے ادا کرے اس کے مختلف احکام ہیں جو مختلف اسباب سے وابستہ ہیں جیسے :
الف: خمس کے عنوان سے دئے گئے مال کی نوعیت ( سال کے دوران کی درآمد ہے یا سال کے آخر میں بچی ہوئی درآمد ، مخمس مال ہے یا ایسا مال ہے جس پر خمس واجب نہیں ہوتا یا قرض لیا ہو، مال یا ایسا مال ہے جس پر سال گزر گیا ہے)
ب: اس سامان کی نوعیت جس پر خمس واجب ہے (اخراجات میں سے ہے یا غیر اخراجات میں سے ہے، موجود ہے یا تلف ہو گیا) اور ان میں سے ہر ایک مقام مخصوص احکام رکھتا ہے ، نمونہ کے طور پر مسئلہ نمبر 2369 کی مثالوں كی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔