مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

اوقاتِ نماز سے متعلق چند جدید مسائل ← → نماز اور دوسرے عبادی اعمال میں نیابت

نیابت کے دوسرے احکام

مسئلہ 1902: مرد ، عورت کے لیے اور عورت، مرد کے لیے قضا نماز پڑھنے میں نائب بن سکتے ہیں اور نماز کے آہستہ یا بلند آواز سے پڑھنے میں نائب اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے گا، اور فرق نہیں ہے کہ نائب اجیر ہویا کسی دوسرے عنوان سے نیابت کر رہا ہو۔

مسئلہ 1903: میت کی قضا نمازوں کو انجام دینے میں ترتیب کی رعایت واجب نہیں ہے؛ مگر ان نمازوں میں جن کے اداکرنے میں ترتیب ہے؛ مثلاً ایک ہی دن کی نماز ظہر و عصر یا ایک ہی دن کی نماز مغرب و عشا جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ؛ لیکن اگر اسے اجیر بنایا ہو کہ میت یا اس کے ولی کے مرجع تقلید کےفتویٰ کے مطابق عمل کرے اور وہ مرجع ترتیب کو لازم سمجھتا ہو تو لازم ہے کہ ترتیب کی رعایت کرے۔

مسئلہ 1904: اگر انسان میت کی قضا نماز پڑھنے کے لیے چند افراد کو اجیر بنائے تو مسئلہ (1652) میں جو بیان ہوا اس کے مطابق لازم نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے وقت معین کرے مگر ان نمازوں میں جن کے ادا میں ترتیب ہے جیسے ایک ہی دن کی نماز ظہر و عصر یا ایک ہی شب کی نماز مغرب و عشا تو اس صورت میں چنانچہ طے ہو کہ نماز ظہر ایک اجیر اور اسی دن کی نماز عصر دوسرا اجیر بجالائے یا نماز مغرب ایک اجیر اور اسی شب کی نماز عشا دوسرا اجیر بجالائے تو لازم ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے وقت معین کرے تاکہ ترتیب کی رعایت ہو جائے۔

مسئلہ 1905: اگر کوئی شخص اجیر بنے کہ مثلاً ایک سال کی مدت میں میت کی نمازوں کو پڑھے لیکن سال تمام ہونے سے پہلے وہ مرجائے تو لازم ہے کہ جن نمازوں کے بارے میں معلوم ہے کہ بجانہیں لایا ہے کسی دوسرے کو اجیر بنائے اور اگر احتمال دے رہے ہوں کہ نماز یں بجانہیں لایا ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر دوبارہ اس کے لیے کسی کو اجیر بنائیں۔

مسئلہ 1906: اگر کوئی شخص کسی کو میت کی قضا نمازوں کےلیے اجیر بنائے چنانچہ اجیر نمازوں کو تمام کرنے سے پہلے مرجائے اور پورے عمل کی اجرت لی ہو تو چند صورت ہے:

الف: اگر اجیر کرنے والے نے قید لگائی ہو کہ پوری نماز خود اجیر پڑھے اس طرح سے کہ اجیر کرنے والا صرف اس نماز کو چاہتا تھا کہ جو خود اجیر پڑھے تو اجیر کی وفات کے بعد اجارہ باطل ہے اور اجیر کرنے والا دو کام میں اختیار ركھتا ہے: یا یہ کہ گذشتہ مقدار کے اجارے کو فسخ نہ کرے اور بچی ہوئی نمازوں کی جو اجرت ہوتی ہے اسے واپس لے لے، یا یہ کہ گذشتہ مقدار کے اجارے کو فسخ کرکے اجرۃ المثل[172] کو کم کرے اور بقیہ مقدار کو واپس لے لے۔

ب: اگر اجارہ کرنے والے نے شرط کی ہو کہ پوری قضا نماز خود اجیر پڑھے اس طرح سے کہ اجیر کرنے والا اجیر سے دو کام چاہتا تھا ایک نمازوں کا انجام دینا اور دوسرا یہ کہ خود اجیر اسے پڑھے تو اجیر کرنے والا اجارہ کو فسخ کرکے جس مقدار میں اجیر بجالایا ہے اس کی اجرۃ المثل کم کرلے اور بقیہ مقدار کو واپس لے سکتا ہے یا یہ کہ اجارہ کو فسخ نہ کرے اور اجیر نے جو نمازیں نہیں پڑھی ہیں اس کی اجرۃ المثل واپس لے لے۔

ج: اگر اجارہ کرنے والے نے شرط یا قید نہ لگائی ہو کہ اجیر خود نمازوں کی قضا بجالائے تو وارثوں پر لازم ہے کہ اس کے مال سے اس کی طرف سے بقیہ نماز کےلیے اجیر بنائیں لیکن اگر میت کوئی مال نہ رکھتی ہو تو اس کے وارثوں پر کچھ واجب نہیں ہے اور میت کا ذمہ عمل یا مال سے بری نہیں ہوگا۔

مسئلہ 1907: اگر اجیر میت کی نمازیں تمام کرنے سے پہلے انتقال کر جائے اور خود بھی قضا نماز رکھتا ہو تو اس حکم پر عمل کرنے کے بعد جو اس سے قبل مسئلہ میں بیان ہوا اگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اگر میت نے قضا نمازوں کے لیے اجیر بنانے کی وصیت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت ایك تہائی مال سے کم ہو تو لازم ہے کہ اس کی تمام نمازوں کے لیے اجیر بنائیں اور اگر اس کی نمازوں کی اجرت اس کے مال کے ایك تہائی سے زیادہ ہو اور بالغ و عاقل وارث اپنے حصے سے ایك تہائی سے زیادہ کے لیے اجازت دیں تو لازم ہے کہ اس کی تمام نمازوں کے لیے اجیر معین کریں اور اگر اجازت نہ دیں تو اس کے ایك تہائی مال کو نماز کے لیے خرچ کریں۔


[172] اجرۃ المثل سے مراد عرف کی نظر میں کام کی قیمت ہے۔
اوقاتِ نماز سے متعلق چند جدید مسائل ← → نماز اور دوسرے عبادی اعمال میں نیابت
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français