مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

صحیح شکوک ← → شکیاتِ نماز

وہ شکوک جن کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے

مسئلہ 1426: وہ شکوک کہ جن کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے مندرجہ ذیل ہیں:

اول: اس جز میں شک جس کے بجالانے کا محل گزر گیا ہو مثلاً رکوع میں شک کرے کہ سورہٴ حمد پڑھا ہے یا نہیں۔

دوم: نماز کے سلام کے بعد شک۔

سوم: نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک۔

چہارم: کثیرالشک کا شک یعنی جو شخص زیادہ شک کرتا ہے۔

پنجم: امام کا نماز کی رکعتوں کے بارے میں شک کرنا جب کہ ماموم ان کی تعداد کو جانتا ہو اور اسی طرح ماموم کا شک جب کہ امام نماز کی رکعتوں کی تعداد جانتا ہو۔

ششم: مستحبی نماز اور نماز احتیاط میں شک۔

1
۔ اس جز میں شک جس کا محل گزر گیا ہے

مسئلہ 1427:اگر نماز کے درمیان شک کرے کہ اس نے کسی ایک واجب عمل کو انجام دیا یا نہیں مثلاً شک کرے کہ سورہٴ حمد پڑھا یا نہیں چنانچہ ایسے کام میں مشغول ہو کہ اس عمل اور اس سے پہلے والے عمل میں شرعی ترتیب ہو (اس طرح سے کہ اگر اس پہلے والے عمل كو عمداً ترک کیا ہو شرعاً اس عمل میں مشغول نہیں ہونا چاہیے) تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے (یہ شک محل گزرنے کے بعد کا شک ہے) مثلاً اگر نماز گزار سورہ پڑھتے وقت شک کرے کہ حمد پڑھا ہے یا نہیں اس صورت میں اپنے شک کی پرواہ نہیں کرے اور اس حکم کے بارے میں فرق نہیں ہے کہ بعد والا عمل واجب جز یا مستحب یا مقدمہ ہو۔

لیکن اگر نماز گزار بعد کے عمل میں وارد نہیں ہوا ہے (اصطلاحاً یعنی محل میں ہے) لازم ہے وہ جز جس میں شک کیا ہے بجالائے مثلاً اگر شک کرے کہ حمد کو پڑھا ہے یا نہیں تو اگر ابھی سورہ پڑھنے میں مشغول نہیں ہوا ہے تو سورہ کو پڑھے۔

اس طرح اگر بعد کے عمل میں وارد ہو گیا ہے لیکن بعد کے عمل میں اور پہلے والے مشکوک جز میں شرعی ترتیب نہ ہو لازم ہے جس چیز کے بجالانے میں شک کیا ہے اسے بجالائے مثلاً اگر سجدے میں ذکرِ صلوات پڑھنے میں مشغول ہو اور شک کرے کہ سجدے کا واجب ذکر پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ کرے اور سجدے کے واجب ذکر کو پڑھے کیونکہ سجدے میں مستحب ہے ذکرِ سجدہ سے پہلے یا بعد میں صلوات پڑھے اور ذکرِ سجدہ اور صلوات کے درمیان شرعی ترتیب نہیں ہے جو کچھ اس مسئلہ میں ذکر کیا گیا تمام نماز میں جاری ہوگا واجب اور مستحب ادا اور قضا ، نماز یومیہ اور نماز آیات وغیرہ سب کو شامل کرے گا۔

مسئلہ 1428: جو شخص تکبیرۃ الاحرام کہنے میں شک کرے جب کہ "أعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّیطانِ الرَّجیمِ" کہنے یا قرائت نماز میں مشغول ہو گیا ہوتو لازم ہے کہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1429: اگر حمد اور سورہ پڑھتے وقت کسی آیت کے پڑھنے کے دوران شک کرے کہ پہلے والی آیت پڑھی ہے یا نہیں یا آیت کا آخری حصہ پڑھتے وقت شک کرے کہ شروع کا حصہ پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1430: اگر نمازگزار رکوع کی طرف جاتے وقت شک کرے کہ حمد اور سورہ یا صرف سورہ پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے، اور اسی طرح اگر دوسری رکعت میں قنوت پڑھتے وقت شک کرے کہ حمد اور سورہ یا سورہ کو پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1431: اگر رکوع یا سجدے کے بعد شک کرے کہ واجب اعمال جیسے ذکر اور بدن کا ساکن ہونا انجام دیا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1432: اگر نماز گزار سجدے کی طرف جاتے وقت شک کرے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اسی طرح اگر سجدے کی طرف جاتے وقت شک کرے کہ رکوع کے بعد کھڑا ہوا یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1433: اگر نمازگزار شک کرے کہ ایک سجدہ بجالایا ہے یا دو سجدہ تو اگر اپنے محل میں ہے اور بعد کے عمل میں وارد نہیں ہوا ہے تو ایک سجدہ اور انجام دے، لیکن اگر بعد کے عمل میں وارد ہونے کے بعد شک ہو اور بعد کے عمل اور پہلے کے مشکوک جز میں شرعی ترتیب ہو مثلاً تشہد پڑھنے میں مشغول ہو گیا ہو یا بعد کی رکعت کے لیے کھڑا ہو رہا ہو تو اس صورت میں اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اور نماز کو جاری رکھے۔

مسئلہ 1434: اگر کھڑے ہوتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشہد کو بجالایا یا نہیں تو اپنےشک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1435: اگر نمازگزار تشہد کی صلوات پڑھتے وقت تشہد کے شہادتین پڑھنے یا نہ پڑھنے میں شک کرے تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اور اسی طرح جب سلام پڑھنے میں مشغول ہو تشہد یا اس کے کچھ حصے کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں شک کرےتو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1436: اگر نمازگزار شک کرے كہ نماز کا سلام پڑھاہے یا نہیں چنانچہ تعقیب نماز یا کسی دوسری نماز میں مشغول ہو گیا ہو اور ایسا عمل جو نماز کے ساتھ سازگاری نہ رکھتا ہو انجام دیا ہو تو شک کی پرواہ نہ کرے اور اگر ان چیزوں سے پہلے شک کرے تو لازم ہے کہ سلام پڑھے اور اگر سلام تمام ہونے کے بعد شک کرے کہ سلام صحیح پڑھا ہے یا نہیںتو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے گرچہ کسی دوسرے عمل میں مشغول نہ ہو اہو۔

مسئلہ 1437: اگر نماز گزار نماز کے درمیان نماز کی نیت میں شک کرے چنانچہ جانتا ہو کہ ابھی نماز کی نیت رکھتا ہے اور اس کا شک گذشتہ اجزا کے بارے میں ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اور اپنی نماز کو جاری رکھے مثال کے طور پر جو شخص نماز صبح کی نیت میں شک کرے جب کہ وہ رکوع میں ہو اور جانتا ہو کہ رکوع کو نماز صبح کی نیت سے انجام دیا ہے تو اس صورت میں اگر اپنی نماز کو جاری رکھے نماز صحیح ہے۔

مسئلہ 1438: جو شخص بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھتا ہے اگر حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشہد بجالایا یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اور اگر حمد یا تسبیحات پڑھنے سے پہلے شک کرے کہ سجدہ یا تشہد بجالایا ہے یا نہیں تو لازم ہے کہ بجالائے۔

مسئلہ 1439: اگر نماز گزار شک کرے کہ ارکان نماز میں سے کوئی ایک ركن بجالایا ہے یا نہیں چنانچہ بعد کے عمل میں مشغول نہ ہوا ہو تو بجالائے مثلاً تشہد پڑھنے سے پہلے شک کرے کہ دو سجدہ بجالایا ہے یا نہیں تو اسے بجالائے، چنانچہ بعد میں یاد آئے کہ اس رکن کو بجالایا تھا کیونکہ رکن زیادہ ہو گیا اس کی نماز، احتیاط لازم کی بنا پر باطل ہے۔

مسئلہ 1440: اگر شک کرے کہ ایسا عمل جو رکن نہیں ہے بجالایا ہے یا نہیں چنانچہ اس کام میں مشغول نہ ہوا ہو جو اس کے بعد ہے تو لازم ہے کہ بجالائے مثلاً اگر سورہ پڑھنے سے پہلے شک کرے کہ حمد پڑھا یا نہیں تو حمد پڑھے اور اگر حمد پڑھنے کے بعد یاد آئے کہ حمد پڑھ چکا تھا کیونکہ رکن زیادہ نہیں ہوا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔

مسئلہ 1441: اگر انسان شک کرے کہ کسی رکن کو بجالایا ہے یا نہیں مثلاً تشہد پڑھنے میں مشغول ہو اور شک کرے کہ دوسجدے کو بجالایا ہے یا نہیں تو لازم ہے کہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے، چنانچہ بعد میں یاد آئے کہ اس رکن کو بجا نہیں لایا تھا، اور بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو اس کی نماز، احتیاط لازم کی بنا پر باطل ہے مثال کے طور پر بعد کی رکعت کے رکوع سے پہلے یاد آئے کہ دونوں سجدے نہیںبجا لایا ہے تو لازم ہے کہ دونوں سجدے کو بجالائے اور اگر رکوع یا اس کے بعد یا د آئے تو اس کی نماز جیسا کہ ذکر کیا گیا باطل ہے۔

مسئلہ 1442: اگر نماز گزار شک کرے کہ وہ عمل جو رکن نہیں ہے بجالایا ہے یا نہیں چنانچہ ایسے عمل میں جو اس کے بعد ہے مشغول ہو گیا ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے مثلاً جس وقت سورہ پڑھنے میں مشغول ہو شک کرے کہ حمد پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اور اگر بعد میں یاد آئے اس کو بجانہیں لایا ہے اگر بعد کے رکن میں مشغول نہ ہوا ہو لازم ہے کہ اسے اور اس کے بعد کے عمل کو بجالائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو اس کی نماز صحیح ہے اس بنا پر اگر نماز گزار كوواجب نماز کے قنوت میں یہ یاد آئے کہ حمد نہیں پڑھا تو لازم ہے کہ حمد اور سورہ پڑھے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔


2
۔ سلام کے بعد شک

مسئلہ 1443: اگر نمازگزار نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ نماز کو صحیح طور پر بجالایا ہے یا نہیں خواہ اس کا شک نماز کی رکعتوں کے بارے میں ہو یا نماز کے شرائط کے بارے میں جیسے قبلہ اور طہارت یا نماز کے اجزا کے بارے میں ہو جیسے رکوع اور سجودتو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے، اس بنا پر اگر نماز گزار نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں یا شک کرے کہ قبلہ رُخ نماز پڑھی ہے یا نہیں اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

اسی طرح اگر نمازگزار نماز مغرب کے سلام کے بعد شک کرے کہ تین رکعت نماز پڑھی ہے یا چار رکعت یا چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ چار رکعت پڑھی ہے یا پانچ رکعت تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

لیکن اگر نماز گزار جانتا ہو کہ اس کی نماز کامل نہیں ہے اور اس کا شک ان شکوک میں سے ہو کہ اگر نماز کے درمیان پیش آتا تو نماز کو باطل کردیتا مثلاً چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ تین رکعت پڑھی ہے یا پانچ رکعت اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر سلام کے بعد کوئی ایسا شک پیش آئے کہ اگر نماز میں پیش آتا تو صحیح شک میں سے شمار کیا جاتا؛ مثلاً چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا تین رکعت اس صورت میں اگر نماز کی حالت سے اگر خارج نہیں ہوا ہے یا ایسا کام جو جان بوجھ کر یا بھول كر انجام دینا نماز کو باطل کرتا ہو انجام نہ دیا ہو تو نماز کے درمیان کا حکم رکھتا ہے پس تین پر بنا رکھ کر ایک رکعت اور بجالاسکتا ہے اور پھر نماز احتیاط پڑھے اور بے جا سلام کے لیے احتیاط واجب کی بنا پر سجدہٴ سہو بجالائے۔


3
۔ وقت کے بعد شک

مسئلہ 1444: نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ نماز پڑھی ہےیا نہیں یا گمان کرے کہ نہیں پڑھی ہے تو اس کا پڑھنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر وقت گزرنے سے پہلے شک کرے کہ نماز پڑھی یا نہیں گرچہ گمان کرے کہ پڑھی ہے تو لازم ہے کہ پڑھے۔

مسئلہ 1445: اگر وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ نماز صبح پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1446: اگر وہ شخص جس نے نماز عصر نہیں پڑھی ہے نماز عصر سے مخصوص وقت میں شک کرے کہ نماز ظہر پڑھی ہے یانہیں تو لازم ہے کہ نماز عصر پڑھے اور نماز ظہر کی قضا بجالانا لازم نہیں ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص نماز عصر سے مخصوص وقت میں شک کرے کہ نماز ظہر اور عصر پڑھی ہے یا نہیں تو لازم ہے کہ نماز عصر پڑھے اور احتیاط واجب کی بنا پر نماز ظہر کی قضا بھی انجام دے اور یہ حکم جو اس مسئلہ میں ذکر ہوا مغرب اور عشا کی نماز کے بارے میں بھی یہی ہے۔

مسئلہ 1447: اگر ظہر اور عصر کی نماز کا وقت گزرنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ چار رکعت نماز پڑھی ہے لیکن نہ جانتا ہو کہ ظہر کی نیت سے پڑھی ہے یا عصر کی نیت سے تو چار رکعت قضا نماز "ما فی الذمۃ" یعنی اس نیت سے جو اس پر واجب ہے بجا لائے۔

مسئلہ 1448: اگر مغرب اور عشا کا وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو کہ صرف ایک نماز پڑھی ہے لیکن نہ جانتا ہو کہ تین رکعتی پڑھی ہے یا چار رکعتی تو مغرب اور عشا دونوں نماز کی قضا بجالائے۔


4
۔ کثیر الشک (جو شخص زیادہ شک کرتا ہے)

مسئلہ 1449:کثیر الشک وہ شخص ہے جو زیادہ شک کرتا ہے یعنی جب اس کی حالت کو ان افراد کی حالت سے جو ذہن کے پراکندہ کرنے کے اسباب کے ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اس کی طرح ہیں مقایسہ (تقابل) کیا جائے تو وہ شخص معمول سے زیادہ شک کرتا ہو کثیر الشک ہونے کے تشخیص کا معیار عرف ہے اور کثیر الشک ہونا ایسے شخص سے جس کی عادت زیادہ شک کرنا ہے مخصوص نہیں ہے؛ بلکہ کافی ہے کہ انسان زیادہ شک کرنے کی عادت میں مبتلا ہونے کے نزدیک ہو کثیر الشک کا ایک نمونہ مثال کے طور پر ذکر کرتے ہیں:

اگر انسان عام حالت میں تین نماز جو پے در پے ہو اس میں کسی ایک میں شک کرتا ہے اور یہ حالت دو مرتبہ اور تکرار ہو تو چوتھے شک میں اور اس کے بعد عرفاً کثیر الشک کا عنوان اس شخص پر صدق كرتا ہے اسے چاہیے کہ کثیر الشک کے احکام پر عمل کرے مثال کے طور پر اگر انسان تین نماز صبح، ظہر اور عصر میں صرف نماز صبح میں شک کرے اور اس کے بعد یعنی مغرب اور عشا اور بعد والے دن کی نماز صبح میں سے نماز مغرب میں شک کرے اور دوسرے دن کی تین نماز ظہر، عصر اور مغرب میں سے نماز ظہر میں شک کرے تو وہ کثیر الشک شمار ہوگا اس بنا پر وہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

قابلِ ذکر ہے جو شخص ایک نماز میں تین دفعہ شک کرے یا تین نماز میں پے در پے ہر نماز میں ایک دفعہ شک کرے تو یہ کثیر الشک ہونے کے لیے کافی نہیں ہے؛ مگر یہ کہ یہ چیز اتنا طول پیدا کرے اور شک کی تکرار اتنی ہو کہ عرف اسے کثیر الشک شمار کرے۔

اس مسئلہ پر بھی توجہ رہے کہ وضو، غسل اور تیمم کی بحث میں کثیر الشک نماز کی طرح ہے؛ اس بنا پرا گر انسان عام حالت میں تین وضو نہ کرتا ہو مگر یہ کہ اس میں سے ایک میں شک کرتا ہومثلاً سر کے مسح میں شک کرتا ہو کہ اسے انجام دیا یا نہیں اور یہ حالت دو مرتبہ اور تکرار ہو تو چوتھی مرتبہ اور اس کے بعد کے شک میں کثیر الشک کا عنوان اس پر صدق كرے گا اور وضو میں کثیرالشک کے احکام پر عمل کرے گا، یعنی اپنے شک کی پرواہ نہ کرے اور یہ سمجھے کہ سر کے مسح کو انجام دیا ہے، لیکن اگر بعد میں معلوم ہو کہ سر کے مسح کو انجام نہیں دیا تھا تو اس کا وضو باطل تھا اور واجب نماز جو اس وضو سے پڑھی ہے اگر وقت ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا بجالائے۔

مسئلہ 1450: کثیرالشک اگر نماز کے کسی جز کے بجالانے میں شک کرے تو لازم ہے کہ اسے بجالانے كی بنا ركھے مثلاً شک کرے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں تو بنا رکھے کہ رکوع کیا ہے، گرچہ محل میں ہو اور اگر ایسی چیز کے بجالانے میں شک کرے جو نماز کو باطل کرتی ہے مثلاً شک کرے کہ نماز صبح دو رکعت پڑھی ہے یا تین رکعت تو دو رکعت پر بنا رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے گرچہ ابھی نماز کا سلام نہ پڑھا ہو۔

مسئلہ 1451: جو شخص نماز کے کسی ایک مقام میں زیادہ شک کرتا ہو اس طرح سے کہ شک کی زیادتی صرف اس مقام میں شمار کی جائے تو صرف اسی مقام میں کثیرالشک کے احکام اس کے لیے جاری ہوں گے اور دوسرے مقامات میں کثیرالشک شمار نہیں ہوگا ، اس بنا پر چنانچہ نماز کے دوسرے مقامات میں شک کرے تو اس کے دستور کے مطابق عمل کرے گا مثلاً جو شخص زیادہ شک کرتا ہو کہ سجدہ کیا ہے یا نہیں اگر رکوع کے بجالانے میں شک کرے تو اس کے دستور کے مطابق عمل کرے یعنی اگر محل میں ہے مثلاً کھڑا ہو اور ابھی سجدے میں نہ گیا ہو، رکوع کو بجالائے اور اگر محل گزر گیا ہو مثلاً سجدے میں چلا گیا ہو تو اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1452: جو شخص ہمیشہ مخصوص نماز میں مثلاً نماز ظہر میں زیادہ شک کرتا ہو اس طرح سے کہ شک کی زیادتی صرف اس نماز سے مخصوص شمار کی جائے تو صرف اسی نماز میں اس کے لیے کثیرالشک کےاحکام جاری ہوں گے اور دوسری نماز وں میں کثیرالشک شمار نہیں ہوگا اس بنا پر اگر دوسری نماز مثلاً نماز عصر میں شک کرے تو شک کے دستور پر عمل کرے گا۔

مسئلہ 1453: جو شخص صرف کسی مخصوص جگہ نماز پڑھتا ہے تو زیادہ شک کرتا ہے اور اسی طرح جیسا کہ اس سے پہلےوالے مسئلہ میں بیان ہوا اگر اس جگہ کے علاوہ نماز پڑھے اور کوئی شک اس کے لیے پیش آئے تو شک کے دستور کے مطابق عمل کرے گا۔

مسئلہ 1454: جو شخص کثیرالشک کے معنی جانتا ہے اگر شک کرے کہ کثیرالشک ہو اہے یا نہیں تو کثیرالشک شمار نہیں ہوگا اور لازم ہے کہ شک کے دستور پر عمل کرے اور جو شخص کثیرالشک ہے جب تک یقین یا اطمینان نہ کرے کہ لوگوں کی طرح معمولی حالت پر واپس آگیا ہےیا نہیں تو لازم ہے کہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

مسئلہ 1455: کثیر الشک پر واجب نہیں ہے نماز کی رکعتوں کی تعداد یا اس کے اعمال یا د رکھنے کے لیے مخصوص سجدہ گاہ(جو نماز کی رکعتوں کی تعداد یا سجدوں کی تعداد کو تباتی ہے یا تسبیح، انگوٹھی یا کوئی اور چیز جس سے نماز گزار کی رکعتوں کی تعداد یا اس کے اعمال کو یاد رکھ سکے) کا استعمال کرے گرچہ ایسا کرنا احتیاط مستحب ہے۔

مسئلہ 1456: جو شخص زیادہ شک کرتا ہے اگر شک کرے کسی رکن کو بجالایا ہے یا نہیں اور پرواہ نہ کرے پھر بعد میں یاد آئے کہ بجا نہیں لایا تھا چنانچہ بعد کے رکن میں مشغول نہ ہوا ہو تو لازم ہے کہ اس رکن کو اور جو کچھ اس کے بعد ہے بجالائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو تو اس کی نماز احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہے مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں اور شک کی پرواہ نہ کرے چنانچہ دوسرے سجدے سے پہلے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو لازم ہے کہ واپس پلٹے اور رکوع کرے اور اگر دوسرے سجدے میں یاد آئے تو اس کی نماز احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہے۔

مسئلہ 1457: جو شخص زیادہ شک کرتا ہے اگر شک کرے جو چیز رکن نہیں ہے اسے بجالایا ہے یا نہیں اور اپنے شک کی پرواہ نہ کرے پھر بعد میں یاد آئے کہ بجا نہیں لایا تھا چنانچہ اس کے بجالانے کے محل سے نہ گزرا ہو تو لازم ہے کہ اسے اور جو چیزیں اس کے بعد ہے بجالائے اور اگر اس کے محل سے گزر گیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے مثلاًواجب نماز میں شک کرے کہ حمد پڑھی ہے یا نہیں اور شک کی پرواہ نہ کرے چنانچہ قنوت میں اسے یاد آئے کہ حمد نہیں پڑھی تو لازم ہے کہ حمد اور سورہ پڑھے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے اسے جاری رکھے۔


5
۔ امام اور ماموم کا شک

مسئلہ 1458: اگر امام جماعت نماز کی رکعتوں کی تعداد میں شک کرے مثلاً شک کرے کہ تین رکعت پڑھی ہے یا چار رکعت چنانچہ ماموم یقین یا گمان رکھتا ہو کہ چار رکعت پڑھی ہے امام کو متوجہ کرے کہ چار رکعت پڑھی ہے تو امام کو چاہیے کہ نماز تمام کرے اور نماز احتیاط پڑھنا ضروری نہیں ہے اور اگر امام یقین یا گمان رکھتا ہو کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور ماموم رکعت کی تعداد کے بارے میں شک کرے پھر بھی اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔

اسی طرح یہی حكم ہے اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کا شک افعال نماز کے بارے میں ہو مثلاً سجدے کی عدد میں شک کریں اس بنا پر وہ ماموم جسے معلوم ہے کہ نماز کے افعال میں امام جماعت کی پیروی کر رہا تھا اور مخالفت نہیں کی ہے اگر شک کرے کہ ایک سجدہ انجام دیا ہے یا دو سجدہ تو اگر امام جماعت دوسجدے کایقین یا اطمینان رکھتا ہو تو ماموم اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔


6
۔ مستحبی نماز میں شک

مسئلہ 1459: ان شکوک میں سے جن کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے مستحب نماز کی رکعتوں کے بارے میں شک ہے جن کی تفصیل مستحبی نماز کی فصل مسئلہ نمبر 1863 میں بیان کی جائے گی۔
صحیح شکوک ← → شکیاتِ نماز
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français