فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
تیمم: ←
→ اہلِ قبور کی زیارت
نبشِ قبر (قبر کا کھولنا)
مسئلہ 784: مسلمان کی نبش قبر یعنی اس کی قبر کو کھولنا اگرچہ بچہ یا دیوانہ ہی ہو حرام ہے لیکن اگر اس کا بدن ختم ہو گیا ہو اور اس کے تمام گوشت اور ہڈی مٹی ہو گئے ہوں تو اس کی قبر کو کھولنا اشکال نہیں رکھتا مگر یہ کہ قبر کو کھولنے سے میت کی بے حرمتی کا سبب یا بغیر رضایت کے دوسرے کی ملکیت میں تصرف یا دوسرے حرام عنوان کا سبب بنے تو ایسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
مسئلہ 785: امام زادوں ، شہدا اور علما کی قبر کو خراب کرنا اور ہر وہ مقام جس کی قبر کو خراب کرنا بے حرمتی شمار ہوتی ہو اگرچہ سالہا سال گزر چکے ہوں اور ان کے بدن ختم ہو گئے ہوں حرام ہے۔
مسئلہ 786: چند مقامات میں قبر کو کھولنا حرام نہیں ہے:
اوّل: جب میت غصبی زمین میں دفن ہوئی ہو اور زمین کا مالک میت کے وہاں رہنے سے راضی نہ ہو البتہ اس شرط کے ساتھ کہ میت کی قبر کو کھولنا اور میت کو باہر نکالنا کوئی اس سے زیادہ اہم مفسدہ جیسے اس کے بدن کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا نہ رکھتا ہو ورنہ نبش قبر جائز نہیں ہے بلکہ بنش قبر کا جائز ہونا اس مقام میں جہاں پر میت کے لیے بے حرمتی کا سبب ہو اور خود میت نے بھی اس زمین کو غصب نہ کیا ہو تو محل اشکال ہے ، اس طرح کے مقام میں احتیاط واجب کی بنا پر غاصب پر لازم ہے کہ مالک کو راضی کرے کہ اس کی زمین پر رہے گرچہ اس کے مالک کو زیادہ پیسہ دینے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ،چنانچہ نبش قبر میت کی بے حرمتی شمار نہ ہو اور اہم مفسدہ بھی نہ رکھتا ہو لیکن بہت زیادہ سختی جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے اس صورت میں نبش قبر واجب نہیں ہے مگر یہ کہ خود غاصب ہو ۔
دوّم: جب کفن یا دوسری غصبی چیز جو میت کے ساتھ دفن ہو گئی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو کہ وہ قبر میں رہے اسی طرح اگر خود میت کے مال سے کوئی چیز ہو جو اس کے وارثوں کو ملی ہو اس کے ساتھ دفن ہو گئی ہو اور اس کے وارث راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبر میں رہے لیکن اگر میت نے وصیت کی ہو کہ دعا، قرآن یا انگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اور اس کی وصیت صحیح ہو تو ان چیزوں کو باہر نکالنے کے لیے قبر کو نہیں کھول سکتے قابلِ ذکر ہے نبش قبر کے جائز ہونے کے دوسرے مقام میں بھی وہ استثنا جو پہلے مقاممیں ذکر کیا گیا جاری ہوگا۔
سوّم: جب قبر کو کھولنا میت کی بے حرمتی نہ ہو اور میت بغیر غسل یا کفن یا حنوط کے دفن ہوئی ہو۔ یا معلوم ہو کہ اس کا غسل باطل تھا یا غیر شرعی احکام کے مطابق کفن پہنایا گیا تھا یا اس کو قبر میں قبلہ رخ پر نہیں لٹایا گیا۔
چہارم: جب کسی ایسے حق کو ثابت کرنے کے لیے جو قبر کو کھولنے سے زیادہ اہم ہو میت کے بدن کو دیکھنا چاہتے ہوں۔
پنجم: جب میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو جیسے کفار کے قبرستان یا جہاں پر گندی چیز اور کوڑا کرکٹ پھینکتے ہوں۔
ششم: کسی شرعی مقصد کے لیے قبر کو کھولیں جس کی اہمیت قبر کو کھولنے سے زیادہ ہو مثلاً حاملہ عورت کے شکم میں جو چیز دفن ہو گئی ہو جیسے زندہ بچہ کو باہر نکالنا ہو۔
ہفتم: یہ خوف ہو کہ درندے میت کو چیر پھاڑ ڈالیں گے یا سیلاب بہالے جائے گا یا دشمن نکال لیں گے۔
ہشتم: جب میت نے وصیت کی ہو کہ اس کو مقامات مقدسہ کی طرف منتقل کیا جائے چنانچہ اس کو منتقل کرنا کوئی مفسدہ[83] نہ رکھتا ہو لیکن جان بوجھ کر یا نادانی اور بھول کر دوسری جگہ دفن کیا گیا ہو اس و قت جب اس کی بے حرمتی کا سبب نہ ہو اور دوسرا کوئی مفسدہ نہ ہو تو اس کی قبر کو کھول کر اس کے بدن کو مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کر سکتے ہیں بلکہ ایسی صورت میں کھولنا اور منتقل کرنا واجب ہے لیکن اگر وصیت کرے کہ اس کے دفن کرنے کے بعد جب مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کرنے کا امکان فراہم ہو جائے تو اس کی قبر کو کھول کر اسے مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کر دیا جائے اس طرح کی وصیت کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
مسئلہ 785: امام زادوں ، شہدا اور علما کی قبر کو خراب کرنا اور ہر وہ مقام جس کی قبر کو خراب کرنا بے حرمتی شمار ہوتی ہو اگرچہ سالہا سال گزر چکے ہوں اور ان کے بدن ختم ہو گئے ہوں حرام ہے۔
مسئلہ 786: چند مقامات میں قبر کو کھولنا حرام نہیں ہے:
اوّل: جب میت غصبی زمین میں دفن ہوئی ہو اور زمین کا مالک میت کے وہاں رہنے سے راضی نہ ہو البتہ اس شرط کے ساتھ کہ میت کی قبر کو کھولنا اور میت کو باہر نکالنا کوئی اس سے زیادہ اہم مفسدہ جیسے اس کے بدن کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا نہ رکھتا ہو ورنہ نبش قبر جائز نہیں ہے بلکہ بنش قبر کا جائز ہونا اس مقام میں جہاں پر میت کے لیے بے حرمتی کا سبب ہو اور خود میت نے بھی اس زمین کو غصب نہ کیا ہو تو محل اشکال ہے ، اس طرح کے مقام میں احتیاط واجب کی بنا پر غاصب پر لازم ہے کہ مالک کو راضی کرے کہ اس کی زمین پر رہے گرچہ اس کے مالک کو زیادہ پیسہ دینے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ،چنانچہ نبش قبر میت کی بے حرمتی شمار نہ ہو اور اہم مفسدہ بھی نہ رکھتا ہو لیکن بہت زیادہ سختی جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے اس صورت میں نبش قبر واجب نہیں ہے مگر یہ کہ خود غاصب ہو ۔
دوّم: جب کفن یا دوسری غصبی چیز جو میت کے ساتھ دفن ہو گئی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو کہ وہ قبر میں رہے اسی طرح اگر خود میت کے مال سے کوئی چیز ہو جو اس کے وارثوں کو ملی ہو اس کے ساتھ دفن ہو گئی ہو اور اس کے وارث راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبر میں رہے لیکن اگر میت نے وصیت کی ہو کہ دعا، قرآن یا انگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اور اس کی وصیت صحیح ہو تو ان چیزوں کو باہر نکالنے کے لیے قبر کو نہیں کھول سکتے قابلِ ذکر ہے نبش قبر کے جائز ہونے کے دوسرے مقام میں بھی وہ استثنا جو پہلے مقاممیں ذکر کیا گیا جاری ہوگا۔
سوّم: جب قبر کو کھولنا میت کی بے حرمتی نہ ہو اور میت بغیر غسل یا کفن یا حنوط کے دفن ہوئی ہو۔ یا معلوم ہو کہ اس کا غسل باطل تھا یا غیر شرعی احکام کے مطابق کفن پہنایا گیا تھا یا اس کو قبر میں قبلہ رخ پر نہیں لٹایا گیا۔
چہارم: جب کسی ایسے حق کو ثابت کرنے کے لیے جو قبر کو کھولنے سے زیادہ اہم ہو میت کے بدن کو دیکھنا چاہتے ہوں۔
پنجم: جب میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو جیسے کفار کے قبرستان یا جہاں پر گندی چیز اور کوڑا کرکٹ پھینکتے ہوں۔
ششم: کسی شرعی مقصد کے لیے قبر کو کھولیں جس کی اہمیت قبر کو کھولنے سے زیادہ ہو مثلاً حاملہ عورت کے شکم میں جو چیز دفن ہو گئی ہو جیسے زندہ بچہ کو باہر نکالنا ہو۔
ہفتم: یہ خوف ہو کہ درندے میت کو چیر پھاڑ ڈالیں گے یا سیلاب بہالے جائے گا یا دشمن نکال لیں گے۔
ہشتم: جب میت نے وصیت کی ہو کہ اس کو مقامات مقدسہ کی طرف منتقل کیا جائے چنانچہ اس کو منتقل کرنا کوئی مفسدہ[83] نہ رکھتا ہو لیکن جان بوجھ کر یا نادانی اور بھول کر دوسری جگہ دفن کیا گیا ہو اس و قت جب اس کی بے حرمتی کا سبب نہ ہو اور دوسرا کوئی مفسدہ نہ ہو تو اس کی قبر کو کھول کر اس کے بدن کو مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کر سکتے ہیں بلکہ ایسی صورت میں کھولنا اور منتقل کرنا واجب ہے لیکن اگر وصیت کرے کہ اس کے دفن کرنے کے بعد جب مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کرنے کا امکان فراہم ہو جائے تو اس کی قبر کو کھول کر اسے مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کر دیا جائے اس طرح کی وصیت کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
[83] مثلاً یہ کہ میت کو منتقل کرنا اس کے بدن کے خراب ہونے کا سبب بنے یا یہ کہ میت کسی خطرناک سرایت کرنے والی بیماری میں مبتلا تھی اور اس کو منتقل کرنے سے لوگوں کے درمیان بیماری کے پھیلنے کا خوف ہو۔