فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
دائم الحدث کے احکام ←
→ مستحبات وضو
وہ امور جن کے سبب سے وضو کیا جا تا ہے (غایات وضو)
مسئلہ 342: وضو کو اس کی اہداف کی نیت سے كرنے كی شرط كبھی صحتِ عمل ہوتی ہے یعنی اگر وضو کے بغیر عمل انجام دیا جائے تو صحیح نہیں ہے جیسے نماز پڑھنا چاہے واجب ہو یا مستحب:
اور کبھی عمل کے جائز ہونے اور اس کے حرام نہ ہونے کے لیے شرط ہے یعنی اگر بغیر وضو کے عمل انجام دیا تو حرام ہے جیسے قرآن کے خط کو مس کرنا اور کبھی عمل کے کمال کی شرط ہے جیسے زیادہ ثواب کے لیے مثلاً نمازمیت ، مستحبی طواف ، قرآن کی تلاوت کے وقت اور خدا سے حاجت اور دعا کرتے وقت اور نماز کی اذان کے لیے وضو کرنا، اور کبھی عمل کی کراہت کو برطرف کرنے کے لیے ہے جیسے جنابت کی حالت میں وضو کرکے سونے سے اس کی کراہت دور ہو جاتی ہے۔
مسئلہ343: چھ چیزوں کےلیے وضو کرنا واجب ہے۔
اول: واجب نماز کےلیے چاہے ادا ہو یا قضا، نماز میت کے علاوہ اور مستحبی نماز صحیح پڑھی جانے کے لیے وضو کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔
دوم: بھولے ہوئے سجدہ اور تشہد کے لیے اگر اس کے اور نماز کے درمیان وضو کو باطل کرنے والا عمل انجام دیا ہو، مثلاً پیشاب کیا ہو۔ لیکن سجدہٴ سہو کے لیے وضو ضروری نہیں ہے اور اس کاحکم دوسرے سجدہٴ سہو کے مقامات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
سوم: خانہٴ کعبہ کے واجب طواف کے لیے جو کہ حج اور عمرہ کا جز ہے۔
چہارم: نذر یا عہد شرعی یا خداوند متعال کی قسم کھائی ہو کہ وضو کرے یا ہمیشہ با وضو رہے گا۔
پنجم: اگر نذر کی ہو کہ مثلاً قرآن کی آیات کو تبرک کے قصد سے بوسہ لے گا۔
ششم: نجس شدہ قرآن کو دھونے کے لیے یا اس کو بیت الخلا سے اور اس کے جیسی جگہ سے باہر لانے کے لیے اس وقت جب انسان ہاتھ یا اپنے بدن کی دوسری جگہ کو قرآن کے خط تک پہونچانے پرمجبور ہو ، لیکن وضو کی مقدار میں ٹھہرنے سے قرآن کی بے حرمتی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر تیمم کرے (اس وقت جب تیمم وضو کی بہ نسبت کم وقت میں انجام پائے) اور قرآن کو بیت الخلا یا اس کے جیسی جگہ سے باہر لائے یا اگر نجس ہوگیا ہو تو دھوئے اور اگر اتنی مقدار بھی ٹھہرنے سے قرآن کی بے حرمتی ہو تو بغیر وضو اور تیمم کے قرآن کو بیت الخلا یا اس کے جیسی دوسری جگہ سے باہر نکالے یا اگر نجس ہوا ہو تو دھوئے۔
مسئلہ 344: جس وقت انسان وضو کرنا چاہے خواہ نماز کے وقت سے پہلے (وقت سے نزدیک یا فاصلہ ہو) اور چاہے وقت ہونے کے بعد اگر ان مقامات میں سے کسی ایک کے قصد سے جس کی وجہ سے وضو کیا جاتا ہے جیسے نماز قرآن کے حرف کو مس کرنے یا باطہارت ہونے کے لیے یا جس قصد سےبھی ہو اگر قصد قربت ہو تو وضو صحیح ہے، اس بنا پر اگر کوئی بالکل صبح میں ظہر کی نماز کے لیے وضو کرے تو مشکل نہیں ہے اسی طرح اگر ظہر اور عصر کی نماز کےلیے وضو کیا ہو اس کا وضو باطل نہ ہو ا ہو تو مغرب اور عشا کی نماز بھی اس کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ 345: نیت کے وقت مشخص کرنا ضروری نہیں ہے کہ جو وضو کر رہا ہے وہ واجب ہے یا مستحب بلکہ اگر غلطی سے واجب وضو کی نیت کرے اور بعد میں معلوم ہو واجب نہیں تھا تو اس کا وضو صحیح ہے مثلاً کوئی وقت کے داخل ہونے کا یقین رکھتا ہو اگر واجب وضو کی نیت کرے اور وضو کے بعد سمجھے کہ نماز کا وقت نہیں ہوا تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 346: مستحب ہے کہ انسان با طہارت رہنے کے لیے وضو کرے اور اگر کسی کا وضو ہو تو ہر نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے بالخصوص نماز صبح اور مغرب کے لیے اور بعض فقہا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے فرمایا ہے انسان نماز میت کےلیے ، اور اہلِ قبور کی زیارت ، مسجد اور ائمہ کے حرم میں جانے کے لیے اور قرآن مجید کو ساتھ رکھنے اسے پڑھنے اور لکھنے اور اس کا حاشیہ چھونے اور سونے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، ان مقامات میں سے بعض میں وضو کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے، البتہ اگر اس کے مستحب ہونے کے احتمال سے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور ہر وہ کام جو با وضو انجام دینا چاہیے کر سکتا ہے مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اس بنا پر اگر کسی نے قرآن پڑھنے یا اس کے خط کو چھونے کے لیے وضو کیا ہو اور نماز کے وقت تک اس کا وضو باقی ہے تو اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
دائم الحدث کے احکام ←
→ مستحبات وضو
اور کبھی عمل کے جائز ہونے اور اس کے حرام نہ ہونے کے لیے شرط ہے یعنی اگر بغیر وضو کے عمل انجام دیا تو حرام ہے جیسے قرآن کے خط کو مس کرنا اور کبھی عمل کے کمال کی شرط ہے جیسے زیادہ ثواب کے لیے مثلاً نمازمیت ، مستحبی طواف ، قرآن کی تلاوت کے وقت اور خدا سے حاجت اور دعا کرتے وقت اور نماز کی اذان کے لیے وضو کرنا، اور کبھی عمل کی کراہت کو برطرف کرنے کے لیے ہے جیسے جنابت کی حالت میں وضو کرکے سونے سے اس کی کراہت دور ہو جاتی ہے۔
مسئلہ343: چھ چیزوں کےلیے وضو کرنا واجب ہے۔
اول: واجب نماز کےلیے چاہے ادا ہو یا قضا، نماز میت کے علاوہ اور مستحبی نماز صحیح پڑھی جانے کے لیے وضو کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔
دوم: بھولے ہوئے سجدہ اور تشہد کے لیے اگر اس کے اور نماز کے درمیان وضو کو باطل کرنے والا عمل انجام دیا ہو، مثلاً پیشاب کیا ہو۔ لیکن سجدہٴ سہو کے لیے وضو ضروری نہیں ہے اور اس کاحکم دوسرے سجدہٴ سہو کے مقامات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
سوم: خانہٴ کعبہ کے واجب طواف کے لیے جو کہ حج اور عمرہ کا جز ہے۔
چہارم: نذر یا عہد شرعی یا خداوند متعال کی قسم کھائی ہو کہ وضو کرے یا ہمیشہ با وضو رہے گا۔
پنجم: اگر نذر کی ہو کہ مثلاً قرآن کی آیات کو تبرک کے قصد سے بوسہ لے گا۔
ششم: نجس شدہ قرآن کو دھونے کے لیے یا اس کو بیت الخلا سے اور اس کے جیسی جگہ سے باہر لانے کے لیے اس وقت جب انسان ہاتھ یا اپنے بدن کی دوسری جگہ کو قرآن کے خط تک پہونچانے پرمجبور ہو ، لیکن وضو کی مقدار میں ٹھہرنے سے قرآن کی بے حرمتی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر تیمم کرے (اس وقت جب تیمم وضو کی بہ نسبت کم وقت میں انجام پائے) اور قرآن کو بیت الخلا یا اس کے جیسی جگہ سے باہر لائے یا اگر نجس ہوگیا ہو تو دھوئے اور اگر اتنی مقدار بھی ٹھہرنے سے قرآن کی بے حرمتی ہو تو بغیر وضو اور تیمم کے قرآن کو بیت الخلا یا اس کے جیسی دوسری جگہ سے باہر نکالے یا اگر نجس ہوا ہو تو دھوئے۔
مسئلہ 344: جس وقت انسان وضو کرنا چاہے خواہ نماز کے وقت سے پہلے (وقت سے نزدیک یا فاصلہ ہو) اور چاہے وقت ہونے کے بعد اگر ان مقامات میں سے کسی ایک کے قصد سے جس کی وجہ سے وضو کیا جاتا ہے جیسے نماز قرآن کے حرف کو مس کرنے یا باطہارت ہونے کے لیے یا جس قصد سےبھی ہو اگر قصد قربت ہو تو وضو صحیح ہے، اس بنا پر اگر کوئی بالکل صبح میں ظہر کی نماز کے لیے وضو کرے تو مشکل نہیں ہے اسی طرح اگر ظہر اور عصر کی نماز کےلیے وضو کیا ہو اس کا وضو باطل نہ ہو ا ہو تو مغرب اور عشا کی نماز بھی اس کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ 345: نیت کے وقت مشخص کرنا ضروری نہیں ہے کہ جو وضو کر رہا ہے وہ واجب ہے یا مستحب بلکہ اگر غلطی سے واجب وضو کی نیت کرے اور بعد میں معلوم ہو واجب نہیں تھا تو اس کا وضو صحیح ہے مثلاً کوئی وقت کے داخل ہونے کا یقین رکھتا ہو اگر واجب وضو کی نیت کرے اور وضو کے بعد سمجھے کہ نماز کا وقت نہیں ہوا تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 346: مستحب ہے کہ انسان با طہارت رہنے کے لیے وضو کرے اور اگر کسی کا وضو ہو تو ہر نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے بالخصوص نماز صبح اور مغرب کے لیے اور بعض فقہا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے فرمایا ہے انسان نماز میت کےلیے ، اور اہلِ قبور کی زیارت ، مسجد اور ائمہ کے حرم میں جانے کے لیے اور قرآن مجید کو ساتھ رکھنے اسے پڑھنے اور لکھنے اور اس کا حاشیہ چھونے اور سونے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، ان مقامات میں سے بعض میں وضو کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے، البتہ اگر اس کے مستحب ہونے کے احتمال سے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور ہر وہ کام جو با وضو انجام دینا چاہیے کر سکتا ہے مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اس بنا پر اگر کسی نے قرآن پڑھنے یا اس کے خط کو چھونے کے لیے وضو کیا ہو اور نماز کے وقت تک اس کا وضو باقی ہے تو اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔