فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
ماہ رمضان کے روزے کی نیت کے احکام ←
→ اوقاتِ نماز سے متعلق چند جدید مسائل
روزہ
مسئلہ 1908: روزہ سے مراد یہ ہے کہ انسان خداوند متعال کی بارگاہ میں اظہارِ تواضع اور بندگی کی غرض سے اذان صبح سے مغرب تک ان نو چیزوں سے جو بعد میں بیان کی جائے گی پرہیز کرے اور مغرب کی تشخیص (روزے کو کھولنے کے لیے) اس وضاحت کے ساتھ جو مغرب کی نماز میں کی گئی یہاں بھی جاری ہے۔
روزہ واجب ہونے کے شرائط
مسئلہ 1909: ہر انسان پر واجب ہے کہ اگر اس کے اندر مندرجہ ذیل شرائط پائے جاتے ہوں تو ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھے۔
پہلی اور دوسری شرط: بالغ اور عاقل ہو
مسئلہ 1910: روزہ اس شخص پر واجب ہے جو بالغ اور عاقل ہو اگر نا بالغ بچہ ماہ رمضان میں اذان صبح سے پہلے بالغ ہو جائے تو لازم ہے کہ روزہ رکھے اور اگر اذان صبح کے بعد بالغ ہوتو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کے روزے کا قصد کیا ہو تو احتیاط مستحب ہے کہ اسے تمام کرے۔
تیسری شرط: بے ہوش نہ ہو
مسئلہ 1911: اگر انسان بے ہوش ہو جائے اور اِس وجہ سے روزے کی نیت نہ کر سکے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے مثال کے طور پر جو شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت نہیں رکھتا اور پھر بے ہوش ہو گیا ہو اور اذان مغرب کے بعد ہوش آیا ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں تھا اور بعد میں اس کی قضا بھی لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 1912: اگر انسان اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اور پھر بے اختیار بے ہوش ہو جائے اور دن میں ہوش آئےتو احتیاط لازم کی بنا پر اس دن کے روزے کو تمام کرے اور اگر تمام نہیں کیا تو اس کی قضا بجالائے لیکن ایسی بے ہوشی جس کے اسباب اختیاری تھے (جیسے وہ شخص جو آپریشن کےلیے خود کو ڈاکٹر کے اختیار میں قرار دیتا ہے کہ اسے بے ہوش کرے) احتیاط واجب ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور قضا بھی بجالائے۔
چوتھی شرط: روزے دار عورت ہے توحیض و نفاس سے پاک ہو
مسئلہ 1913: جو عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہے اس پر روزہ واجب نہیں ہے گرچہ حیض یا نفاس روزے کے کچھ حصے میں ہو لیکن عذر کے برطرف ہونے کے بعد قضا کرنا واجب ہے۔
پانچویں، چھٹی اور ساتویں شرط: ضررمعمول سے زیادہ سختی یا کوئی شرعی ممانعت نہ رکھتا ہو
وہ افراد جن کے لیے یہ شرط ہے چند گروہ ہیں:
الف: وہ شخص جس کے لیے روزہ ضرر یا حد سے زیادہ سختی رکھتا ہو جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے۔
مسئلہ 1914: اگر انسان یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ روزہ اس کےلیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے (ایسا ضرر جو معمولاً تحمل نہیں کیا جا تا) یا یہ کہ ایسے ضرر کا احتمال دے رہا ہو اور اس احتمال کی وجہ سے اس کے اندر خوف پیدا ہو چنانچہ اس کا احتمال عاقل افراد کے نزدیک بجا ہو تو روزہ رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ ضرر ہلاکت ،موت، نفس پر ظلم جیسے عضو کا قطع ہونے کا باعث ہو تو روزہ رکھنا اس پر حرام ہے اور روزہ کے واجب نہ
ہونے میں فرق نہیں ہے کہ روزہ بیماری اور قابلِ توجہ ضرر پیدا ہونے کا باعث ہو یا بیماری میں شدت یا علاج میں تاخیر کا باعث ہو۔
قابلِ ذکر ہے کہ وہ لڑکیاں جو جلد ہی بالغ ہوتی ہیں اور دوسرے افراد چنانچہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا ان کے لیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہو اور ان کے بیمار ہو نے کا باعث ہے یا مریض ہونے کا خوف رکھتے ہیں تو مریض کے احکام ان کے بارے میں جاری ہوں گے، اور اگر روزہ رکھنا ان کے لیے ضرر نہیں رکھتا ہو لیکن دن کے طولانی ہونے یا گرمی کی شدت کے باعث روزے کا تمام کرنا ان کے لیے معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہو کہ معمولاً ایسی سختی قابلِ تحمل نہیں ہے تو لازم ہے کہ قربت مطلقہ[173]کی نیت سے روزہ رکھیں اور جب شدید پیاس یا ضعف کی وجہ سے روزے کو باقی رکھنا ان کے لیے معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہو تو پانی پی سکتے ہیں یا کھانا کھا سکتے ہیں، لیکن احتیاط واجب کی بنا پر کھانے پینے میں صرف بہ مقدارِ ضرورت اکتفا کرے اور بقیہ دن ایسا کام کرنے سے جو روزے کو باطل کرتا ہے پرہیز کرے گرچہ ہر صورت میں کھانے یا پینے سے ان کا روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
اور اگر ایسے افراد عادی طریقوں سے جیسے قوت بخش سحری کھانے یا دن میں محنت کم کرنے یا زیادہ آرام کرنے کے ذریعہ ضرر اور حدسے زیادہ سختی تحمل کئے بغیر ماہ رمضان کا روزہ رکھ سکتے ہوں تو ایسا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ 1915: جو شخص علم یا اطمینان رکھتا ہو کہ روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر نہیں رکھتا اگرچہ ڈاکٹر کہے کہ ضرر رکھتا ہے لازم ہے کہ روزہ رکھے اور جو شخص یقین یا گمان رکھتا ہے یا معقول احتمال دے رہا ہے کہ روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے اگرچہ ڈاکٹر کہے کہ ضرر نہیں رکھتا اس کےلیے روزہ رکھنا لازم نہیں ہے بلکہ قابلِ احتمال یا اطمینان ضرر حرام کی حد تک ہو تو واجب ہے کہ روزہ نہ رکھے اور حرام ضرر کی صورت نہ ہو تو رجا کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے چنانچہ بعد میں معلوم ہو کہ روزہ اس کےلیے قابلِ توجہ ضرر نہیں رکھتا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 1916: اگر مریض ماہ مبارک رمضان کے دن میں اذان ظہر سے پہلے صحیح ہو جائے اور اس وقت تک ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو احتیاط واجب کی بنا پر اس دن کا روزہ كی نیت كركے روزہ رکھے اور اگر اذان ظہر کے بعد صحیح ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے اور بعد میں لازم ہے کہ قضا کرے۔
مسئلہ 1917: مختصر اور معمولی ضرر روزے کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا ضرر ہوتے ہوئے بھی انسان پر روزہ رکھنا واجب ہے اس بنا پر اگر انسان کے مزاج میں تھوڑی تبدیلی کا باعث ہو یا بدن کی حرارت تھوڑی بڑھ جائے یا بدن میں ضعف و سستی کا احساس کرے یا معمولی مقدار میں آنکھ کے نور کے کم ہونے کا باعث ہو اس طرح سے کہ افطار کے ایک دو گھنٹے بعد یہ چیز یں بالکل ختم ہو جائیں اور اسی طرح دوسرے مختصر ضررجس سے عاقل افراد پرہیز نہیں کرتے اور عرفاً لوگ اسے تحمل کرتے ہیں ایسے مقامات شرعی عذر شمار نہیں ہوں گے اور ایسے افراد پر روزہ رکھنا واجب ہے۔
مسئلہ 1918: اگر روزہ انسان کی جان کےلیے کوئی خطرہ نہیں رکھتا لیکن روزہ رکھنے والا خوف رکھتا ہو اس کی آبرو یا مال کو قابلِ توجہ ضرر پہونچے اور اس سے بچنے کے لیے روزے کو ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور معقول راستہ نہ ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔
ب: ضعیف مرد یا عورت جن کے لیے ضعیفی کی وجہ سے روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے یا معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہے۔
ج: جو شخص پیاس کی بیماری میں مبتلا ہے یعنی تشنگی اس پر زیادہ غالب آتی ہو اور تشنگی کو تحمل نہیں کر سکتا اورتحمل کرنا معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہو۔
د: وہ حاملہ عورت جس کا روزہ رکھنا حمل کی وجہ سے خود اس کے لیے یا بچے کے لیے ضرر رکھتا ہو۔
ھ: وہ دودھ پلانے والی عورت جس کا روزہ رکھنا دودھ پلانے کی وجہ سے خود اس کے لیے یا اس کے بچے کے لیے ضرر رکھتا ہو۔ ان چار گروہ (ب، ج، د ، ھ) کے احکام کی وضاحت کفارے کی فصل میں بیان کی جائے گی۔
و: وہ انسان كہ جس كا روزہ ركھنا ایك دوسرے واجب ختم ہونے كا سبب ہوتا ہے۔
مسئلہ 1919: اگر انسان کا روزہ رکھنا کسی واجب کے ترک ہونے کا باعث ہو جو اہمیت کے لحاظ سے روزے کے برابر یا اس سے اہم ہو اور اس سے بچنے کے لیے روزے کو ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو تو ر وزہ اس پر واجب نہیں ہے ؛جیسے کہ خوف رکھتا ہو کہ اس کا روزہ رکھنا کسی دوسرے فرد کی جان آبرو یا مال جس کی حفاظت اس پر شرعاً واجب ہے ۔ کےلیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے اور اس سے بچنے کےلیے روزے کو ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو۔
آٹھویں شرط: مسافر نہ ہو
مسئلہ 1920: جس مسافر پر سفر میں چار رکعتی نماز دو رکعت پڑھنا واجب ہو وہ روزہ نہیں رکھ سکتا اور جو مسافر پوری نماز پڑھتا ہے جیسے وہ شخص جس کا پیشہ سفر ہے یا اس کا سفر معصیت ہے ، واجب ہے کہ سفر میں روزہ رکھے۔
قابلِ ذکر ہے کہ وہ مقامات جہاں پر انسان اختیار رکھتا ہے جیسا کہ نماز مسافر کی بحث میں ذکر کیا گیا نماز سے مخصوص ہیں اور روزے میں ان کا احکام جاری نہیں ہے اور مسافر کے روزے کے بقیہ احکام مسافر کے روزے کی فصل میں ذکرکیے جائیں گے۔
روزہ صحیح ہونے کی شرطیں
ماہ رمضان کا روزہ صحیح ہونے کے لیے اور قضا کی ضرورت نہ ہو۔ خواہ حقیقی قضا ہو یا عقوبت (سزا) کی وجہ سے قضا ہو۔ لازم ہے کہ مندرجہ ذیل شرائطِ صحت انسان کے اندر پائی جاتی ہوں ، جنہیں روزہ صحیح ہونے کی شرطیں کہا جاتا ہے:
پہلی شرط: مسلمان ہو
مسئلہ 1921: کافر انسان کا روزہ صحیح نہیں ہے ؛ البتہ اگر کافر انسان ماہ رمضان کے دن میں مسلمان ہو جائے اور اذان سے اس وقت تک کوئی ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر مافی الذمہ کی نیت سے مغرب تک امساک (یعنی مبطلات روزہ کو انجام نہ دے) كرے اور اگر امساک نہ کیا تو اس دن کی قضا کرے۔
دوسری ، تیسری اور چوتھی شرط: دیوانہ، مست یا بے ہوش نہ ہو
مسئلہ 1922: دیوانہ، مست یا بے ہوش انسان کا روزہ اگر باعث ہو کہ وہ نیت جو روزے میں معتبر ہے وہ صحیح طور پر نہ کر سکے ، صحیح نہیں ہے لیکن اگر انسان اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اور پھر مستی طاری ہو جائے اور دن میں ہوش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے اور اس شخص کا حکم جس نے اذان صبح سے پہلے نیت کی ہے اور پھر بے ہوش ہو گیا اور پھر دن میں اس کی بے ہوشی برطرف ہو جائے مسئلہ نمبر 1912 میں ذکر کیا گیا ہے ۔
پانچویں شرط: اگر روزے دار عورت ہو تو حیض اور نفاس سے پاک ہو
مسئلہ 1923: جو عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہے اس کا روزہ صحیح نہیں ہے گرچہ حیض و نفاس دن کے کچھ حصے میں ہو اس بنا پر جو عورت ماہ رمضان میں اذان صبح کے بعد مثلاً طلوع آفتاب کے وقت حیض یا نفاس سے پاک ہو تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتی اور اسی طرح وہ عورت جو پاک تھی اور روزہ رکھا ہو ماہ رمضان میں عصر کے وقت مثلاً سورج ڈوبنے سے دس منٹ پہلے خون حیض یا نفاس دیکھے تو اس دن کا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ 1924: اگر عورت حیض نہ آنے اور روزہ رکھنے کے لیے ایسی دواؤں کا استعمال کرے جس کی وجہ سے اس کی عادت نہ آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
چھٹی شرط: روزہ رکھنا مضر نہ ہو
مسئلہ 1925: مریض یا سالم انسان كہ جس کے لیے روزہ قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے اور عاقل افراد ایسے ضرر سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کا روزہ صحیح نہیں ہے، گرچہ حرام ضرر جیسے موت اور عضو کے ناقص ہونے۔ کی حد تک نہ ہو اور جیسا کہ غیر حرام ضرر کے بارے میں پہلے ذکر ہوا اگر انسان رجا کی نیت سے روزہ رکھے اور بعد میں معلوم ہو کہ روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر نہیں رکھتا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 1926: جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ روزہ اس کےلیے ضرر نہیں رکھتا اگر روزہ رکھے اور مغرب کے بعد متوجہ ہو کہ روزہ اس کےلیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا تھا تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجالائے گر چہ حرام کی حد تک نہ ہو۔
مسئلہ 1927: اگر کوئی شخص ضرر کا یقین یا خوف رکھتے ہوئے روزہ رکھے اس کا روزہ باطل ہے مگر یہ کہ بعد میں معلوم ہو کہ روزہ اس کےلیے ضرر نہیں رکھتا تھا اور روزے کے وقت قصد قربت اس کو حاصل ہوا ہو تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔
ساتویں شرط: مسافر نہ ہو
مسئلہ 1928: جس مسافر پر لازم ہے کہ چار رکعتی نماز سفر میں دو رکعت پڑھے اس کا روزہ صحیح نہیں ہے اور جو مسافر پوری نما زپڑھتا ہے جیسے وہ شخص جس کا پیشہ سفر ہے یا اس کا سفر گناہ کا سفر ہوتو اس کا روزہ صحیح ہے۔
آٹھویں شرط: صحیح نیت رکھتا ہو
روزے کی نیت سے متعلق احکام مندرجہ ذیل مسائل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
روزے کی نیت کے احکام
مسئلہ 1929: جو شخص روزہ رکھتا ہے لازم ہے اُسے قصد قربت کے ساتھ انجام دے اور اپنے قصد میں اخلاص کی رعایت کرے اس بنا پر اگر انسان ریاكاری کے طور پر روزہ رکھے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
مسئلہ 1930: روزے کی نیت کا دل میں گزارنا یا یہ کہنا کہ کل روزہ رکھوں گا لازم نہیں ہے بلکہ یہی کافی ہے کہ خداوند متعال کی بارگاہ میں اظہارِ بندگی اور تواضع کی نیت سے اذان صبح سے اذان مغرب تک ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دے۔
مسئلہ 1931: اگر انسان اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کر;كے سو جائے اور مغرب کے بعد بیدار ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے اس بنا پر ایسا خواب جو تمام روزے کے وقت کو شامل کرے اگر انسان خواب سے پہلے روزے کی نیت رکھتا ہو روزے کے لیے مضر نہیں ہے۔
روزہ واجب ہونے کے شرائط
مسئلہ 1909: ہر انسان پر واجب ہے کہ اگر اس کے اندر مندرجہ ذیل شرائط پائے جاتے ہوں تو ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھے۔
پہلی اور دوسری شرط: بالغ اور عاقل ہو
مسئلہ 1910: روزہ اس شخص پر واجب ہے جو بالغ اور عاقل ہو اگر نا بالغ بچہ ماہ رمضان میں اذان صبح سے پہلے بالغ ہو جائے تو لازم ہے کہ روزہ رکھے اور اگر اذان صبح کے بعد بالغ ہوتو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کے روزے کا قصد کیا ہو تو احتیاط مستحب ہے کہ اسے تمام کرے۔
تیسری شرط: بے ہوش نہ ہو
مسئلہ 1911: اگر انسان بے ہوش ہو جائے اور اِس وجہ سے روزے کی نیت نہ کر سکے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے مثال کے طور پر جو شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت نہیں رکھتا اور پھر بے ہوش ہو گیا ہو اور اذان مغرب کے بعد ہوش آیا ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں تھا اور بعد میں اس کی قضا بھی لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 1912: اگر انسان اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اور پھر بے اختیار بے ہوش ہو جائے اور دن میں ہوش آئےتو احتیاط لازم کی بنا پر اس دن کے روزے کو تمام کرے اور اگر تمام نہیں کیا تو اس کی قضا بجالائے لیکن ایسی بے ہوشی جس کے اسباب اختیاری تھے (جیسے وہ شخص جو آپریشن کےلیے خود کو ڈاکٹر کے اختیار میں قرار دیتا ہے کہ اسے بے ہوش کرے) احتیاط واجب ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور قضا بھی بجالائے۔
چوتھی شرط: روزے دار عورت ہے توحیض و نفاس سے پاک ہو
مسئلہ 1913: جو عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہے اس پر روزہ واجب نہیں ہے گرچہ حیض یا نفاس روزے کے کچھ حصے میں ہو لیکن عذر کے برطرف ہونے کے بعد قضا کرنا واجب ہے۔
پانچویں، چھٹی اور ساتویں شرط: ضررمعمول سے زیادہ سختی یا کوئی شرعی ممانعت نہ رکھتا ہو
وہ افراد جن کے لیے یہ شرط ہے چند گروہ ہیں:
الف: وہ شخص جس کے لیے روزہ ضرر یا حد سے زیادہ سختی رکھتا ہو جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے۔
مسئلہ 1914: اگر انسان یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ روزہ اس کےلیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے (ایسا ضرر جو معمولاً تحمل نہیں کیا جا تا) یا یہ کہ ایسے ضرر کا احتمال دے رہا ہو اور اس احتمال کی وجہ سے اس کے اندر خوف پیدا ہو چنانچہ اس کا احتمال عاقل افراد کے نزدیک بجا ہو تو روزہ رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ ضرر ہلاکت ،موت، نفس پر ظلم جیسے عضو کا قطع ہونے کا باعث ہو تو روزہ رکھنا اس پر حرام ہے اور روزہ کے واجب نہ
ہونے میں فرق نہیں ہے کہ روزہ بیماری اور قابلِ توجہ ضرر پیدا ہونے کا باعث ہو یا بیماری میں شدت یا علاج میں تاخیر کا باعث ہو۔
قابلِ ذکر ہے کہ وہ لڑکیاں جو جلد ہی بالغ ہوتی ہیں اور دوسرے افراد چنانچہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا ان کے لیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہو اور ان کے بیمار ہو نے کا باعث ہے یا مریض ہونے کا خوف رکھتے ہیں تو مریض کے احکام ان کے بارے میں جاری ہوں گے، اور اگر روزہ رکھنا ان کے لیے ضرر نہیں رکھتا ہو لیکن دن کے طولانی ہونے یا گرمی کی شدت کے باعث روزے کا تمام کرنا ان کے لیے معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہو کہ معمولاً ایسی سختی قابلِ تحمل نہیں ہے تو لازم ہے کہ قربت مطلقہ[173]کی نیت سے روزہ رکھیں اور جب شدید پیاس یا ضعف کی وجہ سے روزے کو باقی رکھنا ان کے لیے معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہو تو پانی پی سکتے ہیں یا کھانا کھا سکتے ہیں، لیکن احتیاط واجب کی بنا پر کھانے پینے میں صرف بہ مقدارِ ضرورت اکتفا کرے اور بقیہ دن ایسا کام کرنے سے جو روزے کو باطل کرتا ہے پرہیز کرے گرچہ ہر صورت میں کھانے یا پینے سے ان کا روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
اور اگر ایسے افراد عادی طریقوں سے جیسے قوت بخش سحری کھانے یا دن میں محنت کم کرنے یا زیادہ آرام کرنے کے ذریعہ ضرر اور حدسے زیادہ سختی تحمل کئے بغیر ماہ رمضان کا روزہ رکھ سکتے ہوں تو ایسا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ 1915: جو شخص علم یا اطمینان رکھتا ہو کہ روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر نہیں رکھتا اگرچہ ڈاکٹر کہے کہ ضرر رکھتا ہے لازم ہے کہ روزہ رکھے اور جو شخص یقین یا گمان رکھتا ہے یا معقول احتمال دے رہا ہے کہ روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے اگرچہ ڈاکٹر کہے کہ ضرر نہیں رکھتا اس کےلیے روزہ رکھنا لازم نہیں ہے بلکہ قابلِ احتمال یا اطمینان ضرر حرام کی حد تک ہو تو واجب ہے کہ روزہ نہ رکھے اور حرام ضرر کی صورت نہ ہو تو رجا کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے چنانچہ بعد میں معلوم ہو کہ روزہ اس کےلیے قابلِ توجہ ضرر نہیں رکھتا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 1916: اگر مریض ماہ مبارک رمضان کے دن میں اذان ظہر سے پہلے صحیح ہو جائے اور اس وقت تک ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو احتیاط واجب کی بنا پر اس دن کا روزہ كی نیت كركے روزہ رکھے اور اگر اذان ظہر کے بعد صحیح ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے اور بعد میں لازم ہے کہ قضا کرے۔
مسئلہ 1917: مختصر اور معمولی ضرر روزے کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا ضرر ہوتے ہوئے بھی انسان پر روزہ رکھنا واجب ہے اس بنا پر اگر انسان کے مزاج میں تھوڑی تبدیلی کا باعث ہو یا بدن کی حرارت تھوڑی بڑھ جائے یا بدن میں ضعف و سستی کا احساس کرے یا معمولی مقدار میں آنکھ کے نور کے کم ہونے کا باعث ہو اس طرح سے کہ افطار کے ایک دو گھنٹے بعد یہ چیز یں بالکل ختم ہو جائیں اور اسی طرح دوسرے مختصر ضررجس سے عاقل افراد پرہیز نہیں کرتے اور عرفاً لوگ اسے تحمل کرتے ہیں ایسے مقامات شرعی عذر شمار نہیں ہوں گے اور ایسے افراد پر روزہ رکھنا واجب ہے۔
مسئلہ 1918: اگر روزہ انسان کی جان کےلیے کوئی خطرہ نہیں رکھتا لیکن روزہ رکھنے والا خوف رکھتا ہو اس کی آبرو یا مال کو قابلِ توجہ ضرر پہونچے اور اس سے بچنے کے لیے روزے کو ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور معقول راستہ نہ ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔
ب: ضعیف مرد یا عورت جن کے لیے ضعیفی کی وجہ سے روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے یا معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہے۔
ج: جو شخص پیاس کی بیماری میں مبتلا ہے یعنی تشنگی اس پر زیادہ غالب آتی ہو اور تشنگی کو تحمل نہیں کر سکتا اورتحمل کرنا معمول سے زیادہ سختی رکھتا ہو۔
د: وہ حاملہ عورت جس کا روزہ رکھنا حمل کی وجہ سے خود اس کے لیے یا بچے کے لیے ضرر رکھتا ہو۔
ھ: وہ دودھ پلانے والی عورت جس کا روزہ رکھنا دودھ پلانے کی وجہ سے خود اس کے لیے یا اس کے بچے کے لیے ضرر رکھتا ہو۔ ان چار گروہ (ب، ج، د ، ھ) کے احکام کی وضاحت کفارے کی فصل میں بیان کی جائے گی۔
و: وہ انسان كہ جس كا روزہ ركھنا ایك دوسرے واجب ختم ہونے كا سبب ہوتا ہے۔
مسئلہ 1919: اگر انسان کا روزہ رکھنا کسی واجب کے ترک ہونے کا باعث ہو جو اہمیت کے لحاظ سے روزے کے برابر یا اس سے اہم ہو اور اس سے بچنے کے لیے روزے کو ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو تو ر وزہ اس پر واجب نہیں ہے ؛جیسے کہ خوف رکھتا ہو کہ اس کا روزہ رکھنا کسی دوسرے فرد کی جان آبرو یا مال جس کی حفاظت اس پر شرعاً واجب ہے ۔ کےلیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے اور اس سے بچنے کےلیے روزے کو ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو۔
آٹھویں شرط: مسافر نہ ہو
مسئلہ 1920: جس مسافر پر سفر میں چار رکعتی نماز دو رکعت پڑھنا واجب ہو وہ روزہ نہیں رکھ سکتا اور جو مسافر پوری نماز پڑھتا ہے جیسے وہ شخص جس کا پیشہ سفر ہے یا اس کا سفر معصیت ہے ، واجب ہے کہ سفر میں روزہ رکھے۔
قابلِ ذکر ہے کہ وہ مقامات جہاں پر انسان اختیار رکھتا ہے جیسا کہ نماز مسافر کی بحث میں ذکر کیا گیا نماز سے مخصوص ہیں اور روزے میں ان کا احکام جاری نہیں ہے اور مسافر کے روزے کے بقیہ احکام مسافر کے روزے کی فصل میں ذکرکیے جائیں گے۔
روزہ صحیح ہونے کی شرطیں
ماہ رمضان کا روزہ صحیح ہونے کے لیے اور قضا کی ضرورت نہ ہو۔ خواہ حقیقی قضا ہو یا عقوبت (سزا) کی وجہ سے قضا ہو۔ لازم ہے کہ مندرجہ ذیل شرائطِ صحت انسان کے اندر پائی جاتی ہوں ، جنہیں روزہ صحیح ہونے کی شرطیں کہا جاتا ہے:
پہلی شرط: مسلمان ہو
مسئلہ 1921: کافر انسان کا روزہ صحیح نہیں ہے ؛ البتہ اگر کافر انسان ماہ رمضان کے دن میں مسلمان ہو جائے اور اذان سے اس وقت تک کوئی ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر مافی الذمہ کی نیت سے مغرب تک امساک (یعنی مبطلات روزہ کو انجام نہ دے) كرے اور اگر امساک نہ کیا تو اس دن کی قضا کرے۔
دوسری ، تیسری اور چوتھی شرط: دیوانہ، مست یا بے ہوش نہ ہو
مسئلہ 1922: دیوانہ، مست یا بے ہوش انسان کا روزہ اگر باعث ہو کہ وہ نیت جو روزے میں معتبر ہے وہ صحیح طور پر نہ کر سکے ، صحیح نہیں ہے لیکن اگر انسان اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اور پھر مستی طاری ہو جائے اور دن میں ہوش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے اور اس شخص کا حکم جس نے اذان صبح سے پہلے نیت کی ہے اور پھر بے ہوش ہو گیا اور پھر دن میں اس کی بے ہوشی برطرف ہو جائے مسئلہ نمبر 1912 میں ذکر کیا گیا ہے ۔
پانچویں شرط: اگر روزے دار عورت ہو تو حیض اور نفاس سے پاک ہو
مسئلہ 1923: جو عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہے اس کا روزہ صحیح نہیں ہے گرچہ حیض و نفاس دن کے کچھ حصے میں ہو اس بنا پر جو عورت ماہ رمضان میں اذان صبح کے بعد مثلاً طلوع آفتاب کے وقت حیض یا نفاس سے پاک ہو تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتی اور اسی طرح وہ عورت جو پاک تھی اور روزہ رکھا ہو ماہ رمضان میں عصر کے وقت مثلاً سورج ڈوبنے سے دس منٹ پہلے خون حیض یا نفاس دیکھے تو اس دن کا روزہ باطل ہے ۔
مسئلہ 1924: اگر عورت حیض نہ آنے اور روزہ رکھنے کے لیے ایسی دواؤں کا استعمال کرے جس کی وجہ سے اس کی عادت نہ آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
چھٹی شرط: روزہ رکھنا مضر نہ ہو
مسئلہ 1925: مریض یا سالم انسان كہ جس کے لیے روزہ قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے اور عاقل افراد ایسے ضرر سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کا روزہ صحیح نہیں ہے، گرچہ حرام ضرر جیسے موت اور عضو کے ناقص ہونے۔ کی حد تک نہ ہو اور جیسا کہ غیر حرام ضرر کے بارے میں پہلے ذکر ہوا اگر انسان رجا کی نیت سے روزہ رکھے اور بعد میں معلوم ہو کہ روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر نہیں رکھتا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ 1926: جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ روزہ اس کےلیے ضرر نہیں رکھتا اگر روزہ رکھے اور مغرب کے بعد متوجہ ہو کہ روزہ اس کےلیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا تھا تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجالائے گر چہ حرام کی حد تک نہ ہو۔
مسئلہ 1927: اگر کوئی شخص ضرر کا یقین یا خوف رکھتے ہوئے روزہ رکھے اس کا روزہ باطل ہے مگر یہ کہ بعد میں معلوم ہو کہ روزہ اس کےلیے ضرر نہیں رکھتا تھا اور روزے کے وقت قصد قربت اس کو حاصل ہوا ہو تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔
ساتویں شرط: مسافر نہ ہو
مسئلہ 1928: جس مسافر پر لازم ہے کہ چار رکعتی نماز سفر میں دو رکعت پڑھے اس کا روزہ صحیح نہیں ہے اور جو مسافر پوری نما زپڑھتا ہے جیسے وہ شخص جس کا پیشہ سفر ہے یا اس کا سفر گناہ کا سفر ہوتو اس کا روزہ صحیح ہے۔
آٹھویں شرط: صحیح نیت رکھتا ہو
روزے کی نیت سے متعلق احکام مندرجہ ذیل مسائل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
روزے کی نیت کے احکام
مسئلہ 1929: جو شخص روزہ رکھتا ہے لازم ہے اُسے قصد قربت کے ساتھ انجام دے اور اپنے قصد میں اخلاص کی رعایت کرے اس بنا پر اگر انسان ریاكاری کے طور پر روزہ رکھے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
مسئلہ 1930: روزے کی نیت کا دل میں گزارنا یا یہ کہنا کہ کل روزہ رکھوں گا لازم نہیں ہے بلکہ یہی کافی ہے کہ خداوند متعال کی بارگاہ میں اظہارِ بندگی اور تواضع کی نیت سے اذان صبح سے اذان مغرب تک ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دے۔
مسئلہ 1931: اگر انسان اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کر;كے سو جائے اور مغرب کے بعد بیدار ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے اس بنا پر ایسا خواب جو تمام روزے کے وقت کو شامل کرے اگر انسان خواب سے پہلے روزے کی نیت رکھتا ہو روزے کے لیے مضر نہیں ہے۔
[173] یعنی مخصوص روزہٴ واجب کی نیت نہ کرے بلکہ مبطلات روزہ سے پرہیز کرے اور اس کام سے اس کا قصد قربۃً الی اللہ ہو۔