فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
تقلید لازم و ضروری ہونے کی علت ←
→
پیش گفتار
فقہا (مجتھدین) کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت
علم فقہ اسلامی علوم کے مقدس ترین علم میں سے ایک ہے جو خداوند متعال کی صحیح بندگی اور اس کے صحیح طریقے کو بیان کرتا ہے یہ علم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانے میں بہت زیادہ طلاب اور قابلِ دید رونق رکھتا تھا اور پیروان دین کی اس پر خاص توجہ تھی بالخصوص امام محمد باقر اور امام صادق علیہما السلام کے زمانے میں اپنے عروج پر تھا اور بہت سے دانشور اور علما نے دین کے مختلف مسائل اور فروغ میں آپ دونوں بزرگوار کے حضور پرورش پائی ہے۔
اِس نورانیتِ علم کے زمانے میں مسائل اور احکام اسلامی اس طریقے سے قابلِ تحلیل اور تحقیق قرار پائے تھے کہ نقل ہوا ہے کہ : زرارہ بن اعین نےچالیس سال تک حج کے مسائل کو امام صادق علیہ السلام سے سیکھا پھر بھی بحث کی گنجائش باقی تھی، چنانچہ وہ خود کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ خداوند عالم مجھے آپ پر قربان کرے چالیس سال سے بھی زیادہ حج کے مسائل کے بارے میں آپ سے سوال کرتا آ رہا ہوں اور آپ ہمیشہ جواب دیتے ہیں حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ وہ مقدس چیز جو جناب آدم سے دو ہزار سال پہلے سے قابلِ توجہ تھی تم چاہتے ہو کہ اس کے مسائل چالیس سال میں بیان ہو جائیں‘‘ [13]
ائمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانے میں جو ائمہ سے احکام الہی کو بیان کرنے کے ذمہ دار تھے اور اپنے اصحاب اور خاص شاگردوں کے ذمے بھی اس ذمہ داری کو رکھا تھا فاضل، توان مند اور با فضیلت افراد جیسے زرارہ، محمد ابن مسلم، ابو بصیر، ابان ابن تغلب، مسائلِ حرام و حلال اور دین کے احکام کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے اور خود ائمہ طاہرین لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے كا حكم دیتے تھے۔
چنانچہ نقل ہوا ہے کہ شعیب عقرقوفی کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: بسا اوقات کسی معاملہ (مسئلے) میں سوال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کس سے سوال کریں؟ تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اسدی یعنی ابو بصیرکے پاس جاؤ ‘‘ [14]
نیز نقل ہوا ہے کہ عبد اللہ ابن ابی یعفور کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا : ہر وقت میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کی خدمت میں پہونچوں اور آپ سے مل سکوں اور دوسری طرف ممکن ہے شیعوں میں سے کوئی شخص کچھ چیزوں کے بارے میں مجھ سے سوال کرے اور اس کے تمام مسائل كے جواب مجھے معلوم نہ ہوں ( میرا کیا وظیفہ ہے؟) تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ کیوں محمد ابن مسلم کے پاس رجوع نہیں کرتے؟ جو کچھ بھی معلوم نہ ہو ان سے سوال کرو انھوں نے میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام سے مسائل کو سیکھا ہے اور آپ کے نزدیک آبرومند اور محترم تھے۔‘‘ [15]
نیز ایک دوسری حدیث میں علی ابن مسیّب ہمدانی کہتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام سے میں نے عرض کیا: میں ایک دور دراز جگہ رہتا ہوں اور ہر وقت آپ تک رسائی ممکن نہیں ہے کس سے اپنے دینی مسائل دریافت کروں؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’زکریا ابن آدم قمی سے جو امر دین اور دنیا میں ہمارے امین اور قابلِ اعتماد ہیں‘‘ علی ابن مسیّب کہتے ہیں جب میں اپنے شہر واپس گیا جو بھی مسئلہ پیش آتا تھا زکریا ابن آدم قمی سے سوال کرتا تھا۔ [16]
اسی طرح مروی ہے کہ عبد العزیز ابن مہتدی ناقل ہیں :امام رضا علیہ السلام سے میں نے سوال کیا: ہر وقت آپ سے ملاقات کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے پس اپنی دینی معلومات کو کس سے حاصل کروں؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ یونس ابن عبد الرحمٰن سے سیکھو‘‘ [17]
کبھی اپنے بعض اصحاب کو امر کرتے تھے کہ لوگوں کے لیے فتویٰ دیں چنانچہ حدیث میں ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے ابان سے فرمایا: ’’ إجْلِسْ فیٖ مَسْجِدِ الْمَدیٖنَةِ وَأفْتِ النّاسَ فَإنّی أُحِبُّ أنْ یُریٰ فیٖ شیٖعَتیٖ مِثْلُكَ‘‘ مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر فتویٰ دو کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ تمہاری طرح کے افراد میرے شیعوں میں پائے جائیں۔ [18]
سر انجام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا زمانہ رفتہ رفتہ گزر گیا اور امام زمانہ علیہ السلام عج کی غیبت کا زمانہ آگیا اور حلال و حرام کو بیان کرنا اور سماج کی زندگی کے نظام کو بیان اور واضح کرنے کی ذمہ داری جامع الشرائط فقہا (مجتہدین) پر آگئی اور فتویٰ اور تقلید کا موضوع ایک خاص صورت میں مجموعی طور پر رواج پا گیا۔
اِس نورانیتِ علم کے زمانے میں مسائل اور احکام اسلامی اس طریقے سے قابلِ تحلیل اور تحقیق قرار پائے تھے کہ نقل ہوا ہے کہ : زرارہ بن اعین نےچالیس سال تک حج کے مسائل کو امام صادق علیہ السلام سے سیکھا پھر بھی بحث کی گنجائش باقی تھی، چنانچہ وہ خود کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ خداوند عالم مجھے آپ پر قربان کرے چالیس سال سے بھی زیادہ حج کے مسائل کے بارے میں آپ سے سوال کرتا آ رہا ہوں اور آپ ہمیشہ جواب دیتے ہیں حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ وہ مقدس چیز جو جناب آدم سے دو ہزار سال پہلے سے قابلِ توجہ تھی تم چاہتے ہو کہ اس کے مسائل چالیس سال میں بیان ہو جائیں‘‘ [13]
ائمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانے میں جو ائمہ سے احکام الہی کو بیان کرنے کے ذمہ دار تھے اور اپنے اصحاب اور خاص شاگردوں کے ذمے بھی اس ذمہ داری کو رکھا تھا فاضل، توان مند اور با فضیلت افراد جیسے زرارہ، محمد ابن مسلم، ابو بصیر، ابان ابن تغلب، مسائلِ حرام و حلال اور دین کے احکام کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے اور خود ائمہ طاہرین لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے كا حكم دیتے تھے۔
چنانچہ نقل ہوا ہے کہ شعیب عقرقوفی کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: بسا اوقات کسی معاملہ (مسئلے) میں سوال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کس سے سوال کریں؟ تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اسدی یعنی ابو بصیرکے پاس جاؤ ‘‘ [14]
نیز نقل ہوا ہے کہ عبد اللہ ابن ابی یعفور کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا : ہر وقت میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کی خدمت میں پہونچوں اور آپ سے مل سکوں اور دوسری طرف ممکن ہے شیعوں میں سے کوئی شخص کچھ چیزوں کے بارے میں مجھ سے سوال کرے اور اس کے تمام مسائل كے جواب مجھے معلوم نہ ہوں ( میرا کیا وظیفہ ہے؟) تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ کیوں محمد ابن مسلم کے پاس رجوع نہیں کرتے؟ جو کچھ بھی معلوم نہ ہو ان سے سوال کرو انھوں نے میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام سے مسائل کو سیکھا ہے اور آپ کے نزدیک آبرومند اور محترم تھے۔‘‘ [15]
نیز ایک دوسری حدیث میں علی ابن مسیّب ہمدانی کہتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام سے میں نے عرض کیا: میں ایک دور دراز جگہ رہتا ہوں اور ہر وقت آپ تک رسائی ممکن نہیں ہے کس سے اپنے دینی مسائل دریافت کروں؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’زکریا ابن آدم قمی سے جو امر دین اور دنیا میں ہمارے امین اور قابلِ اعتماد ہیں‘‘ علی ابن مسیّب کہتے ہیں جب میں اپنے شہر واپس گیا جو بھی مسئلہ پیش آتا تھا زکریا ابن آدم قمی سے سوال کرتا تھا۔ [16]
اسی طرح مروی ہے کہ عبد العزیز ابن مہتدی ناقل ہیں :امام رضا علیہ السلام سے میں نے سوال کیا: ہر وقت آپ سے ملاقات کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے پس اپنی دینی معلومات کو کس سے حاصل کروں؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’ یونس ابن عبد الرحمٰن سے سیکھو‘‘ [17]
کبھی اپنے بعض اصحاب کو امر کرتے تھے کہ لوگوں کے لیے فتویٰ دیں چنانچہ حدیث میں ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے ابان سے فرمایا: ’’ إجْلِسْ فیٖ مَسْجِدِ الْمَدیٖنَةِ وَأفْتِ النّاسَ فَإنّی أُحِبُّ أنْ یُریٰ فیٖ شیٖعَتیٖ مِثْلُكَ‘‘ مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر فتویٰ دو کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ تمہاری طرح کے افراد میرے شیعوں میں پائے جائیں۔ [18]
سر انجام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا زمانہ رفتہ رفتہ گزر گیا اور امام زمانہ علیہ السلام عج کی غیبت کا زمانہ آگیا اور حلال و حرام کو بیان کرنا اور سماج کی زندگی کے نظام کو بیان اور واضح کرنے کی ذمہ داری جامع الشرائط فقہا (مجتہدین) پر آگئی اور فتویٰ اور تقلید کا موضوع ایک خاص صورت میں مجموعی طور پر رواج پا گیا۔
[13] وسائل الشیعہ ج11، ص12، ح12، باب وجوبہ علی کل مکلف مستطیع۔
[14] وسائل الشیعہ، ج27، ص142، ح15، ابواب صفات القاضی باب 11، وجوب الرجوع فی القضا و الفتویٰ۔
[15] وسائل الشیعہ، ج 27، ص144، ح23، ابواب صفات القاضی باب 11، وجوب الرجوع فی القضا و الفتویٰ۔
[16] وسائل الشیعہ، ج27، ص146، ح27، ابواب صفات القاضی باب 11، وجوب الرجوع فی القضا و الفتویٰ۔
[17] وسائل الشیعہ، ج 27، ص148، ح34، ابواب صفات القاضی باب 11، وجوب الرجوع فی القضا و الفتویٰ۔
[18] معجم رجال الحدیث، ج1، ص144، حرف الف مورد 28 ابان ابن تغلب۔