مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

آقای سیستانی دام عزہ کی طرف سے جوانوں کو نصیحت


بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم  کچھ اسٹوڈینٹ اور سماج کی خدمت میں مصروف جوان ہیں ، آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ کچھ ایسی نصیحت فرمایں کہ جو آج کے زمانے کے لحاظ سے ہمارے لیے مفید واقع ہو، اور جو چیزیں  جوانوں کے لیے آپ کی نظر میں مفید ہوں وہ بھی بیان فرمایں۔

اسٹوڈینٹ اور جامعه میں مشغول خدمات افراد کا ایک گروه۔

 *****

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی محمد وآلہ الطاھرین

سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ  جوانان عزیز جو میرے لیے، خود اپنی طرح اور اپنے بچوں کی طرح اہمیت رکھتے ہیں، آپ کو آٹھ با توں کی نصیحت کرتا ہوں، یہ وہ نصیحتیں ہیں کہ جس میں دنیا وآخرت کی تمام خوبیاں چھپی ہوئی ہیں ۔

 ۱۔ خداوند متعال اور آخرت پے صحیح اعتقاد رکھنا:

 پس  ان اعتقاد حقہ پر دلایل واضح و روشن ہونے کے باوجود آپ میں سے ہرگز کوئی کوتاہی نہ کرے، اگر انسان غور کرے تو اس بات کا اعتراف کرے گا کہ اس دنیا کی ہر مخلوق بے نقص ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا بنانے والا ایک قادر مطلق ہے، اور ہمیشہ خدا وند متعال نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے اس بات کو اپنے بندوں تک پہونچایا ہے، اور ہمارے لیے واضح کیا ہے کہ یہ زندگی حقیقت میں بندوں کی آزمایش اور امتحان کے لیے بنائی گئی ہے جس میں پتا چلتا ہے کہ کون بہتر عمل بجا لانے والا ہے ، پس جس کے لیے خدا کا وجود اور آخرت پوشیدہ ہے اور اس پے ایمان نہیں رکھتا ہے، تو اس کی عاقبت اس کی نظر سے پنہان ہے اور زندگی کا راستہ اس کے لیے تاریک ہو چکا ہے، اس لیے آپ میں سے ہر ایک کا وظیفہ ہے کہ اپنے اس صحیح عقیدے کی حفاظت کرے اور اس کو اپنے لیے محبوب ترین شی سمجھے ، بلکہ کوشش کرے کہ اس کے یقین میں روز بروز اضافہ ہو یہاں تک اس کے وجود میں سما جاۓ ۔

اور اگر انسان جوانی کے ایام میں اپنے اندر دین کے مسائل میں کوئی کمزوری دیکھ رہا ہے جیسے اپنے  دینی فرائض کو انجام دینے میں سستی کر رہا ہو، اور دنیوی لذتوں کی طرف زیادہ رغبت ہو تو ہرگز اپنے رابطے کو خدا وند متعال سے ختم نہ کرے کہ  پلٹنے کا راستہ اس کےلیے دشوار ہو جاۓ گا، اور یہ بھی جان لے انسان اگر بدن میں طاقت اورعافیت ہونے کی وجہ سے اس کا دھوکا کھاۓ اور خدا وند کے دستورات کو اہمیت نہ دے اور روی گردان ہو تو ضعف اور کمزوری کے وقت خدا وند کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوگا،اس لیے جوانی کے آغاز سے ہی جو ایک محدود زمانہ ہے اپنے ضعیفی اور نا توانی کے ایام کی فکر میں ہو۔

 ہرگز ایسا نہ ہو کہ اپنے غلط کردار اور اعمال کو موجہ کرنے کے لیے دوچار لغزش ہو اور دین کہ مسائل میں شک و شبہ وارد کرے اور دوسروں کے شبہات کو قبول کرے، یا ہمیشہ خام فکروں پر اعتماد کرتے ہوۓ دھوکا کھاۓ یا دنیا کی لذات اور زرق و برق اسے فریب دے دیں ، اور اسی طرح وہ لوگ بہی اس کی لیے دین میں سستی کا باعث نہ بنیں جو دین کے نام پر اپنے دنیوی اغراض کے پیچھے ہیں، کیوں کہ حق انسانوں سے پہچانا نہیں جاتا بلکہ لوگ حق کے میزان پے تولے جاتے ہیں۔

 ۲۔ نیک اخلاق سے آراستہ ہونا:

 بیشک نیک اخلاق بہت سے فضائل اخلاقی جیسے حکمت، بردباری، مروت، تواضع، تدبیرِ، صبر، شکیبائی وغیرہ کو شامل کرتا ہے، اس لیے اسکا شمار دنیا اور آخرت کے اہم ترین اسباب سعادت میں سے ہوتا ہے، اور جس دن نامہ اعمال کا ترازو سبک ہوگا اس دن اس کے اعمال کا پلہ سب سے سنگین ہوگا جو نیک اخلاق رکھتا ہو ، اس لیے آپ میں سے ہر ایک اپنے اخلاق کو اپنے گھر والوں ، رشتہ دار ، دوست احباب اور عام افراد سے اچھا رکھے ، پس اگر اپنے نفس میں کچھ کمی دکھے تو اسے نادیدہ نہ سمجھے بلکہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور حکمت اور تدبیر سے اس کو مہار کرتے ہوۓ اپنے حقیقی مقصد کی طرف اس کو ہدایت کرے، اور اگر نفس نے طغیان کیا بھی تو نا امید نہ ہو بلکہ خود کو نیک اخلاق سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتا رہے کہ بیشک جو دوسروں کے اخلاق کی پیروی کرے ان میں سے شمار ہوگا اور خدا وند متعال کی نظر میں اچھے اخلاق سے آراستہ ہونے کی کوشش کا اجر اس شخص سے زیادہ ہے جس کے اندر ذاتی طور پے نیک اخلاق پایا جاتا ہو۔

 ۳۔ کسی بھی حلال فن اور ہنر کو سیکھنے کی لیے کوشش اور تلاش کرنا اور خود کو زحمت اور سختی میں ڈالنا:

 کیوں کہ اس میں بہت سی برکات ہیں اس لیے کہ انسان کا وقت گذرنے کا سبب  بھی ہے اور اپنے اہل و عیال کی لیے روزی کمانے کا ذریعہ بھی، اور اپنے سماج کی لیے بھی مفید واقع ہوگا، اس سے نیک کاموں کے لیے مدد حاصل کر سکتے ہیں اور ایسے تجربے جس سے فکر اور ہنر میں پختگی ہو، حاصل کریں کیوں کہ جتنی ہی زحمت سے روزی حاصل کرینگے اتنی ہی خیرو برکت زیادہ ہوگی ،جیسا کہ خداوند متعال اس انسان کو جو رزق و روزی حاصل کرنے کے لیے اپنے کو زحمت میں ڈالتا ہے، دوست رکھتا ہے اور ایسے انسان سے جو بیکار اور بے فائدہ ہو اور اپنے وقت کو بے وجہ اور خوشگذرانی میں تلف کرتا ہے بیزار ہے، پس توجہ رہے کہ آپ کی جوانی بغیر کسی کام کی مہارت حاصل کیے بغیر گذر نہ جاۓ، کیونکہ خدا وند متعال نے جوانی میں جسمی اور اندرونی طاقتوں کو قرار دیا ہے تاکہ انسان اس کے ذریعے زندگی کا سر مایا حاصل کر سکے، پس ہرگز اس کو خوش گذرانی اور بے توجہی میں ضایع نہ کریں۔

 اور آپ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کام میں مہارت حاصل کرے اور بغیر مہارت کے کہ کسی مسألہ میں نظر نہ دے اور کسی کام کو بغیر مہارت کے انجام نہ دے ، بلکہ ایسے موارد میں جہاں لازم مقدار میں مہارت نہ ہو عذرخواہی کرلے، یا ایسے شخص کی طرف جو لازم مقدار میں مہارت رکھتا ہے راہنمائی کر دے کیونکہ یہ کام اس کے لیے مفید ہے اور اس سے دوسروں کا اعتماد اس پر اور بڑھے گا ،اوراپنا کام ہمت اور حوصلے سے بہتر سے بہتر طریقے سے رغبت کے ساتھ انجام دے، اور اس کا تمام ہم وغم مال اکٹھا کرنے میں نہ و لو یہ کہ حرام طریقے سے ہی کیوں نہ ہو، چہ بسا خدا وند متعال ایسی بلا میں مبتلاء کرے کہ وہی مال مزید رنج و زحمت کے ساتھ خرچ کرنا پڑے اور کچھ حاصل بھی نہ ہو، ایسا مال اس دنیا میں انسان کو بے نیاز نہیں کرے گا اور آخرت میں وزر و وبال بن جاۓ گا۔

 آپ میں سے ہر ایک اپنے ضمیر کو خود اور دوسروں کے درمیان میزان قرار دے، پس دوسروں کے لیے اسی طرح کام کرے جس طرح خود کے لیے کرتا ہے، اور پسند کرتا ہے کہ دوسرے اسکے لیے انجام دیں ، اور دوسروں کے ساتھ نیکی کرے اسی طرح جس طرح پسند کرتا ہے کہ خدا وند سبحان اس کے ساتھ نیکی کرےاور اپنے پیشے میں اخلاقی موازین اور شایستگیوں کی رعایت کرے، پس ایسی پست روشوں کا سہارا نہ لےجس کہ بیان کرنے سے شرم کرتا ہو، اور یہ جان لے کہ کام کرنے والا اور اسپسلیسٹ، مدیر اور رجوع کرنے والوں کی طرف سے کام پرامانت دار ہے، پس  چاہیے کہ اس کا خیر خواہ ہو، اور جس مورد میں آگاہی نہیں رکھتا اس کے ساتھ خیانت کرنے سے پرہیز کرے، کیوں کہ خداوند متعال اس کے کام پر نظارت رکھتا ہے دیر یا جلدی اس کے حق کو اس سے وصول لیگا، بیشک خیانت اور دھوکا خدا وند کے نزدیک  بدتریں کام ہے، اور آثار اور عواقب بد کے لحاظ سے خطرناک ترین کاموں میں سے ہے۔

 مختلف پیشوں میں سے ڈاکٹر حضرات ان نصیحتوں پر زیادہ توجہ رکھیں، کیوں کہ ان کا سروکار لوگوں کی جان اور جسم سے ہے، پس جو موارد ذکر ہوۓ ہیں ان کے رعایت نہ کرنے پر شدت سے ڈریں، کیوں کہ عاقبت کی بربادی کا سبب بنے گا، بیشک قیامت کا دن اس کے لیے جو اسے دیکھ رہا ہو نزدیک ہے۔

 خدا وند سبحان فرماتا ہے: ( وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3) أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (4) ۔ (( وای ہو کم بیچنے والوں پر (۱) وہ لوگ جو دوسروں سے کویٔی چیز لیتے ہیں تو ترازو کو پورا کرکے لیتے ہیں (۲) وہ لوگ جو لوگوں کے لیے کویٔی چیز ناپتے یا تولتے ہیں تو کم کرتے ہیں (۳) آیا وہ لوگ گمان نہیں کرتے کہ ایک دن اٹھاۓ جایں گے(۴) )) اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے روایت ہیکہ : (إنّ الله تعالى يحبّ إذا عمل أحدكم عملاً أن يتقنه)خدا وند متعال دوست رکھتا ہے کہ تم میں سے جب کویٔی کسی کام کو انجام دے تو اس کو بہترین طریقے سے انجام دے)۔

 کالجوں کے اسٹوڈینٹ اور ٹیچر حضرات اپنی مہارت کے بارے میں ضروری ہے کہ دوسرے علمی مراکز کی جو دست آورد ہے اسے بھی اہمیت دیں، بالخصوص علم طب تاکہ ان کا علم زمانے کے علم کے ہم سطح ہو، بلکہ موظف ہیں کہ علمی اور سود مند جدید اکتشافات والے مقالوں پر رجوع کر کے اپنی سطح علمی کو آگے بڑھایں، اور جو اسباب ان کے لیے فراہم ہیں ان پر توجہ رکھتے ہوۓ دوسرے علمی مراکز سے کمپٹیشن میں رہیں اور اپنے کو اجازت نہ دیں کہ علوم کے حاصل کرنے میں صرف دوسروں کے شاگرد رہیں اور دوسروں کے بناۓ ہوۓ وسایل سے صرف استفادہ کرنے والوں مین سے ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ علم اور فن ایجاد کرنے اوراس سے فائدہ اٹھانے میں آپ بھی شریک اور کوشا ہوں،جیسا کے گذشتہ میں بھی ان کے اجداد ان کے رہبر اور آگے رہنے والے افراد میں سے تھے،اور اس امر میں کوئی بھی امت دوسری امت پر برتری نہیں رکھتی اور خاص استعداد اور نبوغ جو بعض نوجوان اور جوانوں میں پایا جاتا ہے اور انکا ہوشمند اور ذہین ہونا واضح ہے، ایسے افراد کی ہمایت کریں، گر چہ ایک غریب طبقے سے ہی کیوں نہ ہوں اور بلند اور سودمند درجہ علمی تک پہونچنے میں انکی مدد کریں، جس طرح سے اپنے بچوں کی مدد کرتے ہیں تاکہ ان کے کام کے مثل آپ کے لیے بھی اجر لکھا جاۓ اور جامعہ اور آیندہ آنے والے افراد انکے علم سے فائدہ اٹھایں۔     

۴۔ نیک اور پسندیدہ اخلاق پر پا بند رہنا اور ناپسند اخلاق و رفتار سے اجتناب کرنا:

کیوں کہ کوئی بھی نیکی اور سعادت نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی بنیاد فضیلت ہے اور کوئی برائی اور شقاوت نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا منشأ پستی ہے، مگر وہ موارد کہ جہاں پر خود خدا وند اپنے بندے کا امتحان لینا چاہتا ہو جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا : ( وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفو عن کثیر ) ۔ ((ہر وہ مصیبت جو تم پر آتی ہے خود کے اعمال کا نتیجہ ہے اور [ خدا ] بہت سے چیزوں سے گذشت کرتا ہے))

 بعض پسندیدہ صفات مندرجہ ذیل ہیں : محاسبہ نفس، ظاہر اور نگاہ و رفتارمیں پاکدامنی ، گفتار میں صداقت، صلہ رحم، امانت داری، عہد و پیمان کے بنسبت وفاداری، حق پر گامزن رہنا اور پست اور بیہودہ رفتار و کردار سے دوری کرنا ۔

بعض نا پسندیدہ  صفات مندرجہ ذیل ہیں: غلط تعصب ، غیر سنجیدہ عکس العمل، پست تفریحیں، لوگوں کے مقابل میں خود نمائی کرنا، وسعت ملنے پر اسراف ، تنگدستی میں دوسروں کا حق چھیننا، مصیبت اور بلاء کے وقت نا رضایتی کا اظہار، دوسروں سے بد رفتاری سے پیش آنا بالخصوص کمزور افراد کے بنسبت، اموال کو ضایع کرنا ، کفران نعمت ، گناہ کرنے پر اصرار کرنا، گناہ پر مدد کرنا اور جو کام انجام نہ دیا ہے اس پر تعریف ہونے کا شوق رکھنا ۔

اور لڑکیوں کو پاکدامنی کی خاص تاکید کرتا ہوں، کیوں کہ عورت اپنی لطافت کی بنیاد پر زیادہ مورد آذار و اذیت قرار پاتی ہے جس کی وجہ عفت کے حوالے سے  بے احتیاطی ہے، پس متوجہ رہیں کے بناوٹی احساسات کا دھوکھا نہ کھایں اور جلد گذر جانے والے تعلقات قائم نہ کریں جس کی لذت گذرا ہے  لیکن نا گوار اثرات باقی رہ جاتے ہیں ، پس سزاوار نہیں ہے کہ لڑکیاں جز اپنی پایدار زندگی کے علاوہ جو انکی سعادت اور خوشبختی کا باعث ہے فکر کریں ، اور کتنی با وقار ہے وہ خاتون جو رفتار اور کردار میں با حشمت ہے اور متانت کہ ساتھ اپنے زندگی کے امور اور تعلیم حاصل کرنے  میں مصروف ہے۔

 ۵۔ ‎‌شادی اور بچہ دار ہونے کے موضوع کو بغیر کسی تاخیر کے اہمیت دینا :

کیوں کہ اشتراکی زندگی انسان کے لیے باعث انس اور لذت ہے جو سبب ہے کہ انسان تلاش کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے اور با وقار اور مسٔولیت کے ساتھ  زندگی گذارے اور نیاز کے وقت اپنی خدا دادی طاقت سے فایدہ اٹھاۓ، یہ تمام چیزیں باعث ہوتی ہیں کہ انسان بہت سے نا مشروع کام سے دور رہے ، یہاں تک کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس نے شادی کی اس نے اپنے نصف دین کو محفوظ کر لیا اور تمام گذشتہ موارد میں اشتراکی زندگی کا تشکیل پانا ایک اہم سنت ہے جس کے لیے خاص سفارش کی گئی ہے، اور یہ ایک فطری غریزہ ہے کہ سرشت انسان اس پر رکھی گئی ہے، اور کوئی ایسا نہیں ہے کہ اس سنت سے خوداری کرے مگر یہ کہ مشکلات میں گرفتار ہو یا سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاۓ ، اور شادی کے مسألہ میں کوئی فقر سے نہ ڈرے کیوں کہ خدا وند متعال نے روزی کے ایک حصے کو شادی کرنے میں رکھا ہے جب کہ پہلی نظر میں انسان اس کو نظر انداز کرتا ہے ، آپ میں سے ہر ایک جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اس کے دین اخلاق حسب و نسب کی طرف توجہ رکھے اور ظاہری خوبصورتی اور اس جیسے مسائل  کو اہمیت دینے میں زیادہ روی سے پرہیز کریں، کیوں کہ یہ موارد فریب دہندہ ہیں اور زندگی کے سخت ایام میں ان چیزوں کی حقیقت سامنے آتی ہے، حدیث میں آیا ہے کہ صرف خوب صورتی کی وجہ سے کسی  لڑکی سے شادی کرنے سے پرہیز کریں ، اور یہ جان لیں کہ اگر کوئی کسی لڑکی سے اس کے دین اور اخلاق کی بنیاد پر شادی کرے خدا اس میں برکت قرار دیگا۔    

لڑکیاں اور ان کے سرپرست ہوشیار رہیں کہ کام اور پیشے کو اشتراکی زندگی تشکیل دینے پر ترجیح نہ دیں، کیوں کہ شادی زندگی کی اہم سنتوں میں سے ہے ، لیکن کام اور پیشہ مستحبات سے شباہت رکھتا ہے اور مددگار ہے، اور سنت مأکد کو ان امور کے لیے ترک کرنا حکمت سے دور ہے اور جو آغاز جوانی میں اس نکتہ سے غفلت کرے جلد ہی پشیمان ہو جاۓ گا، جب کہ اس کی پشیمانی اس کو فائدہ نہیں پہونچاۓ گی ، زندگی کا تجربہ اس مطلب پر گواہ ہے۔ 

اور لڑکیوں کے سرپرست کے لیے جایز نہیں ہے کہ ان کی شادی سے خودداری کریں ، یا آداب اور رسوم کی وجہ سے کہ جس کو خدا وند نے واجب نہیں کیا ہے شادی کے لیے رکاوٹ ایجاد کریں ، مثل مہریہ کا زیادہ قرار دینا، یا چچا زاد بھائی یا سادات کے لیے منتظر رہنا،  کیوں کہ اس کام میں بہت سے بڑے نقصانات ہیں جس سے آپ بے اطلاع ہیں ، اور یہ جان لیں خداوند متعال نے باپ یا داد کی ولایت کو لڑکیوں پر قرار نہیں دیا ہے مگر یہ کہ ان کی مصلحت اندیشی اور ان کی خوشبختی کے لیے کوشا رہیں ، اور جو بھی کسی لڑکی کی شادی میں رکاوٹ ایجاد کرے جب کہ اس لڑکی کی مصلحت نہ ہو تو مرتکب گناہ ہوا ہے، اور یہ گناہ اس وقت تک جب تک اس کے اس کام کے برے اثرات رہیں گے دوام رکھتا ہے ، اور اس کام سے جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اپنے لیے کھول دیا ہے۔  

۶۔ کار خیر اور لوگوں کو فائدہ پہونچانے کے لیے کوشش کرنا اور ایسے کام جس کا فائدہ عام افراد تک پہونچے مخصوصا وہ امور جو یتیموں، بیواؤں اور محروموں سے ارتباط رکھتے ہیں:

کیوں کہ یہ کام ایمان میں اضافہ اور تہذیب نفس کا باعث ہے اور ان نعمتوں اور نیکیوں کی زکات ہے جو انسان کو دی گیٔی ہیں، اور ان کاموں میں فضیلت کی بنیاد ڈالنا، نیک کام اور پرہیز گاری میں دوسروں کی مدد کرنا، بغیر کلام کے امر بالمعروف اور نہی از منکر بجا لانا، حفظ نظام میں مسؤلیں کی مدد کرنا، اور عمومی منفعتوں کی رعایت کرنا قرار دیا گیا ہے ، اور یہ امور جامعہ کی بہبودی اور فلاح ، اس دنیا کی برکت اور ذخیرہ آخرت کے باعث ہیں، اور خدا وند متعال ہم پیمان اور متحد  جامعہ کو دوست رکھتا ہے، ایسا جامعہ جس کے افراد اپنے بھائیوں اور ہم نوع افراد کی مشکلات کو اہمیت دیتے ہیں اور وہ خوبی جو اپنے لیے چاہتے ہیں دوسروں کے لیے بھی چاہتے ہیں۔

 خداوند متعال فرماتا ہے: ((وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ والارض)) اگر شہروں کے افراد ایمان لایں اور تقوی اختیار کریں تو ہم حتما  آسمان اور زمین کی برکتیں ان پر نازل کرینگے۔ اور فرماتا ہے : ((إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ )) ((خدا کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں))۔

پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ ) نے فرمایا: (لا يؤمن أحدكم حتّى يحبّ لأخيه ما يحبّ لنفسه ويكره لأخيه ما يكره لنفسه) ۔ ((آپ میں سے ہر ایک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اپنے برادر مومن کیلیٔے بھی پسند کرے، اور جو چیز اپنے لیٔے ناپسند کرتا ہے اپنے برادر مومن کے لیے بھی نا پسند  کرے))اور فرمایا: (من سنّ سنّہ حسنہ فله اجرها و اجر من عمل بها) ((اگر کوئی کسی نیک سنت کی بنیاد ڈالے تو اس کے کام کا اجر اورجو اس پر عمل کرے اس کا اجر بھی اس کے لیے ہے))۔

 ۷۔ وہ افراد جو دوسروں کے امور کے متولی ہیں اپنی مسؤلیت کو خواہ گھر کے مسائل ہوں یا جامعہ کے صحیح طور پے انجام دیں، پس ہر والد اپنے بچوں کی اور ہر شوہر اپنی بیوی کی سرپرستی صحیح طور  پے انجام دے، اور حکمت کو رعایت کرتے ہوۓ  فیملی اور جامعہ کی محافظت کے لیے تند رفتاری اور سنگدلی سے پرہیز کریں یہاں تک کہ ان موارد میں جہاں پر سختی سے پیش آنا ضروری ہو، کیوں کہ سختی جسمی اذیت پہونچانے یا نا زیبا الفاظ استعمال کرنے پر منحصر نہیں ہے، بلکہ دوسرے تربیتی ابزار اور طریقے بھی موجود ہیں کہ اگر کویی جستجو کرے اور اہل فن اور ماہر افراد سے مشورت کرے تو اسے معلوم ہو جاۓ گا، بلکہ تند رفتاری اکثر اوقات برعکس نتیجہ دیتی ہے، کیوں کہ وہ صفت جس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے جڑ پکڑ لیتی ہے اور سامنے والے کی شخصیت پامال ہوتی ہے، اورایسی سختی میں جو ظلم کا باعث ہو اور کسی غلطی کی اصلاح دوسری غلطی سے ہورہی ہو، خیر و برکت نہیں ہے۔

 اور جس شخص پر سماج کی کوئی ذمہ داری ہے اسے چاہیے کہ اس کو اہمیت دے اور لوگوں کا خیر خواہ ہو، اور ان وظائف کے انجام دینے میں جو لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہیں خیانت نہ کرے کہ خدا وند ان کا سرپست اور ان کے امور پر نظر رکھنے والا ہے ، اور قیامت کے دن اس سے بازخواست کرے گا، پس لوگوں کےمال کو ناجایز جگہوں پر خرچ نہ کرے، اور کوئی ایسا ڈیسیزن نہ لے جو لوگوں کی خیرخواہی کے خلاف  ہو، اور اپنی موقعیت سے سوء استفادہ کرتے ہوۓ گروہ اور پارٹی نہ بناۓ تاکہ ایک دوسرے کی غلط رویوں کو چھپایں اور غیر شرعی نفع اور شبہہ ناک اموال کا آپس میں لین دین کریں اور دوسروں کو ایسے منصب سے جس کے مستحق ہیں ہٹایں یا ایسی خدمات جس کے دریافت کرنے کے وہ لائق ہیں ان کے لیے رکاوٹ بنیں، بلکہ اس کا کام سبھی افراد کے لیے ایک طرح ہونا چاہیے اور اپنے منصب کو ذاتی حقوق کو ادا کرنے کا ذریعہ نہ بناۓ جیسے رشتے داری یا دوسروں کے احسان کا بدلہ وغیرہ کیوں کہ حقِ عام  کے ذریعے ذاتی حقوق کا ادا کرنا ظلم اور تباہی ہے، پس اگر آپ کو یہ اختیار دیا گیا ہو کہ کسی کو انتخاب کریں تو ایسے شخص کا انتخاب کریں جو قدرت اور نفوذ نہیں رکھتا ہو اور کوئی مقام اور منصب اس کی پشت پناہی نہیں کرتا ہو اور اس کا خدا وند کے علاوہ کوئی اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے نہ ہو۔

اور آپ میں سے کوئی بھی اپنے کام کو موجہ کرنے کے لیے دین یا مذہب کو وسیلہ نہ بناۓ، کیوں کہ دین اور مسالک حقہ، اصول اور مقدمات حقہ پر استوار ہیں جس میں سے عدل، احسان اور امانت داری وغیرہ ہے۔

خدا وند متعال فرماتا ہے :( لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ)۔((ہم نے اپنے پیغمبروں کو آشکار دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور انکے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدالت سے پیش آیں )) اور امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں : (إنّي سمعت رسول الله (صلّى الله عليه وآله) يقول في غير موطن: لنْ تُقَدَّسَ أُمَّةٌ لا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهَا حَقَّهُ مِنَ الْقَوِيِّ غَيْرَ مُتَعْتِعٍ)۔ ((میں نے مختلف مقام پر پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)  سے سنا کہ آپ نے فرمایا : کوییٔ بھی امت پاک اور منزہ نہیں ہو سکتی جب تک کہ کمزور اور ناتوان افراد کا حق قدرت مند لوگوں سے بغیر کسی خوف اور واہمے کے واپس نہ لیا جاۓ))، اور جو بھی اپنے کام کی بنیاد ان موارد کے علاوہ کسی اور چیز پے قرار دے در حقیقت اپنے نفس کو پوچ اور جھوٹی امیدوں کے ذریعے دھوکا دیا ہے، لوگوں میں عدالت کہ پیشوا، جیسے پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ) امام علی (علیہ السلام ) اور امام حسین شہید (علیہ السلام) سے سب زیادہ نزدیک وہ افراد ہیں جو دوسروں کے بہ نسبت زیادہ انکی باتوں اور سیرت پرعمل کرتے ہوں، اور جو شخص لوگوں کے امور کا عھدے دار ہے  اسے چاہیٔے کہ امام علی (علیہ السلام) کا نامہ۔ جو آپ نے مالک اشتر کو لکھا تھا۔ کے مطالعہ کا پابند ہو، کیوں کہ اس نامہ میں اصول اور مقدمات عدالت اور امانت داری کی توصیف کی گئی ہے، جو مسؤلین اور ان لوگوں کے لیے جن کا عہدہ چھوٹا ہے، مفید ہے اور جتنی ہی انسان کی مسؤلیت وسیع ہو اتنا ہی ان دستورات کی رعایت کرنا لازم اور ضروری ہے۔

 ۸۔ انسان کا اپنے اندر تمام مراحل زندگی اور مختلف احوال میں انگیزہ تحصیل علم، حکمت اور معرفت اضافہ  کرنے کی ہمت رکھنا:

 پس تمام کام اور خصلتوں میں اس کے آثارکے بارے میں سوچیں، اور اس کے اطراف میں جو پیش آرہا ہے اس کے نتائج کو دیکھیں، تاکہ روز بروز انسان کی معرفت، تجربہ اور کمال میں اضافہ ہوتا رہے، کیوں کہ یہ زندگی مختلف ابعاد سے انسان کیلیٔے ایک مدرسہ ہے جس کے اندر عمق پایا جاتا ہے، اور کبھی بھی انسان اپنی زندگی میں تحصیل علم ، معرفت اور مھارت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، ہر حادثہ اور روداد میں انسان کیلیے عبرت، اور ہر واقعے میں قابل تأمل پیغام اور نقطہ پایا جاتا ہے، اورجو شخص غور کرے اس کیلیٔے واضح ہوگا کہ وہ واقعہ سنت الھی میں ریشہ رکھتا ہے، اور اسکے لیے نصیحت اور موعظہ آور ہے، پس انسان اپنی زندگی میں کبھی بھی تحصیل و معرفت سے بے نیاز نہین ہے یہاں تک کہ اپنے خدا وند سے ملاقات کرے اور جتنا انسان دقت نظر رکھتا ہوگا یہ امور حقایق کی شناخت میں بہت سے تجربوں اور خطاؤں سے اس کو بے نیاز کریں گے، خدا وند متعال فرماتا ہے:( وَمَن يُؤْتَ الحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً)۔((جس کو حکمت دی گیٔی وہ خیر کثیر سے بہرہ مند ہوا)) اور اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے فرمایا: (وقل ربّ زدني علماً)۔(( کہو پروردگار میرے علم میں اضافہ کر))۔

 اور سزاوار ہے کہ انسان تین کتابوں سے مأنوس ہو اور  ان میں غور و فکر کے ذریعے توشہ حاصل کرے :

 اول ۔  قرآن کریم: ان میں پہلی اور سب سے برتر قرآن کریم ہے جو خدا وند متعال کا اپنی مخلوق کے لیے آخری پیغام ہے اور اس پیغام کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ عقل و حکمت کے خزانوں کو ظاھر کرے اور حکمت اور دانایٔی کے چشموں کو جاری کرے اور اس کے ذریعے دلوں کی قساوت کو نرم کرے اور حوادث کو  بطور مثال اس میں بیان کیا ہے، پس لازم ہے کہ انسان اس کتاب کی تلاوت سے دریغ نہ کرے اور تلاوت کے وقت اپنے کو یہ احساس دلاۓ کے خدا وند اس سے خطاب کر رہا ہے اور وہ سن رہا ہے کیوں کہ خدا وند نے اپنی کتاب کو تمام اہل جہان کے لیے پیغام کے طور پر نازل کیا ہے۔

 دوم ۔  نہج البلاغہ : یہ کتاب کلی طور پرقرآن کے مضامین اور نشانیوں کو بلیغ شیوں سے بیان کرنے والی ہے، جو انسان کو تدبیر، تفکر، موعظہ کے قبول کرنے اور حکمت کی طرف تشویق کرتی ہے، شایستہ نہیں ہیکہ انسان فراغت کے اوقات میں اسکا مطالعہ نہ کرے، اور اپنے کو یہ احساس دلاۓ کہ وہ ان افراد میں سے ہے جن کے لیے امیر المؤمنین (علیہ السلام) خطبہ پڑھتے تھے جیسا کہ اسکی آرزو یہی ہے، اور اسی طرح آپ کے نامہ کے بنسبت جو آپ نے اپنے فرزند امام حسن (علیہ السلام) کے لیے لکھا، اہتمام رکھے، کیوں کہ یہ نامہ بھی مقصد میں مشابہ ہے۔

  سوم ۔ صحیفہ سجادیہ: اس کتاب میں قرآن کے مضامیں کو بلیغ شیوں سے دعا کی شکل بیان کیا گیا ہے اور یہ کتاب انسان کو سکھاتی ہے کہ کون سے راستے، نگرانیاں، نظریے اور آرزو کا انسان انتخاب کرے، اور اسی طرح نفس کا  کس طرح محاسبہ  کریں تاکہ انتقاد پذیر ہو اس کو بھی بیان کرتی ہے، اور نفس کے پنہان زاویوں اور اس کے اسرار کو کشف کرتی ہے بالخصوص اس کتاب کی دعاۓ مکارم الاخلاق۔

       پس یہ آٹھ نصیحتیں ہیں جو  استحکام زندگی کے اصول ہیں، البتہ یہ صرف ایک یادآوری ہے، کیوں کہ نور حق، روشن حقیقیت، صفای فطرت، گواہی عقل اور زندگی کے تجربوں کو ان نصیحتوں میں دیکھ سکتا ہے، نیز خدا کے پیغام اور اہل بصیرت افراد کی نصحتوں نے بھی اس کو اس مطلب سے آگاہ کر رکھا تھا، اس بنا پر شایستہ ہے کہ ہر انسان ان نصیحتوں پر عمل کرے یا اس پر عمل کرنے کے لیے کوشا رہے، مخصوصا وہ جوانان جنکی اوج جوانی اور جسمی اور روحی طاقت کا وقت ہے، جو کہ در حقیقت انسان کی زندگی کا سرمایہ ہے، پس اگر اس سرمایے کا کچھ حصہ یا اکثر حصہ ہاتھ سے چلا جاۓ، تو یہ جان لیں کہ اس سے تھوڑا فائدہ حاصل کرنا بھی بھت سے فائدے چھوڑ دینے سے بہتر ہے کیوں کہ تھوڑا بھی حاصل کرنا تمام کے ترک کرنے سے بہتر ہے، خدا وند سبحان فرماتا ہے: (فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ، وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ) ۔ ((پس جس نے بھی ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھے گا اور اور جس نے بھی ذرہ برابر برایٔی کی ہوگی  وہ اس کو دیکھے گا))۔

خداوند متعال سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ حضرات کو ہر اس چیز کی جو دنیا اور آخرت میں سعادت اور استقامت کا باعث ہے توفیق دے،  بیشک وہی توفیق دینے والا ہے۔

۲۸ربیع‌الاول ۱۴۳۷ هجری قمری

 

العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français