مرجعیت عالیقدر کی طرف سے ماہ محرم الحرام ۱۴۳۸ھ میں خطباء اور مبلغین کو کچھ نصیحتیں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
و صلی اللہ علی محمد و آله الطیبین الطاھرین
(ذَٰلِک وَمَن یعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَی الْقُلُوبِ)
ماہ محرم الحرام در پیش ہے اس مہینے کی آمد ایک عظیم تحریک کی یاد آوری کرتی ہے جو دنیا کو اصلاح کرنے والی ذات کے ذریعے جامعہ بشری کی پیشرفت، ملت کے ارادوں کو بیدار کرنے اور ان کے حالات کی بہتری کے لیے وقوع پذیر ہوا، کہ یہ نہضت اوربا برکت قیام کوئی اور نہیں بلکہ قیام حسینی تھا۔
اس با برکت قیام کی یادآوری ہم ابا عبد اللہ (علیہ السلام) کے پیروکاروں پر بہت بڑی ذمہ داری قرار دیتی ہے اور وہ ذمہ داری اس قیام کی پاسداری اور اس کی بقاء اور اس کے آثار اور نتایج کا لوگوں کے دلوں میں باقی رکھنا ہے، اور سید الشہداء ( علیہ السلام) کے تمام چاہنے والے اس ذمے داری سے بری نہیں ہیں، خواہ عالم دین ہو یا سماجی شخصیت یا مخلتف علوم تجربی اور انسانی میں مہارت رکھنے والا کوئی فرد، اس لیے ہم میں سے ہر ایک اس بابرکت قیام سے دفاع اور پاسداری کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے، اور یہ اہم کام ۔خود اہل وعیال اور رشتے داروں کی اصلاح اور سماج کو اس قیام حسینی کی اہمیت اور عظمت کے بارے میں اپنے وظایف سے آگاہ کرنے سے۔ انجام پایے گا، لیکن ایک بڑی ذمہ داری خطباء کے اوپر ہے کیوں کہ وہ تحریک اور قیام سید الشہداء ( علیہ السلام) کو لوگوں تک پہنچانے کے نمایاں چہرے ہیں۔
اس لیے ضرورت ہے کہ یہیں پر رک کر ایک سوال پیش کریں :
کیا منبر حسین زمانے کی تبدیلی اور شرایط کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے۔ کہ مقدس حسینی آثار لوگوں کے دل و جان میں قرار پایے۔ ادا کر رہا ہے؟
اس بنا پر کچھ نصیحتیں منبر حسین کے خطباء کے لیے یادآوری کرنا چاہتا ہوں:
۱۔ مختلف مطالب، کیوں کہ جامعہ روحانی، تربیتی، اور تاریخی موضوعات کی نیاز رکھتا ہے، اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ خطیب مختلف مطالب کے ایک مجموعہ کا حامل ہو تاکہ سامعین ہدایت کی بعض نیازوں کو پورا کر سکے ۔
۲۔خطیب اپنے زمانے کے تہذیبی (اجتماعی اورمبتلاء بہ ) امور سے آگاہ ہو جیسے اعتقادی شبہات جو ہرسال سامنے آتے ہیں ان کے تناسب سے اپنی (علمی) تحقیق کو قرار دے، اور جامعے کے مختلف رویوں کو جو ہر دور میں مومنین پر گذر رہے ہیں مورد تحقیق قرار دے، کیوں کہ نئی فکر اور تہذیب کے ساتھ ہمراہی کرنا باعث ہوگا کہ سماج امام حسین (علیہ السلام) کے منبر کے بنسبت، ایک بیدار، بافہم اور زیادہ تاثیر پذیر اور مأثر سماج ہو۔
۳۔ قرآن کریم کی آیت یا احادیث اور واقعات کو معتبرکتابوں سے نقل کرنے میں زیادہ دقت سے کام لیں، کیوں کہ احادیث یا واقعات کے مصادر میں دقت نہ کرنا باعث ہوگا کہ منبر حسینی کا مقام عمومی طور پر سننے والوں کے نظر میں ختم ہو جایٔے۔
۴۔ مجلسوں میں خواب اور خیالی واقعات سے مدد لینے سے پرہیز کریں، کیوں کہ یہ کام امام حسین (علیہ السلام) کے شان کو گھٹاتا ہے اور منبر کو تبلیغ کے دوسرے ابزار کی طرح بے اہمیت قرار دیتا ہے جو سننے والوں کی فکری اور تہذیبی سطح کے مناسب نہیں ہے۔
۵۔ مطالب ایک اچھی کیفیت کے ساتھ تیار کریں، خطیب کو چاہیے کہ جن مطالب کو بیان کر رہا ہے ان پر پوری طور توجہ رکھے اس طرح سے کہ موضوع کی ترتیب اوراس کے نظم کو رعایت کرے آسان اور واضح طریقے سے بیان کرے ، اور ایسی عبارات اور روش سے استفادہ کرے کے سننے والوں کے لیے اور ان افراد کے لیے جو اس کی مجلسوں پر نظر رکھتے ہیں کشش رکھتا ہو، کیوں کہ خطیب کا مجلس کی تیاری اور موضوعات کے مرتب کرنے اور اچھے انداز میں بیان کرنے کی کوشش سبب بنتی ہیکہ مجلس سید الشہداء (علیہ السلام ) کے سننے والے، پڑھنے والے کا سننےمیں ساتھ دیں۔
۶۔اہل بیت علیھم السلام کی تمام میراث گران بہا اور خوبصورت ہے لیکن خطیب کی مہارت اور اس کا ہنر اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ایسی احادیث کا انتخاب کرے جو تمام قوموں کے لیے ۔جو مختلف ادیان، اور فکری اور اجتماعی اختلاف رکھتی ہیں۔ کشش رکھتی ہو جیسا کہ معصومین (علیھم السلام) سے روایت میں ہے کہ: (إنّ الناسَ لو علِمُوا محاسِنَ کلامِنا لاتّبعُونا) ( اگر لوگ ہمارے کلام کے حسن کو جانیں تو ہماری پیروی کریں گے) ان کے کلام کا حسن ان کی میراث ہے جس میں انسان کو عظمت دینے والی چیزیں ہیں جس کی طرف مختلف ادیان اور تہذیب کے لوگ کشش پیدا کرتے ہیں۔
۷۔سماج میں موجودہ مشکلات کو اس کے مناسب راہ حل کے ساتھ بیان کرنا، پس سزوار نہیں ہے کہ خطیب گھروں کے آپسی اختلافات ، جوان نسلوں کی گذشتہ نسلوں سے دوری اور طلاق وغیرہ جیسی مشکلات کو بیان کرنے پر اکتفا کرے کیونکہ ان مطالب کے بیان کرنے پر اکتفاء کرنا بجاے یہ کہ منبر اس کے لیٔے کارساز ہو بلکہ مزید مشکل ساز بن جاتا ہے، اس لیٔے امام حسین (علیہ السلام ) کے ذاکرین سے یہ توقع ہیکہ ماہر اور تجربہ کار افراد سے جو جامعہ کے بنسبت تجربہ رکھتے ہیں اور اسی طرح سایکلوجک اور جامعہ شناسی میں مہارت رکھنے والے افراد سے مشورت کریں تاکہ جامعہ کی ہر طرح کی مشکلات کے لیے مأثر راہ حل بتایٔے اور مشکلات کو بیان کرنے کے ساتھ ایک مناسب راہ حل جو بنیادی تبدیلی اور پیشرفت کے ساتھ مجلس کو اس کی افتادہ اور نا مطلوب کیفیت سے اعتدالی، سماج کی ہدایت اور رہبری اور انکے اندر نظم ایجاد کرنے والی کیفیت میں تبدیل کرے۔
۸۔ سید الشداء (علیہ السلام) کی مجلس کی شان کے خلاف ہیکہ شیعوں کے فکری اور دین کے شعایر کے اختلافات میں پڑے، کیوں کہ ایسے اختلافات میں پڑنا سبب بنے گا کہ مجلس کا رخ ایک خاص گروہ کی طرف ہو جایے یا سماج میں بے نظمی یا مومنین میں اختلاف کا باعث ہو، جب کہ مجلس کا مقصد ایک کلمے کے پرچم کا بلند کرنا ہے، اوریہی نور حسینی کا راز ہے جس میں سید الشہداء (علیہ السلام) کے چاہنے والوں کے دل کو ایک راستے اور ایک دوسرے کی ہمدستی پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔
۹۔عبادت اور معاملاتی مسائل میں مبتلاء بہ مسائل کو اہمیت دینا، اور انہیں جذاب اور واضح طریقے سے بیان کرے تاکہ سننے والے احساس کریں کہ سید الشہداء( علیہ السلام ) کی مجلس ان کی واقعی زندگی اور اس کے مختلف حالات پر ناظر ہے۔
۱۰۔ مرجعیت دینی، حوزہ علمیہ،علماء کی موقعیت کیا نقش رکھتی ہے اس کی اہمیت پر تاکید کرے، کیوں کہ یہ موارد مذہب شیعہ کی سر بلندی اور اس کی سر فرازی کا اصل و اساس ہیں۔
خدا وند متعال سے طلب کر رہے ہیں کہ سب کو سید الشہداء (علیہ السلام )کی راہ میں خدمت کرنے کی توفیق نصیب ہو، اور امید وار ہیں خداوند متعال امام حسین(علیہ السلام) کے وسیلے سے دنیا اور آخرت میں سب کو آبرومند کرے۔
و الحمد لله رب العالمین و الصلاة علی محمد و آله الطیبین الطاهرین.
ماسسہ امام علی علیہ السلام(لندن)