فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
پانی کے احکام
پانی کی قسمیں ←
→ تکلیف (مكلف) اور بالغ ہونا
تکلیف (مكلف) کے شرائط
تقلید
مسئلہ 3: مسلمان شخص کا اصول دین کی بہ نسبت اعتقاد آگاہی اور شناخت ركھنا ضروری ہے اور اصول دین میں تقلید نہیں کر سکتا اس بنا پر وہ کسی ایسے شخص کی بات کو جو اصول دین کی بہ نسبت علم رکھتا ہے صرف اس بنا پر قبول نہیں کر سکتا کہ اس نے کہی ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے حق اور صحیح عقیدوں پر اعتقاد رکھتا ہو۔ (اگرچہ آگاہی اور شناخت سے نہ ہو۔) تو وہ مسلمان اور مومن ہے اور اسلام اور ایمان کے تمام احکام اس پر جاری ہوتے ہیں لیکن احکامِ دین كی بہ نسبت ضروری اور یقینی مسائل کے علاوہ۔ ہر شخص کو چاہیے یا مجتہد ہوتا کہ احکام کو دلیل سے حاصل کرسکے۔ یا مجتہد کی تقلید کرے یا احتیاط کرکے اس طرح اپنے وظیفے پر عمل کرے کہ یقین حاصل ہو جائے اپنے وظیفے کو انجام دے دیا ہے۔ مثلاً چند مجتہد کسی عمل کو حرام سمجھیں اور چند دوسرے مجتہد کہیں کہ حرام نہیں ہے تو اسے چاہیے اس کام کو انجام نہ دے اور اگر کسی عمل کو بعض واجب اور بعض دوسرے مستحب قرار دیں تو اس کو بجالائے۔ پس وہ افراد جو نہ مجتہد ہیں اور نہ احتیاط پر عمل کر سکتے ہیں ان پر واجب ہے کہ تقلید کریں۔
مسئلہ 4: احکام میں تقلید کا معنی مجتہد کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہیے جو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ ، عادل اور زندہ ہو۔ اور اگر کسی فرد کو اجمالی طور پر علم ہو کہ وہ مسائل جو اسے در پیش ہیں مجتہدین آپس میں اختلافِ نظر رکھتے ہیں گرچہ اختلاف نظر والے مسئلہ کو نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ اس مجتہد کی تقلید کرے جو اعلم ہو یعنی اس کا علم دوسرے مجتہدین سے زیادہ ہو اور حکمِ خدا اور معینہ وظیفہ کو حکمِ عقل اور شرع کے مطابق سمجھنے میں تمام مجتہدین سے تواناتر ہو۔
مسئلہ5: عادل وہ شخص ہے جو کام اس پر واجب ہے اس کو بجالائے اور جو کام اس پر حرام ہےاسے ترک کرے اور جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے کسی واجب کو ترک کرے یا حرام کو انجام دے عادل نہیں ہے اس امر میں صغیرہ اور کبیرہ گناہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور عدالت چند طریقے سے ثابت ہوتی ہے:
الف: خود انسان مدِّنظر شخص کی عدالت کا یقین رکھتا ہو یا یہ کہ اس کے عادل ہونے کا اطمینان رکھتا ہو اور یہ اطمینان معقول طریقوں سے حاصل ہواہو۔
ب: دو عادل شخص کسی فرد کی عدالت کی گواہی دیں۔
ج: انسان حسنِ ظاہر رکھتا ہو اس معنی میں کہ ظاہر میں ایک اچھا انسان ہو، اور اس کے گفتار و کردار و عمل میں خلافِ شرع کام مشاہدہ نہ ہو ، مثلاً اگر اس کے محلے والےپڑوسی یا افراد جو اس کے ساتھ معاشرت رکھتے ہیں اس کے بارے میں پوچھیں تو اس کی اچھائی کی تصدیق کریں اور کہیں کہ ہم نے اس سے کوئی خلافِ شریعت کام نہیں دیکھا۔
قابلِ ذکر ہے کہ عدالت کی تعریف اور اس کی شناخت کا طریقہ احکام کے مختلف حصّوں میں یہی ہے۔
مسئلہ6: کسی شخص کے مجتہد اور اعلم ہونے کو تین طریقوں سے ثابت کر سکتے ہیں:
اول: خود انسان یقین کرے مثلاً اہل علم سے ہو اور مجتھد کو پہچان سکتا ہو۔
دوّم: دو عادل شخص جو مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دو دوسرے عالم اور عادل ان کے قول کی مخالفت نہ کریں بلکہ کسی فرد کا مجتہد یا اعلم ہونا ایک اہل خبرہ و باخبر فرد کے کہنے سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
اور اگر اہل خبرہ آپس میں اختلاف کریں تو اس گروہ کی گواہی جن کی خبرویّت (دقیق معلومات) زیادہ ہے قابلِ قبول ہوگی اس طرح سے کہ یہ احتمال کہ اِس گروہ کی گواہی مطابق واقع ہو دوسرےگروہ كی بہ نسبت قوی تر ہو۔
اور یہ قوی احتمال باعث ہو کہ شک اور تردّد جو ابتدا میں دونوں گروہ کے اختلاف سے پیدا ہوتا تھا ایک طرف چلا جائے اور ایک گروہ کا قول دوسرے گروہ کی بہ نسبت عرفاً بغیر شک شمار ہو۔
سوّم: انسان کسی معقول طریقے سے کسی کے اجتہاد یا اعلمیت كی بہ نسبت اطمینان پیدا کرلے مثلاً کچھ اہل علم جو مجتہد اور اعلم کو تشخیص دے سکتے ہیں کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں۔
قابلِ ذکر ہے کہ اگر ان طریقوں میں کوئی بھی طریقہ مجتہد اعلم کو تشخیص دینے کے لیے ممکن نہ ہو تو مکلف کو چاہیے کہ اس وضاحت کے مطابق جو مسئلہ نمبر 12 میں مرجع تقلید کی وفات کے بارے میں بیان ہوگی عمل کرے۔
مسئلہ 7: وہ نظریات جو ایک مجتہد اپنی توضیح المسائل میں ذکر کرتا ہے اجمالی طور پرتین صورت رکھتے ہیں:
الف:فتویٰ
ب: احتیاط واجب یا احتیاط لازم
ج: احتیاط مستحب
اور اِس طرح کی عبارتیں جیسے (واجب رہ گئی ہے، حرام ہے، جائز ہے، جائز نہیں ہے۔ اقویٰ یہ ہے، اظہر یہ ہے، اقرب یہ ہے كہ ظاہر یہ ہے، بعید نہیں ہے) فتویٰ شمار ہوں گی مقلد کو چاہیے کہ اس کے مطابق عمل کرے اور اگر مجتہد اعلم کسی مسئلہ میں فتویٰ دے تو مقلد اس مسئلہ میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا اور (ب اور ج) کی وضاحت مسئلہ نمبر (8 اور 9) كی جائے گی۔
مسئلہ 8: اگر مجتہد اعلم (كسی شخص کا مرجع تقلید) کسی مسئلے میں فتویٰ نہ دے اور کہے کہ احتیاط یہ ہے کہ فلاں طریقے سے عمل کیا جائے، تو مقلد کو چاہیے کہ اس احتیاط پر جو احتیاط واجب ہے یا احتیاط لازم ہے عمل کرے یااس مسئلے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاَعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے بہ عنوان مثال:
الف: اگر مجتہد اعلم کہے: احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز گزار نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد ایک سورہ پڑھے تو مقلد کو چاہیے کہ یا اس احتیاط پر عمل کرلے یا کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاَعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے پس اگر دوسرا مجتہد فقط سورہٴ حمد پڑھنا کافی سمجھتا ہو تو مقلد اس مسئلے میں اس کی تقلید کرتے ہوئے سورہ کی تلاوت کو ترک کر سکتا ہے،۔
ب: اگر مجتہد اعلم کہے: احتیاط واجب کی بنا پر جس چیز پر انسان تیمم کرنا چاہتا ہے اس قدر گرد و غبار ہو کہ ہاتھ میں لگ جائے تو مقلد یا اس احتیاط پر عمل کرے اور ایسے پتھر پر جو گرد و غبار نہ رکھتا ہو تیمم کرنے سے پرہیز کرے یا کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے پس اگر دوسرا مجتہد ایسے پتھر پر تیمم صحیح سمجھتا ہو جس پر گرد و غبار نہیں ہے تو مقلد اس کی تقلید کرتے ہوئے اس پر تیمم کر سکتا ہے۔
اور اِس طرح کی عبارتیں( مثلاًیہ مسئلہ محل تامّل ہے، یا محل اشکال ہے، یا یہ عمل اشکال رکھتا ہے، یا یہ عمل اشکال سے خالی نہیں ہے) بھی احتیاط واجب کا حکم رکھتی ہیں، بہ عنوان مثال اگر مجتہد اعلم کہے : اگر کوئی شخص اپنے مکان کو اجرۃ المثل[23] سے کم پر کرائے پر دے اور عقد اجارے کے ضمن میں یہ شرط کرے کہ وہ ایک رقم کو بہ عنوان قرض اس کو دے تو یہ قرض فائدہ ہونے کا شُبہَ رکھتا ہے اور تکلیفاً محل اشکال ہے تو اس صورت میں مقلد کو چاہیے کہ مکان کرایہ پر دینے یا لینے میں اس روش کو ترک کرے یا یہ کہ کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے، پس اگراعلم فالاعلم مجتہد اس مذکورہ طریقے کو صحیح سمجھتا ہو اور اسے فائدہ نہ سمجھے تو وہ اس مذكورہ طریقے پر عمل کر سکتا ہے۔
مسئلہ 9: اگر مجتہد اعلم کسی مسئلے میں فتویٰ دینے کے بعد اسی مسئلے میں احتیاط کرے مثلاً کہے: نجس ظرف کو کر پانی سے ایک مرتبہ دھوئیں تو پاک ہو جائے گا گرچہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ دھوئیں تو مقلد اس احتیاط کو ترک کر سکتا ہے اور اس طرح کی احتیاط کو احتیاط مستحب کہتے ہیں، اور یہی حکم ہے اُس جگہ پر جہاں پہلے کسی مسئلے میں احتیاط کو ذکر کیا گیا ہو اور پھر مجتہد کا فتویٰ اس مسئلے میں بیان کیا جائے مثلاً کہے: احتیاط یہ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھا جائے گرچہ ایک مرتبہ پڑھنا کافی ہے۔ [24]
مسئلہ 10: مسائل شرعی میں مجتہد کا نظریہ اور اس کا حکم (خواہ فتویٰ ہو خواہ احتیاط واجب خواہ احتیاط مستحب) حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں:
اوّل: خود مجتہد سے سننا۔
دوّم: دو فرد عادل سے سننا جو مجتہد کے فتوے کو نقل کریں۔
سوّم: ایسے شخص سے سننا جس کی بات پر انسان اطمینان رکھتا ہو۔
چہارم: مجتہد کے رسالہٴ عملیہ یا استفتا کی کتابوں میں دیکھنا البتہ اگر انسان اس رسالہٴ عملیہ یا استفتا کے صحیح ہونے کا اطمینان رکھتا ہو۔
مسئلہ 11: جب تک انسان یقین نہ کر لے کہ مجتہد کا فتویٰ بدل گیا ہے رسالہٴ عملیہ میں لکھے ہوئے مسائل پر عمل کر سکتا ہے اور اگر احتمال دے کہ اس کافتویٰ بدل گیا ہے تو تحقیق كرناضروری نہیں ہے۔
مسئلہ 12: جس مجتہد کی انسان تقلید کر رہا ہے اگر اس کی وفات ہو جائے تو اس کی وفات کے بعد کا حکم اس کے زندہ ہونے کے حکم کی طرح ہے اس بنا پر اگر وہ مجتہد ، زندہ مجتہد سے اعلم ہو اور مقلد اجمالی طور پر جانتا ہو کہ در پیش مسائل میں و ہ دو مجتہد آپس میں اختلاف فتویٰ رکھتے ہیں اگر چہ خوداختلا فی مسئلہ کو نہ جانتا ہو تو اسے متوفی مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا ہوگا اور اگر زندہ مجتہد متوفی مجتہد سے اعلم ہو تو زندہ مجتہد كی طرف رجوع کرے گا اور اگر ان دونوں کے درمیان کسی کا اعلم ہونا معلوم نہ ہو یا برابر ہوں پس اگر ان میں کسی ایک کا زیادہ باتقویٰ ہونا دوسرے کے مقابل میں ثابت ہو اس معنی میں کہ جو امور فتویٰ دینے اور استنباط کرنے میں اپنا كردار رکھتے ہیں اس میں زیادہ احتیاط کرے اور اہل تحقیق ہو تو اس کی تقلید کرے گا، اور اگر زیادہ باتقویٰ ہونا بھی ثابت نہ ہو تو مختار ہے جس کے فتوے کے مطابق چاہے عمل کرے مگر مقاماتِ علم اجمالی [25]یا حجت اجمالی[26]جو کسی تکلیف پر قائم ہو تو مکلف کو دونوں فتوے کی رعایت کرنی ہوگی۔
مسئلہ 13: اگر کوئی شخص زندہ مجتہد کی اجازت کے بغیر متوفی مجتہد کی تقلید پر باقی رہے تو وہ اس شخص کے مانند ہے کہ جس نے بغیر تقلید کے عمل کیا ہو ایسے شخص كا وظیفہ ہے کہ میت پر بقائے تقلید کے مسئلے میں ایک زندہ جامع الشرائط مجتہد كی طرف رجوع کرے اور اس کی تقلید کرے۔
مسئلہ 14: اگر ممیز بچہ تقلید کرے تو اس کی تقلید صحیح ہے پس اگر وہ مجتہد جس کی تقلید بچہ کر رہا تھا فوت ہو جائے تو بچے کا حکم بالغ افراد کی طرح ہے جیسا کہ مسئلہ نمبر 12 میں ذکر ہوا مگر دو قول کے درمیان مقامات علم اجمالی یا حجت اجمالی میں احتیاط جو بچے پر بالغ ہونے سے پہلے واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 15: مکلف کے لیے ان مسائل کا سیکھنا واجب ہے جن کے بارے میں احتمال دے رہا ہے کہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی واجب کو ترک کرے گا یا کسی حرام کو انجام دے گا۔
مسئلہ 16: اگر انسان کے لیے کوئی مسئلہ پیش آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو ضروری ہے کہ یا احتیاط کرے یا گذشتہ ذکر شدہ شرائط کے مطابق تقلید کرے۔ لیکن اگر اس مسئلہ میں اعلم کے فتوے تک رسائی نہ ہو تو اعلم فالاعلم [27] کی رعایت کرتے ہوئے غیر اعلم کی تقلید کرے۔
مسئلہ 17: اگر کوئی شخص مجتہد کے فتوے کو کسی دوسرے کے لیے بیان کرے چنانچہ اس مجتہد کا فتویٰ بدل جائے ضروری نہیں ہے کہ اس کو باخبر کرے لیکن اگر فتوے کے بیان کرنےکے بعد معلوم ہو کہ غلط بیان کیا ہے اور اس کے بیان کرنے سے وہ شخص اپنے وظیفہٴ شرعی کے خلاف عمل کرے احتیاط كی بنا پرلازم و ضروری ہے کہ اگر ممکن ہے تو غلطی کو بر طرف کرے۔
مسئلہ 18: اگر مکلف ایک مدت تک اپنے اعمال کو تقلید کئے ہوئے بغیر بجا لاتا رہا ہے تو اس کے لیے تین حالت قابلِ فرض ہیں:
1۔ اس کے اعمال واقع یا اس مجتہد کے فتوے کے مطابق انجام پائے ہیں جو اس کا ابھی مرجع تقلید ہو سکتا ہے اور اس كے لیے ضروری ہے کہ اس کی تقلید کرے اس صورت میں اس کے گذشتہ اعمال صحیح ہیں۔
2۔ اگر اس کے اعمال واقع یا ایسے مجتہد کے فتوے کے مطابق (جسے نمبر 1 میں بیان کیا گیا ) نہ ہو تو چار صورت قابلِ فرض ہیں:
الف: اس کے عمل میں خلل ، رکن اور اس جیسی چیز میں ہو اس صورت میں عمل باطل ہے مثال کے طور پر نمازگزار نے تکبیرۃ الاحرام یا رکوع کو انجام نہ دیا ہو یا جس جگہ اس کا وظیفہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا تھا وہاں پر بیٹھ کرنما ز پڑھی ہو یا نماز کو باطل وضو ، غسل یا تیمم کے ساتھ پڑھا ہو۔
ب: عمل میں خلل ، رکن اور اس جیسی چیز میں نہ ہو اور شخص جاہلِ قاصر ہو (یعنی مسئلہ کو سیکھنے میں کوتاہی اور لا پرواہی نہ کی ہو) اس صورت میں وہ عمل صحیح ہے مثال کے طور پر نمازگزار نے حمد یا سورہ یا ذکر رکوع اور سجدے یا تشہد کو غلط پڑھا ہو۔ یا نمازگزار نے حالتِ سجدہ میں ہاتھ یا پیر کے انگوٹھے کو زمین پر نہ رکھا ہو اور اس مسئلہ کے نہ جاننے میں مقصر بھی نہ ہو۔
ج: عمل میں خلل ، رکن اور اس جیسی چیز میں نہ ہولیکن شخص جاہل مقصر ہو (یعنی مسئلہ کو سیکھنے اور نہ جاننے میں کوتاہی کی ہو) اور یہ مقام بھی ان مقامات میں سے ہے کہ جاہل مقصر کی غلطی عمل باطل ہونے کا باعث ہے اس صورت میں وہ عمل باطل ہے جیسے صورت نمبر (ب) کی مثالیں اُس نمازگزار كی نسبت سے جس نے مسئلے کو سیکھنے میں کوتاہی کی ہے اور مقصر ہے۔
د: عمل میں خلل رکن اور اس جیسی چیز میں نہ ہو لیکن شخص جاہل مقصّر ہو اور مقامِ خلل بھی ان مقامات میں سے ہو کہ اگر مسئلہ نہ جاننے میں کوتاہی بھی کی پھر بھی عمل باطل نہیں ہوتا۔ اس صورت میں وہ عمل صحیح ہے گرچہ ایسا شخص قابلِ ضرورت مسئلہ کو نہ سیکھنے کی وجہ سے گناہگار ہے مثال کے طور پر وہ مرد یا عورت جو مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز ظہر اور عصر کی حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھتا رہا ہے یا وہ مرد جو مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز مغرب اور عشا کی حمد و سورہ کو آہستہ پڑھتا رہا ہے یا وہ شخص جو مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز میں تسبیحات اربعہ کو بلند آواز سے پڑھتا رہا ہے جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے گر چہ مسئلہ سیکھنے میں کوتا ہی کی ہے اور مقصر ہے۔
3۔ اگر شخص گذشتہ اعمال کی کیفیت کو نہ جانے مثلاً اسے یاد نہ آئے کہ ابتدائے بلوغ میں اپنی نماز کو صحیح طور پر پڑھتا رہا ہے یا نہیں یا روزہ صحیح طور پر رکھا ہے یا نہیں اورمعقول احتمال دے رہا ہو کہ ان اعمال کو صحیح طور پر انجام دیا ہے۔ اس صورت میں بھی اس کے گذشتہ اعمال صحیح ہیں، بعض مقامات کے علاوہ جن کا ذکر کتاب (منہاج الصالحین) میں ہوا ہے۔
مسئلہ 19: بہت سے مستحبات جو اس رسالہٴ عملیہ میں ذکر ہوئے ہیں ان کا مستحب ہونا قاعدہ (ادلۂ سنن میں تسامح) کی بنیاد پر ہے اور کیونکہ یہ قاعدہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے اس بنا پر اگر مکلف انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ رجا اور اس امید سے کہ پسندیدہ ہے انجام دے اور بہت سے مکروہات میں بھی یہی حکم ہے کہ ان کو اِس رجا اور امید سے کہ ان کا ترک کرنا پسندیدہ ہے ترک کرے۔
لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے حق اور صحیح عقیدوں پر اعتقاد رکھتا ہو۔ (اگرچہ آگاہی اور شناخت سے نہ ہو۔) تو وہ مسلمان اور مومن ہے اور اسلام اور ایمان کے تمام احکام اس پر جاری ہوتے ہیں لیکن احکامِ دین كی بہ نسبت ضروری اور یقینی مسائل کے علاوہ۔ ہر شخص کو چاہیے یا مجتہد ہوتا کہ احکام کو دلیل سے حاصل کرسکے۔ یا مجتہد کی تقلید کرے یا احتیاط کرکے اس طرح اپنے وظیفے پر عمل کرے کہ یقین حاصل ہو جائے اپنے وظیفے کو انجام دے دیا ہے۔ مثلاً چند مجتہد کسی عمل کو حرام سمجھیں اور چند دوسرے مجتہد کہیں کہ حرام نہیں ہے تو اسے چاہیے اس کام کو انجام نہ دے اور اگر کسی عمل کو بعض واجب اور بعض دوسرے مستحب قرار دیں تو اس کو بجالائے۔ پس وہ افراد جو نہ مجتہد ہیں اور نہ احتیاط پر عمل کر سکتے ہیں ان پر واجب ہے کہ تقلید کریں۔
مسئلہ 4: احکام میں تقلید کا معنی مجتہد کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہیے جو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ ، عادل اور زندہ ہو۔ اور اگر کسی فرد کو اجمالی طور پر علم ہو کہ وہ مسائل جو اسے در پیش ہیں مجتہدین آپس میں اختلافِ نظر رکھتے ہیں گرچہ اختلاف نظر والے مسئلہ کو نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ اس مجتہد کی تقلید کرے جو اعلم ہو یعنی اس کا علم دوسرے مجتہدین سے زیادہ ہو اور حکمِ خدا اور معینہ وظیفہ کو حکمِ عقل اور شرع کے مطابق سمجھنے میں تمام مجتہدین سے تواناتر ہو۔
مسئلہ5: عادل وہ شخص ہے جو کام اس پر واجب ہے اس کو بجالائے اور جو کام اس پر حرام ہےاسے ترک کرے اور جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے کسی واجب کو ترک کرے یا حرام کو انجام دے عادل نہیں ہے اس امر میں صغیرہ اور کبیرہ گناہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور عدالت چند طریقے سے ثابت ہوتی ہے:
الف: خود انسان مدِّنظر شخص کی عدالت کا یقین رکھتا ہو یا یہ کہ اس کے عادل ہونے کا اطمینان رکھتا ہو اور یہ اطمینان معقول طریقوں سے حاصل ہواہو۔
ب: دو عادل شخص کسی فرد کی عدالت کی گواہی دیں۔
ج: انسان حسنِ ظاہر رکھتا ہو اس معنی میں کہ ظاہر میں ایک اچھا انسان ہو، اور اس کے گفتار و کردار و عمل میں خلافِ شرع کام مشاہدہ نہ ہو ، مثلاً اگر اس کے محلے والےپڑوسی یا افراد جو اس کے ساتھ معاشرت رکھتے ہیں اس کے بارے میں پوچھیں تو اس کی اچھائی کی تصدیق کریں اور کہیں کہ ہم نے اس سے کوئی خلافِ شریعت کام نہیں دیکھا۔
قابلِ ذکر ہے کہ عدالت کی تعریف اور اس کی شناخت کا طریقہ احکام کے مختلف حصّوں میں یہی ہے۔
مسئلہ6: کسی شخص کے مجتہد اور اعلم ہونے کو تین طریقوں سے ثابت کر سکتے ہیں:
اول: خود انسان یقین کرے مثلاً اہل علم سے ہو اور مجتھد کو پہچان سکتا ہو۔
دوّم: دو عادل شخص جو مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دو دوسرے عالم اور عادل ان کے قول کی مخالفت نہ کریں بلکہ کسی فرد کا مجتہد یا اعلم ہونا ایک اہل خبرہ و باخبر فرد کے کہنے سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
اور اگر اہل خبرہ آپس میں اختلاف کریں تو اس گروہ کی گواہی جن کی خبرویّت (دقیق معلومات) زیادہ ہے قابلِ قبول ہوگی اس طرح سے کہ یہ احتمال کہ اِس گروہ کی گواہی مطابق واقع ہو دوسرےگروہ كی بہ نسبت قوی تر ہو۔
اور یہ قوی احتمال باعث ہو کہ شک اور تردّد جو ابتدا میں دونوں گروہ کے اختلاف سے پیدا ہوتا تھا ایک طرف چلا جائے اور ایک گروہ کا قول دوسرے گروہ کی بہ نسبت عرفاً بغیر شک شمار ہو۔
سوّم: انسان کسی معقول طریقے سے کسی کے اجتہاد یا اعلمیت كی بہ نسبت اطمینان پیدا کرلے مثلاً کچھ اہل علم جو مجتہد اور اعلم کو تشخیص دے سکتے ہیں کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں۔
قابلِ ذکر ہے کہ اگر ان طریقوں میں کوئی بھی طریقہ مجتہد اعلم کو تشخیص دینے کے لیے ممکن نہ ہو تو مکلف کو چاہیے کہ اس وضاحت کے مطابق جو مسئلہ نمبر 12 میں مرجع تقلید کی وفات کے بارے میں بیان ہوگی عمل کرے۔
مسئلہ 7: وہ نظریات جو ایک مجتہد اپنی توضیح المسائل میں ذکر کرتا ہے اجمالی طور پرتین صورت رکھتے ہیں:
الف:فتویٰ
ب: احتیاط واجب یا احتیاط لازم
ج: احتیاط مستحب
اور اِس طرح کی عبارتیں جیسے (واجب رہ گئی ہے، حرام ہے، جائز ہے، جائز نہیں ہے۔ اقویٰ یہ ہے، اظہر یہ ہے، اقرب یہ ہے كہ ظاہر یہ ہے، بعید نہیں ہے) فتویٰ شمار ہوں گی مقلد کو چاہیے کہ اس کے مطابق عمل کرے اور اگر مجتہد اعلم کسی مسئلہ میں فتویٰ دے تو مقلد اس مسئلہ میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا اور (ب اور ج) کی وضاحت مسئلہ نمبر (8 اور 9) كی جائے گی۔
مسئلہ 8: اگر مجتہد اعلم (كسی شخص کا مرجع تقلید) کسی مسئلے میں فتویٰ نہ دے اور کہے کہ احتیاط یہ ہے کہ فلاں طریقے سے عمل کیا جائے، تو مقلد کو چاہیے کہ اس احتیاط پر جو احتیاط واجب ہے یا احتیاط لازم ہے عمل کرے یااس مسئلے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاَعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے بہ عنوان مثال:
الف: اگر مجتہد اعلم کہے: احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز گزار نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد ایک سورہ پڑھے تو مقلد کو چاہیے کہ یا اس احتیاط پر عمل کرلے یا کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاَعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے پس اگر دوسرا مجتہد فقط سورہٴ حمد پڑھنا کافی سمجھتا ہو تو مقلد اس مسئلے میں اس کی تقلید کرتے ہوئے سورہ کی تلاوت کو ترک کر سکتا ہے،۔
ب: اگر مجتہد اعلم کہے: احتیاط واجب کی بنا پر جس چیز پر انسان تیمم کرنا چاہتا ہے اس قدر گرد و غبار ہو کہ ہاتھ میں لگ جائے تو مقلد یا اس احتیاط پر عمل کرے اور ایسے پتھر پر جو گرد و غبار نہ رکھتا ہو تیمم کرنے سے پرہیز کرے یا کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے پس اگر دوسرا مجتہد ایسے پتھر پر تیمم صحیح سمجھتا ہو جس پر گرد و غبار نہیں ہے تو مقلد اس کی تقلید کرتے ہوئے اس پر تیمم کر سکتا ہے۔
اور اِس طرح کی عبارتیں( مثلاًیہ مسئلہ محل تامّل ہے، یا محل اشکال ہے، یا یہ عمل اشکال رکھتا ہے، یا یہ عمل اشکال سے خالی نہیں ہے) بھی احتیاط واجب کا حکم رکھتی ہیں، بہ عنوان مثال اگر مجتہد اعلم کہے : اگر کوئی شخص اپنے مکان کو اجرۃ المثل[23] سے کم پر کرائے پر دے اور عقد اجارے کے ضمن میں یہ شرط کرے کہ وہ ایک رقم کو بہ عنوان قرض اس کو دے تو یہ قرض فائدہ ہونے کا شُبہَ رکھتا ہے اور تکلیفاً محل اشکال ہے تو اس صورت میں مقلد کو چاہیے کہ مکان کرایہ پر دینے یا لینے میں اس روش کو ترک کرے یا یہ کہ کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر اعلم فالاعلم کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرے، پس اگراعلم فالاعلم مجتہد اس مذکورہ طریقے کو صحیح سمجھتا ہو اور اسے فائدہ نہ سمجھے تو وہ اس مذكورہ طریقے پر عمل کر سکتا ہے۔
مسئلہ 9: اگر مجتہد اعلم کسی مسئلے میں فتویٰ دینے کے بعد اسی مسئلے میں احتیاط کرے مثلاً کہے: نجس ظرف کو کر پانی سے ایک مرتبہ دھوئیں تو پاک ہو جائے گا گرچہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ دھوئیں تو مقلد اس احتیاط کو ترک کر سکتا ہے اور اس طرح کی احتیاط کو احتیاط مستحب کہتے ہیں، اور یہی حکم ہے اُس جگہ پر جہاں پہلے کسی مسئلے میں احتیاط کو ذکر کیا گیا ہو اور پھر مجتہد کا فتویٰ اس مسئلے میں بیان کیا جائے مثلاً کہے: احتیاط یہ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھا جائے گرچہ ایک مرتبہ پڑھنا کافی ہے۔ [24]
مسئلہ 10: مسائل شرعی میں مجتہد کا نظریہ اور اس کا حکم (خواہ فتویٰ ہو خواہ احتیاط واجب خواہ احتیاط مستحب) حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں:
اوّل: خود مجتہد سے سننا۔
دوّم: دو فرد عادل سے سننا جو مجتہد کے فتوے کو نقل کریں۔
سوّم: ایسے شخص سے سننا جس کی بات پر انسان اطمینان رکھتا ہو۔
چہارم: مجتہد کے رسالہٴ عملیہ یا استفتا کی کتابوں میں دیکھنا البتہ اگر انسان اس رسالہٴ عملیہ یا استفتا کے صحیح ہونے کا اطمینان رکھتا ہو۔
مسئلہ 11: جب تک انسان یقین نہ کر لے کہ مجتہد کا فتویٰ بدل گیا ہے رسالہٴ عملیہ میں لکھے ہوئے مسائل پر عمل کر سکتا ہے اور اگر احتمال دے کہ اس کافتویٰ بدل گیا ہے تو تحقیق كرناضروری نہیں ہے۔
مسئلہ 12: جس مجتہد کی انسان تقلید کر رہا ہے اگر اس کی وفات ہو جائے تو اس کی وفات کے بعد کا حکم اس کے زندہ ہونے کے حکم کی طرح ہے اس بنا پر اگر وہ مجتہد ، زندہ مجتہد سے اعلم ہو اور مقلد اجمالی طور پر جانتا ہو کہ در پیش مسائل میں و ہ دو مجتہد آپس میں اختلاف فتویٰ رکھتے ہیں اگر چہ خوداختلا فی مسئلہ کو نہ جانتا ہو تو اسے متوفی مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا ہوگا اور اگر زندہ مجتہد متوفی مجتہد سے اعلم ہو تو زندہ مجتہد كی طرف رجوع کرے گا اور اگر ان دونوں کے درمیان کسی کا اعلم ہونا معلوم نہ ہو یا برابر ہوں پس اگر ان میں کسی ایک کا زیادہ باتقویٰ ہونا دوسرے کے مقابل میں ثابت ہو اس معنی میں کہ جو امور فتویٰ دینے اور استنباط کرنے میں اپنا كردار رکھتے ہیں اس میں زیادہ احتیاط کرے اور اہل تحقیق ہو تو اس کی تقلید کرے گا، اور اگر زیادہ باتقویٰ ہونا بھی ثابت نہ ہو تو مختار ہے جس کے فتوے کے مطابق چاہے عمل کرے مگر مقاماتِ علم اجمالی [25]یا حجت اجمالی[26]جو کسی تکلیف پر قائم ہو تو مکلف کو دونوں فتوے کی رعایت کرنی ہوگی۔
مسئلہ 13: اگر کوئی شخص زندہ مجتہد کی اجازت کے بغیر متوفی مجتہد کی تقلید پر باقی رہے تو وہ اس شخص کے مانند ہے کہ جس نے بغیر تقلید کے عمل کیا ہو ایسے شخص كا وظیفہ ہے کہ میت پر بقائے تقلید کے مسئلے میں ایک زندہ جامع الشرائط مجتہد كی طرف رجوع کرے اور اس کی تقلید کرے۔
مسئلہ 14: اگر ممیز بچہ تقلید کرے تو اس کی تقلید صحیح ہے پس اگر وہ مجتہد جس کی تقلید بچہ کر رہا تھا فوت ہو جائے تو بچے کا حکم بالغ افراد کی طرح ہے جیسا کہ مسئلہ نمبر 12 میں ذکر ہوا مگر دو قول کے درمیان مقامات علم اجمالی یا حجت اجمالی میں احتیاط جو بچے پر بالغ ہونے سے پہلے واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 15: مکلف کے لیے ان مسائل کا سیکھنا واجب ہے جن کے بارے میں احتمال دے رہا ہے کہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی واجب کو ترک کرے گا یا کسی حرام کو انجام دے گا۔
مسئلہ 16: اگر انسان کے لیے کوئی مسئلہ پیش آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو ضروری ہے کہ یا احتیاط کرے یا گذشتہ ذکر شدہ شرائط کے مطابق تقلید کرے۔ لیکن اگر اس مسئلہ میں اعلم کے فتوے تک رسائی نہ ہو تو اعلم فالاعلم [27] کی رعایت کرتے ہوئے غیر اعلم کی تقلید کرے۔
مسئلہ 17: اگر کوئی شخص مجتہد کے فتوے کو کسی دوسرے کے لیے بیان کرے چنانچہ اس مجتہد کا فتویٰ بدل جائے ضروری نہیں ہے کہ اس کو باخبر کرے لیکن اگر فتوے کے بیان کرنےکے بعد معلوم ہو کہ غلط بیان کیا ہے اور اس کے بیان کرنے سے وہ شخص اپنے وظیفہٴ شرعی کے خلاف عمل کرے احتیاط كی بنا پرلازم و ضروری ہے کہ اگر ممکن ہے تو غلطی کو بر طرف کرے۔
مسئلہ 18: اگر مکلف ایک مدت تک اپنے اعمال کو تقلید کئے ہوئے بغیر بجا لاتا رہا ہے تو اس کے لیے تین حالت قابلِ فرض ہیں:
1۔ اس کے اعمال واقع یا اس مجتہد کے فتوے کے مطابق انجام پائے ہیں جو اس کا ابھی مرجع تقلید ہو سکتا ہے اور اس كے لیے ضروری ہے کہ اس کی تقلید کرے اس صورت میں اس کے گذشتہ اعمال صحیح ہیں۔
2۔ اگر اس کے اعمال واقع یا ایسے مجتہد کے فتوے کے مطابق (جسے نمبر 1 میں بیان کیا گیا ) نہ ہو تو چار صورت قابلِ فرض ہیں:
الف: اس کے عمل میں خلل ، رکن اور اس جیسی چیز میں ہو اس صورت میں عمل باطل ہے مثال کے طور پر نمازگزار نے تکبیرۃ الاحرام یا رکوع کو انجام نہ دیا ہو یا جس جگہ اس کا وظیفہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا تھا وہاں پر بیٹھ کرنما ز پڑھی ہو یا نماز کو باطل وضو ، غسل یا تیمم کے ساتھ پڑھا ہو۔
ب: عمل میں خلل ، رکن اور اس جیسی چیز میں نہ ہو اور شخص جاہلِ قاصر ہو (یعنی مسئلہ کو سیکھنے میں کوتاہی اور لا پرواہی نہ کی ہو) اس صورت میں وہ عمل صحیح ہے مثال کے طور پر نمازگزار نے حمد یا سورہ یا ذکر رکوع اور سجدے یا تشہد کو غلط پڑھا ہو۔ یا نمازگزار نے حالتِ سجدہ میں ہاتھ یا پیر کے انگوٹھے کو زمین پر نہ رکھا ہو اور اس مسئلہ کے نہ جاننے میں مقصر بھی نہ ہو۔
ج: عمل میں خلل ، رکن اور اس جیسی چیز میں نہ ہولیکن شخص جاہل مقصر ہو (یعنی مسئلہ کو سیکھنے اور نہ جاننے میں کوتاہی کی ہو) اور یہ مقام بھی ان مقامات میں سے ہے کہ جاہل مقصر کی غلطی عمل باطل ہونے کا باعث ہے اس صورت میں وہ عمل باطل ہے جیسے صورت نمبر (ب) کی مثالیں اُس نمازگزار كی نسبت سے جس نے مسئلے کو سیکھنے میں کوتاہی کی ہے اور مقصر ہے۔
د: عمل میں خلل رکن اور اس جیسی چیز میں نہ ہو لیکن شخص جاہل مقصّر ہو اور مقامِ خلل بھی ان مقامات میں سے ہو کہ اگر مسئلہ نہ جاننے میں کوتاہی بھی کی پھر بھی عمل باطل نہیں ہوتا۔ اس صورت میں وہ عمل صحیح ہے گرچہ ایسا شخص قابلِ ضرورت مسئلہ کو نہ سیکھنے کی وجہ سے گناہگار ہے مثال کے طور پر وہ مرد یا عورت جو مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز ظہر اور عصر کی حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھتا رہا ہے یا وہ مرد جو مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز مغرب اور عشا کی حمد و سورہ کو آہستہ پڑھتا رہا ہے یا وہ شخص جو مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز میں تسبیحات اربعہ کو بلند آواز سے پڑھتا رہا ہے جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے گر چہ مسئلہ سیکھنے میں کوتا ہی کی ہے اور مقصر ہے۔
3۔ اگر شخص گذشتہ اعمال کی کیفیت کو نہ جانے مثلاً اسے یاد نہ آئے کہ ابتدائے بلوغ میں اپنی نماز کو صحیح طور پر پڑھتا رہا ہے یا نہیں یا روزہ صحیح طور پر رکھا ہے یا نہیں اورمعقول احتمال دے رہا ہو کہ ان اعمال کو صحیح طور پر انجام دیا ہے۔ اس صورت میں بھی اس کے گذشتہ اعمال صحیح ہیں، بعض مقامات کے علاوہ جن کا ذکر کتاب (منہاج الصالحین) میں ہوا ہے۔
مسئلہ 19: بہت سے مستحبات جو اس رسالہٴ عملیہ میں ذکر ہوئے ہیں ان کا مستحب ہونا قاعدہ (ادلۂ سنن میں تسامح) کی بنیاد پر ہے اور کیونکہ یہ قاعدہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے اس بنا پر اگر مکلف انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ رجا اور اس امید سے کہ پسندیدہ ہے انجام دے اور بہت سے مکروہات میں بھی یہی حکم ہے کہ ان کو اِس رجا اور امید سے کہ ان کا ترک کرنا پسندیدہ ہے ترک کرے۔
[23] اجرۃ المثل، کسی بھی چیز یا کام کی متعارف اورحسب معمول اجرت کو اجرۃ المثل کہتے ہیں کہ ممکن ہے معاملے میں قرار دی جانے والی اجرت سے کم یا زیادہ یا برابر ہو۔
[24] البتہ اس رسالۂ عملیہ میں مقاماتِ احتیاط کی تشخیص کو آسان کرنے کے لیے کوشش کی گئی ہے کہ تمام مقامات جہاں احتیاط مستحب ہے کلمہٴ (مستحب) کلمہٴ (احتیاط) کے بعد ذکر کیا جائے۔
[25] یہاں پر علم اجمالی سے مراد وہ مقامات ہیں کہ جہاں پر مکلف اصل تکلیف (وظیفہ) کا یقین رکھتا ہو اور اسے معلوم ہو کہ کوئی عمل اس پر واجب ہوا ہے لیکن وہ تکلیف مشخص طور پر کون سی ہے نہیں معلوم مثال کے طور پر:فرض کریں بعض مقامات سفر میں ایک مجتہد نماز کو قصر اور دوسرا مجتہد نماز کو کامل واجب سمجھتا ہو یہاں پر شخص کو یہ معلوم ہے کہ ایک نماز اس پر واجب ہے لیکن قصر یا کامل ہونا معلوم نہ ہو تو ایسا مسئلہ مقامات علم اجمالی میں سے ہے، لیکن کبھی اصل تکلیف یقینی نہیں ہے مثلاً کسی خاص مقامات میں ایک مجتہد خمس کو واجب سمجھے اور دوسرا مجتہد واجب نہ سمجھے تو یہ مقام علم اجمالی کے مقامات میں سے نہیں ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ مقامات علم اجمالی کا حکم مختلف ہے بعض مقامات میں احتیاط لازم نہیں ہے ، دقیق مقامات سے متعلق اطلاع حاصل کرنے کے لیے کہ احتیاط لازم ہے یا نہیں فقہی خصوصی کتابوں كی طرف رجوع کریں یا اہلِ علم سے سوال کریں۔
[26] حجت اجمالی علم اجمالی کی طرح ہے اس فرق کے ساتھ کہ یہاں خود مکلف اصل تکلیف کا یقین نہیں رکھتا بلکہ ایک دوسری دلیل سے(اپنے یقین کے علاوہ) جس کی پیروی اس پر لازم ہے۔ مجتہد کا فتویٰ اس کے لیے ثابت ہو گیا ہے کہ ایک تکلیف اُس تفصیل کے ساتھ جیسا کہ علم اجمالی میں بیان ہوا۔ اس کے اوپر ثابت ہے۔
[27] اعلم فالاعلم کا معنی مسئلہ نمبر 8 کی وضاحت میں بیان کیا گیا ہے۔