فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
وہ چیزیں جو روزے دار کے لیے مکروہ ہیں ←
→ وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں (مفطرات روزہ)
مبطلات روزہ کے احکام
مسئلہ 2026: اگر انسان حکم شرعی کو جانتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے اختیار سے ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہے تو اس کا روزہ باطل[186] ہو جائے گا ۔[187]
مسئلہ 2027: اگر انسان مبطلات روزہ میں سے کسی ایک کو غیر عمدی طور پر انجام دے تو حرج نہیں ہے اس کا روزہ صحیح ہے اور غیر عمد کے مقامات میں، سہو، فراموشی ، غفلت اور بے اختیار ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن اس حکم سے کچھ مقامات استثنا کئے گئے ہیں:
الف: اگر انسان تشنگی کو برطرف کرنے اور خنکی کے لیے پانی کو اپنے منھ میں گھمائے جب کہ جانتا ہو کہ روزے سے ہے اور پانی بے اختیار اس کے منھ میں اندر چلاجائے جیسا کہ آئندہ ذكر کیا جائے گا تو اس روزے کی قضا اس پر واجب ہے۔
ب: اگر انسان ماہ رمضان میں غسل جنابت بھول جائے اور روزہ رکھ لے پھر ایک یا چند دن بعد اسے یاد آئے تو جیسا کہ مسئلہ 1995 میں ذکر کیا گیا اس دن کی قضا قربت مطلقہ کے قصد سے بجالائے۔
ج: اگر مجنب اس تفصیل کے مطابق جو جنابت پر باقی رہنے کے احکام میں بیان کی جا چکی سو جائے اور صبح تک غسل نہ کرے تو لازم ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور اس نیت کے ساتھ جو مسئلہ نمبر 1991 میں ذکر کیا گیا ایک دوسرے دن روزہ بھی رکھے ۔
مسئلہ 2028: اگر انسان کو معلوم نہ ہو کہ وہ بعض چیزیں جن کا ذکر مفطراتِ روزہ میں ہوا، روزے کو باطل کرتی ہیں اور حکم کے نہ جاننے کی وجہ سے اسے انجام دے چنانچہ وہ مفطر کھانا، پینا یا جماع ہو تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر بقیہ مفطرات ہوں تو چند صورت ہے:
الف: اگر مسئلے کے سیکھنے میں کوتاہی کی ہو (کہ اس صورت میں جاہل مقصر شمار ہوگا) اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
ب: اگر مسئلے کو سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو اور مبطل کو انجام دیتے وقت متردّد بھی نہ رہا ہو (کہ اس صورت میں جاہل قاصر شمار ہوگا) اس کا روزہ صحیح ہے ۔[188]
ج: چنانچہ انسان مفطر کو انجام دیتے وقت اس کے انجام دینے کے لیے شرعی حجت رکھتا ہو (کہ اس صورت میں بھی جاہل قاصر شمار ہوگا) اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ 2029: اگر روزے دار بھول كر روزے کو باطل کرنے والے کام میں سے کسی ایک کو انجام دے، اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا روزہ باطل ہو چکا ہے دوبارہ ان کاموں میں سے کسی ایک کو دوبارہ انجام دے، تو اس سے پہلے والے مسئلے کا حکم اس کے بارے میں جاری ہوگا۔
مسئلہ 2030: اگر روزے دار کے حلق میں زبردستی کوئی چیز ڈالیں تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگر اسے مجبور کریں کہ اپنے روزے کو کھانے، پینے ، جماع میں سے کسی ایک طریقے سے باطل کرے مثلاً اس سے کہیں کہ: اگر کھانا نہ کھایا تو تم کو مالی یا جانی ضرر پہونچائیں گے اور خود ضرر سے بچنے کے لیے کچھ کھالے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور ان تین مقامات کے علاوہ بھی احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
مسئلہ 2031: روزے دار پر لازم ہے کہ ایسی جگہ ہرگز نہ جائے جہاں کے بارے میں جانتا ہے کہ اس کے حلق میں کچھ ڈال دیں گے یا اسے مجبور کریں گے کہ خود اپنے روزے کو باطل کرے اور اگر ایسی جگہ جائے اور مجبوراً ایسا کام جو روزے کو باطل کر رہا ہے انجام دےتو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور یہی حکم ہے احتیاط لازم کی بنا پر اگر اس کے حلق میں کوئی چیز ڈالیں۔
مسئلہ 2027: اگر انسان مبطلات روزہ میں سے کسی ایک کو غیر عمدی طور پر انجام دے تو حرج نہیں ہے اس کا روزہ صحیح ہے اور غیر عمد کے مقامات میں، سہو، فراموشی ، غفلت اور بے اختیار ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن اس حکم سے کچھ مقامات استثنا کئے گئے ہیں:
الف: اگر انسان تشنگی کو برطرف کرنے اور خنکی کے لیے پانی کو اپنے منھ میں گھمائے جب کہ جانتا ہو کہ روزے سے ہے اور پانی بے اختیار اس کے منھ میں اندر چلاجائے جیسا کہ آئندہ ذكر کیا جائے گا تو اس روزے کی قضا اس پر واجب ہے۔
ب: اگر انسان ماہ رمضان میں غسل جنابت بھول جائے اور روزہ رکھ لے پھر ایک یا چند دن بعد اسے یاد آئے تو جیسا کہ مسئلہ 1995 میں ذکر کیا گیا اس دن کی قضا قربت مطلقہ کے قصد سے بجالائے۔
ج: اگر مجنب اس تفصیل کے مطابق جو جنابت پر باقی رہنے کے احکام میں بیان کی جا چکی سو جائے اور صبح تک غسل نہ کرے تو لازم ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور اس نیت کے ساتھ جو مسئلہ نمبر 1991 میں ذکر کیا گیا ایک دوسرے دن روزہ بھی رکھے ۔
مسئلہ 2028: اگر انسان کو معلوم نہ ہو کہ وہ بعض چیزیں جن کا ذکر مفطراتِ روزہ میں ہوا، روزے کو باطل کرتی ہیں اور حکم کے نہ جاننے کی وجہ سے اسے انجام دے چنانچہ وہ مفطر کھانا، پینا یا جماع ہو تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر بقیہ مفطرات ہوں تو چند صورت ہے:
الف: اگر مسئلے کے سیکھنے میں کوتاہی کی ہو (کہ اس صورت میں جاہل مقصر شمار ہوگا) اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
ب: اگر مسئلے کو سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو اور مبطل کو انجام دیتے وقت متردّد بھی نہ رہا ہو (کہ اس صورت میں جاہل قاصر شمار ہوگا) اس کا روزہ صحیح ہے ۔[188]
ج: چنانچہ انسان مفطر کو انجام دیتے وقت اس کے انجام دینے کے لیے شرعی حجت رکھتا ہو (کہ اس صورت میں بھی جاہل قاصر شمار ہوگا) اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ 2029: اگر روزے دار بھول كر روزے کو باطل کرنے والے کام میں سے کسی ایک کو انجام دے، اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا روزہ باطل ہو چکا ہے دوبارہ ان کاموں میں سے کسی ایک کو دوبارہ انجام دے، تو اس سے پہلے والے مسئلے کا حکم اس کے بارے میں جاری ہوگا۔
مسئلہ 2030: اگر روزے دار کے حلق میں زبردستی کوئی چیز ڈالیں تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگر اسے مجبور کریں کہ اپنے روزے کو کھانے، پینے ، جماع میں سے کسی ایک طریقے سے باطل کرے مثلاً اس سے کہیں کہ: اگر کھانا نہ کھایا تو تم کو مالی یا جانی ضرر پہونچائیں گے اور خود ضرر سے بچنے کے لیے کچھ کھالے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور ان تین مقامات کے علاوہ بھی احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
مسئلہ 2031: روزے دار پر لازم ہے کہ ایسی جگہ ہرگز نہ جائے جہاں کے بارے میں جانتا ہے کہ اس کے حلق میں کچھ ڈال دیں گے یا اسے مجبور کریں گے کہ خود اپنے روزے کو باطل کرے اور اگر ایسی جگہ جائے اور مجبوراً ایسا کام جو روزے کو باطل کر رہا ہے انجام دےتو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور یہی حکم ہے احتیاط لازم کی بنا پر اگر اس کے حلق میں کوئی چیز ڈالیں۔
[186] یہ باطل ہونا بعض مقامات میں جیسے غلیظ گرد و غبار کا حلق تک پہونچانا، خداوند متعال اور پیغمبر اکرم ﷺ کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتیاط واجب کی بنا پر ہے، اور ایسے مقامات میں احتیاط واجب یہ ہے کہ ماہ رمضان کے باقی دن میں قربت مطلقہ کی نیت سے امساک کرے۔
[187] البتہ اس شخص کا روزہ باطل ہونے کی تفصیل جو جان بوجھ کر اذان صبح تک جنابت، حیض یا نفاس پر باقی رہا ہے پہلے بیان کی جا چکی ہے ۔
[188] قابلِ ذکر ہے کہ جو شخص کسی عمل کے مفطر (روزہ باطل كرنے والا) ہونے کے بارے میں شک رکھتا ہے اور اس کے مفطر ہونے کا احتمال دے رہا ہو لیکن اس کے بارے میں حکم شرعی معلوم کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کا وظیفہ احتیاط ہے یعنی اس عمل کو انجام نہ دے، چنانچہ احتیاط کے ممکن ہوتے ہوئے جان بوجھ کر اس عمل کو انجام دے تو جاہل مقصر شمار ہوگا جاہل قاصر شمار نہیں ہوگا۔