فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
ارتماسی وضو ←
→ وضو
چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے احکام
مسئلہ 258: چہرہ لمبائی میں پیشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جہاں سر کے بال اگتے ہیں ٹھڈی کے آخر تک دھونا ضروری ہے اور چوڑائی میں بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان جو حصہ آجائے اسے دھونا ضروری ہے، اگر انسان اس مقدار کا ذرا سا حصہ بھی چھوڑ دے تو اس کا وضو باطل ہے۔ اور اگر انسان کو یقین اور اطمینان نہ ہو کہ مکمل طور پر دھویا ہے تو ایسی صورت میں لازم مقدار کے دھونے کے بارے میں یقین اور اطمینان پیدا کرنے کے لیے تھوڑا اطراف میں بھی دھوئے۔ اسی طرح چہرہ کو دھونے میں احتیاط واجب کی بنا پر ترتیب کی رعایت کرنا یعنی اوپر سے نیچے دھونا ضروری ہے اِس طرح کہ عرف میں کہا جائے کہ اوپر سے نیچے دھویا ہے تو کافی ہے اس بنا پر اگر پانی کو ابتدائے پیشانی پر (بال اگنے کی جگہ ڈالیں اس کے بعد ا س کو چہرہ کے دونوں طرف معمول کے مطابق ٹیڑھی خط کی شکل میں جاری کریں تو یہ اوپر سے نیچے کی طرف دھونا قرار پائے گا اور اگر کوئی شخص وضو کے پانی کو ابتدائے پیشانی پر ڈالے بلکہ اس کے نیچے مثلاً پیشانی کے نیچے اور ابرو کی جگہ ڈالے اس کے فوراً بعد پیشانی کے اوپر جو خشک تھا ہاتھ پھیرے تاکہ تر ہو جائے اور بعد میں پانی ڈالنے والی جگہ اور اس کے نیچے ہاتھ پھیرے اگر اس طرح کے دھونے پرا کتفا کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس طرح کا وضو صحیح نہیں ہے۔ [44]
مسئلہ 259: اگر کسی کا چہرہ ٹھڈی کی طرف عام لوگوں سے زیادہ بڑا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے تمام چہرہ کو دھوئے اور اگر پیشانی پر بال اُگے ہوں یا سر کے اگلے حصّے پر بال نہ ہو ں تو اس کو دیکھنا چاہیے کہ عام لوگ جس جگہ سے اپنے چہرہ کو دھوتے ہیں وہ بھی اسی جگہ سے معمول کے مطابق پیشانی کو دھوئے، اور اگر کسی کا چہرہ چوڑائی میں بڑا یا چھوٹا ہونے کی بنا پر یا انگلیوں کے چھوٹے یا بڑے ہونے کے اعتبار سے معمول کے مطابق خلقت نہیں رکھتا اُس کو چاہیے ایسی انگلیوں کو معیار قرار دے جو اس کے چہرہ کے مناسب ہو اور اس کے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کے درمیان کی مقدار میں دھوئے۔
مسئلہ 260: چہرہ اور ہاتھوں کو اس طرح دھونا چاہیے کہ پانی بدن کی جلد تک پہونچ جائے اور اگر کوئی مانع ہو تو اس کو برطرف کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ اگر احتمال ہو کہ اس کی ابرو، آنکھ اور ہونٹ کے کنارے میل یا کوئی دوسری چیز ہے جو جلد تک پانی کے پہونچے میں مانع ہے اگر اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست (معقول احتمال) ہو تو اسے وضو سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے اور اگر کوئی چیز ہو تو اس کو دور کرنا چاہیے۔
مسئلہ 261: اگر چہرہ کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہو تو پانی جلد تک پہونچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آئے تو بال کے ظاہر کا دھونا کافی ہے اور اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے ، مگر یہ کہ اس کے نیچے پانی کا پہونچانا آسان ہو اور دقت اور تحقیق کی ضرورت نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری ہے جیسے لمبی موچھیں جو دونوں طرف سے چہرہ کی جلد یا ڈاڑھی کو چھپائے ہو اور آسانی سے اس کو کنارے کر سکتے ہوں۔
مسئلہ 262: اگر کوئی شک کرے کہ چہرے کی جلد بالوں کے درمیان سے ظاہر ہے یا نہیں تو ضروری ہےکہ بالوں کو دھوئے اور پانی کو جلد تک بھی پہونچائے۔
مسئلہ 263: ناک کا اندرونی حصہ اور آنکھ ہونٹ کا وہ حصہ جو بند کرنے پر نظر نہیں آتا دھونا واجب نہیں ہے لیکن اگر انسان شک کرے کہ جن جگہوں کو دھونا چاہیے تھا ان میں سے کچھ باقی بچا ہے یا نہیں تو لازمی مقدار دھونے کے بارے میں یقین پیدا کرنے کے لیے واجب ہے تھوڑا ان میں سے بھی دھوئے اور کوئی اس حکم کو نہ جانتا ہو اگر وہ معقول احتمال دے کہ وہ وضو جوکئے ہیں لازمی مقدار کو دھویا ہے تو وہ نمازیں جو اس وضو کے ساتھ پڑھی ہو صحیح ہے اور بعد کی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ 264: چہرہ کو دھونے کے بعد پہلے داہنے ہاتھ کو اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک دھوئے اور اگر کوئی انسان شک کرے کہ مکمل طور پر کہنی کو دھویا ہے یا نہیں تو لازمی مقدار کے دھونے کے بارے میں یقین پیدا کرنے کے لیے کہنی سے اوپر کا کچھ حصہ دھوئے ۔
مسئلہ 265: چہرہ کو دھونے سے پہلے کسی نے اپنے ہاتھوں کو کلائی تک دھویا ہو تو وضو کرتے وقت انگلیوں کے سرے تک دھونا ضروری ہے اور اگر صرف ہاتھوں کو کلائی تک دھوئے تو اس کا وضو باطل ہے۔
مسئلہ 266: ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے اور اگر اس طرح دھوئے کہ عرفاً کہا جائے کہ اوپر سے نیچے دھویا ہے کافی ہے، اس بنا پر اگر کوئی شخص مثلاً پہلے ہاتھ کےاوپر کے حصّے کو کہنی سے ہاتھ کے نیچے تک دھوئے اور بعد میں داخلی حصّے کو کہنی سے نیچے تک دھوئے تو یہ اوپر سے نیچے دھونا کہا جائے گا ضروری نہیں ہے کہ بیرونی اور داخلی حصّےکو ایک ہی وقت میں دھویا جائے لیکن اگر نیچے کی طرف سے اوپر دھویا جائے تو وضو باطل ہے ، مثلاً وضو کی نیت سے نصف کلائی کو انگلیوں کے سرے تک دھوئیں اس کے بعد کہنی والا حصہ جو آدھا خشک بچا ہے اس کو دھوئے تووضو صحیح نہیں ہے اور اگر کہنی کے نیچے پانی ڈالیں اس کے فوراً بعد کہنی کے اوپر خشک ہے وہاں پر ہاتھ پھیرے تاکہ تر ہو جائے اور اس کے بعد پانی ڈالنے کی جگہ اور اس کے نیچے ہاتھ پھیریں تو احتیاط واجب کی بنا پر اس طرح کے وضو پر اکتفا نہیں کرسکتے ۔[45]
مسئلہ 267: اگر ہاتھ کو تر کرکے چہرہ اور ہاتھوں پر پھیرے اور ہاتھ کی تری اتنی ہو کہ ہاتھ پھیرنے سے پانی تمام جگہ تک پہونچ جائے اور دھونا صدق كرے تو کافی ہے اور اس صورت میں ضروری نہیں ہے کہ ہاتھ اور چہروں پر پانی جاری ہو۔
مسئلہ 268: وضو میں ہاتھوں کو پہلی دفعہ دھونا واجب اور دوسری دفعہ مستحب اور تیسری مرتبہ حرام ہے۔ پہلی مرتبہ دھونے سے مراد یہ ہے کہ وضو کے قصد سے مکمل طور پر چہرہ یا ہاتھ کو دھوئے اس بنا پر ایک یا کئی مرتبہ پانی ڈالنے سے ہاتھ پھیرنے سے یا بغیر پھیرے مكمل طور پر عضو دھویا گیا ہو تو ایک دفعہ دھونا پورا ہو جائے گا اور اس کے بعد كے لیے اگر چہ پہلی دفعہ کی نیت سے دھوئے تو وہ پہلی دفعہ کا جز شمار نہیں ہوگا۔ اس بنا پر پہلی مرتبہ دھونا ثابت ہونے کے لئے دو چیز کی شرط ہے:
اوّل: وضو کے قصد سے دھونا ہو۔
دوم: پانی مکمل طور پر تمام عضو تک پہونچ جائے کہ احتیاط کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور دوسری بار دھونے میں اگر یہ دونوں شرط موجود ہو تو دوسری مرتبہ دھونا كہلائے گا لیکن اگر دوسری مرتبہ میں پہلی شرط موجود نہ ہو یعنی پہلی مرتبہ دھونے کے بعد وضو کے قصد کے بغیر عضو کو دھوئے تو ضروری ہے کہ تقاضائے احتیاط ترک نہ ہو اور تیسری مرتبہ احتیاطاً عضو کو نہ دھوئے ۔[46]
سر اور پاؤں کا مسح کرنے کے احکام
مسئلہ 269: دونوں ہاتھ کو دھونے کے بعد سر کے اگلے حصّے کا مسح کرنا وضو کے اس پانی کی تری سے جو ہاتھ میں باقی ہے لازم ہے اور سر کے مسح میں دونوں ہاتھ جو وضو میں دھوئے جاتے ہیں کہنی سے انگلیوں کے سر ے تک اس کے کسی بھی حصّے سے سر کا مسح کرنا جائز ہے۔
گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے مسح کرے اسی طرح احتیاط مستحب ہے کہ مسح اوپر سے نیچے کی طرف کرے۔
مسئلہ 270:سر کے چار حصوں میں سے پیشانی کے مقابل والے ایک حصّے پر مسح کرنا چاہیے اس حصہ میں جہاں بھی اور جس انداز سے بھی مسح کرے کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ لمبائی میں ایک انگلی کی لمبائی کی مقدار اورچوڑائی میں تین ملی ہوئی انگلیوں کی مقدار پر مسح کرے۔
مسئلہ 271: ضروری نہیں ہے کہ سر کا مسح جلد پر ہو بلکہ سر کے اگلے حصہ کے بال پر بھی صحیح ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے بڑے ہو ں کہ مثلاً کنگھی کرے تو چہرے پر آجائیں یا کسی دوسرے حصے تک پہونچ جائیں تو لازم ہے کہ بالوں کے ان حصے پر جو کنگھی کرنے کے بعد اپنی حد سے خارج نہیں ہوتے مسح کرے یا پھر مانگ نکال کر بال کی کھال یا جڑ پر مسح کرے اور اگر ان بالوں کو جو چہرے پر آتے ہیں یا دوسری جگہ پہونچ جاتے ہیں سر کے اگلے حصہ پر جمع کرے اور اس پر مسح کرے یا دوسری جگہ کےبال پر جو سر کے سامنے آئے ہیں مسح کرے توا یسا مسح باطل ہے ۔
مسئلہ 272: سر کے مسح کے بعد واجب ہے کہ وضو کے پانی کی اس تری سے جو ہاتھ میں باقی بچی ہے (جس کی تفصیل سر کے مسح کے مسئلہ نمبر 269 میں بیان ہوئی ہے) پاؤں کی کسی ایک انگلی سے لے کر پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ جوڑ تک بھی مسح کرے، اس بنا پر اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ وضو میں اپنے پیر کا مسح ابھری ہوئی جگہ تک کیا ہے نہ کہ جوڑ تک تو احتیاط واجب ہے کہ وہ واجب نماز جس کے بارے میں اطمینان یا یقین رکھتا ہو کہ اس طرح کے وضو کے ساتھ پڑھی ہے اُسے دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کرے[47] لیکن اگر معقول احتمال دے جو وضو نماز کے لیے کیا ہے اس میں پیر کے مسح کو (اگرچہ اتفاقی) وضو کے قصد سے جوڑ تک کیا ہے تو نماز صحیح ہوگی اور ضروری نہیں ہے کہ دوبارہ پڑھے یا قضا کرے ۔
قابلِ ذکر ہے پیر کی انگلی کی نوک سے جو ناخن کے نزدیک ہے اور عرفاً پیر کا اوپری جز شمار ہوتا ہے مسح کرنا واجب ہے اور اس حصہ کا مسح کرنا جو عرفاً پیر کا باطن شمار ہوتا ہے ضروری نہیں ہے شک کی صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر مشکوک مقدار پرمسح کرے۔
مسئلہ 273: احتیاط مستحب یہ ہے کہ داہنے پیر کا مسح داہنے ہاتھ سے اور بائیں پیر کا مسح بائیں ہاتھ سے کرے، نیز احتیاط مستحب یہ ہے کہ پیر کے مسح کی شروعات پیر کی انگلیوں کے سرے سے ہو اور جو ڑ تک کرے اگرچہ برعکس مسح کرنا بھی جائز ہے۔
مسئلہ 274: پیر کے مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے تین مِلی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر ہو بلکہ بہتر ہے کہ پورے اوپری حصّے کو پوری ہتھیلی[48]سے مسح کرے۔
مسئلہ 275: پیر کے مسح میں ضروری نہیں ہے کہ انسان ہتھیلی کو انگلیوں کے نوک پر رکھ کر کھینچے بلکہ پوری ہتھیلی کو پیر پر رکھ کے ٹھوڑا سا کھینچ سکتا ہے۔
مسئلہ 276: سر اور پیر کے مسح میں ان پر ہاتھ کو کھینچا جائے اور اگر انسان ہاتھ کو حرکت نہ دے اور سر اور پیر کو کھینچے تو مسح باطل ہے لیکن ہاتھ کو کھینچتے وقت سر یا پیر میں تھوڑی حرکت ہو تو مشکل نہیں ہے۔
مسئلہ 277: مسح کی جگہ کا خشک ہونا ضروری ہے اور اگراتنا تر ہو کہ ہاتھ کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے لیکن اگر مختصر رطوبت رکھتا ہو اس طریقے سے کہ پانی مسح کے وقت اس پر غلبہ پیدا کرے اور وہ رطوبت نہ ہونے کے برابر شمار ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 278: وضو کرنے والے کے ہاتھ میں اگر مسح کے لیے رطوبت اور تری نہ بچی ہو اس طرح کہ کہنی سے انگلیوں کے سرے تک دونوں ہاتھ خشک ہو گیا ہو تو ہاتھ کو دوسرے پانی سے تر نہیں کر سکتے بلکہ اپنی ڈاڑھی سے رطوبت کو لے کر اس سے مسح کریں اور چہرے کے دوسرے حصّے سے رطوبت لینا (ڈاڑھی کے علاوہ) جیسے ابرو یا رخسار سے چاہے وہ لوگ جو ڈاڑھی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں احتیاط واجب کی بنا پر کافی نہیں ہے۔
مسئلہ 279: اگر ہاتھ میں صرف اتنی تری ہو کہ صرف سر کا مسح کر سکتے ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کا مسح اسی تری سے کریں اس کے بعد پیر کے مسح کے لیے اپنی ڈاڑھی سے رطوبت کو لیں۔
مسئلہ 280: موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے لیکن اگرا نسان بہت زیادہ سردی ، چور یا درندے یا اسی طرح دوسری چیزوں کی وجہ سے جوتا یا موزہ نہ اتار سکے تو احتیاط واجب کی بنا پر جوتے اور موزے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے اگر خوف کی وجہ سے تقیہ ہو تو موزے اور جوتے پر مسح کافی ہے۔
مسئلہ 281: اگر پیر کا اوپری حصہ نجس ہو اور مسح کے لیے اس کو دھو نہ سکتے ہوں تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ 259: اگر کسی کا چہرہ ٹھڈی کی طرف عام لوگوں سے زیادہ بڑا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے تمام چہرہ کو دھوئے اور اگر پیشانی پر بال اُگے ہوں یا سر کے اگلے حصّے پر بال نہ ہو ں تو اس کو دیکھنا چاہیے کہ عام لوگ جس جگہ سے اپنے چہرہ کو دھوتے ہیں وہ بھی اسی جگہ سے معمول کے مطابق پیشانی کو دھوئے، اور اگر کسی کا چہرہ چوڑائی میں بڑا یا چھوٹا ہونے کی بنا پر یا انگلیوں کے چھوٹے یا بڑے ہونے کے اعتبار سے معمول کے مطابق خلقت نہیں رکھتا اُس کو چاہیے ایسی انگلیوں کو معیار قرار دے جو اس کے چہرہ کے مناسب ہو اور اس کے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کے درمیان کی مقدار میں دھوئے۔
مسئلہ 260: چہرہ اور ہاتھوں کو اس طرح دھونا چاہیے کہ پانی بدن کی جلد تک پہونچ جائے اور اگر کوئی مانع ہو تو اس کو برطرف کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ اگر احتمال ہو کہ اس کی ابرو، آنکھ اور ہونٹ کے کنارے میل یا کوئی دوسری چیز ہے جو جلد تک پانی کے پہونچے میں مانع ہے اگر اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست (معقول احتمال) ہو تو اسے وضو سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے اور اگر کوئی چیز ہو تو اس کو دور کرنا چاہیے۔
مسئلہ 261: اگر چہرہ کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہو تو پانی جلد تک پہونچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آئے تو بال کے ظاہر کا دھونا کافی ہے اور اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے ، مگر یہ کہ اس کے نیچے پانی کا پہونچانا آسان ہو اور دقت اور تحقیق کی ضرورت نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے نیچے پانی پہونچانا ضروری ہے جیسے لمبی موچھیں جو دونوں طرف سے چہرہ کی جلد یا ڈاڑھی کو چھپائے ہو اور آسانی سے اس کو کنارے کر سکتے ہوں۔
مسئلہ 262: اگر کوئی شک کرے کہ چہرے کی جلد بالوں کے درمیان سے ظاہر ہے یا نہیں تو ضروری ہےکہ بالوں کو دھوئے اور پانی کو جلد تک بھی پہونچائے۔
مسئلہ 263: ناک کا اندرونی حصہ اور آنکھ ہونٹ کا وہ حصہ جو بند کرنے پر نظر نہیں آتا دھونا واجب نہیں ہے لیکن اگر انسان شک کرے کہ جن جگہوں کو دھونا چاہیے تھا ان میں سے کچھ باقی بچا ہے یا نہیں تو لازمی مقدار دھونے کے بارے میں یقین پیدا کرنے کے لیے واجب ہے تھوڑا ان میں سے بھی دھوئے اور کوئی اس حکم کو نہ جانتا ہو اگر وہ معقول احتمال دے کہ وہ وضو جوکئے ہیں لازمی مقدار کو دھویا ہے تو وہ نمازیں جو اس وضو کے ساتھ پڑھی ہو صحیح ہے اور بعد کی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ 264: چہرہ کو دھونے کے بعد پہلے داہنے ہاتھ کو اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک دھوئے اور اگر کوئی انسان شک کرے کہ مکمل طور پر کہنی کو دھویا ہے یا نہیں تو لازمی مقدار کے دھونے کے بارے میں یقین پیدا کرنے کے لیے کہنی سے اوپر کا کچھ حصہ دھوئے ۔
مسئلہ 265: چہرہ کو دھونے سے پہلے کسی نے اپنے ہاتھوں کو کلائی تک دھویا ہو تو وضو کرتے وقت انگلیوں کے سرے تک دھونا ضروری ہے اور اگر صرف ہاتھوں کو کلائی تک دھوئے تو اس کا وضو باطل ہے۔
مسئلہ 266: ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے اور اگر اس طرح دھوئے کہ عرفاً کہا جائے کہ اوپر سے نیچے دھویا ہے کافی ہے، اس بنا پر اگر کوئی شخص مثلاً پہلے ہاتھ کےاوپر کے حصّے کو کہنی سے ہاتھ کے نیچے تک دھوئے اور بعد میں داخلی حصّے کو کہنی سے نیچے تک دھوئے تو یہ اوپر سے نیچے دھونا کہا جائے گا ضروری نہیں ہے کہ بیرونی اور داخلی حصّےکو ایک ہی وقت میں دھویا جائے لیکن اگر نیچے کی طرف سے اوپر دھویا جائے تو وضو باطل ہے ، مثلاً وضو کی نیت سے نصف کلائی کو انگلیوں کے سرے تک دھوئیں اس کے بعد کہنی والا حصہ جو آدھا خشک بچا ہے اس کو دھوئے تووضو صحیح نہیں ہے اور اگر کہنی کے نیچے پانی ڈالیں اس کے فوراً بعد کہنی کے اوپر خشک ہے وہاں پر ہاتھ پھیرے تاکہ تر ہو جائے اور اس کے بعد پانی ڈالنے کی جگہ اور اس کے نیچے ہاتھ پھیریں تو احتیاط واجب کی بنا پر اس طرح کے وضو پر اکتفا نہیں کرسکتے ۔[45]
مسئلہ 267: اگر ہاتھ کو تر کرکے چہرہ اور ہاتھوں پر پھیرے اور ہاتھ کی تری اتنی ہو کہ ہاتھ پھیرنے سے پانی تمام جگہ تک پہونچ جائے اور دھونا صدق كرے تو کافی ہے اور اس صورت میں ضروری نہیں ہے کہ ہاتھ اور چہروں پر پانی جاری ہو۔
مسئلہ 268: وضو میں ہاتھوں کو پہلی دفعہ دھونا واجب اور دوسری دفعہ مستحب اور تیسری مرتبہ حرام ہے۔ پہلی مرتبہ دھونے سے مراد یہ ہے کہ وضو کے قصد سے مکمل طور پر چہرہ یا ہاتھ کو دھوئے اس بنا پر ایک یا کئی مرتبہ پانی ڈالنے سے ہاتھ پھیرنے سے یا بغیر پھیرے مكمل طور پر عضو دھویا گیا ہو تو ایک دفعہ دھونا پورا ہو جائے گا اور اس کے بعد كے لیے اگر چہ پہلی دفعہ کی نیت سے دھوئے تو وہ پہلی دفعہ کا جز شمار نہیں ہوگا۔ اس بنا پر پہلی مرتبہ دھونا ثابت ہونے کے لئے دو چیز کی شرط ہے:
اوّل: وضو کے قصد سے دھونا ہو۔
دوم: پانی مکمل طور پر تمام عضو تک پہونچ جائے کہ احتیاط کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور دوسری بار دھونے میں اگر یہ دونوں شرط موجود ہو تو دوسری مرتبہ دھونا كہلائے گا لیکن اگر دوسری مرتبہ میں پہلی شرط موجود نہ ہو یعنی پہلی مرتبہ دھونے کے بعد وضو کے قصد کے بغیر عضو کو دھوئے تو ضروری ہے کہ تقاضائے احتیاط ترک نہ ہو اور تیسری مرتبہ احتیاطاً عضو کو نہ دھوئے ۔[46]
سر اور پاؤں کا مسح کرنے کے احکام
مسئلہ 269: دونوں ہاتھ کو دھونے کے بعد سر کے اگلے حصّے کا مسح کرنا وضو کے اس پانی کی تری سے جو ہاتھ میں باقی ہے لازم ہے اور سر کے مسح میں دونوں ہاتھ جو وضو میں دھوئے جاتے ہیں کہنی سے انگلیوں کے سر ے تک اس کے کسی بھی حصّے سے سر کا مسح کرنا جائز ہے۔
گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے مسح کرے اسی طرح احتیاط مستحب ہے کہ مسح اوپر سے نیچے کی طرف کرے۔
مسئلہ 270:سر کے چار حصوں میں سے پیشانی کے مقابل والے ایک حصّے پر مسح کرنا چاہیے اس حصہ میں جہاں بھی اور جس انداز سے بھی مسح کرے کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ لمبائی میں ایک انگلی کی لمبائی کی مقدار اورچوڑائی میں تین ملی ہوئی انگلیوں کی مقدار پر مسح کرے۔
مسئلہ 271: ضروری نہیں ہے کہ سر کا مسح جلد پر ہو بلکہ سر کے اگلے حصہ کے بال پر بھی صحیح ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے بڑے ہو ں کہ مثلاً کنگھی کرے تو چہرے پر آجائیں یا کسی دوسرے حصے تک پہونچ جائیں تو لازم ہے کہ بالوں کے ان حصے پر جو کنگھی کرنے کے بعد اپنی حد سے خارج نہیں ہوتے مسح کرے یا پھر مانگ نکال کر بال کی کھال یا جڑ پر مسح کرے اور اگر ان بالوں کو جو چہرے پر آتے ہیں یا دوسری جگہ پہونچ جاتے ہیں سر کے اگلے حصہ پر جمع کرے اور اس پر مسح کرے یا دوسری جگہ کےبال پر جو سر کے سامنے آئے ہیں مسح کرے توا یسا مسح باطل ہے ۔
مسئلہ 272: سر کے مسح کے بعد واجب ہے کہ وضو کے پانی کی اس تری سے جو ہاتھ میں باقی بچی ہے (جس کی تفصیل سر کے مسح کے مسئلہ نمبر 269 میں بیان ہوئی ہے) پاؤں کی کسی ایک انگلی سے لے کر پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ جوڑ تک بھی مسح کرے، اس بنا پر اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ وضو میں اپنے پیر کا مسح ابھری ہوئی جگہ تک کیا ہے نہ کہ جوڑ تک تو احتیاط واجب ہے کہ وہ واجب نماز جس کے بارے میں اطمینان یا یقین رکھتا ہو کہ اس طرح کے وضو کے ساتھ پڑھی ہے اُسے دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کرے[47] لیکن اگر معقول احتمال دے جو وضو نماز کے لیے کیا ہے اس میں پیر کے مسح کو (اگرچہ اتفاقی) وضو کے قصد سے جوڑ تک کیا ہے تو نماز صحیح ہوگی اور ضروری نہیں ہے کہ دوبارہ پڑھے یا قضا کرے ۔
قابلِ ذکر ہے پیر کی انگلی کی نوک سے جو ناخن کے نزدیک ہے اور عرفاً پیر کا اوپری جز شمار ہوتا ہے مسح کرنا واجب ہے اور اس حصہ کا مسح کرنا جو عرفاً پیر کا باطن شمار ہوتا ہے ضروری نہیں ہے شک کی صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر مشکوک مقدار پرمسح کرے۔
مسئلہ 273: احتیاط مستحب یہ ہے کہ داہنے پیر کا مسح داہنے ہاتھ سے اور بائیں پیر کا مسح بائیں ہاتھ سے کرے، نیز احتیاط مستحب یہ ہے کہ پیر کے مسح کی شروعات پیر کی انگلیوں کے سرے سے ہو اور جو ڑ تک کرے اگرچہ برعکس مسح کرنا بھی جائز ہے۔
مسئلہ 274: پیر کے مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے تین مِلی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر ہو بلکہ بہتر ہے کہ پورے اوپری حصّے کو پوری ہتھیلی[48]سے مسح کرے۔
مسئلہ 275: پیر کے مسح میں ضروری نہیں ہے کہ انسان ہتھیلی کو انگلیوں کے نوک پر رکھ کر کھینچے بلکہ پوری ہتھیلی کو پیر پر رکھ کے ٹھوڑا سا کھینچ سکتا ہے۔
مسئلہ 276: سر اور پیر کے مسح میں ان پر ہاتھ کو کھینچا جائے اور اگر انسان ہاتھ کو حرکت نہ دے اور سر اور پیر کو کھینچے تو مسح باطل ہے لیکن ہاتھ کو کھینچتے وقت سر یا پیر میں تھوڑی حرکت ہو تو مشکل نہیں ہے۔
مسئلہ 277: مسح کی جگہ کا خشک ہونا ضروری ہے اور اگراتنا تر ہو کہ ہاتھ کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے لیکن اگر مختصر رطوبت رکھتا ہو اس طریقے سے کہ پانی مسح کے وقت اس پر غلبہ پیدا کرے اور وہ رطوبت نہ ہونے کے برابر شمار ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 278: وضو کرنے والے کے ہاتھ میں اگر مسح کے لیے رطوبت اور تری نہ بچی ہو اس طرح کہ کہنی سے انگلیوں کے سرے تک دونوں ہاتھ خشک ہو گیا ہو تو ہاتھ کو دوسرے پانی سے تر نہیں کر سکتے بلکہ اپنی ڈاڑھی سے رطوبت کو لے کر اس سے مسح کریں اور چہرے کے دوسرے حصّے سے رطوبت لینا (ڈاڑھی کے علاوہ) جیسے ابرو یا رخسار سے چاہے وہ لوگ جو ڈاڑھی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں احتیاط واجب کی بنا پر کافی نہیں ہے۔
مسئلہ 279: اگر ہاتھ میں صرف اتنی تری ہو کہ صرف سر کا مسح کر سکتے ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کا مسح اسی تری سے کریں اس کے بعد پیر کے مسح کے لیے اپنی ڈاڑھی سے رطوبت کو لیں۔
مسئلہ 280: موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے لیکن اگرا نسان بہت زیادہ سردی ، چور یا درندے یا اسی طرح دوسری چیزوں کی وجہ سے جوتا یا موزہ نہ اتار سکے تو احتیاط واجب کی بنا پر جوتے اور موزے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے اگر خوف کی وجہ سے تقیہ ہو تو موزے اور جوتے پر مسح کافی ہے۔
مسئلہ 281: اگر پیر کا اوپری حصہ نجس ہو اور مسح کے لیے اس کو دھو نہ سکتے ہوں تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
[44] اس بنا پر اگر کسی نے اس مسئلے کی رعایت نہیں کی کیونکہ یہ حکم احتیاط واجب کی بنا پر تو دوسرے احتیاط واجب کے مقامات کی طرح دوسرے مجتہد کی طرف جو دوسرے مجتہد سے اعلم ہے رجوع کر سکتا ہے اور اگر وہ اس نکتہ کی رعایت کو ضروری نہیں سمجھتا ہو تو اس مسئلے میں اُس کی تقلید کرے تاکہ جو وضو اُس نے کئے ہیں یا كرے گا بے اِشکال ہو جائے۔
[45] مسئلہ نمبر 258 کی وضاحت یہاں پر بھی آئے گی ۔
[46] اس مقام میں اس پانی سے مسح کرنا بھی احتیاط کے خلاف ہے۔
[47] قابلِ ذکر ہے اس احتیاط میں ۔ بقیہ احتیاط واجب کے مقامات کی طرح اعلم مجتہد ہر جامع الشرائط کی رعایت کرتے ہوئے پیر کے مسح کو ابھری ہوئی جگہ کافی جاننے كے لیے رجوع کرے اور اس صورت میں اس کی گذشتہ نماز بھی صحیح شمار ہوگی۔
[48] ہتھیلی میں انگلیوں كے باطنی حصے بھی شامل ہیں۔