فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
آباد کرنا، باغ یا باغیچہ بنانا اور اس کے خمس کے احکام ←
→ سرمایہ، کام کے آلات اور کام کرنے والوں سے مربوط بعض احکام
مخمّس یا جو مال حکم مخمّس میں ہے اس کی قیمت کا زیادہ یا کم ہونا
مسئلہ 2336: اگر مخمّس مال یا وہ مال جو مخمّس کے حکم میں ہے اس کی قیمت زیادہ ہو جائے تو چند صورت ہیں:
1۔ مال کو تجارت کے لیے مہیا کیا ہو اور معاملہ کرکے اس کی قیمت کا وصول کرنا ممکن ہو۔
اس صورت میں بازار میں بڑھی ہوئی قیمت کا خمس اس کی تاریخ پر واجب ہے گرچہ اسے بیچا نہ ہو ۔[252]
2۔ مال کو تجارت کے لیے مہیّا یا محفوظ نہ کیا ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں:
الف: مال انسان کو معاوضہ کے ذریعہ نہ ملا ہو جیسے ارث ۔
اس صورت میں ا س کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے بیچنے کے بعد بھی اس پر خمس نہیں ہے مثلاً اگر وارث اس باغ کو جو اسے اپنے والد سے ارث میں ملی ہے اور اس کی قیمت سو ملین تومان ہے اور اسے تجارت کے لیے محفوظ نہ رکھا ہو اور اب اس باغ کی قیمت دو سو ملین ہو چکی ہے تو اس سو ملین پر جو اضافہ ہوا ہے خمس واجب نہیں ہے گرچہ بیچ بھی دے۔
ب: مال معاوضہ جیسے خرید و فروش کے ذریعے ، انسان تک منتقل ہو ا ہو۔
اس صورت میں جب تک مال کو بیچا نہیں ہے اس کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے اس پر خمس نہیں ہے، اور جب بھی بیچے اس کی خریدی ہوئی قیمت پر خمس واجب نہیں ہے اور جو قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس سال میں بیچ رہا ہے اس کی در آمد میں شمار ہوگی، پس اگر خمس کی تاریخ تک اخراجات زندگی میں خرچ نہ ہو تو اس پر خمس واجب ہے، قابلِ ذکر ہے کہ اگر کسی مال کو غیر معاوضہ کے ذریعے حاصل کرے مثلاً کسی نے اسے ہدیہ کے طور پر دیا ہو تو چنانچہ اس کا خمس خود اس مال سے دیا ہو (یعنی خود اس میں سے پانچواں حصہ الگ کرکے اسے مخمّس کیا ہو) تو اس کی قیمت میں جو اضافہ ہو اس پر بیچنے کے بعد بھی خمس واجب نہیں ہے، لیکن اگر کسی دوسرے مال سے اس کا خمس نکالا ہے تو اس چار بٹا پانچ ۴؍۵غیر معاوضہ والی چیزوں کا حکم رکھتا ہے اور ایک بٹا پانچ معاوضہ والے مال کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ 2337: مہنگائی کی وجہ سے جتنی مقدار چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہو تا ہے چنانچہ حد سے زیادہ مہنگائی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو یعنی پیسے کی اہمیت زیادہ گھٹ گئی ہو اس طرح کہ وہ چیز بہت زیادہ پیسے مثلاً اصلی قیمت سے دو یا چند برابر زیادہ پر معاملہ کی جارہی ہو تو یہ قیمت میں اضافہ احتیاط واجب کی بنا پر در آمد میں سے شمار ہوگی اور قیمت میں اضافے کے احکام اس پر جاری ہوں گے، البتہ کیونکہ یہ حکم احتیاط کی بنا پر ہےاس لیے احتیاط واجب کے دوسرے مقامات کی طرح ان شرائط کی رعایت کرتے ہوئے جو مسئلہ نمبر 8 میں ذکر کی گئی دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
مسئلہ 2338: اگر کوئی شخص کسی چیز یا سامان کو قرض یا ادھار معاملے کے ذریعے تجارت کے قصد سے تجارت كا مال کے عنوان سے خریداری کرے، اور اس چیز کی قیمت خمس کی تاریخ تک بڑھ جائے تو یہ اضافی قیمت اس سال کی در آمد میں سے شمار ہوگی نہ آنے والے سال کی در آمد میں سے، اس بنا پر اس پر لازم ہے کہ اس اضافی قیمت کا خمس ادا کرے گرچہ خود اس چیز کی اصل قیمت پر خمس نہیں ہے کیونکہ آخر سال تک اپنا قرض نہیں ادا کیا ہے۔
مسئلہ 2339: اگر انسان کسی سامان کو تجارت کے لیے (تجارت كے مال) کے عنوان سے خریداری کرے اور اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے لیکن اسے نہ بیچے اور اسی سال کے درمیان اس کی قیمت گھٹ جائے تو اس اضافی قیمت کا خمس واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2340: اگر اس سامان کی قیمت جسے تجارت کے لیے (تجارت كے مال) خریداری کیا ہے خمس کی تاریخ میں بڑھ جائے اور معاملہ کرکے اس کی قیمت کا دریافت کرنا ممکن ہو لیکن اس امید سے کہ اس کی قیمت میں اور اضافہ ہوگا اسے نہ بیچے اور اگلے سال اس کی قیمت گھٹ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر خمس کی تاریخ پر جو اس کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا اس کا خمس ادا کرے لیکن اگر ایسا اس مال کے لیے جو تجارت کے لیے مہیّا نہیں کیا ہے اور سال کی ضروریات میں خرچ نہیں ہوا ہے پیش آئے مثلاً جو سامان خرید کر ذخیرہ کیا ہے تاکہ آئندہ برسوں میں اس سے استفادہ کرے اگر خمس کی تاریخ پر اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے، لیکن انسان اس کا خمس ادا نہ کرے اور اس کی قیمت آنے والے برسوں میں کم ہو جائے تو گذشتہ سال میں جو قیمت میں اضافہ ہو اتھا اس کا خمس واجب نہیں ہے بلکہ موجودہ قیمت کا خمس ادا کرنا کافی ہے ۔[253]
1۔ مال کو تجارت کے لیے مہیا کیا ہو اور معاملہ کرکے اس کی قیمت کا وصول کرنا ممکن ہو۔
اس صورت میں بازار میں بڑھی ہوئی قیمت کا خمس اس کی تاریخ پر واجب ہے گرچہ اسے بیچا نہ ہو ۔[252]
2۔ مال کو تجارت کے لیے مہیّا یا محفوظ نہ کیا ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں:
الف: مال انسان کو معاوضہ کے ذریعہ نہ ملا ہو جیسے ارث ۔
اس صورت میں ا س کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے بیچنے کے بعد بھی اس پر خمس نہیں ہے مثلاً اگر وارث اس باغ کو جو اسے اپنے والد سے ارث میں ملی ہے اور اس کی قیمت سو ملین تومان ہے اور اسے تجارت کے لیے محفوظ نہ رکھا ہو اور اب اس باغ کی قیمت دو سو ملین ہو چکی ہے تو اس سو ملین پر جو اضافہ ہوا ہے خمس واجب نہیں ہے گرچہ بیچ بھی دے۔
ب: مال معاوضہ جیسے خرید و فروش کے ذریعے ، انسان تک منتقل ہو ا ہو۔
اس صورت میں جب تک مال کو بیچا نہیں ہے اس کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے اس پر خمس نہیں ہے، اور جب بھی بیچے اس کی خریدی ہوئی قیمت پر خمس واجب نہیں ہے اور جو قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس سال میں بیچ رہا ہے اس کی در آمد میں شمار ہوگی، پس اگر خمس کی تاریخ تک اخراجات زندگی میں خرچ نہ ہو تو اس پر خمس واجب ہے، قابلِ ذکر ہے کہ اگر کسی مال کو غیر معاوضہ کے ذریعے حاصل کرے مثلاً کسی نے اسے ہدیہ کے طور پر دیا ہو تو چنانچہ اس کا خمس خود اس مال سے دیا ہو (یعنی خود اس میں سے پانچواں حصہ الگ کرکے اسے مخمّس کیا ہو) تو اس کی قیمت میں جو اضافہ ہو اس پر بیچنے کے بعد بھی خمس واجب نہیں ہے، لیکن اگر کسی دوسرے مال سے اس کا خمس نکالا ہے تو اس چار بٹا پانچ ۴؍۵غیر معاوضہ والی چیزوں کا حکم رکھتا ہے اور ایک بٹا پانچ معاوضہ والے مال کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ 2337: مہنگائی کی وجہ سے جتنی مقدار چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہو تا ہے چنانچہ حد سے زیادہ مہنگائی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو یعنی پیسے کی اہمیت زیادہ گھٹ گئی ہو اس طرح کہ وہ چیز بہت زیادہ پیسے مثلاً اصلی قیمت سے دو یا چند برابر زیادہ پر معاملہ کی جارہی ہو تو یہ قیمت میں اضافہ احتیاط واجب کی بنا پر در آمد میں سے شمار ہوگی اور قیمت میں اضافے کے احکام اس پر جاری ہوں گے، البتہ کیونکہ یہ حکم احتیاط کی بنا پر ہےاس لیے احتیاط واجب کے دوسرے مقامات کی طرح ان شرائط کی رعایت کرتے ہوئے جو مسئلہ نمبر 8 میں ذکر کی گئی دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
مسئلہ 2338: اگر کوئی شخص کسی چیز یا سامان کو قرض یا ادھار معاملے کے ذریعے تجارت کے قصد سے تجارت كا مال کے عنوان سے خریداری کرے، اور اس چیز کی قیمت خمس کی تاریخ تک بڑھ جائے تو یہ اضافی قیمت اس سال کی در آمد میں سے شمار ہوگی نہ آنے والے سال کی در آمد میں سے، اس بنا پر اس پر لازم ہے کہ اس اضافی قیمت کا خمس ادا کرے گرچہ خود اس چیز کی اصل قیمت پر خمس نہیں ہے کیونکہ آخر سال تک اپنا قرض نہیں ادا کیا ہے۔
مسئلہ 2339: اگر انسان کسی سامان کو تجارت کے لیے (تجارت كے مال) کے عنوان سے خریداری کرے اور اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے لیکن اسے نہ بیچے اور اسی سال کے درمیان اس کی قیمت گھٹ جائے تو اس اضافی قیمت کا خمس واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2340: اگر اس سامان کی قیمت جسے تجارت کے لیے (تجارت كے مال) خریداری کیا ہے خمس کی تاریخ میں بڑھ جائے اور معاملہ کرکے اس کی قیمت کا دریافت کرنا ممکن ہو لیکن اس امید سے کہ اس کی قیمت میں اور اضافہ ہوگا اسے نہ بیچے اور اگلے سال اس کی قیمت گھٹ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر خمس کی تاریخ پر جو اس کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا اس کا خمس ادا کرے لیکن اگر ایسا اس مال کے لیے جو تجارت کے لیے مہیّا نہیں کیا ہے اور سال کی ضروریات میں خرچ نہیں ہوا ہے پیش آئے مثلاً جو سامان خرید کر ذخیرہ کیا ہے تاکہ آئندہ برسوں میں اس سے استفادہ کرے اگر خمس کی تاریخ پر اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے، لیکن انسان اس کا خمس ادا نہ کرے اور اس کی قیمت آنے والے برسوں میں کم ہو جائے تو گذشتہ سال میں جو قیمت میں اضافہ ہو اتھا اس کا خمس واجب نہیں ہے بلکہ موجودہ قیمت کا خمس ادا کرنا کافی ہے ۔[253]
[252] سونا اور پیسہ (کرنسی) ان شرائط کے ساتھ جو آئندہ ذكر کی جائے گی استثنا ہیں۔
[253] گرچہ خمس کے ادا کرنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہے۔