فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
سرمایہ، کام کے آلات اور کام کرنے والوں سے مربوط بعض احکام ←
→ وہ مقامات جو خمس دینے سے استثنا ہیں اور ان سے متعلق احکام
اخراجات
مسئلہ 2316: انسان کی درآمد پر خمس اس کے سال کے اخراجات کم کرنے کے بعد واجب ہے اس بنا پر انسان اپنے اخراجات کو در آمد سے کم کر سکتا ہے اور پھر بقیہ کا خمس ادا کرے اخراجات دو طرح کے ہیں:
الف: در آمد کو حاصل کرنے کے اخراجات کو مؤنہ اور مخارج کسب بھی کہا جاتا ہے: اس سے مراد وہ تمام اخراجات ہیں جو انسان درآمد کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی بدل موجود نہ ہو بلکہ تلف شدہ مال کے حکم میں ہوتا ہے، جیسے کاری گر ، دلال، لکھنے والا، واچ مین، دکان کا کرایہ ، ٹیکس اور بقیہ اخراجات جو ہوتے ہوں جو تلف کے حکم میں ہیں یہ تمام اخراجات سال کی درآمد سے کم ہو جائے گا، اور پھر بقیہ درآمد کا خمس ادا کرے گا، اور اسی طرح وہ نقص اور کمی جو در آمد حاصل کرنے میں كمانے كے آلات پر جس کا خمس دیا جا چکا ہے وارد ہو مثلاً کارخانہ اور اس کے سامان پر جو نقص اور کمی استعمال ہونے سے وارد ہوتی ہے یا سپلائی کے آلات ، کھیتی کے آلات وغیرہ یا جس گاڑی سے مسافر لی جاتا تھا، مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے ایک گاڑی بیس ملین تومان والی خمس دئے ہوئے پیسے سے خریدی اور اسے ایک سال کےلیے پانچ ملین پر کرائے پر دیا خمس کی تاریخ پر گاڑی کی قیمت استعمال ہونے کی وجہ سے سولہ ملین ہو گئی ہو تو اس صورت میں اس پانچ ملین میں سے جو کرائے پر گاڑی کو دیا تھا صرف ایک ملین کا خمس اس پر واجب ہوگا، اور بقیہ چار ملین در آمد کو حاصل کرنے کے اخراجات میں سے شمار ہوگا۔
ب: سال کے اخراجات جسے زندگی کے اخراجات بھی کہا جاتا ہے اس کی وضاحت بعد کے مسئلے میں کی جائے گی۔
مسئلہ 2317: وہ چیزیں جو انسان اپنی ذاتی زندگی اور اہل و عیال کے ساتھ زندگی گزارنے میں استعمال کرتا ہے تین طرح کی ہیں:
الف:خرچ اور ختم ہو جانے والی اشیا جیسے گیہوں، جو، روٹی، آٹا، شکر، چای کی پتی، مسالا، دالیں اور فریز میں موجود کھانے والی چیزیں وغیرہ ۔
ب: مصرف اور ختم نہ ہونے والی چیزیں جو باقی رہتی ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے جیسے گھر، گھر کا سارا سامان جیسے قالین، لباس، برتن، عورتوں کے سونے کے زیورات، کمپیوٹر، کتاب، گاڑی، چھٹّی کے اوقات گزارنے، تفریح اور استراحت (آرام) کے لیے باغ، سجانے کی چیزیں جیسےپھول ، گل دان، میز، جھالر، ڈیكوریشن جو انسان گھر کو سجانے میں استعمال کرتا ہے اور اس کے مانند چیزیں۔
ج: زندگی میں رائج دوسرے اخراجات جیسے ہدیہ یا انعام جو کسی شخص کو انسان دیتا ہے یا صدقہ جو غریبوں کو دیتا ہے، یا جو رقم زیارتی اور تفریحی سفر میں خرچ کرتا ہے، جو پیسہ نذر اور کفارے کے لیے دیتا ہے وہ مال جو بچوں کی شادی یا ان کی پڑھائی یا اپنے اور اپنے اہل و عیال کی بیماری کے علاج میں خرچ کرتا ہے، جو دیت ادا کرتا ہے یا دوسرے کے مال میں جو خسارہ اور نقصان کیا ہے ان کو جو پیسہ دیتا ہے اور اس کے مانند اخراجات ، ان تمام مقامات میں جو ان تین قسم میں ذکر کئے گئے پانچ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے خمس واجب نہیں ہے اور انسان كے لیے اس کا خمس دینا معاف ہے:
اوّل: سال کے درمیان حاصل شدہ درآمد اور منافع سے مہیا کیا ہو نہ ایسی در آمد سے جس پر سال گزرگیا ہو اور خمس واجب ہو گیا ہو اور اس کا خمس نہ دیا ہو۔
دوّم: انسان اور اس کے اہل و عیال کی شان کے مطابق ہو۔
سوّم: اسراف، تبذیر اور دوسرے حرام اخراجات میں سے نہ ہو۔
چہارم: الف اور ب کے مقام میں وہ سامان انسان کے لیے سال کے درمیان قابلِ ضرورت ہو۔
پنجم: (الف) کے مقام میں جیسے گھر کا آذوقہ لازم ہے کہ آخر سال تک خرچ ہو گیا ہو اور(ب) کے مقام میں جیسے لباس اور گھر کے سامان آخر سال تک قابلِ استفادہ واقع ہوا ہو[247] اور (ج) کے مقام میں آخر سال تک وہ خرچ انجام پایا ہو۔
اس بنا پر اگر حرام مقام میں خرچ ہو یا اسراف یا تبذیر شمار کیا جائے تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے اور اسی طرح اگر خرچ معمول اور شان سے زیادہ ہو تو شان سے زیادہ مقدار کا خمس دینا لازم ہے اگرچہ ایسے مقامات میں ہو جہاں پر شرعی طور پر خرچ کرنا رجحان رکھتا ہو لیکن اس کے مالک کے لیے غیر معمول ہو مثلاً انسان اپنے سال کی اكثر در آمد کو مسجدوں کے آباد کرنے اور فقرا[248] كے لیے خرچ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر شان سے زیادہ مقدار کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2318: خرچ ہو جانے والی چیزیں جیسے کھانے کی اشیا، عطر ، پیسٹ، شیمپو، صابن، جو خمس کی تاریخ آنے پر کچھ مقدار باقی رہ جاتی ہیں چنانچہ انسان اس مقدار سے کم کو مہیا کر سکتا تھا یعنی جو خریدا ہے وہ کمترین مقدار ہے جو بازار میں بیچی جا رہی ہے مثلاً بازار میں موجود سب سے چھوٹی عطر کی شیشی جو اس کے استعمال میں تھی اور اسے خریدا ہے تو اس کا خمس نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ خریدا ہے اور کچھ مقدار بچ گیا ہے تو وہ بچی ہوئی مقدار گرچہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو اس پر خمس ہے لیکن اگر بچی ہوئی مقدار بالكل کوئی قیمت اور مالی اہمیت نہ رکھتی ہو تو اس کا خمس دینا لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 2319: خرچ ہو نے اور خرچ نہ ہونے والی چیزوں میں ضرورت مند ہونے سے مراد جیسا کہ مسئلہ نمبر 2317 میں بیان ہو ا خمس کی تاریخ آنے سے پہلے ضرورت مندہو نا ہے پس ایسے سامان کا خمس ادا کرنا جو خمس کی تاریخ تک استعمال نہیں ہوا ہے گرچہ امکان تھا کہ استعمال ہو لازم ہے مگر یہ کہ اس کا وقت سے پہلے مہیا کرکے نہ رکھنا انسان کی شان کے خلاف ہو یا یہ کہ جب ضرورت پڑے تو اس وقت اس کا مہیا کرنا غیر ممکن یا دشوار اور حد سے زیادہ سختی کا باعث ہو۔
مسئلہ 2320: مؤنہ یا زندگی کے اخراجات سے مراد وہ اخراجات ہیں جو انسان عملاً اسے انجام دے رہا ہے یا استفادہ کر رہا ہے پس اگر قناعت یا اپنے اور اپنے اہل و عیال پر سختی کرکے بچانے سے اگر کوئی چیز اس کے سال کے اخراجات سے بچے تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2321: ایسی چیزیں جو مجموعی شکل میں سال کی در آمد سے خریدا ہے جیسے لغت یا تفسیر کی کتابوں کا ایک مجموعہ یا برتنوں کا ایک سیٹ اور اس طرح گھر کے سامان وغیرہ جو مجموعی طور پر بیچے جاتے ہیں چنانچہ سال میں ان میں سے بعض استعمال ہو تو بقیہ پر خمس نہیں ہے اور اگر اس کی ضرورت پیش آنے کا امکان رہا ہو لیکن اتفاقاً بالکل استعمال نہ ہوا ہو تو مسئلہ نمبر 2319 کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ 2322: اگر کسی علاقہ میں رائج ہو کہ لڑکیوں کے جہیز کو متعدد برسوں میں آہستہ آہستہ مہیا کرتے ہوں اور اس طرح سے جہیز کا مہیا کرنا شخص کی شان کے خلاف نہ ہو اگرچہ اس جہت سے کہ اسے اپنے وقت پر مہیا نہ کر سکے گا اور اس سے اس کی آبرو اور حیثیت خطرہ میں ہو تو اگر سال کے درمیان اسی سال کے منافع سے قابلِ ضرورت جہیز کو خرید ے جو اس کی شان سے زیادہ نہ ہو اور عرف میں اس کا ایک سال میں مہیا کرنا اس کے سال کے اخراجات میں سے شمار کیا جائے تو اس کا خمس ادا کرنا لازم نہیں ہے لیکن جو شخص مالی توانائی رکھتا ہے اور اپنی لڑکی کے لیے جہیز کو ضرورت کے وقت اسی سال میں خرید سکتا ہو اور آہستہ آہستہ مہیا نہ کرنا اس کی شان کے خلاف نہ ہو تو اگر ایسا شخص اپنی لڑکی کے جہیز کو آہستہ آہستہ مہیا کر ے اور اس كا سال بھر گزر جائے تو اس کا خمس واجب ہے اور اسی طرح بیٹے کے لیے آئندہ کی قابل ِضرورت چیزوں کا مہیاکرنا لڑکیوں کے جہیز مہیا کرنے کی طرح ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ وہ رقم جو جہیز اور آئندہ کی ضروریاتِ زندگی کو مہیا کرنے کے لیے یا شادی کے خرچے کے لیے الگ كر رکھا ہے گرچہ وہ مذکورہ شرائط رکھتا ہو پھر بھی سال کے آخر میں خمس کی تاریخ پر اس کا خمس دینا لازم ہے۔
مسئلہ 2323: جو شخص سال کی در آمد سے آہستہ آہستہ چند سال میں گھر بناتا ہے مثلاً پہلے سال زمین خریدتا ہے اور دوسرے سال لوہا خریدتا ہے اور آئندہ برسوں میں آہستہ آہستہ بناتا ہے تو لازم ہے کہ سال کے آخر میں ان چیزوں کا خمس ادا کرے مگر یہ کہ وہ مسکن اور گھر اس کے لیے حالِ حاضر میں ضرورت اور اس کی شان کے مطابق ہو، اور صاحب خانہ بننے کے لیے اس کے پاس یہی ایک راستہ ہو اور اس جیسے شخص کے لیے تدریجاً گھر مہیا کرنا معمول ہواس طرح سے کہ عرف میں اس کے لیے گھر مہیا کرنے کے مقدمات کو اس طرح فراہم نہ کرنا اس کی شان کے خلاف اور اپنے اہل و عیال کے حق میں کوتاہی شمار کی جائے اور ان کے آئندہ كی بہ نسبت لاپرواہی کہلائے تو اس صورت میں چنانچہ گھر کو آہستہ آہستہ بنائے اور جس سال بن کر تیار ہو اسی سال اس میں رہنے لگے تو اس کا خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر گھر مہیا کرنے کے لیے پیسہ الگ رکھے تو گر چہ بالا مذكورہ شرائط پائے جاتے ہوں اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
مسئلہ 2324: وہ مال جسے انسان حج و زیارت اور دوسرے سفر کےلیے خرچ کرتا ہے وہ اس سال کے اخراجات میں سے شمار ہوگا جس سال میں اس نے خرچ کیا ہے اور اگر اس کا سفر اگلے سال کے کچھ حصے تک جاری رہے تو جو گذشتہ سال کی درآمد سے اگلے سال میں خرچ کررہا ہے لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2325: وہ پیسہ جس کو انسان نے سال کی درآمد سے حج اور عمرہ کے لیے دے رکھا ہے لیکن خمس کی تاریخ کے بعد یا بعد کے برسوں میں حج و عمرہ پر جائے گا ایک صورت میں خمس نہیں رکھتا اور وہ صورت یہ ہے کہ حج یاعمرہ واجب رہا ہو اور پہلے ہی نذر یا استطاعت ہونے کی وجہ سے اس کے ذمے ثابت ہو گیا ہو تو اس صورت میں اس رقم پر خمس نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ:
الف: حج یا عمرہ سے مشرف ہونے کے لیے کوئی اور راستہ پہلے سے پیسہ جمع کرنے کے علاوہ نہ ہو۔
ب: کوئی دوسرا مال جس سے اس رقم کا خمس ادا کرے نہ رکھتا ہو، لیکن اس صورت کے علاوہ جیسے حج یا عمرہٴ مستحبی ہو یا یہ کہ حج کی استطاعت کا پہلا سال ہو، کہ ابھی حج اس کے ذمے میں یقینی طور پر ثابت نہیں ہوا ہے یا یہ کہ پہلے اس کے ذمے حج لازم ہو گیا ہو لیکن نہ گیا ہو اور اب آزاد طریقے سے جانے کی توانائی رکھتا ہو تو وہ پیسہ جو اس نے حج کے لیے جمع کیا ہے اس پر خمس کی تاریخ پر خمس واجب ہے۔
مسئلہ 2326: پیڑ پودے اور جانور جو گھر یا کسی اور جگہ انفرادی طور پر استفادہ کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں ان کے خمس اور ان کے نشو ونما پر خمس کا حکم مندرجہ ذیل ہے:
الف: خود وہ چیزیں: اگر مخمّس (خمس دی ہوئی) یا حکم مخمّس میں نہ ہوں مثلاً سال کی در آمد سے مہیا کیا ہے چنانچہ انفرادی طور پر ان کے دودھ انڈے یا جانور کا اون یا پھل ، سایہ سے استفادہ کرنے اور اس کی خوبصورتی یا درختوں کی تازی ہوا سے فائدہ اٹھانے یا اس طرح کی چیزوں کے لیے مہیا کیا ہو تو اگر یہ پیڑ پودے اور جانور عرف میں انسان کا مؤنہ (اخراجات) میں سے شمار کئے جائیں تو خمس نہیں ہے ورنہ خمس دینا لازم ہے۔[249]
ب: ان کا رشدکرنا اور ان كے پروڈكٹ: وہ چیز جو مال سے جدا ہوتی ہے جیسے جانور وں کے بچے ، دودھ، اون، پھل ، انڈا، یا جدا ہونے کے لیے آمادہ ہے جیسے سوکھی ٹہنی جو کاٹنے کے لائق ہے اور اسی طرح کی چیزیں لازم ہے کہ اس مقدار کا خمس جو اس کے سال کے اخراجات میں خرچ نہیں ہوئے ہیں ادا کرے۔
لیکن وہ رشد جو مال سے متصل ہے جیسے جانور کا موٹا ہونا توا گر وہ جانور گھانس، اس کے دودھ، انڈے، پھل ، وغیرہ كی حفاظت کے لیے رکھا جاتا ہو اورعرف میں اس کے اخراجات میں شمار کیا جا رہا ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے گرچہ اس کی قیمت میں اضافہ ہو۔ [250]
مسئلہ 2327: وہ چیز جو انسان اپنی زندگی کے اخراجات میں استفادہ کرتا ہے جیسے گھر ، گھر کا سامان اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو تو اضافہ شدہ قیمت کا خمس واجب نہیں ہے اور خمس کی تاریخ گزرنے کے بعد یا اگر کام نہیں کرتا تو ایک سال گزرنے کے بعد اسے بیچے تو اس کی اصلی اور پہلی قیمت پر خمس واجب نہیں ہے اور قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے چنانچہ وہ چیز غیرمعاوضے کے ذریعے جیسے ہدیہ میں اسے ملی ہو تو اس پر خمس واجب نہیں ہےلیکن اگر اسے سال کی درآمد اور معاوضہ کے ذریعے جیسے خرید و فروش مہیا کیا ہے تو یہ اضافہ قیمت جس سال میں بیچ رہا ہے اس سال کی درآمد میں سے شمار کی جائے گی کہ اگر اس سال کے آخر تک اخراجات اور ضروریات میں خرچ نہ ہو تو لازم ہے اس کا خمس ادا کرے۔
لیکن اگر اسے پہلے ہی سال میں کہ جس میں استفادہ کر رہا ہے یعنی خمس کی تاریخ گزرنے سے پہلے یا اگر کام کرنے والا نہیں ہے تو اس کے حاصل ہونے سے ایک سال گزرنے سے پہلے بیچ دے اور اس کو بیچنے سے حاصل شدہ رقم سال کے آخرتک باقی رہے اور سال کے اخراجات میں خرچ نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس چیز کی اصلی قیمت اور اضافہ شدہ قیمت کا خمس واجب ہے البتہ اگر اس چیز کو سال کی در آمد سے معاوضہ کے ذریعے مہیا کیا ہو تو فتویٰ کی بنا پر اس اضافہ قیمت پر خمس واجب ہے اور اگر معاوضہ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس چیز کو حاصل کیا ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر اس کی اضافی قیمت کا خمس واجب ہے۔
مسئلہ 2328: اگر انسان کے پاس کوئی ایسا مال ہو جو مخمّس یا حکم مخمّس میں نہیں ہے اور اسے اپنی زندگی کے اخراجات میں خرچ کیا ہے جسے گھر کا سامان چنانچہ خمس کی تاریخ گزرنے کے بعد یا اگر کام نہیں کرتا اس چیز کے حاصل ہونے کے ایک سال گزرنے کے بعد اگر بالکل اس چیز سے بے ضرورت ہو جائے تو اس کاخمس ادا کرنا لازم نہیں ہے[251] لیکن اگر اسی سال کے دوران اس چیز سے بالکل بے ضرورت ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا خمس ادا کرے۔
البتہ اگر وہ چیز ان چیزوں میں سے ہو جو مثلاً سال کی بعض فصلوں میں استعمال ہوتی ہے جیسے گرمی اور ٹھنڈک کا لباس جو اگلے سال کے لیے رکھ دئے جاتے ہیں تو ان کا خمس وقتی طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے واجب نہیں ہوتا۔
مسئلہ 2329: جس شخص کے تمام اخراجات کو کوئی دوسرا پورا کرتا ہو جیسے بیوی یا بچے تو اگر خود بھی کوئی در آمد رکھتا ہو تو لازم ہے کہ اس تمام در آمد کا خمس جو سال کے اخراجات میں خرچ نہیں ہوا ہے ادا کرے۔
مسئلہ 2330: جو شخص کام، تجارت وغیرہ سے کوئی در آمد اور فائدہ حاصل کرے اگر کوئی دوسرا مال بھی رکھتا ہو جس کا خمس دینا واجب نہیں ہے (وہ مال جو مخمّس کے حکم میں ہے) یا یہ کہ اس کا خمس ادا کردیا ہے (خمس دیا ہوا مال) تو وہ اپنے سال کے اخراجات ایسے پیسے سے پورا کر سکتا ہے جو اس کے سال کی در آمد ہے۔
الف: در آمد کو حاصل کرنے کے اخراجات کو مؤنہ اور مخارج کسب بھی کہا جاتا ہے: اس سے مراد وہ تمام اخراجات ہیں جو انسان درآمد کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی بدل موجود نہ ہو بلکہ تلف شدہ مال کے حکم میں ہوتا ہے، جیسے کاری گر ، دلال، لکھنے والا، واچ مین، دکان کا کرایہ ، ٹیکس اور بقیہ اخراجات جو ہوتے ہوں جو تلف کے حکم میں ہیں یہ تمام اخراجات سال کی درآمد سے کم ہو جائے گا، اور پھر بقیہ درآمد کا خمس ادا کرے گا، اور اسی طرح وہ نقص اور کمی جو در آمد حاصل کرنے میں كمانے كے آلات پر جس کا خمس دیا جا چکا ہے وارد ہو مثلاً کارخانہ اور اس کے سامان پر جو نقص اور کمی استعمال ہونے سے وارد ہوتی ہے یا سپلائی کے آلات ، کھیتی کے آلات وغیرہ یا جس گاڑی سے مسافر لی جاتا تھا، مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے ایک گاڑی بیس ملین تومان والی خمس دئے ہوئے پیسے سے خریدی اور اسے ایک سال کےلیے پانچ ملین پر کرائے پر دیا خمس کی تاریخ پر گاڑی کی قیمت استعمال ہونے کی وجہ سے سولہ ملین ہو گئی ہو تو اس صورت میں اس پانچ ملین میں سے جو کرائے پر گاڑی کو دیا تھا صرف ایک ملین کا خمس اس پر واجب ہوگا، اور بقیہ چار ملین در آمد کو حاصل کرنے کے اخراجات میں سے شمار ہوگا۔
ب: سال کے اخراجات جسے زندگی کے اخراجات بھی کہا جاتا ہے اس کی وضاحت بعد کے مسئلے میں کی جائے گی۔
مسئلہ 2317: وہ چیزیں جو انسان اپنی ذاتی زندگی اور اہل و عیال کے ساتھ زندگی گزارنے میں استعمال کرتا ہے تین طرح کی ہیں:
الف:خرچ اور ختم ہو جانے والی اشیا جیسے گیہوں، جو، روٹی، آٹا، شکر، چای کی پتی، مسالا، دالیں اور فریز میں موجود کھانے والی چیزیں وغیرہ ۔
ب: مصرف اور ختم نہ ہونے والی چیزیں جو باقی رہتی ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے جیسے گھر، گھر کا سارا سامان جیسے قالین، لباس، برتن، عورتوں کے سونے کے زیورات، کمپیوٹر، کتاب، گاڑی، چھٹّی کے اوقات گزارنے، تفریح اور استراحت (آرام) کے لیے باغ، سجانے کی چیزیں جیسےپھول ، گل دان، میز، جھالر، ڈیكوریشن جو انسان گھر کو سجانے میں استعمال کرتا ہے اور اس کے مانند چیزیں۔
ج: زندگی میں رائج دوسرے اخراجات جیسے ہدیہ یا انعام جو کسی شخص کو انسان دیتا ہے یا صدقہ جو غریبوں کو دیتا ہے، یا جو رقم زیارتی اور تفریحی سفر میں خرچ کرتا ہے، جو پیسہ نذر اور کفارے کے لیے دیتا ہے وہ مال جو بچوں کی شادی یا ان کی پڑھائی یا اپنے اور اپنے اہل و عیال کی بیماری کے علاج میں خرچ کرتا ہے، جو دیت ادا کرتا ہے یا دوسرے کے مال میں جو خسارہ اور نقصان کیا ہے ان کو جو پیسہ دیتا ہے اور اس کے مانند اخراجات ، ان تمام مقامات میں جو ان تین قسم میں ذکر کئے گئے پانچ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے خمس واجب نہیں ہے اور انسان كے لیے اس کا خمس دینا معاف ہے:
اوّل: سال کے درمیان حاصل شدہ درآمد اور منافع سے مہیا کیا ہو نہ ایسی در آمد سے جس پر سال گزرگیا ہو اور خمس واجب ہو گیا ہو اور اس کا خمس نہ دیا ہو۔
دوّم: انسان اور اس کے اہل و عیال کی شان کے مطابق ہو۔
سوّم: اسراف، تبذیر اور دوسرے حرام اخراجات میں سے نہ ہو۔
چہارم: الف اور ب کے مقام میں وہ سامان انسان کے لیے سال کے درمیان قابلِ ضرورت ہو۔
پنجم: (الف) کے مقام میں جیسے گھر کا آذوقہ لازم ہے کہ آخر سال تک خرچ ہو گیا ہو اور(ب) کے مقام میں جیسے لباس اور گھر کے سامان آخر سال تک قابلِ استفادہ واقع ہوا ہو[247] اور (ج) کے مقام میں آخر سال تک وہ خرچ انجام پایا ہو۔
اس بنا پر اگر حرام مقام میں خرچ ہو یا اسراف یا تبذیر شمار کیا جائے تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے اور اسی طرح اگر خرچ معمول اور شان سے زیادہ ہو تو شان سے زیادہ مقدار کا خمس دینا لازم ہے اگرچہ ایسے مقامات میں ہو جہاں پر شرعی طور پر خرچ کرنا رجحان رکھتا ہو لیکن اس کے مالک کے لیے غیر معمول ہو مثلاً انسان اپنے سال کی اكثر در آمد کو مسجدوں کے آباد کرنے اور فقرا[248] كے لیے خرچ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر شان سے زیادہ مقدار کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2318: خرچ ہو جانے والی چیزیں جیسے کھانے کی اشیا، عطر ، پیسٹ، شیمپو، صابن، جو خمس کی تاریخ آنے پر کچھ مقدار باقی رہ جاتی ہیں چنانچہ انسان اس مقدار سے کم کو مہیا کر سکتا تھا یعنی جو خریدا ہے وہ کمترین مقدار ہے جو بازار میں بیچی جا رہی ہے مثلاً بازار میں موجود سب سے چھوٹی عطر کی شیشی جو اس کے استعمال میں تھی اور اسے خریدا ہے تو اس کا خمس نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ خریدا ہے اور کچھ مقدار بچ گیا ہے تو وہ بچی ہوئی مقدار گرچہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو اس پر خمس ہے لیکن اگر بچی ہوئی مقدار بالكل کوئی قیمت اور مالی اہمیت نہ رکھتی ہو تو اس کا خمس دینا لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 2319: خرچ ہو نے اور خرچ نہ ہونے والی چیزوں میں ضرورت مند ہونے سے مراد جیسا کہ مسئلہ نمبر 2317 میں بیان ہو ا خمس کی تاریخ آنے سے پہلے ضرورت مندہو نا ہے پس ایسے سامان کا خمس ادا کرنا جو خمس کی تاریخ تک استعمال نہیں ہوا ہے گرچہ امکان تھا کہ استعمال ہو لازم ہے مگر یہ کہ اس کا وقت سے پہلے مہیا کرکے نہ رکھنا انسان کی شان کے خلاف ہو یا یہ کہ جب ضرورت پڑے تو اس وقت اس کا مہیا کرنا غیر ممکن یا دشوار اور حد سے زیادہ سختی کا باعث ہو۔
مسئلہ 2320: مؤنہ یا زندگی کے اخراجات سے مراد وہ اخراجات ہیں جو انسان عملاً اسے انجام دے رہا ہے یا استفادہ کر رہا ہے پس اگر قناعت یا اپنے اور اپنے اہل و عیال پر سختی کرکے بچانے سے اگر کوئی چیز اس کے سال کے اخراجات سے بچے تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2321: ایسی چیزیں جو مجموعی شکل میں سال کی در آمد سے خریدا ہے جیسے لغت یا تفسیر کی کتابوں کا ایک مجموعہ یا برتنوں کا ایک سیٹ اور اس طرح گھر کے سامان وغیرہ جو مجموعی طور پر بیچے جاتے ہیں چنانچہ سال میں ان میں سے بعض استعمال ہو تو بقیہ پر خمس نہیں ہے اور اگر اس کی ضرورت پیش آنے کا امکان رہا ہو لیکن اتفاقاً بالکل استعمال نہ ہوا ہو تو مسئلہ نمبر 2319 کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ 2322: اگر کسی علاقہ میں رائج ہو کہ لڑکیوں کے جہیز کو متعدد برسوں میں آہستہ آہستہ مہیا کرتے ہوں اور اس طرح سے جہیز کا مہیا کرنا شخص کی شان کے خلاف نہ ہو اگرچہ اس جہت سے کہ اسے اپنے وقت پر مہیا نہ کر سکے گا اور اس سے اس کی آبرو اور حیثیت خطرہ میں ہو تو اگر سال کے درمیان اسی سال کے منافع سے قابلِ ضرورت جہیز کو خرید ے جو اس کی شان سے زیادہ نہ ہو اور عرف میں اس کا ایک سال میں مہیا کرنا اس کے سال کے اخراجات میں سے شمار کیا جائے تو اس کا خمس ادا کرنا لازم نہیں ہے لیکن جو شخص مالی توانائی رکھتا ہے اور اپنی لڑکی کے لیے جہیز کو ضرورت کے وقت اسی سال میں خرید سکتا ہو اور آہستہ آہستہ مہیا نہ کرنا اس کی شان کے خلاف نہ ہو تو اگر ایسا شخص اپنی لڑکی کے جہیز کو آہستہ آہستہ مہیا کر ے اور اس كا سال بھر گزر جائے تو اس کا خمس واجب ہے اور اسی طرح بیٹے کے لیے آئندہ کی قابل ِضرورت چیزوں کا مہیاکرنا لڑکیوں کے جہیز مہیا کرنے کی طرح ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ وہ رقم جو جہیز اور آئندہ کی ضروریاتِ زندگی کو مہیا کرنے کے لیے یا شادی کے خرچے کے لیے الگ كر رکھا ہے گرچہ وہ مذکورہ شرائط رکھتا ہو پھر بھی سال کے آخر میں خمس کی تاریخ پر اس کا خمس دینا لازم ہے۔
مسئلہ 2323: جو شخص سال کی در آمد سے آہستہ آہستہ چند سال میں گھر بناتا ہے مثلاً پہلے سال زمین خریدتا ہے اور دوسرے سال لوہا خریدتا ہے اور آئندہ برسوں میں آہستہ آہستہ بناتا ہے تو لازم ہے کہ سال کے آخر میں ان چیزوں کا خمس ادا کرے مگر یہ کہ وہ مسکن اور گھر اس کے لیے حالِ حاضر میں ضرورت اور اس کی شان کے مطابق ہو، اور صاحب خانہ بننے کے لیے اس کے پاس یہی ایک راستہ ہو اور اس جیسے شخص کے لیے تدریجاً گھر مہیا کرنا معمول ہواس طرح سے کہ عرف میں اس کے لیے گھر مہیا کرنے کے مقدمات کو اس طرح فراہم نہ کرنا اس کی شان کے خلاف اور اپنے اہل و عیال کے حق میں کوتاہی شمار کی جائے اور ان کے آئندہ كی بہ نسبت لاپرواہی کہلائے تو اس صورت میں چنانچہ گھر کو آہستہ آہستہ بنائے اور جس سال بن کر تیار ہو اسی سال اس میں رہنے لگے تو اس کا خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر گھر مہیا کرنے کے لیے پیسہ الگ رکھے تو گر چہ بالا مذكورہ شرائط پائے جاتے ہوں اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
مسئلہ 2324: وہ مال جسے انسان حج و زیارت اور دوسرے سفر کےلیے خرچ کرتا ہے وہ اس سال کے اخراجات میں سے شمار ہوگا جس سال میں اس نے خرچ کیا ہے اور اگر اس کا سفر اگلے سال کے کچھ حصے تک جاری رہے تو جو گذشتہ سال کی درآمد سے اگلے سال میں خرچ کررہا ہے لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2325: وہ پیسہ جس کو انسان نے سال کی درآمد سے حج اور عمرہ کے لیے دے رکھا ہے لیکن خمس کی تاریخ کے بعد یا بعد کے برسوں میں حج و عمرہ پر جائے گا ایک صورت میں خمس نہیں رکھتا اور وہ صورت یہ ہے کہ حج یاعمرہ واجب رہا ہو اور پہلے ہی نذر یا استطاعت ہونے کی وجہ سے اس کے ذمے ثابت ہو گیا ہو تو اس صورت میں اس رقم پر خمس نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ:
الف: حج یا عمرہ سے مشرف ہونے کے لیے کوئی اور راستہ پہلے سے پیسہ جمع کرنے کے علاوہ نہ ہو۔
ب: کوئی دوسرا مال جس سے اس رقم کا خمس ادا کرے نہ رکھتا ہو، لیکن اس صورت کے علاوہ جیسے حج یا عمرہٴ مستحبی ہو یا یہ کہ حج کی استطاعت کا پہلا سال ہو، کہ ابھی حج اس کے ذمے میں یقینی طور پر ثابت نہیں ہوا ہے یا یہ کہ پہلے اس کے ذمے حج لازم ہو گیا ہو لیکن نہ گیا ہو اور اب آزاد طریقے سے جانے کی توانائی رکھتا ہو تو وہ پیسہ جو اس نے حج کے لیے جمع کیا ہے اس پر خمس کی تاریخ پر خمس واجب ہے۔
مسئلہ 2326: پیڑ پودے اور جانور جو گھر یا کسی اور جگہ انفرادی طور پر استفادہ کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں ان کے خمس اور ان کے نشو ونما پر خمس کا حکم مندرجہ ذیل ہے:
الف: خود وہ چیزیں: اگر مخمّس (خمس دی ہوئی) یا حکم مخمّس میں نہ ہوں مثلاً سال کی در آمد سے مہیا کیا ہے چنانچہ انفرادی طور پر ان کے دودھ انڈے یا جانور کا اون یا پھل ، سایہ سے استفادہ کرنے اور اس کی خوبصورتی یا درختوں کی تازی ہوا سے فائدہ اٹھانے یا اس طرح کی چیزوں کے لیے مہیا کیا ہو تو اگر یہ پیڑ پودے اور جانور عرف میں انسان کا مؤنہ (اخراجات) میں سے شمار کئے جائیں تو خمس نہیں ہے ورنہ خمس دینا لازم ہے۔[249]
ب: ان کا رشدکرنا اور ان كے پروڈكٹ: وہ چیز جو مال سے جدا ہوتی ہے جیسے جانور وں کے بچے ، دودھ، اون، پھل ، انڈا، یا جدا ہونے کے لیے آمادہ ہے جیسے سوکھی ٹہنی جو کاٹنے کے لائق ہے اور اسی طرح کی چیزیں لازم ہے کہ اس مقدار کا خمس جو اس کے سال کے اخراجات میں خرچ نہیں ہوئے ہیں ادا کرے۔
لیکن وہ رشد جو مال سے متصل ہے جیسے جانور کا موٹا ہونا توا گر وہ جانور گھانس، اس کے دودھ، انڈے، پھل ، وغیرہ كی حفاظت کے لیے رکھا جاتا ہو اورعرف میں اس کے اخراجات میں شمار کیا جا رہا ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے گرچہ اس کی قیمت میں اضافہ ہو۔ [250]
مسئلہ 2327: وہ چیز جو انسان اپنی زندگی کے اخراجات میں استفادہ کرتا ہے جیسے گھر ، گھر کا سامان اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو تو اضافہ شدہ قیمت کا خمس واجب نہیں ہے اور خمس کی تاریخ گزرنے کے بعد یا اگر کام نہیں کرتا تو ایک سال گزرنے کے بعد اسے بیچے تو اس کی اصلی اور پہلی قیمت پر خمس واجب نہیں ہے اور قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے چنانچہ وہ چیز غیرمعاوضے کے ذریعے جیسے ہدیہ میں اسے ملی ہو تو اس پر خمس واجب نہیں ہےلیکن اگر اسے سال کی درآمد اور معاوضہ کے ذریعے جیسے خرید و فروش مہیا کیا ہے تو یہ اضافہ قیمت جس سال میں بیچ رہا ہے اس سال کی درآمد میں سے شمار کی جائے گی کہ اگر اس سال کے آخر تک اخراجات اور ضروریات میں خرچ نہ ہو تو لازم ہے اس کا خمس ادا کرے۔
لیکن اگر اسے پہلے ہی سال میں کہ جس میں استفادہ کر رہا ہے یعنی خمس کی تاریخ گزرنے سے پہلے یا اگر کام کرنے والا نہیں ہے تو اس کے حاصل ہونے سے ایک سال گزرنے سے پہلے بیچ دے اور اس کو بیچنے سے حاصل شدہ رقم سال کے آخرتک باقی رہے اور سال کے اخراجات میں خرچ نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس چیز کی اصلی قیمت اور اضافہ شدہ قیمت کا خمس واجب ہے البتہ اگر اس چیز کو سال کی در آمد سے معاوضہ کے ذریعے مہیا کیا ہو تو فتویٰ کی بنا پر اس اضافہ قیمت پر خمس واجب ہے اور اگر معاوضہ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس چیز کو حاصل کیا ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر اس کی اضافی قیمت کا خمس واجب ہے۔
مسئلہ 2328: اگر انسان کے پاس کوئی ایسا مال ہو جو مخمّس یا حکم مخمّس میں نہیں ہے اور اسے اپنی زندگی کے اخراجات میں خرچ کیا ہے جسے گھر کا سامان چنانچہ خمس کی تاریخ گزرنے کے بعد یا اگر کام نہیں کرتا اس چیز کے حاصل ہونے کے ایک سال گزرنے کے بعد اگر بالکل اس چیز سے بے ضرورت ہو جائے تو اس کاخمس ادا کرنا لازم نہیں ہے[251] لیکن اگر اسی سال کے دوران اس چیز سے بالکل بے ضرورت ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا خمس ادا کرے۔
البتہ اگر وہ چیز ان چیزوں میں سے ہو جو مثلاً سال کی بعض فصلوں میں استعمال ہوتی ہے جیسے گرمی اور ٹھنڈک کا لباس جو اگلے سال کے لیے رکھ دئے جاتے ہیں تو ان کا خمس وقتی طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے واجب نہیں ہوتا۔
مسئلہ 2329: جس شخص کے تمام اخراجات کو کوئی دوسرا پورا کرتا ہو جیسے بیوی یا بچے تو اگر خود بھی کوئی در آمد رکھتا ہو تو لازم ہے کہ اس تمام در آمد کا خمس جو سال کے اخراجات میں خرچ نہیں ہوا ہے ادا کرے۔
مسئلہ 2330: جو شخص کام، تجارت وغیرہ سے کوئی در آمد اور فائدہ حاصل کرے اگر کوئی دوسرا مال بھی رکھتا ہو جس کا خمس دینا واجب نہیں ہے (وہ مال جو مخمّس کے حکم میں ہے) یا یہ کہ اس کا خمس ادا کردیا ہے (خمس دیا ہوا مال) تو وہ اپنے سال کے اخراجات ایسے پیسے سے پورا کر سکتا ہے جو اس کے سال کی در آمد ہے۔
[247] مگر ان ا ستثنا شدہ مقامات میں سے ہو جو مسئلہ نمبر 2318 اور 2319 میں ذکر کیا گیا ۔
[248] اور فرض ایسا ہو کہ کوئی دوسرا لازمی خرچ جیسے بیوی اور بچوں کے اخراجات یا شرعی قرض جس کے ادا کرنے کا وقت آگیا ہے نہ رکھتا ہو۔
[249] چنانچہ وہ شے خرچ نہ ہو اور سال کی در آمد سے مہیا کی گئی ہو تو اس پر خمس واجب ہے۔
[250] اگر جانور اس سال کے مؤنہ اور اخراجات میں سے نہ ہو اور خمس دئے ہوئے پیسے سے خریدا ہو تو اس کا رشد متصل چنانچہ مال میں اضافہ شمار ہو تو اس پر خمس ہے۔
[251] اس کے بیچنے کا حکم مسئلہ نمبر 2327 میں ذکر کیا گیا ہے۔