فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
غسل میت ←
→ محتضر کے احکام
میت کی تجہیز (غسل، کفن، دفن) سے مربوط مجموعی احکام
مسئلہ 664: مرنے کے بعد مستحب ہے میت کی آنکھیں اور ہونٹ کو بند کرے اور ٹھڈی کو باندھ دے اس کے ہاتھ اور پیر کو پھیلادے اور اس کے اوپر ایک کپڑا ڈال دے اگر رات میں موت ہوئی ہو تو جہاں پر موت واقع ہوئی ہے چراغ جلائیں (روشنی کردیں) اس کے جنازہ میں شرکت کےلیے مومنین کو خبر کریں اور اس کے دفن میں جلدی کریں لیکن اگر اس کے مرنے کا یقین نہ ہو تو انتظار کریں تاکہ مرنے کا علم ہو جائے ۔ اور اگر حاملہ عورت کی میت ہو اور اس کے شکم میں بچہ زندہ ہو تو ضروری ہے دفن کرنے میں اتنی تاخیر کریں کہ اس کے پہلو کو چاک کرکے بچہ کو نکالیں اور پہلو کو سی دیں اس کی تفصیل مسئلہ نمبر 768 میں آئے گی۔
مسئلہ 665: کسی بھی مسلمان کا غسل ، حنوط، کفن، نماز اور دفن گرچہ شیعہ اثنا عشری نہ ہو سب سے پہلے اس کے شرعی ولی پر واجب ہے اس لیے میت کے لیے ضروری ہے یا ولی خود ان امور کو انجام دے یا کسی دوسرے کو ان کاموں کےلیے مامور کرے۔
مسئلہ 666: میت کی تجہیز یعنی غسل ، کفن، حنوط نماز اور دفن میت کو شرعی ولی کی اجازت سے انجام دیا جائے اگر کوئی ان کاموں کو ولی کی اجازت سے انجام دے تو ولی سے ساقط ہے بلکہ جن امور میں قصد قربت معتبر نہیں ہے مثلاً کفن ، حنوط، دفن اگرکوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر ان امور کو حکم شرع کے مطابق انجام دے تو ولی سے ساقط ہو جائے گا اوردوبارہ انجام دینا ضروری نہیں ہے لیکن جن امور میں قصد قربت معتبر ہے مثلاً غسل اور نماز اگر کوئی شخص ولی کی اجازت بغیر انجام دے تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ 667: جس طرح ولی کی اجازت صریحی طور پر ہو سکتی ہے اُسی طرح غیر صریحی بھی ہو سکتی ہے مثلاً ولی کے عمل یا بات کے ذریعہ معلوم ہو جائے کہ اجازت دی ہے اور اگر دوسرے طریقہ سے یقین یا اطمینان پیدا ہو جائے کہ ولی کسی ایک یا کچھ شخص کے ذریعہ میت کی تجہیز پر راضی ہے تو یہی کافی ہے۔
مسئلہ 668: عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اس مقام کے علاوہ طبقات ارث کی ترتیب کے مطابق وارث میت کا ولی ہوگا۔ اور ہر طبقہ میں مرد عورتوں پر مقدم ہیں، اس معنی میں مثلاً پہلے طبقے میں ماں اور بیٹے (ان شرائط کے ساتھ جو بعد میں بیان ہوں گے) ہیں تو ولایت بیٹے کے لیے ہے لیکن اگر بیٹا شرائط نہ رکھتا ہو تو ماں میت کی ولی ہے اور بعد والے طبقہ تک نوبت نہیں پہونچے گی اور اگر میت کا کوئی نزدیکی رشتہ دار نہ ہو یا اگر کوئی موجود ہو لیکن شرعی ولایت کی صلاحیت نہ رکھتا ہو مثلاً دیوانہ ہو تو حاکم شرع عادل مومنین کی ذمہ داری ہے اور حاکم شرع اور عادل مومنین کے لیے میت کی تجہیز کے مقامات میں شرعی ولایت ثابت نہیں ہے بلکہ اس طرح کی میت بغیر شرعی ولی کے شمار ہوگی۔
قابلِ ذکر ہےکہ میت کے باپ کا اس کے بیٹے پر دادا کا اس کے بھائی پر چچا کا اس کے ماموں پر مقدم ہونا اشکال رکھتا ہے۔ اسی طرح اس بھائی کا مقدم ہونا جو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے میت سے منسوب ہے اور بھائی پر جو صرف باپ یا ماں کی طرف سے میت سے منسوب ہے اور اس بھائی کا مقدم ہونا جو صرف باپ کی طرف سے میت سے منسوب ہے اس بھائی پر جو ماں کی طرف سے میت سے منسوب ہے وہ بھی اشکال رکھتا ہے پس ایسے مقامات میں احتیاط کے تقاضے کی رعایت ترک نہ کی جائے۔
مسئلہ 669: اگر میت کے ایک سے زیادہ ولی ہوں مثلاً میت کے کئی بیٹے اور بھائی ہوں میت کی تجہیز کے لیے کسی ایک سے اجازت لینا کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تمام اولیا سے اجازت لی جائے۔
مسئلہ 670: وہ لوگ جو میت کی تجہیز میں ولایت نہیں رکھتے ہیں مندرجہ ذیل افراد ہیں نابالغ بچہ دیوانہ اور وہ غیر حاضر شخص جو خود یا دوسرے کو میت کی تجہیز کے لیے مامور نہ کر سکتا ہو۔
مسئلہ 671: مندرجہ ذیل مقامات میں ولی کی اجازت ساقط ہے اور بقیہ مکلفین پر میت کی تجہیز واجب کفائی ہے:
الف: شرعی ولی تجہیز میت سے مربوط کاموں کو انجام دینے سے خود یا دوسرے کو معین کرنے سے منع کرے۔
ب: ولی غائب ہو اس طرح کہ اس تک پہونچنا ممکن نہ ہو اور بعد کے مرحلے میں میت کے لیے کوئی شرعی ولی نہ ہو۔
ج: ولی دیوانہ ہو اور بعد کے مرحلے میں بھی میت کا شرعی ولی نہ ہو ۔
د: میت کا کوئی شرعی ولی نہ ہو۔
مسئلہ 672: اگر انسان ولی کے علاوہ کسی مخصوص شخص کو وصیت کرے کہ وہ خود اس کے مرنے کے بعد غسل دے یا کفن پہنائے یا اس کی نماز پڑھے یا اس کو دفن کرے تو اس شخص کو قبول کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر قبول کیا ہے توعمل کرنا ضروری ہے اور ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
مسئلہ 673: اگر انسان ولی کے علاوہ کسی مخصوص شخص کے لیے غسل ، کفن، نماز، اور دفن کے لیے وصیت کرےکہ ان امور کی ولایت اس کے ذمہ ہے، اور اُس کی تجہیز کے لیے وہی سرپرست اور ذمہ دار ہے چاہے ان کاموں کو خود انجام دے یا کسی کو ان کاموں کے لیے منصوب کرے احتیاط واجب ہے کہ وہ شخص وصیت کو اگر حد سے زیادہ سختی نہ ہو تو قبول کرے مگر یہ کہ وہ شخص وصیت کرنے والے کی زندگی ہی میں وصیت کو قبول نہ کرے اور اس کے قبول نہ کرنے کی خبر بھی وصیت کرنے والے تک پہونچ جائے اور وہ انسان دوسرے کو وصیت کر سکے تو ایسی صورت میں قبول کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 674: اگر کوئی شخص کہے کہ میں میت کا ولی ہوں یا میت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کہے میت کی تجہیز والے امور کے لیے میں اس کا وصی ہوں اگر اس کے کہنے سے اطمینان ہو جائے یا میت اس کے تصرف میں ہو یا یہ کہ دوعادل شخص اُ س کی بات کی تصدیق کریں تو لازم ہے کہ اس کی باتوں کو قبول کریں ۔
مسئلہ675: اگر کوئی میت کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو دوسروں پر اقدام کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ دے تو دوسرں پر لازم ہے کہ مکمل کریں۔
مسئلہ 676: اگر انسان کو اطمینان ہو کہ دوسرے افراد میت کے کاموں میں مشغول ہیں تو واجب نہیں ہے کہ میت کے کاموں کے لیے اقدام کرے لیکن اگر شک یا گمان ہو تو اقدام کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 677: اگر کوئی جانتا ہو کہ میت کے غسل، کفن، نماز یا دفن کو باطل طریقے سے انجام دیا گیا ہے تو دوبارہ انجام دینا ضروری ہے لیکن باطل ہونے کا گمان یا شک رکھتا ہو کہ صحیح انجام پایا ہے یا نہیں تو اقدام کرنا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ 678: مسلمان انسان جومر گیا ہو چاہے مرد ہو یا عورت ، بالغ ہو یا نابالغ، نومولود ہو یا اس کے علاوہ تو ضروری ہے کہ اُسے غسل دیں کفن پہنا ئیں، حنوط کریں اور اس کی نماز میت پڑھیں اور اسے دفن کردیں (چھ سال سے کم عمر والی میت کے لیے نماز کا حکم اور ساقط ہونے والے بچے کے احکام آئندہ ذكر ہوں گے)۔
مسئلہ 679: ساقط ہونے والا بچہ (مسلمان ہو یا مسلمان کے حکم میں ہو) اگر قمری ماہ کے چار مہینے یا اس سے زیادہ کا ہو تو اُسے مکلف افراد کی طرح غسل میت دیں کفن پہنائیں حنوط کریں اور دفن کریں بلکہ اگر چار مہینے کا بھی نہ ہو لیکن اس کے بدن کی بناوٹ مکمل ہو گئی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر مکلف افراد کی طرح اس کو غسل میت دیں کفن پہنائیں حنوط کریں اور دفن کریں اس بنا پر اس طرح ساقط ہونے والے بچہ کو الکحل یا دوسرے کیمیکل میں نمائش وغیرہ کے لیے لیبارٹری(LABORATORY)یا دوسری جگہوں پر نہیں رکھ سکتے۔
مسئلہ 680: مسلمان بچہ کا غسل ، کفن، حنوط، اور دفن واجب ہے اگرچہ ولدالزنا ہو اور اگر کوئی بچپنے سے دیوانہ ہو اور اسی دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوا ہو اگر اس کے ماں باپ مسلمان ہوں تو وہ مسلمان کے احکام رکھتا ہے اس کا غسل، کفن اور دفن دوسرے مسلمان کی طرح ہوگا۔
مسئلہ 681: کافر شخص اور اس کی اولاد کا غسل، کفن، حنوط اور دفن شرعی کے عنوان سے جائز نہیں ہے لیکن اگر کافر کا بچہ ممیز ہو اور اسلام کا اظہار کرے تو اس کو مسلمان شمار کیا جائے گا اس کا غسل، کفن، حنوط اور دفن دوسرے مسلمانوں کی طرح ہوگا۔
مسئلہ 682: بعض مقامات میں میت کا غسل، کفن، اور حنوط واجب نہیں ہے:
1۔ میدانِ جنگ میں شہید ہونے والے کا ان شرطوں کے ساتھ جو مفصل کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں غسل، کفن اور حنوط نہیں ہے اس کی نماز پڑھی جائے اور اسی لباس میں دفن کیا جائے۔
2۔ جس کو سنگسار یا قصاص سے مارنا واجب ہے اس کا غسل ، کفن اور حنوط نہیں ہے ان وضاحتوںکے ساتھ جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کے حکم کے جاری ہونے سے پہلے وہ خود انجام دے اور حکم کے جاری ہونے کے بعد اس پر نماز پڑھ کر دفن کر دیا جائے۔
3۔ ساقط ہونے والا بچہ (جو مسلمان کے حکم میں ہے) جس کے قمری چار مہینے پورے نہ ہوئے ہوں اور بدن کی خلقت بھی مکمل نہ ہوئی ہو اس میت کا غسل حنوط اور نماز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں ۔
4۔ ان بعض مقامات میں جب میت کے بدن کے اعضا جدا ہو گئے ہوں اور ان میں سے بعض موجود نہ ہوں تو اس کاغسل ، کفن اور حنوط نہیں دیا جائے گا جس کی مکمل وضاحت اور احکام مفصل کتابوں میں موجود ہیں۔
غسل میت ←
→ محتضر کے احکام
مسئلہ 665: کسی بھی مسلمان کا غسل ، حنوط، کفن، نماز اور دفن گرچہ شیعہ اثنا عشری نہ ہو سب سے پہلے اس کے شرعی ولی پر واجب ہے اس لیے میت کے لیے ضروری ہے یا ولی خود ان امور کو انجام دے یا کسی دوسرے کو ان کاموں کےلیے مامور کرے۔
مسئلہ 666: میت کی تجہیز یعنی غسل ، کفن، حنوط نماز اور دفن میت کو شرعی ولی کی اجازت سے انجام دیا جائے اگر کوئی ان کاموں کو ولی کی اجازت سے انجام دے تو ولی سے ساقط ہے بلکہ جن امور میں قصد قربت معتبر نہیں ہے مثلاً کفن ، حنوط، دفن اگرکوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر ان امور کو حکم شرع کے مطابق انجام دے تو ولی سے ساقط ہو جائے گا اوردوبارہ انجام دینا ضروری نہیں ہے لیکن جن امور میں قصد قربت معتبر ہے مثلاً غسل اور نماز اگر کوئی شخص ولی کی اجازت بغیر انجام دے تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ 667: جس طرح ولی کی اجازت صریحی طور پر ہو سکتی ہے اُسی طرح غیر صریحی بھی ہو سکتی ہے مثلاً ولی کے عمل یا بات کے ذریعہ معلوم ہو جائے کہ اجازت دی ہے اور اگر دوسرے طریقہ سے یقین یا اطمینان پیدا ہو جائے کہ ولی کسی ایک یا کچھ شخص کے ذریعہ میت کی تجہیز پر راضی ہے تو یہی کافی ہے۔
مسئلہ 668: عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اس مقام کے علاوہ طبقات ارث کی ترتیب کے مطابق وارث میت کا ولی ہوگا۔ اور ہر طبقہ میں مرد عورتوں پر مقدم ہیں، اس معنی میں مثلاً پہلے طبقے میں ماں اور بیٹے (ان شرائط کے ساتھ جو بعد میں بیان ہوں گے) ہیں تو ولایت بیٹے کے لیے ہے لیکن اگر بیٹا شرائط نہ رکھتا ہو تو ماں میت کی ولی ہے اور بعد والے طبقہ تک نوبت نہیں پہونچے گی اور اگر میت کا کوئی نزدیکی رشتہ دار نہ ہو یا اگر کوئی موجود ہو لیکن شرعی ولایت کی صلاحیت نہ رکھتا ہو مثلاً دیوانہ ہو تو حاکم شرع عادل مومنین کی ذمہ داری ہے اور حاکم شرع اور عادل مومنین کے لیے میت کی تجہیز کے مقامات میں شرعی ولایت ثابت نہیں ہے بلکہ اس طرح کی میت بغیر شرعی ولی کے شمار ہوگی۔
قابلِ ذکر ہےکہ میت کے باپ کا اس کے بیٹے پر دادا کا اس کے بھائی پر چچا کا اس کے ماموں پر مقدم ہونا اشکال رکھتا ہے۔ اسی طرح اس بھائی کا مقدم ہونا جو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے میت سے منسوب ہے اور بھائی پر جو صرف باپ یا ماں کی طرف سے میت سے منسوب ہے اور اس بھائی کا مقدم ہونا جو صرف باپ کی طرف سے میت سے منسوب ہے اس بھائی پر جو ماں کی طرف سے میت سے منسوب ہے وہ بھی اشکال رکھتا ہے پس ایسے مقامات میں احتیاط کے تقاضے کی رعایت ترک نہ کی جائے۔
مسئلہ 669: اگر میت کے ایک سے زیادہ ولی ہوں مثلاً میت کے کئی بیٹے اور بھائی ہوں میت کی تجہیز کے لیے کسی ایک سے اجازت لینا کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تمام اولیا سے اجازت لی جائے۔
مسئلہ 670: وہ لوگ جو میت کی تجہیز میں ولایت نہیں رکھتے ہیں مندرجہ ذیل افراد ہیں نابالغ بچہ دیوانہ اور وہ غیر حاضر شخص جو خود یا دوسرے کو میت کی تجہیز کے لیے مامور نہ کر سکتا ہو۔
مسئلہ 671: مندرجہ ذیل مقامات میں ولی کی اجازت ساقط ہے اور بقیہ مکلفین پر میت کی تجہیز واجب کفائی ہے:
الف: شرعی ولی تجہیز میت سے مربوط کاموں کو انجام دینے سے خود یا دوسرے کو معین کرنے سے منع کرے۔
ب: ولی غائب ہو اس طرح کہ اس تک پہونچنا ممکن نہ ہو اور بعد کے مرحلے میں میت کے لیے کوئی شرعی ولی نہ ہو۔
ج: ولی دیوانہ ہو اور بعد کے مرحلے میں بھی میت کا شرعی ولی نہ ہو ۔
د: میت کا کوئی شرعی ولی نہ ہو۔
مسئلہ 672: اگر انسان ولی کے علاوہ کسی مخصوص شخص کو وصیت کرے کہ وہ خود اس کے مرنے کے بعد غسل دے یا کفن پہنائے یا اس کی نماز پڑھے یا اس کو دفن کرے تو اس شخص کو قبول کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر قبول کیا ہے توعمل کرنا ضروری ہے اور ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
مسئلہ 673: اگر انسان ولی کے علاوہ کسی مخصوص شخص کے لیے غسل ، کفن، نماز، اور دفن کے لیے وصیت کرےکہ ان امور کی ولایت اس کے ذمہ ہے، اور اُس کی تجہیز کے لیے وہی سرپرست اور ذمہ دار ہے چاہے ان کاموں کو خود انجام دے یا کسی کو ان کاموں کے لیے منصوب کرے احتیاط واجب ہے کہ وہ شخص وصیت کو اگر حد سے زیادہ سختی نہ ہو تو قبول کرے مگر یہ کہ وہ شخص وصیت کرنے والے کی زندگی ہی میں وصیت کو قبول نہ کرے اور اس کے قبول نہ کرنے کی خبر بھی وصیت کرنے والے تک پہونچ جائے اور وہ انسان دوسرے کو وصیت کر سکے تو ایسی صورت میں قبول کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 674: اگر کوئی شخص کہے کہ میں میت کا ولی ہوں یا میت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کہے میت کی تجہیز والے امور کے لیے میں اس کا وصی ہوں اگر اس کے کہنے سے اطمینان ہو جائے یا میت اس کے تصرف میں ہو یا یہ کہ دوعادل شخص اُ س کی بات کی تصدیق کریں تو لازم ہے کہ اس کی باتوں کو قبول کریں ۔
مسئلہ675: اگر کوئی میت کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو دوسروں پر اقدام کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ دے تو دوسرں پر لازم ہے کہ مکمل کریں۔
مسئلہ 676: اگر انسان کو اطمینان ہو کہ دوسرے افراد میت کے کاموں میں مشغول ہیں تو واجب نہیں ہے کہ میت کے کاموں کے لیے اقدام کرے لیکن اگر شک یا گمان ہو تو اقدام کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 677: اگر کوئی جانتا ہو کہ میت کے غسل، کفن، نماز یا دفن کو باطل طریقے سے انجام دیا گیا ہے تو دوبارہ انجام دینا ضروری ہے لیکن باطل ہونے کا گمان یا شک رکھتا ہو کہ صحیح انجام پایا ہے یا نہیں تو اقدام کرنا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ 678: مسلمان انسان جومر گیا ہو چاہے مرد ہو یا عورت ، بالغ ہو یا نابالغ، نومولود ہو یا اس کے علاوہ تو ضروری ہے کہ اُسے غسل دیں کفن پہنا ئیں، حنوط کریں اور اس کی نماز میت پڑھیں اور اسے دفن کردیں (چھ سال سے کم عمر والی میت کے لیے نماز کا حکم اور ساقط ہونے والے بچے کے احکام آئندہ ذكر ہوں گے)۔
مسئلہ 679: ساقط ہونے والا بچہ (مسلمان ہو یا مسلمان کے حکم میں ہو) اگر قمری ماہ کے چار مہینے یا اس سے زیادہ کا ہو تو اُسے مکلف افراد کی طرح غسل میت دیں کفن پہنائیں حنوط کریں اور دفن کریں بلکہ اگر چار مہینے کا بھی نہ ہو لیکن اس کے بدن کی بناوٹ مکمل ہو گئی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر مکلف افراد کی طرح اس کو غسل میت دیں کفن پہنائیں حنوط کریں اور دفن کریں اس بنا پر اس طرح ساقط ہونے والے بچہ کو الکحل یا دوسرے کیمیکل میں نمائش وغیرہ کے لیے لیبارٹری(LABORATORY)یا دوسری جگہوں پر نہیں رکھ سکتے۔
مسئلہ 680: مسلمان بچہ کا غسل ، کفن، حنوط، اور دفن واجب ہے اگرچہ ولدالزنا ہو اور اگر کوئی بچپنے سے دیوانہ ہو اور اسی دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوا ہو اگر اس کے ماں باپ مسلمان ہوں تو وہ مسلمان کے احکام رکھتا ہے اس کا غسل، کفن اور دفن دوسرے مسلمان کی طرح ہوگا۔
مسئلہ 681: کافر شخص اور اس کی اولاد کا غسل، کفن، حنوط اور دفن شرعی کے عنوان سے جائز نہیں ہے لیکن اگر کافر کا بچہ ممیز ہو اور اسلام کا اظہار کرے تو اس کو مسلمان شمار کیا جائے گا اس کا غسل، کفن، حنوط اور دفن دوسرے مسلمانوں کی طرح ہوگا۔
مسئلہ 682: بعض مقامات میں میت کا غسل، کفن، اور حنوط واجب نہیں ہے:
1۔ میدانِ جنگ میں شہید ہونے والے کا ان شرطوں کے ساتھ جو مفصل کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں غسل، کفن اور حنوط نہیں ہے اس کی نماز پڑھی جائے اور اسی لباس میں دفن کیا جائے۔
2۔ جس کو سنگسار یا قصاص سے مارنا واجب ہے اس کا غسل ، کفن اور حنوط نہیں ہے ان وضاحتوںکے ساتھ جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کے حکم کے جاری ہونے سے پہلے وہ خود انجام دے اور حکم کے جاری ہونے کے بعد اس پر نماز پڑھ کر دفن کر دیا جائے۔
3۔ ساقط ہونے والا بچہ (جو مسلمان کے حکم میں ہے) جس کے قمری چار مہینے پورے نہ ہوئے ہوں اور بدن کی خلقت بھی مکمل نہ ہوئی ہو اس میت کا غسل حنوط اور نماز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں ۔
4۔ ان بعض مقامات میں جب میت کے بدن کے اعضا جدا ہو گئے ہوں اور ان میں سے بعض موجود نہ ہوں تو اس کاغسل ، کفن اور حنوط نہیں دیا جائے گا جس کی مکمل وضاحت اور احکام مفصل کتابوں میں موجود ہیں۔