مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

سلام کرنے اور جواب سلام کے احکام ← → نماز کے مکروہات

مبطلات نماز

مسئلہ 1342: بارہ چیزیں نماز کو باطل کرتی ہیں اور انھیں مبطلات کہتے ہیں:

مبطل اول:نماز کی کسی ایک شرط کا ختم ہو جانا

مسئلہ 1343: اگر نماز کے دوران اس کی کوئی ایک شرط فاقد ہو جائے[134] تو نماز باطل ہو جائے گی اس کے مسائل تفصیلی طور پر مقدمات نماز میں ذکر کئے جا چکے ہیں اور یہاں پر نمونہ کے طور پر چند مثالیں ذکر کریں گے:

مثال 1۔ اگر نماز کے دوران (وسیع وقت میں) نماز گزار کا لباس نجس ہو جائے اور لباس کا پاک کرنا یا اتارنا نماز کے موالات یا نماز کی شکل ختم ہوئے بغیر ممکن نہ ہو تو نماز باطل ہو جائےگی۔

مثال2۔ اگر نماز کے دوران (وسیع وقت میں) متوجہ ہو کہ اس کی جگہ غصبی ہے اور نماز کے دوران وہاں سے خارج ہونا۔ نماز کے موالات یا نماز کی شکل خراب ہوئے بغیر ممکن نہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل ہو جائے گی۔

ان مقامات میں کیونکہ نماز کے بقیہ واجبات اور اجزائے نماز کو شرائط کے ساتھ جیسا کہ مقدمات میں ذکر کیا گیا بجا نہیں لاسکتا اس لیے نماز باطل ہے۔



مبطل دوم: وضو یا غسل کا باطل ہونا

مسئلہ 1344: اگر نماز کے دوران جان بوجھ کر یا بھول كر یا ناچاری کی بنیاد پر ایسا عمل جو وضو یا غسل کو باطل کرتا ہے پیش آئے مثلاً پیشاب نکل آئے، یا ریاح خارج ہو جائے ، یا نیند آجائے ، اس کی نماز باطل ہو جائے گی گرچہ نماز کے درمیان موالات کے ٹوٹنے اور نماز کی شکل ختم ہونے سے پہلے وضو کر سکتا ہو اور تمام واجبات نماز کو طہارت کے ساتھ بجالاسکتا ہو۔

البتہ یہ حکم ایک صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر ہے، وہ اس صورت میں جب وضویا غسل نماز کے آخری سجدے کے تمام ہونے کے بعد بھولے یا ناچاری سے باطل ہو جائے ، اور جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے باہر آنے سے خود کو روک نہ سکتا ہو اگر نماز کے درمیان پیشاب یا پاخانہ اس سے خارج ہو جائے چنانچہ اس دستور کے مطابق جو وضو کے احکام میں بیان کئے گئے عمل کرے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی، اور اِسی طرح اگر نماز کے درمیان مستحاضہ عورت سے خون خارج ہو چنانچہ استحاضہ کے دستور پر عمل کیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔

مسئلہ 1345: جس شخص کو بے اختیار نیند آگئی ہو اگر معلوم نہ ہو کہ نماز کے درمیان نیند آئی یا نماز کے بعد تو نماز دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ جانتا ہو کہ جس مقدار میں نماز بجالایا ہے اتنی مقدار میں تھا کہ جسے عرفاً نماز کہا جائے مثلاً انسان کو یاد ہو کہ نیت تکبیرۃ الاحرام ، قیام، رکوع اور ایک سجدہ کو نماز میں بیداری كی حالت میں بجا لایا ہے۔

مسئلہ 1346: اگر جانتا ہو کہ اپنے اختیار سے سویا ہے اور شک کرے کہ نماز کے بعد سویا تھا یا نماز کے درمیان بھول گیا ہو کہ نماز میں مشغول ہے اور سو گیا تھا اس کی نماز اس شرط کے ساتھ جو اس سے قبل مسئلے میں بیان کی گئی صحیح ہے۔

مسئلہ 1347: اگر سجدے کی حالت میں نیند سے بیدار ہو اور شک کرے کہ نماز کے آخری سجدے میں ہے یا سجدہٴ شکر میں خواہ جانتا ہو اپنے اختیار سے سویا ہے یا بے اختیار سو گیا تھا اس کی نماز صحیح شمار ہوگی اور دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔

مبطل سوم: عمداً ہاتھوں کو خضوع اور ادب کی نیت سے باندھنا

مسئلہ 1348: اگر نمازگزار ہاتھوں کو خضوع اور ادب کی نیت سے باندھے خواہ یہ کام نماز کے جز کی نیت سے انجام دے اور خواہ اس قصد کے بغیر تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہو جائے گی اورا گر کوئی اس کام کو اس قصد سے کہ یہ کام جزو ِدین (و شریعت) ہے انجام دے حرام کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس عمل کا انجام دینا اس طرح کے قصد کے بغیر بھی احتیاط واجب کی بنا پر جائز نہیں ہے۔

مسئلہ 1349: اگر فراموشی ، مجبوری، تقیہ یا کسی اور کام کی وجہ سے خضوع اور ادب کے علاوہ جیسے ہاتھ کے کھجلانے وغیرہ کے لیے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھے تو حرج نہیں ہے۔



مبطل چہارم: سورہٴ حمد کے بعد جان بوجھ کر آمین کہنا

مسئلہ 1350: اگر ماموم نماز جماعت میں تقیہ کے علاوہ جان بوجھ کر حمد کے بعد "آمین" کہے اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور غیر ماموم کے لیے "آمین" کہنے سے نماز کا باطل ہونا احتیاط واجب کی بنا پر ہے، گرچہ اس عمل کو دین میں وارد کرنے کے قصد سے انجام دے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اگر بھول كر یا تقیہ کے طور پر آمین کہے تو حرج نہیں ہے۔



مبطل پنجم: بغیر کسی عذر کے قبلہ سے منھ پھیرلینا

مسئلہ 1351: اگر نماز گزار بغیر کسی عذر کے قبلہ سے اپنا منھ پھیر لے اس طرح سے کہ اپنے وظیفہ کو قبلہ رُخ ہونے كی رعایت نہ کرے، مثلاً اس طرح سے کھڑا ہو کہ عرفاً نہ کہیں کہ قبلہ رُخ کھڑا ہے اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور فرق نہیں ہےکہ یہ جان بوجھ کر قبلہ سے منھ پھیرنا ذکر اور قرائت کے وقت ہو یا نہ ہو اور یہ بھی فرق نہیں رکھتا کہ قبلہ سے منحرف ہونا 90 درجہ تک پہونچ جائے یا نہ پہونچے، اس بنا پر اگر مثلاً حمد پڑھنے کے بعد اور سورہ پڑھنے سے پہلے مذکورہ طریقے سے قبلہ سے منحرف ہو جائے لیکن فوراً پلٹ جائے اور قبلہ رُخ ہو کر بقیہ نماز جاری رکھنا چاہے تو پھر بھی اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ 1352: اگر نماز گزار کا بدن قبلہ سے پھر جائے لیکن یہ انحراف کسی عذر کی وجہ سے ہو مثلاً بھول جانے کی وجہ سے یا ایسی چیز کی وجہ سے جو اسے بے اختیار قبلہ سے منحرف کر دے جیسے تیز ہوا تو دو صورت ہے:

الف: نمازگزار کا قبلہ سے منحرف ہونا دائیں یا بائیں طرف نہ پہونچے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن لازم ہے کہ جب اس کا عذر نماز کے دوران برطرف ہو جائے تو فوراً قبلہ کی طرف پلٹ جائے۔

ب: نماز گزار کا قبلہ سے انحراف دائیں یا بائیں طرف پہونچ جائے یا پشت بہ قبلہ ہو جائے چنانچہ اس کا عذر نماز کے درمیان برطرف ہو جائے اس طریقے سے کہ نماز کو اگرچہ ایک رکعت وقت میں دوبارہ پڑھ سکے مثلاً جب قبلہ کو تشخیص دینے میں غلطی کی ہو اور 90درجہ یا اس سے زیادہ انحراف کے ساتھ نماز پڑھی ہو اور وقت ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے کہ جس میں كم از كم ایک رکعت نماز کو وقت میں پڑھ سکتا ہو متوجہ ہو جائے۔

اور اگر اس مقدار میں بھی وقت نہ ہو یا وقت کے بعد اس کا عذر برطرف ہو تو وہ نماز جو اس حالت میں پڑھی ہے صحیح ہے۔

مسئلہ 1353: اگر نماز گزار فقط اپنے چہرے کو قبلہ سے پھیرلے لیکن بدن قبلہ کی طرف ہو چنانچہ گردن کو اس حد تک دائیں یا بائیں طرف موڑلے کہ اپنے پیچھے کا کچھ حصہ دیکھ سکے اس کا حکم وہی بدن کا قبلہ سے منحرف ہوجانے کا حکم ہے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اور اگر اس حد تک انحراف پیدا نہ کرے لیکن عرفاً زیادہ ہو احتیاط واجب کی بنا پر نماز کو دوبارہ پڑھے لیکن اگر مختصر گردن کو موڑلے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی گرچہ یہ کام مکروہ ہے۔



مبطل ششم: جان بوجھ کر کلام کرنا

مسئلہ 1354: اگر نماز گزار جان بوجھ کر نماز میں کلام کرے تو دو صورت ہے:

پہلی صورت: دو حرف یا زیادہ ہو: اس صورت میں گرچہ احتیاط واجب کی بنا پر بے معنی حرف ہو اس کی نماز باطل ہے۔

دوسری صورت: ایک حرف ہو: اس صورت میں بھی دو مقام میں نماز باطل ہے:

الف: وہ حرف لغت وغیرہ میں معنی رکھتا ہو مثل "قِ" کہ عربی زبان میں "حفاظت کر" کے معنی میں ہے۔

ب: وہ حرف بے معنی ہو لیکن کسی معنی کے لیے استعمال کیا جائے مثلاً کوئی نماز گزار سے "الف با" کے دوسرے حرف کے بارے میں سوال کرے اور وہ جواب میں صرف "ب" کہے لیکن اگر وہ ایک حرف کوئی معنی نہ رکھتا ہو تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔

مسئلہ 1355: اگر بھول كر ایسا کلمہ کہے جو ایک حرف یا اس سے زیادہ رکھتا ہو گرچہ وہ کلمہ معنی دار ہو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی لیکن احتیاط لازم کی بنا پر نماز کے بعد سجدہٴ سہو بجالائے جس کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

مسئلہ 1356: کھانسنا، ڈکار لینا نماز میں حرج نہیں رکھتا اور احتیاط لازم یہ ہے کہ نماز میں اپنے اختیار سے "آہ" نہ کھینچے، گر یہ نہ کرے لیکن کلمہ "آخ" اور "آہ" اور اس طرح کا کلمہ اگرجان بوجھ کر کہے تو نماز باطل ہو جائے گی۔

مسئلہ 1357: اگر "اَلله اکبر" یا "سُبحان الله" جیسے کلمے کو ذکر اور قربت کی نیت سے کہے اور کہتے وقت آواز کو بلند کرے اس قصد سے کہ کسی چیز کو دوسرے کو سمجھائے، حرج نہیں ہے[135] اور اسی طرح اگر کسی کلمہ کو ذکر اور قربت کی نیت سے معمول کے مطابق کہے گرچہ جانتا ہو کہ یہ کام سبب بنے گا کوئی کسی بات کی طرف متوجہ ہوگا تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1358: اگر " اَلله اکبر " یا " سُبحان الله " جیسے کلمے کو اس قصد سے کہ کسی کو کوئی چیز سمجھائے ذکر کی نیت سے کہے اور اصل ذکر کہنے میں اس کا مقصد دوسرے کو متوجہ کرنا ہو پھر بھی اس کی نماز صحیح ہے قابلِ ذکر ہے کہ یہ مطلب مطلقِ ذكر کے بارے میں ہے لیکن نماز کے واجب یا مستحب ذکر میں اگر اس کا مقصد دوسرے کو خبر دینا ہو لازم ہے کہ اس خبر دینے میں قصد قربت رکھتا ہو اور قصد قربت کے بغیر واجب یا مستحب ذکر انجام نہیں پائے گا۔

مسئلہ 1359: اگر نماز گزار " اَلله اکبر " یا " سُبحان الله " جیسی عبارت دوسرے کو کسی مطلب سمجھانے کے قصد سے کہے اور بالکل ذکر کا قصد نہ کرے اس طریقے سے کہ لفظ کو اصل معنی کے علاوہ دوسرے معنی میں استعمال کرے یا دونوں چیز کا قصد کرے اس طرح سے کہ کلمہ کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہو اس کی نماز باطل ہو جائے گی، مگر یہ کہ جاہل قاصر ہو اور تکبیرۃ الاحرام کے علاوہ ہو ۔[136] { FR 3884 }

مسئلہ 1360: چار واجب سجدے کے علاوہ قرآن کا نماز میں پڑھنا حرج نہیں رکھتا اور ان چار آیتوں کے پڑھنے کا حکم مسئلہ نمبر (1296۔ 1297) میں ذکر کیا گیا ہے۔

مسئلہ 1361: نماز میں دعا کرنا حرج نہیں ہے[137] لیکن احتیاط مستحب ہے کہ غیر عربی میں دعا نہ کرے۔

مسئلہ 1362: اگر نماز کے حمد، سورہ اور اذکار کے کسی حصے کو جان بوجھ کر یا احتیاطاً چند دفعہ پڑھے تو حرج نہیں ہے۔



مسئلہ 1380: جان بوجھ کر قہقہہ لگانا نماز کو باطل کرتا ہے،گرچہ بے اختیار طور پر ہو لیکن اس کے مقدمات اختیاری ہوں، بلکہ اگر مقدمات بھی اختیاری نہ ہوں چنانچہ دوبارہ نماز پڑھنے کے لیے وقت باقی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر دوبارہ پڑھے اور اگر وقت نہ ہو نماز صحیح ہے، اور قہقہہ سے مراد بلند آواز سے اس طرح ہنسے کہ آواز کو کھینچے اور گلے میں گھمائےلیکن آواز سے ہنسنا جو عرفاً قہقہہ شمار نہ کیا جائے نماز کو باطل نہیں کرتا؛ گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس سے بھی پرہیز کرے اور اس طرح تبسم اور مسکراہٹ نماز کو باطل نہیں کرتی گرچہ جان بوجھ کر ہی کیوں نہ ہو۔

مسئلہ 1381: اگرنماز گزار جان بوجھ کر بغیر آواز کے ہنسے یا بھول كر آواز کے ساتھ ہنسے اگرنماز کی شکل خراب نہ ہو تو اس کی نماز اشکال نہیں رکھتی۔

مسئلہ 1382: اگر ہنسی کی آواز روکنے کے لیے اس کی حالت تبدیل ہوجائے مثلاً رنگ سرخ ہوجائے تو نماز کے باطل ہونے میں اشکال ہے اگرچہ احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ 1383: اگر نماز گزار مسئلہ نہ جاننےکی وجہ سے نماز میں بلند آواز سے ہنسے (قہقہہ لگائے) چنانچہ جاہل قاصر ہو نہ جاہل مقصر (یعنی مسئلہ سے جاہل ہونے میں معذور ہو) اور نماز کی شکل بھی خراب نہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔

مسئلہ 1384: اگر نماز گزار جان بوجھ کر اپنے اختیار سے آواز کے ساتھ یا بغیر آواز کے دنیوی امور کے لیے یا کسی میت کی یاد میں گریہ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ 1385: اگر نماز گزار بے اختیار گریہ کرے اس طرح سے کہ گریہ اس پر غالب آجائے اور خود کو روک نہ سکے چنانچہ اس کے مقدمات اختیاری ہوں تو جان بوجھ کر گریہ کرنے کا حکم رکھتا ہے یعنی احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور بلکہ اگر مقدمات بھی اختیاری نہ ہوں چنانچہ اگر دوبارہ نماز پڑھنے کے لیے وقت باقی ہو اور وہ شخص بغیر گریہ کے نماز پڑھ سکتا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر لازم ہے نماز کو دوبارہ پڑھے، چنانچہ وقت نہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔

مسئلہ 1386: اگر نماز گزار پر گریہ اس طرح سے غالب آجائے کہ خود کو نہ روك سکتا ہو اور تمام وقت میں گریہ کے بغیر نماز نہ پڑھ سکتا ہو۔ گرچہ نماز میں صرف واجبات کے انجام دینے پراکتفا کرنے کے ذریعے۔ تو اس صورت میں نماز کو اسی حالت میں پڑھے صحیح ہے۔

مسئلہ 1387: اگر نماز گزار خداوند متعال کے خوف یا اس سے محبت یا آخرت کے لیے گریہ کرے، آہستہ ہو یا بلند حرج نہیں ہے بلکہ عبادت کے بہترین اعمال میں سے شمار ہوگا ۔

مسئلہ 1388: اگر نماز گزار دعا کی جگہ پردنیوی حاجت کو طلب کرنے کے لیے خداوند متعال کی بارگاہ میں تذلّل (بے چارگی، انكساری) اور تواضع کی نیت سے گریہ کرے اور اپنی حاجت اس سے مانگے تو حرج نہیں ہے اس کی نماز صحیح ہے ۔[138]

مسئلہ 1389: سید الشہدا ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام اور تمام ائمہ علیہم السلام کے مصائب پر گریہ کرنا قصد قربت اور خدا کی بارگاہ میں قریب ہونے کی نیت سے حرج نہیں رکھتا۔

مسئلہ 1390: ایسا کام جو نماز کی شکل خراب کر دے مثلاً اچھلنا وغیرہ نماز کو باطل کر دیتا ہے خواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول كر یا بے اختیاری طور پر پیش آئے۔

مسئلہ 1391: ہاتھ سے اشارہ کرنا یا کسی کو کوئی بات سمجھانے کے لیے ہاتھ کو پیر یا دوسرے ہاتھ پر مارنا، زمین سے کوئی چیز اٹھانا جیسے قرآن یا دعا کی کتاب، بچے کو گود میں لینا، موذی کیڑے مکوڑے کو مارنا ، سجدہ گاہ طاق وغیرہ سے اٹھانے کے لیے تھوڑی مقدار چلنا مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ حرج نہیں رکھتا۔

1
۔ نماز کی شکل خراب نہ ہو ۔

2
۔ نماز گزار قبلہ سے انحراف پیدا نہ کرے ۔

3
۔ حرکت کی حالت میں قرائت اور نماز کے اذکار کو نہ پڑھے۔

4
۔ موالات اور نماز کے صحیح ہونے کے تمام شرائط کی رعایت کرے۔

مسئلہ 1392: اگر نماز کے دوران اس طرح سے خاموش ہو جائے کہ عرفاً نہ کہیں کہ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ 1393: اگر نماز کے دوران کوئی کام انجام دے یا کچھ دیر تک خاموش ہو جائے اور شک کرے کہ نماز کی شکل خراب ہوئی یا نہیں تو لازم ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے لیکن بہتر ہے کہ پہلے نماز کو تمام کرے اس کے بعد دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ 1394: اگر انسان نماز میں اس طرح سے کھائے یا پیے کہ نماز کی شکل کو خراب کر دے اس طرح سے کہ یہ نہ کہیں نماز پڑھ رہا ہے، جان بوجھ کر ہویا بھول كر اس کی نماز باطل ہو جائے گی لیکن اگر نماز کی شکل خراب نہ ہو چنانچہ جان بوجھ کر ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر نماز باطل ہو جائے گی لاز م ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے لیکن اگر بھول كر ایسا کیا ہو تو اس کی نماز اشکال نہیں رکھتی۔

مسئلہ 1395: اگر نماز کے دوران وہ کھانا جو منھ میں یا دانتوں میں پھنسا ہوا ہے نگل لے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی اور اسی طرح اگر تھوڑی مصری قند یا شکر وغیرہ منھ میں رہ جائے اور نماز کے دوران آہستہ آہستہ پگھل کر اندر جائے تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1396: اگر نماز گزار کے لیے باطل کرنے والے شکوک میں سے کوئی شک پیش آئے جیسے دورکعتی یا تین رکعتی واجب نماز کی رکعت میں یا چار رکعتی نما زکی دو شروع کی رکعتوں میں، دوسرے سجدے میں پیشانی سجدہ گاہ پر رکھنے سے پہلے شک کرے اور اس کا شک باقی اور ثابت رہے تو اس کی نماز باطل ہے۔


مبطل دوازدہم: نماز کے رکن کو جان بوجھ کر یا بھول كر کم یا زیادہ کرنا

مسئلہ 1397: اگر نماز کے رکن کو جان بوجھ کر یا بھول كر کم كرے یا جو چیز رکن نہیں ہے اسے جان بوجھ کر کم کرے یا نماز کے اجزا میں سے کوئی چیز جان بوجھ کر اضافہ کرے تو نماز باطل ہو جائے گی اور اسی طرح اگر کسی رکن کو جیسے رکوع یا ایک رکعت کا دو سجدہ بھول كر اضافہ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے لیکن تکبیرۃ الاحرام کا بھول كر اضافہ کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا۔


[134] طہارت حدثی ( باوضو اور غسل ہونے) کی شرط ختم ہونا ایک خصوصیت رکھتی ہے جو مبطلات میں جداگانہ طور پر ذکر کی جائے گی۔

[135] اس مقام میں نماز گزار اصل ذکر پڑھنے میں قصد قربت رکھتا ہے لیکن آواز کو بلند کرنے میں قصد قربت نہیں رکھتا اور اس کا قصد کسی کو کوئی مطلب سمجھانا ہے۔

[136] مثال کے طور پر نماز گزار نماز میں متوجہ ہو کہ بچے کو کوئی خطرہ لاحق ہے اور وہ ذکر کا قصد کئے بغیر "اللہ اکبر" کو "بچہ کو پکڑو" کے معنی میں استعمال کرے یا کہ "اللہ اکبر" کو دو معنی "خدا بڑا ہے اور بچے کو پکڑو" کے لیے استعمال کرے تو اس صورت میں نماز باطل ہو جائے گی مگر یہ کہ جاہل قاصر ہو۔

[137] البتہ دعا اس طرح نہ کرے کہ نماز کی واجب قرائت یا اذکار جس میں موالات معتبر ہے جس کا ذکر مسئلہ نمبر 1323 میں ہوا ختم ہو جائے۔

[138] مثال کے طور پر اگر نماز گزار نماز کے قنوت میں دنیوی کام کے لیے مثلاً بیمار کی شفا یا تنگدستی دور كرنے كے لیے دعا کرے اور اس حال میں خداوند متعال کی بارگاہ میں اپنی بے چارگی کے ظاہر کرنے اور تواضع کرنے کی نیت سے گریہ کرے تو حرج نہیں ہے اور نماز باطل نہیں ہوگی۔
سلام کرنے اور جواب سلام کے احکام ← → نماز کے مکروہات
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français