فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
بذلی استطاعت ←
→ استطاعت پائے جانے کے شرائط
قرض اور استطاعت
مسئلہ 2184: اگر انسان شرعاً کسی شخص سے مطالبہ رکھتا ہو اور حج کے پورے اخراجات یا بعض کو فراہم کرنے کےلیے اس پیسے کا ضرورت مند ہو چنانچہ دئے ہوئے قرض کو واپس لینے کا وقت آپہونچا ہو اور حدسے زیادہ سختی کے بغیر وصول کرنا یا تقاص[217]کرنا (اپنی رقم كسی دوسری شرعی چیز كے ذریعہ بدلہ میں لینا) ممکن ہو گرچہ حکومت کی مدد کے ذریعے (یا یہ کہ اس کے وصول کرنے کا وقت نہ ہوا ہو لیکن مقروض اپنی مرضی سے وقت سے پہلے دینے پر حاضر ہو) تو وہ شخص مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے۔
مسئلہ 2185:اگر قرض مطالبہ کرنے کا وقت آگیا ہو لیکن شرعاً اس کا وصول کرنا غیر ممکن یا حد سے زیادہ سختی رکھتا ہو جیسے کہ مقروض شخص قرض ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو یا قدرت رکھتا ہو لیکن اداکرنے كے لیے حاضر نہ ہو اور اس کو مجبور کرنا بھی حد سے زیادہ سختی کے بغیر ممکن نہ ہو تو اگر قرض کو کم قیمت پر بیچنا ممکن ہو اور اس شخص کی حیثیت كی بہ نسبت اجحاف (یعنی مطالبہ کرنے والے کےلیے زیادہ ضرر کا باعث نہ ہو) اور قرض کو بیچنے والی رقم حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو تو انسان مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے ۔[218]
مسئلہ 2186: اگر کسی پر حج واجب ہو گیا ہو اور وہ اس کے بجالانے میں تاخیر اور سستی کرے یہاں تک كہ استطاعت ختم ہو جائے تو لازم ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو حج کو بجالائے گرچہ سختی کے ساتھ ہو ، چنانچہ حج بجالانے سے پہلے مرجائے تو لازم ہےکہ اس کے ترکہ (جو کچھ چھوڑا ہے) سے حج کی قضا کرے ، چنانچہ اس کے مرنے کے بعد کوئی بغیر اجرت کے اس کی نیابت میں حج بجالائے تو صحیح اور کافی ہوگا۔
مسئلہ 2187: جب بھی انسان کسی ایسے مال کا مالک ہو جائے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور حج كرنے جانے کی توانائی بھی رکھتا ہو اور استطاعت کے دوسرے شرائط بھی فراہم ہوں، تو وہ مستطیع شمار ہوگا اس پر حج واجب ہے پس اگر اس مال کو خرچ کرے اور مالی استطاعت نہ رہ جائے اور اس كی تلافی بھی نہ کر سکتا ہو:
الف: اگر اس کے لیے مشخص ہو کہ حج کے ایام میں حج كے لیے جانے کی توانائی رکھتا تھا یعنی اگر مال کو خرچ نہ کیا ہوتا تو حج انجام دے سکتا تھا تو اس صورت میں حج اس کے ذمے میں مستقر (ثابت) ہو جائے گا۔
ب: اگر معلوم نہ ہوکہ مال کے ہوتے ہوئے حج كرنے جا سکتا تھا یا نہیں تو اس صورت میں حج اس کے ذمے میں مستقر (ثابت) نہیں ہوگا، اور ہر صورت میں مال میں جو تصرف کیا ہے جیسے کہ اسے واقعی قیمت سے کم میں بیچا ہو یا یہ کہ اسے بغیر عوض کے کسی کو ہبہ کر دیا ہو وہ تصرف صحیح ہے؛ گرچہ (الف) والی صورت میں حج کے فریضے کا انجام دینا اس مال پر ہی موقوف تھا اور کسی اور طریقے سے حج انجام نہ دے سکتا تھا تو اپنی استطاعت زائل کرنے کی وجہ سے گناہ گار شمار ہوگا۔
مسئلہ 2188: اگر انسان اتنا مال رکھتا ہو جو حج کے اخراجات کی مقدار میں ہو لیکن اسے اطلاع نہ ہو یا اس کے ہونے سے غافل ہو یا یہ کہ ایسے مال کے ہونے سے اطلاع رکھتا تھا اور غافل بھی نہیں تھا لیکن نہ جانتاہو کہ ایسے مال کے ہوتے ہوئے اس پر حج واجب ہے یا حج کے واجب ہونے کے حکم سے غافل اور بے خبر ہو پھر مال کے تلف ہونے اور مالی استطاعت ختم ہونے کے بعد متوجہ ہو ان تمام مقامات میں اگر مذکورہ جہالت اور غفلت میں مقصر نہ رہا ہو بلکہ معذور ہو ، تو اس پر حج مستقر (ثابت) نہیں ہوگا اور اگر مقصر رہا ہو اور اس مال کے ہونے کے وقت وجوب کے بقیہ شرائط بھی رکھتا ہو تو حج اس کے ذمے مستقر (ثابت) ہو جائے گا۔
مسئلہ 2185:اگر قرض مطالبہ کرنے کا وقت آگیا ہو لیکن شرعاً اس کا وصول کرنا غیر ممکن یا حد سے زیادہ سختی رکھتا ہو جیسے کہ مقروض شخص قرض ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو یا قدرت رکھتا ہو لیکن اداکرنے كے لیے حاضر نہ ہو اور اس کو مجبور کرنا بھی حد سے زیادہ سختی کے بغیر ممکن نہ ہو تو اگر قرض کو کم قیمت پر بیچنا ممکن ہو اور اس شخص کی حیثیت كی بہ نسبت اجحاف (یعنی مطالبہ کرنے والے کےلیے زیادہ ضرر کا باعث نہ ہو) اور قرض کو بیچنے والی رقم حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو تو انسان مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے ۔[218]
مسئلہ 2186: اگر کسی پر حج واجب ہو گیا ہو اور وہ اس کے بجالانے میں تاخیر اور سستی کرے یہاں تک كہ استطاعت ختم ہو جائے تو لازم ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو حج کو بجالائے گرچہ سختی کے ساتھ ہو ، چنانچہ حج بجالانے سے پہلے مرجائے تو لازم ہےکہ اس کے ترکہ (جو کچھ چھوڑا ہے) سے حج کی قضا کرے ، چنانچہ اس کے مرنے کے بعد کوئی بغیر اجرت کے اس کی نیابت میں حج بجالائے تو صحیح اور کافی ہوگا۔
مسئلہ 2187: جب بھی انسان کسی ایسے مال کا مالک ہو جائے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور حج كرنے جانے کی توانائی بھی رکھتا ہو اور استطاعت کے دوسرے شرائط بھی فراہم ہوں، تو وہ مستطیع شمار ہوگا اس پر حج واجب ہے پس اگر اس مال کو خرچ کرے اور مالی استطاعت نہ رہ جائے اور اس كی تلافی بھی نہ کر سکتا ہو:
الف: اگر اس کے لیے مشخص ہو کہ حج کے ایام میں حج كے لیے جانے کی توانائی رکھتا تھا یعنی اگر مال کو خرچ نہ کیا ہوتا تو حج انجام دے سکتا تھا تو اس صورت میں حج اس کے ذمے میں مستقر (ثابت) ہو جائے گا۔
ب: اگر معلوم نہ ہوکہ مال کے ہوتے ہوئے حج كرنے جا سکتا تھا یا نہیں تو اس صورت میں حج اس کے ذمے میں مستقر (ثابت) نہیں ہوگا، اور ہر صورت میں مال میں جو تصرف کیا ہے جیسے کہ اسے واقعی قیمت سے کم میں بیچا ہو یا یہ کہ اسے بغیر عوض کے کسی کو ہبہ کر دیا ہو وہ تصرف صحیح ہے؛ گرچہ (الف) والی صورت میں حج کے فریضے کا انجام دینا اس مال پر ہی موقوف تھا اور کسی اور طریقے سے حج انجام نہ دے سکتا تھا تو اپنی استطاعت زائل کرنے کی وجہ سے گناہ گار شمار ہوگا۔
مسئلہ 2188: اگر انسان اتنا مال رکھتا ہو جو حج کے اخراجات کی مقدار میں ہو لیکن اسے اطلاع نہ ہو یا اس کے ہونے سے غافل ہو یا یہ کہ ایسے مال کے ہونے سے اطلاع رکھتا تھا اور غافل بھی نہیں تھا لیکن نہ جانتاہو کہ ایسے مال کے ہوتے ہوئے اس پر حج واجب ہے یا حج کے واجب ہونے کے حکم سے غافل اور بے خبر ہو پھر مال کے تلف ہونے اور مالی استطاعت ختم ہونے کے بعد متوجہ ہو ان تمام مقامات میں اگر مذکورہ جہالت اور غفلت میں مقصر نہ رہا ہو بلکہ معذور ہو ، تو اس پر حج مستقر (ثابت) نہیں ہوگا اور اگر مقصر رہا ہو اور اس مال کے ہونے کے وقت وجوب کے بقیہ شرائط بھی رکھتا ہو تو حج اس کے ذمے مستقر (ثابت) ہو جائے گا۔
[217] تقاص کے شرعی مقامات میں۔
[218] قابلِ ذکر ہے کہ اگر مطالبہ کرنے کا وقت نہ ہوا ہو اور مقروض شخص بھی اسے وقت سے پہلے دینے کے لیے تیار نہ ہو اور قرض کو اپنے وقت میں وصول کرنا مقروض شخص کے فائدے میں ہو۔ جیسا کہ اکثر مقامات میں ہوتا ہے۔ تو یہی حکم (امکان کی صورت میں قرض کا بیچنا) جاری ہوگا۔