فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
روزے کی قسمیں ←
→ والد کے ماہ رمضان کے قضا روزے (کہ احتیاط لاز م کی بنا پر بڑے بیٹے پر واجب ہے)
مستحبی روزے کے خاص احکام
مسئلہ 2109: جس شخص نے روزے کو باطل کرنے والی کوئی چیز انجام نہیں دیا ہے چنانچہ دن میں کسی وقت بھی مستحبی روزے کی نیت کرے گرچہ مغرب تک زیادہ وقت نہ رہ گیا ہو اس کا روزہ صحیح ہے۔ البتہ اگر انسان جانتا ہے یا مطمئن ہے کہ سورج غروب کر چکا ہے اور غروب آفتاب کے بعد اور مغرب سے پہلے مستحبی روزے کی نیت کرنا چاہتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ صحیح شمار نہیں کیا جائے گا۔
مسئلہ 2110: اگر مستحبی روزے میں انسان قصد کرے کہ روزہ نہ رہے یا متردّد ہو جائے کہ روزہ رہے یا نہیں یا قصد کرے کہ ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام دے یا متردّد ہو کہ ایسا کام انجام دے یا نہیں چنانچہ اس مفطر کونہ بجا لائے اور غروب آفتاب سے پہلے خواہ ظہر کے پہلے یا بعد میں روزے کی نیت کرے اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 2111: اگر کوئی شخص مستحبی روزہ رکھے تو اسے آخر تک باقی رکھنا لازم نہیں ہے بلکہ اس کا مومن بھائی اسے کھانے کی طرف دعوت دے مستحب ہے اس کی دعوت قبول کرے اور افطار کرلے اگرچہ ظہر کے بعد ہو اور یہ مستحب حکم مستحبی روزے سے مخصوص ہے قضا روزے کو شامل نہیں کرے گا۔
مسئلہ 2112: مسافر سفر میں مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا مگر مدینۂ منورہ میں حاجت طلب کرنے کےلیے تین دن مستحب روزہ رکھ سکتا ہے اور احتیاط واجب ہے کہ وہ تین دن بدھ، جمعرات اور جمعہ ہو۔
مسئلہ2113: اگر انسان نذر کرے کہ کسی دن خواہ معین ہو یا غیر معین مستحب روزہ رکھے تو وہ روزہ ایسے سفر میں جس میں نماز قصر ہے نہیں رکھ سکتا مگر یہ کہ معین روزے کی نذر ہو اور نذر کرنے کی نیت میں یہ مدّنظر رکھا ہو کہ روزہ سفرمیں ہی رکھے گا یا یہ کہ مسافر ہو یا نہ ہو روزہ رکھے گا۔
مسئلہ 2114: اگر انسان نذر کرے کہ کسی معین دن میں وطن یا ایسی جگہ جہاں دس دن رہنے کا قصد کیا ہے مستحب روزہ رکھے یا اس کی نذر سفر میں روزے کو شامل نہیں کرتی ہو تو اس دن اپنے اختیار سے شرعی مسافت کی حد تک جا سکتا ہے اور اس مستحب روزہ کو جو نذر کے ذریعے اپنے اوپر واجب کیا ہے نہ رکھے ، چنانچہ سفر میں ہو تو دس دن رہنے کا قصد کرکے روزہ رکھنا لازم نہیں ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ جب تک مجبور نہ ہو سفر نہ کرے اور اگر سفر میں ہے تو دس دن کا قصد کرے۔
مسئلہ 2115: جن مقامات میں انسان نے صحیح نذر کی ہو کہ معین مستحب روزہ رکھے تو لازم ہے کہ اسی دن روزہ رکھے ، چنانچہ جان بوجھ کر اس دن روزہ نہ رکھے گناہگار ہے اور لازم ہے کہ اس دن کی قضا بعد میں بجالائے اور نذر کو توڑنے کا کفارہ جو نذر کی فصل میں آئے گا ادا کرے ، لیکن اگر عذر شرعی کی وجہ سے مثلاً شرعی مسافت کی حد تک سفر یا بیماری ، یا حیض یا نفاس کی وجہ سے نذر کئے ہوئے روزے کو نہ رکھے تو لازم ہےکہ بعد میں اس کی قضا بجالائے لیکن کفارہ نہیں ہے۔
مسئلہ 2116: اگر انسان عہد یا قسم کے شرائط صحت کی رعایت کرتے ہوئے خداوند متعال سے عہد کرے یا خداوند متعال کی قسم کھائے کہ کسی معین دن مستحبی روزہ رکھے اور اس عمل کے ذریعے مستحب روزے کو خود پر واجب کرے تو لازم ہے کہ اسی دن روزہ رکھے اور اگر جان بوجھ کر روزہ نہ رکھے گناہگار ہے اور واجب ہےکہ عہد یا قسم کے توڑنے کا کفارہ جو آئندہ بیان کیا جائے گا اسے بھی دے لیکن اس روزے کی قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2117: جس شخص پر خود کے ماہ رمضان کے قضا روزے واجب ہیں تو وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا، چنانچہ بھول جائے اور مستحب روزہ رکھے پھر اذان ظہر سے پہلے یا د آئے تو اس کا مستحب روزہ ختم ہو جائے گا لیکن قضا روزے کی نیت کر سکتا ہے، اور اگر اذان ظہر سے پہلے متوجہ ہو تو اس کا مستحب روزہ احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہو جائے گا اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحبی روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 2118: جس شخص پر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا قضا روزہ جیسے نذر معین کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ۔
مسئلہ 2119: جس شخص پر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا واجب روزہ ہے تو وہ مستحب روزہ رکھ سکتا ہے اور اسی طرح جو شخص کسی میت کے واجب روزہ بجالانے کے لیے اجیر ہوا ہے چنانچہ مستحب روزہ رکھے تو حرج نہیں ہے ، اور اسی طرح وہ شخص جس كے اوپر اپنا قضا یا کفارے کا روزہ واجب ہے استیجاری یا مفت قضا روزہ رکھ سکتا ہے۔
مسئلہ 2120: جس شخص پر ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے اور مستحب روزے کے لیے نذر کرنا چاہتا ہے تو اگر اس کے دن کو معین نہ کرے یا اگر معین کرے جب کہ قضا روزے کو بجالانے کے لیے فرصت رکھتا ہو اور نذروالے روزے سے پہلے قضا روزہ بجالانے کا امکان ہو تو اس کی نذر صحیح ہے لیکن دونوں صورت میں جائز نہیں ہے نذر والے روزے کو قضا روزے سے پہلے انجام دے لیکن اگر معین روزے کی نذر کرے اور قضا روزے کو نذر سے پہلے انجام دینے کی فرصت نہ رکھتا ہو تو اس کی نذر باطل ہے۔
روزے کی قسمیں ←
→ والد کے ماہ رمضان کے قضا روزے (کہ احتیاط لاز م کی بنا پر بڑے بیٹے پر واجب ہے)
مسئلہ 2110: اگر مستحبی روزے میں انسان قصد کرے کہ روزہ نہ رہے یا متردّد ہو جائے کہ روزہ رہے یا نہیں یا قصد کرے کہ ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام دے یا متردّد ہو کہ ایسا کام انجام دے یا نہیں چنانچہ اس مفطر کونہ بجا لائے اور غروب آفتاب سے پہلے خواہ ظہر کے پہلے یا بعد میں روزے کی نیت کرے اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 2111: اگر کوئی شخص مستحبی روزہ رکھے تو اسے آخر تک باقی رکھنا لازم نہیں ہے بلکہ اس کا مومن بھائی اسے کھانے کی طرف دعوت دے مستحب ہے اس کی دعوت قبول کرے اور افطار کرلے اگرچہ ظہر کے بعد ہو اور یہ مستحب حکم مستحبی روزے سے مخصوص ہے قضا روزے کو شامل نہیں کرے گا۔
مسئلہ 2112: مسافر سفر میں مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا مگر مدینۂ منورہ میں حاجت طلب کرنے کےلیے تین دن مستحب روزہ رکھ سکتا ہے اور احتیاط واجب ہے کہ وہ تین دن بدھ، جمعرات اور جمعہ ہو۔
مسئلہ2113: اگر انسان نذر کرے کہ کسی دن خواہ معین ہو یا غیر معین مستحب روزہ رکھے تو وہ روزہ ایسے سفر میں جس میں نماز قصر ہے نہیں رکھ سکتا مگر یہ کہ معین روزے کی نذر ہو اور نذر کرنے کی نیت میں یہ مدّنظر رکھا ہو کہ روزہ سفرمیں ہی رکھے گا یا یہ کہ مسافر ہو یا نہ ہو روزہ رکھے گا۔
مسئلہ 2114: اگر انسان نذر کرے کہ کسی معین دن میں وطن یا ایسی جگہ جہاں دس دن رہنے کا قصد کیا ہے مستحب روزہ رکھے یا اس کی نذر سفر میں روزے کو شامل نہیں کرتی ہو تو اس دن اپنے اختیار سے شرعی مسافت کی حد تک جا سکتا ہے اور اس مستحب روزہ کو جو نذر کے ذریعے اپنے اوپر واجب کیا ہے نہ رکھے ، چنانچہ سفر میں ہو تو دس دن رہنے کا قصد کرکے روزہ رکھنا لازم نہیں ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ جب تک مجبور نہ ہو سفر نہ کرے اور اگر سفر میں ہے تو دس دن کا قصد کرے۔
مسئلہ 2115: جن مقامات میں انسان نے صحیح نذر کی ہو کہ معین مستحب روزہ رکھے تو لازم ہے کہ اسی دن روزہ رکھے ، چنانچہ جان بوجھ کر اس دن روزہ نہ رکھے گناہگار ہے اور لازم ہے کہ اس دن کی قضا بعد میں بجالائے اور نذر کو توڑنے کا کفارہ جو نذر کی فصل میں آئے گا ادا کرے ، لیکن اگر عذر شرعی کی وجہ سے مثلاً شرعی مسافت کی حد تک سفر یا بیماری ، یا حیض یا نفاس کی وجہ سے نذر کئے ہوئے روزے کو نہ رکھے تو لازم ہےکہ بعد میں اس کی قضا بجالائے لیکن کفارہ نہیں ہے۔
مسئلہ 2116: اگر انسان عہد یا قسم کے شرائط صحت کی رعایت کرتے ہوئے خداوند متعال سے عہد کرے یا خداوند متعال کی قسم کھائے کہ کسی معین دن مستحبی روزہ رکھے اور اس عمل کے ذریعے مستحب روزے کو خود پر واجب کرے تو لازم ہے کہ اسی دن روزہ رکھے اور اگر جان بوجھ کر روزہ نہ رکھے گناہگار ہے اور واجب ہےکہ عہد یا قسم کے توڑنے کا کفارہ جو آئندہ بیان کیا جائے گا اسے بھی دے لیکن اس روزے کی قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2117: جس شخص پر خود کے ماہ رمضان کے قضا روزے واجب ہیں تو وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا، چنانچہ بھول جائے اور مستحب روزہ رکھے پھر اذان ظہر سے پہلے یا د آئے تو اس کا مستحب روزہ ختم ہو جائے گا لیکن قضا روزے کی نیت کر سکتا ہے، اور اگر اذان ظہر سے پہلے متوجہ ہو تو اس کا مستحب روزہ احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہو جائے گا اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحبی روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 2118: جس شخص پر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا قضا روزہ جیسے نذر معین کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ۔
مسئلہ 2119: جس شخص پر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا واجب روزہ ہے تو وہ مستحب روزہ رکھ سکتا ہے اور اسی طرح جو شخص کسی میت کے واجب روزہ بجالانے کے لیے اجیر ہوا ہے چنانچہ مستحب روزہ رکھے تو حرج نہیں ہے ، اور اسی طرح وہ شخص جس كے اوپر اپنا قضا یا کفارے کا روزہ واجب ہے استیجاری یا مفت قضا روزہ رکھ سکتا ہے۔
مسئلہ 2120: جس شخص پر ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے اور مستحب روزے کے لیے نذر کرنا چاہتا ہے تو اگر اس کے دن کو معین نہ کرے یا اگر معین کرے جب کہ قضا روزے کو بجالانے کے لیے فرصت رکھتا ہو اور نذروالے روزے سے پہلے قضا روزہ بجالانے کا امکان ہو تو اس کی نذر صحیح ہے لیکن دونوں صورت میں جائز نہیں ہے نذر والے روزے کو قضا روزے سے پہلے انجام دے لیکن اگر معین روزے کی نذر کرے اور قضا روزے کو نذر سے پہلے انجام دینے کی فرصت نہ رکھتا ہو تو اس کی نذر باطل ہے۔