فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
نماز کی قسمیں ←
→ تیمم کے دوسرے احکام
کلیات نماز
نماز کی فضیلت
نماز اسلام کی اہم عبادت اور دین کا ستون ہے کہ خداوند متعال نے اپنے بے پناہ لطف کی بنیاد پر اور بشر کی تربیت اور اسے اپنے شائستہ کمال تک پہونچانے کے لیے اسلامی آئین میں مقرر فرمایا ہے، جو تمام عبادتوں میں ایک خاص امتیاز اور حساس موقعیت کی حامل ہے۔
نماز خدا وند متعال سے رابطہ بر قرار کرنے کا بہترین راستہ ہے؛ نماز عبادتوں کا پرچم اور خداوند متعال تک پہونچنے کی نشان دہی کرنے والی ہے نماز ان اہم عبادتوں میں سے ہے جو انسان کے نفس کو پاک کرکے اسے بلند ترین درجاتِ کمال تک ارتقائی منزل عطا کرتی ہے اورخداوند متعال کے مقابل میں خشوع اور خضوع کا ایک کامل مظہر ہے۔
در حقیقت نماز ہر مسلمان شخص کا معنوی شناختی کارڈ(I Card)ہے اور کوئی بھی چیز خداوند متعال سے نزدیک ہونے کے لیے نماز سے زیادہ مضبوط اوردائمی وسیلہ نہیں ہے۔
قرآن کریم اور احادیث میں نماز اور نمازیوں کے لیے ایک خاص مقام بیان کیا گیا ہے۔
نہج البلاغہ میں نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام اس نصیحت کے ضمن میں( جو اصحاب کو نماز کے بارے میں کی ہے) فرماتے ہیں: (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نماز کو اس نہر سے تشبیہ دی ہے جو انسان کے گھر کے سامنے ہے اور وہ ہر روز پانچ مرتبہ اس میں اپنے کو دھوئے اور واضح ہے جو شخص دن میں پانچ مرتبہ خود کو نہر میں دھوئے گا اس کے بدن پر کوئی گندگی باقی نہیں رہے گی…)[91]۔
حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: نماز دین کا ستون ہے اور اس کی مثال اس ستونِ خیمہ کی طرح ہے کہ جب تک وہ ستون اپنی جگہ پر ہے کیل اور رسیاں ثابت رہیں گی اور اگر ستونِ خیمہ کج ہو جائے اور ٹوٹ جائے تو کیلیں اور رسیاں ثابت نہیں رہیں گی۔[92]
حدیث میں منقول ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (… سب سے پہلی چیز قیامت کے دن خداوند متعال جس کا حساب لے گا نماز ہے اگر وہ قبول ہوگئی تو سارے اعمال قبول ہو جائیں گے اور اگر نماز رد کر دی گئی تو سارے اعمال رد کر دئے جائیں گے۔ [93]
بہت سی احادیث میں اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام نے مسلمانوں کو نماز سبک (معمولی) شمار کرنے سے ڈرایا ہے۔
حدیث میں منقول ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: کوئی بھی عمل خداوند عالم کے نزدیک نماز سے زیادہ محبوب نہیں ہے ، پس نماز کے وقت دنیا کا کوئی کام بھی تم کو مشغول نہ کرے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم میں بعض قوموں کی سرزنش و ملامت کرتے ہوئے فرمایا ہے: الذین هم عن صلاتهم ساهون۔ یعنی وہ لوگ جو غافل تھے اور نماز کے وقت کی بہ نسبت کاہلی اور بے توجہی کرتے تھے۔ [94]
حدیث میں منقول ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس مرد سے جو اپنی نماز کے سجدے کو بہت تیزی کے ساتھ بجالارہا تھا دریافت فرمایا: کتنی مدّت سے اس طرح نماز پڑھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: فلاں مدّت سے حضرت علیہ السلام نے فرمایا: تجھ جیسا انسان خدا کی نظر میں اس کوّے کے مانند ہے جو اپنی چونچ زمین پر مارتا ہے اگر اس حالت میں مر جاؤ تو ابو القاسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین پر نہیں مروگے پھر فرمایا : لوگوں میں سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز سے چوری کرے۔[95]
روایات میں اوّل وقت نماز پڑھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اول وقت نماز کی فضیلت آخروقت پر اسی طرح ہے جس طرح آخرت کی فضیلت دنیا کی بہ نسبت ہے۔[96]
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کاپست اخلاق اور بعض برے اعمال خداوند متعال کی بارگاہ میں نماز کی قبولیت سے رکاوٹ بنتے ہیں۔
جو افراد حسد، تکبر، خودپسندی، غرور اور اس طرح کے صفات رکھتے ہیں یا برے اعمال جیسے والدین کی نافرمانی ان کو اذیت پہونچانا،غیبت کرنا، حرام مال کھانا، مست کرنے والی اشیا کا پینا، خمس اور زکوٰۃ کا نہ دینے، کے مرتکب ہوتے ہیں ان کی نماز خداوند متعال کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ گرچہ واجب ہے کہ نماز کو پڑھیں ورنہ نماز کے ترک کرنے والوں میں بھی شمار ہوںگے ، اور نماز گزار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے، اور ہر گناہ اور معصیت جس میں مبتلا ہے ترک کرے تاکہ یہ اہم عبادت قابلِ قبول ہو۔
بہتر ہے کہ انسان نماز کو حضورِ قلب کے ساتھ پڑھے، اور نماز کی حالت میں متوجہ رہے کہ کس سے مناجات اور درخواست کر رہا ہے۔
اسی طرح مناسب ہے کہ وہ عمل جو نماز کے ثواب کو کم کرتے ہیں انجام نہ دے مثلاً خواب آلودگی کی حالت میں یا پیشاب کو روک کر نماز کے لیے کھڑا نہ ہو اور نماز کے وقت آسمان کی طرف نگاہ نہ کرے۔
بلکہ ان کاموں کو جو نماز کے ثواب کو زیادہ کریں انجام دے مثلاً عقیق کی انگوٹھی اور پاکیزہ لباس پہنے، کنگھی اور مسواک کرے خود کو معطر کرے ۔
نماز اسلام کی اہم عبادت اور دین کا ستون ہے کہ خداوند متعال نے اپنے بے پناہ لطف کی بنیاد پر اور بشر کی تربیت اور اسے اپنے شائستہ کمال تک پہونچانے کے لیے اسلامی آئین میں مقرر فرمایا ہے، جو تمام عبادتوں میں ایک خاص امتیاز اور حساس موقعیت کی حامل ہے۔
نماز خدا وند متعال سے رابطہ بر قرار کرنے کا بہترین راستہ ہے؛ نماز عبادتوں کا پرچم اور خداوند متعال تک پہونچنے کی نشان دہی کرنے والی ہے نماز ان اہم عبادتوں میں سے ہے جو انسان کے نفس کو پاک کرکے اسے بلند ترین درجاتِ کمال تک ارتقائی منزل عطا کرتی ہے اورخداوند متعال کے مقابل میں خشوع اور خضوع کا ایک کامل مظہر ہے۔
در حقیقت نماز ہر مسلمان شخص کا معنوی شناختی کارڈ(I Card)ہے اور کوئی بھی چیز خداوند متعال سے نزدیک ہونے کے لیے نماز سے زیادہ مضبوط اوردائمی وسیلہ نہیں ہے۔
قرآن کریم اور احادیث میں نماز اور نمازیوں کے لیے ایک خاص مقام بیان کیا گیا ہے۔
نہج البلاغہ میں نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام اس نصیحت کے ضمن میں( جو اصحاب کو نماز کے بارے میں کی ہے) فرماتے ہیں: (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نماز کو اس نہر سے تشبیہ دی ہے جو انسان کے گھر کے سامنے ہے اور وہ ہر روز پانچ مرتبہ اس میں اپنے کو دھوئے اور واضح ہے جو شخص دن میں پانچ مرتبہ خود کو نہر میں دھوئے گا اس کے بدن پر کوئی گندگی باقی نہیں رہے گی…)[91]۔
حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: نماز دین کا ستون ہے اور اس کی مثال اس ستونِ خیمہ کی طرح ہے کہ جب تک وہ ستون اپنی جگہ پر ہے کیل اور رسیاں ثابت رہیں گی اور اگر ستونِ خیمہ کج ہو جائے اور ٹوٹ جائے تو کیلیں اور رسیاں ثابت نہیں رہیں گی۔[92]
حدیث میں منقول ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (… سب سے پہلی چیز قیامت کے دن خداوند متعال جس کا حساب لے گا نماز ہے اگر وہ قبول ہوگئی تو سارے اعمال قبول ہو جائیں گے اور اگر نماز رد کر دی گئی تو سارے اعمال رد کر دئے جائیں گے۔ [93]
بہت سی احادیث میں اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام نے مسلمانوں کو نماز سبک (معمولی) شمار کرنے سے ڈرایا ہے۔
حدیث میں منقول ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: کوئی بھی عمل خداوند عالم کے نزدیک نماز سے زیادہ محبوب نہیں ہے ، پس نماز کے وقت دنیا کا کوئی کام بھی تم کو مشغول نہ کرے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم میں بعض قوموں کی سرزنش و ملامت کرتے ہوئے فرمایا ہے: الذین هم عن صلاتهم ساهون۔ یعنی وہ لوگ جو غافل تھے اور نماز کے وقت کی بہ نسبت کاہلی اور بے توجہی کرتے تھے۔ [94]
حدیث میں منقول ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس مرد سے جو اپنی نماز کے سجدے کو بہت تیزی کے ساتھ بجالارہا تھا دریافت فرمایا: کتنی مدّت سے اس طرح نماز پڑھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: فلاں مدّت سے حضرت علیہ السلام نے فرمایا: تجھ جیسا انسان خدا کی نظر میں اس کوّے کے مانند ہے جو اپنی چونچ زمین پر مارتا ہے اگر اس حالت میں مر جاؤ تو ابو القاسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین پر نہیں مروگے پھر فرمایا : لوگوں میں سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز سے چوری کرے۔[95]
روایات میں اوّل وقت نماز پڑھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اول وقت نماز کی فضیلت آخروقت پر اسی طرح ہے جس طرح آخرت کی فضیلت دنیا کی بہ نسبت ہے۔[96]
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کاپست اخلاق اور بعض برے اعمال خداوند متعال کی بارگاہ میں نماز کی قبولیت سے رکاوٹ بنتے ہیں۔
جو افراد حسد، تکبر، خودپسندی، غرور اور اس طرح کے صفات رکھتے ہیں یا برے اعمال جیسے والدین کی نافرمانی ان کو اذیت پہونچانا،غیبت کرنا، حرام مال کھانا، مست کرنے والی اشیا کا پینا، خمس اور زکوٰۃ کا نہ دینے، کے مرتکب ہوتے ہیں ان کی نماز خداوند متعال کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ گرچہ واجب ہے کہ نماز کو پڑھیں ورنہ نماز کے ترک کرنے والوں میں بھی شمار ہوںگے ، اور نماز گزار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے، اور ہر گناہ اور معصیت جس میں مبتلا ہے ترک کرے تاکہ یہ اہم عبادت قابلِ قبول ہو۔
بہتر ہے کہ انسان نماز کو حضورِ قلب کے ساتھ پڑھے، اور نماز کی حالت میں متوجہ رہے کہ کس سے مناجات اور درخواست کر رہا ہے۔
اسی طرح مناسب ہے کہ وہ عمل جو نماز کے ثواب کو کم کرتے ہیں انجام نہ دے مثلاً خواب آلودگی کی حالت میں یا پیشاب کو روک کر نماز کے لیے کھڑا نہ ہو اور نماز کے وقت آسمان کی طرف نگاہ نہ کرے۔
بلکہ ان کاموں کو جو نماز کے ثواب کو زیادہ کریں انجام دے مثلاً عقیق کی انگوٹھی اور پاکیزہ لباس پہنے، کنگھی اور مسواک کرے خود کو معطر کرے ۔
[91] نہج البلاغہ، خطبہ 199، اہمیۃ الصلاۃ و فوائدھا۔
[92] وسائل الشیعہ ، کتاب الصلاۃ، ابواب اعداد الفرائض…، باب 6، ح 12۔
[93] ثواب الاعمال و عقاب الاعمال ، ص 273، ح1، باب عقاب من صلی الصلاٰۃ لغیر وقتہا
[94] خصال شیخ صدوق ، ج2، ص 621، ح10۔
[95] ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص 58، ح 2 باب فضل الوقت الاوّل علی الآخر۔
[96] ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص 58، ح 2 باب فضل الوقت الاوّل علی الآخر۔