فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
وضو کے دوسرے احکام ←
→ ارتماسی وضو
وضو صحیح ہونے کے شرائط
مسئلہ 285: وضو صحیح ہونے کی چند شرطیں ہیں جن کی تفصیل آئندہ مسائل میں بیان ہوگی ۔
مسئلہ 286: جس پانی سے وضو کیا جائے اُس کا پاک ہونا ضروری ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ایسی چیزوں سے آلودہ نہ ہو جس سے انسان متنفر ہو اسے گھن آتی ہو، جیسے حلال گوشت حیوان کا پیشاب، پاک مردار اور زخم کا مواد: اگرچہ شرعی طور پر وہ چیز پاک ہو۔
مسئلہ 287: نجس اور مضاف پانی سے وضو باطل ہے اگرچہ انسان اس کے نجس ہونے یا مضاف ہونے کو نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو اورا گر ایسے وضو کے ساتھ نماز پڑھی ہو تو صحیح وضو کے ساتھ دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ 288: اگر مٹیالے مضاف پانی کے علاوہ کوئی دوسرا پانی وضو کے لیے نہ ہو اگر نماز کا وقت اتنا کم ہو کہ وضو کرنے کے لیے اور واجباتِ نماز کو پڑھنے کے لیے وقت نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے ، اورا گر وقت ہو تو انتظار کرے تاکہ پانی صاف ہو جائے، یا کسی طریقے سے اس کو صاف کریں اور وضو کریں اور مٹی سے آلودہ پانی اس وقت مضاف ہوگا جب اس کو پانی نہ کہا جائے ۔
تیسری شرط: وضو کا پانی غصبی نہ ہو
مسئلہ 289: غصبی پانی یا ایسے پانی سے جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک راضی ہے یا نہیں وضو کرنا حرام اور باطل ہے لیکن اگر پہلے اس کا مالک راضی تھا اور انسان نہیں جانتا کہ اب بھی اس کی رضایت ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے،لیکن اگر مکان ، فضا، برتن یا وضو کے پانی گرنے کی جگہ مباح نہ ہو تو وضو صحیح ہے اگرچہ انسان نے غصبی تصرف کرنے کی وجہ سے گناہ کیا ہے اس بنا پر اگر مکان ، فضا یا وضو کا پانی گرنے کی جگہ غصبی ہو اور انسان دوسری جگہ جو غصبی نہیں ہے وہاں جا سکتا ہو تو جائے اور اگر نہیں جا سکتا تو اس کا وظیفہ تیمم ہے ، لیکن ہر صورت میں وہاں پر وضو کرےاگرچہ معصیت کی ہے لیکن اس کا وضو صحیح ہے مگر یہ کہ وضو کے لیے قصد قربت حاصل نہ ہو۔
مسئلہ 290: ایسے وضو خانہ یا حوض کے پانی سے وضو کرنا جو مساجد اور دینی مدرسہ کے لیے وقف کیا گیا ہو اور انسان نہ جانتا ہو کہ یہ جگہ تمام لوگوں کے استعمال کرنے کے لیے قرار دی گئی ہے یا صرف اس مسجد اور مدرسہ کے طلاب سے مخصوص ہے تو جائز نہیں ہے مگر یہ کہ معمولاً دین دار لوگ وہاں کے پانی سے وضو کرتے ہوں اور کوئی ان کو منع نہ کرتا ہو۔
مسئلہ 291: اگر کوئی کسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتا ہو اور نہ جانتا ہو کہ اس کا وضو خانہ تمام لوگوں کے لیے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لیے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو وہاں وضو نہیں کر سکتا لیکن اگر معمولاً وہ لوگ جو اس مسجد میں نماز نہیں پڑھنا چاہتے ہوں اس وضو خانہ سے وضو کرتے ہوں اور کوئی ان کو منع نہ کرتا ہو تو وضو کر سکتا ہے۔
مسئلہ 292: مسافرخانوں، ہوٹلوں، تجارتی جگہوں، دوکانوں اور راستوں کے ہوٹل یا ان جیسی جگہوں پر ان لوگوں کا جو ان میں مقیم نہ ہو وضو کرنا اس صورت میں صحیح ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس جگہ پر وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
مسئلہ 293: اگر کوئی مدرسہ کا طالب علم نہیں ہے لیکن اس مدرسہ کے طلاب کا مہمان ہے تو اس مدرسہ میں اس کے لیے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس طرح مہمان کو قبول کرنا وقف کی شرطوں کے خلاف نہ ہو یہی حکم مسافر خانہ یا ہوٹل یا ایسی جگہ کے مسافروں کے مہمان کا بھی ہے۔
مسئلہ 294: ایسا پانی جو کسی خاص چیز کے لیے مخصوص ہے تو اس کے علاوہ کسی دوسری چیز میں استفادہ کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ کولر کے ٹھنڈے پانی سے جو صرف پینےکے لیے مخصوص کیا گیا ہے وضو کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ 295: ایسی بڑی یا چھوٹی نہروں سے وضو کرنا جس کے بارے میں عاقل افراد یہ بنا رکھتے ہیں کہ اس میں تصرف کرنا اور مالک کی اجازت کے بغیر اس سے استفادہ کرنا جائز ہے گرچہ انسان کو معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک راضی ہے ، حرج نہیں رکھتا بلکہ اس کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا انسان جانتا ہو کہ مالک راضی نہیں ہے یا مالک بچہ یا دیوانہ ہو اس کے بعد بھی تصرف کرنا جائز ہے۔
مسئلہ 296: اگر انسان بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر خود اس نے پانی کو غصب کیا ہو اور اس کے غصبی ہونے کو بھول جائے اس کا وضو احتیاط واجب کی بنا پر اشکال رکھتا ہے اسی طرح اگر اس یقین کے ساتھ وضو کرے کہ یہ اس کا پانی ہے اور وضو کے بعد معلوم ہو کہ دوسرے کا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے اور دونوں صورتوں میں استفادہ شدہ پانی کا اس کے مالک کے لیے ضامن ہے۔
مسئلہ 297: اگر مباح پانی(جو غصبی نہ ہو) غصبی برتن میں ہو اور انسان کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی بھی نہ ہو تو شرعی طریقہ سے (مثلاً برتن کے پانی کو خالی کرنے کے لیے مالک سے اجازت لینا) اس پانی کو دوسرے برتن میں خالی كرسكتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کو خالی کرے اور بعد میں وضو کرے اور اگر پانی کو خالی کرنا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر دوسرا پانی ہو تو اس سے وضو کرنا ضروری ہے اور اگر دونوں صورتوں میں مخالفت کی اور غصبی برتن کے پانی سے وضو کیا تو اس کا وضو صحیح ہے اگرچہ گناہ کیا ہے۔
مسئلہ 298: ایسے حوض سے وضو کرنا مثلاً جس کی ایک اینٹ یا پتھر غصبی ہے چنانچہ عرفاً پانی کا استعمال اس اینٹ یا پتھرمیں تصرف کرنا شمار نہ ہوتا ہو تو وضو کرنا مشکل نہیں ہے اور اگر اس اینٹ یا پتھرمیں تصرف شمار ہوتا ہو تو ایسے پانی کا استعمال حرام ہے لیکن ایسے پانی سے وضو صحیح ہے اسی طرح اگر ٹونٹی یا پانی کے پائب کا کچھ حصہ غصبی ہو لیکن خود پانی غصبی نہ ہو تو یہی حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ 299: ائمہ طاہرین معصومین علیہم السلام یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی نہر یا حوض بنائے اگر انسان کو نہیں معلوم کہ صحن کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہوئی ہے یا نہیں تو اس حوض یا نہر میں وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر جانتا ہو کہ اس زمین کو صرف مردوں کو دفن كرنے کے لیے وقف کیا گیا ہے تو وضو خانہ یا پانی کا حوض بناناجائز نہیں ہے اور اس سے وضو کرنا حرام ہے۔
مسئلہ 300: وضو صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اعضا دھوتے اور مسح کرتے وقت پاک ہوں اگرچہ وضو کرتے وقت ہی دھونے یا مسح کرنے سے پہلے نجس عضو کو پاک کریں لیکن اگر متنجّس عضو ایک بار دھونے سے پاک ہو جاتا ہو اور پانی کُر یا جاری ہو تو ایسی صورت میں وضو کی نیت سے عضو کو پانی میں ڈبوئے یا نل کے نیچے جو کُر یا جاری سے متصل ہے عضو کو دھو ئےتو عضو بھی پاک ہو جائے گا اور وضو کا دھونا بھی شامل ہو جائے گا۔
مسئلہ 301: اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے جس جگہ کو دھویا یا مسح کیا جا چکا ہو نجس ہو جائے تو وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 302: اگر اعضائے وضو کے علاوہ بدن کا دوسرا حصہ نجس ہو جائے تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پیشاب یا پاخانہ کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے اس کو پاک کرے بعد میں وضو کرے۔
مسئلہ 303: اگر کسی کے اعضا ئےوضو میں سے کوئی عضو نجس ہو جائے اور وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو سے پہلے اس کو دھویا تھا یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن جو جگہ نجس تھی آئندہ کاموں کےلیے جن میں طہارت ضروری ہے اس کو دھونا چاہیے مگر یہ کہ جانتا ہو کہ وضو سے پہلے اگر اُس عضو کو نہ بھی دھویا ہو لیکن وضو کے ساتھ خودبخود وہ عضو پانی سے دھل گیا ہوگا۔
مسئلہ 304: اگر چہرے یا ہاتھوں میں ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رُکتا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے سالم اجزا کو ترتیب وار دھونے کے بعد زخم یا خراش کو کُر یا جاری پانی میں ڈبودے یا کر سے متصل ٹونٹی کے نیچے رکھے اورا تنا دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی ، زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس پر پانی جاری ہو جائے اور اس کے بعد والے حصے کو دھوئے اس طریقہ سے اس کا وضو صحیح ہوگا۔
پانچویں شرط: وضو اور نماز کے لیے کافی وقت ہو
مسئلہ 305: اگر وقت اتنا کم ہو کہ اگر وضو کرے تو پوری نماز یا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے گا تو ضروری ہے تیمم کرے لیکن اگر وضو اور تیمم کے لیے یکساں وقت ہو یا وضو کرنے میں کم وقت لگے تو وضو کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 306: اگر وقت اتنا کم ہو کہ انسان کا وظیفہ اس سے قبل کے مسئلے کے تحت تیمم ہو اگر طہارت کے قصد سے یا مستحبی کام کےلیے مثلاً قرآن پڑھنے کے لیے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اسی طرح یہی حکم ہے اگر اس نماز کو پڑھنے کےلیے وضو کرے مگر یہ کہ قصد قربت اس کے لیے حاصل نہ ہو اور ہر صورت میں پوری نماز یا کچھ حصہ اس کے وقت میں جان بوجھ کر چھوڑ نے کی وجہ سے گناہ گار ہے۔
مسئلہ 307: وضو قصد قربت اور اخلاص کے ساتھ کرے یعنی وضو کو خداکے حکم کی اطاعت کے قصد سے انجام دینا کافی ہے، اگر خودكو کھانے یا بدن کو ٹھنڈا کرنے اور ان جیسے کاموں کے لیے وضو کرے تو باطل ہے۔
مسئلہ 308: ضروری نہیں ہے کہ انسان وضو کی نیت کو زبان سے کہے یا اپنے دل میں گزارے بلکہ اگر وضو کے تمام کاموں کو خدا کے حکم کی اطاعت کے قصد سے بجالائےتو کافی ہے ۔
مسئلہ 309: وضو میں واجب ہے کہ انسان پہلے چہرہ اس کے بعد داہنا ہاتھ پھر بائیں ہاتھ کو دھوئے اس کے بعد سر کا مسح پھر پیر کا مسح کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر بائیں پیر کا مسح داہنے پیر سے پہلے نہ کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے داہنے پیر اور اس کے بعد بائیں پیر کا مسح کرے اگر چہ دونوں پیروں کا مسح ایک ہی وقت میں جائز ہے اس بنا پر اگر بھول کر اعضا کے درمیان ترتیب کی رعایت نہ کی ہو، اس صورت میں كہ موالات ختم نہ ہو تو اس صورت میں كہ جن میں ترتیب حاصل ہو وضو سے متعلق حصوں كو دوبارہ وضو كرنا چاہتا ہے اور اگر موالات ختم ہوجائے تو دوبارہ وضو كرے یا اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اپنے سابقہ وضو میں بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ سے پہلے دھوچكا ہو یا ہاتھوں کو چہرہ سے پہلے دھلا ہو یا پیر کا مسح سر کے مسح سے پہلے انجام دیا ہو تو اس کا وضو باطل ہے۔
آٹھویں شرط: موالات کی رعایت کرے
مسئلہ 310: وضو صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وضو کے افعال پے در پے (یکے بعد دیگرے) انجام دے اور اسی کو موالات کہتے ہیں اس بنا پر اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں متواتر اور پے در پے دھونا شمار نہ ہو تو وضو باطل ہے، بلکہ جس وقت کسی جگہ کو دھونا یا مسح کرنا چاہتا ہو اور دھونے یا مسح کرنے سے پہلے تمام جگہ کی رطوبت خشک ہو گئی ہو تو وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دھونا یا مسح کرنا چاہتا ہے اس سے پہلے والے عضو کی رطوبت خشک ہو گئی ہو مثلاً بایاں ہاتھ دھونا چاہتا ہے اور داہنے ہاتھ کی رطوبت خشک ہو گئی ہے لیکن چہرہ پر تری باقی ہے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 311: اگر وضو کے افعال کو بلافاصلہ انجام دیا ہو لیکن گرم ہو ا یا بدن کی حرارت کے زیادہ ہونے سے یا ہوا کے جھونکوں سے یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہ کی رطوبت خشک ہو گئی ہو تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 312:وضو کے دوران راستہ چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے پس اگر چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے درمیان چند قدم راستے چلے اور اس کے بعد سراور پیر کا مسح کرے تو اس کا وضو صحیح ہے مگر یہ کہ بغیر کسی عذر کے اتنا چلے کہ عرفاً نہ کہا جائے کہ اس نے وضو کے افعال کو بلافاصلہ انجام دیا ہے۔
مسئلہ 313: وضو صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ، ہاتھوں ، سر اور پیر کا مسح انسان خود انجام دے اور اگر بغیر عذر کے کوئی دوسرا وضو کرائے یا چہرہ ، ہاتھوں پر پانی پہونچانے یا سر اور پیر کے مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو وضو باطل ہے۔
مسئلہ 314: وضو کے افعال میں انسان کے لیے جہاں تک ممکن ہو دوسرے سے مدد نہ لے مثلاً اگر کسی کے پاس عذر ہو اور اس کا داہنا ہاتھ ٹوٹا ہو اور ا س کو حرکت نہ دے سکتا ہو تو چہرہ کو بائیں ہاتھ کے ذریعہ دھوئے یا وضو کی نیت سے چہرہ کو ٹونٹی کے نیچے یا حوض کے اندر جس طرح پہلے بیان ہوا دھوئے اور داہنے ہاتھ کو دھونے کے بعد وضو کی نیت سے بائیں ہاتھ کو ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے نل ٹونٹی یا حوض میں دھوئے اس کے بعد بائیں ہاتھ سے سر اور پیر کا مسح کرے۔
مسئلہ 315: اگر کوئی تنہا خود وضو نہ کر سکتا ہو تو دوسرے سے مددلے لے (اور ممکنہ صورت میں مسح کرنے میں دونوں کی شرکت ہو، لیکن وضو کی نیت خود کرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے، اور خود وضو کرنے والے کی شرکت ممکن نہ ہو تو ضروری ہے دوسرے شخص سے مدد لے جو اس کو وضو کروائے ایسی صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں اور اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کے ہاتھ کو پکڑے اور اس کی مسح کی جگہ پر پھیرے اورا گر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہےکہ نائب اس کے ہاتھ سے تری کو لے اور اس تری یا رطوبت سے اس کے سر اور پیر کا مسح کرے اور اگر نائب اجرت مانگے اور دے سکتا ہو اور مالی لحاظ سے اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اجرت دے۔
مسئلہ 316: وضو کے افعال میں جو کچھ بھی انسان بذات خود انجام دے سکتا ہو اس میں دوسرے کی مدد نہیں لینی چاہیے۔
مسئلہ 317: مقدماتِ وضو کو انجام دینے کے لیے مدد لینا جیسے پانی لانا، پانی گرم کرنا، وضو کرنے والے کی ہتھیلی میں پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ آخری عمل مکروہ ہے۔
مسئلہ 318: اگر کسی کو خوف ہو کہ اگر وضو کرے گا تو بیمار ہو جائے گایا اس کی بیماری طولانی یا شدید ہو جائے گی یا اس کی بیماری کا علاج سختی سے ہوگا تو اسے وضو نہیں کرنا چاہیے بلكہ تیمم کرنا ضروری ہے لیکن اگر کوئی طریقہ ہو جو ضرر کو روک سکتا ہو مثلاً گرم پانی سے وضو کرے تو ایسا کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 319: اگر چہرہ اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو ضرر نہ رکھتا ہو اور اس سے زیادہ پانی ضرر رکھتا ہو تو اسی کم مقدار سے وضو کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 320: اگر مکلف اس یقین کے ساتھ کہ پانی وضو کرنے کے لیے مضر نہیں ہے تو وضو کرے اور وضو کے بعد سمجھے کہ پانی اس کے لیے اگر مضر تھا تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر اس یقین کے ساتھ کہ پانی اس کے لیے مضر تھا وضو کرے اور بعد میں متوجہ ہو کہ پانی مضر نہیں تھا تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے قصد قربت حاصل ہوئی ہو۔
مسئلہ 321: اگر وضو کے اعضا پر کوئی چیز چپکی ہو اور پانی کے پہونچنے سے مانع ہو جیسے نیل پالش ، ٹیپ، اور رنگ روغنی (پینٹ) تو ایسی صورت میں اس کو برطرف کرنا ضروری ہے اور اگر پانی کے پہونچے میں مانع نہ ہو جیسے مہندی کا رنگ تو حرج نہیں ہے اور اگر شک ہو کہ پانی پہونچے سے مانع ہے یا نہیں تو اس کو برطرف کرنا ضروری ہے یا پھر اس کے نیچے پانی کو پہونچائے۔
مسئلہ 322: اگر کسی کے ناخن کے نیچے ایسی میل ہو جو بدن تک پانی پہونچنے میں مانع ہو اگر ناخن چھوٹے ہوں تو وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ناخن بڑے ہوں تو ناخن کا وہ حصہ جو معمول سے زیادہ بڑا ہے اور ظاہری جز شمار ہوتا ہے اس کے نیچے کی میل کو برطرف کرے لیکن اگر ناخن کو کاٹیں اور میل انگلی کے ظاہری حصہ میں ہو تو وضو کے لیے اس میل کو برطرف کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 323: مثلاً وہ چھالے جو چلنے کی وجہ سے کھال پر ظاہر ہو گئے ہوں اس کے اوپر دھونا اور مسح کرنا کافی ہے اورا گر سوراخ ہو جائے اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کا ایک حصہ اکھڑ جائے تو کھال کا ظاہری حصہ دھونا کافی ہے اور نیچے جو اکھڑا ہوا نہیں ہے اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے اور اگر اکھڑی ہوئی کھال ابھی عضو سے متصل ہو اور کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی نہیں چپکتی تو اس کھال کا دھونا ضروری ہے مگر جو حصہ عرفاً بدن کا تابع شمار نہیں ہوتا ہے اس کا دھونا ضروری نہیں ہے لیکن اس کے نیچے پانی پہونچانا اگر ظاہر شمار ہو ضروری ہے قابلِ ذکر ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب اس حصہ کے لیے پانی مضر نہ ہو اور اگر پانی مضر ہو تو اس سے مربوط احکام وضوئے جبیرہ میں آئیں گے۔
مسئلہ 324: اگر انسان شک کرے کہ اس کے اعضا ئے وضو پر کوئی چیز چپکی ہے یا نہیں اور اس کا احتمال لوگوں کی نظر میں درست ہو مثلاً چونا یا رنگ کرنے کے بعد شک کرے کہ چونا یا رنگ اس کے ہاتھ میں چپکا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کرے یا اتنا زیادہ ہاتھ کو مَلے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر مانع تھا تو برطرف ہو گیا یا پانی اس کے نیچے پہونچ گیا ہے۔
مسئلہ 325: اگر انسان جس جگہ کو دھونا یا مسح کرنا چاہتا ہے اس پر میل ہو لیکن وہ میل بدن تک پانی پہونچنے میں مانع نہ ہو تو مشکل نہیں ہے اسی طرح اگر چونا یا اس کے مانند کوئی کام کرنے کے بعد کوئی سفید چیز جو کھال تک پانی پہونچنے میں مانع نہیں بنتی اس کے ہاتھ پر باقی رہے لیکن اگر شک کرے کہ اس کے ہونے سے پانی بدن تک پہونچتا ہے یا نہیں تو اس کو برطرف کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 326: اگر کوئی وضو سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضا میں ایسی چیز ہے جو پانی پہونچنے سے مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی وہاں پر پہونچا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 327: اگر وضو کے بعض اعضا میں کوئی ایسا مانع ہو کہ کبھی پانی خود بخود اس کے نیچے پہونچ جاتا ہو اور کبھی نہ پہونچتا ہو جیسے انگوٹھی، دست بند (كڑے)چوڑی اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہونچا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن ایسی صورت میں اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کے وقت اس کے نیچے پانی پہونچنے کی طرف متوجہ نہیں تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
مسئلہ 328: اگر کوئی وضو کرے اور وضو کے بعد وضو کے اعضا پر کوئی مانع (رکاوٹ) دیکھے جیسے ٹیپ یا نیل پالش وغیرہ تو اگر معلوم ہو کہ یہ مانع وضو سے پہلے تھا تو اس کا وضو باطل ہے۔ گرچہ وضو سے پہلے اس نے وضو کے اعضا کی تحقیق کی ہو اور اگر اس وضو سے نماز پڑھی ہو تو اس کو اپنے وقت میں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کرے۔
مسئلہ 329: اگو وضو کرنے کے بعد کوئی چیز جو پانی پہونچنے میں رکاوٹ ہے اعضائے وضو پر دیکھے اور نہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت تھی یا بعد میں ظاہر ہوئی ہے تو اس کا وضو صحیح ہے ۔لیکن اگر یہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت اس مانع کی طرف متوجہ نہیں تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
مسئلہ 330:اگر وضو کے بعد شک کرے کہ اعضائے پر پانی کے پہونچنے میں کوئی چیز مانع تھی یا نہیں تو وضو صحیح ہے اور اس صورت میں مانع کو پیدا کرنے کےلیے تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے ۔
وضو کے دوسرے احکام ←
→ ارتماسی وضو
مسئلہ 286: جس پانی سے وضو کیا جائے اُس کا پاک ہونا ضروری ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ایسی چیزوں سے آلودہ نہ ہو جس سے انسان متنفر ہو اسے گھن آتی ہو، جیسے حلال گوشت حیوان کا پیشاب، پاک مردار اور زخم کا مواد: اگرچہ شرعی طور پر وہ چیز پاک ہو۔
مسئلہ 287: نجس اور مضاف پانی سے وضو باطل ہے اگرچہ انسان اس کے نجس ہونے یا مضاف ہونے کو نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو اورا گر ایسے وضو کے ساتھ نماز پڑھی ہو تو صحیح وضو کے ساتھ دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ 288: اگر مٹیالے مضاف پانی کے علاوہ کوئی دوسرا پانی وضو کے لیے نہ ہو اگر نماز کا وقت اتنا کم ہو کہ وضو کرنے کے لیے اور واجباتِ نماز کو پڑھنے کے لیے وقت نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے ، اورا گر وقت ہو تو انتظار کرے تاکہ پانی صاف ہو جائے، یا کسی طریقے سے اس کو صاف کریں اور وضو کریں اور مٹی سے آلودہ پانی اس وقت مضاف ہوگا جب اس کو پانی نہ کہا جائے ۔
تیسری شرط: وضو کا پانی غصبی نہ ہو
مسئلہ 289: غصبی پانی یا ایسے پانی سے جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک راضی ہے یا نہیں وضو کرنا حرام اور باطل ہے لیکن اگر پہلے اس کا مالک راضی تھا اور انسان نہیں جانتا کہ اب بھی اس کی رضایت ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے،لیکن اگر مکان ، فضا، برتن یا وضو کے پانی گرنے کی جگہ مباح نہ ہو تو وضو صحیح ہے اگرچہ انسان نے غصبی تصرف کرنے کی وجہ سے گناہ کیا ہے اس بنا پر اگر مکان ، فضا یا وضو کا پانی گرنے کی جگہ غصبی ہو اور انسان دوسری جگہ جو غصبی نہیں ہے وہاں جا سکتا ہو تو جائے اور اگر نہیں جا سکتا تو اس کا وظیفہ تیمم ہے ، لیکن ہر صورت میں وہاں پر وضو کرےاگرچہ معصیت کی ہے لیکن اس کا وضو صحیح ہے مگر یہ کہ وضو کے لیے قصد قربت حاصل نہ ہو۔
مسئلہ 290: ایسے وضو خانہ یا حوض کے پانی سے وضو کرنا جو مساجد اور دینی مدرسہ کے لیے وقف کیا گیا ہو اور انسان نہ جانتا ہو کہ یہ جگہ تمام لوگوں کے استعمال کرنے کے لیے قرار دی گئی ہے یا صرف اس مسجد اور مدرسہ کے طلاب سے مخصوص ہے تو جائز نہیں ہے مگر یہ کہ معمولاً دین دار لوگ وہاں کے پانی سے وضو کرتے ہوں اور کوئی ان کو منع نہ کرتا ہو۔
مسئلہ 291: اگر کوئی کسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتا ہو اور نہ جانتا ہو کہ اس کا وضو خانہ تمام لوگوں کے لیے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لیے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو وہاں وضو نہیں کر سکتا لیکن اگر معمولاً وہ لوگ جو اس مسجد میں نماز نہیں پڑھنا چاہتے ہوں اس وضو خانہ سے وضو کرتے ہوں اور کوئی ان کو منع نہ کرتا ہو تو وضو کر سکتا ہے۔
مسئلہ 292: مسافرخانوں، ہوٹلوں، تجارتی جگہوں، دوکانوں اور راستوں کے ہوٹل یا ان جیسی جگہوں پر ان لوگوں کا جو ان میں مقیم نہ ہو وضو کرنا اس صورت میں صحیح ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس جگہ پر وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
مسئلہ 293: اگر کوئی مدرسہ کا طالب علم نہیں ہے لیکن اس مدرسہ کے طلاب کا مہمان ہے تو اس مدرسہ میں اس کے لیے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس طرح مہمان کو قبول کرنا وقف کی شرطوں کے خلاف نہ ہو یہی حکم مسافر خانہ یا ہوٹل یا ایسی جگہ کے مسافروں کے مہمان کا بھی ہے۔
مسئلہ 294: ایسا پانی جو کسی خاص چیز کے لیے مخصوص ہے تو اس کے علاوہ کسی دوسری چیز میں استفادہ کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ کولر کے ٹھنڈے پانی سے جو صرف پینےکے لیے مخصوص کیا گیا ہے وضو کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ 295: ایسی بڑی یا چھوٹی نہروں سے وضو کرنا جس کے بارے میں عاقل افراد یہ بنا رکھتے ہیں کہ اس میں تصرف کرنا اور مالک کی اجازت کے بغیر اس سے استفادہ کرنا جائز ہے گرچہ انسان کو معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک راضی ہے ، حرج نہیں رکھتا بلکہ اس کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا انسان جانتا ہو کہ مالک راضی نہیں ہے یا مالک بچہ یا دیوانہ ہو اس کے بعد بھی تصرف کرنا جائز ہے۔
مسئلہ 296: اگر انسان بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر خود اس نے پانی کو غصب کیا ہو اور اس کے غصبی ہونے کو بھول جائے اس کا وضو احتیاط واجب کی بنا پر اشکال رکھتا ہے اسی طرح اگر اس یقین کے ساتھ وضو کرے کہ یہ اس کا پانی ہے اور وضو کے بعد معلوم ہو کہ دوسرے کا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے اور دونوں صورتوں میں استفادہ شدہ پانی کا اس کے مالک کے لیے ضامن ہے۔
مسئلہ 297: اگر مباح پانی(جو غصبی نہ ہو) غصبی برتن میں ہو اور انسان کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی بھی نہ ہو تو شرعی طریقہ سے (مثلاً برتن کے پانی کو خالی کرنے کے لیے مالک سے اجازت لینا) اس پانی کو دوسرے برتن میں خالی كرسكتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کو خالی کرے اور بعد میں وضو کرے اور اگر پانی کو خالی کرنا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر دوسرا پانی ہو تو اس سے وضو کرنا ضروری ہے اور اگر دونوں صورتوں میں مخالفت کی اور غصبی برتن کے پانی سے وضو کیا تو اس کا وضو صحیح ہے اگرچہ گناہ کیا ہے۔
مسئلہ 298: ایسے حوض سے وضو کرنا مثلاً جس کی ایک اینٹ یا پتھر غصبی ہے چنانچہ عرفاً پانی کا استعمال اس اینٹ یا پتھرمیں تصرف کرنا شمار نہ ہوتا ہو تو وضو کرنا مشکل نہیں ہے اور اگر اس اینٹ یا پتھرمیں تصرف شمار ہوتا ہو تو ایسے پانی کا استعمال حرام ہے لیکن ایسے پانی سے وضو صحیح ہے اسی طرح اگر ٹونٹی یا پانی کے پائب کا کچھ حصہ غصبی ہو لیکن خود پانی غصبی نہ ہو تو یہی حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ 299: ائمہ طاہرین معصومین علیہم السلام یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی نہر یا حوض بنائے اگر انسان کو نہیں معلوم کہ صحن کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہوئی ہے یا نہیں تو اس حوض یا نہر میں وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر جانتا ہو کہ اس زمین کو صرف مردوں کو دفن كرنے کے لیے وقف کیا گیا ہے تو وضو خانہ یا پانی کا حوض بناناجائز نہیں ہے اور اس سے وضو کرنا حرام ہے۔
مسئلہ 300: وضو صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اعضا دھوتے اور مسح کرتے وقت پاک ہوں اگرچہ وضو کرتے وقت ہی دھونے یا مسح کرنے سے پہلے نجس عضو کو پاک کریں لیکن اگر متنجّس عضو ایک بار دھونے سے پاک ہو جاتا ہو اور پانی کُر یا جاری ہو تو ایسی صورت میں وضو کی نیت سے عضو کو پانی میں ڈبوئے یا نل کے نیچے جو کُر یا جاری سے متصل ہے عضو کو دھو ئےتو عضو بھی پاک ہو جائے گا اور وضو کا دھونا بھی شامل ہو جائے گا۔
مسئلہ 301: اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے جس جگہ کو دھویا یا مسح کیا جا چکا ہو نجس ہو جائے تو وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 302: اگر اعضائے وضو کے علاوہ بدن کا دوسرا حصہ نجس ہو جائے تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پیشاب یا پاخانہ کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے اس کو پاک کرے بعد میں وضو کرے۔
مسئلہ 303: اگر کسی کے اعضا ئےوضو میں سے کوئی عضو نجس ہو جائے اور وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو سے پہلے اس کو دھویا تھا یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن جو جگہ نجس تھی آئندہ کاموں کےلیے جن میں طہارت ضروری ہے اس کو دھونا چاہیے مگر یہ کہ جانتا ہو کہ وضو سے پہلے اگر اُس عضو کو نہ بھی دھویا ہو لیکن وضو کے ساتھ خودبخود وہ عضو پانی سے دھل گیا ہوگا۔
مسئلہ 304: اگر چہرے یا ہاتھوں میں ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رُکتا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے سالم اجزا کو ترتیب وار دھونے کے بعد زخم یا خراش کو کُر یا جاری پانی میں ڈبودے یا کر سے متصل ٹونٹی کے نیچے رکھے اورا تنا دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی ، زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس پر پانی جاری ہو جائے اور اس کے بعد والے حصے کو دھوئے اس طریقہ سے اس کا وضو صحیح ہوگا۔
پانچویں شرط: وضو اور نماز کے لیے کافی وقت ہو
مسئلہ 305: اگر وقت اتنا کم ہو کہ اگر وضو کرے تو پوری نماز یا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے گا تو ضروری ہے تیمم کرے لیکن اگر وضو اور تیمم کے لیے یکساں وقت ہو یا وضو کرنے میں کم وقت لگے تو وضو کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 306: اگر وقت اتنا کم ہو کہ انسان کا وظیفہ اس سے قبل کے مسئلے کے تحت تیمم ہو اگر طہارت کے قصد سے یا مستحبی کام کےلیے مثلاً قرآن پڑھنے کے لیے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اسی طرح یہی حکم ہے اگر اس نماز کو پڑھنے کےلیے وضو کرے مگر یہ کہ قصد قربت اس کے لیے حاصل نہ ہو اور ہر صورت میں پوری نماز یا کچھ حصہ اس کے وقت میں جان بوجھ کر چھوڑ نے کی وجہ سے گناہ گار ہے۔
مسئلہ 307: وضو قصد قربت اور اخلاص کے ساتھ کرے یعنی وضو کو خداکے حکم کی اطاعت کے قصد سے انجام دینا کافی ہے، اگر خودكو کھانے یا بدن کو ٹھنڈا کرنے اور ان جیسے کاموں کے لیے وضو کرے تو باطل ہے۔
مسئلہ 308: ضروری نہیں ہے کہ انسان وضو کی نیت کو زبان سے کہے یا اپنے دل میں گزارے بلکہ اگر وضو کے تمام کاموں کو خدا کے حکم کی اطاعت کے قصد سے بجالائےتو کافی ہے ۔
مسئلہ 309: وضو میں واجب ہے کہ انسان پہلے چہرہ اس کے بعد داہنا ہاتھ پھر بائیں ہاتھ کو دھوئے اس کے بعد سر کا مسح پھر پیر کا مسح کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر بائیں پیر کا مسح داہنے پیر سے پہلے نہ کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے داہنے پیر اور اس کے بعد بائیں پیر کا مسح کرے اگر چہ دونوں پیروں کا مسح ایک ہی وقت میں جائز ہے اس بنا پر اگر بھول کر اعضا کے درمیان ترتیب کی رعایت نہ کی ہو، اس صورت میں كہ موالات ختم نہ ہو تو اس صورت میں كہ جن میں ترتیب حاصل ہو وضو سے متعلق حصوں كو دوبارہ وضو كرنا چاہتا ہے اور اگر موالات ختم ہوجائے تو دوبارہ وضو كرے یا اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اپنے سابقہ وضو میں بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ سے پہلے دھوچكا ہو یا ہاتھوں کو چہرہ سے پہلے دھلا ہو یا پیر کا مسح سر کے مسح سے پہلے انجام دیا ہو تو اس کا وضو باطل ہے۔
آٹھویں شرط: موالات کی رعایت کرے
مسئلہ 310: وضو صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وضو کے افعال پے در پے (یکے بعد دیگرے) انجام دے اور اسی کو موالات کہتے ہیں اس بنا پر اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں متواتر اور پے در پے دھونا شمار نہ ہو تو وضو باطل ہے، بلکہ جس وقت کسی جگہ کو دھونا یا مسح کرنا چاہتا ہو اور دھونے یا مسح کرنے سے پہلے تمام جگہ کی رطوبت خشک ہو گئی ہو تو وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دھونا یا مسح کرنا چاہتا ہے اس سے پہلے والے عضو کی رطوبت خشک ہو گئی ہو مثلاً بایاں ہاتھ دھونا چاہتا ہے اور داہنے ہاتھ کی رطوبت خشک ہو گئی ہے لیکن چہرہ پر تری باقی ہے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 311: اگر وضو کے افعال کو بلافاصلہ انجام دیا ہو لیکن گرم ہو ا یا بدن کی حرارت کے زیادہ ہونے سے یا ہوا کے جھونکوں سے یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہ کی رطوبت خشک ہو گئی ہو تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 312:وضو کے دوران راستہ چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے پس اگر چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے درمیان چند قدم راستے چلے اور اس کے بعد سراور پیر کا مسح کرے تو اس کا وضو صحیح ہے مگر یہ کہ بغیر کسی عذر کے اتنا چلے کہ عرفاً نہ کہا جائے کہ اس نے وضو کے افعال کو بلافاصلہ انجام دیا ہے۔
مسئلہ 313: وضو صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ، ہاتھوں ، سر اور پیر کا مسح انسان خود انجام دے اور اگر بغیر عذر کے کوئی دوسرا وضو کرائے یا چہرہ ، ہاتھوں پر پانی پہونچانے یا سر اور پیر کے مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو وضو باطل ہے۔
مسئلہ 314: وضو کے افعال میں انسان کے لیے جہاں تک ممکن ہو دوسرے سے مدد نہ لے مثلاً اگر کسی کے پاس عذر ہو اور اس کا داہنا ہاتھ ٹوٹا ہو اور ا س کو حرکت نہ دے سکتا ہو تو چہرہ کو بائیں ہاتھ کے ذریعہ دھوئے یا وضو کی نیت سے چہرہ کو ٹونٹی کے نیچے یا حوض کے اندر جس طرح پہلے بیان ہوا دھوئے اور داہنے ہاتھ کو دھونے کے بعد وضو کی نیت سے بائیں ہاتھ کو ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے نل ٹونٹی یا حوض میں دھوئے اس کے بعد بائیں ہاتھ سے سر اور پیر کا مسح کرے۔
مسئلہ 315: اگر کوئی تنہا خود وضو نہ کر سکتا ہو تو دوسرے سے مددلے لے (اور ممکنہ صورت میں مسح کرنے میں دونوں کی شرکت ہو، لیکن وضو کی نیت خود کرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے، اور خود وضو کرنے والے کی شرکت ممکن نہ ہو تو ضروری ہے دوسرے شخص سے مدد لے جو اس کو وضو کروائے ایسی صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں اور اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کے ہاتھ کو پکڑے اور اس کی مسح کی جگہ پر پھیرے اورا گر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہےکہ نائب اس کے ہاتھ سے تری کو لے اور اس تری یا رطوبت سے اس کے سر اور پیر کا مسح کرے اور اگر نائب اجرت مانگے اور دے سکتا ہو اور مالی لحاظ سے اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اجرت دے۔
مسئلہ 316: وضو کے افعال میں جو کچھ بھی انسان بذات خود انجام دے سکتا ہو اس میں دوسرے کی مدد نہیں لینی چاہیے۔
مسئلہ 317: مقدماتِ وضو کو انجام دینے کے لیے مدد لینا جیسے پانی لانا، پانی گرم کرنا، وضو کرنے والے کی ہتھیلی میں پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ آخری عمل مکروہ ہے۔
مسئلہ 318: اگر کسی کو خوف ہو کہ اگر وضو کرے گا تو بیمار ہو جائے گایا اس کی بیماری طولانی یا شدید ہو جائے گی یا اس کی بیماری کا علاج سختی سے ہوگا تو اسے وضو نہیں کرنا چاہیے بلكہ تیمم کرنا ضروری ہے لیکن اگر کوئی طریقہ ہو جو ضرر کو روک سکتا ہو مثلاً گرم پانی سے وضو کرے تو ایسا کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 319: اگر چہرہ اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو ضرر نہ رکھتا ہو اور اس سے زیادہ پانی ضرر رکھتا ہو تو اسی کم مقدار سے وضو کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 320: اگر مکلف اس یقین کے ساتھ کہ پانی وضو کرنے کے لیے مضر نہیں ہے تو وضو کرے اور وضو کے بعد سمجھے کہ پانی اس کے لیے اگر مضر تھا تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر اس یقین کے ساتھ کہ پانی اس کے لیے مضر تھا وضو کرے اور بعد میں متوجہ ہو کہ پانی مضر نہیں تھا تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے قصد قربت حاصل ہوئی ہو۔
مسئلہ 321: اگر وضو کے اعضا پر کوئی چیز چپکی ہو اور پانی کے پہونچنے سے مانع ہو جیسے نیل پالش ، ٹیپ، اور رنگ روغنی (پینٹ) تو ایسی صورت میں اس کو برطرف کرنا ضروری ہے اور اگر پانی کے پہونچے میں مانع نہ ہو جیسے مہندی کا رنگ تو حرج نہیں ہے اور اگر شک ہو کہ پانی پہونچے سے مانع ہے یا نہیں تو اس کو برطرف کرنا ضروری ہے یا پھر اس کے نیچے پانی کو پہونچائے۔
مسئلہ 322: اگر کسی کے ناخن کے نیچے ایسی میل ہو جو بدن تک پانی پہونچنے میں مانع ہو اگر ناخن چھوٹے ہوں تو وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ناخن بڑے ہوں تو ناخن کا وہ حصہ جو معمول سے زیادہ بڑا ہے اور ظاہری جز شمار ہوتا ہے اس کے نیچے کی میل کو برطرف کرے لیکن اگر ناخن کو کاٹیں اور میل انگلی کے ظاہری حصہ میں ہو تو وضو کے لیے اس میل کو برطرف کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 323: مثلاً وہ چھالے جو چلنے کی وجہ سے کھال پر ظاہر ہو گئے ہوں اس کے اوپر دھونا اور مسح کرنا کافی ہے اورا گر سوراخ ہو جائے اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کا ایک حصہ اکھڑ جائے تو کھال کا ظاہری حصہ دھونا کافی ہے اور نیچے جو اکھڑا ہوا نہیں ہے اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے اور اگر اکھڑی ہوئی کھال ابھی عضو سے متصل ہو اور کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی نہیں چپکتی تو اس کھال کا دھونا ضروری ہے مگر جو حصہ عرفاً بدن کا تابع شمار نہیں ہوتا ہے اس کا دھونا ضروری نہیں ہے لیکن اس کے نیچے پانی پہونچانا اگر ظاہر شمار ہو ضروری ہے قابلِ ذکر ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب اس حصہ کے لیے پانی مضر نہ ہو اور اگر پانی مضر ہو تو اس سے مربوط احکام وضوئے جبیرہ میں آئیں گے۔
مسئلہ 324: اگر انسان شک کرے کہ اس کے اعضا ئے وضو پر کوئی چیز چپکی ہے یا نہیں اور اس کا احتمال لوگوں کی نظر میں درست ہو مثلاً چونا یا رنگ کرنے کے بعد شک کرے کہ چونا یا رنگ اس کے ہاتھ میں چپکا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کرے یا اتنا زیادہ ہاتھ کو مَلے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر مانع تھا تو برطرف ہو گیا یا پانی اس کے نیچے پہونچ گیا ہے۔
مسئلہ 325: اگر انسان جس جگہ کو دھونا یا مسح کرنا چاہتا ہے اس پر میل ہو لیکن وہ میل بدن تک پانی پہونچنے میں مانع نہ ہو تو مشکل نہیں ہے اسی طرح اگر چونا یا اس کے مانند کوئی کام کرنے کے بعد کوئی سفید چیز جو کھال تک پانی پہونچنے میں مانع نہیں بنتی اس کے ہاتھ پر باقی رہے لیکن اگر شک کرے کہ اس کے ہونے سے پانی بدن تک پہونچتا ہے یا نہیں تو اس کو برطرف کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 326: اگر کوئی وضو سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضا میں ایسی چیز ہے جو پانی پہونچنے سے مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی وہاں پر پہونچا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
مسئلہ 327: اگر وضو کے بعض اعضا میں کوئی ایسا مانع ہو کہ کبھی پانی خود بخود اس کے نیچے پہونچ جاتا ہو اور کبھی نہ پہونچتا ہو جیسے انگوٹھی، دست بند (كڑے)چوڑی اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہونچا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن ایسی صورت میں اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کے وقت اس کے نیچے پانی پہونچنے کی طرف متوجہ نہیں تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
مسئلہ 328: اگر کوئی وضو کرے اور وضو کے بعد وضو کے اعضا پر کوئی مانع (رکاوٹ) دیکھے جیسے ٹیپ یا نیل پالش وغیرہ تو اگر معلوم ہو کہ یہ مانع وضو سے پہلے تھا تو اس کا وضو باطل ہے۔ گرچہ وضو سے پہلے اس نے وضو کے اعضا کی تحقیق کی ہو اور اگر اس وضو سے نماز پڑھی ہو تو اس کو اپنے وقت میں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کرے۔
مسئلہ 329: اگو وضو کرنے کے بعد کوئی چیز جو پانی پہونچنے میں رکاوٹ ہے اعضائے وضو پر دیکھے اور نہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت تھی یا بعد میں ظاہر ہوئی ہے تو اس کا وضو صحیح ہے ۔لیکن اگر یہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت اس مانع کی طرف متوجہ نہیں تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
مسئلہ 330:اگر وضو کے بعد شک کرے کہ اعضائے پر پانی کے پہونچنے میں کوئی چیز مانع تھی یا نہیں تو وضو صحیح ہے اور اس صورت میں مانع کو پیدا کرنے کےلیے تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے ۔