فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
وطن سے اعراض کرنے کے احکام ←
→ سفر کو ختم کرنے والی چیزیں
احکامِ وطن
مسئلہ 1602: وطن سے مراد مندرجہ ذیل تین مقام میں سے کوئی ایک ہے:
1۔ اصلی وطن: اس سے مراد انسان کی اصلی قیام گاہ ہے جو معمولاً ماں باپ کے رہنے کی جگہ اور انسان کی ولادت گاہ ہے کہ پیدائش سے وہاں زندگی بسر کرتا رہا ہے۔
2۔ انتخاب شدہ اور دائمی وطن: وہ جگہ جسے انسان نے ہمیشہ رہنے کے لیے انتخاب کیاہے اور بقیہ عمر بھی وہیں رہنا چاہتا ہے۔
3۔ موقت (وقتی) وطن: وہ جگہ جسے انسان نے رہنے کے لیے یا کام اور پڑھائی کے لیے اپنی قیام گاہ قرار دی ہے گرچہ قصد نہ رکھتا ہو کہ ہمیشہ وہاں پر رہے، چنانچہ اس طرح ہو کہ عرف اسے وہاں پر مسافر نہ کہے اس طرح سے کہ اگر وقتی طور پر دس دن یا اس سے زیادہ کسی دوسری جگہ کو اپنی قیام گاہ قرار دے پھر بھی عرف اس کی زندگی گزارنے اور رہنے کی جگہ وہی (پہلی جگہ) کو کہے تو وہاں اس کا وطن شمار ہوگا اور اسے وطن اتخاذی موقت یا وطن موقت کہتے ہیں۔
اس بنا پر جو شخص ارادہ رکھتا ہے مثلاً ڈیڑھ سال یا اس سے زیادہ کسی جگہ پر رہے مثلاً قم کا اسٹوڈینٹ جس کا قصد ہےکہ ڈیڑھ سال یا اس سے زیادہ کے لیے تہران کو پڑھائی کی قیام گاہ قرار دے اور سنیچر سے بدھ تک تہران میں رہے اور جمعرات اور جمعہ کو اپنے گھروالوں کے پاس اپنے وطن قم واپس آجائے پہلے دو ہفتے میں اگر تہران میں دس دن رہنے کا قصد نہیں ہے، احتیاط واجب کی بنا پر قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے اور اس کے بعد اس کی نماز تہران میں ( جو اس کا موقت وطن شمار کیا جائے گا )کامل ہے۔
لیکن اگر انسان کا قصد یہ ہو کہ ایسی جگہ جو اس کا اصلی وطن نہیں ہے مختصر مدت رہے اس طرح سے کہ عرفاً اس کی قیام گاہ اور زندگی گزارنے کی جگہ نہ کہلائے اور عرف اس کو اس جگہ ایسا مسافر شمار کرے جو مختصر مدت رہنا چاہتا ہے اور پھر دوسری جگہ واپس چلا جائے گا تو اس صورت میں وہ جگہ انسان کا وطن شمار نہیں ہوگی ۔(*)
(*) ۔ وہ نکات جو وطن موقت ثابت ہونے کے لیے ملاحظہ کرنا چاہیے مندرجہ ذیل ہیں:
الف: انسان کی مدت اقامت اس جگہ پر کم نہ ہو مثلاً جو شخص قصد رکھتا ہے چند سال تک ہر روز صرف تین چار گھنٹے کسی جگہ پر رہے تو اتنی مقدار وطن موقت صدق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ب: مجموعی طور پر یہ مدت طولانی زمانے میں حاصل نہ ہو۔
ج: جتنا بھی گھنٹوں کی تعداد دن میں اور دنوں کی تعداد مہینے میں زیادہ ہو اتنا ہی وطن موقت صدق ہونے اور انسان کی قیام گاہ کہلانے میں کم زمانے کی ضرورت ہوگی اور جتنا بھی گھنٹوں کی تعداد دن میں اور دنوں کی تعداد مہینے میں کم ہو وطن موقت کے صدق ہونے اور انسان کی قیام گاہ کہلانے میں زیادہ مدت کی ضرورت ہوگی۔
اس بنا پر کچھ مقامات مندرجہ ذیل جدول میں نمونے کے طور پر ذکر کئے جا رہے ہیں افراد اس جدول سے جو عرف کے نظریہ کو تشخیص دینے کے لیے منظم کیا گیا ہے جہاں پر عرف میں شک رکھتے ہوں مدد حاصل کر سکتے ہیں اور دوسرے مقامات کا حکم بھی مذکورہ مقامات سے مقایسہ (موازنہ) کرتے ہوئے واضح ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر چنانچہ کوئی اسٹوڈینٹ تین سال کے لیے کسی شہر میں پڑھ رہا ہو اور ہر مہینے میں 15 دن اس شہر اور 15 دن اپنے وطن میں رہے اس طرح سے کہ اس شہر میں شبانہ روز (دن و رات) کی شکل میں سکونت رکھتا ہو تو مندرجہ ذیل جدول میں شمارہ نمبر 2 کے مطابق مذکورہ شہر اس کا وطن شمار ہوگا قابلِ ذکر ہے کہ مندرجہ ذیل بعض مقامات میں وطن اور قیام گاہ کا صدق ہونا محل اشکال ہے اس لیے احتیاط کے تقاضے پر عمل کرنا ترک نہ كرے۔
وطن اور موقت قیام گاہ سے مربوط جدول:
قابلِ ذکر ہے کہ وطن کی دوسری اور تیسری قسم ( وطن اتخاذی دائم اور وطن موقت) میں فرق نہیں ہے کہ خود انسان نے مستقل طور پر انتخاب کیا ہو یا کسی دوسرے شخص کی تبعیت میں انتخاب کیا ہو ہر صورت میں اس کا وطن شمار ہوگا ، مثلاً اگر فرزند عرفاً والدین کے تابع شمار ہو اور ابھی اس جہت سے فیصلہ لینے میں مستقل نہ ہو چنانچہ اس کے والدین شہر مشہد کو وطن اتخاذی دائمی یا موقت انتخاب کریں اور وہاں پر رہنے لگیں تو شہر مشہد اس فرزند کے لیے بھی جو ان کے ساتھ مشہد میں رہ رہا ہے وطن شمار کیا جائے گا۔
مسئلہ 1603: جس شخص نے کسی جگہ کو اپنی پڑھائی یا کام کے لیے قیام گاہ قرار دیا ہے اس طرح سے کہ اس کی نماز وہاں کامل ہے اور اپنی قیام گاہ اور وطن کے درمیان كہ جن کا فاصلہ شرعی مسافت یا اس سے زیادہ ہے رفت و آمد رکھتا ہو تو پڑھائی یا کام کی قیام گاہ کی جگہ اس کی نماز کامل ہے اور وطن اور قیام گاہ کے درمیان اس کے سفر کی تعداد اگر ہر مہینے میں 10 سفر ہو اس کی نماز راستے میں بھی کامل ہے اور اگر 8 یا 9 سفر ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر راستے میں قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے اور اگر 7 سفر ہو اس کی نماز راستے میں قصر ہے اس بنا پر ایسے مقامات میں وطن موقت اور کثیر السفر دونوں کے احکام لحاظ کئے جائیں گے۔[153]
مسئلہ 1604: بعض فقہائے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم ایک دوسرے وطن "وطن شرعی" کے نام سے قائل ہیں اور کہا ہے کہ : جو شخص کسی جگہ پر اپنا ذاتی گھر رکھتا ہے اگر چھ مہینے ایک ساتھ قصد اقامت کے ساتھ رہ جائے جب تک وہ گھر اس کا ہے وہ جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے پس جب بھی سفر میں وہاں پر جائے نماز پوری پڑھے ، لیکن یہ حکم ثابت نہیں ہے (اور اس حکم کا ثابت نہ ہو نا فتویٰ کی بنیاد پر ہے۔)
مسئلہ 1605: جو شخص دو جگہ رہتا ہے مثلاً چھ مہینے ایک شہر اور چھ مہینے کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے دونوں جگہ اس کا وطن ہے بلکہ اگر دو جگہ سے زیادہ رہنے کے لیے انتخاب کیا ہو وہ سب اس کا وطن شمار ہوگا مثلاً تین شہر اگر عرفاً انسان کا وطن شمار ہو اور انسان سال کے چار مہینے جب موسم گرم ہے پہلے شہر میں رہے اور پھر چار مہینے جب موسم سرد ہے دوسرے شہر میں اور بقیہ سال تیسرے شہر میں رہتا ہو۔
مسئلہ 1606: جو مسافر سفر میں اپنے وطن سے گزرتا ہے اگر وہاں ٹھہرےتو اس کا سفر ختم ہو جائے گا اس لیے جب تک ایک نیا سفر شرعی مسافت کی حد تک کے لیے شروع نہ کرے اس کی نماز کامل ہے لیکن وطن سے بغیر ٹھہرے ہوئے گزرنا سفر کو ختم کرتا ہے یا نہیں محل اشکال ہے۔
اس بنا پر اگر انسان وطن سے گزرنے کے بعد شرعی مسافت کی مقدار طے کرنے کا قصد رکھتا ہو گرچہ واپسی کے راستے کو ملا کر ہو اس کی نماز قصر ہے ورنہ احتیاط لازم ہے کہ بقیہ راستے میں قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے۔ مثال کے طور پر ایک شخص قصد رکھتا ہو اپنے وطن مشہد سے ایسی جگہ جو آٹھ فرسخ کی دوری پر ہے جائے اوروہاں پر دس دن رہنے کا قصد کرے راستے میں دو فرسخ طے کرنے کے بعد اپنے دوسرے وطن پہونچ جائے لیکن وہاں سے بغیر ٹھہرے ہوئے عبور کرے اس صورت میں اگر دوسرے وطن سے خارج ہونے کے بعد بقیہ چھ فرسخ بچے ہوئے راستے میں مقصد پر پہونچنے سے پہلے نماز پڑھے تو احتیاط لازم ہے کہ قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے۔
مسئلہ 1607: وہ مسافر جو سفر کے دوران اپنے وطن پہونچے اور وہاں پر ٹھہرے جب تک وہاں پر ہے لازم ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر وہاں سے آٹھ فرسخ جانا چاہتا ہو یا مثلاً چار فرسخ جائے اور چار فرسخ واپس آئے تو حد ترخص پر پہونچنے کے بعد لازم ہے کہ نمازِ قصر پڑھے۔
1۔ اصلی وطن: اس سے مراد انسان کی اصلی قیام گاہ ہے جو معمولاً ماں باپ کے رہنے کی جگہ اور انسان کی ولادت گاہ ہے کہ پیدائش سے وہاں زندگی بسر کرتا رہا ہے۔
2۔ انتخاب شدہ اور دائمی وطن: وہ جگہ جسے انسان نے ہمیشہ رہنے کے لیے انتخاب کیاہے اور بقیہ عمر بھی وہیں رہنا چاہتا ہے۔
3۔ موقت (وقتی) وطن: وہ جگہ جسے انسان نے رہنے کے لیے یا کام اور پڑھائی کے لیے اپنی قیام گاہ قرار دی ہے گرچہ قصد نہ رکھتا ہو کہ ہمیشہ وہاں پر رہے، چنانچہ اس طرح ہو کہ عرف اسے وہاں پر مسافر نہ کہے اس طرح سے کہ اگر وقتی طور پر دس دن یا اس سے زیادہ کسی دوسری جگہ کو اپنی قیام گاہ قرار دے پھر بھی عرف اس کی زندگی گزارنے اور رہنے کی جگہ وہی (پہلی جگہ) کو کہے تو وہاں اس کا وطن شمار ہوگا اور اسے وطن اتخاذی موقت یا وطن موقت کہتے ہیں۔
اس بنا پر جو شخص ارادہ رکھتا ہے مثلاً ڈیڑھ سال یا اس سے زیادہ کسی جگہ پر رہے مثلاً قم کا اسٹوڈینٹ جس کا قصد ہےکہ ڈیڑھ سال یا اس سے زیادہ کے لیے تہران کو پڑھائی کی قیام گاہ قرار دے اور سنیچر سے بدھ تک تہران میں رہے اور جمعرات اور جمعہ کو اپنے گھروالوں کے پاس اپنے وطن قم واپس آجائے پہلے دو ہفتے میں اگر تہران میں دس دن رہنے کا قصد نہیں ہے، احتیاط واجب کی بنا پر قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے اور اس کے بعد اس کی نماز تہران میں ( جو اس کا موقت وطن شمار کیا جائے گا )کامل ہے۔
لیکن اگر انسان کا قصد یہ ہو کہ ایسی جگہ جو اس کا اصلی وطن نہیں ہے مختصر مدت رہے اس طرح سے کہ عرفاً اس کی قیام گاہ اور زندگی گزارنے کی جگہ نہ کہلائے اور عرف اس کو اس جگہ ایسا مسافر شمار کرے جو مختصر مدت رہنا چاہتا ہے اور پھر دوسری جگہ واپس چلا جائے گا تو اس صورت میں وہ جگہ انسان کا وطن شمار نہیں ہوگی ۔(*)
(*) ۔ وہ نکات جو وطن موقت ثابت ہونے کے لیے ملاحظہ کرنا چاہیے مندرجہ ذیل ہیں:
الف: انسان کی مدت اقامت اس جگہ پر کم نہ ہو مثلاً جو شخص قصد رکھتا ہے چند سال تک ہر روز صرف تین چار گھنٹے کسی جگہ پر رہے تو اتنی مقدار وطن موقت صدق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ب: مجموعی طور پر یہ مدت طولانی زمانے میں حاصل نہ ہو۔
ج: جتنا بھی گھنٹوں کی تعداد دن میں اور دنوں کی تعداد مہینے میں زیادہ ہو اتنا ہی وطن موقت صدق ہونے اور انسان کی قیام گاہ کہلانے میں کم زمانے کی ضرورت ہوگی اور جتنا بھی گھنٹوں کی تعداد دن میں اور دنوں کی تعداد مہینے میں کم ہو وطن موقت کے صدق ہونے اور انسان کی قیام گاہ کہلانے میں زیادہ مدت کی ضرورت ہوگی۔
اس بنا پر کچھ مقامات مندرجہ ذیل جدول میں نمونے کے طور پر ذکر کئے جا رہے ہیں افراد اس جدول سے جو عرف کے نظریہ کو تشخیص دینے کے لیے منظم کیا گیا ہے جہاں پر عرف میں شک رکھتے ہوں مدد حاصل کر سکتے ہیں اور دوسرے مقامات کا حکم بھی مذکورہ مقامات سے مقایسہ (موازنہ) کرتے ہوئے واضح ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر چنانچہ کوئی اسٹوڈینٹ تین سال کے لیے کسی شہر میں پڑھ رہا ہو اور ہر مہینے میں 15 دن اس شہر اور 15 دن اپنے وطن میں رہے اس طرح سے کہ اس شہر میں شبانہ روز (دن و رات) کی شکل میں سکونت رکھتا ہو تو مندرجہ ذیل جدول میں شمارہ نمبر 2 کے مطابق مذکورہ شہر اس کا وطن شمار ہوگا قابلِ ذکر ہے کہ مندرجہ ذیل بعض مقامات میں وطن اور قیام گاہ کا صدق ہونا محل اشکال ہے اس لیے احتیاط کے تقاضے پر عمل کرنا ترک نہ كرے۔
وطن اور موقت قیام گاہ سے مربوط جدول:
شمارہ | دن میں | مہینے | سال کی تعداد | موقت وطن اور |
1 | 24 | 22۔30 | 5/1 | رکھتا ہے |
2 | 24 | 15 | 3 | رکھتا ہے |
3 | 24 | 7۔8 | 4 | رکھتا ہے |
4 | 24 | 6 | 5 سال | نہیں رکھتا |
5 | 24 | 6 | 5 سال سے | محل اشکا ل ہے |
6 | 24 | 4 | 7سال یا | نہیں رکھتا |
7 | 24 | 4 | 7 سال سے | محل اشکال ہے |
8 | 12 | 22 | 3 | رکھتا ہے |
9 | 12 | 15 | 5 | رکھتا ہے |
10 | 12 | 6 | 7 سال اور | نہیں رکھتا |
11 | 12 | 6 | 7 سال سے | محل اشکال ہے |
12 | 8 | 20 | 4 | رکھتا ہے |
13 | 6 | 22 | 4 | رکھتا ہے |
14 | 3۔4 | 30 | غیر | نہیں رکھتا |
قابلِ ذکر ہے کہ وطن کی دوسری اور تیسری قسم ( وطن اتخاذی دائم اور وطن موقت) میں فرق نہیں ہے کہ خود انسان نے مستقل طور پر انتخاب کیا ہو یا کسی دوسرے شخص کی تبعیت میں انتخاب کیا ہو ہر صورت میں اس کا وطن شمار ہوگا ، مثلاً اگر فرزند عرفاً والدین کے تابع شمار ہو اور ابھی اس جہت سے فیصلہ لینے میں مستقل نہ ہو چنانچہ اس کے والدین شہر مشہد کو وطن اتخاذی دائمی یا موقت انتخاب کریں اور وہاں پر رہنے لگیں تو شہر مشہد اس فرزند کے لیے بھی جو ان کے ساتھ مشہد میں رہ رہا ہے وطن شمار کیا جائے گا۔
مسئلہ 1603: جس شخص نے کسی جگہ کو اپنی پڑھائی یا کام کے لیے قیام گاہ قرار دیا ہے اس طرح سے کہ اس کی نماز وہاں کامل ہے اور اپنی قیام گاہ اور وطن کے درمیان كہ جن کا فاصلہ شرعی مسافت یا اس سے زیادہ ہے رفت و آمد رکھتا ہو تو پڑھائی یا کام کی قیام گاہ کی جگہ اس کی نماز کامل ہے اور وطن اور قیام گاہ کے درمیان اس کے سفر کی تعداد اگر ہر مہینے میں 10 سفر ہو اس کی نماز راستے میں بھی کامل ہے اور اگر 8 یا 9 سفر ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر راستے میں قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے اور اگر 7 سفر ہو اس کی نماز راستے میں قصر ہے اس بنا پر ایسے مقامات میں وطن موقت اور کثیر السفر دونوں کے احکام لحاظ کئے جائیں گے۔[153]
مسئلہ 1604: بعض فقہائے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم ایک دوسرے وطن "وطن شرعی" کے نام سے قائل ہیں اور کہا ہے کہ : جو شخص کسی جگہ پر اپنا ذاتی گھر رکھتا ہے اگر چھ مہینے ایک ساتھ قصد اقامت کے ساتھ رہ جائے جب تک وہ گھر اس کا ہے وہ جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے پس جب بھی سفر میں وہاں پر جائے نماز پوری پڑھے ، لیکن یہ حکم ثابت نہیں ہے (اور اس حکم کا ثابت نہ ہو نا فتویٰ کی بنیاد پر ہے۔)
مسئلہ 1605: جو شخص دو جگہ رہتا ہے مثلاً چھ مہینے ایک شہر اور چھ مہینے کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے دونوں جگہ اس کا وطن ہے بلکہ اگر دو جگہ سے زیادہ رہنے کے لیے انتخاب کیا ہو وہ سب اس کا وطن شمار ہوگا مثلاً تین شہر اگر عرفاً انسان کا وطن شمار ہو اور انسان سال کے چار مہینے جب موسم گرم ہے پہلے شہر میں رہے اور پھر چار مہینے جب موسم سرد ہے دوسرے شہر میں اور بقیہ سال تیسرے شہر میں رہتا ہو۔
مسئلہ 1606: جو مسافر سفر میں اپنے وطن سے گزرتا ہے اگر وہاں ٹھہرےتو اس کا سفر ختم ہو جائے گا اس لیے جب تک ایک نیا سفر شرعی مسافت کی حد تک کے لیے شروع نہ کرے اس کی نماز کامل ہے لیکن وطن سے بغیر ٹھہرے ہوئے گزرنا سفر کو ختم کرتا ہے یا نہیں محل اشکال ہے۔
اس بنا پر اگر انسان وطن سے گزرنے کے بعد شرعی مسافت کی مقدار طے کرنے کا قصد رکھتا ہو گرچہ واپسی کے راستے کو ملا کر ہو اس کی نماز قصر ہے ورنہ احتیاط لازم ہے کہ بقیہ راستے میں قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے۔ مثال کے طور پر ایک شخص قصد رکھتا ہو اپنے وطن مشہد سے ایسی جگہ جو آٹھ فرسخ کی دوری پر ہے جائے اوروہاں پر دس دن رہنے کا قصد کرے راستے میں دو فرسخ طے کرنے کے بعد اپنے دوسرے وطن پہونچ جائے لیکن وہاں سے بغیر ٹھہرے ہوئے عبور کرے اس صورت میں اگر دوسرے وطن سے خارج ہونے کے بعد بقیہ چھ فرسخ بچے ہوئے راستے میں مقصد پر پہونچنے سے پہلے نماز پڑھے تو احتیاط لازم ہے کہ قصر اور تمام دونوں نماز پڑھے۔
مسئلہ 1607: وہ مسافر جو سفر کے دوران اپنے وطن پہونچے اور وہاں پر ٹھہرے جب تک وہاں پر ہے لازم ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر وہاں سے آٹھ فرسخ جانا چاہتا ہو یا مثلاً چار فرسخ جائے اور چار فرسخ واپس آئے تو حد ترخص پر پہونچنے کے بعد لازم ہے کہ نمازِ قصر پڑھے۔
[153] قابلِ ذکر ہے کہ اگر قیام گاہ جانے اور وطن واپس آنے کا فاصلہ 2 یا 3 دن ہو تو رفت و آمد عرفاً ایک سفرشمار کیاجائے گا اور اگر 5 دن ہو تو رفت و آمد عرفاً دو سفر شمار کیا جائےگا اور اگر چار دن ہو تو اس مقام میں احتیاط کے تقاضے کو ترک نہ کریں مثال کے طور پر کوئی اسٹوڈینٹ یا ٹیچر چار سال کے لیے کسی شہر کو اپنے کام یا پڑھائی کی قیام گاہ بنانا چاہتا ہے اس طرح سے کہ ہر مہینے میں 8 دفعہ صبح وہاں جاتا ہے اور شام میں واپس آجاتا ہے اور مہینے میں ایک دفعہ 5 دن قیام گاہ پر رکتا ہے اس طرح سے کہ اس کے رفت و آمد کا فاصلہ 5 دن ہے کہ یہ خود عرفاً دو سفر کے برابر شمار ہوگا اس بنا پر اس کے سفر کی تعداد مجموعی طور پر 10 سفر ہو جائے گی کہ نتیجتاً اس کی نماز راستے میں کامل ہے اور قیام گاہ میں بھی کامل ہے۔