فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
جن مقامات میں صرف روزے کی قضا واجب ہے ←
→ قضا روزے کے دوسرے احکام
جن مقامات میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہے
مسئلہ 2044: اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزے کو کھانے ، پینے ، جماع یا استمنا یا جنابت پر باقی رہنے کے ذریعے باطل کرے[191] تو اگر جان بوجھ کر اپنے اختیار سے ایسا کیا ہے اور مجبوری، اضطرار یا اکراہ کی بنا پر نہ ہو تو قضا کے علاوہ کفارہ بھی اس پر واجب ہے لیکن جس شخص نے دوسرے مبطلات روزہ کو جان بوجھ کر اپنے اختیار سے انجام دیا ہے جیسے حیض اور نفاس پر باقی رہنا ، قے کرنا، امالہ کرنا (انیما لینا) خداوند متعال اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین کی طرف جھوٹی نسبت دینا تو کفارہ دینا اس پر واجب نہیں ہے، گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ قضا کے علاوہ کفارہ بھی دے۔
مسئلہ 2045: اگر کوئی شخص اس سے پہلے مسئلے میں ذکر شدہ پانچ مقامات میں سے کوئی ایک مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے انجام دے یعنی نہ جانتا ہو کہ یہ مقامات روزے کو باطل کرتے ہیں اور انھیں انجام دیا ہو تو چند صورت ہے:
الف: اگر مسئلے کے سیکھنے میں کوتاہی کی ہو (جاہل مقصر شمار ہو) اور مفطر کے انجام دیتے وقت متردّد رہا ہو اور اس کے مفطر ہونے کا احتمال دے رہا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔
ب: اگر مسئلے کو سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو( جاہل قاصرہو) یا اگر کوتاہی کی ہو (جاہل مقصر ہو) لیکن دونوں صورتوں میں مفطر کو انجام دیتے وقت متردّد نہ رہا ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
ج: چنانچہ مفطر کو انجام دینے کے لیے اس کو انجام دیتے وقت حجت شرعی رکھتا ہو (کہ ا س صورت میں بھی جاہل قاصر شمار ہوگا) اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
اس بنا پر جس کو یقین تھا کہ یہ مفطرات روزے کو باطل نہیں کرتے اگر ایسے یقین کے مقدمات میں مقصر ہو مثلاً مفطرات روزہ کے جاننے کے بارے میں کوتاہی کی ہو، اس پر کفارہ واجب نہیں ہے اور یہی حكم اس شخص كا ہے جو نہ جانتا ہو کہ اس پر روزہ واجب ہے جیسے وہ بچے جو سن بلوغ کے ابتدائی مرحلے میں ہیں اور یقین رکھتے تھے کہ ان پر روزہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2046: جو شخص جانتا ہو کہ وہ پانچ مقامات جو مسئلہ نمبر 2044 میں ذکر کئے گئے روزے كو باطل کرتے ہیں لیکن نہیں جانتا ہو کہ ان کے انجام دینے سے کفارہ اس پر واجب ہوگا یا نہیں تو اس سے کفارہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ ضروری ہے کہ کفارہ دے۔
مسئلہ 2047: اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں ایسا کام انجام دے جو مفطر ہو نے کے علاوہ بذات خود حرام کام ہے جیسے استمنا اور یہ اس صورت میں انجام دے جب کہ اس کے حرام ہونے کو جانتا ہو لیکن یقین رکھتا ہو کہ روزے کو باطل نہیں کرتا اور اس کے مفطر ہونے کا احتمال بھی نہ دے رہا ہو تو اس صورت میں بھی اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
مسئلہ 2045: اگر کوئی شخص اس سے پہلے مسئلے میں ذکر شدہ پانچ مقامات میں سے کوئی ایک مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے انجام دے یعنی نہ جانتا ہو کہ یہ مقامات روزے کو باطل کرتے ہیں اور انھیں انجام دیا ہو تو چند صورت ہے:
الف: اگر مسئلے کے سیکھنے میں کوتاہی کی ہو (جاہل مقصر شمار ہو) اور مفطر کے انجام دیتے وقت متردّد رہا ہو اور اس کے مفطر ہونے کا احتمال دے رہا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔
ب: اگر مسئلے کو سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو( جاہل قاصرہو) یا اگر کوتاہی کی ہو (جاہل مقصر ہو) لیکن دونوں صورتوں میں مفطر کو انجام دیتے وقت متردّد نہ رہا ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
ج: چنانچہ مفطر کو انجام دینے کے لیے اس کو انجام دیتے وقت حجت شرعی رکھتا ہو (کہ ا س صورت میں بھی جاہل قاصر شمار ہوگا) اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
اس بنا پر جس کو یقین تھا کہ یہ مفطرات روزے کو باطل نہیں کرتے اگر ایسے یقین کے مقدمات میں مقصر ہو مثلاً مفطرات روزہ کے جاننے کے بارے میں کوتاہی کی ہو، اس پر کفارہ واجب نہیں ہے اور یہی حكم اس شخص كا ہے جو نہ جانتا ہو کہ اس پر روزہ واجب ہے جیسے وہ بچے جو سن بلوغ کے ابتدائی مرحلے میں ہیں اور یقین رکھتے تھے کہ ان پر روزہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2046: جو شخص جانتا ہو کہ وہ پانچ مقامات جو مسئلہ نمبر 2044 میں ذکر کئے گئے روزے كو باطل کرتے ہیں لیکن نہیں جانتا ہو کہ ان کے انجام دینے سے کفارہ اس پر واجب ہوگا یا نہیں تو اس سے کفارہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ ضروری ہے کہ کفارہ دے۔
مسئلہ 2047: اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں ایسا کام انجام دے جو مفطر ہو نے کے علاوہ بذات خود حرام کام ہے جیسے استمنا اور یہ اس صورت میں انجام دے جب کہ اس کے حرام ہونے کو جانتا ہو لیکن یقین رکھتا ہو کہ روزے کو باطل نہیں کرتا اور اس کے مفطر ہونے کا احتمال بھی نہ دے رہا ہو تو اس صورت میں بھی اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
[191] جنابت پر باقی رہنے سے روزے کا باطل ہونا اس معنی میں ہے جو پہلے بیان کیا گیا۔