فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں (مفطرات روزہ) ←
→ واجب غیر معین روزے کی نیت کا وقت جیسے قضا اور کفارے کا روزہ
روزے کی نیت کے دوسرے احکام
مسئلہ 1942: اگر قضا یا کفارے کا روزہ رکھنا چاہتا ہو تو اسے معین کرنا لازم ہے مثلاً نیت کرے کہ قضا یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں لیکن ماہ رمضان میں لازم نہیں ہے کہ نیت کرے رمضان کا روزہ رکھتا ہوں بلکہ اگر نہ جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے یا بھول جائے اور کسی دوسرے روزے کی نیت کرے پھر بھی ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا اور نذر اور اس کے مانند روزے میں نذر کے ادا کرنے کا قصد لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 1943: روزے کو باطل کرنے کے قصد سے اس کی نیت سے پلٹنا چند صورت رکھتا ہے:
1۔ واجب معین روزہ جیسے ماہ رمضان کا روزہ ہو تو اس صورت میں خود دو قسم ہے:
الف: قصد کرے کہ روزہ نہ رہے یا متردّد ہو جائے کہ روزہ رہے یا نہ اس صورت میں اگر ایسے قصد یا متردّد ہونے کے بعد دوبارہ روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر پشیمان ہو جائے اور مفطرات (ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے) کو انجام دینے سےپہلے دوبارہ روزے کی نیت کرے احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے۔
ب: قصد کرے کہ روزے کے مفطرات میں سے کسی ایک کے ذریعے (جب کہ اس کے مفطر ہو نے کی طرف توجہ بھی رکھتا ہو) روزے کو باطل کرے یا یہ کہ باطل کرنے میں متردّد ہو جائے اس صورت میں اگر پشیمان ہو جائے اور مفطر کو انجام نہ دے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کے روزے کو تمام کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے۔
2۔ اگر کوئی شخص واجب روزے میں جس کا وقت معین نہیں ہے جیسے کفارے کا روزہ یا ماہ رمضان کا قضا روزہ اذان ظہر (زوال) سے پہلے قصد کرے کہ روزہ نہ رہے یا متردّد ہو جائے کہ روزہ رہے یا نہیں یا قصد کرے کہ مفطرات روزہ میں سے کسی ایک کواس کے مفطر ہونے پر توجہ رکھتے ہوئے انجام دے یا متردّد ہو کہ انجام دے یا نہیں چنانچہ پشیمان ہو جائے اور مفطرات کو انجام دینے سے پہلے اذان ظہر (زوال) سے قبل دوبارہ نیت کرے اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 1944: جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ رمضان کی پہلی تاریخ اسے یوم الشک کہتے ہیں اور اس دن روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ 1945: اگر انسان یوم الشک میں روزہ رکھنا چاہتا ہو:
الف: ماہ رمضان کے روزے کی نیت نہیں کر سکتا اور اگر جان بوجھ کر ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے تو اس کا روزہ باطل ہے، گرچہ بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا۔
ب: ماہ شعبان کے مستحبی روزے یا قضا یا نذر یا کسی دوسرے واجب روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا تو ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔
ج: اگر نیت کرے کہ ماہ رمضان ہے تو ماہ رمضان اور اگر ماہ رمضان نہیں ہے تو قضا یا مستحبی یا اس کے مانند روزہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
د: اگر قصد کرے کہ خداوند متعال ابھی جو اس سے چاہ رہا ہے اور اس کا واقعی وظیفہ ہے اسے انجام دے یا مجموعی طور پر روزے کا قصد کرے(کسی خاص روزے کو قصد نہ کرے) اور بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا تو کافی ہے اور ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔
مسئلہ 1946: جس شخص نے یوم الشک کا روزہ رکھا ہے چنانچہ روزے کے درمیان (خواہ اذان ظہر (زوال) سے پہلے یا ظہر کے بعد) متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے لازم ہے کہ فوراً ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے۔
مسئلہ 1947: اگر انسان یوم الشک میں روزہ نہ رکھے اور اذان مغرب کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان تھا گناہ نہیں کیا ہے لیکن بعد میں لازم ہے کہ ایک دن ماہ رمضان کے روزے کی قضا بجالائے۔
مسئلہ 1948: اگر انسان یوم الشک میں روزہ رکھے اور دن میں متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو تین صورتیں ہیں:
الف: اس سے پہلے کہ متوجہ ہو ماہ رمضان ہے ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام دیا ہو تو اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن احتیاط واجب کی بنا پر بقیہ دن ایسے کام سے جو روزے کو باطل کرتا ہے پرہیز کرے اور رمضان کے بعد اس دن کی قضا بجالائے۔
ب: ایسا کام جو روزے کو باطل کرے انجام نہ دیا ہو اور ظہر (زوال) کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے اس صور ت میں احتیاط واجب کی بنا پر رجا کے طور پر روزے کی نیت کرے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا بھی بجالائے۔
ج: ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پہلے متوجہ ہو جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اس صورت میں واجب ہے کہ فوراً ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
نویں شرط: روزے کے مفطرات کو ترک کرے
مسئلہ 1949: روزہ صحیح ہونے کے لیے لازم ہے کہ انسان روزے کے مفطرات (وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں) کو ترک کرے خواہ وہ مفطرات جن سے دن کے درمیان پرہیز لازم ہے جیسے کھانا، پینا، یا وہ مفطرات جو اذان صبح کے وقت روزے کے صحیح ہونے کی شرط شمار ہوتے ہیں جیسے جان بوجھ کرجنابت کی حالت میں اذان صبح (طلوع فجر) تک باقی نہ رہنا یا اس عورت کا جو حیض و نفاس سے پاک ہوئی ہو جان بوجھ کر غسل کو اذان صبح تک تاخیر نہ کرنا کہ ان احکام کی تفصیل آئندہ مسائل میں ذکر کی جائے گی۔
وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں (مفطرات روزہ) ←
→ واجب غیر معین روزے کی نیت کا وقت جیسے قضا اور کفارے کا روزہ
مسئلہ 1943: روزے کو باطل کرنے کے قصد سے اس کی نیت سے پلٹنا چند صورت رکھتا ہے:
1۔ واجب معین روزہ جیسے ماہ رمضان کا روزہ ہو تو اس صورت میں خود دو قسم ہے:
الف: قصد کرے کہ روزہ نہ رہے یا متردّد ہو جائے کہ روزہ رہے یا نہ اس صورت میں اگر ایسے قصد یا متردّد ہونے کے بعد دوبارہ روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر پشیمان ہو جائے اور مفطرات (ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے) کو انجام دینے سےپہلے دوبارہ روزے کی نیت کرے احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے۔
ب: قصد کرے کہ روزے کے مفطرات میں سے کسی ایک کے ذریعے (جب کہ اس کے مفطر ہو نے کی طرف توجہ بھی رکھتا ہو) روزے کو باطل کرے یا یہ کہ باطل کرنے میں متردّد ہو جائے اس صورت میں اگر پشیمان ہو جائے اور مفطر کو انجام نہ دے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کے روزے کو تمام کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے۔
2۔ اگر کوئی شخص واجب روزے میں جس کا وقت معین نہیں ہے جیسے کفارے کا روزہ یا ماہ رمضان کا قضا روزہ اذان ظہر (زوال) سے پہلے قصد کرے کہ روزہ نہ رہے یا متردّد ہو جائے کہ روزہ رہے یا نہیں یا قصد کرے کہ مفطرات روزہ میں سے کسی ایک کواس کے مفطر ہونے پر توجہ رکھتے ہوئے انجام دے یا متردّد ہو کہ انجام دے یا نہیں چنانچہ پشیمان ہو جائے اور مفطرات کو انجام دینے سے پہلے اذان ظہر (زوال) سے قبل دوبارہ نیت کرے اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 1944: جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا ماہ رمضان کی پہلی تاریخ اسے یوم الشک کہتے ہیں اور اس دن روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ۔
مسئلہ 1945: اگر انسان یوم الشک میں روزہ رکھنا چاہتا ہو:
الف: ماہ رمضان کے روزے کی نیت نہیں کر سکتا اور اگر جان بوجھ کر ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے تو اس کا روزہ باطل ہے، گرچہ بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا۔
ب: ماہ شعبان کے مستحبی روزے یا قضا یا نذر یا کسی دوسرے واجب روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا تو ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔
ج: اگر نیت کرے کہ ماہ رمضان ہے تو ماہ رمضان اور اگر ماہ رمضان نہیں ہے تو قضا یا مستحبی یا اس کے مانند روزہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
د: اگر قصد کرے کہ خداوند متعال ابھی جو اس سے چاہ رہا ہے اور اس کا واقعی وظیفہ ہے اسے انجام دے یا مجموعی طور پر روزے کا قصد کرے(کسی خاص روزے کو قصد نہ کرے) اور بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا تو کافی ہے اور ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔
مسئلہ 1946: جس شخص نے یوم الشک کا روزہ رکھا ہے چنانچہ روزے کے درمیان (خواہ اذان ظہر (زوال) سے پہلے یا ظہر کے بعد) متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے لازم ہے کہ فوراً ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے۔
مسئلہ 1947: اگر انسان یوم الشک میں روزہ نہ رکھے اور اذان مغرب کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان تھا گناہ نہیں کیا ہے لیکن بعد میں لازم ہے کہ ایک دن ماہ رمضان کے روزے کی قضا بجالائے۔
مسئلہ 1948: اگر انسان یوم الشک میں روزہ رکھے اور دن میں متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو تین صورتیں ہیں:
الف: اس سے پہلے کہ متوجہ ہو ماہ رمضان ہے ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام دیا ہو تو اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن احتیاط واجب کی بنا پر بقیہ دن ایسے کام سے جو روزے کو باطل کرتا ہے پرہیز کرے اور رمضان کے بعد اس دن کی قضا بجالائے۔
ب: ایسا کام جو روزے کو باطل کرے انجام نہ دیا ہو اور ظہر (زوال) کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے اس صور ت میں احتیاط واجب کی بنا پر رجا کے طور پر روزے کی نیت کرے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا بھی بجالائے۔
ج: ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پہلے متوجہ ہو جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اس صورت میں واجب ہے کہ فوراً ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
نویں شرط: روزے کے مفطرات کو ترک کرے
مسئلہ 1949: روزہ صحیح ہونے کے لیے لازم ہے کہ انسان روزے کے مفطرات (وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں) کو ترک کرے خواہ وہ مفطرات جن سے دن کے درمیان پرہیز لازم ہے جیسے کھانا، پینا، یا وہ مفطرات جو اذان صبح کے وقت روزے کے صحیح ہونے کی شرط شمار ہوتے ہیں جیسے جان بوجھ کرجنابت کی حالت میں اذان صبح (طلوع فجر) تک باقی نہ رہنا یا اس عورت کا جو حیض و نفاس سے پاک ہوئی ہو جان بوجھ کر غسل کو اذان صبح تک تاخیر نہ کرنا کہ ان احکام کی تفصیل آئندہ مسائل میں ذکر کی جائے گی۔