مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

نیابت کے دوسرے احکام ← → عید فطر اور عید قرباں کی نماز کے مستحبات

نماز اور دوسرے عبادی اعمال میں نیابت

مسئلہ 1887: انسان کی وفات کے بعد اس کی نماز اور دوسری عبادتیں جو اس نے اپنی حیات میں انجام نہیں دی ہیں کوئی دوسرا شخص بجالاسکتا ہے اور اسے (نائب) کہتے ہیں اور اس کے عمل کو "نیابت" کہتے ہیں اور وہ فرد جس کی نیابت میں عمل انجام پاتا ہے اسے"منوب عنہ" کہتے ہیں۔ اور اسی طرح تبرعی "مفت كے طورپر " نیابت صحیح ہے؛ نیابت اجارہ یا جعالہ یا شرط ضمن عقد اور اس کے مانند شکل میں بھی صحیح ہے؛ اس بنا پر اگر انسان کی وفات کے بعد نماز اور دوسری عبادتوں کے لیے جو زندگی میں نہیں بجالایا ہے کسی دوسرے کو اجیر کرے یعنی اسے اجرت دیں کہ انہیں بجالائے تو ایسی نماز یا عبادت کو نماز استیجاری یا عبادت استیجاری کہا جاتا ہے۔

مسئلہ 1888: واجبات اور مستحبات میں مُردوں کی نیابت جائز ہے لیکن زندہ افراد کی نیابت واجبات میں جائز نہیں ہے گرچہ جس کی نیابت کی جارہی ہے وہ خود عمل کو انجام دینے سے عاجز ہو مگر حج اس تفصیل کے مطابق جو حج کی فصل میں حج نیابتی کے احکام میں بیان کی جائے گی۔ اور زندہ افراد کی نیابت بعض عبادی مستحبات میں جیسے حج و عمرہ اور طواف اس شخص کی طرف سے جو شہرِ مکہ میں سكونت نہیں رکھتا اور قبر پیغمبر اکرم ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی قبروں کی زیارت اور وہ نماز جو زیارت کے بعد پڑھی جاتی ہے جائز ہے بلکہ زندہ افراد کی نیابت تمام مستحبات میں ۔ رجا کی نیت سے یعنی شریعت میں وارد ہونے کی نیت کئے بغیر۔ جائز ہے۔

جن مقامات میں زندہ افراد کی نیابت جائز ہے۔ فرق نہیں ہے کہ نیابت تبرعی اور مفت ہو یا اجارہ ، جعالہ اور اس کے مانند شکل میں ہو اس بنا پر انسان بعض مستحبی کاموں کو انجام دینے کے لیے جیسے حج ، عمرہ اور زیارت زندوں کی طرف سے اجرت لے کر اجیر بن سکتا ہے۔

مسئلہ 1889: مستحبات اور واجبات میں عمل کے ثواب کو ہدیہ کرنا جائز ہے پس انسان کے لیے جائز ہے کہ مستحب یا واجب کام اپنے لیے خود انجام دے اور پھر اس کا ثواب مردوں یا زندہ افراد کے لیے ہدیہ کرے قابلِ ذکر ہے کہ ثواب کا ہدیہ کرنا ان واجبات کے ساقط ہونے کا باعث نہیں ہوگا جو ان کے ذمّے ہے۔

قضا نماز میں نیابت پر اکتفا کرنے کے شرائط

مسئلہ 1890: قضا نماز جو نیابتاً پڑھی جاتی ہے اس وقت اس کے ذمّے سے ساقط ہوگی جس کے ذمّے میں قضا تھی جب اس میں چند شرطیں پائی جاتی ہوں :



پہلی ، دوسری اور تیسری شرط: نائب عاقل، شیعہ اثنا عشری اور احتیاط واجب کی بنا پر بالغ ہو

مسئلہ 1891: نا بالغ ممیز فرد کی نیابت صرف وصیت کے مقامات میں وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ صحیح ہے۔



چوتھی شرط: نائب عمل میں نیابت کا قصد رکھتا ہو

مسئلہ 1892: اس صورت میں نائب کے عمل پر اکتفا کیا جا سکتا ہے کہ وہ نیابت کا قصد رکھتا ہو اور عمل کو منوب عنہ مثلاً میت کا ذمہ بری اور فارغ ہونے کے قصد سے انجام دے اس بنا پر اگر صرف عمل کو انجام دے اور اس کا ثواب مدّنظر فرد کو ہدیہ کرے تو یہ نیابت کے لیے کافی نہیں ہے۔



پانچویں شرط: نائب عمل انجام دیتے وقت

منوب عنہ کو (گرچہ اجمالاً) معین کرے

مسئلہ 1893: منوب عنہ کو معین کرنے کے لیے لازم نہیں ہے کہ اس کا نام جانتا ہو بلکہ مثلاً نیت کرے کہ اس شخص کی طرف سے نماز پڑھ رہا ہو ں کہ جس کےلیے اجیر ہوا ہوں تو کافی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ میت کا نام یا تشخص کو جانے یا اس کے نام کو زبان پر لائے۔



چھٹی شرط: نائب بنانے والا اطمینان رکھتا ہو کہ نائب اصل عمل کو انجام دے گا

مسئلہ 1894: اگر نائب خبر دے کہ نماز کو منوب عنہ مثلاً میت کی طرف بجالایا ہے لیکن اگر نائب بنانے والا عمل کے انجام دینے کا اطمینان نہ رکھتا ہو تو احتیا ط واجب کی بنا پر اس کے کہنے پر اکتفا نہیں کر سکتا۔



ساتویں شرط: نائب عمل کو صحیح طور پر انجام دے

مسئلہ 1895: منوب عنہ "مثلاً میت" کا ذمہ اس وقت بری ہوگا جب نائب عمل کو صحیح طور پر انجام دے ۔

مسئلہ 1896: اگر معلوم ہو کہ جس شخص کو میت کی نمازوں کےلیے اجیر کیا ہے اس نے عمل کو انجام نہیں دیا ہے یا باطل انجام دیا ہے تو لازم ہے کہ دوبارہ کسی کو اجیر بنائیں۔

مسئلہ 1897: اگر انسان کو معلوم ہو کہ نائب عمل کو بجالایا ہے لیکن شک رکھتا ہو کہ اسے صحیح طور پر انجام دیا ہے یا نہیں تو اس کے صحیح ہونے پر بنا رکھ سکتا ہے۔

مسئلہ 1898: جو شخص میت کی قضا نماز کے لیے نائب بنا ہے لازم ہے کہ یا مجتہد ہو اور اپنے اجتہادی نظر یہ کے مطابق نیابتی نماز پڑھے، یا احتیاط پر عمل کرے (اگر احتیاط کے مقامات کو مكمل طور پر جانتا ہو) یا اگر مجتہد نہیں ہے اور احتیاط بھی نہیں کرنا چاہتا یا احتیاط کے مقامات سے آشنائی نہیں رکھتا تو نماز کو اس مجتہد کی تقلید کے مطابق جس کی تقلید واجب ہے بجالائے اور اس حکم میں فرق نہیں ہے کہ نائب اجیر ہو یا جعالہ یا شرط ضمن عقد کے سبب نیابت کرے یا اس کی نیابت تبرعی اور مفت ہو۔

مسئلہ 1899: اگر اجیر سے شرط کریں کہ عمل کو مخصوص طریقے سے انجام دے مثلاً اجیر کرنے والا چاہتا ہو کہ عمل صرف اس کیفیت سے انجام پائے یا شرط کئے بغیر بھی معلوم ہو کہ عمل کو خاص طریقے سے انجام پانا چاہتے ہیں تو اجیر پر لازم ہے کہ عمل کو اسی طرح سے بجالائے، مگر یہ کہ یقین رکھتا ہو کہ اس طریقے سے عمل کا انجام دینا عمل کو باطل کرتا ہے تو اس صورت میں اجارہ باطل ہو جائے گا اور اگر اجیر سے کوئی قید و شرط نہ کرے تو اس عمل میں اپنے مرجع تقلید کے فتویٰ کے مطابق اپنے وظیفے پر عمل کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ خود اور میت نیز ولی (اگر نماز کا انجام دینا ولی کا وظیفہ ہو جیسے بڑا بیٹا ) کے وظیفے میں سے جو احتیاط سے نزدیک ہو اس کے مطابق عمل کرے مثلاً اگر میت کا وظیفہ تین مرتبہ تسبیحات اربعہ کہنا تھا اور اس کا وظیفہ ایک مرتبہ ہو تو تسبیحات کو تین مرتبہ پڑھے۔

مسئلہ 1900: اگر اجیر سے صریحی طور پر شرط نہ کریں کہ نماز کو کتنی مقدار مستحبات کے ساتھ پڑھے تو لازم ہے کہ اتنی مقدار مستحبات کو جو یومیہ نماز میں معمول ہے بجالائے؛ مگر یہ کہ کوئی علامت موجود ہو جس سے سمجھ میں آتا ہو کہ اجیر کرنے والے کی مراد واجب مقدار سے زیادہ نہیں ہے یا یہ کہ وہ تمام مستحبات جو یومیہ نماز میں معمول ہیں مراد نہیں ہے بلکہ کچھ معین مقدار مراد ہے۔



آٹھویں شرط: نائب احتیاط واجب کی بنا پر نماز کے بعض اختیاری اعمال اور شرائط کو بجالانے سے ناتوان نہ ہو

مسئلہ 1901: اگر ایسا شخص جو نماز کے بعض اختیاری اعمال اور شرائط کے بجالانے سے قاصر ہے اگربغیر اجرت کے کسی دوسرے کی نیابت میں عمل کو انجام دے پھر بھی احتیاط واجب کی بنا پر اس پرا کتفا نہیں کیا جا سکتا اس بنا پر مثلاً ایسے شخص کی نیابت جو کسی عذر کے سبب تیمم کے ساتھ با بیٹھ کر یا نجس بدن یا لباس میں نماز پڑھ رہا ہے ؛ یا حمد و سورہ کو اصلاح کرنے کی توانائی نہیں رکھتا احتیاط واجب کی بنا پر کافی نہیں ہے ؛ لیکن ایسے شخص کو اجیر بنانا جس کا وظیفہ وضو یا غسل جبیرہ ہے اور ایسے وضو اور غسل کے ساتھ نماز پڑھتا ہے حرج نہیں ہے۔
نیابت کے دوسرے احکام ← → عید فطر اور عید قرباں کی نماز کے مستحبات
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français