فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
عید فطر اور عید قرباں کی نماز ←
→ مستحبی نماز میں اجزا کا کم یا زیادہ کرنا
مستحبی نمازوں کے افعال اور اذکار میں شک و گمان
مسئلہ 1862: اگر شک کرے کہ مستحبی نماز پڑھی ہے یا نہیں چنانچہ وہ نماز ، نماز جعفر طیّار کی طرح معین وقت نہ رکھتی ہو تو بنا رکھے کہ نہیں پڑھی ہے اور اسی طرح كا حكم ہے اگر روزانہ کی نافلہ کی طرح معین وقت رکھتی ہو اور وقت گزرنے سے پہلے شک کرے کہ بجالایا ہے یا نہیں، لیکن اگر وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ نماز پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔
مسئلہ 1863:اگر مستحبی نماز کی رکعتوں میں شک کرے چنانچہ زیادہ پر بنا رکھنا نماز کو باطل کرتا ہو تو کم پر بنا رکھے، مثلاً نماز گزار نافلہٴ صبح میں شک کرے دو رکعت پڑھی ہے یا تین رکعت تو بنا رکھے کہ دو رکعت پڑھی ہے لیکن اگر زیادہ پر بنا رکھنا نماز کو باطل نہ کرتا ہو مثلاً شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک رکعت توشک کے جس طرف پر بھی بنا رکھے اس کی نماز صحیح ہے ، لیکن اگر نماز وتر میں رکعت کی تعداد میں شک کرے تو احتیاط یہ ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ 1864: احتیاط واجب کی بنا پر مستحبی نماز کی رکعتوں میں گمان کا حکم یقین کے حکم کی طرح ہے اس معنی میں کہ نماز گزار مختار نہیں ہے کہ کم پر بنا رکھے بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اپنے گمان پر عمل کرے مگر یہ کہ گمان پر عمل کرنا نماز کے باطل ہونے کا سبب ہو۔
مسئلہ 1865: اگر دو رکعتی مستحبی نماز میں اس کا گمان تین رکعت یا اس سے زیادہ پر ہو اپنے گمان کی پرواہ نہ کرے اور اس کی نماز صحیح ہے مثلاً نماز گزار نماز غفیلہ میں گمان رکھتا ہو کہ تین رکعت پڑھی ہے لیکن معقول احتمال دے رہا ہو کہ دو رکعت پڑھی ہے تو بنا رکھے کہ دو رکعت پڑھی ہے۔
مسئلہ 1866: مستحبی نماز کے افعال اور اذکار میں شک یا گمان واجب نماز کی طرح ہے اس بنا پر اگر شک یا گمان کرتے وقت محل سے نہ گزرا ہو اس جز کو بجالائے اور اگر محل سے گزر گیا ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔
مسئلہ 1867: اگر نافلہٴ نماز میں کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے واجب نماز میں سجدہٴ سہو واجب ہوتا ہے ، یا ایک سجدے کو بھول جائے اور ایسے جز میں وارد ہوجائے کہ شرعاً واپس ہو کر انجام نہیں دے سکتا ہوتو نماز کے بعد سجدہٴ سہو یا سجدے کی قضا بجالانا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ 1868: اگر انسان مستحبی نماز میں رکوع یا سجدے کا واجب ذکر بھول جائے اور رکوع یا سجدے سے سر اٹھانے کے بعد یاد آئے تو واپس نہ پلٹے بلکہ سلسلہٴ نماز کو جاری رکھے اور سجدہٴ سہو انجام دینا لازم نہیں ہے۔
عید فطر اور عید قرباں کی نماز ←
→ مستحبی نماز میں اجزا کا کم یا زیادہ کرنا
مسئلہ 1863:اگر مستحبی نماز کی رکعتوں میں شک کرے چنانچہ زیادہ پر بنا رکھنا نماز کو باطل کرتا ہو تو کم پر بنا رکھے، مثلاً نماز گزار نافلہٴ صبح میں شک کرے دو رکعت پڑھی ہے یا تین رکعت تو بنا رکھے کہ دو رکعت پڑھی ہے لیکن اگر زیادہ پر بنا رکھنا نماز کو باطل نہ کرتا ہو مثلاً شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک رکعت توشک کے جس طرف پر بھی بنا رکھے اس کی نماز صحیح ہے ، لیکن اگر نماز وتر میں رکعت کی تعداد میں شک کرے تو احتیاط یہ ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ 1864: احتیاط واجب کی بنا پر مستحبی نماز کی رکعتوں میں گمان کا حکم یقین کے حکم کی طرح ہے اس معنی میں کہ نماز گزار مختار نہیں ہے کہ کم پر بنا رکھے بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اپنے گمان پر عمل کرے مگر یہ کہ گمان پر عمل کرنا نماز کے باطل ہونے کا سبب ہو۔
مسئلہ 1865: اگر دو رکعتی مستحبی نماز میں اس کا گمان تین رکعت یا اس سے زیادہ پر ہو اپنے گمان کی پرواہ نہ کرے اور اس کی نماز صحیح ہے مثلاً نماز گزار نماز غفیلہ میں گمان رکھتا ہو کہ تین رکعت پڑھی ہے لیکن معقول احتمال دے رہا ہو کہ دو رکعت پڑھی ہے تو بنا رکھے کہ دو رکعت پڑھی ہے۔
مسئلہ 1866: مستحبی نماز کے افعال اور اذکار میں شک یا گمان واجب نماز کی طرح ہے اس بنا پر اگر شک یا گمان کرتے وقت محل سے نہ گزرا ہو اس جز کو بجالائے اور اگر محل سے گزر گیا ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔
مسئلہ 1867: اگر نافلہٴ نماز میں کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے واجب نماز میں سجدہٴ سہو واجب ہوتا ہے ، یا ایک سجدے کو بھول جائے اور ایسے جز میں وارد ہوجائے کہ شرعاً واپس ہو کر انجام نہیں دے سکتا ہوتو نماز کے بعد سجدہٴ سہو یا سجدے کی قضا بجالانا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ 1868: اگر انسان مستحبی نماز میں رکوع یا سجدے کا واجب ذکر بھول جائے اور رکوع یا سجدے سے سر اٹھانے کے بعد یاد آئے تو واپس نہ پلٹے بلکہ سلسلہٴ نماز کو جاری رکھے اور سجدہٴ سہو انجام دینا لازم نہیں ہے۔