فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع
تلاش کریں:
فقہا (مجتھدین) کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ←
پیش گفتار
چونکہ خداوند متعال نے بندوں کے چھوٹے بڑے اقوال وافعال حرکات و سکنات کے لیے لائحۂ عمل اور حکیمانہ روش مقرر فرمائی ہے اس لیے ایک واقعی مسلمان تکالیف الہی کو انجام دینے کےلیے ہمیشہ اپنےشرعی وظائف کی شناخت اور معرفت حاصل کرنے کی سعی و کوشش میں مصروف رہتا ہے۔
’’توضیح المسائل‘‘ ایک ایسا مجموعہ ہے جو ایک حد تک مکلف کی ضرورت کو احکام شرعی کے حوالے سے برطرف کرتا ہے اور مومنین کے کتاب خانوں(گھروں) کا ثابت اور لازمی جز ہے۔
باخبر افرادکے لیے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ موجودہ عملی رسالے چند دہائی پہلے عالم تشیع کے عظیم مرجع تقلید حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی قدس سرہ کے زیر نظر تالیف پائے اور اس کے مسائل اس زمانے کی ضرورت کے مطابق منظم کئے گئے تھے اورمجتہدین کرام نے چند برسوں میں بغیر کسی زیادہ تبدیلی کے بعض جدید مسائل کو اس میں ملحق کر کے اپنے نظریے کو اسی متن میں بیان کیا ہے اور مکلفین کے دوسرے سوالات کے جوابات اپنی عربی کتابوں اور اپنے استفتاءات میں بیان کیا ہے۔
لیکن کیونکہ مدّنظر مسئلے کو پانے کے لیے عربی کی مختلف کتابوں اور استفتاءات کی تحقیق کرنا عموماً لوگوں کے لیے مشکل اور سخت تھا، یہ محکم ارادہ کیا گیا کہ ایک ایسا رسالۂ عملیہ تالیف کیا جائے کہ جس میں لوگوں کے اِس زمانے کے لحاظ سے روز مرہ کے زیادہ تر مسائل کو ایک نئے اور مناسب اندا ز میں پیش کیا جائے۔
اس جہت سے موجودہ رسالۂ عملیہ کہ جو حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی مد ظلہ کی توضیح المسائل ہے آقائے سیستانی مدظلہ کے مشہد ، قم اور نجف کے دفتر کے ماتحت منظم کیا گیا ہے جو مندرجہ ذیل صفات کا حامل ہے:
۱۔اس کتاب کا وسیع حجم جو مسائل کے تکمیل اور تصحیح کا نتیجہ ہے باعث ہوا کہ اس رسالۂ عملیہ کو دو جلد میں تدوین کیا جائے۔
۲۔ بعض روز مرہ اورقابلِ ضرورت باب جو گذشتہ رسالہ(توضیح المسائل) میں بیان نہیں کیا گیا جیسے اعتکاف، کفارات، نفقات، شفعہ وغیرہ کی بحثیں اِس رسالہ میں بیان کی گیٔ ہیں۔
۳۔ عام افراد یا خاص گروہ کے بہت سے قابلِ ضرورت مسائل کا گذشتہ مسائل میں اضافہ کیا گیا ہے۔
۴۔ بہت سےمقامات میں مطلب کو بہتر سمجھنے کے لیےمسائل کو ایک خاص درجہ بندی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۵۔ قابلِ ضرورت موضوع تک آسانی سے دست رسی حاصل کرنے کے لیے تمام بحثوں کو عنوان کے تحت اور رسالہ کے شروع میں ایک جامع فہرست کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۶۔ گذشتہ رسالۂ عملیہ میں موجود بعض مسائل کومضمون اور معنی میں تبدیلی کے بغیر مختصر تغیر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس کی بعض قدیم مثالوں کوعصر حاضر کی جدید روز مرہ مثالوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔
۷۔ بعض مقامات میں مطلب تک آسانی سے پہونچنے یا کسی موضوع ِبحث کی تکمیل کے لیے کسی مسئلے کو رسالۂ عملیہ کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل کیا گیا ہے اوریہی کوشش رہی ہے کہ تا حد امکان کسی مسئلے کو حذف نہ کیا جائے۔
۸۔ اس رسالۂ عملیہ میں جن منابع اور مصادر فقہی سے استفادہ کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
تعلیقۃ العروۃ الوثقیٰ، منہاج الصالحین، المسائل المنتخبہ، الفقہ للمغتربین، اورآقائے سیستانی مدظلہ کے آخری فقہی نظریات اور استفتاءات اور اسی طرح اس بات کا اہتمام برتا گیا ہے کہ اگر متون میں اختلاف پایا جائے تو اس مسئلے کے بارے میں استفتا کرکےان کے آخری نظریہ کو بیان کیا جائے۔
خداوند متعال سے درخواست ہےکہ ہمیں گفتار اور کردار کی لغزشوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں مکتب اہل بیت علیہم السلام کی خدمت کی توفیق اور عمل میں خلوص عنایت فرمائے۔
خاتمۂ سخن میں ان تمام اعزا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنی عالمانہ اورانتھک سعی و کوشش سے اس اہم کام کو انجام دیا، جزاہم اللہ خیر جزاء المحسنین
(خداانہیں جزائے خیر عطا فرمائے جو وہ نیک بندوں کو عطا کرتا ہے) امید ہے کہ حضرت ولی عصر علیہ السلام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خاص عنایت ان کے شامل حال ہو۔
دفتر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی، مشہد مقدس
احکام الہی کی اہمیت اور اس کے سیکھنے کا طریقہ
احکام کے سیکھنے کی اہمیت
احکام دین کا سیکھنا دین مبین اسلام کے اہم ترین واجبات میں سے ہے جو ایک خاص اہمیت کا حامل ہےیعنی مسائل کی بہ نسبت ایک صحیح فہم وادراک اور اس کے مطابق عمل کرنا انسان کی سعادت کا باعث ہے۔
جو شخص اسلام کو اپنے دین کے عنوان سے انتخاب کرتا ہے لازم ہے کہ اس کے دستورات کو مکمل طور پر زندگی کے تمام مراحل میں قبول کرے اور اپنے اعمال و کردار کو دین کے احکام کے مطابق قرار دے، اور ایسی تکلیف انجام دینے کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان احکام دین میں سے جو اس کے لئے لازم ہے اور اس کے لیے در پیش ہونے والے مسائل ہیں ان کی شناخت حاصل کرے تاکہ اسے اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنا سکے، اس بنا پر قرآن کریم اور احادیث ائمہ طاہرین علیہم السلام میں اس موضوع پر بہت تاکید کی گئی ہے، اورسبھی لوگوں کو احکام دین سیکھنے کے لیے تشویق اور رغبت بھی دلائی ہے ، اور احکام الٰہی سے آشنا نہ ہونے کے بہت سے نقصانات سے آگاہ کیا ہے:
حدیث میں نقل ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک سچے انسان سے حلال اور حرام کے بارے میں ایک حدیث سیکھنا تمہارے لیے دنیا اور اس کے مال و زر سے بہتر ہے۔ [1]
نیز مروی ہے کہ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:
میرا ایک فرزند ہے جو دوست رکھتا ہے حلال اور حرام کے مسائل آپ سے سوال کرے اور جو مطالب اہمیت نہیں رکھتے اور اس کے کام کے نہیں ہیں ان کے بارے میں سوال نہیں کرتا امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ( کیا حلال اور حرام سےبہتر کوئی سوال ہے جسے لوگ پوچھیں؟)۔[2] اور ایک دوسری حدیث میں نقل ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (خدا کے دین کے بارے میں دانا اورفقیہ (دین شناس) بنیں اور زمانۂ جاہلیت کے بددوؤں کی طرح نہ رہیں (جو خداوند متعال کے احکام اور دین کے علوم و معارف سے بے خبر تھے) پھر حضرت علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص دین خدا کے بارے میں دانا اور صاحب بصیرت نہ ہو خداوندمتعال قیامت کے دن ہرگز اس پر نظرِ لطف نہیں کرے گا اور اس کے اعمال پر پاکیزگی کی مہر نہیں لگائے گا۔ [3]
اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے مَروی ہے کہ رسول اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایسے مسلمان سے جو ہفتے میں ایک دن اپنے دین کے امور سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے (علوم ومعارف اور احکام مخصوص نہ کرے بیزار ہوں‘‘۔ [4]
ایک حدیث میں نقل ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی: میرے بیٹے دن رات اور زندگی کے اوقات میں سے ایک حصہ حصول علم کے لیے مدّنظر رکھو کیونکہ کوئی بھی چیز اپنے لیے ترکِ علم سے ضائع شدہ نہیں پاؤگے‘‘۔ [5]
نیز روایت نقل ہوئی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو شخص علم اور آگاہی کے بغیر اپنے اعمال کو انجام دے وہ اس شخص کے مانند ہے جو بیابان میں کسی سراب کی طرف جائے اس لیے جس قدر بھی تیزی سےآگے جائے گا اپنے مقصد سےاتنا دور ہوتا جائے گا‘‘۔[6]
ایک دوسرااہم نکتہ یہ ہے کہ احادیث معصومین علیہم السلام میں دین میں تفقّہ یعنی احکام اورعلوم و معارف کی نسبت سے مکمل شناخت اور بصیرت رکھنے کے موضوع پر بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے۔
مروی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: ’’خدا کے دین میں فقیہ اور دانا بنیں کیونکہ فقہ بصیرت اور شناخت کی چابھی ہے، اور عبادت کے کامل ہونے کا باعث، نیز بلند مقامات ،دینی اوردنیوی اعلیٰ مراتب تک پہونچنے کا ذریعہ ہے ایک فقیہ کی عابد پر برتری سورج کی ستاروں پر برتری کے مانند ہے اور جو شخص بھی اپنے دین میں دانا اور بصیر نہ ہو خداوند متعال کوئی عمل اس سے قبول نہیں کرے گا۔[7]نیز مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اگر دانا اور عاقل بننا چاہتے ہو تو خدا کے دین میں فقیہ ودانا بنو۔[8]
حدیث میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’خدا کی عبادت آگاہی دین اور فہمِ دین سے بڑھ کر کسی اورچیز کے ذریعے نہیں کی گئ ہے‘‘ [9]مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’جب خداوندمتعال اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو خیر اور سعادت دینا چاہتا ہے تو اسے دین میں بصیر اور بینا بنادیتا ہے‘‘[10]
نقل ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’ جب خداوندعالم کسی قوم اور گروہ کو خیر و صلاح اور کامیابی سے سرفراز کرنا چاہتا ہے تو انہیں دین کی شناخت میں بصیر اور بینا قرار دیتا ہے۔[11]
واضح ہے کہ انسان دین کے مسائل کو سیکھنے میں کوتاہی کرنے کا حق نہیں رکھتا اور پھر مسئلہ نہ جاننے کا بہانہ کرکے خداوند متعال کی طرف سے بیان شدہ وظائف سے جو ابلاغ کئے جاچکے ہیں خود کو سَبُک دوش کرے۔ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ : ’’خداوند متعال قیامت کے دن اس شخص سے جس نے اپنے وظائف پر عمل نہیں کیا ہے سوال کرے گا: کیا اپنے وظائف کو جانتا تھا؟ اگر کہے: جانتا تھا تو اس سے کہے گا: کہ پھر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر کہے: کہ نہیں جانتا تھا تو اس سے کہے گا: کیوں معلوم نہیں کیا تاکہ عمل کرو...؟‘‘ [12]
’’توضیح المسائل‘‘ ایک ایسا مجموعہ ہے جو ایک حد تک مکلف کی ضرورت کو احکام شرعی کے حوالے سے برطرف کرتا ہے اور مومنین کے کتاب خانوں(گھروں) کا ثابت اور لازمی جز ہے۔
باخبر افرادکے لیے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ موجودہ عملی رسالے چند دہائی پہلے عالم تشیع کے عظیم مرجع تقلید حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی قدس سرہ کے زیر نظر تالیف پائے اور اس کے مسائل اس زمانے کی ضرورت کے مطابق منظم کئے گئے تھے اورمجتہدین کرام نے چند برسوں میں بغیر کسی زیادہ تبدیلی کے بعض جدید مسائل کو اس میں ملحق کر کے اپنے نظریے کو اسی متن میں بیان کیا ہے اور مکلفین کے دوسرے سوالات کے جوابات اپنی عربی کتابوں اور اپنے استفتاءات میں بیان کیا ہے۔
لیکن کیونکہ مدّنظر مسئلے کو پانے کے لیے عربی کی مختلف کتابوں اور استفتاءات کی تحقیق کرنا عموماً لوگوں کے لیے مشکل اور سخت تھا، یہ محکم ارادہ کیا گیا کہ ایک ایسا رسالۂ عملیہ تالیف کیا جائے کہ جس میں لوگوں کے اِس زمانے کے لحاظ سے روز مرہ کے زیادہ تر مسائل کو ایک نئے اور مناسب اندا ز میں پیش کیا جائے۔
اس جہت سے موجودہ رسالۂ عملیہ کہ جو حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی مد ظلہ کی توضیح المسائل ہے آقائے سیستانی مدظلہ کے مشہد ، قم اور نجف کے دفتر کے ماتحت منظم کیا گیا ہے جو مندرجہ ذیل صفات کا حامل ہے:
۱۔اس کتاب کا وسیع حجم جو مسائل کے تکمیل اور تصحیح کا نتیجہ ہے باعث ہوا کہ اس رسالۂ عملیہ کو دو جلد میں تدوین کیا جائے۔
۲۔ بعض روز مرہ اورقابلِ ضرورت باب جو گذشتہ رسالہ(توضیح المسائل) میں بیان نہیں کیا گیا جیسے اعتکاف، کفارات، نفقات، شفعہ وغیرہ کی بحثیں اِس رسالہ میں بیان کی گیٔ ہیں۔
۳۔ عام افراد یا خاص گروہ کے بہت سے قابلِ ضرورت مسائل کا گذشتہ مسائل میں اضافہ کیا گیا ہے۔
۴۔ بہت سےمقامات میں مطلب کو بہتر سمجھنے کے لیےمسائل کو ایک خاص درجہ بندی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۵۔ قابلِ ضرورت موضوع تک آسانی سے دست رسی حاصل کرنے کے لیے تمام بحثوں کو عنوان کے تحت اور رسالہ کے شروع میں ایک جامع فہرست کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۶۔ گذشتہ رسالۂ عملیہ میں موجود بعض مسائل کومضمون اور معنی میں تبدیلی کے بغیر مختصر تغیر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس کی بعض قدیم مثالوں کوعصر حاضر کی جدید روز مرہ مثالوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔
۷۔ بعض مقامات میں مطلب تک آسانی سے پہونچنے یا کسی موضوع ِبحث کی تکمیل کے لیے کسی مسئلے کو رسالۂ عملیہ کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل کیا گیا ہے اوریہی کوشش رہی ہے کہ تا حد امکان کسی مسئلے کو حذف نہ کیا جائے۔
۸۔ اس رسالۂ عملیہ میں جن منابع اور مصادر فقہی سے استفادہ کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
تعلیقۃ العروۃ الوثقیٰ، منہاج الصالحین، المسائل المنتخبہ، الفقہ للمغتربین، اورآقائے سیستانی مدظلہ کے آخری فقہی نظریات اور استفتاءات اور اسی طرح اس بات کا اہتمام برتا گیا ہے کہ اگر متون میں اختلاف پایا جائے تو اس مسئلے کے بارے میں استفتا کرکےان کے آخری نظریہ کو بیان کیا جائے۔
خداوند متعال سے درخواست ہےکہ ہمیں گفتار اور کردار کی لغزشوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں مکتب اہل بیت علیہم السلام کی خدمت کی توفیق اور عمل میں خلوص عنایت فرمائے۔
خاتمۂ سخن میں ان تمام اعزا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنی عالمانہ اورانتھک سعی و کوشش سے اس اہم کام کو انجام دیا، جزاہم اللہ خیر جزاء المحسنین
(خداانہیں جزائے خیر عطا فرمائے جو وہ نیک بندوں کو عطا کرتا ہے) امید ہے کہ حضرت ولی عصر علیہ السلام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خاص عنایت ان کے شامل حال ہو۔
دفتر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی، مشہد مقدس
احکام الہی کی اہمیت اور اس کے سیکھنے کا طریقہ
احکام کے سیکھنے کی اہمیت
احکام دین کا سیکھنا دین مبین اسلام کے اہم ترین واجبات میں سے ہے جو ایک خاص اہمیت کا حامل ہےیعنی مسائل کی بہ نسبت ایک صحیح فہم وادراک اور اس کے مطابق عمل کرنا انسان کی سعادت کا باعث ہے۔
جو شخص اسلام کو اپنے دین کے عنوان سے انتخاب کرتا ہے لازم ہے کہ اس کے دستورات کو مکمل طور پر زندگی کے تمام مراحل میں قبول کرے اور اپنے اعمال و کردار کو دین کے احکام کے مطابق قرار دے، اور ایسی تکلیف انجام دینے کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان احکام دین میں سے جو اس کے لئے لازم ہے اور اس کے لیے در پیش ہونے والے مسائل ہیں ان کی شناخت حاصل کرے تاکہ اسے اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنا سکے، اس بنا پر قرآن کریم اور احادیث ائمہ طاہرین علیہم السلام میں اس موضوع پر بہت تاکید کی گئی ہے، اورسبھی لوگوں کو احکام دین سیکھنے کے لیے تشویق اور رغبت بھی دلائی ہے ، اور احکام الٰہی سے آشنا نہ ہونے کے بہت سے نقصانات سے آگاہ کیا ہے:
حدیث میں نقل ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک سچے انسان سے حلال اور حرام کے بارے میں ایک حدیث سیکھنا تمہارے لیے دنیا اور اس کے مال و زر سے بہتر ہے۔ [1]
نیز مروی ہے کہ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:
میرا ایک فرزند ہے جو دوست رکھتا ہے حلال اور حرام کے مسائل آپ سے سوال کرے اور جو مطالب اہمیت نہیں رکھتے اور اس کے کام کے نہیں ہیں ان کے بارے میں سوال نہیں کرتا امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ( کیا حلال اور حرام سےبہتر کوئی سوال ہے جسے لوگ پوچھیں؟)۔[2] اور ایک دوسری حدیث میں نقل ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (خدا کے دین کے بارے میں دانا اورفقیہ (دین شناس) بنیں اور زمانۂ جاہلیت کے بددوؤں کی طرح نہ رہیں (جو خداوند متعال کے احکام اور دین کے علوم و معارف سے بے خبر تھے) پھر حضرت علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص دین خدا کے بارے میں دانا اور صاحب بصیرت نہ ہو خداوندمتعال قیامت کے دن ہرگز اس پر نظرِ لطف نہیں کرے گا اور اس کے اعمال پر پاکیزگی کی مہر نہیں لگائے گا۔ [3]
اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے مَروی ہے کہ رسول اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایسے مسلمان سے جو ہفتے میں ایک دن اپنے دین کے امور سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے (علوم ومعارف اور احکام مخصوص نہ کرے بیزار ہوں‘‘۔ [4]
ایک حدیث میں نقل ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی: میرے بیٹے دن رات اور زندگی کے اوقات میں سے ایک حصہ حصول علم کے لیے مدّنظر رکھو کیونکہ کوئی بھی چیز اپنے لیے ترکِ علم سے ضائع شدہ نہیں پاؤگے‘‘۔ [5]
نیز روایت نقل ہوئی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو شخص علم اور آگاہی کے بغیر اپنے اعمال کو انجام دے وہ اس شخص کے مانند ہے جو بیابان میں کسی سراب کی طرف جائے اس لیے جس قدر بھی تیزی سےآگے جائے گا اپنے مقصد سےاتنا دور ہوتا جائے گا‘‘۔[6]
ایک دوسرااہم نکتہ یہ ہے کہ احادیث معصومین علیہم السلام میں دین میں تفقّہ یعنی احکام اورعلوم و معارف کی نسبت سے مکمل شناخت اور بصیرت رکھنے کے موضوع پر بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے۔
مروی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: ’’خدا کے دین میں فقیہ اور دانا بنیں کیونکہ فقہ بصیرت اور شناخت کی چابھی ہے، اور عبادت کے کامل ہونے کا باعث، نیز بلند مقامات ،دینی اوردنیوی اعلیٰ مراتب تک پہونچنے کا ذریعہ ہے ایک فقیہ کی عابد پر برتری سورج کی ستاروں پر برتری کے مانند ہے اور جو شخص بھی اپنے دین میں دانا اور بصیر نہ ہو خداوند متعال کوئی عمل اس سے قبول نہیں کرے گا۔[7]نیز مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اگر دانا اور عاقل بننا چاہتے ہو تو خدا کے دین میں فقیہ ودانا بنو۔[8]
حدیث میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’خدا کی عبادت آگاہی دین اور فہمِ دین سے بڑھ کر کسی اورچیز کے ذریعے نہیں کی گئ ہے‘‘ [9]مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’جب خداوندمتعال اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو خیر اور سعادت دینا چاہتا ہے تو اسے دین میں بصیر اور بینا بنادیتا ہے‘‘[10]
نقل ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’ جب خداوندعالم کسی قوم اور گروہ کو خیر و صلاح اور کامیابی سے سرفراز کرنا چاہتا ہے تو انہیں دین کی شناخت میں بصیر اور بینا قرار دیتا ہے۔[11]
واضح ہے کہ انسان دین کے مسائل کو سیکھنے میں کوتاہی کرنے کا حق نہیں رکھتا اور پھر مسئلہ نہ جاننے کا بہانہ کرکے خداوند متعال کی طرف سے بیان شدہ وظائف سے جو ابلاغ کئے جاچکے ہیں خود کو سَبُک دوش کرے۔ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ : ’’خداوند متعال قیامت کے دن اس شخص سے جس نے اپنے وظائف پر عمل نہیں کیا ہے سوال کرے گا: کیا اپنے وظائف کو جانتا تھا؟ اگر کہے: جانتا تھا تو اس سے کہے گا: کہ پھر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر کہے: کہ نہیں جانتا تھا تو اس سے کہے گا: کیوں معلوم نہیں کیا تاکہ عمل کرو...؟‘‘ [12]
[1] المحاسن، فصل مصابیح الظلم، باب،۱۵، ص۲۲۹، ح۱۶۶۔
[2] المحاسن، فصل مصابیح الظلم، باب،۱۵، ص۲۲۹، ح۱۶۸۔
[3] کنز الفوائد، فصل فی ذکر العلم، ص۲۴۰۔ المحاسن، فصل مصابیح الظلم، باب ۱۵، ص۲۲۸ ح۱۶۲۔
[4] المحاسن، فصل مصابیح الظلم، باب۱۳، ص۲۲۵ ح۱۴۹۔
[5] امالی الطوسی، ج۱لمجلس الثالث ص۶۶۔
[6] امالی شیخ مفید مجلس۵، ص۴۲، ح۱۱۔
[7] تحف العقول، ص ۴۱۰باب ماروی عن موسیٰ بن جعفر فی قصار ھذہ المعانی۔
[8] غررالحکم و دررالکلم، ص۴۹ فصل فی الفقہ و الفقاہۃ، ح۲۶۴۔
[9] الامالی الطوسی، ص۴۷۴(مطبوعہ قم) ح ۱۰۳۳۔
[10] اصول الکافی، ج۱، ص۳۲، ح۳ باب صفۃ العلم و فضلہ و فضل العلما ۔
[11] مستدرک الوسائل، ج۱۱، ص۱۹۰، ح۱۲ باب۶، استحباب التخلق بمکارم الاخلاق۔
[12] امالی شیخ طوسی، ج۱، مجلس اول ص۸،۹، ح۱۰، امالی شیخ مفید، مجلس۲۶، ص ۲۲۷ ،۲۲۸، ح۶۔