فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
مستحبی نمازوں کے افعال اور اذکار میں شک و گمان ←
→ مستحبی نمازوں کے احکام
مستحبی نماز میں اجزا کا کم یا زیادہ کرنا
مسئلہ 1859: اگر نماز گزار مستحبی نماز میں کسی رکن کو بھول كر ترک کرے اور اس وقت متوجہ ہو جب شرعاً واپس ہو کہ وہ رکن انجام نہ دے سکتا ہو اس کی نماز باطل ہو جائے گی[170] مثال کے طور پر نافلہٴ مغرب میں تشہد پڑھتے وقت یا سلام کے بعد متوجہ ہو کہ پہلی رکعت کا دو سجدہ انجام نہیں دیا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔
مسئلہ 1860: اگر مستحبی نماز میں بھول كر رکن کو زیادہ کرے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی مثال کے طور پر اگر نافلہٴ ظہر میں ایک رکعت میں بھول كر دو رکوع انجام دے تو نماز باطل نہیں ہوگی۔
مسئلہ 1861:اگر نماز گزار نافلہٴ نماز کے افعال میں سے کسی ایک کو بھول جائے اور اس وقت یاد آئے جب بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو لازم ہے کہ بھولے ہوئے فعل کو انجام دے اور دوبارہ اس رکن کو بجالائے اور اس صورت میں رکن کا زیادہ ہونا مستحب نماز کو باطل نہیں کرتا۔
مثال کے طور پر اگر نماز گزار کو نافلہٴ صبح کے رکوع میں یاد آئے کہ قرائت (حمد و سورہ) كو نہیں پڑھا ہے یا یہ کہ اول ماہ کی نماز میں تیس دفعہ سورہٴ قدر کے بدلے ایک دفعہ سورہٴ توحید پڑھا ہو تو لازم ہے کہ پلٹ جائے اور اسے پڑھے اور دوبارہ رکوع میں جائے اور اس صورت میں رکن کا زیادہ ہونا نافلہ کو باطل نہیں کرتا اسی طرح اگر نافلہٴ صبح میں رکوع کو بھول جائے اور دوسرے سجدے میں یاد آئے تو لازم ہے کہ پلٹ جائے اور رکوع کو بجالائے اور دوبارہ دونوں سجدے کو انجام دے اور دو سجدے کا زیادہ ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا۔
قابلِ ذکر ہے کہ اگر پلٹنا اور بھولے ہوئے جز کا بجالانا رکعت کے زیادہ ہونے کا باعث ہو تو یہ حکم جاری نہیں ہوگا ؛ مثلاً دوسری رکعت میں یاد آئے کہ پہلی رکعت میں قرائت کو بھول گیا ہے تو واپس نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ اس صورت میں قرائت اور جو چیزیں اس کے بعد ہیں انہیں انجام دینا نماز میں رکعت کے زیادہ ہونے کا سبب ہے۔
مسئلہ 1860: اگر مستحبی نماز میں بھول كر رکن کو زیادہ کرے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی مثال کے طور پر اگر نافلہٴ ظہر میں ایک رکعت میں بھول كر دو رکوع انجام دے تو نماز باطل نہیں ہوگی۔
مسئلہ 1861:اگر نماز گزار نافلہٴ نماز کے افعال میں سے کسی ایک کو بھول جائے اور اس وقت یاد آئے جب بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو لازم ہے کہ بھولے ہوئے فعل کو انجام دے اور دوبارہ اس رکن کو بجالائے اور اس صورت میں رکن کا زیادہ ہونا مستحب نماز کو باطل نہیں کرتا۔
مثال کے طور پر اگر نماز گزار کو نافلہٴ صبح کے رکوع میں یاد آئے کہ قرائت (حمد و سورہ) كو نہیں پڑھا ہے یا یہ کہ اول ماہ کی نماز میں تیس دفعہ سورہٴ قدر کے بدلے ایک دفعہ سورہٴ توحید پڑھا ہو تو لازم ہے کہ پلٹ جائے اور اسے پڑھے اور دوبارہ رکوع میں جائے اور اس صورت میں رکن کا زیادہ ہونا نافلہ کو باطل نہیں کرتا اسی طرح اگر نافلہٴ صبح میں رکوع کو بھول جائے اور دوسرے سجدے میں یاد آئے تو لازم ہے کہ پلٹ جائے اور رکوع کو بجالائے اور دوبارہ دونوں سجدے کو انجام دے اور دو سجدے کا زیادہ ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا۔
قابلِ ذکر ہے کہ اگر پلٹنا اور بھولے ہوئے جز کا بجالانا رکعت کے زیادہ ہونے کا باعث ہو تو یہ حکم جاری نہیں ہوگا ؛ مثلاً دوسری رکعت میں یاد آئے کہ پہلی رکعت میں قرائت کو بھول گیا ہے تو واپس نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ اس صورت میں قرائت اور جو چیزیں اس کے بعد ہیں انہیں انجام دینا نماز میں رکعت کے زیادہ ہونے کا سبب ہے۔
[170] مستحبی نماز زمانے کے لحاظ سے کہ انسان واپس ہو کر وہ رکن جسے بھولا ہے اسے بجالائے واجب نماز سے مختلف ہے جس کی وضاحت مسئلہ نمبر 1861 میں كی جاچكی ہے۔