فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
مشکوک مال کا خمس اور وہ افراد جنہوں نے ایک مدت سے خمس نہیں دیا ہے ←
→ دست گردان (دوبارہ واپس کرنا ) اور قاعدہٴ ربع
خمس نہ دئے ہوئے مال میں تصرف کرنا
مسئلہ 2372: اگر انسان عین اسی پیسے سے جس کا خمس نہیں دیا ہے[275] کوئی سامان خریدے یعنی بیچنے والے سے کہے كہ اس سامان کو اسی پیسے سے خرید رہا ہوں چنانچہ بیچنے والا شیعہ اثنا عشری ہو معاملہ صحیح ہے اور بیچنے والا اس پورے پیسے میں تصرف کر سکتا ہے اور خمس اس سامان سے متعلق ہوجائے گا جسے خریدا ہے اور اس پر لازم ہے کہ اس سامان كا خمس موجودہ قیمت سے ادا کرے ۔[276]
مسئلہ 2373: اگر انسان کسی سامان کو ذمے میں خریدے اور معاملے کے بعد اس کی قیمت ایسے پیسے سے ادا کرے جس کا خمس نہیں دیا ہے تو معاملہ ہر صورت میں صحیح ہے، چنانچہ بیچنے والا شیعہ اثنا عشری ہو تو خمس اس پیسے سے خریدار کے ذمے میں منتقل ہو جائے گا اور خریدار کا ذمہ صاحبانِ خمس کا مقروض رہے گا پس لازم ہے کہ اسے ادا کرے اور بیچنے والا پورے پیسے اور خریدنے والا پورے سامان میں تصرف کر سکتا ہے۔[277]
مسئلہ 2374:جو شخص خمس نہیں دیتا یا اپنے بعض مال کا خمس ادا نہیں کیا ہے چنانچہ اپنے مال کو کسی شیعہ اثنا عشری کی ملکیت میں دے مثلاً اپنے مال کو شرعی طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ جیسے بیچنے ، یا ہدیہ دینے یا قرض ادا کرنے یا … دوسری چیزوں کے ذریعے اس تک منتقل کر دے تو وہ مال اس شیعہ کی ملکیت میں آجائے گا اور اس کے لیے حلال ہے اور اس کو خمس دینے کی ضرورت نہیں ہے گرچہ اسے معلوم ہو کہ اس مال پر خمس واجب ہے اور اس کے مالک نے اس کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔
اس بنا پر اگر شیعہ اثنا عشری کسی ایسی چیز کو خریدے جس کا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے (اس چیز پر سال گزر گیا ہے) تو معاملہ صحیح ہے اور اس کا خمس بیچنے والے کے ذمے ہے اس کا وظیفہ ہے کہ خمس ادا کرے اور خریدار اس پوری چیز کا مالک ہو جائے گا اس پر خمس کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔[278]
اسی طرح ایسے افراد کے گھر پہ جانا جو اپنے مال کا خمس ادا نہیں کرتے اور ان کےمال سے استعمال کرنا (ان کی اجازت اور رضایت سے) جب کہ انسان کو معلوم ہو کہ ایسے مال سے اس کی مہمان داری کر رہا ہے جس کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔ شیعہ اثنا عشری کےلیے جائز ہے، اور تمام مذکورہ مقامات میں اس کا گناہ اس شخص پر ہے جس نے اپنے مال کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس مال کا حکم جس کا خمس نہیں دیا گیا ہے اور وراثت میں ملا ہے مزید تفصیل کے ساتھ مسئلہ نمبر 2310 اور 2311 میں ذکر کیا گیا ہے ۔
مسئلہ 2375:شیعہ اثنا عشری جو دوسرے شخص کے ساتھ کسی کام یا تجارت وغیرہ میں شریک ہے اگر اپنی درآمد کا خمس ادا کرے اور اس کا شریک (پاٹنر)ایسی در آمد کا خمس نہ دے اور آئندہ سال اسی پیسے کو شریک کے ساتھ لگائے جس کا خمس ادا نہیں کیا ہے تو اس شخص کےلیے جس نے اپنے مال کا خمس ادا کیا ہے اس مشترک مال میں تصرف کرنا جائز ہے۔
مسئلہ 2373: اگر انسان کسی سامان کو ذمے میں خریدے اور معاملے کے بعد اس کی قیمت ایسے پیسے سے ادا کرے جس کا خمس نہیں دیا ہے تو معاملہ ہر صورت میں صحیح ہے، چنانچہ بیچنے والا شیعہ اثنا عشری ہو تو خمس اس پیسے سے خریدار کے ذمے میں منتقل ہو جائے گا اور خریدار کا ذمہ صاحبانِ خمس کا مقروض رہے گا پس لازم ہے کہ اسے ادا کرے اور بیچنے والا پورے پیسے اور خریدنے والا پورے سامان میں تصرف کر سکتا ہے۔[277]
مسئلہ 2374:جو شخص خمس نہیں دیتا یا اپنے بعض مال کا خمس ادا نہیں کیا ہے چنانچہ اپنے مال کو کسی شیعہ اثنا عشری کی ملکیت میں دے مثلاً اپنے مال کو شرعی طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ جیسے بیچنے ، یا ہدیہ دینے یا قرض ادا کرنے یا … دوسری چیزوں کے ذریعے اس تک منتقل کر دے تو وہ مال اس شیعہ کی ملکیت میں آجائے گا اور اس کے لیے حلال ہے اور اس کو خمس دینے کی ضرورت نہیں ہے گرچہ اسے معلوم ہو کہ اس مال پر خمس واجب ہے اور اس کے مالک نے اس کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔
اس بنا پر اگر شیعہ اثنا عشری کسی ایسی چیز کو خریدے جس کا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے (اس چیز پر سال گزر گیا ہے) تو معاملہ صحیح ہے اور اس کا خمس بیچنے والے کے ذمے ہے اس کا وظیفہ ہے کہ خمس ادا کرے اور خریدار اس پوری چیز کا مالک ہو جائے گا اس پر خمس کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔[278]
اسی طرح ایسے افراد کے گھر پہ جانا جو اپنے مال کا خمس ادا نہیں کرتے اور ان کےمال سے استعمال کرنا (ان کی اجازت اور رضایت سے) جب کہ انسان کو معلوم ہو کہ ایسے مال سے اس کی مہمان داری کر رہا ہے جس کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔ شیعہ اثنا عشری کےلیے جائز ہے، اور تمام مذکورہ مقامات میں اس کا گناہ اس شخص پر ہے جس نے اپنے مال کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس مال کا حکم جس کا خمس نہیں دیا گیا ہے اور وراثت میں ملا ہے مزید تفصیل کے ساتھ مسئلہ نمبر 2310 اور 2311 میں ذکر کیا گیا ہے ۔
مسئلہ 2375:شیعہ اثنا عشری جو دوسرے شخص کے ساتھ کسی کام یا تجارت وغیرہ میں شریک ہے اگر اپنی درآمد کا خمس ادا کرے اور اس کا شریک (پاٹنر)ایسی در آمد کا خمس نہ دے اور آئندہ سال اسی پیسے کو شریک کے ساتھ لگائے جس کا خمس ادا نہیں کیا ہے تو اس شخص کےلیے جس نے اپنے مال کا خمس ادا کیا ہے اس مشترک مال میں تصرف کرنا جائز ہے۔
[275] خمس نہ دئے ہوئے مال سے مراد وہ در آمد ہے جس پر خمس کی تاریخ گزر گئی ہے اور اس کا خمس ادا نہیں کیا ہے۔
[276] اگر بیچنے والا شیعہ اثنا عشری نہ ہو تو ایک پنجم ۵؍۱معاملے کو حاکم شرع کی اجازت سے صحیح کیا جا سکتا ہے۔
[277] اگر بیچنے والا شیعہ اثنا عشری نہ ہو تو خریدار ایک پنجم۵؍۱ کی مقدار بیچنے والے کا مقروض ہے اور شرعاً اس مال کے خمس کا ضامن ہے جو بیچنے والے کو دیا ہے اور اس کے خمس کو کسی دوسرے مال سے ادا کر سکتا ہے۔
[278] البتہ اگر خریدار نے اس چیز کو سال کے درمیان کی درآمد سے خریدا ہو تو وہ چیز اس کے سال کی درآمد میں سے شمار کی جائے گی ، چنانچہ خمس کی تاریخ تک باقی رہے اور اخراجات میں خرچ نہ ہو تو اس پر خمس واجب ہوگا پس اس پر لازم ہے کہ خمس ادا کرے، اور دوسرے اموال جو انسان کی ملکیت میں کسی نے دے دئے ہیں یہی حکم رکھتا ہے۔