فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
مستحبی نمازیں ←
→ نماز جمعہ کے احکام
نماز آیات
بعض حادثات اور طبیعی واقعات کی وجہ سے مکلف پر نماز پڑھنا واجب ہوتا ہے کہ جسے نماز آیات کہتے ہیں اور یہ فصل اسی کے احکام اور شرائط کو بیان کرنے کےلیے قرار دی گئی ہے۔
نماز آیات واجب ہونے کے مقامات
مسئلہ 1803: نماز آیات جس کی کیفیت آئندہ بیان کی جائے گی، تین مقام میں واجب ہوتی ہے:
اوّل: سورج گرہن (کسوف)
دوّم: چاند گرہن (خسوف) گرچہ سورج یا چاند کے کچھ حصّے میں ہی گرہن لگا ہو اور کوئی اس سے خوف زدہ بھی نہ ہو۔
سوّم: زلزلہ ؛ احتیاط واجب کی بناپر گرچہ کوئی خوف زدہ نہ ہو۔
البتہ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، سرخ و سیاہ آندھی اور انہی جیسی دوسری آسمانی نشانیاں جن سے اکثر لوگ خوف زدہ ہو جائیں اور اسی طرح زمین کے حادثات جیسے زمین کا دھنس جانا، پہاڑوں کا گرنا کہ اکثر لوگ خوف زدہ ہو جائیں احتیاط مستحب کی بنا پر نماز آیات ترک نہیں کرنی چاہیے۔
مسئلہ 1804: وہ مقامات اور اسباب جو نماز آیات کا سبب ہیں یقین یا دو عادل کی گواہی، یا ہر معقول طریقے سے جو اطمینان کا باعث ہو ثابت ہو جاتے ہیں، اس بنا پرا گر ان افراد کے کہنے پر جو عقلی قواعد کی بنیاد پر سورج گرہن یا چاند گرہن کے زمانے کو جانتے ہیں یقین ، یا اطمینان پیدا کرے کہ سورج یا چاند گرہن لگا ہے تو واجب ہے کہ نماز آیات پڑھے، اور اسی طرح اگر کہیں کہ فلاں وقت سورج یا چاند گرہن لگے گا اور اتنے وقت تک باقی رہے گا اور انسان ان کے کہنے سے اطمینان پیدا کرے تو لازم ہے کہ اپنے اطمینان پر عمل کرے۔
مسئلہ 1805: اگر مکلف کے لیے ان مقامات میں سے جن کے لیے نماز آیات واجب ہے چند مقام پیش آئے تو لازم ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک نماز آیات پڑھے مثلاً اگر سورج گرہن لگے اور زلزلہ بھی آئے تو دو نماز آیات پڑھے۔
مسئلہ 1806: وہ چیزیں جن کے لیے نماز آیات واجب ہے جس جگہ پیش آئے اور لوگوں کو احساس ہو صرف اسی جگہ کے افراد کے لیے لازم ہے کہ نماز آیات پڑھیں اور دوسری جگہ کے افراد کے لیے جنہوں نے اس آیت الٰہی (نشانی) کا احساس نہیں کیا ہے واجب نہیں ہے گرچہ وہ جگہیں اس جگہ سے ملی ہوئی یا قرب و جوار میں ہوں۔
نماز آیات کا وقت
مسئلہ 1807: نماز آیات کے شروع ہونے کا وقت سورج اور چاند گرہن کے لیے اس دقت سے جب سورج اور چاند گرہن لگنا شروع ہو اور جب تک سورج یا چاند اپنی اصلی حالت پر پلٹ نہ جائے باقی رہتا ہے (گرچہ بہتر ہے کہ نماز آیات کے پڑھنے میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ سورج یا چاند گرہن ختم ہونا شروع ہو جائے)؛ البتہ نماز آیات کو تمام کرنے میں سورج یا چاند گرہن کے ختم ہونے تک تاخیر کر سکتا ہے، اس بنا پر انسان نماز آیات کو اس طرح پڑھ سکتا ہے کہ نماز کا شروع کرنا سورج اور چاند گرہن کے وقت میں ہو اور بقیہ نماز گرہن کے ختم ہونے کے بعد انجام پائے۔
مسئلہ 1808: اگر نماز آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ سورج یا چاند گرہن ختم ہونے لگے تو ادا کی نیت کر سکتے ہیں، لیکن پورا ختم ہونے کے بعد نماز قضا ہو جائےگی اور لازم ہے کہ قضا کی نیت سے بجالائے۔
مسئلہ 1809: اگر سورج یا چاند گرہن کا وقت ایک رکعت پڑھنے یا اس سے کم مقدار میں ہو تو لازم ہے کہ انسان ادا کی نیت سے بجالائے لیکن اگر گرہن کا وقت زیادہ ہو لیکن انسان نہ پڑھے یہاں تک کہ ایک رکعت یا اس سے کم پڑھنے کا وقت ختم ہونے میں رہ جائے تو اس صورت میں بھی لازم ہے کہ ادا کی نیت سے پڑھے۔
مسئلہ 1810: جس وقت زلزلہ، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک اور اس طرح کے حادثات پیش آئیں اور انسان احتیاط کرنا چاہتا ہو (کہ یہ احتیاط زلزلہ میں واجب اور بقیہ چیزوں میں مستحب ہے) اگر وقت وسیع ہو تو لازم نہیں ہے نماز آیات فوراً پڑھے اور اگر وقت تنگ ہو جیسے زلزلہ کے بہت سے مقامات تو لازم ہے فوراً اس طرح سے پڑھے کہ عرف کی نظر میں تاخیر شمار نہ ہو اور اگر نماز کے پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ اس (نشانی) سے متصل زمانہ گزر جائے تو اس پر نماز آیات پڑھنا واجب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر بجالائے۔
نماز آیات پڑھنے کا طریقہ
مسئلہ 1811:نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہے ، اور دو طریقے سے پڑھی جا سکتی ہے:
پہلا طریقہ: نیت کے بعد تکبیرۃ الاحرام کہے اور ایک دفعہ حمد اور ایک کامل سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دوبارہ ایک دفعہ حمد اور ایک کامل سورہ پڑھے اور پھر رکوع میں جائے اور اسی طرح پانچ مرتبہ کرے اور پانچویں رکوع کے بعد دو سجدہ کرے اور کھڑا ہو اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور تشہد اور سلام پڑھے۔
دوسرا طریقہ: نیت اور تکبیرۃ الاحرام اور حمد پڑھنے کے بعد ایک سورہ کی آیتوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے اور ایک آیت یا اس سے زیادہ پڑھے، بلکہ ایک آیت سے کم بھی پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر کامل جملہ ہو۔ اور اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر سورہ كی ابتدا سے شروع کرے اور احتیاط لازم کی بنا پر "بسم الله الرحمٰن الرحیم" کے کہنے پر اکتفا نہ کرے اور ہر آیت کو ان خصوصیات کے ساتھ جو بیان کی گئی پڑھنے کے بعد رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اٹھالے اور حمد پڑھے بغیر سورہ کے دوسرے حصے کو پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح پانچویں رکوع سے پہلے سورہ کو تمام کرے، مثال کے طور پر جو شخص حمد کے بعد سورہٴ قدر پڑھنا چاہتا ہے اس طرح سے عمل کرے:
نیت اور تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورہٴ حمد پڑھے اور پھر کہے: "بِسْم اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ اِنّا أَنْزَلْناهُ فی لَیْلَةِ القَدْر" پھر رکوع میں جائے اور رکوع کے بعد کھڑا ہو اور کہے: "وَ ما اَدْراکَ ما لَیْلَةُ القَدْر" پھر رکوع میں جائے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کہے:"لَیْلَةُ القَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ" پھر رکوع میں جائے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کہے:"تَنَزَّلُ الْمَلائِکَةُ وَالرّوحُ فیها بِإِذْنِ رَبِّهِم مِنْ کُلِّ اَمْر" اور پھر رکوع میں جائے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کہے:"سَلامٌ هِیَ حَتّی مَطْلَعِ الفَجْر" اور اس کے بعد پانچویں رکوع میں جائے گا اور پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دو سجدہ کرے اور پھر دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشہد اور سلام پڑھے اور یہ بھی جائز ہے کہ سورہ کو پانچ سے کم حصوں میں تقسیم کرے؛ لیکن جب بھی سورہ تمام کرے لازم ہے کہ حمد کو بعد کے رکوع سے پہلے دوبارہ پڑھے اور پھر سورہ پڑھے۔
سورہٴ توحید کی مثال: اگر انسان نماز آیات میں سورہٴ توحید پڑھنا چاہے کیونکہ احتیاط واجب کی بنا پر" بسم اللّه الرحمٰن الرحیم"ایک آیت کے بدلے کہنے پر اکتفا نہیں کر سکتا جائز ہے کہ ایک دوسرے طریقے سے سورہٴ توحید کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے:
پہلا حصہ "بسم اللّه الرحمٰن الرحیم قُلْ هُوَ اللّهُ اَحَدٌ " دوسرا حصہ " اَللّهُ الصَّمَدُ " تیسرا حصہ"لَمْ یَلِد" چوتھا حصہ "وَ لَمْ یولَد" پانچواں حصہ "وَلَمْ یَکُن لَه کُفُواً اَحَد" اور یہ بھی جائز ہے کہ پانچ حصوں سے کم میں تقسیم کرے؛ لیکن جب بھی سورہ تمام کرے لازم ہے کہ حمد کو بعد کے رکوع سے پہلے پڑھے۔
مسئلہ 1812: اگر نماز آیات کی ایک رکعت میں پانچ مرتبہ حمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت میں حمد پڑھے اور سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے تو حرج نہیں ہے۔
نماز آیات کے دوسرے احکام
مسئلہ 1813: سورج اور چاند گرہن کی نمازِ آیات کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر نماز طواف اور نماز آیات سورج اور چاند گرہن کے علاوہ جماعت سے صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ 1814: اگر نماز آیات میں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور اس کی فکر کسی طرف نہ جائے تو نماز باطل ہے، لیکن اگر گمان یا اطمینان یا یقین حاصل ہو جائے تو اسی پر عمل کرے۔
مسئلہ 1815: اگر نماز گزار رکوع کی تعداد میں شک کرے تو کم پر بنا رکھے گا، مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع کیا ہے یا پانچ رکوع چنانچہ اس کا شک محل کے بعد ہو جیسے کہ "سَمِعَ اللّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہتے وقت شک کرے یا سجدے میں جاتے وقت یا سجدے میں شک کرے، ان مقامات میں اپنے شک کی پرواہ نہ کرے لیکن اگر ابھی محل میں ہے اور بعد کے عمل میں وارد نہیں ہوا ہے تو جس رکوع کے بجالانے میں شک کرے تو لازم ہے کہ اسے بجالائے۔
مسئلہ 1816: اگر نماز آیات میں سجدہٴ سہو کے مقامات پیش آئیں یا سجدے کو بھول جائے اور اس کا وقت گزر جائے تو انہیں احکام کے مطابق جو یومیہ نماز کے لیے بیان ہوئے عمل کرے اور مجموعی طور پر نمازیومیہ کے شک اور سہو کے احکام اس نماز میں بھی جاری ہوں گے۔
مسئلہ 1817: نماز آیات کے رکوع میں سے ہر ایک رکوع رکن ہے پس اگر عمداً کم یا زیادہ ہو جائے نمازباطل ہے اور اسی طرح اگر غلطی سے کم ہو جائے تو نماز باطل ہے اور اگر غلطی سے زیادہ ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر نماز باطل ہے۔
مسئلہ 1818: وہ چیزیں جو یومیہ نماز میں واجب یا مستحب ہیں نماز آیات میں بھی واجب یا مستحب ہیں، لیکن نماز آیات میں اذان و اقامت نہیں ہے اور اگر جماعت کے ساتھ پڑھی جائے تو بہتر ہے کہ رجا كے طور پر اذان و اقامت کی جگہ پر تین مرتبہ"الصَّلاةَ" کہا جائے اور فرادیٰ میں تین مرتبہ "الصَّلاةَ" کہنا وارد نہیں ہوا ہے۔
مسئلہ 1819: مستحب ہے کہ نماز گزار نماز آیات میں دوسرے ، چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھےاور اگر صرف دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھےپھر بھی کافی ہے۔
مسئلہ 1820: اگر مکلف کو معلوم ہو کہ سورج یا چاند گرہن لگا ہے اور جان بوجھ کر یا بھول كر نماز آیات نہ پڑھے یہاں تک کہ وقت گزر جائےتو واجب ہے کہ اس کی قضا بجالائے فرق نہیں ہے کہ سورج یا چاند گرہن مكمل طور پر لگا ہو یا کچھ حصہ میں لگا ہو اور اگر مكمل طور پر سورج یا چاند گرہن لگا ہو اور مکلف اس سے با خبر ہو لیکن جان بوجھ کہ نماز آیات نہ پڑھے احتیاط واجب کی بنا پر اس کو قضا کرنے کےلیے غسل کرے۔
مسئلہ 1821: سورج یا چاند گرہن مكمل طور پر لگا ہو اور اس وقت انسان سورج یا چاند گرہن لگنے سے با خبر نہ ہوا ہو لازم ہے کہ نماز آیات کی قضا بجالائے ؛ لیکن اگر سورج یا چاند کے کچھ حصے میں گرہن لگا ہو اور اس وقت انسان سورج یا چاند گرہن لگنے سے با خبر نہ ہو تو نماز آیات کی قضا بجالانا لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 1822: اگر کچھ لوگ کہیں سورج یا چاند گرہن لگا ہے چنانچہ انسان ان کے کہنے سے یقین یا اطمینان پیدا نہ کرے اور ان کے درمیان ایسے اشخاص جن کا قول شرعاً معتبر ہے جیسے دو عادل (جو شہادت دیں) نہ ہوں اور انسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد میں معلوم ہو کہ صحیح کہا تھا تو اگر گرہن پورے سورج یا چاند کو لگا ہو تو لازم ہے کہ نماز آیات کی قضا بجالائے لیکن اگر کچھ حصّے میں لگا ہوتو نماز آیات کی قضا لازم نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر دو مرد جن کا عادل ہونا معلوم نہیں ہے خبر دیں کہ سورج یا چاند گرہن لگا تھا اور بعد میں معلوم ہو کہ عادل تھے۔
مسئلہ 1823: جس شخص پر چند نماز آیات کی قضا واجب ہے خواہ ایک ہی سبب سے واجب ہوئی ہو جیسے تین مرتبہ سورج گرہن لگا ہو، اور نماز آیات نہ پڑھی ہو یا چند سبب سے واجب ہوئی ہومثلاً سورج گرہن، چاند گرہن کی وجہ سے نماز آیات واجب ہوئی ہو اور نہ پڑھا ہو تو جس وقت اس کی قضا بجالارہا ہو لازم نہیں ہے معین کرے کہ اس میں سے کس کی قضا بجالارہا ہے۔
مسئلہ 1824: جیسا کہ مسئلہ نمبر 1810 میں ذکر کیا گیا مکلف کو چاہیے کہ زلزلہ واقع ہونے کے بعد فوراً اس طرح نماز آیات پڑھے کہ لوگوں کی نظر میں تاخیر شمار نہ ہو، اور اگر کسی بھی وجہ سے زلزلہ كی نماز آیات پڑھنے میں تاخیر کرے یہاں تک زلزلہ سے متصل وقت گزرجائے تو نماز آیات کا پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اسے بعد میں ادا یا قضا کی نیت کئے بغیر بجالائے۔
مسئلہ 1825: اگر مکلف متوجہ ہو کہ وہ نماز آیات جو سورج یا چاند گرہن کے لیے پڑھی تھی باطل تھی، لازم ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہے تو قضا بجالائے اور اگر متوجہ ہو کہ وہ نماز آیات جو زلزلہ کے لیے پڑھی تھی باطل تھی تو اگر زلزلہ سے متصل وقت گزر گیا ہو تو نماز آیات اس سے ساقط ہے دوبارہ بجالانا لازم نہیں ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر بجالائے۔
مسئلہ 1826: اگر عورت کے لیے حیض یا نفاس کی حالت میں ہو سورج یا چاند گرہن لگے یا زلزلہ آجائے تو نماز آیات اس پر واجب نہیں ہے اور اس حال میں نماز آیات پڑھنا صحیح نہیں ہے اور اس کی قضا بھی واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ رجا كے طورپر پاک ہونے کے بعد سورج یا چاند گرہن کی نماز آیات کی قضا بجا لائے اور زلزلہ کی نماز آیات کو ادا اور قضا کی نیت كیے بغیر بجالائے۔
مسئلہ 1827: اگر یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیات بھی انسان پر واجب ہو جائے چنانچہ دونوں نماز کے لیے وقت رکھتا ہوتو جسے بھی پہلے پڑھے حرج نہیں ہے لیکن اگر ان میں سے ایک کا وقت تنگ ہو تو لازم ہے کہ پہلے اسے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو لازم ہے کہ یومیہ نماز پڑھے۔
مسئلہ 1828: اگر یومیہ نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے چنانچہ یومیہ نماز کاوقت بھی تنگ ہو تو پہلے اسے تمام کرے اور پھر نماز آیات پڑھے اور اگر یومیہ نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو اسے توڑ دے اور پہلے نماز آیات پڑھے اور پھر یومیہ نماز بجالائے۔
مسئلہ 1829: اگر نماز آیات کے درمیان متوجہ ہو کہ یومیہ نماز کا وقت تنگ ہے تو نماز آیات کو وہیں پر ناقص چھوڑ دے اور کوئی ایسا کام كیے بغیر جو نماز کو باطل کرے یومیہ نماز پرھے اور یومیہ نماز ختم کرنے کے بعد کوئی ایسا کام کرنے سے پہلے جو نماز آیات کوباطل کرے بقیہ نماز آیات کو جہاں پر چھوڑا تھا وہیں سے پڑھے۔
مستحبی نمازیں ←
→ نماز جمعہ کے احکام
نماز آیات واجب ہونے کے مقامات
مسئلہ 1803: نماز آیات جس کی کیفیت آئندہ بیان کی جائے گی، تین مقام میں واجب ہوتی ہے:
اوّل: سورج گرہن (کسوف)
دوّم: چاند گرہن (خسوف) گرچہ سورج یا چاند کے کچھ حصّے میں ہی گرہن لگا ہو اور کوئی اس سے خوف زدہ بھی نہ ہو۔
سوّم: زلزلہ ؛ احتیاط واجب کی بناپر گرچہ کوئی خوف زدہ نہ ہو۔
البتہ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، سرخ و سیاہ آندھی اور انہی جیسی دوسری آسمانی نشانیاں جن سے اکثر لوگ خوف زدہ ہو جائیں اور اسی طرح زمین کے حادثات جیسے زمین کا دھنس جانا، پہاڑوں کا گرنا کہ اکثر لوگ خوف زدہ ہو جائیں احتیاط مستحب کی بنا پر نماز آیات ترک نہیں کرنی چاہیے۔
مسئلہ 1804: وہ مقامات اور اسباب جو نماز آیات کا سبب ہیں یقین یا دو عادل کی گواہی، یا ہر معقول طریقے سے جو اطمینان کا باعث ہو ثابت ہو جاتے ہیں، اس بنا پرا گر ان افراد کے کہنے پر جو عقلی قواعد کی بنیاد پر سورج گرہن یا چاند گرہن کے زمانے کو جانتے ہیں یقین ، یا اطمینان پیدا کرے کہ سورج یا چاند گرہن لگا ہے تو واجب ہے کہ نماز آیات پڑھے، اور اسی طرح اگر کہیں کہ فلاں وقت سورج یا چاند گرہن لگے گا اور اتنے وقت تک باقی رہے گا اور انسان ان کے کہنے سے اطمینان پیدا کرے تو لازم ہے کہ اپنے اطمینان پر عمل کرے۔
مسئلہ 1805: اگر مکلف کے لیے ان مقامات میں سے جن کے لیے نماز آیات واجب ہے چند مقام پیش آئے تو لازم ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک نماز آیات پڑھے مثلاً اگر سورج گرہن لگے اور زلزلہ بھی آئے تو دو نماز آیات پڑھے۔
مسئلہ 1806: وہ چیزیں جن کے لیے نماز آیات واجب ہے جس جگہ پیش آئے اور لوگوں کو احساس ہو صرف اسی جگہ کے افراد کے لیے لازم ہے کہ نماز آیات پڑھیں اور دوسری جگہ کے افراد کے لیے جنہوں نے اس آیت الٰہی (نشانی) کا احساس نہیں کیا ہے واجب نہیں ہے گرچہ وہ جگہیں اس جگہ سے ملی ہوئی یا قرب و جوار میں ہوں۔
نماز آیات کا وقت
مسئلہ 1807: نماز آیات کے شروع ہونے کا وقت سورج اور چاند گرہن کے لیے اس دقت سے جب سورج اور چاند گرہن لگنا شروع ہو اور جب تک سورج یا چاند اپنی اصلی حالت پر پلٹ نہ جائے باقی رہتا ہے (گرچہ بہتر ہے کہ نماز آیات کے پڑھنے میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ سورج یا چاند گرہن ختم ہونا شروع ہو جائے)؛ البتہ نماز آیات کو تمام کرنے میں سورج یا چاند گرہن کے ختم ہونے تک تاخیر کر سکتا ہے، اس بنا پر انسان نماز آیات کو اس طرح پڑھ سکتا ہے کہ نماز کا شروع کرنا سورج اور چاند گرہن کے وقت میں ہو اور بقیہ نماز گرہن کے ختم ہونے کے بعد انجام پائے۔
مسئلہ 1808: اگر نماز آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ سورج یا چاند گرہن ختم ہونے لگے تو ادا کی نیت کر سکتے ہیں، لیکن پورا ختم ہونے کے بعد نماز قضا ہو جائےگی اور لازم ہے کہ قضا کی نیت سے بجالائے۔
مسئلہ 1809: اگر سورج یا چاند گرہن کا وقت ایک رکعت پڑھنے یا اس سے کم مقدار میں ہو تو لازم ہے کہ انسان ادا کی نیت سے بجالائے لیکن اگر گرہن کا وقت زیادہ ہو لیکن انسان نہ پڑھے یہاں تک کہ ایک رکعت یا اس سے کم پڑھنے کا وقت ختم ہونے میں رہ جائے تو اس صورت میں بھی لازم ہے کہ ادا کی نیت سے پڑھے۔
مسئلہ 1810: جس وقت زلزلہ، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک اور اس طرح کے حادثات پیش آئیں اور انسان احتیاط کرنا چاہتا ہو (کہ یہ احتیاط زلزلہ میں واجب اور بقیہ چیزوں میں مستحب ہے) اگر وقت وسیع ہو تو لازم نہیں ہے نماز آیات فوراً پڑھے اور اگر وقت تنگ ہو جیسے زلزلہ کے بہت سے مقامات تو لازم ہے فوراً اس طرح سے پڑھے کہ عرف کی نظر میں تاخیر شمار نہ ہو اور اگر نماز کے پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ اس (نشانی) سے متصل زمانہ گزر جائے تو اس پر نماز آیات پڑھنا واجب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر بجالائے۔
نماز آیات پڑھنے کا طریقہ
مسئلہ 1811:نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہے ، اور دو طریقے سے پڑھی جا سکتی ہے:
پہلا طریقہ: نیت کے بعد تکبیرۃ الاحرام کہے اور ایک دفعہ حمد اور ایک کامل سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دوبارہ ایک دفعہ حمد اور ایک کامل سورہ پڑھے اور پھر رکوع میں جائے اور اسی طرح پانچ مرتبہ کرے اور پانچویں رکوع کے بعد دو سجدہ کرے اور کھڑا ہو اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور تشہد اور سلام پڑھے۔
دوسرا طریقہ: نیت اور تکبیرۃ الاحرام اور حمد پڑھنے کے بعد ایک سورہ کی آیتوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے اور ایک آیت یا اس سے زیادہ پڑھے، بلکہ ایک آیت سے کم بھی پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر کامل جملہ ہو۔ اور اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر سورہ كی ابتدا سے شروع کرے اور احتیاط لازم کی بنا پر "بسم الله الرحمٰن الرحیم" کے کہنے پر اکتفا نہ کرے اور ہر آیت کو ان خصوصیات کے ساتھ جو بیان کی گئی پڑھنے کے بعد رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اٹھالے اور حمد پڑھے بغیر سورہ کے دوسرے حصے کو پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح پانچویں رکوع سے پہلے سورہ کو تمام کرے، مثال کے طور پر جو شخص حمد کے بعد سورہٴ قدر پڑھنا چاہتا ہے اس طرح سے عمل کرے:
نیت اور تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورہٴ حمد پڑھے اور پھر کہے: "بِسْم اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ اِنّا أَنْزَلْناهُ فی لَیْلَةِ القَدْر" پھر رکوع میں جائے اور رکوع کے بعد کھڑا ہو اور کہے: "وَ ما اَدْراکَ ما لَیْلَةُ القَدْر" پھر رکوع میں جائے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کہے:"لَیْلَةُ القَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ" پھر رکوع میں جائے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کہے:"تَنَزَّلُ الْمَلائِکَةُ وَالرّوحُ فیها بِإِذْنِ رَبِّهِم مِنْ کُلِّ اَمْر" اور پھر رکوع میں جائے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کہے:"سَلامٌ هِیَ حَتّی مَطْلَعِ الفَجْر" اور اس کے بعد پانچویں رکوع میں جائے گا اور پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دو سجدہ کرے اور پھر دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشہد اور سلام پڑھے اور یہ بھی جائز ہے کہ سورہ کو پانچ سے کم حصوں میں تقسیم کرے؛ لیکن جب بھی سورہ تمام کرے لازم ہے کہ حمد کو بعد کے رکوع سے پہلے دوبارہ پڑھے اور پھر سورہ پڑھے۔
سورہٴ توحید کی مثال: اگر انسان نماز آیات میں سورہٴ توحید پڑھنا چاہے کیونکہ احتیاط واجب کی بنا پر" بسم اللّه الرحمٰن الرحیم"ایک آیت کے بدلے کہنے پر اکتفا نہیں کر سکتا جائز ہے کہ ایک دوسرے طریقے سے سورہٴ توحید کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے:
پہلا حصہ "بسم اللّه الرحمٰن الرحیم قُلْ هُوَ اللّهُ اَحَدٌ " دوسرا حصہ " اَللّهُ الصَّمَدُ " تیسرا حصہ"لَمْ یَلِد" چوتھا حصہ "وَ لَمْ یولَد" پانچواں حصہ "وَلَمْ یَکُن لَه کُفُواً اَحَد" اور یہ بھی جائز ہے کہ پانچ حصوں سے کم میں تقسیم کرے؛ لیکن جب بھی سورہ تمام کرے لازم ہے کہ حمد کو بعد کے رکوع سے پہلے پڑھے۔
مسئلہ 1812: اگر نماز آیات کی ایک رکعت میں پانچ مرتبہ حمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت میں حمد پڑھے اور سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے تو حرج نہیں ہے۔
نماز آیات کے دوسرے احکام
مسئلہ 1813: سورج اور چاند گرہن کی نمازِ آیات کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر نماز طواف اور نماز آیات سورج اور چاند گرہن کے علاوہ جماعت سے صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ 1814: اگر نماز آیات میں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور اس کی فکر کسی طرف نہ جائے تو نماز باطل ہے، لیکن اگر گمان یا اطمینان یا یقین حاصل ہو جائے تو اسی پر عمل کرے۔
مسئلہ 1815: اگر نماز گزار رکوع کی تعداد میں شک کرے تو کم پر بنا رکھے گا، مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع کیا ہے یا پانچ رکوع چنانچہ اس کا شک محل کے بعد ہو جیسے کہ "سَمِعَ اللّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہتے وقت شک کرے یا سجدے میں جاتے وقت یا سجدے میں شک کرے، ان مقامات میں اپنے شک کی پرواہ نہ کرے لیکن اگر ابھی محل میں ہے اور بعد کے عمل میں وارد نہیں ہوا ہے تو جس رکوع کے بجالانے میں شک کرے تو لازم ہے کہ اسے بجالائے۔
مسئلہ 1816: اگر نماز آیات میں سجدہٴ سہو کے مقامات پیش آئیں یا سجدے کو بھول جائے اور اس کا وقت گزر جائے تو انہیں احکام کے مطابق جو یومیہ نماز کے لیے بیان ہوئے عمل کرے اور مجموعی طور پر نمازیومیہ کے شک اور سہو کے احکام اس نماز میں بھی جاری ہوں گے۔
مسئلہ 1817: نماز آیات کے رکوع میں سے ہر ایک رکوع رکن ہے پس اگر عمداً کم یا زیادہ ہو جائے نمازباطل ہے اور اسی طرح اگر غلطی سے کم ہو جائے تو نماز باطل ہے اور اگر غلطی سے زیادہ ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر نماز باطل ہے۔
مسئلہ 1818: وہ چیزیں جو یومیہ نماز میں واجب یا مستحب ہیں نماز آیات میں بھی واجب یا مستحب ہیں، لیکن نماز آیات میں اذان و اقامت نہیں ہے اور اگر جماعت کے ساتھ پڑھی جائے تو بہتر ہے کہ رجا كے طور پر اذان و اقامت کی جگہ پر تین مرتبہ"الصَّلاةَ" کہا جائے اور فرادیٰ میں تین مرتبہ "الصَّلاةَ" کہنا وارد نہیں ہوا ہے۔
مسئلہ 1819: مستحب ہے کہ نماز گزار نماز آیات میں دوسرے ، چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھےاور اگر صرف دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھےپھر بھی کافی ہے۔
مسئلہ 1820: اگر مکلف کو معلوم ہو کہ سورج یا چاند گرہن لگا ہے اور جان بوجھ کر یا بھول كر نماز آیات نہ پڑھے یہاں تک کہ وقت گزر جائےتو واجب ہے کہ اس کی قضا بجالائے فرق نہیں ہے کہ سورج یا چاند گرہن مكمل طور پر لگا ہو یا کچھ حصہ میں لگا ہو اور اگر مكمل طور پر سورج یا چاند گرہن لگا ہو اور مکلف اس سے با خبر ہو لیکن جان بوجھ کہ نماز آیات نہ پڑھے احتیاط واجب کی بنا پر اس کو قضا کرنے کےلیے غسل کرے۔
مسئلہ 1821: سورج یا چاند گرہن مكمل طور پر لگا ہو اور اس وقت انسان سورج یا چاند گرہن لگنے سے با خبر نہ ہوا ہو لازم ہے کہ نماز آیات کی قضا بجالائے ؛ لیکن اگر سورج یا چاند کے کچھ حصے میں گرہن لگا ہو اور اس وقت انسان سورج یا چاند گرہن لگنے سے با خبر نہ ہو تو نماز آیات کی قضا بجالانا لازم نہیں ہے۔
مسئلہ 1822: اگر کچھ لوگ کہیں سورج یا چاند گرہن لگا ہے چنانچہ انسان ان کے کہنے سے یقین یا اطمینان پیدا نہ کرے اور ان کے درمیان ایسے اشخاص جن کا قول شرعاً معتبر ہے جیسے دو عادل (جو شہادت دیں) نہ ہوں اور انسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد میں معلوم ہو کہ صحیح کہا تھا تو اگر گرہن پورے سورج یا چاند کو لگا ہو تو لازم ہے کہ نماز آیات کی قضا بجالائے لیکن اگر کچھ حصّے میں لگا ہوتو نماز آیات کی قضا لازم نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر دو مرد جن کا عادل ہونا معلوم نہیں ہے خبر دیں کہ سورج یا چاند گرہن لگا تھا اور بعد میں معلوم ہو کہ عادل تھے۔
مسئلہ 1823: جس شخص پر چند نماز آیات کی قضا واجب ہے خواہ ایک ہی سبب سے واجب ہوئی ہو جیسے تین مرتبہ سورج گرہن لگا ہو، اور نماز آیات نہ پڑھی ہو یا چند سبب سے واجب ہوئی ہومثلاً سورج گرہن، چاند گرہن کی وجہ سے نماز آیات واجب ہوئی ہو اور نہ پڑھا ہو تو جس وقت اس کی قضا بجالارہا ہو لازم نہیں ہے معین کرے کہ اس میں سے کس کی قضا بجالارہا ہے۔
مسئلہ 1824: جیسا کہ مسئلہ نمبر 1810 میں ذکر کیا گیا مکلف کو چاہیے کہ زلزلہ واقع ہونے کے بعد فوراً اس طرح نماز آیات پڑھے کہ لوگوں کی نظر میں تاخیر شمار نہ ہو، اور اگر کسی بھی وجہ سے زلزلہ كی نماز آیات پڑھنے میں تاخیر کرے یہاں تک زلزلہ سے متصل وقت گزرجائے تو نماز آیات کا پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اسے بعد میں ادا یا قضا کی نیت کئے بغیر بجالائے۔
مسئلہ 1825: اگر مکلف متوجہ ہو کہ وہ نماز آیات جو سورج یا چاند گرہن کے لیے پڑھی تھی باطل تھی، لازم ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہے تو قضا بجالائے اور اگر متوجہ ہو کہ وہ نماز آیات جو زلزلہ کے لیے پڑھی تھی باطل تھی تو اگر زلزلہ سے متصل وقت گزر گیا ہو تو نماز آیات اس سے ساقط ہے دوبارہ بجالانا لازم نہیں ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر بجالائے۔
مسئلہ 1826: اگر عورت کے لیے حیض یا نفاس کی حالت میں ہو سورج یا چاند گرہن لگے یا زلزلہ آجائے تو نماز آیات اس پر واجب نہیں ہے اور اس حال میں نماز آیات پڑھنا صحیح نہیں ہے اور اس کی قضا بھی واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ رجا كے طورپر پاک ہونے کے بعد سورج یا چاند گرہن کی نماز آیات کی قضا بجا لائے اور زلزلہ کی نماز آیات کو ادا اور قضا کی نیت كیے بغیر بجالائے۔
مسئلہ 1827: اگر یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیات بھی انسان پر واجب ہو جائے چنانچہ دونوں نماز کے لیے وقت رکھتا ہوتو جسے بھی پہلے پڑھے حرج نہیں ہے لیکن اگر ان میں سے ایک کا وقت تنگ ہو تو لازم ہے کہ پہلے اسے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو لازم ہے کہ یومیہ نماز پڑھے۔
مسئلہ 1828: اگر یومیہ نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے چنانچہ یومیہ نماز کاوقت بھی تنگ ہو تو پہلے اسے تمام کرے اور پھر نماز آیات پڑھے اور اگر یومیہ نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو اسے توڑ دے اور پہلے نماز آیات پڑھے اور پھر یومیہ نماز بجالائے۔
مسئلہ 1829: اگر نماز آیات کے درمیان متوجہ ہو کہ یومیہ نماز کا وقت تنگ ہے تو نماز آیات کو وہیں پر ناقص چھوڑ دے اور کوئی ایسا کام كیے بغیر جو نماز کو باطل کرے یومیہ نماز پرھے اور یومیہ نماز ختم کرنے کے بعد کوئی ایسا کام کرنے سے پہلے جو نماز آیات کوباطل کرے بقیہ نماز آیات کو جہاں پر چھوڑا تھا وہیں سے پڑھے۔